تیرھواں پارہ

تیرھواں پارہ

 

اس پارے میں تین حصے ہیں:​

۱۔ سورۂ یوسف کا بقیہ حصہ

۲۔ سورۂ رعد مکمل

۳۔ سورۂ ابراہیم مکمل

 

 (۱) سورۂ یوسف کا بقیہ حصہ:

اس کی تفصیل پچھلے پارے میں مذکور ہوچکی ہے۔

البتہ ایک اہم نکتہ آیت۹۷و۹۸ میں ذکر ہوا اور وہ اللہ کی بارگاہ میں انبیاء کو وسیلہ بنانا ہے اور پھر اس کی تائید خود حضرت یعقوب کی زبانی بھی ہوئی۔

◻اس کے علاوہ خود حضرت رسول خدا(ص) اور انکی پیروی کرنے والے ہی بصیرت رکھتے ہیں۔ روایت میں آیا کہ حضور(ص) کے پیروکار کا کامل اور اتم مصداق حضرت علی(ع) ہیں اور یہ آیت خاص طور پہ حضرت علی(ع) کی شان میں ہی نازل ہوئی ہے۔

 

(۲) سورۂ رعد میں پانچ باتیں یہ ہیں:

 ۱ ۔ قرآن کی حقانیت

 ۲ ۔ توحید

 ۳ ۔ قیامت

 ۴ ۔ رسالت

 ۵ ۔ متقین کی آٹھ صفات اور اشقیاء کی تین علامات

 

۱۔ قرآن کی حقانیت:

یہ نکتہ قابل غور ہے کہ جن سورتوں کا آغاز حروف مقطعات سے ہوتا ہے ان کی ابتدا میں عام طور پر قرآن کا ذکر ہوتا ہے، ان مخالفین کو چیلنج کرنے کے لیے جو قرآن کریم کو معاذ اللہ انسانی کاوش قرار دیتے ہیں۔

 

۲۔ توحید:

آسمانوں اور زمین، سورج اور چاند، رات اور دن، پہاڑوں اور نہروں ، غلہ جات اور مختلف رنگوں، ذائقوں اور خوشبوؤں والے پھلوں کو پیدا کرنے والا وہی ہے، موت اور زندگی ، نفع اور نقصان اس اکیلے کے دست قدرت میں ہے۔ اللہ نے انسانوں کی حفاظت کے لیے فرشتے مقرر کر رکھے ہیں۔

 

۳۔ قیامت:

مشرکوں کو تو اس پر تعجب ہوتا ہے کہ مردہ ہڈیوں میں زندگی کیسے ڈالی جائے گی، جبکہ درحقیقت باعثِ تعجب بعث(آٹھنا ) بعد الموت نہیں ہے، بلکہ ان لوگوں کا تعجب سے یہ کہنا، باعث تعجب ہے۔

 

۴۔ رسالت:

آیت٧، ہر قوم کے لیے کوئی نہ کوئی رہنما اور پیغمبر بھیجا جاتا ہے.  نبی اکرم(ص) نے ارشاد فرمایا کہ 'منذر' میں ہوں اور میرے بعد 'ھادی' (ہدایت کرنے والے) علی(ع) ہیں۔

- رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ) کے اللہ کی طرف سے رسول ہونے کے گواہ "اللہ" اور وہ ہے کہ 'عندہ علم الکتاب' جس کے پاس کتاب کا علم ہے، اس کا مصداق حضور(ص) نے حضرت علی(ع) کی شخصیت بتائی۔

 

۵۔ متقین کی آٹھ صفات اور اشقیاء کی تین علامات:

 متقین کی آٹھ صفات :

 1- وفاداری

2- صلہ رحمی

3- خوف خدا

4- خوف آخرت

5- صبر

6- نماز کی پابندی

7- صدقہ

8- برائی کا بدلہ اچھائی سے

 اشقیاء کی تین علامات :

1- وعدہ خلافی

2- قطع رحمی

3-  زمین پر فساد

 

 (۳) سورۂ ابراہیم میں پانچ باتیں یہ ہیں:

۱۔ توحید

۲۔ رسالت

۳۔ قیامت

۴۔ چند اہم باتیں

۵۔ چھ دعائیں

 

۱۔ توحید:

تمام آسمانوں اور زمینوں کو "اللہ" (تبارک و تعالی) نے بنایا ہے، اسی نے آسمان سے پانی اتارا ، پھر انسانوں کے لیے زمین سے قسم قسم کے پھل نکالے اور پانی کی سواریوں اور نہروں کو انسانوں کے تابع کردیا اور سورج اور چاند اور رات اور دن کو انسانوں کے کام میں لگادیا، غرض جو کچھ انسانوں نے مانگا اللہ نے عطا کیا، اس کی نعمتیں اتنی زیادہ ہیں کہ ان کی گنتی بھی انسان کے بس کی بات نہیں۔

 

۲۔ رسالت:

اس کے ضمن میں کچھ باتیں یہ ہیں:

 ۱ ۔ نبی علیہ السلام کی تسلی کے لیے بتایا گیا ہے کہ سابقہ انبیاء کے ساتھ بھی ان کی قوموں نے اعراض و انکار اور عداوت و مخالفت کا یہی رویہ اختیار کیا تھا، جو آپ کی قوم اختیار کیے ہوئے ہے۔

 ۲ ۔ ہر نبی اپنی قوم کا ہم زبان ہوتا ہے۔

۳۔ پچھلی قوموں کے مکذبین کے کچھ شبہات کا ذکر کیا گیا ہے:

1- اللہ تعالیٰ کے وجود کے بارے میں شک

2- رسول کوئی بشر نہیں ہوسکتا

3- تقلید آباء۔

* ان شبہات کی تردید کی گئی ہے۔

 

۳۔ قیامت:

کافروں کے لیے جہنم اور مومنین کے لیے جنت کا وعدہ ہے۔

جنت کی نعمتوں اور جہنم کی ہولناکیوں کا ذکر ہے۔

روزِ قیامت حساب کتاب ہوجانے کے بعد شیطان گمراہوں سے کہے گا کہ جو وعدہ خدا نے تم سے کیا تھا وہ تو سچا تھا اور جو وعدہ میں نے تم سے کیا تھا وہ جھوٹا تھا ، میں نے تم پر زبردستی نہیں کی تھی، تم خود میرے بہکاوے میں آگئے تھے، اب مجھے ملامت کرنے کے بجائے اپنے آپ کو ملامت کرو۔

 

۴۔ چند اہم باتیں:

1- شکر سے نعمت میں اضافہ ہوتا ہے اور ناشکروں کے لیے اللہ تعالٰی کا سخت عذاب ہے۔

2-  کافروں کے اعمال کی مثال راکھ کی سی ہے کہ تیز ہوا آئے اور سب اڑا لے جائے۔

3-* حق اور ایمان کا کلمہ پاکیزہ درخت کی مانند ہے ، اس کی جڑ بڑی مضبوط اور اس کا پھل بڑا شیریں ہوتا ہے؛)

 روایتوں نے اس آیت کی تفسیر میں شجرہ طیبہ سے مراد حضرت محمد مصطفی(ص) اور اس کی شاخ حضرت علی مرتضی(ع) اور اس کا پھل امام حسن مجتبی(ع) اور امام حسین سیدالشهداء(ع) کو بیان کیا

* اور باطل اور ضلالت کا کلمہ ناپاک درخت کی مانند ہے ، اس کے لیے قرار بھی نہیں ہوتا اور وہ ہوتا بھی بے ثمر ہے۔

۴- اللہ تعالیٰ ظالموں کے کرتوتوں سے بے خبر نہیں ہے۔

5-  آیت۲۷؛ اللہ تعالی نے ایمان لانے والوں کو ان کے قول میں ثابت قدمی عنایت کی ہے۔

* پیغمبراکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ) نے فرمایا کہ اللہ تعالی اہل ایمان کو ان کے قول میں ثابت قدمی حضرت علی(ع) کے ذریعے دیتا ہے۔

 

۵- ۔چھ دعائیں:

حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اپنے رب سے چھ دعاؤں کا ذکر ہے:

 ۱- امن

۲-  بت پرستی سے حفاظت

3-  اقامتِ صلاۃ

۴-  دلوں کا میلان

5-  رزق

۶-  مغفرت کی درخواست

 

 التماس دعا

بارھواں پاره

بارھواں پاره

 

اس پارے میں دو حصے ہیں:

۱۔ سورۂ ہود مکمل (اس کی ابتدائی پانچ آیات گیارھویں پارے میں ہیں)

۲۔ سورۂ یوسف کا کچھ حصہ

 

 اس پارے میں سورہ ھود کے مطالب سے پہلے پچھلے پارے میں اس سورہ کی آیت ۳ میں اللہ کی طرف سے صاحب فضل کو فضل (فضیلت) دینے کا ذکر ہوا۔ حدیث نے بیان کیا ہے کہ وہ صاحب فضل (فضیلت) حضرت علی علیه السلام کی شخصیت ہے۔

 

 (۱) سورۂ ھود میں چار باتیں یہ ہیں:

۱۔ قرآنِ کریم کی عظمت

۲۔ توحید اور دلائل توحید

۳۔ رسالت اور اس کے اثبات کے لیے سات انبیائے کرام علیہم السلام کے واقعات

۴۔ قیامت کا تذکرہ

 

۱۔ قرآن کی عظمت:

(۱) قرآن اپنی آیات، معانی اور مضامین کے اعتبار سے محکم کتاب ہے اور اس میں کسی بھی اعتبار سے فساد اور خلل نہیں آسکتا اور نہ اس میں کوئی تعارض یا تناقض پایا جاتا ہے، اس کے محکم ہونے کی بڑی وجہ یہی ہے کہ یہ کتاب اس ذات کی طرف سے آئی ہے جو حکیم بھی ہے اور خبیر بھی ہے۔

(۲)منکرین قرآن کو چیلنج دیا گیا ہے کہ اگر واقعی قرآن انسانی کاوش ہے تو تم بھی اس جیسی دس سورتیں بناکر لے آؤ۔

 

۲۔ توحید اور دلائل توحید:

ساری مخلوق کو رزق دینے والا اللہ ہی ہے، خواہ وہ مخلوق انسان ہو یا جنات، چوپائے ہوں یا پرندے، پانی میں رہنے والی مچھلیاں ہوں یا کہ زمین پر رینگنے والے کیڑے مکوڑے، آسمان اور زمین کو اللہ(عزوجل) ہی نے پیدا کیا ہے۔

 

۳۔ رسالت اور اس کے اثبات کے لیے سات انبیائے کرام علیہم السلام کے واقعات:

(1))حضرت نوح علیہ السلام:

 ان کی قوم ایمان نہیں لائی سوائے چند، انھوں نے اللہ کے حکم سے کشتی بنائی، ایمان والے محفوظ رہے، باقی سب غرق ہوگئے۔

(۲)حضرت ہود علیہ السلام:

ان کی قوم میں سے جو ایمان لے آئے وہ کامیاب ہوئے باقی سب پر (باد صرصر کی صورت میں) اللہ کا عذاب آیا۔

(۳)حضرت صالح علیہ السلام:

 ان کی قوم کی فرمائش پر اللہ تعالیٰ نے پہاڑ سے اونٹنی نکالی، مگر قوم نے اسے مار ڈالا، ان پر بھی اللہ کا عذاب نازل ہوا۔

(4)حضرت ابراہیم علیہ السلام:

 حضرت ابراہیم علیہ السلام کی بیوی کو اللہ نے بڑھاپے کی حالت میں بیٹا اسحاق عطا فرمایا پھر ان کے بیٹے یعقوب ہوئے۔

(۵)حضرت لوط علیہ السلام:

 ان کی قوم کے لوگ بدکار تھے، عورتوں کے بجائے لڑکوں کی طرف مائل ہوتے تھے، کچھ فرشتے خوبصورت جوانوں کی شکل میں حضرت لوط علیہ السلام کے پاس آئے، ان کی قوم کے بدکار لوگ بھی وہاں پہنچ گئے، حضرت لوط علیہ السلام نے انھیں سمجھایا کہ لڑکیوں سے شادی کرلو، مگر وہ نہ مانے، ان پر اللہ کا عذاب آیا ، اس بستی کو زمین سے اٹھا کر الٹادیا گیا اور ان پر پتھروں کا عذاب نازل کیا گیا۔

(۶)حضرت شعیب علیہ السلام:

 ان کی قوم کے لوگ ناپ تول میں کمی کرتے تھے، جنھوں نے نبی کی بات مانی بچ گئے، نافرمانوں پر چیخ کا عذاب آیا۔

(۷)حضرت موسی علیہ السلام:

 فرعون نے ان کی بات نہیں مانی ، اللہ نے اسے اور اس کے ماننے والوں کو ناکام کردیا۔

 

* ان واقعات میں ایک طرف تو عقل، فہم اور سمع و بصر والوں کے لیے بے پناہ عبرتیں اور نصیحتیں ہیں،

 اور دوسری طرف حضور رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ) اور مخلص اہلِ ایمان کے لیے تسلی اور ثابت قدمی کا سامان اور سبق ہے، اسی لیے یہ واقعات بیان کرتے ہوئے آپ کو استقامت کا حکم دیا گیا ہے۔

روایت میں آیا ہے حضور نے فرمایا کہ _سورہ ھود (کے اس حکم کی وجہ سے) اور سورہ واقعہ نے مجھے بوڑھا کردیا۔ (آیت۱۱۲)

 

۴۔ قیامت کا تذکرہ:

روزِ قیامت انسانوں کی دو قسمیں ہوں گی:

(۱) بد بخت لوگ

(۲) نیک بخت لوگ

* بدبختوں کے لیے ہولناک عذاب ہوگا جب تک اللہ چاہیں گے۔(حالتِ کفر پر مرنے والے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے جہنم میں رہیں گے۔)

* نیک بختوں کے لیے اللہ نے جنت میں ہمیشہ ہمیشہ کی بے حساب نعمتیں رکھی ہیں۔

 

 - اس سورے کے مزید اہم نکات اور اہلبیت(علیهم السلام) کی فضیلت کے نکتے:

1- آیت۱۲؛ جس پیغام کو پہنچانے میں حضور پیغمبراسلام(ص) خوف محسوس کر رہے تھے کہ لوگ قبول نہیں کریں گے، وہ حضرت ختمی مرتبت(ص) کے بعد حضرت علی(ع) کے جانشین ہونے کا اعلان تھا۔

2- آیت۱۷؛ نبی کریم(ص) کے بینہ (یعنی معجزہ جو کہ قرآن ہے) اللہ کی طرف سے گواہ بھی آیا ہے، جسے حدیث نے حضرت علی(ع) کی شخصیت بتایا۔(قرآن ناطق).

3- آیت۳۱؛ انبیاء کیلئے (اللہ سے مستقل) علم غیب کی نفی۔ اس آیت کو سورہ جن کی آیت۲۶ و ۲۷ کے ساتھ دیکھنا ضروری ہے۔

4- آیت۴۶؛ قرآن کی نگاہ میں کسی کا 'اہل' ہونا نسبی رشتے داری کی بنا پر نہیں ہے۔ اسی لئے حضرت نوح(ع) کے بیٹے کو ان کے 'اہل' ہونے کا انکار کیا گیا۔

5- آیت۱۱۳؛ ظالموں پر نہ ہی تو اعتماد کیا جائے اور نہ ہی ان کے سہارے رہا جائے۔

 

(۲)  قصۂ حضرت یوسف علیہ السلام:

حضرت یعقوب علیہ السلام کے بارہ بیٹے تھے، حضرت یوسف علیہ السلام ان میں سے غیرمعمولی طور پر حَسِین تھے، ان کی سیرت اور صورت دونوں کے حسن کی وجہ سے ان کے والد حضرت یعقوب علیہ السلام ان سے بے پناہ محبت کرتے تھے۔

ایک مرتبہ حضرت یوسف علیہ السلام نے خواب دیکھا اور اپنے والدِ گرامی کو اپنا خواب سنایا کہ گیارہ ستارے اور چاند اور سورج مجھے سجدہ کر رہے ہیں، ان کے والد نے انھیں منع کیا کہ اپنا یہ خواب اپنے بھائیوں کو مت بتانا، باپ کی بیٹے سے اس محبت کی وجہ سے بھائی حسد میں مبتلا ہوگئے، وہ اپنے والد کو کھیلنے کا کہہ کر حضرت یوسف علیہ السلام کو جنگل میں لے گئے اور آپ کو کنویں میں گرادیا، وہاں سے ایک قافلہ گزرا، انھوں نے پانی نکالنے کے لیے کنویں میں ڈول ڈالا تو اس ڈول کے ذریعے سے آپ باہر آگئے، قافلے والوں نے آپکو مصر لے جاکر بیچ دیا، عزیزِ مصر نے خرید کر اپنے گھر میں رکھ لیا،

جوان ہوئے تو عزیز مصر کی بیوی زلیخا آپ پر فریفتہ ہوگئی، اس نے برائی کی دعوت دی، آپ نے اس کی دعوت ٹھکرادی، عزیزِ مصر نے بدنامی سے بچنے کے لیے آپ کو جیل میں ڈلوادیا،

قیدخانے میں بھی آپ نے دعوتِ توحید کا سلسلہ جاری رکھا، جس کی وجہ سے قیدی آپ کی عزت کرتے تھے،

بادشاہِ وقت کے خواب کی صحیح تعبیر اور تدبیر بتانے کی وجہ سے آپ اس کی نظروں میں جچ گئے، اس نے آپ کو خزانے، تجارت اور مملکت کا خود مختار وزیر بنادیا، مصر اور گردوپیش میں قحط کی وجہ سے آپ کے بھائی غلہ حاصل کرنے کے لیے مصر آئے، ایک دو ملاقاتوں کے بعد آپ نے انھیں بتایا کہ میں تمھارا بھائی یوسف ہوں، پھر آپ کے والدین بھی مصر آگئے اور سب یہیں آکر آباد ہوگئے۔

 

 بصائر و عبر از قصۂ حضرت یوسف علیہ السلام:

1- مصیبت اور سختی کے بعد راحتی ہے۔

2- حسد خوفناک بیماری ہے۔

3-  اچھے اخلاق ہر جگہ کام آتے ہیں۔

4-  پاکدامنی تمام بھلائیوں کا سرچشمہ ہے۔

5- نامحرم مرد اور عورت کا اختلاط تنہائی میں نہیں ہونا چاہیے۔

۶-  ایمان کی برکت سے مصیبت آسان ہوجاتی ہے۔

7-  معصیت پر مصیبت کو ترجیح دینی چاہیے۔

8-  داعی قید میں بھی دعوت دیتا ہے۔

9-  مواضع تہمت سے بچنا چاہیے۔

10-  جو حق پر تھا اس کی سب نے شہادت دی: اللہ تعالیٰ نے، خود حضرت یوسف علیہ السلام نے، عزیز مصر کی بیوی نے، عورتوں نے، عزیزِ مصر کے خاندان کے ایک فرد نے۔

 

 

( توجہ: اس خلاصہ تفسیر میں اہل بیت علیهم السلام کے بارے میں نقل کئے جانے والے تمام مطالب، اہلسنت کی کتب میں بھی آئے ہیں۔)

 

التماس دعا

گیارھواں پاره

گیارھواں پاره

اس پارے میں دو حصے ہیں:​

۱۔ سورۂ توبہ کا بقیہ حصہ

۲۔ سورۂ یونس مکمل

 

(۱) سورۂ توبہ کے بقیہ حصے میں تین باتیں یہ ہیں:​

۱۔ منافقین کی مذمت

۲۔ حقیقی شہدا کی نو صفات

۳۔ سابقون الاولون سے اللہ کی رضایت کا اعلان

۴۔ غزوۂ تبوک میں شرکت نہ کرنے والے تین صحابہ

۵۔ مومنوں کو 'صادقین' کے ساتھ ہوجانے کا حکم

 

۱۔ منافقین کی مذمت:

اللہ تعالیٰ نے غزوۂ تبوک میں شریک نہ ہونے کے بارے میں منافقین کے جھوٹے اعذار کی اپنے نبی کو خبر دے دی، نیز منافقین نے مسلمانوں کو تنگ کرنے کے لیے مسجد ضرار بنائی تھی، اللہ تعالیٰ نے نبی کو اس میں کھڑا ہونے سے منع فرمایا، نبی علیہ السلام کے حکم سے اس مسجد کو جلا دیا گیا اور منافقین سے منہ پھیرلینے کا حکم دے دیا گیا۔

 

۲۔ حقیقی شہدا کی نو صفات:

( ۱ )توبہ کرنے والے                                         

( ۲ )عبادت کرنے والے                                             

( ۳ )حمد کرنے والے                                                  

( ۴ )روزہ رکھنے والے                                                          

( ۵ )رکوع کرنے والے                                                                 

 ( ۶ )سجدہ کرنے والے                                                                                      

( ۷ )نیک کاموں کا حکم کرنے والے                                                                                                             

  ( ۸ )بری باتوں سے منع کرنے والے                                                                                            

  ( ۹ )اللہ کی حدود کی حفاظت کرنے والے

 

 ۳ ۔ سابقون الاولون سے اللہ کی رضایت کا اعلان

روایت میں آیا کہ سابقون اولون کا مصداق حضرت موسی (ع) کیلئے یوشع تھے اور حضرت عیسی (ع) کیلئے صاحب یاسین اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ کیلئے علی ہیں۔

 

۴۔ غزوۂ تبوک میں شرکت نہ کرنے والے تین صحابہ:

( ۱ )کعب بن مالک ( ۲ )ہلال بن امیہ ( ۳ )مرارہ بن ربیع

ان تینوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ کے حکم کے باوجود حضور کے حکم کی خلاف ورزی کی اور جنگ میں نہیں گئے۔

ان تینوں سے پچاس دن کا بائکاٹ کیا گیا، پھر ان کی توبہ کی قبولیت کا اعلان وحی کے ذریعے کیا گیا۔

 

 ۵ ۔ مومنوں کو 'صادقین' کے ساتھ ہوجانے کا حکم (آیت١١٩)

روایات میں 'صادقین' کا مصداق حضرت علی ع کو بتایا گیا۔

 

(2) سورۂ یونس میں چار باتیں یہ ہیں:​

 ۱ ۔ توحید (رازق ، مالک ، خالق اور ہر قسم کی تدبیر کرنے والا اللہ ہی ہے۔آیت:۳۱

بتوں کو شفیع قرار دینے کا نظریہ باطل ہے۔آیت۱۸)

 ۲ ۔ رسالت (اور اس کے ضمن میں حضرت نوح ، حضرت موسیٰ ، حضرت ہارون اور حضرت یونس علیہم السلام کے قصے مذکور ہیں۔

اس کے علاوہ ھدایت کرنے والے کا معیار دیا گیا اور علامہ حسکانی کہتے ہیں کہ ابن عباس نے فرمایا اس کا مصداق (اللہ اور رسول کے بعد) علی ہیں کیونکہ علی نے بغیر اسکے کہ (رسول کے علاوہ کسی اور سے) تعلیم حاصل کی ہو، صحیح فیصلے کرتے ہیں۔)

 ۳ ۔ قیامت (روز قیامت سب کو جمع کیا جائے گا۔آیت:۴ ، کفار کو اس کا یقین نہیں۔ آیت:۱۱)

 ۴ ۔ قرآن کی عظمت (یہ بڑی دانائی کی کتاب کی آیات ہیں۔ آیت:۱)

 

حضرت نوح (ع) کا قصہ:

حضرت نوح (ع) نے اپنی قوم کو دعوت دی، انھوں نے بات نہیں مانی، سوائے کچھ لوگوں کے، اللہ تعالیٰ نے ماننے والوں کو نوح علیہ السلام کی کشتی میں محفوظ رکھا اور باقی سب کو جوکہ نافرمان تھے پانی میں غرق کردیا۔

- یہاں ایک قابل غور نکتہ یہ ہے کہ حضور علیہ السلام نے بھی اپنی امت کی نجات کیلئے اپنے اہلبیت کو سفینہ قرار دیا اور اس میں سوار ہونے والوں کی نجات کی ضمانت لی۔

 

حضرت موسیٰ اور ہارون علیہما السلام کا قصہ:

حضرت موسیٰ اور ہارون علیہما السلام کو اللہ تعالیٰ نے فرعون کی طرف بھیجا، فرعون اور اس کے سرداروں نے بات نہ مانی، بلکہ فرعون نے خدائی کا دعوی کیا، حضرت موسیٰ علیہ السلام کو جادوگر بتلایا اور ان کے مقابلے میں اپنے جادوگروں کو لے آیا، جادوگر حضرت موسیٰ علیہ السلام پر ایمان لے آئے، پھر اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ اور ہارون علیہما السلام کو حکم دیا کہ اپنی قوم کے لیے مصر میں گھر اور مسجدیں بنائیں اور مسجدوں میں سب نماز ادا کریں، فرعون اور اس کے ماننے والے بنی اسرائیل کا پیچھا کرتے ہوئے سمندر میں غرق ہوگئے، بنی اسرائیل کے لیے اللہ نے سمندر میں راستے بنادیے۔

 

حضرت یونس علیہ السلام:

انھی کے نام پر اس سورت کا نام ”سورۂ یونس“ رکھا گیا ہے۔ حضرت یونس علیہ السلام کا نام قرآن میں چار جگہ(سورۂ نساء ، انعام ، یونس اور صافات میں) صراحۃً یونس آیا ہے اور دو جگہ(سورۂ یونس اور سورۂ قلم میں) اللہ نے ان کا ذکر مچھلی والا (صاحب الحوت / ذا النون) کی صفت کے ساتھ فرمایا ہے۔

حضرت یونس علیہ السلام کے واقعے کے دو رخ ہیں:

ایک ان کا مچھلی کے پیٹ میں جانا، اس کا تفصیلی ذکر سورۂ صافات میں ہے۔

دوسرا ان کی قوم کا ان کی غیر موجودگی میں توبہ استغفار کرنا، سورۂ یونس میں اس طرف اشارہ ہے۔

قصہ:

حضرت یونس علیہ السلام اپنی قوم کے ایمان سے مایوس اور اللہ کا عذاب آنے کو یقینی دیکھ کر ”نینوی“ کی سر زمین چھوڑ کر چلے گئے، آگے جانے کے لیے جب وہ کشتی میں سوار ہوئے تو سمندر میں طغیانی کی وجہ سے کشتی ڈوبنے لگی، حضرت یونس علیہ السلام نے سمندر میں چھلانگ لگادی، ایک بڑی مچھلی نے انھیں نگل لیا، اللہ نے انھیں مچھلی کے پیٹ میں بھی بالکل صحیح و سالم زندہ رکھا، چند روز بعد مچھلی نے انھیں ساحل پر اگل دیا، ادھر یہ ہوا کہ ان کی قوم کے مرد اور عورتیں، بچے اور بڑے سب صحرا میں نکل گئے اور انھوں نے آہ و زاری اور توبہ و استغفار شروع کردیا اور سچے دل سے ایمان قبول کرلیا، جس کی وجہ سے اللہ کا عذاب ان سے ٹل گیا۔

 

اس کے علاوہ سورہ یونس میں اہلبیت کی فضیلت کے چند نکتے:

- آیت۲۵؛ صراط مستقیم روایتوں نے حضرت علی کو بیان کیا۔

- آیت۵۳؛ حضور علیہ السلام کو اہل مکہ کے سوال کا جواب۔

ان کا سوال روایتوں نے ذکر کیا کہ حضرت علی کے امام ہونے کے بارے میں تھا۔

- آیت۵۸؛ اللہ کے فضل اور رحمت کا ذکر، جسے احادیث نے اللہ کا فضل یعنی حضور علیہ السلام اور اللہ کی رحمت حضرت علی کو بیان کیا۔

- آیت۶۲؛ اس آیت میں ذکر ہونے والے اولیائے الہی روایت نے حضرات علی، حمزہ، جعفر و عقیل کو کہا۔

 

 

( توجہ: اس خلاصہ میں ہلبیت کے بارے میں نقل کئے جانے والے تمام مطالب اہلسنت کی کتب میں بھی آئے ہیں اور طلب کرنے پہ مع متن فراہم کئے جا سکتے ہیں۔)

 

التماس دعا

دسواں پارہ

دسواں پارہ​

 

اس پارے میں دو حصے ہیں:

۱۔ سورۂ انفال کا بقیہ حصہ

۲۔ سورۂ توبہ کا ابتدائی حصہ

 

(۱) سورۂ انفال کے بقیہ حصے میں چھ باتیں یہ ہیں:

۱۔ خمس کا حکم

۲۔ غزوۂ بدر کے حالات

۳۔ اللہ تعالیٰ کی نصرت کے چار اسباب

۴۔ جنگ سے متعلق ہدایات

۵۔ ہجرت اور نصرے کے فضائل

۶۔ اس دنیا میں انسان کے اختیار رکھنے کی تائید

 

۱۔ خمس کا حکم:

زکوة کی طرح خمس جو کہ ایک مالی فریضہ ہے، اس کے مصارف بیان ہوئے جو نبی صلوة اللہ علیہ وآلہ اور ان کی آل (یعنی سادات)، یتیم، مسکین، مسافر اور مجاہدین ہیں۔

 

۲۔ غزوۂ بدر کے حالات:

(۱) کفار مسلمانوں کو اور مسلمان کفار کو تعداد میں کم سمجھے اور ایسا اس لیے ہوا کہ اس جنگ کا ہونا اللہ کے ہاں طے ہوچکا تھا۔

(۲) شیطان مشرکین کے سامنے ان کے اعمال کو مزین کرکے پیش کرتا رہا دوسری طرف مسلمانوں کی مدد کے لیے آسمان سے فرشتے نازل ہوئے۔

(۳) کفار غزوۂ بدر میں ذلیل و خوار ہوئے۔

 

۳۔ اللہ تعالیٰ کی نصرت کے چار اسباب:

(۱) میدان جنگ میں ثابت قدمی۔

(۲) اللہ تعالیٰ کا ذکر کثرت سے۔

(۳) اختلاف اور لڑائی سے بچ کر رہنا۔

(۴) مقابلے میں نا موافق امور پر صبر۔

 

۴۔ دشمن سے مقابلے کیلئے ہدایات:

دشمن سے مقابلے کیلئے آیت۴۵-۴۷ میں سات ہدایات دی گئیں۔

 

۵۔ ہجرت اور نصرت کے فضائل:

(۱) مہاجرین و انصار سچے مومنین ہیں (۲) گناہوں کی مغفرت (۳) رزق کریم کا وعدہ

- اس کے علاوہ آیت۶۲ میں رسول اللہ کی تائید و نصرت کا ذریعہ اور آیت۶۴ میں حضور کے تابع کا ذکر کیا جس کو احادیث نے حضرت علی کی ہی شخصیت کو بیان کیا ہے۔

 -آیت۷۵ میں بعض رشتے داروں برتر ہونے کا ذکر کیا، یہ حکم مھاجرین و انصار کا ایکدوسرے کا بھائی بننے کے موقع پہ جب آقا علیہ السلام نے حضرت علی کو اپنا بھائی بنایا اس وقت نازل ہوا۔

 

۶۔ یہ دنیا مکمل جبر و ظلم کے نظام پہ نہیں چل رہی بلکہ انسان خود اپنے اعمال سے نعمتوں کو کھو دیتا ہے۔ (آیت۵۳)

 

(۲) سورۂ توبہ کا جو ابتدائی حصہ اس پارے میں ہے اس میں دو باتیں یہ ہیں:

 

۱۔ مشرکین اور اہل کتاب کے ساتھ جہاد

اس سورہ کے مشرکین سے اعلان برائت کی آیات کا ابلاغ حضور نے اپنے بھیجے قاصد کے بجائے حضرت علی کے ذریعے کروایا۔

مشرکین سے جو معاہدے ہوئے تھے ان سے براءت کا اعلان ہے، مشرکین کو حج بیت اللہ تعالیٰ سے منع کردیا گیا، اہل کتاب کے ساتھ قتال کی اجازت دی گئی۔

البتہ سوائے حرام مہینوں کے جو کہ رجب، ذیقعدہ، ذی الحجہ اور محرم ہیں۔

 

۲۔ مسلمانوں اور منافقوں کے درمیان امتیاز

منافقوں اور مسلمانوں میں امتیاز کرنے والی بنیادی چیز غزوۂ تبوک بنی، رومیوں کے ساتھ مقابلہ جو وقت کے سپر پاور تھے اور شدید گرمی اور فقر و فاقہ کے موقع پر پھل پکے ہوئے تھے، مسلمان سوائے چند کے سب چلے گئے، جبکہ منافقین نے بہانے تراشنے شروع کردیے، پارے کے آخر تک منافقین کی مذمت ہے، یہاں تک فرمادیا کہ اے پیغمبر! آپ ان کے لیے ستر بار بھی استغفار کریں تو بھی اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت نہیں کرے گا اور اگر ان میں کسی کا انتقال ہوجائے تو آپ اس کی نماز جنازہ بھی نہ پڑھیے گا، پھر ان مسلمانوں کا بھی ذکر ہے جو کسی عذر کی وجہ سے اس غزوے میں نہ جاسکے۔

 

اس کے علاوہ چند اہم نکات اس سورہ کے اس پارے میں ذکر ہوئے ہیں اور اہلبیت کی فضیلتیں:

- جسطرح سے ہدایت کی طرف بلانے والے امام ہیں، اسی طرح سے ائمہ کفر بھی ہیں اور حضرت علی کے دور خلافت میں ان سے جنگ کرنے والے مسلمانوں کے گروہ 'ناکثین' کا ذکر (آیت۱۲)

- مشرکوں کو مسجد آباد کرنے کا حق نہیں ہے۔(۱۷)

- مسجد کو آباد کرنے کی اہمیت (۱۸)

- مومنین کہ جن کا مصداق احادیث نے حضرات علی و عباس کو بیان کیا، کیلئے سکینہ (قلبی سکون) کا نزول (۲۶)

- حاجیوں کے ساقی ہونے اور مسجد کو آباد کرنے سے زیادہ فضیلت جہاد فی سبیل اللہ کی ہے اور یہ فضیلت حضرت علی کو حاصل ہے۔ اس آیت کا شان نزول بھی حضرت علی کی اس فضیلت کا بیان ہے۔

- اسلام کے پوری دنیا میں مکمل غلبہ پانے کی نوید جو کہ امام مہدی (ع) کے آنے میں متحقق ہوگی۔(۳۳)

- مصارف زکوة کا بیان (۶۰)

 

 

 

( توجہ: اس خلاصہ میں اہلبیت کے بارے میں نقل کئے جانے والے تمام مطالب اہلسنت کی کتب میں بھی آئے ہیں اور طلب کرنے پہ مع متن فراہم کئے جا سکتے ہیں۔)

 

التماس دعا

نواں پاره                                                      

نواں پاره                                                     

  اس پارے میں دو حصے ہیں:​

۱۔ سورۂ اعراف کا بقیہ حصہ

۲۔ سورۂ انفال کا ابتدائی حصہ

 

 (۱) سورۂ اعراف کے بقیہ حصے میں چھ باتیں یہ ہیں:​

 

۱۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کا تفصیلی قصہ

۲۔ عہد الست کا ذکر

۳۔ بلعم بن باعوراء کا قصہ

۴۔ تمام کفار چوپائے کی طرح ہیں

۵۔ قیامت کا علم کسی کو نہیں

۶۔ قرآن کی عظمت

 

 بلعم بن باعوراء کا قصہ:

فتح مصر کے بعد جب بنی اسرئیل کو قوم جبارین سے جہاد کرنے کا حکم ملا تو جبارین ڈرگئے اور بلعم بن باعوراء کے پاس آئے کہ کچھ کرو، بلعم کے پاس اسم اعظم تھا، اس نے پہلے تو اس کی مدد سے منع کیا، مگر جب انھوں نے رشوت دی تو یہ بہک گیا اور حضرت موسیٰ علیہ السلام اور بنی اسرائیل کے خلاف بد دعائیہ کلمات کہنے شروع کیے، مگر اللہ تعالیٰ کی قدرت کہ وہ کلمات خود اس کے اور قوم جبارین کے خلاف نکلے، اللہ تعالیٰ نے اس کی زبان نکال کر اس کو کتے کی طرح کر دیا۔ فمثله كمثل الكلب 

 (۲) سورۂ انفال کا جو ابتدائی حصہ اس پارے میں ہے اس میں تین باتیں یہ ہیں:​

 

۱۔ غزوہ بدر اور مال غنیمت کا حکم

۲۔ مومنین کی پانچ صفات

۳۔ چھ بار مومنین سے خطاب

 

 مومنین کی پانچ صفات یہ ہیں:

(۱)خشیت (۲)تلاوت (۳)توکل (۴)نماز (۵)سخاوت (آیت:۲و۳) 

 

 چھ بار مومنین سے خطاب:

(۱) آیت: ۱۴ (اے ایمان والو! میدان جنگ میں کفار کے مقابلے سے پیٹھ نہ پھیرنا)

(۲) آیت: ۲۰ (اے ایمان والو! اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو)

(۳) آیت: ۲۴ (اے ایمان والو! اللہ اور رسول جب کسی کام کے لیے بلائیں تو ان کا حکم قبول کرو)

(۴) آیت: ۲۷ (اے ایمان والو! نہ اللہ اور رسول سے خیانت کرو نہ اپنی امانتوں میں)

(۵) آیت: ۲۹ (اے ایمان والو! تم اللہ سے ڈرو گے تو وہ تمھیں ممتاز کردے گا اور تمھارے گناہ معاف کردے گا)

(۶) آیت: ۴۵ (اے ایمان والو! دشمن سے مقابلہ ہو تو ثابت قدم رہو اور اللہ کو یاد کرو)