محبت كا اظهار كرو

بسم اللہ الرحمن الرحیم

💠 حدیث_روز 💠

🔻 امام صادق عليه‌السلام:

اِذا اَحْبَبْتَ رَجُلاً فَاَخْبِرْهُ بِذلِكَ فَاِنَّـهُ اَثْبَتُ لِلْمَـوَدَّةِ بَيْنَكُما۔

اردو ترجمہ:

"جب تم کسی سے محبت کرو تو اسے ضرور بتاؤ، کیونکہ ایسا کرنے سے تمہاری باہمی دوستی زیادہ پائیدار ہو جاتی ہے۔"

📚 اصول کافی، ج ۲، ص ۶۴۴

وضاحت

1- محبت کا اظہار کیوں ضروری ہے؟ جب آپ کسی کی خوبیوں، اخلاق یا کردار سے متاثر ہو کر اسے دل سے چاہیں، تو اس احساس کو چھپانے کے بجائے کھل کر بیان کرنا دونوں کے درمیان اعتماد اور خلوص کو گہرا کرتا ہے۔ مثال: جیسے کوئی دوست آپ کی مشکل وقت میں مدد کرے، اور آپ اسے بتائیں: "تمہاری دوستی میرے لیے بہت قیمتی ہے"۔

2- پائیداری کا راز: امام صادقؑ فرماتے ہیں کہ یہ عمل مودت (گہری دوستی) کو "اَثْبَتُ" (مضبوط/پائیدار) بناتا ہے، كيونكه محبت چھپانے سے شک یا دوری پیدا ہو سکتی ہے، جبکہ اظہار رشتے کو حقیقی بنیاد فراہم کرتا ہے۔

3- عملی اطلاق: یہ حکم صرف مردوں تک محدود نہیں؛ بلکہ ہر رشتے (ماں باپ، بہن بھائی، دوست، استاد) میں لاگو ہوتا ہے۔ لهذا جب بھی آپ کسی کی صلاحیت، نیکی یا حسنِ سلوک سے متاثر ہوں، اسے الفاظ یا عمل سے ضرور بتائیں۔

☑️آج کی مشق:

آج کسی ایک شخص کو بتائیں کہ "آپ کی موجودگی میری زندگی کے لیے اہم ہے"۔

•┈┈••🌷••┈┈•

*الفاظِ محبت انسان کے دل کا راستہ ہیں، جو دوسروں تک پہنچ کر گھر بنا لیتے ہیں۔*

الله تعالى کے دیدار کے تصور پر ایک تنقیدی مطالعه

اللہ تعالى کے دیدار کے تصور پر ایک تنقیدی مطالعہ

یہ مقالہ ابن تیمیہ کے تصورِ رؤیتِ الٰہی (اللہ کے دیدار) کا تفصیلی اور تنقیدی مطالعہ پیش کرتا ہے۔ ابن تیمیہ، جو سلفی مکتب فکر کے بڑے مشهور عالم ہیں، نے رؤیتِ باری تعالیٰ کو ایک مسلم عقیدہ قرار دیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کا دیدار نہ صرف آخرت میں ممکن ہے بلکہ دنیا میں بھی— اگرچہ غیرمعمولی حالات میں—ممکن ہو سکتا ہے۔ ان کے مطابق اللہ تعالیٰ کو خواب میں دیکھنا بھی ممکن ہے اور یہ بعض صالحین کو نصیب ہوا ہے۔

ابن تیمیہ کی آراء قرآن و سنت کی روشنی میں ہیں، لیکن ان کی تعبیرات میں ظاہریت غالب ہے۔ وہ نصوصِ شرعیہ کی تاویل یا مجاز سے گریز کرتے ہیں اور اس بات پر زور دیتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کو آخرت میں مومن اپنی آنکھوں سے دیکھیں گے، جیسا کہ بعض احادیث میں صراحت موجود ہے۔ وہ انکارِ رؤیت کو گمراہی قرار دیتے ہیں اور معتزلہ جیسے مکاتب فکر پر تنقید کرتے ہیں جو اللہ کے دیدار کے قائل نہیں۔

مقالہ نگار نے اس تصور پر تنقیدی نظر ڈالتے ہوئے مختلف پہلوؤں کو اجاگر کیا ہے۔ پہلا پہلو تو یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کو مخلوقات کے خواص سے متصف کرنا یا اسے مکان و جہت کا پابند سمجھنا توحید کے منافی ہو سکتا ہے۔ اگرچہ ابن تیمیہ خود تجسیم (anthropomorphism) کے قائل نہیں، لیکن ان کے بعض بیانات ایسے فہم کو جنم دیتے ہیں۔ وہ اللہ کے چہرے، ہاتھ، اور آنے جانے جیسے افعال کو بغیر کسی تاویل کے قبول کرتے ہیں، جو کہ بعض اوقات اللہ تعالیٰ کی صفات کو انسانی صفات کے مشابہ بنا دیتا ہے۔

مقالہ میں یہ نکتہ بھی اٹھایا گیا ہے کہ دنیا میں رؤیتِ الٰہی کی جو مثالیں دی گئی ہیں، وہ خواب یا غیر معمولی روحانی کیفیات پر مبنی ہیں جنہیں عام شرعی اصولوں پر پرکھنا مشکل ہے۔ نیز، دنیا میں دیدار کا امکان اس دنیا کی محدوديت اور اللہ تعالیٰ کے لامحدود ہونے میں تضاد پیدا کرتا ہے۔

ایک اور اہم پہلو مختلف مکاتبِ فکر کا تقابلی جائزہ ہے۔ معتزلہ رؤیتِ الٰہی کے سخت مخالف ہیں، کیونکہ ان کے نزدیک یہ بات اللہ کی ذات کے تنزیہی تصور کے خلاف ہے۔ اشاعرہ نے ایک درمیانی راستہ اختیار کیا ہے؛ وہ آخرت میں رؤیت کے قائل ہیں مگر دنیا میں نہیں۔ صوفیہ کی آراء متنوع ہیں، کچھ اسے روحانی مشاہدہ قرار دیتے ہیں تو کچھ حقیقی دیدار کے بھی قائل ہیں۔

تحقیق کے آخر میں مقالہ نگار اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ ابن تیمیہ کا تصورِ رؤیت اگرچہ سلفی مکتب کے مطابق ہے، لیکن اس میں بعض ایسے پہلو موجود ہیں جو متنازع اور مزید تحقیق کے متقاضی ہیں۔ ان کے دلائل اگرچہ نصوص پر مبنی ہیں، لیکن تعبیرات میں جمود اور تاویل سے انکار بعض اوقات توحید کے اساسی اصولوں سے متصادم ہو جاتا ہے۔

حضرت فاطمه معصومه(س) كى ولادت اور كمالات

حضرت فاطمه معصومه(س) كى ولادت اور كمالات

حضرت سیدہ فاطمہ بنت موسیٰ بن جعفر بن محمد بن علی بن الحسین بن علی بن ابی طالب علیہم السلام خدا کے ولی کی بیٹی، خدا کے ولی کی بہن اور خدا کے ولی کی پھوپھی ہیں جیسا کہ ان کی زیارت میں آیا ہے۔

والدہ: فاطمہ علیہا السلام امام رضا علیہ السلام کی حقیقی بہن ہیں، دونوں کی ماں ایک ہی ہے۔ ان کی والدہ ایک كنيز تھیں جنہیں "ام البنین" کے کنیت سے جانا جاتا تھا۔ ان کے متعدد نام ذکر کیے گئے ہیں جیسے نجمہ، ارویٰ، سکن، سمان، اور تکتم۔ امام موسیٰ کاظم علیہ السلام کی ملکیت میں آنے کے بعد ان کا نام "تکتم" مستحکم ہوا۔

وہ عقل اور دین میں بہترین خواتین میں سے تھیں۔ سیدہ حمیدہ مصفّٰی نے اپنے بیٹے امام کاظم علیہ السلام سے کہا: "اے میرے بیٹے! تکتم ایک كنيز ہے، میں نے اس سے بہتر كنيز نہیں دیکھی۔ مجھے یقین ہے کہ اگر اس کی اولاد ہوئی تو خدا ضرور اس کی نسل کو پاک رکھے گا۔ میں نے اسے تمہیں بخش دیا ہے، اس کے ساتھ اچھا سلوک کرنا۔"

جب فاطمہ علیہا السلام کی ولادت ہوئی تو امام کاظم علیہ السلام نے ان کا نام "طاہرہ" رکھا۔ وہ عبادت گزار اور خدا کے حضور گڑگڑانے والی تھیں۔

سیدہ فاطمہ معصومہ(س) کی زندگی:

سیدہ فاطمہ معصومہ علیہا السلام نے اپنے بھائی امام رضا علیہ السلام کے ساتھ کم از کم 20 سال گزارے۔ اگر ہم یہ مان لیں کہ ان کی ولادت 173 ہجری میں ہوئی (جیسا کہ بعض مورخین نے ترجیح دی ہے) تو امام رضا علیہ السلام کے مدینہ سے مرو (خراسان) جانے (200 ہجری) تک ان کی عمر 27 سال تھی۔ اگر ولادت 179 ہجری مان لی جائے تو عمر 21 سال تھی۔ بہر حال، انہوں نے اپنے بھائی کے سایہ میں تربیت پائی اور علم و فضیلت سیکھا۔ امام رضا علیہ السلام نے انہیں تعلیم دی، جس کی وجہ سے وہ علم و معرفت کے اعلیٰ مقام پر فائز ہوئیں۔

امام رضا علیہ السلام کے دور کی مشکلات:

اگرچہ یہ دور امام علیہ السلام کے لیے آسان نہیں تھا، خاندانی تنازعات (بعض بھائیوں اور رشتہ داروں کی ناراضی)، "واقفیہ" فرقے کی فتنہ انگیزی (جو امام موسیٰ کاظم علیہ السلام کی غیبت کے عقیدے پر یقین رکھتے تھے)، اور حکومتی جبر،لیکن امام نے اپنی بہن کی تربیت میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔

سیدہ فاطمہ معصومہ (س)کا مقام:

امام رضا علیہ السلام نے فرمایا: "جو شخص قم میں معصومہ کی زیارت کرے، گویا اس نے میری زیارت کی۔" یہ بات ان کے بلند علمی و روحانی مقام کی دلیل ہے۔ ان کی عصمت (معصومیت) کا تصور بھی ان کے علم کی گہرائی کو ظاہر کرتا ہے، کیونکہ عصمت علم و معرفت کے بغیر ممکن نہیں۔ ان کے جدّ امام جعفر صادق علیہ السلام نے بھی فرمایا کہ ان کی شفاعت تمام شیعوں کو جنت میں داخل کرے گی۔

اگرچہ تاریخی مصادر میں ان کی تعلیمات کے تفصیلی واقعات کم ملتے ہیں، لیکن ان کے مقام کے لیے یہی کافی ہے کہ امام معصوم نے انہیں "معصومہ" کا لقب دیا اور ان کی زیارت کو اپنی زیارت کے برابر قرار دیا۔

اور اس کی تائید میں علامہ شیخ علی اکبر مہدی پور نے ابن العرندس حلی کی کتاب "کشف اللئالی" سے ایک واقعہ نقل کیا ہے جو سید احمد مستنبط کے حوالے سے ایک فضلاء سے منسوب ہے۔ خلاصہ یہ کہ کچھ شیعہ امام موسیٰ کاظم علیہ السلام کے گھر ان سے ملنے اور سلام کرنے آئے، لیکن معلوم ہوا کہ امام سفر پر ہیں۔ ان کے پاس کچھ سوالات تھے جنہیں انہوں نے لکھ کر سیدہ فاطمہ معصومہ علیہا السلام کے حوالے کر دیا اور واپس چلے گئے۔

اگلے دن جب وہ اپنے گھر لوٹنے لگے تو امام کے گھر سے گزرے۔ دیکھا کہ امام ابھی واپس نہیں آئے۔ چونکہ انہیں جانا ضروری تھا، انہوں نے سیدہ سے اپنے سوالات واپس مانگے تاکہ کسی اور موقع پر امام کو پیش کریں۔ سیدہ فاطمہ علیہا السلام نے ان سوالات کے جوابات لکھ کر واپس کیے۔ جب لوگوں نے یہ دیکھا تو خوش ہو کر مدینہ سے نکل گئے۔ راستے میں انہیں امام کاظم علیہ السلام ملے جو مدینہ واپس آرہے تھے۔ انہوں نے واقعہ سنایا تو امام نے سوالات اور جوابات دیکھنے چاہے۔ جب امام نے جوابات پڑھے تو تین بار فرمایا: "فداها أبوها"(ان کے بابا ان پر قربان هو!)۔

یہ واقعہ سیدہ کے بلند علمی مرتبے کو ظاہر کرتا ہے۔ شیخ مہدی پور کے مطابق، یہ اس بات کی دلیل ہے کہ وہ "عالمہ غیر معلّمہ" تھیں، یعنی بغیر رسمی تعلیم کے ہی علم رکھتی تھیں۔ حالانکہ وہ اس وقت کم عمر تھیں، لیکن تاریخ نے ان سے منسوب چند روایات محفوظ کی ہیں جو ان کے علمی مقام کو ثابت کرتی ہیں۔

حدیث اور علم رجال کا تعلق:

حدیث کا علم تفسیر، فقہ، اخلاقیات، اور کلام جیسے علوم کا مجموعہ ہے۔ شیعہ علماء نے ائمہ علیہم السلام کی احادیث کو محفوظ کرنے، انہیں مرتب کرنے، اور ان کی تنقیدی تحقیق کر کے "کتب اربعہ" جیسی عظیم کتابیں تیار کیں۔ ساتھ ہی، انہوں نے "علم رجال" (راویوں کے حالات کا علم) کو فروغ دیا جس میں روایات کی سندوں اور راویوں کے حالات کو پرکھا جاتا ہے۔ اگرچہ اس علم کو "رجال" کا نام دیا گیا، لیکن یہ صرف مردوں تک محدود نہیں۔ کئی خواتین راویہ بھی تھیں جن کا ذکر معتبر کتب میں ملتا ہے، اور سیدہ فاطمہ معصومہ علیہا السلام ان میں سرفہرست ہیں۔ ان سے بڑے بڑے علماء نے روایات نقل کی ہیں، جو ان کے علمی مقام کی واضح دلیل ہے۔

سیدہ فاطمہ معصومہ علیہا السلام کا علمی مقام صرف روایات تک محدود نہیں، بلکہ ان کی شخصیت اماموں کے گھرانے کی تربیت، عصمت، اور خدا کی خاص عنایت کی عکاس ہے۔ امام رضا علیہ السلام کا ان کی زیارت کو اپنی زیارت کے برابر قرار دینا ان کے روحانی عظمت کو مزید اجاگر کرتا ہے۔لیکن یہ بات تعجب خیز ہے کہ ہمیں اس جلیل القدر اور عظیم محدثہ خاتون کا ترجمہ ان معاجم میں نہیں ملتا جو راویوں کے ناموں کو ضبط کرنے کے لیے مشہور ہیں۔ اسی لیے شیخ النمازی نے اپنی کتاب "مستدرکات" میں ان کا ذکر کرتے ہوئے صرف ان مقامات کی طرف اشارہ کیا ہے جہاں ان کا تذکرہ کتاب "بحار الانوار" میں آیا ہے۔ حالانکہ ان معاجم کے مصنفین نے ان سے کم شہرت اور کم روایت کرنے والی خواتین کا ذکر کیا ہے۔ ہم سمجھ نہیں پاتے کہ اس کی کیا وجہ ہو سکتی ہے! بہرحال، یہ جلیل القدر خاتون محدثات میں سے تھیں، اور ان کا ذکر شیعہ کے علاوہ اہل سنت کے اسناد میں بھی آیا ہے۔ مثال کے طور پر، امام جعفر بن احمد القمی کی کتاب "المسلسلات" میں ایک روایت ان الفاظ کے ساتھ نقل ہوئی ہے:

"ہمیں محمد بن علی بن الحسین نے حدیث بیان کی، انہوں نے کہا کہ مجھے احمد بن زیاد نے حدیث سنائی، انہوں نے کہا کہ مجھے ابو القاسم جعفر بن محمد العلوی العریضی نے حدیث سنائی، انہوں نے کہا کہ ابو عبد اللہ احمد بن محمد بن خلیل نے کہا کہ مجھے علی بن محمد بن جعفر الاہوازی نے خبر دی، انہوں نے کہا کہ مجھے بکیر بن احنف نے حدیث سنائی، انہوں نے کہا کہ ہمیں فاطمہ بنت علی بن موسی الرضا علیہ السلام نے حدیث سنائی، انہوں نے کہا کہ مجھے فاطمہ، زینب اور ام کلثوم (موسی بن جعفر علیہما السلام کی بیٹیوں) نے حدیث سنائی، انہوں نے کہا کہ ہمیں فاطمہ بنت جعفر بن محمد علیہ السلام نے حدیث سنائی، انہوں نے کہا کہ مجھے فاطمہ بنت محمد بن علی علیہ السلام نے حدیث سنائی، انہوں نے کہا کہ مجھے فاطمہ بنت علی بن الحسین علیہ السلام نے حدیث سنائی، انہوں نے کہا کہ مجھے فاطمہ اور سکینہ (حسین بن علی علیہ السلام کی بیٹیوں) نے حدیث سنائی، انہوں نے ام کلثوم بنت علی علیہ السلام سے روایت کی، انہوں نے فاطمہ بنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کی کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا:

"جب مجھے معراج ہوئی اور میں جنت میں داخل ہوا تو میں نے ایک سفید موتی کا محفوظ محل دیکھا، جس کے دروازے پر یاقوت اور موتی جڑے ہوئے تھے اور دروازے پر ایک پردہ تھا۔ میں نے سر اٹھایا تو دروازے پر لکھا ہوا دیکھا: 'لا الہ الا اللہ، محمد رسول اللہ، علی ولی الله'، اور پردے پر لکھا تھا: 'بخ بخ، شیعہ علی علیہ السلام جیسے لوگوں کے لیے!' پھر میں اس میں داخل ہوا تو ایک سرخ عقیق کا محل دیکھا، جس پر چاندی کا دروازہ تھا جس پر زبرجد جڑا ہوا تھا، اور دروازے پر ایک پردہ تھا۔ میں نے سر اٹھایا تو دروازے پر لکھا ہوا تھا: 'محمد رسول اللہ، علی وصی المصطفی'، اور پردے پر لکھا تھا: 'شیعہ علی کو خوشخبری ہو، ان کی پیدائش پاکیزہ ہے۔' پھر میں اس میں داخل ہوا تو ایک سبز زمرد کا محل دیکھا، جو نہایت خوبصورت تھا، اس پر سرخ یاقوت کا دروازہ تھا جس پر موتی جڑے ہوئے تھے، اور دروازے پر ایک پردہ تھا۔ میں نے سر اٹھایا تو پردے پر لکھا ہوا تھا: 'شیعہ علی ہی فلاح پانے والے ہیں۔' میں نے پوچھا: 'اے میرے محبوب جبرائیل! یہ کس کے لیے ہے؟' تو انہوں نے کہا: 'اے محمد! یہ آپ کے چچا زاد اور وصی علی بن ابی طالب (علیہ السلام) کے لیے ہے۔ قیامت کے دن تمام لوگ ننگے پاؤں اور ننگے بدن اٹھائے جائیں گے، سوائے شیعيان علی (علیہ السلام) کے۔ اور تمام لوگوں کو ان کی ماؤں کے نام سے پکارا جائے گا، سوائے شیعہ علی (علیہ السلام) کے، جنہیں ان کے باپوں کے نام سے پکارا جائے گا۔' میں نے پوچھا: 'اے جبرائیل! یہ کیسے ہوگا؟' تو انہوں نے کہا: 'کیونکہ انہوں نے علی (علیہ السلام) سے محبت کی، اس لیے ان کی پیدائش پاکیزہ ہوئی۔'"

اسی طرح محمد جزری نے اپنی کتاب "اسنی المطالب" میں علی بن محمد بن جعفر الاہوازی کے طریقے سے بکر بن احمد القصری کے ذریعے "الفواطم" (فاطمی خواتین) سے روایت کی ہے کہ فاطمہ بنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

"کیا تم لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ فرمان بھول گئے جو آپ نے غدیر خم کے دن فرمایا تھا: 'جس کا میں مولا ہوں، اس کا علی مولا ہے'؟ اور آپ کا یہ فرمان: 'تم میرے لیے وہی مقام رکھتے ہو جو ہارون (علیہ السلام) کا موسیٰ (علیہ السلام) کے لیے تھا'؟"

اس قسم کے اسناد کو "مسلسل" کہا جاتا ہے، جو حدیث کی حفاظت کا ایک خاص طریقہ ہے۔ اس میں راویوں کے تسلسل پر خصوصی توجہ دی جاتی ہے، جیسے ہر راوی کہتا ہے: "میں نے فلاں سے سنا، وہ کہہ رہا تھا کہ میں نے فلاں سے سنا..." یا "ہمیں فلاں نے اللہ کی قسم دے کر بیان کیا..." وغیرہ۔ محقق داماد نے اس کی تعریف کرتے ہوئے اس کی 15 سے زیادہ اقسام بیان کی ہیں۔ مذکورہ بالا دو اسناد میں ایک اضافی خصوصیت یہ بھی ہے کہ ہر فاطمہ اپنی پھوپھی سے روایت کر رہی ہے، یعنی یہ پانچ بہنیں ایک دوسرے سے روایت کرتی ہیں۔

مختصر یہ کہ یہ جلیل القدر خاتون (فاطمہ معصومہ علیہا السلام) نے علم و معرفت کا بڑا حصہ حاصل کیا، جو انہیں خالص سرچشموں سے ملا، یہاں تک کہ وہ بلند مقام تک پہنچ گئیں، اگرچہ ہم تک ان کی بہت سی روایات نہیں پہنچی ہیں۔

ماخذ:شبکہ المعارف الاسلامیہ

نماز

✳ نماز کی طرف ہر قدم صدقہ ہے!

🔻 [پیغمبر اکرم (ص) ابوذرؓ سے فرماتے ہیں:]
«یا اباذر! ... کلّ خطوة تخطوها إلی الصُّلاة صدقة.»
جو بھی قدم تم نماز کی طرف اٹھاتے ہو، وہ ایک صدقہ ہے۔ یہ بات نماز کی اہمیت کو ظاہر کرتی ہے۔ شریعتِ مقدس نے نماز کے لیے کتنا بڑا مقام مقرر کیا ہے! حقیقتاً نماز تمام بھلائیوں کی چابی اور تمام نیکیوں کی بنیاد ہے۔ جتنا زیادہ انسان نماز کے معاملے میں غور کرے، اتنا ہی اس کی اہمیت کو بہتر طور پر سمجھ سکتا ہے۔

نماز ہی ہمارے دلوں کو زندہ رکھتی ہے، نماز ہی ہمیں صراط مستقیم پر قائم رکھتی ہے، نماز ہی ہمیں غفلت کی دلدل میں گرنے سے بچاتی ہے۔ نماز ہی ہمیں قوت، خوشی، اور توکل عطا کرتی ہے۔ نماز کی اقامت پر جو زور دیا گیا ہے، اس کی وجہ یہی ہے۔

👤 مقام معظم رہبری
📚 کتاب: گزیدہ احادیثِ مکارم الاخلاق
📖 صفحات: ۲۳۷ اور ۲۳۸
#⃣ سلوک

انسان کى حقيقت كيا ہے؟

انسان کى حقيقت كيا ہے؟

تحرير: سيد غيور الحسنين

اسلامی فلسفہ میں انسان کی تعریف ایک جامع اور متوازن تصور پر مبنی ہے، جو انسان کو ایک مادی اور روحانی مخلوق کے طور پر پیش کرتا ہے۔ انسان کی تعریف کے مختلف پہلو قرآن، حدیث، اور اسلامی فلسفیوں کی تحریروں میں پائے جاتے ہیں.

اسلامی فلسفہ میں انسان کو دو بنیادی عناصر کا مجموعہ سمجھا جاتا ہے:

1- جسم (مادہ)

انسان کا مادی جسم اسے زمین سے جوڑتا ہے اور اسے دنیاوی معاملات میں حصہ لینے کے قابل بناتا ہے۔ الله تعالى قرآن ميں فرماتا ہے: "ہم نے انسان کو مٹی کے خلاصے سے پیدا کیا"۔ [سورہ المؤمنون: 12]

2- روح (غیر مادی)

روح انسان کی حقیقت اور اس کی اعلیٰ ترین پہچان ہے، جو اسے فرشتوں اور دیگر مخلوقات سے ممتاز کرتی ہے۔ الله تعالى قرآن ميں فرماتا ہے: "اور میں نے اس میں اپنی روح پھونکی"۔ [سورہ الحجر: 29]

انسان کی صفات

اسلامی فلسفہ میں انسان کی درج ذیل خصوصیات کو نمایاں کیا گیا ہے:

الف- عقل و شعور: عقل انسان کو دیگر مخلوقات سے ممتاز کرتی ہے اور اسے اچھے اور برے کی پہچان کے قابل بناتی ہے۔ امام علیؑ: "عقل انسان کا سب سے بڑا سرمایہ ہے"۔ [نہج البلاغہ، حکمت 4]

ب- اختیار و آزادی: انسان کو اعمال کے انتخاب میں آزادی دی گئی ہے، اور یہی اس کے امتحان کی بنیاد ہے۔ الله تعالى قرآن ميں فرماتا ہے: "ہم نے انسان کو راستہ دکھایا، چاہے وہ شکر گزار بنے یا ناشکرا"۔ [سورہ الدھر: 3]

ج- خلیفۂ خدا ہونا: انسان کو زمین پر اللہ کا نائب اور خلیفہ بنایا گیا ہے، جو اس کی عظمت اور ذمہ داری کو ظاہر کرتا ہے۔ الله تعالى قرآن ميں فرماتا ہے: "میں زمین میں اپنا خلیفہ بنانے والا ہوں"۔ [سورہ البقرہ: 30]

د- اخلاقی و روحانی ترقی: انسان کی زندگی کا مقصد روحانی اور اخلاقی کمال حاصل کرنا ہے۔ امام جعفر صادقؑ: "انسان کی حقیقت اس کے اخلاق میں ہے"۔

انسان کے مقاصد

اسلامی فلسفہ میں انسان کی تخلیق کا مقصد صرف دنیاوی زندگی نہیں، بلکہ وہ روحانی کمال ہے جو اسے اللہ تعالى کے قریب کر سکے:

1- عبادت و بندگی: الله تعالى قرآن ميں فرماتا ہے: "میں نے جنات اور انسانوں کو صرف اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا" [سورہ الذاریات: 56]۔

2- علم و معرفت کا حصول: انسان کو علم کی طلب اور جستجو کی صفت دی گئی ہے۔ حدیث نبویؐ: "علم حاصل کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے"۔

3- سماجی ذمہ داری: اسلامی فلسفہ میں انسان کو ایک اجتماعی مخلوق قرار دیا گیا ہے جو عدل، محبت، اور تعاون کے اصولوں پر معاشرہ تشکیل دیتا ہے۔ الله تعالى قرآن ميں فرماتا ہے: "تم بہترین امت ہو جو لوگوں کے لیے بھیجی گئی ہے"۔ [سورہ آل عمران: 110]

انسان اور کمال کا فلسفہ

اسلامی فلسفی، جیسے ابن سینا انسان کو "ناطق حیوان" (عقل رکھنے والا جاندار) کہتے ہیں، جو علم اور عمل کے ذریعے کمال حاصل کرتا ہے۔

ملا صدرا (صدر الدین شیرازى) کے مطابق انسان کی حقیقت اس کی روحانی ترقی ہے، جو حرکتِ جوہری کے ذریعے اپنی معراج تک پہنچتی ہے۔ وہ کہتے ہیں: "انسان ایک ممکن الوجود ہے جو اپنی قابلیتوں کے ذریعے اللہ تعالى کے نور کے قریب ہو سکتا ہے"۔

فارابی کے مطابق انسان ایک سماجی مخلوق ہے، اور اس کی تکمیل معاشرے میں رہ کر حاصل ہوتی ہے۔

لهذا انسان اسلامى فلسفه کے مطابق ایک مادی و روحانی مخلوق ہے۔ علم، عقل، اور اختیار رکھتا ہے۔ خدا کا خلیفہ ہے اور عبادت و کمال کا طلب گار ہے۔ سماجی ذمہ داری اور روحانی ترقی کی طرف متوجہ ہے۔ یہ جامع تصور انسان کو زندگی کے ہر پہلو میں ایک متوازن کردار ادا کرنے کا درس دیتا ہے، جو نہ صرف دنیاوی بلکہ اخروی کامیابی کے لیے ضروری ہے۔

قدرت الهی از منظر امامیه

قدرت الهی از منظر امامیه

استاد راهنما: دکتر سید غیور الحسنین

تأليف: مستفید حسین

چکیده

برای اثبات قدرت خداوند بسیار دلایل عقلی و نقلی وجود دارند. سؤال اين است که آیا خداوند می‌تواند سنگی را خلق کند که خود توان برداشتن آن ندارد ؟ اگر پاسخ این سوال مثبت بدهیم لازم می‌آید که خداوند قدرت برداشتن آن ندارد و اگر پاسخ منفی دهیم لازم می‌ آید که خداوند قدرت خلق آن ندارد. یا اینکه آیا خداوند متعال می‌تواند مثل خود یک خدای خلق کند ؟این سوال از هر دو طرف منافی عقاید بنیادی است چون اگر پاسخ آن مثبت بدهیم تعدد آلِه لازم می ‌آید و اگر پاسخ منفی دهیم همان ناتوانی خلق لازم می‌آید. وقتی این سوال‌ها را با دقت مطالعه کردیم، پی بردیم که این سوال‌ها یا محال ذاتی است یعنی فی حد نفسه محال هستند یا محال وقوعی است یعنی فی حد نفسه نیستند ولی لازمه‌اش محال ذاتی می‌شود.

کلید واژه: معطی، نا متناهی، ملحد، واجب الوجود، ممکن الوجود، محال، مؤید

ادامه نوشته

صحيح بخارى اور صحيح مسلم میں اهل  بیت ؑ سے منقول روایات کا  جائزہ

صحيح بخاري اور صحيح مسلم میں اہل بیت ؑ سے منقول روایات کا جائزہ

جیساکه صحاح ستہ [چھے اہم کتابیں ] میں سے دو اہم کتاب صحیحین [ صحیح بخاری اور صحیح مسلم ]مسلمانوں کی اکثریت کے نزدیک قرآن مجید کے بعد اسلامی تعلیمات کا سب سے اہم ترین مجموعہ ہے۔ ہم ذیل میں ان کتابوں میں اہل بیت ؑ سے منقول روایات کا جائزہ لیتے ہیں۔

صحیح بخاری:

اس میں موجود روایات کی کل تعداد 7275 و با حذف مکررات 2602 ہیں ۔ اس میں پیغمبر ؐکے سب سے اہم شاگرد اور تربیت یافتہ شخصیت یعنی حضرت علیؑ سے رسول پاکﷺ کی صرف ’’۲۹‘‘ احادیث [1]نقل ہوئی ہیں۔ مکتب وحی کے پرورش یافتہ جناب فاطمہ ؑ سے چار ، امام حسن مجتبیؑ سے کوئی ایک روایت بھی نقل نہیں ہوئی ہے۔ امام حسین ؑسے صرف ایک روایت نقل ہوئی ہے[2]. انھیں چند احادیث کے علاوہ بخاری نے خود ان اہم اسلامی شخصیات کی سیرت اور تعلیمات کا ایک نمونہ بھی نقل نہیں کیا ہے۔ اسی طرح امام سجاد ؑسے تین اور امام باقر ؑ سے چار روایات اس میں نقل ہوئی ہیں۔ لیکن امام صادقؑ امام موسی کاظمؑ سمیت باقی ائمہ اہل بیت ؑ سے کوئی حدیث صحیح بخاری میں نہیں ہے۔ [3]

صحیح مسلم:

اس میں موجود روایات کی کل تعداد 7275 و با حذف مکررات 3033ہیں ۔ ابن جوزی کے بقول اس میں امام علی ؑ سے 35 روایات نقل ہوئی ہیں[4]۔ جناب فاطمہ زهراء ؑ سے تین روایات ، امام حسنؑ سے کوئی روایت نقل نہیں ہوئی ہے ۔امام حسینؑ سے ایک روایت، امام سجادؑ سے چار ، امام باقر ؑ سے 13 ، امام صادق ؑ سے 8 لیکن امام کاظمؑ سمیت باقی ائمہ اہل بیت ؑ سے ایک روایت بھی نقل نہیں ہوئی ہے۔ [5]

حواله جات

1- ابن‌جوزی، تلقیح فهوم اهل‌الاثر، ص287

2- مجلة علوم حدیث، شماره47، ص1۵۰-١۷۸.

3- سیری در صحیحین، ص133 ، مجلة علوم حدیث، شماره47، ص1۵۰-١۷۸.

4- ابن‌جوزی، تلقیح فهوم اهل‌الاثر، ص287

5- مجلة علوم حدیث، شماره47، ص1۵۰-١۷۸

كتب

1- ابن الجوزي، عبد الرحمن بن علي (م597هـ )، تلقيح فهوم أهل الأثر في عيون التاريخ والسير، شركة دار الأرقم ، بيروت 1997م.

2- فصلنامه علمی، علوم حدیث، شماره۴۷، انتشارات دارالحديث، قم ، 1387 ش.

3- نجمی، محمد صادق، سیری در صحیحین، دفتر انتشارات، ١۳۸۳ش.

كيا مزارات كو تعمير كرنا  جائز هے؟

كيا مزارات كو تعمير كرنا جائز هے؟

تحرير: سيد غيور الحسنين

قبور پرعمارت بنانا ایک اصطلاح ہے جس میں قبر پر کی جانے والی ہر طرح کی تعمیر شامل ہے ۔ اہل سنت اور شیعوں کے درمیان حکم شرعی کے لحاظ سے قبور پر عمارت بنانے کا اختلاف ایک طرف اور وہابیوں سے ان کا اختلاف ایک اور جہت سے ہے۔ مذاہب اسلامی خاص طور پر شیعہ حضرات طول تاریخ میں بزرگوں، پیشوا اور علما کی قبور پر عمارتیں بناتے چلیں آ رہے ہیں۔ تاریخی لحاظ سے اس امر کی بازگشت صدر اسلام کی طرف ہے نیز تاریخی شواہد کے مطابق صحابہ اور تابعین کی جانب سے کبھی ان تعمیرات کو تنقید کا سامنا نہیں رہا اگرچہ وہابیت کے نزدیک اس کے مفہوم میں وسعت پائی جاتی ہے۔ وہابی معتقد ہیں کہ مردوں کی قبور پر عمارت کی تعمیر ایک طرح سے ان قبور کی عبادت کے مقدمات فراہم کرتی ہے اور عبادت میں شرک کی مانند ہے، جبكه عبادت کسی کو اوصاف الہی سے متصف کرتے ہوئے اس کے سامنے اظہارِ خضوع کرنا ہے۔ اس اشكال كا جواب هم " كيا توسل و شفاعت حرام ہے اور غیر خدا كى هر قسم کی تعظیم شرک ہے؟" کے عنوان سے بيان كر چکے هيں۔ اور يهاں پر مزارات كي تعمير پر دليل بيان كرنا مقصود هے۔

پهلی دلیل: قرآن مجید اصحاب کہف کے واقعہ میں فرماتا ہے کہ جب وہ تقریباً تین سو برس کی طویل نیند سے بیدار ہوئے اور ان کے بارے میں شہر کے لوگوں کو پتہ چلا تو شہر سے لوگ غار کی طرف دوڑے اور جیسے ہی وہاں پہنچے، تو انہوں نے اصحاب کہف کو پھر مردہ پایا۔ قرآن مجید اس کی منظر کشی کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ جب لوگوں نے یہ ماجرا دیکھا تو وہ دو گروہوں میں تقسیم ہو گئے :﴿فَقَالُوا ابْنُوا عَلَيْهِم بُنْيَانًا ۖ رَّبُّهُمْ أَعْلَمُ بِهِمْ ۚ قَالَ الَّذِينَ غَلَبُوا عَلَىٰ أَمْرِهِمْ لَنَتَّخِذَنَّ عَلَيْهِم مَّسْجِدًا[الكهف: 21]

"تو کچھ نے کہا کہ ان (کے غار) پر ایک (یادگاری) عمارت بنا دو۔ ان کا رب ہی ان کا حال بہتر جانتا ہے۔ (آخرکار) جنهوں نے ان كے بارے ميں غلبه حاصل كيا وہ كهنے لگے: ہم ان کے غار پر ضرور ایک مسجد ( یعنی عبادت گاہ) بناتے هيں۔"

جیسا کہ اس آیت سے سمجھ میں آتا ہے کہ ان دونوں گروہوں میں سے کوئی بھی قبروں کو تعمیر کرنے کا مخالف نہیں تھا۔ بس فرق یہ تھا کہ مؤمنین وہاں ایک مسجد بنانا چاہتے تھے جبکہ دوسرے لوگ ان کی نشانی اور یادگار کے طور پر وہاں ایک عالی شان عمارت تعمیر کرنا چاہتے تھے۔

یہ امر بھی ذہن نشین رہے کہ قرآن مجید نے اس ماجرے کو مدح و تعریف کی زبان میں نقل کیا ہے اور اس پر کسی قسم کی تنقید بھی نہیں کی ہے۔ لہذا اس نکتہ سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ یہ کام شرعی ممانعت نہیں رکھتا۔ اور خاص طور پر جبکہ اس آیت میں موجود ’’ لَنَتَّخِذَنَّ عَلَيْهِم مَّسْجِدًا ‘‘ کی تعبیر سے پتہ چلتا ہے کہ انہوں نے اس درخواست کو ایک حکم شرعی کے طور پر لیا تھا۔ بہر کیف! اس تعبیر سے یہ واضح ہو جاتا ہے - وہابیوں کے تصور کے برخلاف - کہ قبروں پر بارگاہ اور گنبد وغیرہ تعمیر کرنا ایک شرعی اور دینی عمل ہے۔

اسی طرح اس واقعہ سے یہ بھی استفادہ ہوتا ہے کہ غیر معمولی لوگوں کی قبروں پر روضے تعمیر کرنا ، سابقہ اقوام اور امتوں کے آداب و سنتوں میں سے بھی رہا ہے ۔ اور وہ لوگ اس کام کو اپنے بزرگوں اور عظیم ہستیوں کے احترام و تجلیل میں انجام دیا کرتے تھے۔

دوسری دلیل: بزرگوں کی قبور پر مزارات تعمیر کرنا ’’ ترفیع بیوت ‘‘ کا ایک مصداق ہے ۔ وہ گھر جن کے لیے اللہ تعالیٰ کی مرضی یہ ہے کہ ان کی رفعت و منزلت بلند و بالا رہے ۔ اور اس کی وضاحت یہ ہے کہ قرآن مجید سورہ نور میں اللہ تعالیٰ کو منور چراغ سے تشبیہ دیتا ہے جو آسمان میں چمکتے ہوئے ستاروں کی طرح روشن ہے پھر اس آیت کے بعد والی آیت میں ان چراغوں کے رکھے جانے کی جگہ ان گھروں کو بتلاتا ہے جن کے لیے خدا کی منشأ یہ ہے کہ ان کا احترام کیا جاتا رہے اور وہ ارفع و اعلیٰ رہیں۔ چنانچہ قرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہے:﴿ فِي بُيُوتٍ أَذِنَ اللَّـهُ أَن تُرْفَعَ وَيُذْكَرَ فِيهَا اسْمُهُ يُسَبِّحُ لَهُ فِيهَا بِالْغُدُوِّ وَالْآصَالِ[النور: 36]

"(هدايت پانے والے) ایسے گھروں میں ہیں جن کى تعظيم كا اللہ نے اذن دیا ہے اور ان میں اس کا نام لینے كا بهى، وه ان گھروں میں صبح و شام الله کی تسبیح کرتے ہیں۔"

واضح سی بات ہے کہ اس آیت میں ’’ بیوت ‘‘ سے مراد مساجد نہیں ہوسکتیں، چونکہ بیوت لفظ بیت کی جمع ہے اور بیت عربی لغت میں ایسی جگہ کو کہتے ہیں کہ جس میں انسان رات بسر کرتا ہے اور مسجد رات گذارنے کی جگہ نہیں ہوتی۔ اسی وجہ سے اسے ’’ بیت ‘‘ نہیں کہا جاتا، بلکہ اس آیت میں ’’ بیوت ‘‘ سے مراد، اولیائے الہی اور ایسے پاک لوگوں کے گھر ہیں کہ جن میں صبح و شام اللہ کی تسبیح ہوتی ہے اور اس کا ذکر کیا جاتا ہے۔

اس آیت میں موجود رفعت و بلندی سے مراد کیا چیز ہے؟ اس کے سلسلہ میں دو احتمال پائے جاتے ہیں :

۱۔ رفعت ظاہری

۲ ۔ رفعت معنوی

اگر اس آیت میں رفعت ظاہری مراد لی جائے تو اس کے معنیٰ یہ ہیں کہ اس گھر کے در و دیوار اور چھت وغیرہ کو بلند کرکے بنایا جائے اور ان کی بلندی کو مزید بڑھایا جائے۔ لیکن چونکہ یہ معنی اس مقام کے شایان شان نہیں ہیں اور اس آیت میں ذکر اور تسبیح الہی کا تذکرہ ہے۔ چنانچہ موضوع اور حکم میں مناسبت کا خیال رکھتے ہوئے۔ تو معنی کا تقاضہ یہ ہے کہ اس سے مراد رفعت معنوی ہونی چاہیے۔ اور کسی گھر کی معنوی رفعت کا تقاضہ یہ ہے کہ اسے تکریم و تعظیم کی نگاہ سے دیکھا جائے اور ان مکانوں کا احترام کیا جائے۔ اور یہ بھی واضح ہے کہ ان گھروں کے احترام کا ایک مصداق، اس مکان کو تعمیرکرنا، اسے منہدم اور مسمار ہونے سے بچانا اور اس کی حفاظت کی کوشش کرنا ہے۔

کئی روایات کے مطابق جب یہ آیت: ’’ فِي بُيُوتٍ أَذِنَ اللَّـهُ أَن تُرْفَعَ ‘‘ نازل ہوئی اور پیغمبر اکرمﷺ نے اسے مسجد میں اصحاب کے سامنے تلاوت کیا تو ایک صحابی نے حضرتﷺ سے سوال کیا: یا رسول اللہ! اس’’ بیوت ‘‘ سے مراد کیا ہے؟ آنحضرتﷺ نے فرمایا : انبیاء(عليهم السلام) کے گھر۔ اسی وقت حضرت ابوبکر اٹھے اور علی و فاطمہ سلام اللہ علیہما کے گھر کی طرف اشارہ کر کے پوچھا: یا رسول اللہ ﷺ! کیا یہ (علی وفاطمہ کا) گھر بھی انہیں گھروں میں سے ہے جنہیں اللہ نے بلند رکھنے کی اجازت دی ہے تاکہ ان کی منزلت، رفیع و اعلیٰ رہے؟ پیغمبرﷺ نے فرمایا : ’’ نعم، من أفضلھا‘‘ ہاں! یہ گھر ان سب میں با فضیلت ہے۔[1]

اس بیان کی روشنی میں اب سوال یہ ہے کہ وہ گھر جو اللہ کے حکم کے موجب سب سے افضل و برتر ہو اور جس کی تکریم و تعظیم ہونی چاہیئے، کس بنیاد پر اس گھر کو جس میں فاطمہ (س) کو دفنایا گیا ہو ویران کرنا جائز ہوگا ؟ کیا اس حکم کو منسوخ کرنے والا کوئی جدید حکم، اللہ کی جانب سے نازل ہوا تھا؟

تيسرى دليل: صالحین اور اولاد رسول اللہ ﷺ کی قبروں کو تعمیر کرنا، ان کی نسبت مسلمانوں کے ادب اور احترام کے ساتھ ساتھ ان سے مودت و محبت کی بھی نشانی ہے اور یہ وہی اجر رسالت ہے جس کی ادائیگی کا انہیں حکم ملا ہے جیسا کہ قرآن مجید کا ارشاد ہے :

﴿قُل لَّا أَسْأَلُكُمْ عَلَيْهِ أَجْرًا إِلَّا الْمَوَدَّةَ فِي الْقُرْبَىٰ[الشورى: 23]

"اے پیغمبر! آپ(ص) کہ دیجيے! میں اس(تبلیغ رسالت) پر تم سے کوئی اجرت نہیں مانگتا سوائے قريب ترين رشته داروں کی محبت کے۔"

بے شک اولیاء الہی کے معنوی مقام كے احترام و تعظیم کا اظہار اور ان سے محبت و مودت کا شرک سے کوئی تعلق نہیں ہے۔


[1] - تفسیر آلوسی ، ج۱۸ ، ص ۱۷۴ ؛ الکشف و البیان عن تفسیر القرآن، ج۷ ، ص ۱۰۷ ؛ الدر المنثور، ج ۵ ، ص ۵۰ ۔’’ أخرج ابن مرویۃ عن أنس بن مالک و بریدۃ قال : قرأ رسول اللہ ھذہ الآیۃ ( فی بیوت ۔۔۔۔) فقام إلیہ علیہ السلام رجل، فقال: أیّ بیوت ھذہ یا رسول اللہ ؟ فقال (ص) : بیوت الأنبیاء علیھم السلام ، فقام إلیہ أبوبکر، فقال: یا رسول اللہ ! ھذا البیت منھا لبیت علی و فاطمة ؟ قال : نعم ، من أفضلھا ۔‘‘

صلوات فاطمه زهرا سلام الله عليها  ميں"والسر المستودع فيها" كا كيا مطلب ہے؟

صلوات فاطمه زهرا سلام الله عليها ميں"والسر المستودع فيها" كا كيا مطلب هے؟

تحرير : سيد غيور الحسنين

صلوات فاطمه زهرا سلام الله عليها يه هے (اللّهُمَّ صَلِّ عَلی فاطِمَةَ وَ أَبيها وَ بَعْلِها وَ بنيها وَالسِّرِّ الْمُسْتَوْدَعِ فيها بِعَدَدِ ما أَحاطَ بِه عِلْمُکَ)[1]

ترجمه: پروردگار درود وصلوات بھیج فاطمہ زہرا اور ان کے والدبزرگوار، شوہرنامدار اور اولاد پاک پر اور اس سر پر جسے خدا نے بی بی کی ذات میں ودیعت فرمایا ہے اس قدر کہ جتنا تیرے علم میں ہے.

سوال یہ ہے کہ وہ سر کیا ہے؟؟؟

لفظ "سر" سے مشخص هے كه يه اسرار الهي ميں سے هے جس كو خدا اور اس كے رسول صلى الله عليه و آله وسلم اور آل رسول عليهم السلام كے علاوه كوئي نهيں جانتا. ايسا راز جو تمام مخلوقات سے پوشيده نه هو وه راز نهيں هوتا. ليكن چند احتمالات ذكر كيے گئے هيں:

الف ـ امام مهدي عجل الله تعالى فرجه الشريف؛

ب ـ امامت و ولایت؛

ج ـ امر آئمه عليهم السلام؛

د ـ علوم ربانی.

شايد اسي بات پر يه حديث دلالت كرتي هے : "من أدرک فاطمة فقد أدرک ليلة القدر.... ما أدرک ما ليلة القدر"

يه وہی سر هے جس کی بنیاد پر علی عليه السلام کا ہم کفو بنیں، حجج الہیہ کےلیے حجت بنیں، امام زمانہ عجل الله تعالى فرجه الشريف کےلیے اسوہ حسنہ بنیں، صلب آدم عليه السلام کے بغیر خاص اہتمام سے اس دنیا میں تشریف لائيں. پیامبر صلى الله عليه و آله و سلم کا حد سے زیادہ احترام دینا، تمام ائمہ عليهم السلام کی طرف سے خصوصی احترام. یہ سب اسی راز کی باتیں ہی لگتی ہیں. باقی حقیقت تو شاید اس سے بھی آگے ہو جس کو ہمارے عقول سمجھ نہ پاتے ہوں. واللہ اعلم


[1] - صحیفه مهدیه، سیدمرتضی مجتهدی سیستانی، ترجمه مؤسسه اسلامی ترجمه، نشر حاذق، ص ۵۸۴.

محبت اهل بيت اسلام كى اساس هے؟

محبت اهل بيت اسلام كى اساس هے؟

زیارت ناحیہ ميں امام زمانه (عج) كا  امام حسين عليه السلام كے بارے  ميں مرثيه

زیارت ناحیہ ميں امام زمانه (عج) كا  امام حسين عليه السلام كے بارے  ميں مرثيه

 

" میرا سلام ہو اس شہید پر جس کی داہنی طرف کی پسلیاں ٹوٹ کر بائیں طرف آ گئی تھیں، اور بائیں طرف کی پسلیاں ٹوٹ کر داہنی طرف آ گئی تھیں

ﺳﻼﻡ ﺍُﻥ ﭘﺎﮐﯿﺰﮦ ﻧﻔﻮﺱ ﭘﺮ ﺟﻨﮭﯿﮟ ﭨﮑﮍﮮ ﭨﮑﮍﮮ ﮐﯿﺎ ﮔﯿﺎ ،

مسافرں میں سب سے زیادہ بے کس ؤ مظلوم مسافر پر سلام

ان گریبانوں پرسلام جو خون سے بھرے ہوے تھے

سلام اس مظلوم امام پر جس کے سر کو پشت گردن سے کاٹا گیا

اس ریش اقدس پرسلام جو خون سے سرخ تھی

اس روخسار پر سلام جو خاک الودہ تھا

ﺳﻼﻡ ﺍﺭﺽِ ﮐﺮﺑﻼ ﭘر ﺑﮩﻨﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﺧﻮﻥ ﭘﺮ ،

ﺳﻼﻡ ﺟﺴﻤﻮﮞ ﺳﮯ ﺟﺪﺍ ﮐﺮﺩﯾﮱ ﺟﺎﻧﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﺍﻋﻀﺎﺀ ﭘﺮ ،

ﺳﻼﻡ ﻧﯿﺰﻭﮞ ﭘﮧ ﺍُﭨﮭﺎﮰ ﺟﺎﻧﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﺳﺮﻭﮞ ﭘﺮ ،

" میرا سلام ہو اس مظلوم حسین(ع)  پرکہ جس پرآسمان کے فرشتےبھی رو دیئے".

میرا سلام ہو اس قیدی پر جس کا گوشت زنجیریں کھا گیں.......

میرا سلام ھو اس معصومہ پہ جس کے رخساروں کی رنگت کربلا سے شام تک مسلسل تبدیل ھوتی رہی.

"سلام" اُن ھونٹوں پر جو پیاس سے سوکھے ھوۓ تھے

میرا سلام ہو اس بی بی (س) پر جس نے کربلا سے شام تک اپنے زخمی ہاتھوں سے اپنے بھائی کے یتیموں کو کھانا کھلایا

سلام ہو اُس پر جس کے قبر کی مٹی خاکِ شفا ہے-

سلام ہو اس پر جس کے حرم کی فضامیں دعائیں قبول ہوتی ہیں "

شفاعت امام حسین علیہ السلام

شفاعت امام حسین علیہ السلام

 

زندگی کا سب سے خوفناک ترین وقت وہ لمحہ ہے جب اس کو قبر میں ڈالا جائے گا.

 

ایک شخص امام صادق علیہ السلام کے پاس جاتا ہے اور کہتا ہے کہ میں اس لمحے سے بھت ڈرتا ہوں کیا کروں؟

امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا: زیارت عاشورا زیادہ پڑھو

اس مرد نے کہا: کیسے زیارت عاشورا کے پڑھنے کے ساتھ اس وقت کے خوف سے محفوظ رہیں گے.؟

امام صادق علیہ السلام نے فرمایا: مگر زیارت عاشورا کے آخر میں نہیں پڑھتے ہیں.

اَللّهُمَّ ارْزُقْنی شَفاعَهَ الْحُسَیْنِ یَوْمَ الْوُرُودِ

یعنی خدایا قبر میں داخل ہونے کے وقت  امام حسین علیہ السلام کی شفاعت نصیب فر ما.

 

زیارت عاشورا پڑھیں تاکہ امام حسین علیہ السلام اس لمحے ہماری فریاد کو پہنچ جائیں.

 

امام رضا عليه السلام كى روايت ميں كما يذبح الكبش سے كيا مراد هے؟

قال الإمام  الرضا عليه السلام: يَا ابْنَ شَبِيبٍ إِنْ كُنْتَ بَاكِياً لِشَيْ‏ءٍ فَابْكِ لِلْحُسَيْنِ بْنِ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ فَإِنَّهُ ذُبِحَ كَمَا يُذْبَحُ الْكَبْشُ

اے فرزند شبیب! اگر تم کسی پر رونا چاہو (اور اس کا غم تم کو رلائے تو پہلے) فرزند رسولؐ حسینؑ ابن علیؑ پر گریہ کرو۔ اس لیے کہ ان کو مظلومی کی حالت میں اس طرح ذبح کیا گیا جیسے کسی بھیڑ کو ذبح کیا جاتا ہے۔

کما یذبح الکبش کی بعض علماء نے تفسیر کی ہے کہ کن وجوہ کی بنا پہ  دنبے یا بھیڑ سے تشبیہ دی گئی ہے



پہلی وجہ دنبہ ذبح کرتے وقت کوئی ڈر خوف نہیں ہوتا کہ کوئی مجھے روکے ٹوکے گا کوئی میرا ہاتھ پکڑے گا اسیطرح شمر لعین کو کوئی ڈر خوف نہیں تھا 



دوسری وجہ ذبح کرتے وقت ایک خوشی ہوتی ہے 

بعینہ یہ ملعون خوش تھا بغض کیوجہ سے

 تیسری وجہ ذبح ہونے بعد لوگ انتظار میں ہوتے ہیں کہ تقسیم میں میرے حصے کیا آئے گا اسی طرح اشقیاء منتظر تھے کہ کون کیا لوٹے گا کسی نے کمر بند لوٹا تو کسی نے انگوٹھی 😭😭وگرنہ کبش یا دنبے سے اس کے علاوہ باقی مصائب عظیم ہیں

 

دنبے کو پانی پلا کے ذبح کیا جاتا ہے جبکہ جگر گوشہ بتول پیاسے شہید کیے گئے 😭😭



ہم جنس کے سامنے ذبح نہیں کیا جاتا جبکہ بہن دیکھ رہی تھی 😭😭



ذبیحہ کی گردن سانس ختم ہونیکے بعد جدا کی جاتی ہے مولا حسین  کے زندہ ہوتے ہوئے گردن جدا کی گئی 😭😭 

إنا لله و إنا إليه راجعون

عزاداري امام رضا عليه السلام كى نظر ميں

عزاداري امام رضا عليه السلام كى نظر ميں

قال الرضا علیہ السلام:

يَا ابْنَ شَبِيبٍ إِنْ كُنْتَ بَاكِياً لِشَيْ‏ءٍ فَابْكِ لِلْحُسَيْنِ بْنِ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ

اے فرزند شبیب! اگر تمہیں کسی چیز پر رونا آئے تو فرزند رسولؐ حسینؑ ابن علیؑ پر گریہ کرو۔

امام علی ابن موسی الرضا علیہ السلام کا ایک لقب غریب الغرباہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ آپؑ کو بادشاہ وقت نے اپنے وطن مدینے سے بہت دور ایران میں رکھا جہاں آپ اپنے اہل و عیال اور احباب سے دور یکہ و تنہا ہوگئے۔ آپؑ کو بنی عباس جو اہلبیت کے دشمن تھے، کے درمیان زندگی گزارنی پڑی۔ ایسے پرآشوب حالات میں آپؑ نے دین اہلبیتؑ کی تبلیغ فرمائ اور بنی عباس کے کچھ نیک و صالح افراد آپؑ کے شیعہ بن گئے۔ انھیں افراد میں ایک مشہور نام جناب ریان بن شبیب کا ہے جو ایک قول کے مطابق خلیفہ مامون رشید کے ماموں تھے۔ حضرت نے ان کو بہت سے رموز اہل بیت سکھائے جن کو ابن شبیب نے روایت بھی کیا ہے۔ ان احادیث میں ایک بہت ہی مشہور روایت یہ ہے کہ فرزند رسولؐ نے ابن شبیب سے اپنے جد مظلوم، شہید کربلا کے مصائب بیان کیے اور ان کا غم منانے کی نصیحت فرمائ ہے۔ اس روایت کو شیعوں کے جیّد علماء نے اپنی اپنی کتابوں میں نقل کیا ہے۔ اس روایت میں امام نے ایک مومن کو ‘حسینی’ بننے کا سلیقہ بتایا ہے۔ پیش ہیں اس روایت کے کچھ اہم فقرے-

يَا ابْنَ شَبِيبٍ إِنْ كُنْتَ بَاكِياً لِشَيْ‏ءٍ فَابْكِ لِلْحُسَيْنِ بْنِ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ ع فَإِنَّهُ ذُبِحَ كَمَا يُذْبَحُ الْكَبْشُ

اے فرزند شبیب! اگر تم کسی پر رونا چاہو (اور اس کا غم تم کو رلائے تو پہلے) فرزند رسولؐ حسینؑ ابن علیؑ پر گریہ کرو۔ اس لیے کہ ان کو مظلومی کی حالت میں اس طرح ذبح کیا گیا جیسے کسی بھیڑ کو ذبح کیا جاتا ہے۔

وَ قُتِلَ مَعَهُ مِنْ أَهْلِ بَيْتِهِ ثَمَانِيَةَ عَشَرَ رَجُلًا مَا لَهُمْ فِي الْأَرْضِ شَبِيهُونَ

(اتنا ہی نہیں بلکہ) ان کے ساتھ ان کے خاندان کے ایسے اٹھارہ افراد کو بھی شہید کیا گیا جن کی دنیا میں کوئ مثال نہیں ہے۔

وَ لَقَدْ بَكَتِ السَّمَاوَاتُ السَّبْعُ وَ الْأَرَضُونَ لِقَتْلِهِ

ان کی شہادت پر ساتوں آسمان اور زمینوں نے گریہ کیا

وَ لَقَدْ نَزَلَ إِلَى الْأَرْضِ مِنَ الْمَلَائِكَةِ أَرْبَعَةُ آلَافٍ لِنَصْرِهِ

سید الشہداء کی نصرت کے لیے چار ہزار ملائکہ آسمان سے زمین کی طرف نازل ہوے

فَوَجَدُوهُ قَدْ قُتِلَ فَهُمْ عِنْدَ قَبْرِهِ شُعْثٌ غُبْرٌ إِلَى أَنْ يَقُومَ الْقَائِمُ فَيَكُونُونَ مِنْ أَنْصَارِهِ وَ شِعَارُهُمْ يَا لَثَارَاتِ الْحُسَيْنِ

مگر جب وہ کربلا پہنچے تو فرزند زہراء قتل کیا جاچکا تھا۔ تب سے یہ ملائکہ ان کی قبر مطہر کی مجاوری کررہے ہیں اور گریہ و زاری میں مصروف ہیں۔ یہ اس دن کا انتظار کر رہے ہیں جب ہمارا قائم قیام کرےگا۔ یہ ان کے لشکر میں شامل ہوں گے۔ ان کا نعرہ ہوگا ‘يَا لَثَارَاتِ الْحُسَيْنِ’

يَا ابْنَ شَبِيبٍ لَقَدْ حَدَّثَنِي أَبِي عَنْ أَبِيهِ عَنْ جَدِّهِ أَنَّهُ لَمَّا قُتِلَ جَدِّيَ الْحُسَيْنُ أَمْطَرَتِ السَّمَاءُ دَماً وَ تُرَاباًأَحْمَرَ

اے فرزند شبیب! میرے والد نے اپنے جد سے یہ روایت کی ہے کہ جب امام حسینؑ کی شہادت واقع ہوئ تو آسمان سے خون برسا اور سرخ مٹی برسی ۔

يَا ابْنَ شَبِيبٍ إِنْ بَكَيْتَ عَلَى الْحُسَيْنِ حَتَّى تَصِيرَ دُمُوعُكَ عَلَى خَدَّيْكَ غَفَرَ اللَّهُ لَكَ كُلَّ ذَنْبٍ أَذْنَبْتَهُ صَغِيراً كَانَ أَوْ كَبِيراً قَلِيلًا كَانَ أَوْ كَثِيراً

اے فرزند شبیب! اگر تم حسینِ مظلوم پر اس قدر گریہ کرو کہ تمھارے رخسار آنسوءوں سے تر ہوجائیں تو خدا تمھارے تمام گناہ بخش دے گا خواہ وہ چھوٹے ہوں یا بڑے کم ہوں یا زیادہ۔

يَا ابْنَ شَبِيبٍ إِنْ سَرَّكَ أَنْ تَلْقَى اللَّهَ عَزَّ وَ جَلَّ وَ لَا ذَنْبَ عَلَيْكَ فَزُرِ الْحُسَيْنَ ع

اے فرزند شبیب! اگر تم چاہتے ہو کہ خدا سے اس حال میں ملاقات کرو کہ تمھارے ذمہ کوئ گناہ نہ ہو تو میرے جد حسین(علیہ السلام) کی زیارت کو جاءو۔

يَا ابْنَ شَبِيبٍ إِنْ سَرَّكَ أَنْ تَسْكُنَ الْغُرَفَ الْمَبْنِيَّةَ فِي الْجَنَّةِ مَعَ النَّبِيِّ ص فَالْعَنْ قَتَلَةَ الْحُسَيْنِ

اے فرزند شبیب! اگر تم چاہتے ہو کہ جنت کے اس اعلی درجے کے مکان میں رہو، جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے جوار میں ہے تو حسینؑ کے قاتلوں پر لعنت کیا کرو۔

يَا ابْنَ شَبِيبٍ إِنْ سَرَّكَ أَنْ يَكُونَ لَكَ مِنَ الثَّوَابِ مِثْلَ مَا لِمَنِ اسْتُشْهِدَ مَعَ الْحُسَيْنِ فَقُلْ مَتَى مَا ذَكَرْتَهُ- يا لَيْتَنِي كُنْتُ مَعَهُمْ فَأَفُوزَ فَوْزاً عَظِيماً

اے فرزند شبیب! اگر وہ ثواب حاصل کرنا چاہتے ہو، جو شہداء کربلا کو ملا ہے تو جب بھی ان شہیدوں کی یاد آے تو یہ کہا کرو “يا لَيْتَنِي كُنْتُ مَعَهُمْ فَأَفُوزَ فَوْزاً عَظِيماً” اے کاش میں ان کے ہمراہ (شہید) ہوتا تو عظیم کامیابی حاصل کرلیتا۔

يَا ابْنَ شَبِيبٍ إِنْ سَرَّكَ أَنْ تَكُونَ مَعَنَا فِي الدَّرَجَاتِ الْعُلَى مِنَ الْجِنَانِ فَاحْزَنْ لِحُزْنِنَا وَ افْرَحْ لِفَرَحِنَا

اے فرزند شبیب! اگر تم چاہتے ہو کہ جنت کے اعلی مقام پر ہمارے جوار میں رہو تو ہمارے غم میں غمزدہ ہوجایا کرو اور ہماری خوشی میں خوش ہوا کرو۔

وَ عَلَيْكَ بِوَلَايَتِنَا فَلَوْ أَنَّ رَجُلًا تَوَلَّى حَجَراً لَحَشَرَهُ اللَّهُ مَعَهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ

ہماری ولایت سے وابستہ رہو کیونکہ کوئ شخص اگر کسی پتھر سے بھی محبت کرے تو اللہ اس کو روز قیامت اس پتھر کے ساتھ محشور کرے گا۔

(أمالي الصدوق المجلس 27- الرقم 5، عيون أخبار الرضا ج 1 ص 299.)

ان بیش بہا جملوں میں امام علی رضا علیہ السلام نے امام حسین علیہ السلام کی عزاداری اور ان کی زیارت کا ثواب بیان کیا ہے۔

محبت اور عشق کیا ہیں؟

كيا نكاح سے پهلے دو نامحرموں كا عشق جائز هے؟

🚩🏴امام حسین(ع) اور پیغمبر (ص)🏴🚩

🚩🏴امام حسین(ع) اور پیغمبر (ص)🏴🚩

 

💐امام حسین ع کی ولادت سےلیکررسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رحلت تک چھ سال اور چند ماہ کی مدت میں لوگوں نے بار بار دیکھا کہ رسول اکرم (ص) امام حسین علیہ السلام سے کتنی محبت فرماتے تھے اور کس حد تک احترام کرتے تھے کہ جس سے لوگوں کو امام حسین ع کی عظمت اور بزرگی کا اندازہ ہوگیا۔

🌸جناب سلمان فارسی کابیان ہے کہ:

میں نے دیکھا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حسین علیہ السلام کو اپنےزانو پر بٹھائے ھوئےہیں اور یہ فرمارہے ہیں:

 

''تم کریم ہو، کریم کے فرزند ھو اور کریموں کے پدر ھو۔، تم خود امام ھو، امام کے فرزند ھو اور اماموں کےپدر ھو، تم خود حجت خدا ھو، حجت خدا کے فرزند ھو اور حجج الہی کے پدر ھو، جن کا نواں قائم (امام زمانہ) ھوگا۔،، 1۔

 

🌸انس بن مالک کی روایت ہےکہ:

'' جس وقت پیغمبر اکرم (ص) سے یہ سوال کیاگیا کہ آپ اپنے اہل بیت میں سب سے زیادہ کسے چاہتے ہیں؟

تو آپ نے فرمایا

حسن و حسین کو۔2

رسول خدا  ، بارہا حسن ع و حسین ع کواپنے سینے سے لگاتےتھے انکوسونگھتےتھے اور بوسہ لیتے تھے۔3۔

 

🌸ابوہریرہ کا بیان ہے کہ:

 

میں نے رسول اللہ کودیکھا کہ حسن و حسین کواپنے شانوں پر بٹھائے ھوئے ھماری طرف تشریف لارہے ہیں۔ جب ھمارے پاس پہنچے تو ارشاد فرمایا:

 

جوشخص میرے ان دونوں فرزندوں کودوست رکھے اس نے مجھے دوست رکھا، اور جو انہیں  دشمن رکھے اس نے مجھ سے دشمنی کی،، 4،

 

رسول خداصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور امام حسین علیہ السلام کےدرمیان عمیق ترین واضح ترین اور معنوی و ملکوتی رابطہ کو رسول خدا(ص) کے اس جملہ میں دیکھا جاسکتا ہے۔

"حسین منی وانامن الحسین،،

حسین مجھ سے ہے اور میں حسین سے ھوں۔5۔

🏴🚩🏴🚩🏴🚩🏴🚩

📕1-مقتل خوارزمی،ج1ص146۔

کمال الدین،صدوق،ص152

📗2- سنن ترمذی،ج5ص323۔

📕3- ذخائرالعقبی،ص122۔

📗4- الاصابہ،ج1ص330۔

📕5- سنن ترمذی،ج5ص324۔

كيا صرف نماز اور روزه هي عبادت هے؟

كيا صرف نماز اور روزه هي عبادت هے؟

https://www.youtube.com/watch?v=DOrkZyH_czg

نبذة عن حياة السيدة فاطمة المعصومة عليها السلام

نبذة عن حياة السيدة فاطمة المعصومة عليها السلام

توبہ کے مراحل کونسے ہیں؟

اخلاقی دروس کا سلسلہ ناظرین کی خدمت میں پیش کیا جا رہا ہے۔ اس درس میں علمائے اخلاق کے بیان کی روشنی میں توبہ کے مراحل بیان ہوئے ہیں۔ مولانا سید غیور الحسنین

https://www.shiatv.net/view_video.php?viewkey=1577760633

توبہ قبول ہونے کی شرائط کیا ہیں؟

اخلاقی دروس کا سلسلہ ناظرین کی خدمت میں پیش کیا جا رہا ہے۔ اس درس میں توبہ کا معنی بیان کرتے ہوئے روایات کی روشنی میں توبہ کے مراحل اور اس کی قبولیت کی شرائط بیان کی گئی ہیں۔ مولانا سید غیور الحسنین

https://www.shiatv.net/video/553789937

دراسة نقدية لنظرية ابن تيمية حول حديث "مدينة العلم"

دراسة نقدية لنظرية ابن تيمية حول حديث "مدينة العلم"

الأستاذ المشرف: الشيخ الدكتور عبد المجيد زهادت

الطالب: سيد غيور الحسنين

المرحلة: الدكتوراه

خلاصة البحث

مسألة الأعلميّة والمرجعيّة العلميّة للإمام على عليه السلام بعد وفاة الرسول صلى الله عليه و آله وسلّم من المسائل المطروحة بين المسلمين بشكل خاص. وتوجّه كثير من المحدّثين، والمفسّرين، والمتكلّمين، والفقهاء، وعلماء التاريخ حول هذه المسألة، وبذلوا جهودا كثيرا في إثبات نظرية الأعلميّة والمرجعيّة العلميّة لعلى بن أبى طالب عليه السلام بالآيات والروايات. ومنها حديث "مدينة العلم" الذي صرّح بعض كبار علماء السنّة بحسنه، ومنهم من صحّحه كالطبري، والحاكم، والسيوطي. فدعوى ابن تيمية أنّ حدیث "مدینة العلم" أضعف وأوهى، إفکٌ فضیح. من هذا المنطلق اختار الباحث البحث، وهدفه هو الحصول على معيار صدق الحديث عند ابن تيمية، و نقد آرائه في حديث "مدينة العلم"، والمنهج الذى يعتمد عليه الباحث خلال دراسته هو المنهج الوصفى التحليلى.

 يفكّر ابن تيمية أنّ النبي صلى الله عليه وآله و سلّم إذا كان مدينة العلم لم يكن لهذه المدينة إلا باب واحد و لا يجوز أن يكون المبلِّغ عنه واحد، بل يجب أن يكون المبلِّغ عنه أهل التواتر. يرد عليه بأنّ کما لا یضرّ توحّد النبی صلّى الله علیه وآله وسلّم فی إبلاغه، بعد ثبوت حقّیّته، کذلک لا یضرّ توحّد الإمام فی تبلیغه عن النبی صلى الله عليه و آله و سلّم، بعد ثبوت حقّیّته بالأدلة الکثیرة ومنها حدیث مدینة العلم. إذن نظرية ابن تيمية حول حديث "مدينة العلم" - سنداً و متناً- غير قابل للقبول.  

الكلمات المفتاحية

حديث مدينة العلم، ابن تيمية، السند، المتن، النقد.

مقدمة                                       

        الحمد لله ربّ العالمين، الصّلاة والسّلام على أشرف الأنبياء والمرسلين، و على آله الطيّبين الطّاهرين. أمّا بعد، فإنّ الأحاديث الصحيحة الواردة في فضل أمير المؤمنين علي بن أبي طالب عليه السلام عديدة متكاثرة، وشهيرة متواترة. و منها حديث"مدينة العلم" أو حديث "الباب" الذي يدل على أعلميّة علي بن أبي طالب عليه السلام و عصمته.

أجمعت الشيعة على تواتر حديث "مدينة العلم"، وصرّح بعض كبار علماء السنّة بحسنه، ومنهم من صحّحه كمحمد بن جرير الطبري والحاكم النيسابوري والخطيب البغدادي والسيوطي، وقد أدرج صاحب الغدير قائمة تضم إحدى وعشرين محدثاً من محدثي أهل السنة بين محسّن للحديث ومصحّح له. ولكن ابن تيمية ينكر هذا الحديث من الأصل، و يشكل على متنه بإشكالات واهية و شنيعة، و جميعها قابلة للنقد. من هذا المنطلق اختار الباحث البحث و جعله موضع الدراسة و النقد.

يشتمل هذا البحث على ثلاثة فصول: الأول يحتوى على الكليات، والثاني يتعلق بتبيين سند حديث "مدينة العلم" عند ابن تيمية وإبطال نظريته، والثالث يبحث عن متن الحديث عنده و نقد أفكاره فيه. و في الأخير ذكر النتائج التي توصّل إليها من خلال البحث.     

الفصل الأول: الكليات

1- تبيين المسألة

حديث "الباب" أو روايت "مدينة العلم" الذي جعل فيه رسول الله - صلى الله عليه و آله و سلم- نفسه مدينة العلم، و عرّف الإمام على عليه السلام بابها. و ابن تيمية ينكر هذا الحديث سندا و بعد ذلك يشكل على متنه، و جميع الإشكالات قابلة للنقد.

2- السؤال الأصلى و الأسئلة الفرعية

1-2- السؤال الأصلى

ما هو نظرية ابن تيمية حول حديث "مدينة العلم" و ما هو نقدها؟

2-2- الأسئلة الفرعية

1- ما هو إشكال ابن تيمية على سند رواية "مدينة العلم" و ما هو جوابه؟

2- ما هى نظرية ابن تيمية فى متن حديث " الباب" و ما هو نقدها؟

3- سابقة البحث

1-3- تاريخية البحث

حديث "مدينة العلم" من زمن الرسول صلى الله عليه و آله و سلم كان مطروحا بين المسلمين. و ذكره الترمزي و الحاكم في كتبهم الحديثية، و كان موضعا للجدل بين علماء المسلمين. بعض منهم من صحّح هذا الحديث سندا و متنا، و بعض منهم من ضعّفه كابن تيمية. ولكن لم يكتب كتابا مستقلا حول هذا الحديث الأهم إلى زمن متأخر. فكتب السيد مير حامد حسين هندى - من علماء الشيعة- مجلدا كاملا حول هذا الحديث بالتفصيل، و طرحه أحمد المغربى - من علماء السنة- في كتاب مستقل تبيانا لأصحّ  سند له.      

2-3- المنابع

1-2-3- المنابع المستقيمة

1- کنتوری، میرحامد حسین، خلاصه عبقات الأنوار

2- الشوکانی، محمدعلی، جواب علی معنی حدیث أنا مدینة العلم و علی بابها

3-  المغربی، أحمد بن محمد بن الصدیق، فتح الملک العلی بصحة حدیث باب مدینة العلم.

4- صا‌ئغ‌، بدرالدین‌، أنا مدینة العلم و علی بابها

5- رفيعى، محسن، و شريفى، معصومه، باز خوانى نظريه ابن تيميه درباره حديث باب و نقد آن با تكيه بر منابع اهل سنت، علوم قرآن و حدیث :: سفینه :: پاییز 1391 ، سال 9 - شماره 36 ، از 29 تا 44.

2-2-3- المنابع غير المستقية

1- أمينى، الغدير، ج11، تحت شرح أشعار شمس الدين مالكى.

2- طبسى، محمد محسن، جايگاه روايي ابا صلت هروى از ديدگاه فریقین. ادیان، مذاهب و عرفان :: پژوهشنامه حکمت و فلسفه اسلامی :: زمستان 1388، شماره 30، از 91 تا 112.

4- أهداف البحث

1- الحصول على معيار صدق الحديث عند ابن تيمية

2- نقد آراء ابن تيمية في حديث "مدينة العلم"

5- منهج البحث

المنهج الذى يعتمد عليه الباحث خلال دراسته هو المنهج الوصفى التحليلى.

6- الجديد في البحث

حتى الآن لم تُكتب مقالة شاملة و لا كتابٌ يستوعب جميع جوانب آراء ابن تيمية حول حديث "مدينة العلم".

7- ثمرة البحث

إذا ثبت سند حديث "مدينة العلم" و متنه بأنه صحيح و قابل للاستدلال  فيثبت بذلك المرجعيّة العلميّة لعلى بن أبى طالب عليه السلام، و إحاطته لعلم النبى صلى الله عليه و آله وسلّم، و عصمته. و مع عدم صحّة الحديث لا يثبت به الأمور المذكورة، بل نحتاج في إثباتها إلى حديث آخر. 

الفصل الثانى:  دراسة سند حديث "مدينة العلم" عند ابن تيمية

1- كلمات حديث "مدينة العلم" فى الكتب الحديثية

 ورد  حديث "مدينة العلم" أو حديث "الباب" بثلاث عبارات في كتب حديثية:[1]

1- أنا مدينة العلم و علي بابها.[2]

2- أنا مدينة الحكمة و علي بابها.[3]

3- أنا دار الحكمة و علي بابها.[4]

2- تكذيب سند الحديث

قال ابن تيمية: "وأما حَدِيثُ  ((أَنَا مَدِينَةُ الْعِلْمِ)) فَأَضْعَفُ وَأَوْهَى وَلِهَذَا إنَّمَا يُعَدُّ فِي الْمَوْضُوعَاتِ الْمَكْذُوبَاتِ وَإِنْ كَانَ التِّرْمِذِيُّ قَدْ رَوَاهُ، وَلِهَذَا ذَكَرَهُ ابْنُ الْجَوْزِيِّ فِي الْمَوْضُوعَاتِ وَبَيَّنَ أَنَّهُ مَوْضُوعٌ مِنْ سَائِرِ طُرُقِهِ." [5]

و يكرّس في مكان آخر بعبارة تالية:

" وَمِمَّا يَرْوُونَهُ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَالَ: ((أَنَا مَدِينَةُ الْعِلْمِ وَعَلِيٌّ بَابُهَا)) فَأَجَابَ: هَذَا حَدِيثٌ ضَعِيفٌ بَلْ مَوْضُوعٌ عِنْدَ أَهْلِ الْمَعْرِفَةِ بِالْحَدِيثِ لَكِنْ قَدْ رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَغَيْرُهُ وَمَعَ هَذَا فَهُوَ كَذِبٌ." [6]

النقد

1- ذكر مير حامد حسين هندى 16 طرقا لهذا الحديث و يذكر أنه نُقل عن عشرة أصحاب و هم: الإمام على، والحسن، والحسين عليهم السلام، و ابن عباس، و جابر بن عبد الله الأنصارى، و ابن مسعود، و حذيفة بن يمان، و عبد الله بن عمر، و أنس بن مالك، و عمرو بن العاص.[7]   فكيف يكون هذا الحديث موضوعا؟

2- صرّح بعض كبار علماء السنّة بحسنه، ومنهم من صححه كيحيى بن معين، و محمد بن جرير الطبري وأبو عبد الله الحاكم النيسابوري والخطيب البغدادي والسيوطي، و منهم من ذكره مرسلا مسلّما، و منهم من وصف أمير المؤمنين بباب مدينة العلم، و منهم من يصفه في الأشعار بهذه الصفة.[8] مع هذه الأوصاف هل يمكن أن يكون هذا الحديث موضوعا؟ و مع ذلك يقبل ابن تيمية مكانة علماء الحديث المذكور، و يقول عنهم:

"وَلَيْسَ لِأَحَدِهِمْ مِنَ الْخِبْرَةِ بِالْأَسَانِيدِ مَا لِأَئِمَّةِ الْحَدِيثِ، كَشُعْبَةَ، وَيَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ الْقَطَّانِ، وَعَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ مَهْدِيٍّ، وَأَحْمَدِ بْنِ حَنْبَلٍ، وَعَلِيِّ بْنِ الْمَدِينِيِّ، وَيَحْيَى بْنِ مَعِينٍ، وَإِسْحَاقَ، وَمُحَمَّدِ بْنِ يَحْيَى الذُّهْلِيِّ، وَالْبُخَارِيِّ، وَمُسْلِمٍ، وَأَبِي دَاوُدَ، وَالنَّسَائِيِّ، وَأَبِي حَاتِمٍ وَأَبِي زُرْعَةَ الرَّازِيَّيْنِ، وَأَبِي عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَنْدَهْ، وَالدَّارَقُطْنِيِّ، وَأَمْثَالِ هَؤُلَاءِ مِنْ أَئِمَّةِ الْحَدِيثِ وَنُقَّادِهِ وَحُكَّامِهِ وَحُفَّاظِهِ الَّذِينَ لَهُمْ خِبْرَةٌ وَمَعْرِفَةٌ تَامَّةٌ بِأَحْوَالِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَأَحْوَالِ مَنْ نَقَلَ الْعِلْمَ وَالْحَدِيثَ عَنِ النَّبِيِّ مِنَ الصَّحَابَةِ وَالتَّابِعِينَ (وَتَابِعِيهِمْ) ، وَمَنْ بَعْدَهُمْ مِنْ نَقَلَةِ الْعِلْمِ. وَقَدْ صَنَّفُوا الْكُتُبَ الْكَثِيرَةَ فِي مَعْرِفَةِ الرِّجَالِ الَّذِينَ نَقَلُوا الْآثَارَ، وَأَسْمَاءَهُمْ، وَذَكَرُوا أَخْبَارَهُمْ، وَأَخْبَارَ مَنْ أَخَذُوا عَنْهُ، وَمَنْ أَخَذَ عَنْهُمْ مِثْلَ  كِتَابِ الْعِلَلِ وَأَسْمَاءِ الرِّجَالِ  عَنْ يَحْيَى الْقَطَّانِ، وَابْنِ الْمَدِينِيِّ، وَأَحْمَدَ، وَابْنِ مَعِينٍ، وَالْبُخَارِيِّ، وَمُسْلِمٍ، وَأَبِي زُرْعَةَ، وَأَبِي حَاتِمٍ، وَالنَّسَائِيِّ، وَالتِّرْمِذِيِّ، وَأَحْمَدَ بْنِ عَدِيٍّ، وَابْنِ حِبَّانَ، وَأَبِي الْفَتْحِ الْأَزْدِيِّ، وَالدَّارَقُطْنِيِّ، وَغَيْرِهِمْ." [9]

فلماذا ابن تيمية لم يذكر رواية أحمد بن حنبل و يحيى بن معين[10] وهما صحّحا حديث "مدينة العلم"؟

3- قال جلال الدين السيوطى عن هذا الحديث: قلت: حديث علي أخرجه الترمزى و الحاكم، و حديث ابن عباس أخرجه الحاكم و الطبرانى، و حديث جابر أخرجه الحاكم.... والحاصل أنه ينتهي بطرقه إلى درجة الحسن المحتج به، و لا يكون ضعيفا فضلا عن أن يكون موضوعا...[11]

4- ابن حجر يقول عن هذا الحديث:  "و هذا الحديث له طرق كثيرة فى مستدرك الحاكم أقلّ أحوالها أن يكون للحديث أصل، فلا ينبغى أن يطلق القول عليه بالوضع."[12]

5- ذكر ابن تيمية أن الترمزى نقل حديث "مدينة العلم" و مع ذلك جعله موضوعا. فهذا دليل على أنّ الترمزى كتب الأحاديث الموضوعة في كتابه، ولكن جميع أهل السنة و ابن تيمية نفسه قائلون بمكانة عالية للترمزى. فدعوى أن حدیث مدینة العلم أضعف وأوهى، ولهذا إنما یعدّ فی الموضوعات، إفک فضیح، لما عرفت سابقاً من صحّة هذا الحدیث واستفاضته وشهرته بل و تواتره، حتى تجلّى ذلک کالشمس المنجلی عنها الغمام على رغم آناف المنکرین الطّغام، فمن العجیب تعامی ابن تیمیّه عن جمیع تلک النصوص والتصریحات من کبار المحقّقین، ومشاهیر نقده الأخبار والحدیث المعتمدین!![13] 

الفصل الثالث: دراسة متن حديث "مدينة العلم" عند ابن تيمية

1- تكذيب متن الحديث

قال ابن تيمية: "وَالْكَذِبُ يُعْرَفُ مِنْ نَفْسِ مَتْنِهِ؛ لَا يَحْتَاجُ إلَى النَّظَرِ فِي إسْنَادِهِ: فَإِنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إذَا كَانَ  ((مَدِينَةَ الْعِلْمِ)) لَمْ يَكُنْ لِهَذِهِ الْمَدِينَةِ إلَّا بَابٌ وَاحِدٌ وَلَا يَجُوزُ أَنْ يَكُونَ الْمُبَلِّغُ عَنْهُ وَاحِدًا؛ بَلْ يَجِبُ أَنْ يَكُونَ الْمُبَلِّغُ عَنْهُ أَهْلَ التَّوَاتُرِ الَّذِينَ يَحْصُلُ الْعِلْمُ بِخَبَرِهِمْ لِلْغَائِبِ وَرِوَايَةُ الْوَاحِدِ لَا تُفِيدُ الْعِلْمَ إلَّا مَعَ قَرَائِنَ وَتِلْكَ الْقَرَائِنُ إمَّا أَنْ تَكُونَ مُنْتَفِيَةً؛ وَإِمَّا أَنْ تَكُونَ خَفِيَّةً عَنْ كَثِيرٍ مِنْ النَّاسِ أَوْ أَكْثَرِهِمْ فَلَا يَحْصُلُ لَهُمْ الْعِلْمُ بِالْقُرْآنِ وَالسُّنَّةِ الْمُتَوَاتِرَةِ؛ بِخِلَافِ النَّقْلِ الْمُتَوَاتِرِ: الَّذِي يَحْصُلُ بِهِ الْعِلْمُ لِلْخَاصِّ وَالْعَامِّ. وَهَذَا الْحَدِيثُ إنَّمَا افْتَرَاهُ زِنْدِيقٌ أَوْ جَاهِلٌ: ظَنَّهُ مَدْحًا؛ وَهُوَ مُطْرِقُ الزَّنَادِقَةِ إلَى الْقَدْحِ فِي عِلْمِ الدِّينِ - إذْ لَمْ يُبَلِّغْهُ إلَّا وَاحِدٌ مِنْ الصَّحَابَةِ."[14]

النقد

1-  کما أنّ نبیّ صلّى الله علیه وآله وسلّم بوحده کاف للإبلاغ عن الله عزّ وجلّ، وأنّه لثبوت حقّیّته غیرمحتاج إلى أن یشارکه فی الإخبار عن الله غیره، کذلک یکفی فی الإبلاغ عن النبی صلّى الله علیه وآله وسلّم وجود  أمیر المؤمنین علیه السلام، و لا حاجة إلى أن یشارکه أحد فی الإبلاغ کائناً من کان، للقطع بحقّیّه ما یبلّغه عن النبی صلّى الله علیه وآله وسلّم. وإنّ حدیث مدینة العلم ـ بالإضافة إلى غیره من الأدلة ـ شاهد صدق على ذلک. ومن هنا جعل أهل العلم والیقین حدیث مدینة العلم من أدلّة عصمة أمیر المؤمنین، وقد وقع التصریح بذلک من نصوص أعاظم المخالفین.

والحاصل: کما لا یضرّ توحّد النبی صلّى الله علیه وآله وسلّم فی إبلاغه، بعد ثبوت حقّیّته، کذلک لا یضرّ توحّد الإمام فی تبلیغه عن النبی صلى الله عليه و آله و سلّم، بعد ثبوت حقّیّته بالأدلة الکثیرة ومنها حدیث مدینة العلم.[15]

2- وأمّا قول ابن تیمیه: "ولهذا اتفق المسلمون على أنّه لا یجوز أن یکون المبلّغ عنه العلم واحدا، بل یجب أن یکون المبلّغون أهل التواتر، الذین یحصل العلم بخبرهم"[16] فظاهر السقوط جدّاً، لمنافاته لتصریحات أئمة علم أصول الفقه وعلوم الحدیث، کما لا یخفى على المتتبّع لها، فإنّ قاطبة أهل السنّة یوجبون العمل بخبر الواحد، ولم یخالف فی هذا الحکم إلاّ شاذ لا یعبأ به، وإلیک نص عبارة أبی الحسن البزدوی فی هذا المطلب، لیتّضح بطلان دعوى ابن تیمیّه بوجوه عدیدة:

قال البزدوی: "باب خبر الواحد، وهو الفصل الثالث من القسم الأول، وهو کلّ خبر یرویه الواحد أو الإثنان فصاعداً، لا عبرة للعدد فیه، بعد أن یکون دون المشهور والمتواتر، وهذا یوجب العمل ولا یوجب العلم یقیناً عندنا، وقال بعض الناس: لا یوجب العمل، لأنه لا یوجب العلم، ولا عمل إلاّ عن علم. قال الله تعالى: (وَلا تَقْفُ ما لَیْسَ لَکَ بِهِ عِلْمٌ)[17] وهذا لأنّ صاحب الشرع موصوف بکمال القدرة، فلا ضرورة له فی التجاوز عن دلیل یوجب علم الیقین، بخلاف المعاملات لأنها من ضروراتنا، و کذلک الرأی من ضروراتنا، فاستقام أن یثبت غیر موجب علم الیقین. وقال بعض أهل الحدیث: یوجب علم الیقین، لما ذکرنا أنه أوجب العمل، ولا عمل من غیر علم، وقد ورد الآحاد فی أحکام الآخره مثل: عذاب القبر، و رؤیة الله تعالى بالأبصار، و لا حظّ لذلک إلاّ العلم. قالوا: و هذا العلم یحصل کرامة من الله تعالى، فثبت على الخصوص للبعض دون البعض، کالوطء تعلّق من بعض دون بعض، ودلیلنا فی أنّ خبر الواحد یوجب العمل واضح، من الکتاب والسنة والإجماع والدلیل المعقول........" [18]

ولقد أکثر العلماء من الأدلة المختلفة فی هذه المسألة، وبلغ القول بحجیّة خبر الواحد حدّاً من الخطورة، حتّى ألّف الکثیرون من علماء أهل السنّة فی هذه المسألة مصنّفات مستقلاّت، نصّ على ذلک الحافظ النووی حیث قال: "وقد تظاهرت دلائل النصوص الشرعیّة والحجج العقلیّة، على وجوب العمل بخبر الواحد، وقد قرّر العلماء فی کتب الفقه والأصول ذلک بدلائله، وأوضحوه إیضاحا، وصنّف جماعات من أهل الحدیث وغیرهم مصنّفات مستکثرات مستقلات فی خبر الواحد ووجوب العمل به. والله أعلم"[19]

إذن أهل السنة والجماعة يعتمدون على الخبر الواحد كما لاحظت من النصوص الماضية و كلام ابن تيمية يخالفهم. 

3- قول ابن تيمية: "خبر الواحد لا یفید العلم الا بقرائن و تلک قد تکون منتفیة أو خفیّة عن أکثر الناس، فلا یحصل لهم العلم بالقرآن والسنن المتواترة"[20]  يرد عليه:

أولا:  لکنّ الحق الحقیق بالقبول هو: أنّه لا بدّ للمنصوب من قبل النبی صلّى الله علیه وآله وسلّم لأجل الإخبار والتبلیغ عنه إلى الأمّة، من حجة ـ من نص أو دلیل ـ تثبت حقیّته، کی تقبل منه الأمّة ما یبلّغه إلیها، ومع وجود النّص أو الدلیل لا حاجة إلى احتفاف خبره بقرینة، حتى یقال بأنها: "قد تکون منتفیة أو خفیة عن أکثر الناس، فلا یحصل لهم العلم بالقرآن والسنن المتواترة"، بل إنّ خبره یکون ـ بسبب النص علیه ـ مفیداً للعلم. وهذا المعنى ثابت فیما نحن فیه، لإفادة حدیث مدینة العلم نصب علی علیه السلام لهذا المنصب، فخبره علیه السلام مفید للعلم والیقین. ومن هنا یظهر أنّ قیاس خبره علیه السلام على خبر غیره من آحاد المخبرین، کقیاس الماء على السّراب، وهو یخالف الحق والصواب.[21]

ثانيا: ثم إنّ التخصیص بالقرآن والسنة لا وجه له، لأنه بناء على ما توهّمه ابن تیمیّة لا یثبت بخبر هذا المخبر علم مطلقاً، سواء کان قرآناً أو سنة متواترة، أو سنة غیر متواترة، فقصر نفی العلم على القرآن والسنّة المتواترة لا وجه له، بل کان مقتضى القاعدة أن یقول: "بالقرآن والسنة غیر المتواترة، بل السنّة المتواترة" کما لا یخفى على البصیر بأسالیب الکلام.[22]

2- نفى عصمة الإمام علي عليه السلام

يقول ابن تيمية: "وَإِذَا قَالُوا ذَلِكَ الْوَاحِدُ الْمَعْصُومُ يَحْصُلُ الْعِلْمُ بِخَبَرِهِ. قِيلَ لَهُمْ: فَلَا بُدَّ مِنَ الْعِلْمِ بِعِصْمَتِهِ أَوَّلًا، وَعِصْمَتُهُ لَا تَثْبُتُ بِمُجَرَّدِ خَبَرِهِ قَبْلَ أَنْ يُعْلَمَ  عِصْمَتُهُ، فَإِنَّهُ دَوْرٌ، وَلَا تَثْبُتُ  بِالْإِجْمَاعِ، فَإِنَّهُ لَا إِجْمَاعَ فِيهَا، وَعِنْدَ الْإِمَامِيَّةِ إِنَّمَا يَكُونُ الْإِجْمَاعُ حُجَّةً، لِأَنَّ فِيهِمُ الْإِمَامَ الْمَعْصُومَ، فَيَعُودُ الْأَمْرُ إِلَى إِثْبَاتِ عِصْمَتِهِ بِمُجَرَّدِ دَعْوَاهُ، فَعُلِمَ أَنَّ عِصْمَتَهُ لَوْ كَانَتْ حَقًّا لَا بُدَّ أَنْ تُعْلَمَ بِطَرِيقٍ آخَرَ غَيْرِ خَبَرِهِ. فَلَوْ لَمْ يَكُنْ لِمَدِينَةِ الْعِلْمِ بَابٌ إِلَّا هُوَ، لَمْ يَثْبُتْ لَا عِصْمَتُهُ وَلَا غَيْرُ ذَلِكَ مِنْ أُمُورِ الدِّينِ، فَعُلِمَ أَنَّ هَذَا الْحَدِيثَ إِنَّمَا افْتَرَاهُ زِنْدِيقٌ جَاهِلٌ ظَنَّهُ مَدْحًا، وَهُوَ مَطْرَقُ  الزَّنَادِقَةِ إِلَى الْقَدْحِ فِي دِينِ الْإِسْلَامِ إِذْ لَمْ يُبَلِّغْهُ إِلَّا وَاحِدٌ."[23]

النقد

1- أمّا قول ابن تيمية: "وإذا قالوا: ذلک الواحد معصوم یحصل العلم بخبره. قیل لهم: فلا بدّ من العلم بعصمته أولا" فالکلام علیه بوجوه:

أولا: کأنّ ابن تیمیّة لا یعلم بأنّ مقتضى مذهب الإمامیة هو القول بعصمة هذا المبلّغ المنصوب للتبلیغ!!

ثانيا: إنّ عصمة هذا المبلّغ الواحد ثابتة من حدیث مدینة العلم، وقد اعترف به بعض المنصفین من أهل السنّة، فیکون حدیث مدینة العلم دالاًّ على مبلّغیة أمیر المؤمنین علیه السلام وعصمته معاً. فبطل قوله: "فلا بدّ من العلم بعصمته أوّلا"

ثالثا: إنّ عصمة أمیر المؤمنین علیه السلام ثابتة من آیات من الکتاب، وأحادیث کثیرة عن النبی صلّى الله علیه وآله وسلّم في كتب السنة والشيعة معا.

رابعا: إنّ نصب هذا المبلّغ من قبل النبی صلّى الله علیه وآله وسلّم هو ـ عند التأمل ـ عین النصب للإمامة والخلافة، فیکون مجرّد النصب دلیل العصمة.

خامسا: لقد دلّت الآیة المبارکة: (وَما یَنْطِقُ عَنِ الْهَوى * إِنْ هُوَ إِلاّ وَحْیٌ یُوحى)[24] على أن جملة أفعال النبی صلّى الله علیه وآله وسلّم هی من جانب الله عزّ وجلّ، وعلى هذا یمکن أن یقال بکون الناصب للتبلیغ هو الله عزّ وجلّ نفسه، ولمّا کان هذا النصب عین النصب للإمامة والخلافة عن النبی صلّى الله علیه وآله وسلّم، وهی لا تثبت إلاّ للمعصوم، فالنصب الإلهی للتبلیغ کاشف عن اتّصاف المنصوب له بالعصمة.

وبما ذکرنا یظهر الجواب عن قوله: "وعصمته لا تثبت بمجرّد خبره، قبل أن یعلم عصمته، فإنّه دور" إذ لا توقُّف لثبوت عصمته على خبره، لکن یمکن إثبات عصمته بخبره أیضاً، لأنّ خبره لیس مجرداً، بل مقرون بالمعجزات الباهرة المتواترة الموجبة للعلم بالعصمة، فلا دور کذلک. [25]

2- وأمّا قول ابن تيمية: "ولا تثبت بالإجماع، فإنه لا إجماع فیها عند الإمامیة، وإنما یکون الإجماع حجة لأن فیهم الإمام المعصوم، فیعود الأمر إلى إثبات عصمته بمجرّد دعواه" فجوابه:

أولا: أنّه إن أراد نفی الإجماع من أصحاب الضلال فهذا لا یضرّنا أبداً، إذ لا حجّیة لإجماع هؤلاء أصلا، وإن أراد نفی إجماع الإمامیة، فهذا إنکار للبداهة، لأنّ الإمامیة أجمعین قائلون بعصمة هذا الواحد المبلّغ عن الرسول صلّى الله علیه وآله وسلّم.

ثانيا: ثم إنّ المراد من هذا المبلّغ هو أمیر المؤمنین علیه السلام، والنبىّ صلّى الله علیه وآله وسلّم داخل فی الإجماع المتحقّق على عصمته، وعصمة النبی صلّى الله علیه وآله وسلّم لا یرتاب فیها مؤمن، وإن کان لأهل السنة فیها کلام .

ثالثا: فإنّ الحسنین علیهما السلام داخلان فی المجمعین، وعصمتهما ثابتة بالدلائل القطعیة الأخرى غیر الإجماع.

رابعاً: فی المجمعین سائر أئمة أهل البیت، المعصومون بالأدلة من الکتاب والسنّة. فظهر بطلان دعواه بعود الأمر إلى إثبات عصمته بمجرّد دعواه، وظهر جواز الاستدلال بالإجماع لإثبات عصمة کلّ واحد من الأئمة الأطهار، لأنه لیس من قبیل إثبات عصمة ذاک الإمام بقول نفسه لیلزم الدور، وأمّا عصمة کلّهم، فقد ثبتت بالأدلة القطعیّة الأخرى غیر الإجماع، کما ثبت عصمة کلّ واحد منهم بها. وظهر أیضاً بطلان قوله بعد ذلک: "فعلم أنّ عصمته لو کانت حقّاً، لا بدّ أن تعلم بطریق آخر غیر خبره." لما عرفت من إمکان ثبوت عصمته بخبره، لاقترانه بما یوجب العلم والیقین، فضلا عن ثبوتها بالأدلّة والطرق الأخرى.

وإذ ظهر بطلان کلماته، فقد ظهر بطلان ما قاله کنتیجة لتلک الکلمات، وهو قوله: "فلو لم یکن لمدینة العلم باب إلاّ هو، لم یثبت لا عصمته ولا غیر ذلک من أمور الدّین."

وتحصّل: أنّ أمیر المؤمنین علیه السلام هو الباب لمدینة العلم، وهو المبلّغ الوحید عن النبی الکریم صلّى الله علیه وآله وسلّم، وإذا ثبت ذلک ثبتت عصمته وغیرذلک من أمور الدین.[26]

3-  وأمّا ما تفوّه به ابن تیمیّه لشدة عناده وحقده: "فعلم أنّ هذا الحدیث إنما افتراه زندیق جاهل، ظنّه مدحاً وهو یطرق الزنادقة إلى القدح فی دین الإسلام، إذ لم یبلّغه إلاّ واحد." فمن الکفریّات الشنیعة، والله سبحانه وتعالى حسیبه والمنتقم منه یوم القیامة.

لقد علمتَ أنّ حدیث مدینة العلم حدیث رواه أکابر العلماء الثقات عند أهل السنّة، طبقة بعد طبقة، و جیلا بعد جیل، و فیهم من حکم بصحّته، وجعله جماعة من أجلّى فضائل ومناقب النبی والوصی علیهما وآلهما الصلاة والسّلام… وقد وقفت على عبارات هؤلاء الکبار، وإفادات أولئک الأحبار، فیلزم من تقوّل ابن تیمیّه هذا أنّ یکون أولئک الأئمة الکبار والمشایخ العظام: عبد الله بن عثمان القارئ، وسفیان بن سعید الثوری، وعبدالرزاق الصنعانی، ویحیى بن معین، وسوید بن سعید الحدثانی شیخ مسلم، وأحمد بن حنبل، وعباد بن یعقوب الرواجنی شیخ البخاری، وأبو عیسى الترمذی، والحسین بن فهم البغدادی، وأبو بکر البزّار، ومحمد بن جریر الطبری، وأبو بکر الباغندی، وأبو العباس الأصم، وأبو الحسن القنطری، وأبو بکر الجعابی، وأبو القاسم الطبرانی، وأبو بکر القفّال، وأبو الشیخ الأصبهانی، وابن السقاء الواسطی، وأبو اللیث السمرقندی، ومحمد بن المظفر البغدادی، وابن شاهین البغدادی، وأبو الحسن السکری الحربی، وابن بطه العکبری، والحاکم النیسابوری، وابن مردویه الأصبهانی، وأبو نعیم الأصبهانی، وأبو الحسن العطّار، وأبو الحسن الماوردی، وأبو بکر البیهقی، وابن بشران، والخطیب البغدادی، وابن عبد البر، وأبو محمد الغندجانی، وابن المغازلی، وابو المظفر السمعانی، وأبو علی البیهقی، وشیرویه الدیلمی، وعبد الکریم السمعانی، وأخطب خوارزم، وابن عساکر، وأبو الحجاج الأندلسی، ومجد الدین ابن الأثیر، وعز الدین ابن الأثیر،....أن یکون کلّ واحد من هؤلاء زندیقاً جاهلاً!! وإذا کان هؤلاء زنادقة جهالا، فهل تبقى لمذهب أهل السنة من باقیة؟! بل عرفت أنّ هذا الحدیث الشریف قد رواه التابعون العظام، عن صحابة النبی علیه وآله السلام، فاعترفوا به وجعلوه فضیلة لمولانا أمیر المؤمنین، لا سیّما أصحاب الشورى، الذین تلقّوه بالتسلیم، وقد صرّح بثبوته عبد الرحمن ابن عوف منهم تصریحاً تامّاً.

ولقد عرفت سابقا أنّ النبی صلّى الله علیه وآله وسلّم لم یکتف بمجرّد قوله: "أنا مدینة العلم وعلی بابها"، بل إنّه بذل غایة الاهتمام فی إبلاغ ذلک إلى الأمة، إذ قاله فی یوم الحدیبیّة، مادّاً صوته، وآخذاً بعضد أمیر المؤمنین… إلى غیر ذلک من الأمور الدالّة على اهتمامه بإبلاغ هذا المعنى إلى الأمّة.

وبما ذکرنا یظهر أنّ ما قاله ابن تیمیّه لا یقول به إلاّ "زندیق جاهل، وهو یطرق الزنادقه إلى القدح فی دین الإسلام."[27]

نتيجة البحث

بعد دراسة حديث "مدينة العلم" – سنداً و متناً-  وصل الباحث إلى النتائج التالية:

1- منهج ابن تيمية في مقابل الأحاديث في مدح أهل البيت عليهم السلام منهج خاص الذي يشير إلى بغضه و عناده من آل البيت عليهم السلام. فمعيار صدق الحديث عنده غير مشخص.

2- صرّح بعض كبار علماء السنّة بحسنه، ومنهم من صححه كيحيى بن معين، و محمد بن جرير الطبري وأبو عبد الله الحاكم النيسابوري والخطيب البغدادي والسيوطي، و منهم من ذكره مرسلا مسلّما، و منهم من وصف أمير المؤمنين بباب مدينة العلم، و منهم من يصفه في الأشعار بهذه الصفة. فلماذا ابن تيمية لم يذكر روايتهم في كتبه؟

3-  کما لا یضرّ توحّد النبی صلّى الله علیه وآله وسلّم فی إبلاغه، بعد ثبوت حقّیّته، کذلک لا یضرّ توحّد الإمام فی تبلیغه عن النبی صلى الله عليه و آله و سلّم، بعد ثبوت حقّیّته بالأدلة الکثیرة ومنها حدیث مدینة العلم.

4-  أنّ أمیر المؤمنین علیه السلام هو الباب لمدینة العلم، وهو المبلّغ الوحید عن النبی الکریم صلّى الله علیه وآله وسلّم، وإذا ثبت ذلک ثبتت عصمته وغیرذلک من أمور الدین.

إذن نظرية ابن تيمية حول حديث "مدينة العلم" غير قابل للقبول.

المصادر و المراجع  

1- القرآن الكريم.          

2- ابن تيمية، أحمد، تقى الدين، الفتاوى الكبرى، تح: محمد عبد القادر عطا، ومصطفى عبد القادر عطا، دار الكتب العلمية، بيروت، ط 1، 1408هـ .ق.

3- ابن تيمية، أحمد، تقي الدين، أحاديث القصاص، تح: د. محمد بن لطفي الصباغ، الناشر: المكتب الإسلامي، بيروت،  ط 2، 1405هـ - 1985م.

4- ابن تيمية، أحمد، تقي الدين، مجموع الفتاوى، تح: عبد الرحمن بن محمد بن قاسم و ابنه محمّد،  الناشر: مجمع الملك فهد لطباعة المصحف الشريف، المدينة المنوّرة، المملكة العربية السعودية، ط بلا، 1425هـ-2004م.

5- ابن تيمية، أحمد، تقي الدين، منهاج السنة النبوية في نقض كلام الشيعة القدرية، تح: محمد رشاد سالم، الناشر: جامعة الإمام محمد بن سعود الإسلامية، ط 1، 1406 هـ - 1986 م.

6- البخاري، علاء الدين، عبد العزيز بن أحمد،  كشف الأسرار شرح أصول البزدوي، دار الكتاب الإسلامي ، ط بلا، بلا.

7- الترمزي، أبي عيسى محمد بن عيسى بن سورة، جامع الترمزى، بيت الأفكار الدولة، أردن، ط بلا، بلا.

8- الحاكم النيسابورى، محمد بن عبد الله، المستدرك على الصحيحين، تح: مصطفى عبد القادر عطا، دار الكتب العلمية، بيروت، ط بلا، بلا.

9- رضوانى، على أصغر، سلفى گرى(وهابيت) و پاسخ به شبهات، انتشارات مسجد مقدس جمكران، قم، ط 9، 1393ش.

10- رفيعى، محسن، و شريفى، معصومه، باز خوانى نظريه ابن تيميه درباره حديث باب و نقد آن با تكيه بر منابع اهل سنت، علوم قرآن و حدیث :: سفینه :: پاییز 1391 ، سال 9 - شماره 36 ، از 29 تا 44.

11- السيوطي، جلال الدين، عبد الرحمن، الللآلى المصنوعة فى الأحاديث الموضوعة، دار المعرفة، بيروت، لبنان،  ط بلا، بلا.

12-  الطبرانى، سليمان بن أحمد، تح: أحمدى عبد المجيد السلخى، ط بلا، بلا.

13- العسقلاني، أحمد بن علي بن حجر، لسان الميزان، تخريج: سلمان عبد الفتاح، أبو غدّة، مكتب المطبوعات الإسلامية، بيروت، ط 1، 1423هـ - 2002م.

14- كنتورى، مير حامد حسين، خلاصه عبقات الأنوار، حديث أنا مدينة العلم، تلخيص: سيد على ميلانى، ترجمه: محمد باقر محبوب القلوب، انتشارات نبأ، تهران، ط 1، 1387ش.

15- المزي، يوسف، جمال الدين أبي الحجاج، تهذيب الكمال في أسماء الرجال، تح: د. بشّار عوّاد معروف، مؤسسة الرسالة، بيروت، ط 1، 1413هـ - 1992م.

16- المغربي، أحمد بن محمد بن الصديق، فتح الملك العلي بصحّة حديث باب مدينة العلم علي، تح: محمد هادي أميني، إصفهان، مكتبة أمير المؤمنين، ط بلا، بلا.

17- النووي، محيي الدين، يحيى بن شرف،  أبو زكريا، المنهاج شرح صحيح مسلم بن الحجاج، دار إحياء التراث العربي، بيروت، ط 2، 1392ش.     

 

 

 


[1] - رفيعى، محسن، و شريفى، معصومه، باز خوانى نظريه ابن تيميه درباره حديث باب و نقد آن با تكيه بر منابع اهل سنت، ص33- 35.

[2] - الحاكم النيسابورى، محمد بن عبد الله، المستدرك على الصحيحين، ج3، ص138، حديث4639.  

[3] - المغربي، أحمد بن محمد بن الصديق، فتح الملك العلي بصحّة حديث باب مدينة العلم علي،ص43.

[4] - الترمزي، أبي عيسى محمد بن عيسى بن سورة، جامع الترمزى، بيت الأفكار الدولة، أردن، ط بلا، بلا، ص582، ح3723.

[5] - ابن تيمية، أحمد، تقي الدين، مجموع الفتاوى، ج4، ص410، و راجع: ابن تيمية، أحمد، تقي الدين، منهاج السنة النبوية في نقض كلام الشيعة القدرية، ج7، ص515.

[6] - ابن تيمية، أحمد، تقي الدين، أحاديث القصاص، ص62، و ابن تيمية، أحمد، تقي الدين، مجموع الفتاوى ، ج18، ص123-124، وص377،  ابن تيمية، أحمد، تقى الدين، الفتاوى الكبرى، ج5، ص89.

[7] - انظر: كنتورى، مير حامد حسين، خلاصه عبقات الأنوار، حديث أنا مدينة العلم، ص40.

[8] - راجع: المصدر السابق، ص34- 40.

[9] - ابن تيمية، أحمد، تقى الدين، منهاج السنة، ج7، ص310-311.

[10] - المزي، يوسف، جمال الدين أبي الحجاج، تهذيب الكمال في أسماء الرجال، ج18، ص77.

[11] - انظر: السيوطي، جلال الدين، عبد الرحمن، الللآلى المصنوعة فى الأحاديث الموضوعة ، ج1، ص334، و راجع: الطبرانى، سليمان بن أحمد، ج11، ص66، باب الظاء، حديث11061.

[12] - السيوطي، جلال الدين، عبد الرحمن، الللآلى المصنوعة فى الأحاديث الموضوعة ، ج1، ص334، و العسقلاني، أحمد بن علي بن حجر، لسان الميزان، ج2، ص465، و راجع: رضوانى، على أصغر، سلفى گرى(وهابيت) و پاسخ به شبهات،ص96-97، و الحاكم النيسابورى، محمد بن عبد الله، المستدرك على الصحيحين، ج3، ص138، حديث4639.   

[13] -انظر: كنتورى، مير حامد حسين، خلاصه عبقات الأنوار، حديث أنا مدينة العلم، ص693-695.

[14] -  ابن تيمية، أحمد، تقي الدين، مجموع الفتاوى، ج4، ص410، و راجع:  ابن تيمية، أحمد، تقي الدين، منهاج السنة النبوية، ج7، ص515-516.

[15] - انظر: كنتورى، مير حامد حسين، خلاصه عبقات الأنوار، حديث أنا مدينة العلم، ص701.

[16] - ابن تيمية، أحمد، تقى الدين، منهاج السنة، ج7، ص515. 

[17] - الإسراء، 36.

[18] - البخاري، علاء الدين، عبد العزيز بن أحمد،  كشف الأسرار شرح أصول البزدوي، ج2، ص370.

[19] - النووي، محيي الدين، يحيى بن شرف،  أبو زكريا، المنهاج شرح صحيح مسلم بن الحجاج، ج1، ص62. 

[20] - ابن تيمية، أحمد، تقى الدين، منهاج السنة، ج7، ص515.

[21] - راجع: كنتورى، مير حامد حسين، خلاصه عبقات الأنوار، حديث أنا مدينة العلم، ص726.

[22] - المصدر السابق، ص726.

[23] - ابن تيمية، أحمد، تقى الدين، منهاج السنة، ج7، ص516.

[24] - النجم، 3-4.

[25] -انظر: كنتورى، مير حامد حسين، خلاصه عبقات الأنوار، حديث أنا مدينة العلم، ص727-728.

[26] - راجع: المصدر السابق، ص728-729.

[27] - راجع: المصدر السابق، ص729-731.

ولايت فقيه از منظر آيات و روايات

ولايت فقيه از منظر آيات و روايات

     یکی از مسائل بسیار مهمی که واقعا مهجور مانده و کمتر به آن پرداخته می شود ، بحث پیرامون اثبات ولایت فقیه می باشد .دشمنان اسلام و ایران ، اهمیت ولایت مداری و پایندی به ارزش هایی مانند شهادت طلبی ، مهدویت و اصل ولایت فقیه را به طور کامل متوجه شده اند و تمام تلاش خود را جهت ضربه زدن به این ارزش های مهم انجام می دهند . ولایت فقیه ، همان ولایت رسول الله هست .

1- اثبات ولایت فقیه از طریق قرآن

ابتدا توجه به این نکته لازم است که گاه گمان می شود که تنها مدرک اسلامی بودن یک مسائله مطرح شدن آن به صورت صریح در قرآن کریم است و هر آنچه با قطع نظر از این که عقل و سنت نیز هر یک دلیل و مدرک معتبری در کنار قرآن است و اسلام را می توان و بلکه باید از مجموع هر سه منبع (قرآن , سنت و عقل ) شناخت به توضیح این مسائله می پردازیم که قرآن کریم که روشن گر راه هدایت است برخی از امور را خود به طور مستقیم و بدون واسطه بیان کرده است مانند کلیات بسیاری از احکام و برخی از امور را به طور غیر مستقیم و با واسطه پیامبران بیان کرده است ولی خودش به این واسطه تصریح کرده است . قرآن کریم تبیین هدایت خود را بر عهده پیامبر می گذارد ((و انزلنا الیک الذکر لتبین للناس ما نزل الیهم)) ; و این قرآن را به سوی تو فرو فرستادیم تا برای مردم آنچه را به سوی ایشان نازل شده است توضیح دهی, (نحل , آیه 44) و نیز فرمود ((ما آتاکم الرسول فخذوه و مانهاکم عنه فانتهوا)); آنچه را رسول خدا برای شما آورد بگیرید و آنچه را نهی کرد خودداری کنید, (حشر, آیه 7). از این آیات به دست می آید که خداوند متعال فرامین رسول خود را نازل منزل و قائم مقام خود کرده است پس هر چه را پیامبر خداگفت می توان با استناد به این آیات سخن غیر مستقیم قرآن دانست درست مانند این که مالک خانه از دو طریق می تواند کلید همه اتاقهای خانه را به شخصی بدهد یکی این که مستقیما" همه کلیدها را به او بدهد و دیگر این که کلید یک اتاق را بدهد و کلید اتاقهای دیگر را در آن اتاق بگذارد و محل آن را نیز به آن شخص بگوید در هر دو طریق می توان گفت آن شخص کلید همه اتاقها را از مالک خانه گرفته است . بااین سخن می توان عمل به همه روایات معصومین (ع ) را عمل به قرآن و سخن آنان را سخن قرآن دانست پس ادله روایی مسائله ولایت مطلقه فقیه که در همه کتب مربوط به ولایت فقیه آمده است بیگانه از استناد به قرآن نیست . به هر روی قبل از پاسخ , ذکر دو مقدمه لازم است :

مقدمه اول : ولایت مطلقه از سه طریق قابل اثبات است :

 الف ) دلیل عقلی محض : یعنی بدون استناد به هیچ آیه و روایتی .

ب ) دلیل نقلی محض : یعنی فقط از آیه و روایت و بدون مدد از دلیل عقلی .

ج ) دلیل تلفیقی : یعنی از مجموع دلیل عقلی و نقلی .

هر یک از این سه طریق به تفصیل در کتب مربوطه مطرح شده است ولی در این پاسخ فقط بخش قرآنی آن (یعنی استناد ولایت فقیه به قرآن ) مطرح می شود.

مقدمه دوم : در ولایت مطلقه فقیه ولایت به معنی زعامت ، رهبری و حکومت اسلامی و اطلاق آن بدین معنا است که دایره اختیارات در ولایت فقیه اختصاص به یک حوزه خاص از مسائل اجتماعی ندارد بلکه هر حوزه ای را که دخالت حکومت در آن لازم است شامل می شود پس فقیه می تواند در تمامی این حوزه ها با رعایت ضوابط و قوانینی که اسلام تعیین کرده تصمیم گیری و اجرا کند. ولایت مطلقه فقیه هرگز بدین معنا نیست که فقیه در تصمیم گیری و اجرا هیچ قید و شرطی ندارد و رعایت هیچ ضابطه ای بر او لازم نیست این معنای باطل از ولایت مطلقه توسط هیچ فقیهی ابراز نشده فقط توسط ناآگاهان یا غرض ورزان شده است پس اطلاق در ولایت به معنای گستره ولایت بر همه حوزه هایی است که دخالت حکومت در آن لازم است بدین معنا اختیارات همه حکومت های متعارف در سطح جهان امروز مطلقه است زیرا بقای هیچ حکومتی بدون اجازه و دخالت در همه حوزه های حکومتی امکان پذیر نیست البته هر حکومتی در جهان برای تصمیم گیری و اجرا رعایت ضوابطی را بر خود لازم می داند در حکومت ولایت فقیه نیز این ضوابط از سوی دین تعیین شده است . پس از ذکر این دو مقدمه به اصل پاسخ می پردازیم : برای اثبات ولایت مطلقه فقیه از قرآن باید مسائل زیر را از قرآن به دست آورد:

1- اصل حکومت و ولایت در اسلام .

 2- اطلاق ولایت .

3- شرایط حاکم یعنی اسلام و ایمان، عدالت آگاهی به اسلام (فقاهت )، کفایت.

 مسائله اول: اصل حکومت در اسلام : لزوم حکومت در هر جامعه ای از بدیهیات و نیازی به دلیل ندارد در اینجا فقط به آیاتی که ولایت پیامبر اکرم (ص ) و امامان معصوم (ع ) را ثابت می کند اشاره می کنیم . ((النبی اولی بالموئمنین من انفسهم )) (احزاب آیه 6) پیامبر نسبت به مردم از خود آنان سزاوارتر است پس اگر تصمیمی درباره آنان گرفت اطاعت از آن بر مردم لازم است ((و ماکان لموئمن و لا موئمنه اذ اقضی الله و رسوله امرا ان یکون لهم الخیره من امرهم )) (احزاب آیه 36) هیچ مرد و زن با ایمانی حق ندارند هنگامی که خدا و پیامبرش مطلبی را لازم بدانند اختیاری از خود در برابر خدا داشته باشند و مجموع آیاتی که امر به اطاعت از پیامبرکرده است (آل عمران آیه 32 و132) (مائده آیه 92) (انفال آیه 20) (نور آیه 54 و 56) (محمد آیه 33) (مجادله آیه 13) (تغابن آیه 12) و درباره ولایت امامان معصوم (ع ) نیز فرمود: ((انما ولیکم الله و رسوله والذین آمنوا الذین یقیمون الصلوه و یوئتون الزکاه و هم راکعون )) (مائده آیه 55) همانا ولی شما خداوند است و پیامبر او و موئمنانی که نماز را بر پا می دارند و در حال رکوع زکات می دهند این آیه به اتفاق همه مفسرانی که (شیعه و سنی ) برای آن شائن نزول ذکر کرده اند در حق علی بن ابیطالب (ع ) نازل شده است ((اطیعوا الله و اطیعوا الرسول و اولی الامر منکم )) (نسائ آیه 59) از خداوند و پیامبر و اولو الامرتان اطاعت کنید مسائله دوم : اطلاق ولایت : آیاتی که در مسائله قبل ذکر شد هیچ یک اطاعت از پیامبر و اولواالامر را مقید به مورد خاص یا موضوع خاص نکرده است و آن را به صورت مطلق بیان فرموده است . در آیه دوم اطاعت هر حکمی که خدا و رسول کردند بر مردم لازم شمرده شده است . در آیاتی که امر به اطاعت از پیامبر و اولواالامر شده است نیز هیچ قیدی برای آن ذکر نشده است پس از این آیات اطلاق در ولایت ثابت می شود. از آن جا که حکومت در جامعه اسلامی از ضروریات است و اختصاص به زمان رسول الله یا زمان حضور معصوم ندارد از این آیات می توان اطلاق ولایت را برای حاکم اسلامی در هر دوره ای ثابت کرد. مسائله سوم شرایط حاکم و ولی : شرط اول : اسلام و ایمان . خداوند می فرماید: ((لن یجعل الله للکافرین علی الموئمنین سبیلا"; خداوند هرگز کافران را بر موئمنان سلطه نمی دهد)), (نسائ آیه 141) و ((لایتخذ الموئمنون الکافرین اولیائ من دون الموئمنین و من یفعل ذالک فلیس من الله فی شی ئ; موئمنان نباید کافران را به جای موئمنان دوست و ولی خود بگیرند و هر کس چنین کند از لطف و ولایت خدا بی بهره است )), (آل عمران آیه 28). شرط دوم : عدالت در مقابل ظلم است . خداوند حکومت و ولایت ظالمین را نمی پذیرد پس حاکم و ولی باید عادل باشد. فرمود: ((ولاترکنوا الی الذین ظلموا فتمسکم النار; به ستم پیشگان گرایش نیابید که آتش دوزخ به شما خواهد رسید)), (هود آیه 113) و این رکون در روایات به رکون دوستی و اطاعت تفسیر شده است , (تفسیر علی بن ابراهیم ج , 1 ص , 338) و در شرط امامت به حضرت ابراهیم فرمود: ((قال انی جاعلک للناس اماما" قال و من ذریتی قال لاینال عهدی الظالمین )) (بقره آیه 124) خدا فرمود: من تو را پیشوای مردم گماردم گفت : و از فرزندان من ؟ فرمود: عهد من به ستمکاران نمی رسد شرط سوم : فقاهت . حاکم اسلامی باید عالم به احکام اسلام باشد تا بتواند آنها را اجرا کند در زمان پیامبر(ص ) و امام معصوم (ع ) این علم از سوی خداوند به آنان داده شده است و در زمان غیبت امام معصوم (ع ) داناترین مردم به احکام یعنی فقها این علم را دارند قرآن درباره شرط علم می فرماید: ((افمن یهدی الی الحق احق ان یتبع امن لایهدی الا ان یهدی فمالکم کیف تحکمون ; آیا کسی که به راه حق هدایت می کند سزاوارتر است ک از او پیروی شود یا کسی که راه نمی یابد مگر آن که راه برده شود شما را چه می شود؟ چگونه داوری می کنید؟)), (یونس , آیه 35). فقیه کسی است که با تخصصی که سالها در تحصیل آن کوشش کرده خودش می توان احکام اسلام را از قرآن و سنت و عقل و اجماع به دست آورد و غیر فقیه کسی است که این تخصص را ندارد و باید احکام اسلام را از فقیه بیاموزد. اشکال : غیر فقیه می تواند احکام اسلام را از فقیه بگیرد و حکومت کند پس لازم نیست خودش فقیه باشد. پاسخ : اولا", آگاهی های لازم از اسلام برای حکومت اختصاص به فتوا ندارد تا گفته شود غیر فقیه از فقیه تقلید می کند بلکه در بسیاری از موارد فقیه باید با توجه به ملاک های ترجیح در تزاحم احکام و یا تشخیص موارد مصلحت به حکم حکومتی صادر کند و حکم حکومتی خارج از دایره فتوا و تقلید است . صدور حکم حکومتی در تخصص فقیه است . ثانیا" آیا غیر فقیه اطاعت از فقیه را در همه موارد بر خود لازم می داند؟ یا فقط در مواردی که خود تشخیص می دهد از فقیه اطاعت می کند در صورت دوم هیچ ضمانت بر اطاعت از فقیه وجود ندارد و در صورت اول در واقع آن فقیه ولایت دارد و این شخص مجری از سوی او به شمار می آید این با ولایت فقیه منافاتی ندارد. اشکال : در این آیه اطاعت از ((من یهدی الی الحق )) سزاوارتر از ((من لایهدی الایهدی )) معرفی شده است و در تطبیق آن بر مورد ما اطاعت از فقیه را سزاواتر از اطاعت غیر فقیه می داند. این است که پس اطاعت غیر فقیه نیز با وجود فقیه مقبول است گرچه اطاعت از فقیه بهتر است (مانند این سخن را ابن ابن الحدید در شرح خود بر نهج البلاغه ج , 9 ص , 328 نسبت به مقایسه امام علی (ع و خلفای پیش از او می گوید) پاسخ : این سزاواتر بودن سزاواری در حد الزام است یعنی فقط باید از او پیروی کرد به قرینه اینکه در ذیل آیه مردم را توبیخ می کند که چرا از ((من یهدی الی الحق )) پیروی نمی کنید ((فما لکم کیف تحکمون )) این سزاواری در حد الزام در واقع معنای صفت تفصیلی را ساقط می کند مانند آیه ((واولوا الارحام بعضهم اولی ببعض )) (احزاب آیه 6) که در بحث ارث است و وجود هر طبقه مانع از ارث طبقه دوم می شود. آیات بیشمار دیگری نیز وجود دارد که فضیلت عالمان را بر غیر عالمان بیان کرده است , (زمر, آیه 9). شرط چهارم : کفایت : یعنی توانایی شایستگی در اداره امور جامعه که از آن به مدیر و مدبر بودن نیز تعبیر می شود. حضرت یوسف فرمود: ((قال اجعلنی علی خزائن الارض انی حفیظ علیم ; گفت مرا بر خزائن این سرزمین بگمار که من نگهبان امین و کاردانم )), (یوسف , آیه 55). درباره داستان حضرت موسی و دختر شعیب نیز فرمود: ((ان خیر من استئجرت القوی الامین ; بهترین کسی که می تواند به کارگیری (اوست که ) توانای دستکار است )), (قصص , آیه 26). در داستان عفریت جنی و حضرت سلیمان (ع ) نیز از قول آن عفریت فرمود: ((و انی علیه لقوی امین ; من بر این کار توانای درستکارم )), (نمل آیه 39). از مجموع این آیات به دست می آید اگر کسی کاری و پستی را به عهده می گیرد باید توانایی و صلاحیت لازم برای آن را داشته باشد. از مجموع آیاتی که در این موضوعات ذکر شد می توان تصویری کلی از سیمای حاکم از دیدگاه قرآن به دست آورد در منطق قرآن حکومت و زمامداری تنها شایسته کسانی است که از صلاحیتهای علمی و اخلاقی و توانمندی های لازم برخودار باشند. به دست آوردن این تصویر در زمان غیبت امام معصوم (ع ) بر ولایت مطلقه فقیه تطبیق می کند. از طرف دیگر حکومت اسلامی حکومت قانون خداست ((و من لم یحکم بما انزل الله فاولئک هم الکافرون ; و آن بدون حاکمیت دین شناسی و متخصص مستعد در اجرای احکام الهی ( فقیه عادل و جامع الشرایط) امکان پذیر نیست )), (مائده , آیه 44). برای مطالعه بیشتر مستندات قرآنی ولایت مطلقه فقیه و حکومت اسلامی به منابع زیر رجوع کنید: 1- نگاهی به مبانی قرآن ولایت فقیه علی ذوعلم موئسسه فرهنگی دانش و اندیشه معاصر پاییز 79. 2- پیام قرآن ج 10 قرآن مجید و حکومت اسلامی آیت الله مکارم شیرازی مدرسه امام علی بن ابی طالب قم 1374. ((اظهار نظر دقیق شما ]با ذکر شماره نامه قبلی [ درباره ی پاسخ ها, موجب تکامل و پویایی کار ماست ))

1- آیه مبارکه ۵۹ سوره نساء : یَا أَیُّهَا الَّذِینَ آمَنُوا أَطِیعُوا اللَّـهَ وَأَطِیعُوا الرَّسُولَ وَأُولِی الْأَمْرِ مِنکُمْ – اى کسانى که ایمان آورده‌اید ، خدا را اطاعت کنید و پیامبر و اولیاى امر خود را [ نیز ] اطاعت کنید .

از ظاهر آیه برمی آید که در هر زمان یا رسول و یا اولی الأمر وجود دارد که مردم بتوانند از آنها اطاعت کنند و دین خدا را از آنها دریافت نمایند . حال سوال اینجاست که اکنون ولی ظاهر ما چه کسی است ؟ به هر حال باید اولی الأمر در زمان ما نیز حضور داشته باشند تا ولایت خدا را دریافت کنیم . واضح است وقتی ما در غیبت امام معصوم هستیم باید دینمان را از دین شناس بگیریم و او را اولی الأمر خود قرار دهیم . چون باید در هر زمان اولی الأمر ظهور داشته باشد تا امکان اطاعت و عملی کردن این آیه برای همگان فراهم گردد .

2- آیه ۲۵۷ سوره مبارکه بقره : اللَّـهُ وَلِیُّ الَّذِینَ آمَنُوا یُخْرِجُهُم مِّنَ الظُّلُمَاتِ إِلَى النُّورِ ۖ وَالَّذِینَ کَفَرُوا أَوْلِیَاؤُهُمُ الطَّاغُوتُ یُخْرِجُونَهُم مِّنَ النُّورِ إِلَى الظُّلُمَاتِ ۗ أُولَـٰئِکَ أَصْحَابُ النَّارِ ۖ هُمْ فِیهَا خَالِدُونَ – خداوند سرور کسانى است که ایمان آورده‌اند . آنان را از تاریکی ها به سوى روشنایى به در مى‌برد . و[لى‌] کسانى که کفر ورزیده‌اند ، سرورانشان [همان عصیانگران =] طاغوتند ، که آنان را از روشنایى به سوى تاریکی ها به در مى‌برند . آنان اهل آتشند که خود ، در آن جاودانند .

در اینجا خداوند ولایت و حکومت را فقط به دو دسته تقسیم می کند : ۱) ولایت الله ۲) ولایت طاغوت . که اگر فرد حاکم و هدایت کننده مردم و حکومت غیر از احکام خدا را در جامعه و حکومت عملی کند قطعا طاغوت خواهد بود . پس برای قرار گرفتن در لوای ولایت الله باید فردی دین شناس و آگاه به دین را در راس حکومت داشته باشیم تا مردم و حکومت تحت ولایت خدا قرار بگیرند و اِلّا حاکم غیر دینی ، مردم و حکومت را در مسیر غیر از احکام خدا هدایت می کند و این همان طاغوت است که در آیه وعده آتش به پیروان آن داده شده است .

اثبات ولایت فقیه از طریق نقلی یا روائی

۱- آیه ۱۲۲ سوره مبارکه توبه : وَمَا کَانَ الْمُؤْمِنُونَ لِیَنفِرُوا کَافَّهً ۚ فَلَوْلَا نَفَرَ مِن کُلِّ فِرْقَهٍ مِّنْهُمْ طَائِفَهٌ لِّیَتَفَقَّهُوا فِی الدِّینِ وَلِیُنذِرُوا قَوْمَهُمْ إِذَا رَجَعُوا إِلَیْهِمْ لَعَلَّهُمْ یَحْذَرُونَ – شایسته نیست مؤمنان همگى [ براى جهاد ] کوچ کنند . پس چرا از هر فرقه‌اى از آنان ، دسته‌اى کوچ نمى‌کنند تا [ دسته‌اى بمانند و ] در دین آگاهى پیدا کنند و قوم خود را – وقتى به سوى آنان بازگشتند بیم دهند – باشد که آنان [ از کیفر الهى ] بترسند ؟

همان طور که از آیه بالا نیز بر می آید ؛ ائمه اطهار در عصر خود افرادی فقیه و آگاه به احکام و معارف دین را تربیت می کردند و به مناطقی که به امام دسترسی نداشتند می فرستادند تا پاسخگوی سوالات دینی مردم باشند و احکام دین را برای آنان بیان نمایند . و ما نیز هم اکنون به امام دسترسی نداریم پس بنا به سنت ائمه اطهار باید به آگاهان و فقهای دین مراجعه کنیم .

2-  امام عصر در پاسخ یکی از یاران خود به نام اسحاق ابن یعقوب که درباره ی رویداد های جدید عصر غیبت سوال می کند و راه چاره جست و جو می کند ، می فرماید :

« و اما الحوادث الواقعه فارجعوا فیها إلی رواه حدیثنا فانهم حجتی علیکم و انا حجه الله علیهم » (۳) – اما وقایعی که رخ خواهد داد و مسائل مستحدثه ، پس در مورد آنها به راویان احادیث ما رجوع کنید که آنان حجت من بر شما و من حجت خداوند بر آنان هستم .

و با این بیان ، حضرت مهدی (عج) فقهاء را به عنوان نوّاب عام خود بر مسلمانان قرار داده اند . (۴)

۳-  امام صادق علیه السلام در بیان ویژگی های مرجع می فرمایند :

« فاما من کان من الفقهاء: صائناً لنفسه ، حافظاً لدینه ، مخالفاً علی هواه ، مطیع لامر مولاه ، فللعوام این یقلدوه ،و ذلک لا یکون الا لبعض فقهاء الشیعه لا کلهم » – هر کس از فقها که نگهدارنده ی نفس خود ، نگهبان دین خود ، مخالفت کننده با هوی و هوس خود ، فرمانبردار فرمان خداوند خود باشد ، پس بر مردم است که از او پیروی کنند . این ویژگی ها وجود ندارد مگر در برخی از فقیهان شیعه ، نه در همه آن ها . (۵)

۴- قال رَسُولُ اللَّهِ (ص) : الفُقَهاءُ أُمَناءُ الرّسُل . . . (۶) – رسول اکرم (ص) می فرماید : « فقها امین و مورد اعتماد پیامبرانند . . . »

یکی از وظایف مهم فقیهان ، امانت داری انبیا بیان شده است .

 بی تردید، امانت انبیا رسالت و وظایف آنان می باشد . انبیا وظیفه داشتند که مرجعیت دینی و سیاسی مردم را بر عهده گرفته و آنها را به عبودیت و بندگی خدا و معنویت گرایی فرا خوانده ، به هدایت و ارشاد آنان بپردازد . از سوی دیگر انبیا وظیفه داشتند با تشکیل حکومت ، احکام الهی را اجرا نمایند . فقیهان نیز به عنوان وارثان انبیا امانت داران پیامبران هستند ، از این رو وظیفه دارند مردم را به خدا محوری ، فرا خوانده و به هدایت و ارشاد آنان بپردازند ، از این رو فقیهان در طول تاریخ به بیان احکام الهی پرداخته و مرجعیت دینی را بر عهده داشتند . دو مقوله اجتهاد و تقلید ریشه در این حدیث و احادیث دیگر دارد .

برخی از فقیهان مانند امام راحل (ره) یکی از وظایف و امانت انبیا را تشکیل حکومت دانسته و باور دارند که فقیهان وظیفه دارند حکومت تشکیل داده و عملاً رهبری دینی و سیاسی مردم را بر عهده گرفته و به اجرای احکام الهی بپردازند ، از این رو امام راحل (ره) یکی از دلایل ولایت فقیه را همین حدیث دانسته است . (۷)

منابع

1- http://deldadegan.ir/%D8%A7%D8%AB%D8%A8%D8%A7%D8%AA-%D9%88%D9%84%D8%A7%DB%8C%D8%AA-%D9%81%D9%82%DB%8C%D9%87-%D8%A7%D8%B2-%D8%B7%D8%B1%DB%8C%D9%82-%D9%82%D8%B1%D8%A2%D9%86-%D8%B1%D9%88%D8%A7%DB%8C%D8%AA-%D8%B9%D9%82%D9%84/

2- https://hawzah.net/fa/Question/View/62628

ریا اور اس  كے نتائج

  ریا  اور اس  كے نتائج

ہرعمل کی قدر و قیمت اس کے سبب کے ساتھ وابستہ ہوتی ہے ، یا دوسرے لفظوں میں اسلام کی نگاہ میں ہر عمل کی بنیاد اس کی  نیت پر ہوتی ہے، وہ بھی  خالص نیت ۔ اسلام ہر چیز سے پہلے نیت کے بارے میں تحقیق کرتا ہے ، لہٰذا ایک مشہور حدیث میں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے آیا ہے۔

انما الاعمال بالنیات و لکل امرء ما نوی

" ہر عمل نیت کے ساتھ وابستہ ہے او ر ہر شخص کا عمل میں حصہ ، اس کی اس نیت کے مطابق ہوگا، جو وہ عمل میں رکھتا تھا "۔ 

اور اسی حدیث کے ذیل میں آیا ہے : 

" جو شخص خد اکے لیے جہاد کرے اس کا اجر خدائے بزرگ و بر تر ہے ۔ اور جو شخص مالِ دنیا کے لیے جنگ کرے، یہاں تک کہ ایک عقال (وہ چھوٹی سی رسّی جس سے اونٹ کے پاوٴں کو باندھتے ہیں  ) لینے کے لیے کرے اس کا حصہ بس وہی ہے ۔ ۱" 

یہ سب اس بناء پر ہے کہ  نیت سے ہی عمل وجود میں آتا ہے ۔ وہ شخص جو خدا کے لیے کوئی کام انجام دیتا ہے ، تو وہ اس کی بنیاد کومحکم کرتا ہے ، اور اس کی تمام کوشش یہ ہوتی ہے کہ لوگ اس سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھائیں ۔ لیکن جو شخص تظاہر اور ریا کاری کے لیے کسی عمل کو انجام دیتا ہے وہ صرف ا س کے ظاہر اور زرق و برق پرنظر رکھتا ہے ، اور وہ اس کی گہرائی و بنیاد اورحاجت مندوں کے استفادے کو کوئی اہمیت نہیں دیتا ۔ 

وہ معاشرہ جو ریا کاری کا عادی ہو جاتا ہے وہ نہ صرف  خدا ، اخلاق حسنہ اور ملکاتِ فاضلہ سے دور کردیا جاتا ہے ، بلکہ اس کے تمام اجتماعی پروگرام مفہوم و مطلب سے خالی ہو جاتے ہیں ،  اور ایسے انسان اور اس قسم کے معاشرے کی سر نوشت کتنی دردناک ہے ؟ ! ۔ 

" ریا " کی مذمت میں بہت زیادہ روایات آئی ہیں ، یہاں تک کہ اس کو شرک کی ایک نوع کہا گیا ہے ، اور ہم یہاں تین ہلادینے والی روایات پر قناعت کرتے ہیں ۔ 

۱۔ ایک حدیث میں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے آیاہے : 

"سیاٴ تی علی الناس زمان تخبث فیہ سرائر ھم ۔ ونحن فیہ علانیتھم، طمعاً فی الدنیا لایدون بہ ما عند ربھم، یکون دینھم ریاء لایخالطھم خوف، یعمعھم اللہ بعقاب فیدعونہ  دعا ء الغریق فلا یستجب لھم! : 

"لوگوں پر ایک ایسا زمانہ آنے والا ہے جب ان کے باطن قبیح ، گندے اور آلودہ ہوجائیں ، اور ان کے ظاہر زیبا اور خوبصورت ہوں گے۔ دنیا میں طمع کی خاطر وہ اس سے اپنے پروردگار کی جزاوٴں کے طلب گار نہیں ہوں گے ۔ ان کا دین ریا ہو جائے گا، خوف خدا ان کے دل میں باقی نہ رہے گا، خد اان سب کو ایک سخت عذاب میں گرفتار کرے گا ، اور وہ جتنا بھی ایک ڈوبنے والے کی طرح خدا کو پکاریں گے ، ہرگز  ان کی دعا قبول نہ ہوگی"۔ ۲

۲۔ ایک دوسری حدیث میں امام جعفر صادق علیہ السلام سے آیا ہے کہ آپ نے اپنے ایک صحابی"زرارہ" سے فرمایا : 

"من عمل للناس کان ثوابہ علی الناس یا زرارہ ! کل ریاء شرک!"۔ 

"جو شخص لوگوں کے لیے عمل کرے گا اس کا اجر و ثواب لوگوں پر ہی ہو گا۔ اے زرارہ ! ہر ریا شرک ہے ۔" 3

۳۔ ایک اور حدیث میں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ آلہ وسلم سے آیاہے :" ان المرائی یدعی یوم القیامة باربعة اسماء یا کافر ! یا فاجر ! غادر ! یا خاسر ! حبط عملک ، و بطل اجرک، فلا خلاص لک الیوم ، فالتمس اجرک ممن کنت تعمل لہ!: 

" ریا کار شخص کو قیامت کے دن چار ناموں سے پکارا جائے گا: اے کافر! اے فاجر ! اے حیلہ گر ! اے خاسر و  زیاں کار ! تیرا عمل نابود ہو گیا ہے ، تیرا اجر و ثواب باطل ہوچکا ہے۔ آج تیرے لیے نجات کی کوئی راہ نہیں ہے ، لہٰذا تو اپنا اجر و ثواب اس سے طلب کر جس کے لیے تو عمل کرتا تھا۔" 4

خد اوندا !  خلوص نیت سخت مشکل کام ہے ، تو خود اس راہ میں ہماری مدد فرما۔ 

پروردگارا ! ہمیں ایسا ایمان مرحمت فر ما کہ ہم تیرے ثواب و عقاب کے علاوہ اور کچھ نہ سوچیں، او رمخلوق کی رضا  و خشنودی اور غصہ و غضب تیری راہ میں ہمارے لیے یکساں ہو۔ 

بار لہٰا ! اس راہ میں جو خطا اور غلطی اب تک ہم نے کی ہے وہ ہمیں بخش دے ۔ 

آمین یا رب العالمین ۔

حوالہ جات:

۱۔وسائل الشیعہ، جلد اول، ص ۳۵ ( ابواب مقدمہٴ العبادات باب ۵ حدیث ۱۰)۔

۲۔ اصول کافی ، جلد ۲ ،باب الریاء، حدیث ۱۴۔

3۔   وسائل الشیعہ ، جلد اول، ص ۴۹، ( حدیث  ۱۱  کے ذیل میں )۔

4۔   وسائل الشیعہ ، جلد اول، ص ۵۱، ( حدیث  ۱۶ کے ذیل میں )۔

___________

سایت رسمی دفتر آیت اللہ مکارم شیرازی۔

اسلامی اتحاد کا عملی حل

اسلامی اتحاد کا عملی حل

سوا ل : قرآن کریم اور احادیث نبوی میں تفرقہ سے بچنے اور اتحاد تک پہنچنے کا کیا راہ حل بیان ہوا ہے؟

قر آن کریم کی آیات اور احادیث نبوی سے استفادہ ہوتا ہے کہ کتاب خدا اور پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے معصوم اہل بیت(علیہم السلام) سے تمسک کے ذریعہ انسان تفرقہ سے دورہو کر خدا سے نزدیک ہوسکتا ہے ۔

خداوند عالم فرماتا ہے : )وَ اعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّہِ جَمیعاً وَ لا تَفَرَّقُوا وَ اذْکُرُوا نِعْمَتَ اللَّہِ عَلَیْکُمْ إِذْ کُنْتُمْ اٴَعْداء ً فَاٴَلَّفَ بَیْنَ قُلُوبِکُمْ فَاٴَصْبَحْتُمْ بِنِعْمَتِہِ إِخْواناً وَ کُنْتُمْ عَلی شَفا حُفْرَهٍ مِنَ النَّارِ فَاٴَنْقَذَکُمْ مِنْہا کَذلِکَ یُبَیِّنُ اللَّہُ لَکُمْ آیاتِہِ لَعَلَّکُمْ تَہْتَدُونَ ( (۱) ۔

 اور اللہ کی ر سّی کو مضبوطی سے پکڑے رہو اور آپس میں تفرقہ نہ پیدا کرو اور اللہ کی نعمت کو یاد کرو کہ تم لوگ آپس میں دشمن تھے اس نے تمہارے دلوں میں اُلفت پیدا کردی تو تم اس کی نعمت سے بھائی بھائی بن گئے اور تم جہّنم کے کنارے پر تھے تو اس نے تمہیں نکال لیا اور اللہ اسی طرح اپنی آیتیں بیان کرتا ہے کہ شاید تم ہدایت یافتہ بن جاو ۔

حدیث ثقلین سے استفادہ ہوتا ہے کہ قرآن و عترت خداوند عالم کی دورسیاں ہیں جو انسان کو گمراہی اور ضلالت سے نجات دے سکتی ہیں، اور حق و حقیقت کی طرف راہنمائی ہوسکتی ہے ۔

ترمذی اپنی سند کے ساتھ جابر بن عبداللہ سے نقل کرتے ہیں کہ حجه الوداع میں عرفہ کے روز رسول خدا (ص) کو دیکھا کہ آپ ایک اونٹ پر سوار تھے اور خطبہ دے رہے تھے میں نے سنا کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے فرمایا: اے لوگو! میں تمہارے درمیان دو گرانقدر چیزیں چھوڑے جارہاہوں اگر تم ان سے متمسک رہوگے تو کبھی گمراہ نہیں ہوگے اور وہ دو چیزیں قرآن او رمیری عترت ہیں(۲) ۔

کتاب خدا اور اہل بیت (علیہم السلام) ایسی دو رسیاں ہیں جو خدا کی طرف ہدایت کرتی ہیں، ان میں سے ایک قرآن صامت (قرآن) ہے اور دوسری قرآن ناطق (اہل بیت (علیہم السلام)) ہیں اور امت اسلامی پر واجب ہے کہ ان دونوں سے تمسک کرکے اپنے آپ کو گمراہی سے نجات دلائیں اور ہدایت الہی تک پہنچیں ۔

لہذا بعض روایات میں ” ما ان اعتصمتم بھما“ بیان ہوا ہے اور دوسری بعض روایات میں ”ثقلین“ اور ”حبلین“ بیان ہوا ہے (۳) تاکہ اس آیت ”وَ اعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّہِ جَمیعاً وَ لا تَفَرَّقُوا “سے سازگار ہوسکے ۔

قرآن کریم کی آیات سے بھی قرآن و عترت کے حبل اللہ اور معصوم ہونے کو ثابت کیا جاسکتا ہے

قرآن کریم کے متعلق خداوند عالم فرماتا ہے : ) لا یَاٴْتیہِ الْباطِلُ مِنْ بَیْنِ یَدَیْہِ وَ لا مِنْ خَلْفِہِ تَنْزیلٌ مِنْ حَکیمٍ حَمیدٍ ((۴) جس کے قریب سامنے یا پیچھے کسی طرف سے باطل آبھی نہیں سکتا ہے کہ یہ خدائے حکیم و حمید کی نازل کی ہوئی کتاب ہے ۔

اور عترت و اہل بیت (علیہم السلام) کے متعلق قرآن کریم فرماتا ہے : ) إِنَّما یُریدُ اللَّہُ لِیُذْہِبَ عَنْکُمُ الرِّجْسَ اٴَہْلَ الْبَیْتِ وَ یُطَہِّرَکُمْ تَطْہیراً ( (۵) ۔

بس اللہ کا ارادہ یہ ہے اے اہلبیت علیہم السّلام کہ تم سے ہر برائی کو دور رکھے اور اس طرح پاک و پاکیزہ رکھے جو پاک و پاکیزہ رکھنے کا حق ہے ۔(۶) ۔

 

___________________

۱۔ سورہ آل عمران، آیت ۔

۲۔ صحیح ترمذی ، ج، ص ۔

۳۔ رجوع کریں، حدیث الثقلین۔

۴۔ سورہ فصلت، آیت ۔

۵۔ سورہ احزاب ، آیت ۔

۶۔ علی اصغر رضوانی، امام شناسی و پاسخ بہ شبھات (۱)، ص۱۸ ۔

. http://makarem.ir

 

امام حسين عليه السلام كى كربلا ميں زيارت كے دنيوى و اخروى فوائد

امام حسين عليه السلام كى كربلا ميں زيارت كے دنيوى و اخروى فوائد

تحریر: سید غیور الحسنین

 

   زيارت امام حسين عليه السلام كو روايات ميں بهت اهميت دي گئى هے اور اس كے بهت زياده دنيوى اور اخروى فوائد ذكر كيے گئے هيں.يه فوائد ايك جگه ذكر نهيں هوئے لهذا ان فوائد كو روايات سے استقراء كركے آپ كى خدمت ميں بيان كيا جا رها هے.

 

دنيوى فوائد:

1- رزق ميں اضافه هوتا هے.

2- عمر طولانى هوتى هے.

3- انسان زندگى ميں فقر و فاقه سے محفوظ رهتا هے.

4- انسان پرمستقبل ميں آنے والى پريشانياں دفع هوتى هيں.

 

اخروى فوائد:

1- زيارت كے ايام زائر امام حسين(ع) كى زندگى ميں شمار نهيں هوں گے.

2-زيارت امام حسين (ع) عرش پر الله كى زيارت كے برابر هے.

3- زيارت امام حسين (ع) الله كى راه ميں هزار غلام آزاد كرنے كےمانند هے.

4- زيارت امام حسين (ع) راه خدا ميں جهاد كے ليے ايك هزارگهو‎‎ڑے دينے كے برابر هے.

5- امام حسين (ع) كى زيارت سے 200حج و عمره (جو صحيح اور مقبول هوں) كا ثواب ملتا هے.

6- زائر امام حسين(ع) كے گذشته گناه معاف هو جاتے هيں.

7- اگر زائر عيد فطر يا عيد قربان كى رات  يا 15 شعبان كى رات امام حسين(ع) كى قبر مطهر كى زيارت كرے تو اس كے گذشته اور آئنده كے گناه بهى معاف هو جاتے هيں.

8- اگر كوئى شخص عاشور كے دن امام حسين(ع) كى كربلا ميں زيارت كرے بهشت اس پر واجب هو جاتى هے.

 

حواله:

مناقب اهل بيت، (فارسى)، تحرير: سيد محمد نجفى  يزدى، كوثر كوير، قم، 1392، ج2، ص290-298 .   

 

 

اهل بيت خدا کے  اسماء حسنی ھیں

اهل بيت خدا کے  اسماء حسنی ھیں

عن مولای علی ابن موسی رضا  عليہ السلام

قال ابو عبداللہ الصادق علیہ السلام...

واللہ! نحن اسماء الحسنی التی لا یقبل اللہ من العباد عملا الا بمعرفتنا......

امام صادق علیہ السلام کا فرمان ھے...

خدا کی قسم! ھم خدا کے وہی اسماء حسنی ھیں جن کی شناخت کے بغیر اللہ بندوں میں کسی کا عمل قبول نہ کرے گا

بحوالہ....

تفسیر عیاشی /ج ۲/ص ۴۲

تفسیر برھان /ج۲/ص ۵۲

بررسی سندی دعای سلامت امام زمان (ع)

دعای سلامت امام زمان (عج) -که در منابع مختلف، با اندکی تفاوت ذکر شده است- به چهار طریق وارد شده: 1. کافی از محمد بن عیسی از صالحان (معصومان): ظاهراً بین کلینی و محمد بن عیسی راویانی وجود دارند که به قرینه حذف شده اند؛ آنها عبارتند از: احمد بن محمد، ابوالحسن علی بن حسن بن علی بن فضال و ابوجعفر محمد بن عیسی یقطینی. 2. اقبال: سید بن طاووس، از جماعتی از اصحاب خود، از جمله ابن ابی قرة و او به اسنادش از علی بن حسن بن علی بن فضال و او از محمد بن عیسی بن عبید، او نیز به اسنادش از معصومان(ع). 3. کفعمی در المصباح و البلد الامین بدون سند آورده است. 4. کفعمی در البلد الامین، تحت عنوان دعای کنزالعرش، به طور مرسل از پیامبر(ص).

با بررسی این طرق، به این نتیجه می رسیم که دو طریق اول، صحیح است، و دربارة دو طریق آخر نیز با این که این دعا ضمن یک دعای طولانی ذکر شده است، باید گفت علی رغم عدم ذکر سند، وثاقت و اعتبار مؤلف می تواند در اعتبار و پذیرش روایت مؤثر باشد.

أللَّهُمَّ کُنْ لِوَلِیِّکَ الْحجّة بن الحسن، صَلَوَاتُکَ عَلَیْهِ وَ عَلی آبَائِهِ فِی هذِهِ السَّاعَةِ وَ فِی کُلِّ سَاعَة، وَلِیّاً وَ حَافِظاً، وَ قَائِداً وَ نَاصِراً، وَ دَلِیلًا وَ عَیْناً، حَتّی تُسْکِنَهُ أَرْضَکَ طَوْعاً، وَ تُمَتِّعَهُ فِیهَا طَوِیلاً.

همانگونه که می دانید، یکی از مهمترین وظایفی که شیعه منتظر در عصر غیبت و انتظار، بر عهده دارد، دعا برای تعجیل فرج و ظهور حضرت صاحب الأمر - روحی و أرواح العالمین له الفداء - و سلامتی آن حضرت است. البتّه دعا در اینباره، همچون سایر موارد، به هر زبان و بیانی که باشد مقبول درگاه الهی بوده و چندان تفاوتی نمی کند. آنچه مهمّ است، روح دعا و شرایط کیفی آن است که در منابع روایی و دینی ما فراوان به آن توصیه شده است. در این میان، اهمّیّت و ارزش دوچندان ادعیه مأثوره (دعاهایی که از زبان مبارک اهل بیت عصمت و طهارت( صادر شده اند) به یمن و برکت نَفَسهای قدسیّ آن انوار مطهّر، بر احدی از شیعیان پوشیده نیست.

در این نوشته مختصر، قصد داریم به بررسی اهمیّت و اعتبار سندی طرق مختلف نقل یکی از مشهورترین و معمولترین ادعیه زمان در غیبت یعنی دعای سلامت امام زمان(ع) پرداخته، و در نهایت، به صورت خلاصه در شرح و توضیح محتوای این دعا نیز مطالبی را به عرض خوانندگان محترم برسانیم. امیدواریم که آن سفینه نجات بشریّت و خورشید درخشان حقیقت، هر چه زودتر، چهره سیاه شب یلدای غیبت را در هم شکند و دل و جان هر منتظر عاشق، با طلوع آن آفتاب حیات بهاری شود؛ آمین!

این دعای شریف به یکی از چهار طریق ذیل در منابع حدیثی و دعایی شیعه وارد شده است:

1. ثقة الإسلام، محمّد بن یعقوب کلینی در کتاب بسیار معتبر کافی1، به نقل از محمّد بن عیسی، و او با اسناد خود از معصومان( (بدون آنکه اسمی از معصوم خاصّی نام برده باشد) این دعا را به طور خاص برای دعای شب بیست و سوّم ماه مبارک رمضان نقل کرده و گفته است در تمام ماه مبارک رمضان و همچنین در تمام لحظات عمر، خواندن این دعا خوب است.

2. مرحوم سیّد بن طاووس به نقل از جماعتی از اصحاب خود (از جمله از کتاب ابن أبی قرّة و او با اسنادش از علی بن حسن بن علیّ الفضّال و او از محمّد بن عیسی بن عبید و او با اسنادش از معصومان(ع)) باز به طور خاص برای شب بیست و سوّم ماه مبارک رمضان، و سپس تعمیم آن به تمام ماه مبارک رمضان و سپس به همة لحظات.

مرحوم سیّد بن طاووس این طریق را در اقبال الأعمال، (ص 85، فصل فیما نذکره ممّا یختم به کلّ لیلة من شهر الصیام)، آورده و مرحوم مجلسی هم آن را از همان کتاب در کتاب خود بحار الأنوار، (ج 97، ص 349) نقل کرده است. همچنین در کتاب مستدرک سفینة البحار (ج 6، ص428) نیز این طریق از الاقبال نقل شده است.

3. مرحوم کفعمی در دو کتاب خود (المصباح، ص 146؛ و البلد الأمین، ج1، 145)، دعایی را به عنوان دعای ساعت دوازدهم روز-که به حضرت صاحب العصر (ع) اختصاص یافته است- بدون اسناد ذکر کرده است که ضمن آن، این عبارات شریف هم، با اندکی اختلاف آمده است. مرحوم مجلسی هم این طریق را در کتابش بحار الأنوار (ج83، ص355 باب أدعیة الساعات) عیناً از این دو کتاب نقل کرده است.

4. همچنین مرحوم کفعمی در کتاب خود البلد الأمین (ص360)، دعایی را تحت عنوان دعای کنز العرش به صورت مرسل از حضرت نبی اکرم (ع) نقل کرده است که ضمن آن نیز، این عبارات با کمترین اختلاف ذکر شده است.

بررسی طریق اوّل (الکافی، ج4، ص162، باب الدعاء فی العشر الأواخر من شهر رمضان، ح4)

متن آمده در این کتاب، چنین است:

مُحَمَّدُ بْنُ عِیسی، بِإِسْنَادِهِ عَنِ الصَّالِحِینَ2(، قَالَ:3 تُکَرِّرُ4 فِی لَیْلَةِ ثَلَاث وَ عِشْرِینَ مِنْ شَهْرِ رَمَضَانَ هذَا الدُّعَاءَ سَاجِداً وَ قَائِماً وَ قَاعِداً، وَ عَلَی کُلِّ حَال وَ فِی الشَّهْرِ کُلِّهِ، وَ کَیْفَ أَمْکَنَکَ وَ مَتَی حَضَرَکَ مِنْ دَهْرِکَ، تَقُولُ بَعْدَ تَحْمِیدِ اللّهِ5 ـ تَبَارَکَ وَ تَعَالی ـ وَ الصَّلَاةِ عَلَی النَّبِیِّ (ع):

أللّهُمَّ کُنْ لِوَلِیِّکَ ـ فُلَانِ بْنِ فُلَان6 ـ فِی هذِهِ السَّاعَةِ7 وَ فِی کُلِّ سَاعَة، وَلِیّاً وَ حَافِظاً، (وَ نَاصِراً وَ دَلِیلًا، وَ قَائِداً وَ عَوْناً وَ عَیْناً) 8، حَتّی تُسْکِنَهُ أَرْضَکَ طَوْعاً، وَ تُمَتِّعَهُ9 فِیهَا طَوِیلًا.

میان این عبارت با آنچه در میان عموم متداول است (همانگونه که در پانوشت نیز ملاحظه می فرمایید)، چند اختلاف عمده وجود دارد که عبارتند از:

1. در متن مشهور به جای عبارت فلان بن فلان در این طریق، عبارت الحجّة بن الحسن، صلواتک علیه و علی آبائه آمده است. و در واقع، در این متن، نام شریف امام زمان(عج) به صراحت ذکر نشده است.

امّا با توجّه به متن و سند این خبر، مسلّم است که مراد از عبارت فلان بن فلان، نام شریف آن حضرت است. این اضمار خللی به اعتبار این طریق نمی رساند. شبیه این مسأله، در سایر اخبار و روایات شیعه نیز مکرّر دیده شده که نام مبارک معصوم(ع) و یا برخی دشمنان معروف آنها، به خاطر مصالحی همچون تقیّه و امثال آن، از ناحیه خود معصوم(ع) یا راویان خبر، ذکر نشده و در عوض، عباراتی، همچون فلان و امثال آن آورده شده است.

علاوه بر این، مرحوم کفعمی و مرحوم سیّد بن طاووس- که در این طریق، اسم حضرت را با کنایه ذکر کرده اند- در نقل طریق دوّم -که بعد از این ذکر خواهد شد- به صراحتً نام و القاب آن حضرت را ذکر کردهاند.

2. اختلاف دوّم، عبارت و عون در این طریق، است که در متن مشهور ذکر نشده است. این اختلاف نیز با توجّه به اینکه این عبارت در بیشتر نسخه های خطّی کتاب کافی و مصادر دیگر این طریق، نیامده است، در معرض تردید بوده، و می توان از آن چشمپوشی کرد.

3. تفاوت دیگر، در عبارت و قائداً و ناصراً و دلیلاً و عین است که در این طریق، به جای آن، عبارت و ناصراً و دلیلاً و قائداً و عوناً و عین آمده است. این باره نیز، علاوه بر اینکه در غالب پس بعد از کافی، همچون: تهذیب، مصباح المتهجّد، مختصر بصائر، مزار، مصباح، البلد الأمین و فلاح السائل این اختلاف وجود ندارد، همانگونه که گفته شد، عبارت و عون نیز در اکثر نسخه های کافی نیست؛ بنابراین، اختلاف موجود در این کتاب با متن مشهور، تنها در ترتیب این چهار کلمه خواهد بود.

احوال سندی طریق اوّل

سندی که در کتاب کافی برای این خبر وجود دارد ـ علی الظاهر ـ عبارت است از: مُحَمَّدُ بْنُ عِیسَی، بِإِسْنَادِهِ عَنِ الصَّالِحِینَ (. نکتهای که در نگاه ابتدایی به این سند، نزد اهل فنّ مسلّم است این است که مرحوم کلینی صاحب کتاب کافی، نمیتواند بدون واسطه از شخص محمّد بن عیسی روایت نقل کند؛ به این سبب، در اینگونه موارد، غالب صاحبنظران و محقّقان، امثال این اسانید را بر سند حدیث و یا احادیث قبلی معلّق فرض کردهاند. در خصوص این حدیث، سند، بر احمد بن محمّد، عن علی بن الحسن و در حدیث دوم از همان باب، معلّق شده و در نهایت، سند حدیث چنین خواهد بود: احمد بن محمّد، عن علی بن الحسن، عن محمّد بن عیسی، بإسناده، عن المعصومین الصالحین ]الصادقین ( [

از مؤیّدهای دیگر این تعلیق، آن است که در طریق پس از آن نیز، خبر به وسیله علی بن حسن بن علی الفضّال از شخص محمّد بن عیسی نقل شده است. در ادامه، به بررسی اجمالی این سند می پردازیم:

راوی نخست: احمد بن محمّد

این شخص، در صدر اسناد احادیث فراوانی از کتاب کافی، به دوگونه مختلف آمده است; در برخی موارد، با اضافه نام جدّش آمده- که در این صورت ماهیّت او کاملاً معلوم است، - و در برخی از موارد- که کم هم نیست-، به صورت مطلق، یعنی احمد بن محمّد آمده است. در صورت دوم، بحث است که این شخص کدام احمد بن محمّد است؟ در این زمینه، هفت احتمال ابتدایی وجود دارد. هر هفت نفر، از مشایخ مرحوم کلینی بودهاند یا یا کلینی از آنهاروایت نقل کرده است:10

1. ابو عبد اللّه، احمد بن محمّد بن طلحة العاصمی؛

2. ابو العبّاس، احمد بن محمّد بن سعید بن عبد الرحمان الهمدانی (ابن عقدة)؛

3. ابو جعفر، احمد بن محمّد بن عیسی بن عبد اللّه الأشعری القمّی؛

4. احمد بن محمّد بن خالد البرقی؛

5. احمد بن محمّد بن عبد اللّه؛

6. احمد بن محمّد بن علی؛

7. احمد بن محمّد الکوفی.

با توجّه به اینکه شیخ کلینی معمولاً از از چهارنفر اخیر یا یک یا چند واسطه روایت نقل کرده است و از طرفی روایت برخی از این چهار نفر، از شخص علی بن الحسن و یا محمّد بن عیسی سابقه ندارد احتمال وجود آنان کاملاً منتفی است. در میان سه نفر اول، مرحوم کلینی در اسانید کتاب کافی، از شخص اوّل، یعنی احمد بن محمّد عاصمی، تقریباً 145 روایت، از احمد بن محمّد بن سعید تقریباً چهار روایت و از احمد بن محمّد بن عیسی تقریباً 34 روایت، بدون واسطة ظاهری نقل کرده است. از طرفی دیگر، میان این سه نفر، آنکه در کتاب کافی، بدون واسطه از شخص محمّد بن عیسی روایت نقل کرده است، تنها احمد بن محمّد بن عیسی است که از وی تقریباً 182 روایت که بدین گونه نقل کرده است؛ بنابراین، قویترین احتمال موجود میان این سه نفر، همان احمد بن محمّد بن عیسی است. اگر چه اغلب محقّقان، در این زمینه، انصراف احمد بن محمّد را به عاصمی دانستهاند و اگر چه در نهایت، هر کدام از این سه نفر پذیرفته شوند، در نتیجه تفاوتی نخواهد بود، چرا که هر سه نفر، از راویان معتبرند که از ناحیه عالمان رجال هیچ جرحی بر آنها، وارد نشده است. اینجا به صورت مختصر به برخی گفته های رجالیان معروف در شرح حال آنها اکتفا می کنیم:

نفر اوّل (ابو عبد اللّه، احمد بن محمّد بن طلحة العاصمی الکوفی) کسی است که مرحوم نجاشی (رجالی مشهور) در توصیفش گفته است: ثقة فی الحدیث، سالماً خیّراً، له کتب11. و مرحوم علّامه مرحوم ابن داود دربارهاش گفتهاند: ثقة فی الحدیث، سالم الجنبة12.

ابو العبّاس، احمد بن محمّد بن سعید بن عبد الرحمان الهمدانی (ابن عقدة) کسی است که مرحوم شیخ طوسی در رجال خود او را چنین ستوده است: جلیل القدر، عظیم المنزلة، له تصانیف کثیرة، ذکرناها فی کتاب الفهرست، و کان حفظة13. مرحوم نجاشی گفته است: هذا رجل جلیل فی أصحاب الحدیث، مشهور بالحفظ و الثقة، له کتب، منها...14. و یا مرحوم علّامه در وصفش گفته است: جلیل القدر، عظیم المنزلة، و کان حفظة، له کتب ذکرناها فی کتابنا الکبیر، منها...15.

ابن داود گفته است: أمره فی الجلالة أشهر من أن یذکر16. مرحوم شیخ حرّ نیز در خاتمه کتاب وسائل گفته است: وثّقه النعمانی فی الغیبة، و وثّقه ابن شهر آشوب.

نفر سوم، ابو جعفر، احمد بن محمّد بن عیسی بن عبد اللّه الأشعری القمّی نیز کسی است که مرحوم شیخ طوسی دربارهاش آورده است: ثقة، له کتاب، کان شیخ القم و فقیهها غیر مدافع، من أصحاب الرضا(ع).17 نجاشی درباره او گفته است: شیخ القمّیّین، و وجههم، و فقیههم، غیر مدافع، لقی أبا الحسن الرضا (ع) و أبا الحسن العسکری (ع)، له کتب، منها....18 مرحوم علّامه در وصفش گفته است: لقی أبا الحسن الرضا (ع) و أبا الحسن العسکری(ع)، و کان ثقة، و له کتب ذکرناها فی کتابنا الکبیر.19 و ابن داود نیز چنین گفته است: له کتب، لقی أبا جعفر الثانی(ع) و أبا الحسن الثالث(ع).20

راوی دوّم: أبو الحسن علیّ بن الحسن بن علیّ بن فضّال (الفیّاض الکوفی)

این شخص از محمّد بن عیسی، حدوداً 16 خبر، تنها در کتب اربعه نقل کرده است و در طبقه معصومان از رسول(ع) تا امام هادی( واقع می شود. مرحوم شیخ طوسی در رجال خود در توصیف او چنین آورده است: فطحیّ المذهب، ثقة، کوفیّ، کثیر العلم، واسع الأخبار، جیّد التصانیف، غیر معاند، و کان قریب الأمر إلی أصحابنا الإمامیّة القائلین بالإثنی عشر، له کتب، منها...21 و نجاشی گفته است: کان فقیه أصحابنا بالکوفة، و وجههم، و ثقتهم، و عارفهم بالحدیث، و المسموع قوله فیه، سمع منه شیئاً کثیراً، لم یعثر علی زلّة فیه، و لا یشینه، و قلّ ما روی عن ضعیف، و کان فطحیّ.22 علّامه نیز اضافه کرده است: و أنا أعتمد علی روایته و إن کان مذهبه فاسد.23 و مرحوم ابن داود نیز گفته است: له کتب، لقی أبا جعفر الثانی(ع) و أبا الحسن الثالث(ع)24؛ بنابراین، در وثاقت این شخص تردیدی وجود ندارد.

راوی سوّم: أبو جعفر محمّد بن عیسی بن عبید بن یقطین العبیدی الیقطینی

مرحوم شیخ طوسی، در رجال خود این شخص را تضعیف کرده است. وجه آن را هم این دانسته که مرحوم ابن بابویه، اسم او را در نوادر الحکمة ذکر نکرده و به او نسبت غلوّ داده است. مرحوم شیخ حرّ در خاتمه کتاب وسائل، در جواب مرحوم شیخ گفته است:

و لایلزم منه الضعف، فلا توقّف فی توثیقه، و لا معارض له، و نقل الکشّی عن الفضل أنّه کان یحبّ العبیدی و یثنی علیه و یمیل إلیه، و یقول لیس فی أقرانه مثله؛

یعنی نیامدن نام او در کتاب مذکور، هرگز نمی تواند نشان دهنده تضعیف او به وسیله ابن بابویه یا دلیل مرحوم شیخ باشد؛ پس چون دلیل دیگری بر تضعیف او نقل نشده و از طرفی دیگر مرحوم کشّی در فضیلت این شخص گفته است که عبیدی (از راویان مشهور و ثقه که در عصر خود نظیری نداشته) او را دوست داشته و از او تعریف و تمجید کرده است؛ بنابراین در توثیق این شخص، نباید توقّف کرد و گفتة مرحوم کشّی در حقیقت، با ابن بابویه معارضت نیست.

به نظر ما، جمله گفته، مرحوم کشّی با ابن بابویه معارضت ندارد، تنها در صورتی صحیح است که فقط اسم او را در کتاب نوادر الحکمة نیاورده باشد، ولی اگر به غلوّ او تصریح کرده باشد، در معارضت آنها تردیدی وجود ندارد.

پس از مرحوم شیخ، تقریباً همه عالمان رجال او را توثیق کرده اند؛ برای مثال مرحوم نجاشی در وصف او گفته است: جلیل فی أصحابنا، ثقة، عین، کثیر الروایة، حسن التصانیف.25 مرحوم علّامه در حقّ او گفته است: و الأقوی عندی قبول روایته.26 و مرحوم شیخ حرّ گفته است که: هذا فوق التوثیق، و هو یبطل نسبة الغلوّ فیه.27 یعنی آنچه از ارتباط و برخورد عبیدی با او نقل شد، بالاتر از توثیق نیز به حساب می آید.

در نهایت ـ همچنان که ملاحظه فرمودید ـ همه راویان موجود در سند این طریق موثّقند که در کنار این قضیّه، اعتبار کتاب کافی و مؤلّف آن نزد عموم دانشمندان- به ویژه آنها که نزدشان قاعده اعتبار کتب پذیرفته شده است- اعتبار این خبر را مضاعف میکند.

بررسی طریق دوّم (الإقبال، ص85، فصل فیما نذکره ممّا یختم به کلّ لیلة من شهر الصیام)

متن آمده در این کتاب به این نحو است:

فمن الروایة فی الدعاء لمن أشرنا إلیه( ما ذکره جماعة من أصحابنا، و قد اخترنا ما ذکره ابن أبی قرّة فی کتابه، فقال بإسناده إلی علی بن الحسن بن علی بن فضال، عن محمّد بن عیسی بن عبید، بإسناده عن الصالحین(، قال:

و کرّر فی لیلة ثلاث و عشرین من شهر رمضان، قائمًا و قاعداً و علی کلّ حال، و الشهر کلّه و کیف أمکنک و متی حضرک فی دهرک تقول بعد تمجید اللّه تعالی و الصلاة علی النبی و آله(:

أللّهمّ کن لولیّک القائم بأمرک الحجّة، 28 محمّد بن الحسن المهدی - علیه و علی آبائه أفضل الصلاة و السلام - فی هذه الساعة، و فی کلّ ساعة، ولیّاً و حافظاً، و قاعداً29 و ناصراً، و دلیلاً و مؤیّداً، حتّی تُسکنه أرضک طوعاً، و تمتّعه فیها طولاً و عرضاً، و تجعله و ذرّیّته من الأئمة الوارثین. اللّهمّ انصره و انتصر به و... (ادامه دعا که طولانی است).

دو تفاوت مهمّ میان متن آمده در این طریق با قرائت مشهور وجود دارد. تفاوت اوّل، تقریباً شبیه تفاوت اوّل در طریق قبلی است. و این تفاوت، در نحوه ذکر نام مبارک حضرت(ع)است که وجه آن نیز ذکر شد.

تفاوت دوّم در قائد است که به خلاف همه مصادر طریق گذشته و طرق آینده و همچنین دو کتابی است که در همین طریق از الاقبال نقل کردهاند (یعنی بحار الأنوار و مستدرک آن). تنها در کتاب الاقبال این کلمه با حرف عین (قاعداً) آمده است. این کلمه هر چند خالی از وجه نیست معنای آن در پایان همین مقاله گفته خواهد شد؛ ولی وجهش بعید است و به نظر می رسد اشکال چاپی باشد و باید به نسخه های خطّی کتاب الاقبال مراجعه کرد. همچنین ممکن است ناسخان و کاتبان نسخه ها هم سهواً آن راثبت کرده اند.

احوال سندی این طریق

ابو القاسم، سیّد رضی الدین، علی بن موسی بن جعفر بن طاووس حلّی (متوفّای 664 ق)، نویسنده کتاب شریف الاقبال از عالمان و محدّثان جلیل القدر شیعه است که در شهرت و وثاقت او جای هیچ تردیدی نیست.

نَسَب این عالم بزرگوار، به حسن مثنّی (فرزند امام حسن مجتبی (ع)) می رسد. او، زمان مستنصر متصدّی منصب فتوا شده، و از بزرگان دینی شیعه محسوب می شد. پدرش نیز از محدّثان بزرگوار و قابل اعتماد شیعه است که خودش از او روایات زیادی را نقل کرده است و در کتابی به نام فرحة الناظر آنها را گرد آورده است. آثار بسیار زیادی در زمینه های حدیث، فقه، تاریخ و دعا از او به جای مانده است که همگی- بدون استثنا- از مصادر مهمّ قرن هفتم شیعه به شمار می آیید.

شیخ نوری در خاتمه مستدرک خود در توصیف او نوشته است: السیّد الأجلّ الأکمل الأسعد الأورع الأزهد صاحب الکرامات الباهرة.30 مرحوم شیخ حرّ عاملی در امل الآمل درباره او گفته است: حاله فی العلم و الفضل و الزهد و العبادة و الثقة و الفقه و الجلالة و الورع أشهر من أن یذکر....31 علّامه تستری نیز در وصفش گفته است:

السیّد السند المعظم المعتمد العالم العابد الزاهد الطیّب الطاهر، مالک أزمة المناقب و المفاخر، صاحب الدعوات و المقامات و المکاشفات و الکرامات، مظهر الفیض السنی و اللطف الخفی و الجلی.32

همچنین شیخ ماحوزی در البلغة گفته است: لیس فی أصحابنا أعبد منه و أورع.33 و مرحوم محدّث قمّی گفته است: السیّد الأمل الأورع الأزهد، قدوة العارفین...34 و همچنین است گفته های سایر علما و بزرگان در مدح و توصیف این شخص و کتاب او، که از آوردن آنها معذوریم.

ابن أبی قرّة، در این سند- همانگونه که در اسناد این کتاب (الاقبال) فراوان مشاهده می شود- أبو الفرج، محمّد بن أبی قرّة است که مرحوم نجاشی در جایی از کتاب رجالش از وی مطلبی نقل می کند و در جای دیگری از آن، درباره وی چنین می نویسد:

محمّد بن علی بن یعقوب بن إسحاق بن أبی قرّة، أبو الفرج القنائی، الکاتب، کان ثقة، و سمع کثیراً، و کان یورق لأصحابنا و معنا فی المجالس، له کتب، منها: عمل یوم الجمعة، کتاب عمل الشهور، کتاب معجم رجال أبی المفضّل، کتاب التهجّد، أخبرنی و أجازنی جمیع کتبه35

مرحوم علّامه هم همان اوصاف را درباره وی آورده و چنین می افزاید: کان ثقة، و سمع کثیراً، و کتب کثیر.36

و مرحوم ابن داود و دیگران هم در توصیف او، قریب به همان اوصاف را آورده اند.37

و بقیّه افراد آمده در سند این طریق، همان کسانی هستند که در طریق پیشین ذکر شدند.

بررسی طریق سوّم (مصباح کفعمی، ص146; البلد الأمین، ص145)

متن آمده در این دو کتاب چنین است:

الساعة الثانیة عشر: من اصفرار الشمس إلی غروبها، للخلف الحجّة (ع):

یا من توحّد بنفسه عن خلقه، یا من غنی عن خلقه بصنعه، یا من عرّف نفسه خلقه بلطفه، یا من سلک بأهل طاعته مرضاته، یا من أعان أهل محبّته علی شکره، یا من منّ علیهم بدینه و لطف لهم بنائله، أسألک بحقّ ولیّک الخلف الصالح، بقیّتک فی أرضک، المنتقم لک من أعدائک و أعداء رسولک، و بقیّة آبائه الصالحین، محمد بن الحسن، و أتضرّع إلیک به، و أقدمه بین یدی حوائجی و رغبتی إلیک، أن تصلّی علی محمّد و آل محمّد، و أن تفعل بی (کذا و کذا) و أن تدارکنی به، و تنجینی ممّا أخافه و أحذره، و ألبسنی به عافیتک و عفوک فی الدنیا و الآخرة، و کن له ولیّاً و حافظاً، و ناصراً و قائداً، و کالیاً و ساتراً، حتّی تسکنه أرضک طوعاً، و تمتّعه فیها طویلاً، یا أرحم الراحمین، و لا حول و لا قوّة إلاّ باللّه العلی العظیم، فسیکفیکهم اللّه و هو السمیع العلیم، اللّهمّ....

لازم ذکر است مرحوم شیخ طوسی در کتاب مصباح المتجهد خود، دیگران هم، این دعا را برای ساعت دوازدهم روز ذکر کرده اند که در آنها تا عبارت (کذا و کذا) آمده و بقیّه دعا و به ویژه عبارات مورد نظر در آن -ذکر نشده است.

شاید از دید برخی خوانندگان گرامی، نتوان این طریق و همچنین طریق پس از آن را جزء طرق نقل این دعا ذکر کرد؛ چرا که در این طریق، تنها عبارات دعای مذکور، با اندکی اختلاف ضمن یک دعای طولانی آمده است، امّا به نظر ما، ذکر اینگونه موارد نیز در اعتبار متن دعا بسیار دخیل بوده آن ثمره دارد.

شهرت و اعتبار مرحوم کفعمی و دو کتاب مصباح و البلد الأمین

هر چند شهرت مرحوم تقی الدین، إبراهیم بن علی الجبعیّ الکفعمی (متوفای 905ق)، صاحب دو کتاب مشهور مصباح و البلد الأمین در ادعیه و زیارات، و همچنین آوازه کتابهای او میان علمای شیعه، نیازی به ذکر ندارد؛ ما به طور اجمال، تنها به بیان چند سخن مهمّ از برخی بزرگان در این باره بسنده می کنیم:

مرحوم سیّد حسن صدر در کتاب تکملة أمل الآمل، پس از نقل کلام مرحوم صاحب ریاض در مدح و توصیف وی، چنین نوشته است: العالم الکامل الفقیه، المعروف بالکفعمی، من أجلّاء علماء الأصحاب....38

عمر کحاله نیز در کتاب معجم المؤلّفین درباره او نوشته است: مفسّر محدّث فقیه أدیب شاعر، له مؤلّفات کثیرة....39

مرحوم شیخ عبّاس قمی در توصیف او گفته است: کان ثقة فاضلاً أدیباً شاعراً عابداً زاهداً ورعاً له کتب منها:....40

و در نهایت، مرحوم آیت الله خویی در معجم رجال خود می نویسد:

الشیخ تقی الدین إبراهیم بن علی بن الحسن بن محمّد بن صالح العاملی الکفعمی مولداً، اللویزی محتداً الجبعی أباً، التقی لقباً کان ثقة فاضلاً أدیباً شاعراً عابداً زاهداً ورعاً له کتب منها.....41

بررسی طریق چهارم (البلد الأمین، دعای کنز العرش، ص360)

متن آمده در این طریق چنین است:

مروی عن النبیّ (ع): بسم اللّه الرحمن الرحیم، لا إله إلّا اللّه الحلیم الکریم... اللّهمّ و کن لولیّک فی أرضک، و حجّتک علی عبادک، ولیّاً و حافظاً و قائداً و ناصراً و دلیلاً و عیناً، حتّی تسکنه أرضک طوعاً، و تمتّعه فیها طویلاً، و عجّل فرجه، و اجعلنا من شیعته و أولیائه و أعوانه و أنصاره و محبّیه و أتباعه، اللّهمّ...

البتّه دعای کنز العرش تمام مصادر و منابع شیعه و سنّی، تنها در همین منبع وارد شده است. بنا بر روایتی از مرحوم نوری که در کتاب مستدرک الوسائل آورده است، گویا کنز العرش محلّی از عرش الهی است که ویژگیهای منحصر به فردی دارد. شبیه این خبر، روایات زیادی در برخی منابع اهل سنّت هم وارد شده است که خواننده محترم در صورت تمایل میتواند به آنها مراجعه کند.42

شرح مختصر دعای سلامت امام زمان(عج)

به نظر ما ً فقرههای این دعا، بیانگر ایمان و اخلاص شیعه منتظر نسبت به امام غایبش بوده و نشان از سوز هجران او نسبت به محبوبش دارد:

آن سفر کرده که صد قافله دل همره اوست

هر کجا هست خدایا به سلامت دارش

ما در این بخش از مقاله، می کوشیم تا به ترجمه و توضیح بسیار مختصری پیرامون هر یک از فقرات این دعای شریف بپردازیم. امیدواریم بتوانیم اندکی از معارف بلند این دعای شریف را برای خوانندگان محترم بیان کنیم:

اللّهمّ کن لولیّک الحجّة بن الحسن ـ صلواتک علیه و علی آبائه ـ فی هذه الساعة و فی کلّ ساعة

حجّت، در زبان عرب، در اصل به معنای دلیل و برهان است. برخی گفته اند اصل، در معنای آن عبارت است از هر چیزی که انسان، در غلبه بر دشمن به آن تکیه نماید و چون برهان و دلیل در نزاع لفظی با دیگران، چنین ماهیّتی دارد، به آن نیز حجّت گفته می شود.43

امّا در ادبیّات دینی و اعتقادی ما مسلمانان- همان گونه که در چند جای قرآن کریم، این واژه به کار رفته است (همچون سوره نساء، آیه 165و سوره مائده، آیه 149) به معنای خاصّی آمده است که عبارت است از هر چیز که خداوند متعال، به وسیله آن، بر بندگان خویش احتجاج کرده و عقاب و ثواب خود را با آن تحکیم بخشد؛ به عبارتی دیگر، با اتمام آن، بر بندگان خود ـ چه در عالم تکوین و چه تشریع ـ راه هر گونه عذر و بهانه را کاملاً ببندد. این نوع از حجّت، در ادبیّات دینی شیعه و سنّی- چنانکه در اخبار بسیار زیادی هم به آن تصریح شده است- دو نوع است:

نخست: حجّت باطنی، که همان نعمت عقل است.

دوّم: حجّت ظاهری، که همه انبیا و امامان( هستند. قرآن کریم، در این باره می فرماید:

رُسُلاً مُبَشِّرِینَ وَ مُنْذِرِینَ لِئَلّا یَکُونَ لِلنَّاسِ عَلَی اللّهِ حُجَّةً بَعْدَ الرُّسُلِ؛

ما همه پیغمبران را بشارتدهنده و بیمدهنده قرار دادیم تا برای مردم در پیشگاه خداوند [برای کوتاهی و قصورشان] حجتی نباشد.

در روایات بسیاری از شیعه و سنّی آمده است که خداوند متعال هیچگاه زمین را از حجّت ظاهری (پیغمبر(ص) یا امام معصوم(ع)) خالی نمی گذارد؛ هرچند در پس پرده غیبت بوده و دیدگان او را نبینند؛ در برخی اخبار آمده است: اگر به فرض، تنها دو نفر، روی زمین باشند، یکی از آن دو حتماً امام دیگری است.44

الحجّة بن الحسن در دعا اشاره به همین حقیقت دارد که در آن، خاتم الحجج، حضرت مهدی(ع)، فرزند امام حسن عسکری(ع) آخرین حجّت معصوم الهی بندگان معرفی شده است؛ بنابراین ترجمه تحت اللفظی این بخش از دعا چنین می باشد: پروردگارا! برای [حضرت] حجّة بن الحسن ـ که درود تو بر او و بر پدران او باد ـ در این ساعت و در تمام ساعات چنین باش....

وَلِیّاً

ولیّ در کلام عرب، به معنای سرپرست و متولّی است. ولیّ الیتیم به کسی گویند که سرپرستی یتیم را بر عهده بگیرد و امور مختلف او را اداره کند. گاهی هم ولی به معنای دوست و در مقابل دشمن قرار می گیرد. اهل لغت در این باره گفتهاند: الولی: الصدیق، ضدّ العدوّ. در برخی موارد هم ولی به معنای ناصر و یاریکننده آمده است که یکی از اسمای الهی نیز ولیّ المؤمنین می باشد.45

به هر حال، قدر مشترک معنای ولی در اینجا یاری و سرپرستی و کفایت امور است؛ پس ترجمه این بخش چنین است: پروردگارا!، تو یار و یاور و سرپرست آن حضرت باش.

وَ حَافِظاً

معنای حفظ و محافظت، کاملاً واضح است؛ یعنی: پروردگارا! محافظ و نگهدارنده آن حضرت، از انواع بلایا و آفات زمینی و آسمانی باش.

وَ قَائِداً

قائد در لغت عرب از ریشه قود و به معنای راهبر، راهنما و هدایت کننده آمده است. القود -مصدر این ریشه- به حالتی گویند که کسی مهار چهارپایی را بگیرد و به هر طرف که بخواهد راهبری کند. این جا مراد، آن است که: پروردگارا! تو خود، راهنما و راهبر آن حضرت باش.

آنچه در کتاب الإقبال آمده است (قاعداً)، همانگونه که بیان شد، اگر ناشی از سهو کاتبان یا مصحّحان و ناشران نباشد، خالی از وجه نیست و چند احتمال در معنای آن وجود دارد:

1. احتمال دارد از فلان أقعد من فلان، به معنای قرب منه، یعنی نزدیکشدن گرفته شده باشد. عرب می گوید: هو أقعدهم، أی: أقربهم إلی الجدّ الأکبر و در مقابل وقتی می گوید: هو أطرفهم أو أسفلهم، أی: أبعدهم منه؛ بنابراین طبق این بیان، قاعد، یعنی: قریباً؛ پس معنا چنین می شود: پروردگارا! آن حضرت را در مقام قرب خود جای ده.

2. یا احتمال دارد مشتقّ از قاعده و به معنای اساس و پایه باشد. در این صورت، کنایه از مأمن و تکیهگاه است. و این وجه، بهتر از وجه اوّل به نظر می رسد.46

3. گاهی در لغت، قعید را به معنای أب، یعنی پدر، فرض کرده اند. مصراع جناب فرزدق هم در این باره مشهور است که می گوید: قَعیدکم اللّه الذی أنتما له. این بخشی از دعا با توجه به این معنا، کنایه از حصانت و حفاظت و حمایت الهی از آن حضرت است.

4. مفسّران در تفسیر آیه شریف: عن الیمین و عن الشمال قعید47 قعید را به معنای حافظ و نگهدارنده گرفتهاند. احتمال دارد قاعد هم در متن دعا، به همین معنا باشد.

وَ نَاصِراً

از مادّه نصر، به معنای نصرت و یاری است. در برخی مصادر، به جای آن، عبارت و عون آمده، که به همین معنا است.

وَ دَلِیلًا

دلیل- در این مقام- به معنای راهنما و هدایت کننده است و به هدایت خدای متعال اشاره دارد که به طور عام سایه بر سر همه مخلوقات افکنده و به طور خاصّ، متوجّه بندگان عزیز و ویژه الهی است.

وَ عَیْنًا

معنای تامّ و کامل هدایت مذکور، در عبارت و عین متبلور شده است. در این بخش، عرض می کنیم: پروردگارا!، عین (چشم) آن حضرت باش.

شاید این، اشاره به حدیث مشهور نوافل دارد که بسیاری از عرفا درباره آن بحث کرده اند. در این حدیث، آمده است که بنده، با تقرّب هر چه بیشتر به خداوند متعال، به مقامی می رسد که خداوند، چشم و گوش و زبان بنده می گردد و در واقع، همه رفتار و گفتار او خدایی می شود؛ به همین سبب است که در برخی روایات، از وجود نازنین حضرت امیر المؤمنین(ع) با عناوینی همچون عین اللّه، اُذُن اللّه و امثال آن یاد شده است.

امّا در طریق چهارم- همانگونه که گذشت- عبارت و کالئاً و سَاتِر نیز آمده بود. کالئ، از ریشه کلأ، یکل بوده و به معنای حراست و حفاظت است48. ساتر نیز از ستر، به معنای پوشاندن یا تحت پوشش قرار دادن که آن هم کنایه از حراست و حفاظت و مواظبت است.

حَتّی تُسْکِنَهُ أَرْضَکَ طَوْعاً

این قسمت از دعا، تقریباً لبّ و مغز دعا است. منتظر آن حضرت، در این عبارت، ظهور آن حضرت و به عبارتی دیگر، طلوع آن آفتاب حقیقت و سپری شدن شب هجران را از خدای توانا طلب می کند.

کلمه طوع در این عبارت، ممکن است از مطاوعه به معنای انقیاد و فرمانبری است. در این صورت به این عقیده اشاره دارد که آن حضرت، برای اطاعت امر الهی ظهور کرده و خواست خدا را اجرا خواهد کرد؛ بنابراین، معنا این چنین می شود: پروردگارا!، آن حضرت را در زمین خودت ساکن کن، در حالی که از تو اطاعت کرده و فرامین تو را اجرا می کند. احتمال دارد کهطوع، به معنای اختیار و خواست قلبی- در مقابل کُره و ایجاب و اجبار- باشد در این صورت نیز در معنا، دو احتمال وجود دارد: یکی اینکه: پروردگارا!، تو آن حضرت را روی زمینت ساکن کن؛ در حالی که آن حضرت از صمیم قلب، تسلیم خواست و مشیّت تو است. دوّم اینکه: تو او را ساکن زمین کن؛ در حالیکه اقتضای مشیّت و خواست تو همان است، (و-معاذ اللّه- کسی تو را مجبور نکرده است و دامن کبریایی تو از آن پاک و مبرّاست)؛ و هو یفعل ما یشاء، کیف یشاء، و متی یشاء، و بأی سبب یشاء.

در نهایت، ممکن است طوع، همخانواده با تطوّع، به معنای تبرّع و احسان باشد. در این صورت معنا چنین می شود: پروردگارا!، تو آن حضرت را از روی فضل و کرمت و به سبب تمام کردن احسان در حقّ بندگانت، روی زمین ساکن کن.49

وَ تُمَتِّعَهُ فِیهَا طَوِیلًا

این عبارت، آرزوی طول بقا برای حکومت آن موعود جهانی است؛ یعنی پروردگارا! تو او را به صورت طولانی، در روی زمین متمکّن ساز.

در طریق چهارم -همچنان که گذشت- عبارت طولاً و عرض آمده بود. این عبارت- بر فرض صحّت- به جهانیبودن حکومت آن حضرت، در طول و عرض کره هستی اشاره دارد؛ یعنی: پروردگارا!، او را بر طول و عرض کره زمین مسلّط کن (تا زمین را از انواع ناپاکیها و آلودگیها پاک کند) .

به امید آنکه، خالق فضل و کرم، ما را هم از آن حکومت رضوانی بهره مند سازد و همه منتظران آن حضرت، فردای ظهور، از یاران صدیق آن حضرت به شمار آیند؛ آمین، برحمتک یا أرحم الراحمین.

1. مرحوم شیخ کلینی این طریق را در الکافی (ج 4، ص 162، باب الدعاء فی العشر الأواخر من شهر رمضان، حدیث 4) آورده است. مصادر ذیل هم، با اختلافاتی مختصر، این طریق را از همان کتاب نقل کرده اند: التهذیب، شیخ طوسی، ج 3، ص 102، ح 37; مصباح المتهجّد، شیخ طوسی، ص 128; فلاح السائل، سیّد بن طاووس، ص 46; المزار، مرحوم مشهدی، ص 611; مختصر بصائر الدرجات، حسن بن سلیمان حلّی، ص 193; المصباح، شیخ کفعمی، ص 586; البلد الأمین، شیخ کفعمی، ص 203; مستدرک الوسائل، محدث نوری، ج 7، ص483، ح 8707; مرآة العقول، علّامه مجلسی، ج16، ص394; منازل الآخرة، شیخ عبّاس قمّی، ص 287; مفاتیح الجنان، شیخ عبّاس قمّی، ص 229 و 235; عصر الظهور، شیخ علی کورانی، ص 344.

2. تهذیب:الصادقین بدل الصالحین.

3. تهذیب: + قال.

4. در دو نسخه خطّی از کتاب کافی و همچنین در دو کتاب التهذیب و المزار به جای تکرّر عبارت و کرّر، و در نسخه ای دیگر از کافی کرّر بدون واو آمده است.

5. در تهذیب و مصباح المتهجّد و مزار، تمجید اللّه و در البلد الأمین، تمجیده آمده است.

6. مصباح کفعمی: محمّد بن الحسن المهدی به جای فلان بن فلان.

7. المزار: اللیلةبه جایالساعة.

8. در تهذیب، مصباح المتهجّد، مختصر البصائر، مزار، فلاح السائل، مصباح و بلد الأمین، به جای عبارت داخل پرانتز، چنین آمده است: و قائداً و ناصراً و دلیلاً و عین و در اکثر نسخه های خطّی کتاب کافی و همچنین در کتاب مستدرک عبارت و عون نیامده است.

9.. تهذیب: و تمکّنه به جای و تمتّعه.

10. ر.ک: مقدّمه کتاب کافی، استاد محفوظ; دفاع عن الکافی، ثامر عمیدی، ج1، ص40.

11. رجال نجاشی، ص93.

12. رجال علّامه، ص16; رجال ابن داود، ص38.

13. رجال طوسی، ص409.

14. رجال نجاشی، ص94.

15. رجال علّامه، ص203.

16. رجال ابن داود، ص385 و 422.

17. رجال طوسی، ص351.

18. رجال نجاشی، ص82.

19. رجال علّامه، ص14.

20. رجال ابن داود، ص43.

21. رجال طوسی، ص272.

22. رجال نجاشی، ص258.

23. رجال علّامه، ص93.

24. رجال ابن داود، ص43.

25. رجال نجاشی، ص333 و 348.

26. رجال علّامه، ص93.

27. رجال طوسی، ص391 و 402.

28. بحارالانوار: بأمرک محمد بن ....

29. بحارالانوار و المستدرک: و قائد.

30. مستدرک، ج3، ص351.

31. أمل الآمل، ج2، ص82.

32. مقابس، ص16.

33. منتهی المقال، ص357.

34. الکنی و الألقاب، ج1، ص328.

35. رجال النجاشی، ص156، 366و 398.

36. خلاصة، ص270; إیضاح الإشتباه، ص287.

37. ر.ک: رجال ابن داود، ص180; نقد الرجال للتفرشی، ج4، ص283; جامع الرواة، ج2، ص161; طرائف المقال، ج1، ص135; معجم رجال الحدیث، ج18، ص44.

38. تکملة أمل الآمل، ص75.

39. معجم المؤلّفین، ج1، ص65.

40. الکنی و الألقاب، ج3، ص116.

41. معجم رجال الحدیث، ج1، ص237.

42. ر.ک: مستدرک، ج4، ص26; کتاب الدعاء، طبرانی، ص466; فیض القدیر، ج1، ص720; سبل الهدی و الرشاد، ج10، ص269، 298.

43. ر.ک: العین، ج3، ص10; لسان العرب، ج2، ص228 (حجج).

44. ر.ک: کافی، ج1، ص168 ـ 180.

45. ر.ک: العین، ج8، ص365; لسان العرب، ج15، ص407; مجمع البحرین، ج1، ص455 (ولی).

46. ر.ک: لسان العرب، ج3، ص361; مجمع البحرین، ج3، ص129.

47. سوره ق :17.

48. ر.ک: العین، ج5، ص407; لسان العرب، ج1، ص146.

49. ر.ک: العین، ج2، ص210; لسان العرب، ج8، ص243.