کیا امام حسینؑ کو شیعہ نے قتل کیا؟

سوال: کیا امام حسینؑ کو شیعہ نے قتل کیا؟

مختصر جواب:

نہیں، امام حسین علیہ السلام کو شیعہ نے قتل نہیں کیا۔ امام حسینؑ کو یزید بن معاویہ کی حکومت کے حکم پر اموی فوج نے شہید کیا، جن کی قیادت عمر بن سعد، شمر بن ذی الجوشن، اور دیگر اموی کمانڈرز کر رہے تھے۔ ان میں سے اکثر نہ عقیدتاً شیعہ تھے، نہ اہل بیتؑ کے وفادار، بلکہ دنیاوی مفادات، خوف یا حکومت کی اطاعت میں شریک تھے۔

تفصیلی وضاحت:

📌 شیعہ کی تعریف:

لغوی معنی: "شیعہ" کا مطلب ہے کسی کے پیروکار۔ قرآن میں بھی لفظ "شیعه" آیا ہے: سورۃ الصافات 83: ﴿وَإِنَّ مِن شِيعَتِهِ لَإِبْرَاهِيمَ﴾ یعنی "ابراہیمؑ بھی اس (نوحؑ) کے پیروکاروں میں سے تھے۔"

خلافتِ راشدہ کے بعد "شیعه علیؑ" وہ کہلاتے تھے جو علیؑ کو خلافت کے لیے سب سے زیادہ حقدار مانتے تھے اور ان سے محبت رکھتے تھے۔ لهذا اس وقت "شیعہ" کا مطلب تھا: اہل بیت علیہم السلام کے ماننے والے اور ان کے سیاسی و روحانی حامی۔

📌 اہل کوفہ کون تھے؟

کوفہ حضرت علیؑ کا دارالخلافہ رہا، اس لیے وہاں بہت سے لوگ "شیعہ علیؑ" کہلاتے تھے۔ مگر وقت کے ساتھ ان میں منافقت، بزدلی، اور دنیا پرستی گھر کر گئی تھی۔ یزید کے گورنر ابن زیاد نےعوام کو خریدا یا ڈرایا۔ امام حسینؑ کی حمایت کرنے والوں کو قتل یا قید کیا۔حتیٰ کہ مسلم بن عقیلؑ کو بھی شہید کر دیا۔

کوفہ میں بہت سے ایسے لوگ موجود تھے جنہوں نے امام حسینؑ کو خطوط لکھے اور دعوت دی، مگر جب یزید کی طرف سے سختی، دھمکی اور قتل کا خطرہ آیا، تو بہت سے لوگ ڈر گئے یا خاموش ہو گئے۔ انہیں "شیعہ" کہنا آج کے معنوں میں درست نہیں۔

کیا خط لکھنے والے بعد میں کربلا میں امام کے خلاف تھے؟ نہیں۔ تاریخ گواہ ہے کہ کوفہ کے شیعہ جیسے سلیمان بن صرد خزاعی نے بعد میں "تَوّابین" کی تحریک چلائی تاکہ اپنے گناہ کا کفارہ ادا کر سکیں۔

اصل شیعہ، جیسے حبیب بن مظاہر، مسلم بن عقیل، زہیر بن قین، جون(حبشی غلام)، وہب اور ان کی ماں و بیوی اور جوانان بني هاشم۔ یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے اپنی جانیں قربان کیں لیکن امامؑ کا ساتھ نہ چھوڑا۔

📌 امام حسینؑ کے قاتل کون تھے؟

1- یزید بن معاویہ: ظالم حکمران، جس نے بیعت نہ کرنے پر قتل کا حکم دیا۔

2- عبید اللہ بن زیاد: کوفہ کا گورنر، جس نے امام حسینؑ کے خلاف لشکر تیار کیا۔

3- عمر بن سعد بن ابي وقاص: یزیدی لشکر کا سربراہ۔

4- شمر بن ذی الجوشن: امام حسینؑ کے قتل میں براہ راست شریک۔

ان میں سے کوئی بھی شیعہ علیؑ نہیں تھا۔ یہ لوگ دنیا طلب، حکومت کے وفادار، اور اہل بیتؑ کے دشمن تھے۔ ان کا تعلق مختلف قبیلوں سے تھا جنہوں نے کبھی علیؑ اور اہل بیتؑ کو قبول نہیں کیا۔

یہ کہنا کہ "امام حسینؑ کو شیعوں نے قتل کیا" ایک تاریخی مسخ (Distortion) ہے۔ اس کا مقصد اہل بیتؑ سے محبت کرنے والے طبقے کو بدنام کرنا ہے۔ امام حسینؑ کے قاتل وہ لوگ تھے جنہوں نے یزید کے لیے کام کیا، اور حقیقی شیعہ اس واقعے سے یا تو بےدخل تھے، خاموش کر دیے گئے، یا شہید کر دیے گئے۔

🔹 مستند حوالہ جات:

1- طبری (تاریخ الامم والملوک)

2- بلاذری (انساب الاشراف)

3- شیخ مفید (الارشاد)

4- ابن اثیر (الکامل فی التاریخ)

5- رضی الدین ابن طاؤس (اللهوف فی قتلی الطفوف)

امام رضا عليه السلام کو غریب الغرباء کیوں کها جاتا ہے؟

امام رضا عليه السلام کو غریب الغرباء کیوں کها جاتا ہے؟

بہت سے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ امام رضا علیہ السلام کو "امام غریب" یا "غریب الغرباء" اس لیے کہا جاتا ہے کیونکہ آپ اپنے وطن اصلی یعنی مدینہ منورہ سے دور تھے۔ لیکن اگر اس معنی کو دیکھا جائے تو پھر امیر المؤمنین علی علیہ السلام بھی کوفہ میں غریب تھے، اسی طرح امام حسین علیہ السلام، امام موسیٰ بن جعفر علیہ السلام، امام جواد علیہ السلام اور امام عسکریین علیہما السلام بھی غریب تھے۔ لیکن امام رضا علیہ السلام کی غربت ایک خاص قسم کی تھی، اسی لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان "بضعة مني" صرف حضرت فاطمہ الزہرا سلام اللہ علیہا اور امام رضا علیہ السلام کے لیے آیا ہے۔ اگر ایک مخلص شیعہ امام رضا علیہ السلام کی غربت کو سمجھ لے تو اس کا دل ٹکڑے ٹکڑے ہو جائے گا!

آپ کی غربت کئی پہلوؤں سے تھی:

1- وطن سے دوری کی غربت

2- اپنے ہی خاندان میں غربت، کیونکہ بعض نے آپ کو شدید تکلیف پہنچائی۔

3- اپنے والد کے اصحاب میں غربت، کیونکہ بہت سے لوگوں نے آپ کے ساتھ خیانت کی۔

4- مأمون کے محل میں غربت، جو ظاہر میں محل تھا لیکن باطن میں ایک جیل تھی اور جبری قیام گاہ۔

5- اپنی قوم میں غربت، کیونکہ انہوں نے آپ کو تکلیف دی اور آپ پر بہتان لگایا۔

6- مأمون کی فتنہ انگیزیوں میں غربت۔

7- اپنے خاندان کو تباہ ہوتے دیکھنے کی غربت، جیسے حضرت فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیہا اور دیگر، لیکن آپ انہیں خبردار نہ کر سکتے تھے۔

# ایک واقعہ:

جب حرم رضوی میں ابھی دیواریں اور دروازے نہیں لگے تھے۔ ایک ایرانی انجینئر کام کی نگرانی کر رہا تھا کہ شیخ بہائی نے اس سے کہا: "جب تم دیواریں بنا لو تو دروازے نہ لگانا، جب تک میں تمہیں حکم نہ دوں۔" انجینئر نے کہا: "جی مولانا!" لیکن پہلی رات ہی اس نے خواب میں امام رضا علیہ السلام کو دیکھا، جو فرما رہے تھے: "دروازے لگا دو۔" جب وہ بیدار ہوا تو اس نے سوچا کہ یہ صرف ایک خواب ہے، کیونکہ شیخ نے انتظار کرنے کو کہا تھا۔ دوسری رات پھر یہی خواب دیکھا، لیکن امام علیہ السلام نے سختی سے فرمایا۔ تیسری رات امام نے اور بھی سختی سے حکم دیا، تو اس نے سوچا کہ یہ صرف خواب نہیں بلکہ حکم ہے۔ چنانچہ اس نے دروازے لگوا دیے۔

کچھ دن بعد شیخ بہائی آئے اور غصے سے پوچھا: "کیا میں نے تمہیں دروازے نہ لگانے کو نہیں کہا تھا؟" انجینئر نے بتایا کہ امام علیہ السلام نے تین بار خواب میں حکم دیا، تو مجھے یقین ہو گیا کہ یہ آپ کا حکم ہے۔ یہ سن کر شیخ بہائی رونے لگے۔ انجینئر نے پوچھا: "مولانا، آپ کیوں رو رہے ہیں؟" شیخ نے جواب دیا: "یہ واقعی رحمت کے دروازے ہیں اور امت کی نجات کا ذریعہ۔ میں نے سوچا تھا کہ ہر دروازے پر ایسی حفاظتی علامتیں لگاؤں کہ جو شخص بھی گناہگار ہو، وہ اندر نہ جا سکے۔ لیکن امام علیہ السلام نے فرمایا: 'یہ لوگ بے بس ہو کر ہماری پناہ میں آتے ہیں، اگر ہم انہیں واپس کر دیں گے تو پھر وہ کہاں جائیں گے؟"

السلام علیک یا ضامن الجنان یا علی بن موسی الرضا!

اللہ تعالیٰ ہمیں اور آپ کو دنیا میں آپ عليه السلام کی زیارت اور آخرت میں آپ کی شفاعت نصیب فرمائے۔ الهي آمين.

حواله: https://forums.alkafeel.net/node/95266

خدا اور کائنات کی خلقت

خدا اور کائنات کی خلقت

اگر خدا خود غیر مادی ہے اور مادہ (میٹر) موجود نہیں تھا، تو خدا نے مادی جہان کو کیسے تخلیق کیا؟ یہ ایک گہرا فلسفیانہ اور کلامی سوال ہے جس پر صدیوں سے مفکرین، فلاسفہ، اور علمائے کرام بحث کرتے آئے ہیں۔ اس کا جواب مختلف نظریاتی اور مذہبی نقطہ نظر سے دیا جا سکتا ہے۔

1-تخلیق (ex nihilo ) لاشیء سے تخلیق

اسلام، مسيحيت اور یہودیت میں عمومی طور پر یہ عقیدہ پایا جاتا ہے کہ خدا نے کائنات کو "عدم سے پیدا کیا" (ex nihilo) یعنی بغیر کسی پہلے سے موجود مواد کے۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: "إِنَّمَا أَمْرُهُ إِذَا أَرَادَ شَيْئًا أَنْ يَقُولَ لَهُ كُنْ فَيَكُونُ"(سورۃ یٰسین: 82) "بے شک اس کا حکم یہی ہوتا ہے کہ جب وہ کسی چیز کا ارادہ کرتا ہے تو اسے کہتا ہے: ’ہو جا‘، تو وہ ہو جاتی ہے۔"

یہ تصور یہ واضح کرتا ہے کہ خدا کسی مادی وسیلے کا محتاج نہیں، بلکہ اس کی قدرت محض اس کے حکم اور ارادے سے چیزوں کو وجود میں لے آتی ہے۔

2- خدا کی صفتِ تخلیق اور علت و معلول کا قانون

فلسفہ میں ایک بحث "علت و معلول" (Cause and Effect) کی ہے، جس کے مطابق ہر چیز کی کوئی نہ کوئی وجہ ہوتی ہے۔ خدا خود واجب الوجود ہے، یعنی اس کا وجود اپنی ذات سے ہے اور وہ کسی اور چیز کا محتاج نہیں۔ چونکہ وہ لامحدود قدرت کا حامل ہے، اس لیے وہ بغیر کسی پہلے سے موجود مواد کے کسی بھی چیز کو پیدا کر سکتا ہے۔

3- جدید سائنسی زاویہ: بگ بینگ اور خلا (Quantum Fluctuations)

سائنس میں بگ بینگ تھیوری کے مطابق، کائنات ایک انتہائی چھوٹے نقطے (Singularity) سے وجود میں آئی، جس سے وقت، جگہ اور مادہ سب نے جنم لیا۔ کوانٹم فزکس میں ایک نظریہ یہ بھی ہے کہ خالی خلا میں بھی Quantum Fluctuations کے ذریعے ذرات خودبخود پیدا ہو سکتے ہیں اور ختم ہو سکتے ہیں۔

اگر طبیعیاتی قوانین خلا سے ذرات پیدا کر سکتے ہیں، تو خدا کی قدرت اس سے کہیں عظیم تر ہے، اور وہ عدم سے بھی تخلیق کر سکتا ہے۔

4- خدا مادی نہیں، مگر وہ مادے کو پیدا کر سکتا ہے

یہ ضروری نہیں کہ جو چیز مادی نہ ہو، وہ مادی چیزوں کو پیدا نہ کر سکے۔ مثال: ہمارا "ارادہ" اور "سوچ" غیر مادی ہیں، مگر وہ مادی اثرات ڈال سکتے ہیں، جیسے انسان کا ایک خیال کسی عمارت یا مشین کے بننے کی بنیاد بن سکتا ہے۔ اسی طرح، خدا کی قدرت، جو غیر مادی ہے، مادی چیزوں کو پیدا کر سکتی ہے۔

نتیجہ

خدا چونکہ لامحدود قدرت اور علم کا مالک ہے، اس لیے وہ بغیر کسی پہلے سے موجود مواد کے بھی کائنات کو وجود میں لا سکتا ہے۔ تخلیق ex nihilo کا تصور فلسفیانہ اور سائنسی دونوں زاویوں سے قابل فہم ہے، اور قرآن میں بھی اس کی تصدیق ہوتی ہے۔

لیبرالیزم کی بنیادیں اور اس کا رد

لیبرالیزم کی بنیادیں اور اس کا رد

تحرير: سيد غيور الحسنين

لیبرالیزم (Liberalism) ایک فکری و سیاسی نظریہ ہے جو آزادی، فرد کے حقوق، اور جمہوری اقدار کو مرکزیت دیتا ہے۔ اس نظریہ کی بنیادیں مغربی فکر سے نکلتی ہیں اور یہ بنیادی طور پر روشن خیالی (Enlightenment) کے دور سے متعلق ہے۔ لیبرالیزم کا بنیادی مقصد انسانی آزادی کو فروغ دینا اور افراد کو ریاستی یا دیگر ادارتی جبر سے محفوظ رکھنا ہے۔

لیبرالیزم کی بنیادیں:

1- فرد کی آزادی:

لیبرالیزم کا بنیادی اصول یہ ہے کہ ہر فرد کو ذاتی، سیاسی، اور مذہبی آزادی حاصل ہونی چاہیے۔ فرد کو اپنی زندگی کے فیصلے خود کرنے کا حق ہے، جب تک کہ اس سے دوسروں کو نقصان نہ پہنچے۔

2- قانون کی حکمرانی (Rule of Law):

لیبرالیزم اس بات پر زور دیتا ہے کہ معاشرے میں قانون سب کے لیے برابر ہو اور کوئی بھی قانون سے بالاتر نہ ہو۔

3- جمہوریت:

لیبرالیزم جمہوری نظام کی حمایت کرتا ہے، جہاں عوام کو حکومت کے انتخاب کا حق ہو اور حکمران عوام کے سامنے جوابدہ ہوں۔

4- معاشی آزادی:

کلاسیکی لیبرالیزم آزاد منڈی (Free Market) کی حمایت کرتا ہے، جہاں معیشت کو حکومتی مداخلت سے آزاد رکھا جائے۔

5- مذہبی آزادی:

لیبرالیزم فرد کے مذہبی عقائد کی آزادی کو اہم سمجھتا ہے اور مذہب کو ریاستی معاملات سے الگ رکھنے کا حامی ہے۔

6- برداشت اور رواداری:

مختلف خیالات، عقائد، اور ثقافتوں کے ساتھ برداشت کا مظاہرہ لیبرالیزم کا ایک لازمی جزو ہے۔

لیبرالیزم کا رد (تنقید):

1- فردیت پسندی کا نقصان:

لیبرالیزم فرد کی آزادی پر اتنا زور دیتا ہے کہ یہ اجتماعی اقدار اور خاندانی نظام کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔ اسلام اور دیگر روایتی معاشرے فرد کے بجائے خاندان اور معاشرے کو مرکزیت دیتے ہیں۔ اسلام فرد کو آزادی دیتا ہے لیکن یہ آزادی الٰہی حدود کے اندر ہوتی ہے۔ مطلق آزادی کے بجائے اسلامی معاشرتی نظام میں فرد اور معاشرے کے درمیان توازن برقرار رکھا جاتا ہے۔

2- اخلاقی نسبیت:

لیبرالیزم میں کسی بھی مطلق اخلاقی اصول کا انکار کیا جاتا ہے، جس سے معاشرتی بے راہ روی اور اخلاقی بحران جنم لے سکتے ہیں۔ لیبرالیزم میں قانون انسانی خواہشات کے تحت بنتا ہے، جبکہ اسلام میں قانون قرآن و سنت پر مبنی ہے جو خدائی رہنمائی فراہم کرتا ہے۔ اسلامی معاشرت میں اخلاقی اصول مطلق ہیں اور ان کا مقصد انسان کو روحانی، اخلاقی اور سماجی لحاظ سے بلند کرنا ہے۔

3- مذہب سے دوری:

لیبرالیزم میں مذہب کو ذاتی معاملہ سمجھا جاتا ہے اور اسے ریاستی امور سے دور رکھا جاتا ہے۔ اسلامی نقطہ نظر کے مطابق، دین ایک ہمہ گیر نظام ہے جو زندگی کے تمام پہلوؤں پر محیط ہے۔ اسلام مذہب کو نجی معاملہ نہیں بلکہ اجتماعی زندگی کا لازمی حصہ قرار دیتا ہے۔

4- سرمایہ داری کا غلبہ:

لیبرالیزم کا معاشی پہلو سرمایہ داری کو فروغ دیتا ہے، جس کے نتیجے میں معاشرتی ناانصافی اور امیر و غریب کے درمیان فرق بڑھتا ہے۔ اسلام سرمایہ داری اور اشتراکیت کے درمیان ایک معتدل نظام پیش کرتا ہے، جہاں دولت کی منصفانہ تقسیم اور زکوٰۃ و خمس کا نظام موجود ہے۔

5- ثقافتی انحطاط:

لیبرالیزم کے تحت اظہار رائے کی آزادی کے نام پر وہ چیزیں بھی قبول کی جاتی ہیں جو اسلامی یا مشرقی اقدار کے خلاف ہوتی ہیں، جیسے فحاشی اور بے حیائی۔

نتیجہ:

لیبرالیزم ایک مغربی نظریہ ہے جو آزادی اور حقوق پر زور دیتا ہے، لیکن اسلامی نقطہ نظر سے اس میں کئی خامیاں ہیں، خاص طور پر اس کا مذہب اور اخلاقیات سے دور ہونا۔ اسلامی نظام، جو الٰہی رہنمائی پر مبنی ہے، فرد، معاشرہ، اور ریاست کے درمیان ایک مثالی توازن قائم کرتا ہے۔

قدرت الهی از منظر امامیه

قدرت الهی از منظر امامیه

استاد راهنما: دکتر سید غیور الحسنین

تأليف: مستفید حسین

چکیده

برای اثبات قدرت خداوند بسیار دلایل عقلی و نقلی وجود دارند. سؤال اين است که آیا خداوند می‌تواند سنگی را خلق کند که خود توان برداشتن آن ندارد ؟ اگر پاسخ این سوال مثبت بدهیم لازم می‌آید که خداوند قدرت برداشتن آن ندارد و اگر پاسخ منفی دهیم لازم می‌ آید که خداوند قدرت خلق آن ندارد. یا اینکه آیا خداوند متعال می‌تواند مثل خود یک خدای خلق کند ؟این سوال از هر دو طرف منافی عقاید بنیادی است چون اگر پاسخ آن مثبت بدهیم تعدد آلِه لازم می ‌آید و اگر پاسخ منفی دهیم همان ناتوانی خلق لازم می‌آید. وقتی این سوال‌ها را با دقت مطالعه کردیم، پی بردیم که این سوال‌ها یا محال ذاتی است یعنی فی حد نفسه محال هستند یا محال وقوعی است یعنی فی حد نفسه نیستند ولی لازمه‌اش محال ذاتی می‌شود.

کلید واژه: معطی، نا متناهی، ملحد، واجب الوجود، ممکن الوجود، محال، مؤید

ادامه نوشته

کیا صحابه کی فضیلت قرآن میں بیان هوئی ہے؟

کیا صحابہ کی فضیلت قرآن میں بیان ہوئی ہے؟

سوال: حضرت ابو بکر کی صحابیت قرآن سے ثابت ہے۔ قرآن پاک کی آیت ہے:(إذ يقول لصاحبه لا تحزن) [التوبہ:40] "جب رسول(ص) اپنے ساتھی سے کہتے تھے غم نہ کرو۔"

اور رسول خدا(ص) کے متعلق اللہ تعالی نے یہ اعلان کیا ہے: (وما ينطق عن الهوى إن هو إلّا وحي يوحى) [النجم: 3-4] "رسول اپنی خواہش سے کلام نہیں کرتا وہ تو ایک وحی ہوتی ہے جو کی جاتی ہے۔"

اسی لیے رسول خدا(ص) کا ہر فرمان وحی الهی کا درجہ رکھتا ہے اور رسول خدا(ص) اپنے صحابہ کی تعظیم و توقیر کیا کرتے تھے اور ہر ایک کے حق میں بهت سی احادیث موجود ہیں۔ اب اس کے باوجود جو شخص یا گروہ ان نفوس قدسیہ پر اعتراض کرتا ہے تو وہ در حقیقت ان کے بجائے رسول خدا(ص) کی ذات والا صفات پر اعتراض کرتا ہے۔

جواب: رسول خدا(ص) کے صاحب ہونے کا حضرت ابو بکر کو شرف حاصل ہے:(إذ يقول لصاحبه لا تحزن) [التوبہ:40]. اس مسئلہ میں حقیقت یہ ہے کہ لفظ "صاحب" سے کوئی خاص اعزاز انہیں نہیں ملتا؛ کیونکہ قرآن مجید میں ایک مومن اور کافر کا واقعہ موجود ہے جس میں یہ الفاظ موجود ہیں:(قال له صاحبه وهو يحاوره أكفرت) [الكهف:37] "اس نے گفتگو کرتے ہوئے اپنے ساتھی سے کہا کیا تو نے کفر کیا۔"

اس آیت مجیدہ میں کافر کو مسلم کے صاحب کے لقب سے یاد کیا گیا ہے۔ اورحقیقت یہ ہے کہ مصاحب ہو یا اخوت ہو اس کے لیے کافر و مومن یکسان ہیں۔ ہر شخص جو نسب میں رشتہ دار ہو، وہ بھائی کہلاتا ہے خواہ مومن ہو یا کافر ہو، اور ہر ہمراہی صاحب کہلاتا ہے خواہ مومن ہو یا کافر ہو۔

قرآن مجید ہمیں بتاتا ہے کہ حضرت یوسف علیہ السلام نے اپنے قید کے دو ساتھیوں کو مخاطب کر کے فرمایا تھا:(يصاحبي السجن.... الخ) [يوسف:39] "میرے قید خانے کے دو ساتھیو.... الخ."

حضرت یوسف علیہ السلام اللہ کے نبی اور رسول تھے جبکہ ان کے دونوں ساتھی بت پرست اور کافر تھے۔

علاوہ از این سورہ نجم میں رسول خدا(ص) کو اللہ تعالی نے کافروں کا صاحب کہا:(ما ضلّ صاحبكم وما غوى) [النجم:2] "تمہارا ساتھی محمد(ص) نہ تو بہکا ہے نہ بھٹکا۔"

ان تمام آيات سے ثابت ہوتا ہے کہ لفظ "صاحب" کسی خوبی اور عظمت کی دلیل ہرگز نہیں ہے۔

حوالہ

مجالس المؤمنین، قاضی نور اللہ شوستری، ص195-196

كيا مزارات كو تعمير كرنا  جائز هے؟

كيا مزارات كو تعمير كرنا جائز هے؟

تحرير: سيد غيور الحسنين

قبور پرعمارت بنانا ایک اصطلاح ہے جس میں قبر پر کی جانے والی ہر طرح کی تعمیر شامل ہے ۔ اہل سنت اور شیعوں کے درمیان حکم شرعی کے لحاظ سے قبور پر عمارت بنانے کا اختلاف ایک طرف اور وہابیوں سے ان کا اختلاف ایک اور جہت سے ہے۔ مذاہب اسلامی خاص طور پر شیعہ حضرات طول تاریخ میں بزرگوں، پیشوا اور علما کی قبور پر عمارتیں بناتے چلیں آ رہے ہیں۔ تاریخی لحاظ سے اس امر کی بازگشت صدر اسلام کی طرف ہے نیز تاریخی شواہد کے مطابق صحابہ اور تابعین کی جانب سے کبھی ان تعمیرات کو تنقید کا سامنا نہیں رہا اگرچہ وہابیت کے نزدیک اس کے مفہوم میں وسعت پائی جاتی ہے۔ وہابی معتقد ہیں کہ مردوں کی قبور پر عمارت کی تعمیر ایک طرح سے ان قبور کی عبادت کے مقدمات فراہم کرتی ہے اور عبادت میں شرک کی مانند ہے، جبكه عبادت کسی کو اوصاف الہی سے متصف کرتے ہوئے اس کے سامنے اظہارِ خضوع کرنا ہے۔ اس اشكال كا جواب هم " كيا توسل و شفاعت حرام ہے اور غیر خدا كى هر قسم کی تعظیم شرک ہے؟" کے عنوان سے بيان كر چکے هيں۔ اور يهاں پر مزارات كي تعمير پر دليل بيان كرنا مقصود هے۔

پهلی دلیل: قرآن مجید اصحاب کہف کے واقعہ میں فرماتا ہے کہ جب وہ تقریباً تین سو برس کی طویل نیند سے بیدار ہوئے اور ان کے بارے میں شہر کے لوگوں کو پتہ چلا تو شہر سے لوگ غار کی طرف دوڑے اور جیسے ہی وہاں پہنچے، تو انہوں نے اصحاب کہف کو پھر مردہ پایا۔ قرآن مجید اس کی منظر کشی کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ جب لوگوں نے یہ ماجرا دیکھا تو وہ دو گروہوں میں تقسیم ہو گئے :﴿فَقَالُوا ابْنُوا عَلَيْهِم بُنْيَانًا ۖ رَّبُّهُمْ أَعْلَمُ بِهِمْ ۚ قَالَ الَّذِينَ غَلَبُوا عَلَىٰ أَمْرِهِمْ لَنَتَّخِذَنَّ عَلَيْهِم مَّسْجِدًا[الكهف: 21]

"تو کچھ نے کہا کہ ان (کے غار) پر ایک (یادگاری) عمارت بنا دو۔ ان کا رب ہی ان کا حال بہتر جانتا ہے۔ (آخرکار) جنهوں نے ان كے بارے ميں غلبه حاصل كيا وہ كهنے لگے: ہم ان کے غار پر ضرور ایک مسجد ( یعنی عبادت گاہ) بناتے هيں۔"

جیسا کہ اس آیت سے سمجھ میں آتا ہے کہ ان دونوں گروہوں میں سے کوئی بھی قبروں کو تعمیر کرنے کا مخالف نہیں تھا۔ بس فرق یہ تھا کہ مؤمنین وہاں ایک مسجد بنانا چاہتے تھے جبکہ دوسرے لوگ ان کی نشانی اور یادگار کے طور پر وہاں ایک عالی شان عمارت تعمیر کرنا چاہتے تھے۔

یہ امر بھی ذہن نشین رہے کہ قرآن مجید نے اس ماجرے کو مدح و تعریف کی زبان میں نقل کیا ہے اور اس پر کسی قسم کی تنقید بھی نہیں کی ہے۔ لہذا اس نکتہ سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ یہ کام شرعی ممانعت نہیں رکھتا۔ اور خاص طور پر جبکہ اس آیت میں موجود ’’ لَنَتَّخِذَنَّ عَلَيْهِم مَّسْجِدًا ‘‘ کی تعبیر سے پتہ چلتا ہے کہ انہوں نے اس درخواست کو ایک حکم شرعی کے طور پر لیا تھا۔ بہر کیف! اس تعبیر سے یہ واضح ہو جاتا ہے - وہابیوں کے تصور کے برخلاف - کہ قبروں پر بارگاہ اور گنبد وغیرہ تعمیر کرنا ایک شرعی اور دینی عمل ہے۔

اسی طرح اس واقعہ سے یہ بھی استفادہ ہوتا ہے کہ غیر معمولی لوگوں کی قبروں پر روضے تعمیر کرنا ، سابقہ اقوام اور امتوں کے آداب و سنتوں میں سے بھی رہا ہے ۔ اور وہ لوگ اس کام کو اپنے بزرگوں اور عظیم ہستیوں کے احترام و تجلیل میں انجام دیا کرتے تھے۔

دوسری دلیل: بزرگوں کی قبور پر مزارات تعمیر کرنا ’’ ترفیع بیوت ‘‘ کا ایک مصداق ہے ۔ وہ گھر جن کے لیے اللہ تعالیٰ کی مرضی یہ ہے کہ ان کی رفعت و منزلت بلند و بالا رہے ۔ اور اس کی وضاحت یہ ہے کہ قرآن مجید سورہ نور میں اللہ تعالیٰ کو منور چراغ سے تشبیہ دیتا ہے جو آسمان میں چمکتے ہوئے ستاروں کی طرح روشن ہے پھر اس آیت کے بعد والی آیت میں ان چراغوں کے رکھے جانے کی جگہ ان گھروں کو بتلاتا ہے جن کے لیے خدا کی منشأ یہ ہے کہ ان کا احترام کیا جاتا رہے اور وہ ارفع و اعلیٰ رہیں۔ چنانچہ قرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہے:﴿ فِي بُيُوتٍ أَذِنَ اللَّـهُ أَن تُرْفَعَ وَيُذْكَرَ فِيهَا اسْمُهُ يُسَبِّحُ لَهُ فِيهَا بِالْغُدُوِّ وَالْآصَالِ[النور: 36]

"(هدايت پانے والے) ایسے گھروں میں ہیں جن کى تعظيم كا اللہ نے اذن دیا ہے اور ان میں اس کا نام لینے كا بهى، وه ان گھروں میں صبح و شام الله کی تسبیح کرتے ہیں۔"

واضح سی بات ہے کہ اس آیت میں ’’ بیوت ‘‘ سے مراد مساجد نہیں ہوسکتیں، چونکہ بیوت لفظ بیت کی جمع ہے اور بیت عربی لغت میں ایسی جگہ کو کہتے ہیں کہ جس میں انسان رات بسر کرتا ہے اور مسجد رات گذارنے کی جگہ نہیں ہوتی۔ اسی وجہ سے اسے ’’ بیت ‘‘ نہیں کہا جاتا، بلکہ اس آیت میں ’’ بیوت ‘‘ سے مراد، اولیائے الہی اور ایسے پاک لوگوں کے گھر ہیں کہ جن میں صبح و شام اللہ کی تسبیح ہوتی ہے اور اس کا ذکر کیا جاتا ہے۔

اس آیت میں موجود رفعت و بلندی سے مراد کیا چیز ہے؟ اس کے سلسلہ میں دو احتمال پائے جاتے ہیں :

۱۔ رفعت ظاہری

۲ ۔ رفعت معنوی

اگر اس آیت میں رفعت ظاہری مراد لی جائے تو اس کے معنیٰ یہ ہیں کہ اس گھر کے در و دیوار اور چھت وغیرہ کو بلند کرکے بنایا جائے اور ان کی بلندی کو مزید بڑھایا جائے۔ لیکن چونکہ یہ معنی اس مقام کے شایان شان نہیں ہیں اور اس آیت میں ذکر اور تسبیح الہی کا تذکرہ ہے۔ چنانچہ موضوع اور حکم میں مناسبت کا خیال رکھتے ہوئے۔ تو معنی کا تقاضہ یہ ہے کہ اس سے مراد رفعت معنوی ہونی چاہیے۔ اور کسی گھر کی معنوی رفعت کا تقاضہ یہ ہے کہ اسے تکریم و تعظیم کی نگاہ سے دیکھا جائے اور ان مکانوں کا احترام کیا جائے۔ اور یہ بھی واضح ہے کہ ان گھروں کے احترام کا ایک مصداق، اس مکان کو تعمیرکرنا، اسے منہدم اور مسمار ہونے سے بچانا اور اس کی حفاظت کی کوشش کرنا ہے۔

کئی روایات کے مطابق جب یہ آیت: ’’ فِي بُيُوتٍ أَذِنَ اللَّـهُ أَن تُرْفَعَ ‘‘ نازل ہوئی اور پیغمبر اکرمﷺ نے اسے مسجد میں اصحاب کے سامنے تلاوت کیا تو ایک صحابی نے حضرتﷺ سے سوال کیا: یا رسول اللہ! اس’’ بیوت ‘‘ سے مراد کیا ہے؟ آنحضرتﷺ نے فرمایا : انبیاء(عليهم السلام) کے گھر۔ اسی وقت حضرت ابوبکر اٹھے اور علی و فاطمہ سلام اللہ علیہما کے گھر کی طرف اشارہ کر کے پوچھا: یا رسول اللہ ﷺ! کیا یہ (علی وفاطمہ کا) گھر بھی انہیں گھروں میں سے ہے جنہیں اللہ نے بلند رکھنے کی اجازت دی ہے تاکہ ان کی منزلت، رفیع و اعلیٰ رہے؟ پیغمبرﷺ نے فرمایا : ’’ نعم، من أفضلھا‘‘ ہاں! یہ گھر ان سب میں با فضیلت ہے۔[1]

اس بیان کی روشنی میں اب سوال یہ ہے کہ وہ گھر جو اللہ کے حکم کے موجب سب سے افضل و برتر ہو اور جس کی تکریم و تعظیم ہونی چاہیئے، کس بنیاد پر اس گھر کو جس میں فاطمہ (س) کو دفنایا گیا ہو ویران کرنا جائز ہوگا ؟ کیا اس حکم کو منسوخ کرنے والا کوئی جدید حکم، اللہ کی جانب سے نازل ہوا تھا؟

تيسرى دليل: صالحین اور اولاد رسول اللہ ﷺ کی قبروں کو تعمیر کرنا، ان کی نسبت مسلمانوں کے ادب اور احترام کے ساتھ ساتھ ان سے مودت و محبت کی بھی نشانی ہے اور یہ وہی اجر رسالت ہے جس کی ادائیگی کا انہیں حکم ملا ہے جیسا کہ قرآن مجید کا ارشاد ہے :

﴿قُل لَّا أَسْأَلُكُمْ عَلَيْهِ أَجْرًا إِلَّا الْمَوَدَّةَ فِي الْقُرْبَىٰ[الشورى: 23]

"اے پیغمبر! آپ(ص) کہ دیجيے! میں اس(تبلیغ رسالت) پر تم سے کوئی اجرت نہیں مانگتا سوائے قريب ترين رشته داروں کی محبت کے۔"

بے شک اولیاء الہی کے معنوی مقام كے احترام و تعظیم کا اظہار اور ان سے محبت و مودت کا شرک سے کوئی تعلق نہیں ہے۔


[1] - تفسیر آلوسی ، ج۱۸ ، ص ۱۷۴ ؛ الکشف و البیان عن تفسیر القرآن، ج۷ ، ص ۱۰۷ ؛ الدر المنثور، ج ۵ ، ص ۵۰ ۔’’ أخرج ابن مرویۃ عن أنس بن مالک و بریدۃ قال : قرأ رسول اللہ ھذہ الآیۃ ( فی بیوت ۔۔۔۔) فقام إلیہ علیہ السلام رجل، فقال: أیّ بیوت ھذہ یا رسول اللہ ؟ فقال (ص) : بیوت الأنبیاء علیھم السلام ، فقام إلیہ أبوبکر، فقال: یا رسول اللہ ! ھذا البیت منھا لبیت علی و فاطمة ؟ قال : نعم ، من أفضلھا ۔‘‘

كيا توسل و شفاعت حرام ہے اور غیر خدا كى هر قسم کی تعظیم شرک ہے؟

اشكال: كيا توسل و شفاعت حرام ہے اور غیر خدا كى هر قسم کی تعظیم شرک ہے؟

جواب: وھابی و سلفى اپنی نادرست فہم کی بنا پر لفظ عبادت کو ایک وسیع ترین معنی پر حمل کرتے ہیں اور اس بنیاد پر بہت سارے اعمال جو مسلمانوں کی نظر میں جائز ہیں، کو حرام اور شرک سمجھتے ہیں۔ اس سوال کے جواب کے لیے معنى عبادت کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔

عبادت کا لغوى معنى كسى کے سامنے خضوع اور اظهار ذلت كرنا ہے، ليكن حقیقی اصطلاحى معنی خاص ہے اور وه يه ہے کہ کسی کو اوصاف الہی سے متصف کرتے ہوئے اس کے سامنے اظہارِ خضوع کرنا۔ اور اگر غیر خدا کے لیے هو تو يه اظهار ذلت شرک ہے۔

اگر اس حقیقت کو مد نظر رکھا جائے تو یہ بات واضح ہے کہ انبیاء سے توسل اور اولیاء الہی سے مدد طلب کرنا ممکن ہے اور یہ کسی قسم کا شرک قرار نہیں پاتا۔

لهذا اگر کوئی شخص انبیاء سے اور اولیاء الہی سے مدد طلب کرے یا ان سے توسل کرے اور ان كو شفيع قرار دے، تو ان جیسے افعال کی دو صورتیں ہيں:

پہلی صورت یہ ہے کہ وہ شخص اس اعتقاد کے ساتھ کہ وہ جس سے مدد طلب کر رہا ہے یا توسل کر رہا ہے، وہ مستقل طور پر ان کاموں کو انجام دے سکتا ہے اور خدا کے عرض میں ربوبیت کا مقام رکھتا ہے تو یہ شرک کہلائے گا۔

اور دوسری صورت یہ ہے کہ وہ شخص اس اعتقاد کے ساتھ کہ وہ جس سے مدد طلب کر رہا ہے یا توسل کر رہا ہے وہ مستقل نهيں، بلكه خدا سے وابستہ اور اس کا محتاج ہے اور اذن خدا سے یہ کام انجام دیتا ہے، تو یہ عین عبادت ہے اور کسی قسم کا شرک نہیں۔

لهذا اگر توسل، شفاعت اور غير خدا كى تعظيم کو شرک قرار دیا جائے تو فرشتوں کا آدم عليه السلام کو سجدہ کرنا، یعقوب عليه السلام کا اپنے بیٹے(يوسف عليه السلام) کے سامنے سجدہ کرنا اور مسلمانوں کا پیغمبر اسلام صلى الله عليه وآله وسلم سے توسل کرنا، یہ سب کام شرک کہلائیں گے جبکہ ایسا عقیدہ درست نہیں ہے، کیونکہ انبیاء شرک نہیں کرتے۔

صلوات فاطمه زهرا سلام الله عليها  ميں"والسر المستودع فيها" كا كيا مطلب ہے؟

صلوات فاطمه زهرا سلام الله عليها ميں"والسر المستودع فيها" كا كيا مطلب هے؟

تحرير : سيد غيور الحسنين

صلوات فاطمه زهرا سلام الله عليها يه هے (اللّهُمَّ صَلِّ عَلی فاطِمَةَ وَ أَبيها وَ بَعْلِها وَ بنيها وَالسِّرِّ الْمُسْتَوْدَعِ فيها بِعَدَدِ ما أَحاطَ بِه عِلْمُکَ)[1]

ترجمه: پروردگار درود وصلوات بھیج فاطمہ زہرا اور ان کے والدبزرگوار، شوہرنامدار اور اولاد پاک پر اور اس سر پر جسے خدا نے بی بی کی ذات میں ودیعت فرمایا ہے اس قدر کہ جتنا تیرے علم میں ہے.

سوال یہ ہے کہ وہ سر کیا ہے؟؟؟

لفظ "سر" سے مشخص هے كه يه اسرار الهي ميں سے هے جس كو خدا اور اس كے رسول صلى الله عليه و آله وسلم اور آل رسول عليهم السلام كے علاوه كوئي نهيں جانتا. ايسا راز جو تمام مخلوقات سے پوشيده نه هو وه راز نهيں هوتا. ليكن چند احتمالات ذكر كيے گئے هيں:

الف ـ امام مهدي عجل الله تعالى فرجه الشريف؛

ب ـ امامت و ولایت؛

ج ـ امر آئمه عليهم السلام؛

د ـ علوم ربانی.

شايد اسي بات پر يه حديث دلالت كرتي هے : "من أدرک فاطمة فقد أدرک ليلة القدر.... ما أدرک ما ليلة القدر"

يه وہی سر هے جس کی بنیاد پر علی عليه السلام کا ہم کفو بنیں، حجج الہیہ کےلیے حجت بنیں، امام زمانہ عجل الله تعالى فرجه الشريف کےلیے اسوہ حسنہ بنیں، صلب آدم عليه السلام کے بغیر خاص اہتمام سے اس دنیا میں تشریف لائيں. پیامبر صلى الله عليه و آله و سلم کا حد سے زیادہ احترام دینا، تمام ائمہ عليهم السلام کی طرف سے خصوصی احترام. یہ سب اسی راز کی باتیں ہی لگتی ہیں. باقی حقیقت تو شاید اس سے بھی آگے ہو جس کو ہمارے عقول سمجھ نہ پاتے ہوں. واللہ اعلم


[1] - صحیفه مهدیه، سیدمرتضی مجتهدی سیستانی، ترجمه مؤسسه اسلامی ترجمه، نشر حاذق، ص ۵۸۴.

مسئله شر اور اس كا حل

مسئله شر اور اس كا حل

تحرير: سید شهباز حیدر

انسان کو خداوند متعال نے فطرتاً اس طرح بنایا ہے کہ وہ تجسس کرتا ہے کسی بھی چیز کی گہرائي تک جانا چاہتا ہے چونکہ خالق كائنات کا وجود مخفی ہے انسان اس پر ایمان تو لے آتا ہے لیکن اس کا تجسس ختم نہیں ہوتا یہ سوال کرتا ہے. کبھی خالق کے وجود پر سوال کرتا ہے، کبھی اطمینان قلب کے واسطے اس کو دیکھنے کا تقاضہ کرتا ہے، کبھی اس کے وجود کی حدود کو ماپتا ہے تو کبھی اس کی صفات پہ سوال اٹھاتا ہے. اسی طرح کے ہزاروں سوالات میں سے ایک سوال یہ ہے کہ خدا جو اس کائنات کا خالق ہے اس کی صفات میں عالم مطلق،قادرمطلق اور خیر محض ہونا ہے اگر وہ خیر محض ہے تو اس نے کائنات کی ساخت تشکیل دیتے ہوئے یہ رعایت کیوں نا کی کہ اس کائنات میں کسی کے لئے ضرر اور نقصان نا ہوتا ؟

اس كائنات ميں شر كا وجود خدا كي صفات: عالم مطلق،قادر مطلق اور خیر محض سے متناقض هے. اس تناقض كو ختم كرنے كے لیے ضروري هے كه حقيقت شر كو بيان كريں۔

1- تعریف شر

شر ایک بدیهی مفهوم ہے جس کی تعریف کی احتیاج نہیں البتہ مختصرا یوں کہا جا سکتا ہے کہ فقدان کمال یا درد و رنج جو خدا کی مخلوق یعنی انسان کو پہنچے اسے یہ انسان شر تصور کرتا ہے. (جعفر سبحاني، محمد رضاعي، انديشه اسلامي(1)، ص121)

2- اقسام شر

شر کی دو اقسام ہیں ایک شر طبیعی ہے اور ایک شر اخلاقی۔

1- شر اخلاقی: جس شر کا عامل خود ذات انسان ہے جیسے چوری ، قتل و غارت ، جنگ و جدال وغیرہ.

2- شر طبیعی: جس میں انسان کا عمل دخل نہیں ہوتا جیسے قدرتی آفات، زلزلہ ، سیلاب ، طوفان اور وہ امراض جو لا علاج ہیں شر طبیعی میں آتے ہیں۔(جعفر سبحاني، محمد رضاعي، انديشه اسلامي(1)، ص121-122)

مسئله شر كا حل

1- بعض فیلسوف یہ کہتے ہیں کہ شر اصلا موجود ہی نہیں ہے ملا صدرا اس پر دلیل بیان کرتے ہیں کہ "أنّ الوجود فی نفسه خیر و بهاء کما أنّ العدم فی نفسه شرٌّ علی ما حکم به الفطرة."وجود اپنے آپ میں خیر محض ہے( یعنی جس چیز پر لفظ وجود کا اطلاق ہے وہ خیر ہے). اسی طرح عدم اپنے آپ میں شر ہے (یعنی جس چیز پر عدم كا اطلاق ہو گا وہی شر ہے )یہ حکم فطرت انسان لگاتی ہے (اگر کوئي آوازِ فطرت تک رسائي رکھتا ہو تو اس کے لئے یہ بات واضح ہے)"(ملاصدرا، الحکمه المتعالیه، ج4، ص 121).

دوسری دلیل شر کے معدوم ہونے پر قاعدہ سنخیت ہے ۔ یعنی خدا قادر مطلق ہے عالِمِ کل ہے اور خیرخواهِ مطلق ہے یا یوں کہيں کہ خیر محض ہے ۔لہذا علت و معلول کے درمیان خیر محض سے خیر کے سوا کچھ ایجاد نہیں ہو سکتا ۔

2- اس سوال کا جواب یوں دیا جا سکتا ہے کہ خداوند متعال کا مقصد مخلوق خلق کرنا نہیں بلکہ ایک نظام خلق کرنا تھا۔ خلقِ بشر کی بات آئے تو یہ زاویہ الگ ہے مگر جب خلق نظام کی بات آئے تو آئینہ فکر تبدیل کرنا پڑے گا. پھر مد نظر صرف انسان نہیں بلکہ کائنات میں بسر کرنے والی ہر مخلوق ہے. عالم میں صرف بشر نہیں بلکہ کئي مخلوقات ایسی ہیں جو انسان کی نظر سے اوجھل ہیں اور وہ اپنے ہونے کا احساس بھی کرواتی ہیں فیلسوف حضرات عوالم کو تین حصوں میں تقسیم کرتے ہیں: (جعفر سبحاني، محمد رضاعي، انديشه اسلامي(1)، ص122-124)

1- عالم عقل

2- عالم مثال

3- عالم ماده

1- عالم عقل: ایک ایسا عالم ہے کہ جس کی مخلوقات مجرد تام ہیں ۔اس کا مادی اور جسمانی مخلوقات سے کوئي تعلق نہیں، نا ہی یہ زمان یا مکان میں محدود ہے اور نه هي اس کی کسی جہت کا تعین ہو سکتا ہے ۔ عالم عقل تخلیق کی دنیا کا سب سے اعلی درجہ ہے اور ادنیٰ عوامل کا موثر سبب ہے۔ مشائین کا خیال تھا کہ اس عالم میں کل دس عقلیں ہیں جن کا ایک دوسرے سے قوی تعلق ہے اور ہر مرتبے میں عقل صرف ایک ہے اس سے زیادہ ممکن نہیں، لیکن ملا صدرا اور شیخ اشراق نے افلاطون کے نظریات کو قبول کیا ہے اور افقی کثرت کے قائل تھے. (ملا صدرا، الحكمة المتعاليه، ج۲، ص۸۲ – ۴۶)

2- عالم مثال:تخلیق کا دوسرے درجے کا مرحلہ ہے. یہ عالم عقل اور عالم مادہ کے درمیان میں قرار پایا ہے. یہ عالم مادہ سے مجرد ہے لیکن اسکی جہت زمانی و مکانی مشخص ہے اس کی شکل بھی ہے، رنگ بھی ہے ،ليكن جسم مادي نهيں ہے. اسے تجرد مثالی یا تجرد برزخی سے بھی تعبیر کیا گیا ہے۔

3- عالم مادہ: يه عالم محسوس ہے کہ جسے عالم طبیعت اور عالم شھادت سے تعبیر کیا جاتا ہے یعنی جسے ہم محسوس کر سکتے ہیں دیکھ سکتے ہیں۔ عالم عقل و مثال کے بر عکس حواس خمسه اس عالم کا ادراک کرنے سے قاصر نہیں ہيں۔

دوسرا جواب يه هے كه شر اس جہان مادی کا لازمہ ہے،تجرد محض ہونا، خیر محض ہونا اس عالم مادی کے لئے محال ہے خداوند متعال اگر چاہتا تو اس عالم کو بھی خیر محض بنا سکتا تھا لیکن اس کا مقصد مخلوق نہیں نظام خلق کرنا تھا جیسا کہ وہ قرآن کریم میں ارشاد فرماتا ہے: ﴿الَّذِي خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ وَمَا بَيْنَهُمَا فِي سِتَّةِ أَيَّامٍ ثُمَّ اسْتَوَىٰ عَلَى الْعَرْشِ ۚ الرَّحْمَٰنُ فَاسْأَلْ بِهِ خَبِيرًا( فرقان 59)

زمین و آسمان کی خلقت 6 دن میں ہوئی حالانکہ وہ یہ بھی فرماتا ہے:﴿إِنَّمَا أَمْرُهُ إِذَا أَرَادَ شَيْئًا أَنْ يَقُولَ لَهُ كُنْ فَيَكُونُ( يس 82)"وہ جب کسی چیز کا ارادہ کرتا ہے تو اسے کہتا ہے ہو جا تو وہ ہو جاتی ہے"۔ اگر حقیقت امر یونہی ہے تو پھر یہ چھ دن کا دورانیہ کیوں ؟ کیونکہ اس حکیم ذات کا مقصد اس نِظام کو ایک خاص پیراہے میں چلانا تھا اگر مقصد فقط مخلوق بنانا ہوتا تو وہ ایسے بنا دیتا کہ جیسے انسان تقاضہ کرتا ہے مگر اس کا مقصد نظام بنانا تھا نظام میں مینیجمٹ ہوتی ہے اور نظام کے خاص تقاضے ہوتے ہیں یہ عالم عالمِ عقل و مثال نہیں کہ جس میں تزاحم و تنازع نا پایا جائے یہ عالمْ تزاحم و تنازع اپنے اندر سموئے ہوئے ہے اس لئے اس عالم کا لازمہ شر قرار پایا ہے.

فارابی عالم اسلام کا ایک مایہ ناز فلسفی یہ کہتا ہوا نظر آتا ہے:

"الأول تام القدرة والحکمة والعلم، کامل فی جمیعه أفعاله لا یدخل فی جمیع أفعاله خللٌ البتةً ولا یلحقه عجز ولا قصور والآفات والعاهات التی تدخل علی الأشیاء الطبیعية، إنّما هی للضّرورات ویعجز المادة عن قبول النّظام التّام"

"خداوند متعال اپنی قدرت اپنے علم اور اپنی حکمت میں کمال مطلق ہے اس کے کسی کام میں نقص کا تصور ممکن نہیں آفات و شرور تو بس طبیعت کا تقاضہ ہیں یہ عالم طبیعت پہ عارض ہونے والی چیزیں ہیں عالم طبیعت و عالم مادہ میں اتنی ظرفیت نہیں کہ یہ خیر محض کو قبول کر سکے "( فارابی ،تعلیقات ، ص 46)

اب اگر کوئي اشکال کرے کہ خدا نے اس عالم کو ایسا کیوں نہیں بنایا کہ اس میں خیر محض ہو. آگ کو ایسا کیوں نہیں بنایا کہ وہ کسی بے گناہ یا معصوم کو نا جلائے ؟ وہ لباس کو نا جلائے ؟

المختصر! که طبیعت کے قوانین کو ایسا کیوں نہیں بنایا کہ ان میں کسی کو تکلیف پہنچانے کی صلاحیت ہی نا ہوتی ؟

ان اشکالات کا مختصر جواب یہ ہے کہ اعطاء المعطی کے ساتھ قابلية القابل شرط ہے عطا کرنے والے کی عطا میں کمی نہیں ہے قبول کرنے والے کی ظرفیت میں کمی ہے اس نے ہر مخلوق کو اتنا عطا کیا ہے جتنی اس میں تحمل کی طاقت ہے:﴿وَلَا نُكَلِّفُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا﴾ ( المؤمنون 62) کسی نفس پر ظلم کرنا اس خالق کے شایان شان نہیں وہ صرف اتنا بوجھ ڈالتا ہے جتنا کوئي برداشت کر سکے ۔

ابن سینا اپنی کتاب الھیات کے باب شرّيتِ عالم میں کہتا ہے کہ: "اگر وہ کہیں کہ خدا نے عالم کو اس طرح خلق کیوں نا کیا کہ یہ خیر محض ہو اس میں مانع شرور پیدا کیوں نا کئے ؟ تو ان کے جواب میں یہ کہا جائے گا کہ اگر عالم مادی کہ جس کا لازمہ ہی یہ هے کہ اس میں شر قرار پائے اگر اس طرح خلق ہوتا کہ اس میں کوئي شر نا ہوتا تو یہ عالم مادی ہی نا رہتا یہ کوئي اور عالم ہوتا کہ جو خیر محض ہو اگر مادیت ہے تو شر الزامی ہے "۔

اور اگر یه کها جا ئے که کائنات شرور سے بھری پڑی ہے اس میں خیر کم ہے اور شر زیادہ ہے اس سے تو بہتر تھا کہ یہ کائنات خلق نا ہوتی۔

اس كا جواب یہ ہے يه کہنا بیوقوفی کے سوا کچھ بھی نہیں کیونکہ یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ اس کائنات میں اگر دس فیصد شر ہے تو نوّے فیصد خیر ہے. اب اتنے قلیل سے شر کی موجودگی کی وجہ سے کائنات کے عدم کا تقاضہ خود ایک شر کبیر ہے ۔

اور دوسری بات یہ کہ انسان ہر چیز میں خود کو مد نظر رکھتا ہے اپنی ذات کو محور و مرکز قرارداد دیتا ہے اگر خود کو محور قراردینا چھوڑ دے اور اس کائنات کی وسعتوں کو مد نظر رکھے تو انسان یہ درک کر سکتا ہے کہ یہ کائنات ہر لحاظ سے خیر ہے. اگر آگ کو جلانے کی قوت دی ہے تو انسان کو عقل کی طاقت دی ہے تا کہ وہ اس کو اپنے فائدے کے لئے استعمال کر سکے اور اس کے نقصان سے بچ سکے. (جعفر سبحاني، محمد رضاعي، انديشه اسلامي(1)، ص124-125)

3- اللہ نے انسان کو آزاد پیدا کیا۔ وہ ارتقاء کی راہ پر چل سکتا ہے اور اپنی مرضی سے سعادت حاصل کر سکتا ہے، گمراہی کے راستے پر چل سکتا ہے اور گمراہ ہو سکتا ہے اور ایسے برے کاموں میں مشغول ہو سکتا ہے، جس کی وجہ سے دوسروں کے لئے تکلیف کا باعث بنتا ہے ۔ لہٰذا دنیا میں برائی انسان کی آزادی کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے۔ خدا انسان کو دو طریقوں سے تخلیق کر سکتا تها:

1- خدا انسان کو مجبور پیدا كرتا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ خدا انسان کو اس طرح پیدا کرتا کہ اس سے صرف نیکیاں ہی صادر ہوتیں۔ اس صورت ميں انسان كے اعمال كي كوئي اهميت نه هوتي اور كمال كى طرف سفر بے معنى هو جاتا.

2- خدا انسان كو آزاد پیدا کرتا، جس کا تقاضا ہے کہ کچھ لوگ برے کام کریں۔ تا کہ پھر اس آزادی کا انسان سے حساب لیا جائے کہ ہم نے تمھیں با اختیار بنایا تھا تم نے عمل خیر کیا تو اپنے اختیار سے اور موجب شر بنے تو اپنے ارادے اور اختیار سے ۔ اس ميں انسان كے اعمال كي اهميت هے اور كمال كا حصول معنى ركهتا هے. (جعفر سبحاني، محمد رضاعي، انديشه اسلامي(1)، ص125-127)جیسا کہ قرآن مجید میں خداوند متعال نے اس طرف اشارہ کیا ہے:

﴿ظَهَرَ الْفَسَادُ فِی الْبَرِّ وَالْبَحْرِ بِمَا كَسَبَتْ اَيدِی النَّاسِ لِيذِيقَهُمْ بَعْضَ الَّذِیْ عَمِلُوْا لَعَلَّهُمْ يرْجِعُوْنَ﴾ (الروم41)

"لوگوں کے اعمال كے باعث خشکی اور سمندر میں فساد برپا ہوگیا تاکہ انہیں ان کے بعض اعمال کا ذائقه چکھايا جائے شايد يه لوگ باز آجائیں"۔

4- مسئلہ شر کو حل کرنے کے لیے بعض مفکرین یہ نظر رکھتے ہیں کہ جسے کچھ لوگ برائی سمجھتے ہیں وہ لوگوں کی جهالت يا سطحی اور جزوی قضاوتوں کا نتیجہ ہے۔ اگر لوگوں کے پاس وسیع اور جامع علم ہوتا تو وہ کبھی بھی کچھ چیزوں کی برائی کا اتنی آسانی سے فیصلہ نہ کرتے۔ اپنے مطلق کمالات کی وجہ سے، خدا نے بہترین ممکنہ دنیا بنائی ہے جہاں ہر چیز اپنی جگہ پر خیر ہے۔ لیکن کچھ لوگ تنگ نظری کی وجہ سے چیزوں کے بارے میں صحیح فیصلہ نہیں کر سکتے۔(جعفر سبحاني، محمد رضاعي، انديشه اسلامي(1)، ص127-129) یہ نقصِ علمی اور نظر کی تنگی باعث بنتی ہے کہ انسان ہر چیز کو شر تصور کرتا ہے جیسا کہ پروردگار عالم قرآن مجید میں اشارہ فرماتا ہے:

﴿وَعَسَىٰ أَن تَكْرَهُوا شَيْئًا وَهُوَ خَيْرٌ لَّكُمْ ۖ وَعَسَىٰ أَن تُحِبُّوا شَيْئًا وَهُوَ شَرٌّ لَّكُمْ ۗ وَاللَّهُ يَعْلَمُ وَأَنتُمْ لَا تَعْلَمُونَ ( البقرہ 216)

"اورممکن ہے تمهیں ایک چیز ناگوار گزر ے مگر وہی تمھارے لئے بهتر ہو(جيسا كه) ممکن ہے تمهیں ایک چیز پسند هو مگر وہ تمھارے لئے بری ہو، (ان باتوں كو) خدا بهتر جانتا ہے اور تم نہیں جانتے"۔

المختصر: یہ کائنات اور اس کی وسعتیں اس خالق نے کہ جو عقل انسان سے ماورا ہے ہر طرح سے کامل اور منظم بنائي ہیں اور انسان کو اختیار دیا ہے کہ وہ چاہے تو اپنے اختیار سے اشرف المخلوقات بن جائے اور چاہے تو اپنے اختیار سے وہ کسب کرے جو اسے اسفل السافلین تک پہنچا دے۔

شر كے فوائد:

1- شر عالم مادہ کا لازمہ ہے اور فطری تقاضہ ہے.

کشمکش اور تصادم مادی دنیا کی ذاتی خصوصیات ہیں۔ اگر یہ خصوصیات نہ ہوتیں تو مادی دنیا جیسی کوئی چیز نہ ہوتی۔ یا تو یہ خصوصیات مادے کی دنیا میں موجود ہونی چاہئیں یا ایسی دنیا کا کوئی وجود ہی نہیں۔ دوسری طرف، خدا کی حکمت اور فضل کا تقاضا ہے کہ مادی دنیا کی تخلیق کی ہو کیونکہ اس کی اچھائی اس کے عیبوں اور برائیوں سے زیادہ ہے اور تھوڑی سی برائی کی خاطر بڑی بھلائی کو ترک کرنا خدا کی حکمت اور فضل کے خلاف ہے.

2- شر استعداد انسان کے پھلنے پھولنے کا سبب ہے .

انسان کی ساخت ایسی ہے کہ اس کی بہت سی صلاحیتیں مشکلات اور مسائل کا سامنا کرنے کے سائے میں پروان چڑھتی ہیں۔ بہت سی ایجادات اور اختراعات مسائل اور مشکلات سے نمٹ کر حاصل کی جاتی ہیں۔ اس لیے برائی کا وجود انسان کی روحانی اور سائنسی ترقی کے لیے مفید ہے۔ قرآن اس بارے میں سورہ الشرح کی آیات 5 اور 6 میں کہتا ہے: ﴿ اِنَّ مَعَ العُسْرِ يُسْراً " يقينا مشکل کے ساتھ آسانی ہے".

3- شر غفلت سے بیداری کا سبب ہے.

برائیوں اور مشقتوں کا ایک فائدہ یہ ہے کہ یہ انسان کے لئے غفلت سے بیداری کا زینہ فراہم کرتی ہیں. آئیے ایک ایسے ڈرائیور کی مثال لے لیں جو ڈرائیونگ تو جانتا ہے مگر ڈرائیونگ کے اصول و ضوابط کو مد نظر نہیں رکھتا اور گاڑی چلانے میں غفلت برتتا ہے اگر وہ اسی طرح غفلت برتتا رہے تو خود بھی نقصان اٹھائے گا اور دوسروں کے بھی نقصان کا باعث بنے گا لیکن ایک انتباہ کے طور پر، پولیس اسے جرمانہ کرتی ہے اور اس لا پرواہی کو جاری رکھنے سے روکتی ہے۔ یہ دشواری اور تکلیف اس کے حق میں ہے اور اسے ناخوشگوار نتائج سے دور رہنے کے لیے بیدار اور چوکنا بناتی ہے۔ قرآن میں اللہ تعالیٰ نے غفلت سے بیدار ہونے کے لیے مشکلات اور پریشانیوں کا بھی ذکر کیا ہے اور سورہ سجدہ کی آیت نمبر 21 میں فرمایا ہے: "اور یقیناً آخرت کے بڑے عذاب کے علاوہ ہم قریب کے عذاب کا مزہ چکھائیں گے۔ دنیا کے عذاب سے، امید ہے کہ وہ خدا کی طرف لوٹ آئیں۔"

4- یہ خدا کے خاص بندوں کے لئے تحفہ ہے.

بعض روایات کے مطابق جب بندے پر خداوند منان کا خاص کرم ہوتا ہے تو خدا سے مشکلات میں مبتلا کرتا ہے ۔

امام صادق علیہ السلام اس بارے میں فرماتے ہیں:

جب خدا کسی بندے سے محبت کرتا ہے تو اسے مشکلات کے سمندر میں غرق کر دیتا ہے۔

ایک اور جگہ امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں: انبیاء دوسرے لوگوں کے مقابلے میں زیادہ مصیبتوں میں مبتلا ہوتے ہیں اور پھر جو لوگ ان سے مشابہ ہوتے ہیں، جتنے زیادہ خدا کے منتخب بندوں (انبیاء و اولیا) کے مشابہ ہونگے اتنے ہی مشکلات میں مبتلا ہونگے ۔

5- شر امتحانِ الہی ہے .

خدا بعض اوقات اپنے بندوں کو مصیبت اور مشکل سے آزماتا ہے تاکہ ان کی پہچان ہو سکے جو سچے اور کھرے ہیں جس طرح سے ناپاک سونے کو گرمی سے پاک کرتے ہیں اور اسے مزید خوبصورتی اور قدر عطا کرتے ہیں۔ اسی طرح الله بعض بندوں کو مصائب، آفات اور پریشانیوں میں آزماتا ہے تاکہ وہ پاکیزہ اور قیمتی بن جائیں۔(جعفر سبحاني، محمد رضاعي، اندیشہ اسلامی، ص130-131)

﴿أَحَسِبَ النَّاسُ أَنْ يُتْرَكُوا أَنْ يَقُولُوا آمَنَّا وَهُمْ لَا يُفْتَنُونَ.وَلَقَدْ فَتَنَّا الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ ۖ فَلَيَعْلَمَنََّ الله الَّذِينَ صَدَقُوا وَلَيَعْلَمَنَّ الْكَاذِبِينَ(العنكبوت: 2-3)

"کیا لوگوں نے یہ خیال کر رکھا ہے کہ وہ صرف اتنا کہنے سے چھوڑ دیے جائیں گے کہ ہم ایمان لائے اور یہ کہ وہ آزمائے نہیں جائیں گے؟ اور بتحقیق ہم ان سے پہلوں کو بھی آزما چکے ہیں کیونکہ اللہ کو بہرحال یہ واضح کرنا ہے کہ کون سچے ہیں اور یہ بھی ضرور واضح کرنا ہے کہ کون جھوٹے ہیں۔ "

منابع

1- قرآن كريم.

2- ملاصدرا، الحکمة المتعالیه فی الاسفار العقلیة الاربعه، چاپ: بیروت ، اعلمی.

3- فارابي، التعليقات، چاپ: حیدرآباد دکن، ۱۳۰۶ ش.

4- جعفر سبحاني، محمد رضاعي، انديشه اسلامي(1)، نشر معارف، قم، چاپ: 100، سال1400ش.

نیاز امام جعفر صادق عليه السلام(كونڈے)

نیاز امام جعفر صادق عليه السلام(كونڈے)

تحرير: سيد غيور الحسنين

کونڈے وہ برتن ہیں جن میں کھانے کی پاکیزہ چیزوں کو رکھا جاتا ہے. زمانہ امام جعفر صادق عليه السلام 34 سال پہ محیط ہے. (114ھ تا 148ھ) ان میں معجزات وکرامات اور ارشادات بھی ہیں جنہیں الجرائح و الخرائج نے اور تزکرة المعصومین نے تفصیل سے لکھا ہے. امام عليه السلام علم لدنی کے مالک تھے اور پسندیدہ رب تھے . ایک صحابی نے دعا کے لیے کہا آپ نے الله تعالى سے التجا کر کے مراد پوری کر دی. صحابی نے عقیدت میں نیاز تیار کی کونڈے میں رکھ کر صبح کی نماز کے بعد نمازیوں کو کھلا دی (22 رجب تھی) لوگوں نے دیکھا دیکھی منتیں ماننا شروع کر دیں جن کی پوری ہوگئیں کونڈے بھرنے شروع ہو گے. اور یوں تیرہ سو سال سے یہ رسم چلی آ رہی ہے.عبدالرحمن جامی نے شواہد النبوة میں امام جعفر صادق عليه السلام  کا وعدہ پورا کرنا اور کرامات دکھانا وضاحت سے لکھا ہے. یہ نذر ونیاز اس لیے زیادہ مقبول ہوئی کہ امام جعفر صادق عليه السلام  نے فرمایا: منت کے صیغے پڑھ کر قصد کیا جاے،تو مراد پوری ہوتی ہے، رزق میں اضافہ ہوتا ہے، مومنین سے محبت بڑھتی ہے، صلہ رحمی کا موقع ملتا ہے، پاکیزگی سے کھانا پکانے کا درس ملتا ہے، اور اہل بیت سے محبت بڑھتی ہے.

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

جب عقل ہے تو دین کی کیا ضرورت؟

جب عقل ہے تو دین کی کیا ضرورت؟

تحرير: سيد غيور الحسنين

عقل کلیات کا ادراک کرتی ہے جزئیات کو درک نہیں کر سکتی. لہذا اللہ پاک نے ہمیں دین دیا تاکہ جزئیات کے ادراک کی جگہ پر ہو سکے. جیسے وجود خدا کا اثبات عقل کرتی ہے لیکن وہ کیسا ہے؟ اس کی صفات کیا ہیں؟ عقل کی مدد کے لیے دستورات خدا کی ضرورت ہے جو آج قرآن کریم اور اھل بیت علیھم السلام کے فرامین کی صورت ميں موجود ہیں. لہذا عقل اور دین میں کوئی تصادم نهيں.

اگر کوئی عقل و دین کے درمیان جدائی کا قائل ہے تو شاید اس نے عقل کو نہیں سمجھا یا دین صحيح راستے سے نہیں لیا یا جان بوجھ لوگوں کو گمراہ کر رہا ہے۔

وہ صحابہ جو لشکر یزید میں تھے اور امام حسین علیہ السلام کے قتل میں شریک ہوئے

وہ صحابہ جو لشکر یزید میں تھے اور امام حسین علیہ السلام کے قتل میں شریک ہوئے:

تحرير: نامعلوم

 

حیران کن انکشاف

اب کھاں گئ ان کی صحابیت

یا پھر خطاے اجتھادی کا فائدہ دیا جاے گا؟؟؟؟

 

چند صحابہ کربلاء میں لشکر یزید میں حاضر ہوئے اور فرزند رسول کے قتل میں شریک ہوئے۔

ان میں سے 8 صحابہ کے نام ذکر ہو رہے ہیں:

 

   1 . كثير بن شهاب الحارثي:

اس کے صحابی ہونے کے بارے میں:

قال أبو نعيم الأصبهاني المتوفی  : 430:

كثير بن شهاب البجلي رأى النبي(ص).

    کثیر بن شھاب نے نبیّ (ص) کو دیکھا تھا۔

 تاريخ أصبهان  ج 2   ص 136 ،    ، دار النشر : دار الكتب العلمية – بيروت - 1410 هـ-1990م ، الطبعة : الأولى ، تحقيق : سيد كسروي حسن

 

قال ابن حجر:

يقال ان له صحبة ... قلت ومما يقوي ان له صحبة ما تقدم انهم ما كانوا يؤمرون الا الصحابة وكتاب عمر اليه بهذا يدل على انه كان أميرا.

اس کے صحابی ہونا کا قوی احتمال ہے اس لیے کہ وہ فقط صحابہ ہی کو جنگ کی سپہ سالاری دیتے تھے۔

الإصابة في تمييز الصحابة  ج 5   ص 571 نشر : دار الجيل – بيروت.

 

2 . حجار بن أبجر العجلي:

ابن حجر عسقلانی نے اسے صحابی کہا ہے اور بلاذری نے اس کے خط کو جو اس نے امام حسین(ع) کو لکھا ہے، کو نقل کیا ہے:

حجار بن أبجر بن جابر العجلي له إدراك.

اس نے نبی(ع) کے زمانے کو درک کیا ہے۔

الإصابة في تمييز الصحابة  ج 2   ص 167 رقم 1957 ، دار النشر : دار الجيل – بيروت

 

قالوا: وكتب إليه أشراف أهل الكوفة ... وحجار بن أبجر العجلي... .

امام حسین(ع) کو بزرگان کوفہ نے خط لکھے ہیں ان میں سے ایک حجار ابن ابجر ہے۔

أنساب الأشراف  ج 1   ص 411

 

وہ ایک ہزار کے لشکر کی سالاری کرتا ہوا کربلاء پہنچا:

قال أحمد بن يحيى بن جابر البلاذری:

وسرح ابن زياد أيضاً حصين بن تميم في الأربعة الآلاف الذين كانوا معه إلى الحسين بعد شخوص عمر بن سعد بيوم أو يومين، ووجه أيضاً إلى الحسين حجار بن أبجر العجلي في ألف.

وہ کربلاء میں ہزار سپاہیوں کے ہمراہ شریک ہوا۔

أنساب الأشراف  ج 1   ص 416

 

3. عبد الله بن حصن الأزدی:

اس کے صحابی ہونے کے بارے میں:

 قال ابن حجر أبو الفضل العسقلاني الشافعي  المتوفي:  852: عبد الله بن حصن بن سهل ذكره الطبراني في الصحابة۔

 

طبرانی نے اسے صحابہ میں ذکر کیا ہے۔

الإصابة في تمييز الصحابة  ج 4   ص 61  رقم 4630،  ، دار النشر : دار الجيل – بيروت

 

کربلاء میں اس کا امام حسین(ع) کی توھین کرنا:

وناداه عبد الله بن حصن الأزدي: يا حسين ألا تنظر إلى الماء كأنه كبد السماء، والله لا تذوق منه قطرة حتى تموت عطشاً.

عبد اللہ ازدی نے کہا: اے حسین کیا تم پانی کی طرف نہیں دیکھ رہے لیکن خدا کی قسم اس میں سے ایک قطرہ بھی تم کو نہیں ملے گا حتی تم پیاسے ہی مرو گے۔

أنساب الأشراف  ج 1   ص 417

 

4. عبدالرحمن بن أبي سبرة الجعفی:

اس کے صحابی ہونے کے بارے میں:

 قال ابن عبد البر المتوفي 463: عبد الرحمن بن أبى سبرة الجعفى واسم أبى سبرة زيد بن مالك معدود فى الكوفيين وكان اسمه عزيرا فسماه رسول الله صلى الله عليه وسلم عبد الرحمن ...

اس کا نام عزیز تھا پھر رسول خدا(ص) نے اس کا نام عبد الرحمن رکھا۔

الاستيعاب  ج 2   ص 834  رقم 1419، نشر : دار الجيل – بيروت.

 

اس کا قبیلہ اسد کی سربراہی کرنا اور امام حسین(ع) کے قتل میں شریک ہونا:

قال ابن الأثير المتوفي:  630هـ : وجعل عمر بن سعد علي ربع أهل المدينة عبد الله بن زهير الأزدي وعلي ربع ربيعة وكندة قيس بن الأشعث بن قيس وعلي ربع مذحج وأسد عبد الرحمن بن أبي سبرة الجعفي وعلي ربع تميم وهمدان الحر بن يزيد الرياحي فشهد هؤلاء كلهم مقتل الحسين.

وہ قبیلہ مذحج اور اسد کا سالار تھا اور کربلاء میں حاضر ہوا۔

الكامل في التاريخ  ج 3   ص 417 ،  دار النشر : دار الكتب العلمية – بيروت

 

5. عزرة بن قيس الأحمسی:

اس کے صحابی ہونے کے بارے میں:

 قال ابن حجر أبو الفضل العسقلاني الشافعي  المتوفي:  852:  عزرة بن قيس بن غزية الأحمسي البجلي ... وذكره بن سعد في الطبقة الأولى۔

اس کو ابن سعد نے پہلے طبقے میں ذکر کیا ہے۔( یعنی صحابی تھا)

الإصابة في تمييز الصحابة  ج 5   ص 125  رقم 6431، نشر : دار الجيل – بيروت.

 

اس نے امام حسين (ع) کو خط لکھا تھا:

قالوا: وكتب إليه أشراف أهل الكوفة ... وعزرة بن قيس الأحمسی۔

اس نے امام حسین(ع) کو خط لکھا تھا۔

 أنساب الأشراف  ج 1   ص 411

 

گھوڑے سواروں کا سالار:

وجعل عمر بن سعد ... وعلى الخيل عزرة بن قيس الأحمسی۔

أنساب الأشراف  ج 1   ص419

وہ گھوڑے سوار لشکر کا سالار تھا۔

شھداء کے سر لے کر ابن زیاد کے پاس گیا:

واحتزت رؤوس القتلى فحمل إلى ابن زياد اثنان وسبعون رأساً مع شمر... وعزرة بن قيس الأحمسي من بجيلة، فقدموا بالرؤوس على ابن زياد۔

أنساب الأشراف  ج 1   ص 424

 

6 - عبد الرحمن بن أَبْزى:

له صحبة وقال أبو حاتم أدرك النبي صلى الله عليه وسلم وصلى خلفه۔

وہ صحابی ہے۔ ابو حاتم نے کہا ہے کہ اس نے نبی(ص) کے پیچھے نماز پڑھی ہے۔

الإصابة - ابن حجر - ج 4 ص 239

 

قال المزّي: «سكن الكوفة واستُعمل عليها»، وكان ممّن حضر قتال الإمام عليه السلام بكربلاء۔

مزّی کہتا ہے کہ وہ کوفے میں رہتا تھا۔ وہ امام حسین(ع) سے جنگ کرنے کربلاء حاضر ہوا تھا۔

تهذيب الكمال 11 / 90 رقم 3731.

 

7 - عمرو بن حريث:

يكنى أبا سعيد رأى النبي صلى الله عليه وسلم۔

اس نے نبی(ص) کو دیکھا تھا۔

أسد الغابة - ابن الأثير - ج 4 ص 97

سپہ سالاروں میں سے تھا:

             ومن القادة: «عمرو بن حريث وهو الذي عقد له ابن زياد رايةً في الكوفة وأمّره على الناس.

ابن زیاد نے اسے کوفہ میں علم جنگ دیا اور لوگوں پر امیر بنایا تھا۔

بحار الأنوار 44 / 352.

وبقي على ولائه لبني أُميّة حتّى كان خليفة ابن زياد على الكوفة.

بنی امیّہ کے لیے والی رہا یہاں تک کہ ابن زیاد کوفہ کا خلیفہ تھا۔

 أنساب الأشراف 6 / 376.

 

8 - أسماء بن خارجة الفزاری:

اس کے صحابی ہونے کے بارے میں:

 وقد ذكروا أباه وعمه الحر في الصحابة وهو على شرط بن عبد البر۔

اس کو صحابہ میں سے شمار کیا گیا ہے۔

 الإصابة في تمييز الصحابة  ج 1   ص 195 ، دار النشر : دار الجيل – بيروت

 

امام حسين(ع) کے قتل کرنے میں اس کا شریک ہونا:

دعا ابن زياد ... وأسماء بن خارجة الفزاري، ... وقال: طوفوا في الناس فمروهم بالطاعة ... وحثوهم على العسكرة. فخرجوا فعذروا وداروا بالكوفة ثم لحقوا به۔

اسماء بن خارجہ یہ لوگوں کو بنی امیہ کی اطاعت اور امام حسین سے جنگ کا حکم دیتا تھا۔

أنساب الأشراف  ج 1   ص 416.

 

ب: یزید کی طرف سے امام حسين(ع) کو شھید کرنے کا حکم صادر ہونا:

یزید کے قاتل ہونے کے لیے ضروری نہیں کہ خود کربلاء جا کر امام حسین(ع) کو قتل کرے بلکہ جب ایک حاکم کے نیچے کام کرنے والے اس کے وزراء وغیرہ جب ہر کام کے انجام دینے میں حاکم کے تابع ہوتے ہیں تو ان سب کے کام اور سب کی کامیابی اور ناکامی اس حاکم کی طرف منسوب ہوتی ہے۔ یزید کے  امام حسین(ع کے قاتل ہونے میں بھی ایسے ہی ہے۔

ایک دوسری عبارت کے ساتھ کہ: يزيد بن معاوية قاتل امام حسين (ع) ہے لیکن ابن زياد، و شمر و عمر بن سعد. کی تلوار کے ساتھ۔ یعنی تلوار وہ چلا رہے تھےلیکن حکم یزید کا تھا۔

ذهبی لکھتا ہے کہ:

خرج الحسين إلي الكوفة، فكتب يزيد إلي واليه بالعراق عبيد الله بن زياد: إن حسينا صائر إلي الكوفة، وقد ابتلي به زمانك من بين الأزمان، وبلدك من بين البلدان، وأنت من بين العمال، وعندها تعتق أو تعود عبدا. فقتله ابن زياد وبعث برأسه إليه.

امام حسین(ع) نے جب کوفے کی طرف حرکت کی تو یزید نے عراق کے والی عراق عبيد الله بن زياد کو لکھا کہ حسین کوفے کی طرف جا رہا ہے اس نے دوسرے شہروں کی بجائے آنے کے لیے تمہارے شہر کو انتخاب کیا ہے تم میرے قابل اعتماد ہو پس تم خود فیصلہ کرو کہ تم نے آزاد رہ کر زندگی گزارنی ہے یا غلام بن کر۔ اس پر ابن زیاد نے حسین کو قتل کیا اور اس کے سر کو یزید کے لیے بیجھا۔

شمس الدين محمد بن أحمد بن عثمان الذهبي الوفاة: 748هـ ، تاريخ الإسلام  ج 5   ص 10 دار النشر : دار الكتاب العربي - الطبعة : الأولى ، تحقيق : د. عمر عبد السلام تدمرى

محمد بن أحمد بن عثمان بن قايماز الذهبي أبو عبد الله الوفاة: 748 ، سير أعلام النبلاء  ج 3   ص 305 دار النشر : مؤسسة الرسالة - بيروت - التاسعة ، تحقيق : شعيب الأرناؤوط , محمد نعيم العرقسوسي

یہی مطلب ابن عساکر سے بھی نقل ہوا ہے:

تاريخ دمشق، ج 14، ص 213 ـ و در حاشيه بغية الطالب، ج 6، رقم 2614.تاريخ دمشق، ج 14، ص 213 ـ و در حاشيه بغية الطالب، ج 6، رقم 2614.

 

 جلال الدین سيوطی نے بھی لکھا ہے کہ:

فكتب يزيد إلي واليه بالعراق، عبيد الله بن زياد بقتاله.

يزيد نے  عبيد الله بن زيادکہ جو  والی عراق تھا اس کو امام حسین(ع) کے ساتھ جنگ کرنے کا حکم دیا۔

تاريخ الخلفاء، ص 193، چاپ دار الفكر سال 1394 هـ. بيروت.

 

ابن زياد نے مسافر بن شريح يشكری کو لکھا کہ:

أما قتلي الحسين، فإنه أشار علي يزيد بقتله أو قتلي، فاخترت قتله.

میں نے حسین کو اس لیے قتل کیا ہے کہ مجھے حسین کے قتل کرنے یا خود مجھے قتل ہونے کے درمیان اختیار کیا گیا تھا اور میں ان دونوں میں سے حسین کو قتل کرنے کو انتخاب کیا۔

الكامل في التاريخ، ج 3، ص 324.

 

ابن زياد نے امام حسين(ع) کو خط لکھا کہ:

قد بلغني نزولك كربلاء، وقد كتب إلي أمير المؤمنين يزيد: أن لا أتوسد الوثير، ولا أشبع من الخمير، أو ألحقك باللطيف الخبير، أو تنزل علي حكمي، وحكم يزيد، والسلام.

مجھے خبر ملی ہے کہ تم کربلاء میں پہنچ گئے ہو اور یزید نے مجھے کہا ہے کہ بستر پر آرام سے نہ سوؤں اور پیٹ بھر کر کھانا نہ کھاؤں مگر یہ کہ یا تم کو خدا کے پاس روانہ کر دوں یا تم کو یزید کی بیعت کرنے پر راضی کروں۔

شیعہ ماتم کیوں کرتے ہیں۔؟

شیعہ ماتم کیوں کرتے ہیں۔؟

تحرير: نامعلوم

 

ایک بار ضرور پڑھیں

ہمارے مسلمان بھائی اکثر ہم سے الجھتے رہتے ہیں کہ شیعہ ماتم کیوں کرتے ہیں حالانکہ نبی پاک (ص) نے ماتم کرنے سے منع کیا ہے

 

 پھر شیعہ ماتم کیوں کرتے ہیں۔۔۔؟؟؟

اس مسلے کے حل کے لیے انتہائی ضروری ہے کہ لفظ ماتم کا مطلب جان لیا جاے

تاکہ پتہ چلے کہ نبی پاک (ص) نے ماتم سے کیوں منع کیا ہے؟

ماتم کا مطلب ہے احتجاج کرنا یعنی جو ہوا غلط ہوا ایسا نہیں ہونا چاہیے تھا

اور جب کوئی اپنی طبعی موت مر جاتا ہے اس میں خدا کی مرضی شامل ہوتی ہے تو خدا کی مرضی کے خلاف کوئی احتجاج یعنی ماتم نہیں کر سکتا

 

اور اسی لیے نبی پاک (ص) نے مردوں کے ماتم سے منع فرمایا ہے

اور ملت تشیع میں بھی مردوں کا ماتم سختی سے منع ہے اور حرام ہے

 

اب رہا سوال کہ پھر شیعہ ماتم کیوں کرتے ہیں۔۔؟؟؟

تو ایک بات ہمیشہ یاد رکھیے کہ شیعہ شہید کا ماتم کرتے ہیں کسی مردے کا نہیں۔؟

اسکی وجہ یہ ہے کہ جب کوئی شہید ہوتا ہے تو ضروری ہے پہلے وہ قتل ہو اور جب کوئی قتل ہوتا ہے تو اس میں خدا کی مرضی شامل نہیں ہوتی جس کام میں خدا کی مرضی شامل نہ ہو اس کے خلاف احتجاج یعنی ماتم کر سکتے ہیں

اب یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا کوئی کام اللہ کی مرضی کے بغیر ہوتا ہے؟

تو اسکا جواب یہ ہے کہ اللہ ہر چیز پر قادر ہے جو چاہے کر سکتا ہے یعنی اگر وہ چاہے تو ایک منٹ سے پہلے زمین سے تمام برائیوں کو ختم کر دے لیکن وہ ایسا کرتا نہیں

کیونکہ اس نے دنیا میں ایک نظام بنایا ہے اور نیکی اور بدی کے دو  راستے رکھے ہیں جو نیکی کا راستہ ہے اس میں اسکی مرضی ہوتی ہے اور جو بدی کا راستہ ہے اس میں اسکی مرضی نہیں ہوتی تاکہ قیامت میں حساب لے سکے کہ دنیا میں میری مرضی والے کام کیے ہیں یا وہ کام کیے ہیں جن میں میری مرضی نہیں تھی،

لہذا جو بے گناہ قتل کر کے شہید کر دیا جاتا ہے اس میں اللہ کی مرضی شامل نہیں ہوتی اور کسی شہید کو ظلم جبر کر کے قتل کیا گیا ہو تو احتجاج کے طور پر دنیا کو بتانے کے لیے ماتم کی اجازت ہے

 

جسکی اجازت قرآن پاک چھٹے پارے کی پہلی آیت میں موجود ہے

(لا يحب الله الجهر بالسوء من القول إلا من ظلم)

ترجمہ:

اللہ پسند نہیں کرتا اونچی اونچی آواز میں رونا پیٹنا مگر سواے مظلوم کے

اور کچھ نہیں تو علامہ شبلی نعمانی کی کتاب سیرت البنیؐ اٹھا کر پڑھیں آپکو پتہ چلے گا کہ نبی پاک (ص) نے اپنی حیات طیبہ میں اپنے شہید چچا امیر حمزہ کا ماتم کروایا تھا جسکا انکار کوئی مسلمان نہیں کر سکتا

کیونکہ ان پر ظلم ہی ایسا کیا گیا تھا

تو میرے بھائیوں ہم بھی چودہ سو سال سے یہی تو کہ رہے ہیں ہم اپنے کسی مردے کا ماتم نہیں کرتے بلکہ ہم تو مظلوم کربلا امام حسین (ع) کا ماتم کرتے ہیں

 

اور ہر سال دنیا والوں کو بتاتے ہیں کہ کربلا میں جنگ نہیں بلکہ ظلم ہوا تھا

اب ہمارا سوال یہ ہے ایسے مسلمانوں سے جو ماتم کی مخالفت کرتے ہیں وہ یہ بتائیں کہ:

امام حسین (ع) کے ماتم سے روک کر ظلم کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں ۔؟

 

          یا

 

ظالم کے ظلم پے پردہ ڈال کے ظالم کا ساتھ دے کر اسکے ظلم میں شریک ہو رہے ہیں۔۔؟؟

 

👈 اب فیصلہ آپکے ہاتھ میں ہے۔۔۔

👈 ان باتوں کا مطلب کسی مکتبئہ فکر کی حمایت نہیں بلکہ امام حسین (ع) کی حمایت ہے

حق بات کی نشانی یہ ہے کہ جو بات حق ہوتی ہے وہ دل کو ضرور چھوتی ہے

عزاداري امام رضا عليه السلام كى نظر ميں

عزاداري امام رضا عليه السلام كى نظر ميں

قال الرضا علیہ السلام:

يَا ابْنَ شَبِيبٍ إِنْ كُنْتَ بَاكِياً لِشَيْ‏ءٍ فَابْكِ لِلْحُسَيْنِ بْنِ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ

اے فرزند شبیب! اگر تمہیں کسی چیز پر رونا آئے تو فرزند رسولؐ حسینؑ ابن علیؑ پر گریہ کرو۔

امام علی ابن موسی الرضا علیہ السلام کا ایک لقب غریب الغرباہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ آپؑ کو بادشاہ وقت نے اپنے وطن مدینے سے بہت دور ایران میں رکھا جہاں آپ اپنے اہل و عیال اور احباب سے دور یکہ و تنہا ہوگئے۔ آپؑ کو بنی عباس جو اہلبیت کے دشمن تھے، کے درمیان زندگی گزارنی پڑی۔ ایسے پرآشوب حالات میں آپؑ نے دین اہلبیتؑ کی تبلیغ فرمائ اور بنی عباس کے کچھ نیک و صالح افراد آپؑ کے شیعہ بن گئے۔ انھیں افراد میں ایک مشہور نام جناب ریان بن شبیب کا ہے جو ایک قول کے مطابق خلیفہ مامون رشید کے ماموں تھے۔ حضرت نے ان کو بہت سے رموز اہل بیت سکھائے جن کو ابن شبیب نے روایت بھی کیا ہے۔ ان احادیث میں ایک بہت ہی مشہور روایت یہ ہے کہ فرزند رسولؐ نے ابن شبیب سے اپنے جد مظلوم، شہید کربلا کے مصائب بیان کیے اور ان کا غم منانے کی نصیحت فرمائ ہے۔ اس روایت کو شیعوں کے جیّد علماء نے اپنی اپنی کتابوں میں نقل کیا ہے۔ اس روایت میں امام نے ایک مومن کو ‘حسینی’ بننے کا سلیقہ بتایا ہے۔ پیش ہیں اس روایت کے کچھ اہم فقرے-

يَا ابْنَ شَبِيبٍ إِنْ كُنْتَ بَاكِياً لِشَيْ‏ءٍ فَابْكِ لِلْحُسَيْنِ بْنِ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ ع فَإِنَّهُ ذُبِحَ كَمَا يُذْبَحُ الْكَبْشُ

اے فرزند شبیب! اگر تم کسی پر رونا چاہو (اور اس کا غم تم کو رلائے تو پہلے) فرزند رسولؐ حسینؑ ابن علیؑ پر گریہ کرو۔ اس لیے کہ ان کو مظلومی کی حالت میں اس طرح ذبح کیا گیا جیسے کسی بھیڑ کو ذبح کیا جاتا ہے۔

وَ قُتِلَ مَعَهُ مِنْ أَهْلِ بَيْتِهِ ثَمَانِيَةَ عَشَرَ رَجُلًا مَا لَهُمْ فِي الْأَرْضِ شَبِيهُونَ

(اتنا ہی نہیں بلکہ) ان کے ساتھ ان کے خاندان کے ایسے اٹھارہ افراد کو بھی شہید کیا گیا جن کی دنیا میں کوئ مثال نہیں ہے۔

وَ لَقَدْ بَكَتِ السَّمَاوَاتُ السَّبْعُ وَ الْأَرَضُونَ لِقَتْلِهِ

ان کی شہادت پر ساتوں آسمان اور زمینوں نے گریہ کیا

وَ لَقَدْ نَزَلَ إِلَى الْأَرْضِ مِنَ الْمَلَائِكَةِ أَرْبَعَةُ آلَافٍ لِنَصْرِهِ

سید الشہداء کی نصرت کے لیے چار ہزار ملائکہ آسمان سے زمین کی طرف نازل ہوے

فَوَجَدُوهُ قَدْ قُتِلَ فَهُمْ عِنْدَ قَبْرِهِ شُعْثٌ غُبْرٌ إِلَى أَنْ يَقُومَ الْقَائِمُ فَيَكُونُونَ مِنْ أَنْصَارِهِ وَ شِعَارُهُمْ يَا لَثَارَاتِ الْحُسَيْنِ

مگر جب وہ کربلا پہنچے تو فرزند زہراء قتل کیا جاچکا تھا۔ تب سے یہ ملائکہ ان کی قبر مطہر کی مجاوری کررہے ہیں اور گریہ و زاری میں مصروف ہیں۔ یہ اس دن کا انتظار کر رہے ہیں جب ہمارا قائم قیام کرےگا۔ یہ ان کے لشکر میں شامل ہوں گے۔ ان کا نعرہ ہوگا ‘يَا لَثَارَاتِ الْحُسَيْنِ’

يَا ابْنَ شَبِيبٍ لَقَدْ حَدَّثَنِي أَبِي عَنْ أَبِيهِ عَنْ جَدِّهِ أَنَّهُ لَمَّا قُتِلَ جَدِّيَ الْحُسَيْنُ أَمْطَرَتِ السَّمَاءُ دَماً وَ تُرَاباًأَحْمَرَ

اے فرزند شبیب! میرے والد نے اپنے جد سے یہ روایت کی ہے کہ جب امام حسینؑ کی شہادت واقع ہوئ تو آسمان سے خون برسا اور سرخ مٹی برسی ۔

يَا ابْنَ شَبِيبٍ إِنْ بَكَيْتَ عَلَى الْحُسَيْنِ حَتَّى تَصِيرَ دُمُوعُكَ عَلَى خَدَّيْكَ غَفَرَ اللَّهُ لَكَ كُلَّ ذَنْبٍ أَذْنَبْتَهُ صَغِيراً كَانَ أَوْ كَبِيراً قَلِيلًا كَانَ أَوْ كَثِيراً

اے فرزند شبیب! اگر تم حسینِ مظلوم پر اس قدر گریہ کرو کہ تمھارے رخسار آنسوءوں سے تر ہوجائیں تو خدا تمھارے تمام گناہ بخش دے گا خواہ وہ چھوٹے ہوں یا بڑے کم ہوں یا زیادہ۔

يَا ابْنَ شَبِيبٍ إِنْ سَرَّكَ أَنْ تَلْقَى اللَّهَ عَزَّ وَ جَلَّ وَ لَا ذَنْبَ عَلَيْكَ فَزُرِ الْحُسَيْنَ ع

اے فرزند شبیب! اگر تم چاہتے ہو کہ خدا سے اس حال میں ملاقات کرو کہ تمھارے ذمہ کوئ گناہ نہ ہو تو میرے جد حسین(علیہ السلام) کی زیارت کو جاءو۔

يَا ابْنَ شَبِيبٍ إِنْ سَرَّكَ أَنْ تَسْكُنَ الْغُرَفَ الْمَبْنِيَّةَ فِي الْجَنَّةِ مَعَ النَّبِيِّ ص فَالْعَنْ قَتَلَةَ الْحُسَيْنِ

اے فرزند شبیب! اگر تم چاہتے ہو کہ جنت کے اس اعلی درجے کے مکان میں رہو، جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے جوار میں ہے تو حسینؑ کے قاتلوں پر لعنت کیا کرو۔

يَا ابْنَ شَبِيبٍ إِنْ سَرَّكَ أَنْ يَكُونَ لَكَ مِنَ الثَّوَابِ مِثْلَ مَا لِمَنِ اسْتُشْهِدَ مَعَ الْحُسَيْنِ فَقُلْ مَتَى مَا ذَكَرْتَهُ- يا لَيْتَنِي كُنْتُ مَعَهُمْ فَأَفُوزَ فَوْزاً عَظِيماً

اے فرزند شبیب! اگر وہ ثواب حاصل کرنا چاہتے ہو، جو شہداء کربلا کو ملا ہے تو جب بھی ان شہیدوں کی یاد آے تو یہ کہا کرو “يا لَيْتَنِي كُنْتُ مَعَهُمْ فَأَفُوزَ فَوْزاً عَظِيماً” اے کاش میں ان کے ہمراہ (شہید) ہوتا تو عظیم کامیابی حاصل کرلیتا۔

يَا ابْنَ شَبِيبٍ إِنْ سَرَّكَ أَنْ تَكُونَ مَعَنَا فِي الدَّرَجَاتِ الْعُلَى مِنَ الْجِنَانِ فَاحْزَنْ لِحُزْنِنَا وَ افْرَحْ لِفَرَحِنَا

اے فرزند شبیب! اگر تم چاہتے ہو کہ جنت کے اعلی مقام پر ہمارے جوار میں رہو تو ہمارے غم میں غمزدہ ہوجایا کرو اور ہماری خوشی میں خوش ہوا کرو۔

وَ عَلَيْكَ بِوَلَايَتِنَا فَلَوْ أَنَّ رَجُلًا تَوَلَّى حَجَراً لَحَشَرَهُ اللَّهُ مَعَهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ

ہماری ولایت سے وابستہ رہو کیونکہ کوئ شخص اگر کسی پتھر سے بھی محبت کرے تو اللہ اس کو روز قیامت اس پتھر کے ساتھ محشور کرے گا۔

(أمالي الصدوق المجلس 27- الرقم 5، عيون أخبار الرضا ج 1 ص 299.)

ان بیش بہا جملوں میں امام علی رضا علیہ السلام نے امام حسین علیہ السلام کی عزاداری اور ان کی زیارت کا ثواب بیان کیا ہے۔

محبت اور عشق کیا ہیں؟

كيا نكاح سے پهلے دو نامحرموں كا عشق جائز هے؟

كيا خدا جسم ركهتا ہے؟ اگر نہیں تو اس پر کیا دلیل ہے؟

اس درس میں اللہ تعالی کے جسم رکھنے یا نہ رکھنے کے متعلق بیان ہوا ہے کہ یہ مسئلہ مسلمانوں کے درمیان موضوع بحث رہا ہے، اس پر کیا دلیل ہے؟ مولانا سید غیور الحسنین

https://www.shiatv.net/video/1753615186

 

وجہہ اللہ ، لسان اللہ اور یداللہ کا کیا مطلب ہے؟؟؟

وجہہ اللہ ، لسان اللہ اور یداللہ کا کیا مطلب ہے؟؟؟

⭕القابات امیر المؤمنين علیہ السلام لسان اللہ یداللہ عین اللہ کی وضاحت شیخ صدوق کی کتاب التوحید سے ملاحظہ فرمائیں.

القابات امیرالمؤمنين عليه السلام " یداللہ ، عین اللہ ، لسان اللہ ، جنب اللہ " کی وضاحت کتاب "التوحید " سے :-

♻ حدثنا علي بن أحمد بن محمد بن عمران الدقاق رحمه الله: قال: حدثنا محمد بن جعفر الكوفي، قال: حدثنا موسى بن عمران النخعي الكوفي، عن عمه الحسين بن يزيد، عن علي بن الحسين، عمن حدثه، عن عبد الرحمن بن كثير، عن أبي عبد الله الصادق عليه السلام، قال:  إن أمير المؤمنين عليه السلام قال: أنا علم الله، وأنا قلب الله الواعي، ولسان الله الناطق، وعين الله، وجنب الله، وأنا يد الله.

قال مصنف هذا الكتاب رضي الله عنه: معنى قوله عليه السلام: وأنا قلب الله الواعي أي أنا القلب الذي جعله الله وعاء لعلمه، وقلبه إلى طاعته، وهو قلب مخلوق الله عز وجل كما هو عبد الله عز وجل، ويقال: قلب الله كما يقال: عبد الله وبيت الله وجنة الله ونار الله. وأما قوله: عين الله، فإنه يعني به: الحافظ لدين الله، وقد قال الله عز وجل: " تجري بأعيننا "(سورة القمر : ١٤ )   أي بحفظنا، وكذلك قوله عز وجل: "و لتصنع على عيني" (سورة طه : ٣٩ ) معناه على حفظي.

ترجمہ :- ہم سے علی بن احمد بن محمد بن عمران دقاق رحمة الله عليه نے بیان کیا ، انہوں نے کہا کہ ہم سے محمد بن جعفر کوفی نے بیان کیا  ، انہوں نے کہا کہ ہم سے موسی بن عمران نخعی کوفی نے اپنے چچا حسین بن یزید سے ،انہوں نے علی بن حسین سے اس شخص نے اس سے جس نے حدیث بیان کی ، انہوں نے عبدالرحمن بن کثیر سے ، انہوں نے ابو عبداللہ (امام جعفر صادق علیہ السلام ) سے ، انہوں نے فرمایا کہ ،

امیر المؤمنين عليه السلام  نے فرمایا کہ میں اللہ کا علم ہوں،  اور میں اللہ کا زیادہ یاد کرنے والا قلب ہوں،  اوراللہ کی بولنے والی زبان ، اللہ کی آنکھ، اللہ کا پہلو اوراللہ کا ہاتھ ہوں ۔

اس کتاب کے مصنف رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ آپ (ع) کے قول " و أنا قلب اللہ الواعي " کے معنی یہ ہیں کہ میں (ع) وہ قلب ہوں جس کو اللہ نے اپنے علم کا ظرف بنایا ہے اور اس قلب کو اس کی اطاعت کےلیے راغب کیا ہے اور وہ اللہ عزوجل کی طرف سے پیدا کردہ قلب ہے جس طرح وہ اللہ کا بندہ ہے اور  وہ " قلب اللہ " ہے جس طرح عبداللہ ، بیت اللہ ، جنة الله اور نار اللہ کہا جاتا ہے ۔  لیکن آپ (ع) کا عین اللہ کا قول تو اس سے مراد دین اللہ کی حفاظت کرنے والا ہے ۔ اللہ عزوجل نے فرمایا: "تجري بأعيننا"   (سورة القمر : ١٤ ) (وہ کشتی ہماری نگرانی میں چلتی ہے)  یعنی وہ کشتی ہماری حفاظت  میں چلتی ہے ۔

اور اسی طرح اللہ عزوجل کا قول:

 "  و لتصنع على عيني" (سورة طه : ٣٩ ) (اور تاکہ تم میری نگرانی میں پرورش کيے جاو ) اس کے معنی بھی میری حفاظت کے ہیں ۔

حوالہ: التوحید، تالیف : الشیخ الجلیل الاقدم الصدوق ابی جعفر محمد بن علی بن الحسین بابویہ القمی،  باب # ٢٢ ،  اللہ عزوجل کے پہلو کے معنی، حدیث #  ١، صفحہ # ١٣١ (اردو ترجمہ )۔

سیکولرزم کا ہدف

سیکولرزم کا اصل ہدف امتِ مسلمہ کو موجودہ دورمیں اسلام سے بے زارکر کے، مادیت سے وابستہ کرناہے، تاکہ مغرب کی بالادستی، برابراس پر باقی رہے، اس لیے کہ اسلامی فکر، اسلامی روحانیت اوراسلام سے وابستگی یہی مسلمانوں کی کامیابی اوربالادستی کی شاہِ کلید ہے، لہٰذامسلمانوں کو اپنی پوری توجہ، ایمان اور اس کے تقاضوں پرمرکوزکرناچاہیے، نہ کہ مادیت کے مکروفریب کے جال میں پھنسنا۔ اللہم انانسئلک العفو والعافیة فی الدین و الدنیا و الاخرة۔ 

سیکولرزم کیا ہے اور اس کا آغاز کہاں اور کیسے هوا؟

سیکولرزم کیا ہے؟

سیکولرزم، اصل میں لاطینی زبان کالفظ ہے، جسس کا عربی میں ”علمانیة“ اور اردو میں ”لادینیت“ ترجمہ ہوتاہے۔  سیکولرزم در اصل ایک ماسونی یہودی تحریک ہے، جس کا مقصد حقوقِ انسانی، مساوات، آزادی، تحقیق و ریسرچ، قانون دولی (International Law) اور تعلیم کے نام پر، دین کو زندگی کے تمام شعبہ جات حیات سے نکال دینا، اور مادیت کا گرویدہ بنا کر، روحانیت سے بے زار کر دینا ہے، یہ کہہ کر کہ دین کی پیروی انسانی آزادی کے منافی ہے، لہٰذا سیاست اور دین، معیشت اور دین، و معاشرت اور دین یہ سب الگ الگ ہیں ۔ دین، طبیعت اور فطرت کے خلاف ہے، لہٰذا کسی بھی دین کی پیروی درست نہیں.

 سیکولرزم کا آغاز کہاں اور کیسے؟

سیکولرزم دراصل یورپ کی پیداوار ہے، اس کی وجہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ جب اسلام نے آکر علم کے دروازے کھولے اور اسلام کا  اثر و رسوخ مشرق سے نکل کر مغرب میں غرناطہ اور بوسنیا تک پہنچا، تو اہل مغرب کی آنکھیں کھلیں، اس لیے کہ سولہویں صدی عیسوی تک یورپ میں کنیسا اور چرچ کو مکمل اثر و رسوخ حاصل تھا، جب سترھویں صدی میں اہلِ یورپ نے مسلمانوں کی علمی آزادی اور ترقی کو دیکھا اور عیسائی پادریوں اور بادشاہوں کی تنگ نظری اور تعصب کو دیکھا اور اس کے نتیجہ میں علمی تحقیقات پر پابندی اور کوئی رائے پیش کرنے والے کو ظلم کا شکار ہوتے دیکھا تو انہیں ایسا محسوس ہوا کہ عیسائیت ہی دراصل ہماری ترقی کے لیے روڑا اور رکاوٹ ہے، لہٰذا  سترھویں صدی میں اہلِ مغرب نے مذہب سے بے زاری کا اعلان کردیا، اور یہ پسِ پردہ دنیا کی خفیہ ترین تخریبی تحریک ماسونیت کی کارستانیوں اور سازشوں کا نتیجہ تھا، اس طرح جب ان سیکولرزم کے حاملین کو کامیابی ملی، تو انہوں نے اعلان کیا کہ ”اب عقل کو آزادی ہوگی اور مذہب کے قید وبند سے انسان آزاد ہوگا اور طبیعت اور نیچریت کا بول بالا ہوگا“۔

جب یورپ میں سیکولرزم کو غلبہ حاصل ہوا، تو اب وہ دنیا پر راج اور سلطنت کے خواب دیکھنے لگے، اس طرح انہوں نے مشرق کا رُخ کیا اور ۱۷۸۹ء میں مصر پر حملہ کیا اور انیسویں صدی کے آنے تک پورے مشرق کو اپنی لپیٹ میں لے لیا، کچھ ناعاقبت اندیش، مادہ پرست مسلمانوں کو بھی اپنے چنگل میں لے لیا۔

اربعين حسيني قائد انقلاب كي زباني

اربعين حسيني قائد انقلاب كي زباني

 

 چهلم كے بعد عاشورا اور امام حسين [ع]كا ذكر اور ان كا مقصد هميشه كے لئے زنده هوگيا اور اس كام كي بنيادچهلم كے دن جناب زينب سلام الله عليها اور امام سجاد عليه السلام كے هاتهوں امام حسين عليه السلام كي قبر كے پاس پڑي،اگر امام حسين كے بعد امام سجاد اور دوسرے اسيروں نے كربلا كا واقعه اور عاشورا كي اصليت بيان نه كي هوتي تو آج كربلا زنده نه هوتي، جتنا بڑا جهاد كربلا ميں شهيد هونے والوں نے كيا هے اس سے بڑا جهاد ان كے بعد ان كے مشن كو صحيح طريقے بيان كرنے والوں اور اسے بچانے والوں نے كيا هے۔ چهلم هميں يه سكهاتا هے كه دشمنوں كے غلط پروپيگنڈوں كے طوفان كے بيچ ره كر كربلا كي حقيقت كو كيسے زنده ركهنا هے۔

 

http://navideshahed.com/ur/news/367580/%D8%A7%D8%B1%D8%A8%D8%B9%D9%8A%D9%86-%D8%AD%D8%B3%D9%8A%D9%86%D9%8A-%D9%82%D8%A7%D8%A6%D8%AF-%D8%A7%D9%86%D9%82%D9%84%D8%A7%D8%A8-%D9%83%D9%8A-%D8%B2%D8%A8%D8%A7%D9%86%D9%8A

 

خبر کا کوڈ:367580

شاگردوں نے اُستاد سے پوچھا

شاگردوں نے اُستاد سے پوچھا: ہم کیسی کیسی اور کتنی کتنی اللہ کی نافرمانیاں کرتے ہیں اور وہ ہمیں کوئی سزا ہی نہیں دیتے؟

اُستاد نے کہا: اور اللہ ہمیں کتنی کتنی اور کیسی کیسی سزائیں دیتا ہے اور ہم محسوس ہی نہیں کرتے؟

کیا اُس نے کئیوں سے مناجات کی لذت نہیں چھین لی؟

کیا اُس نے کئیوں کے دلوں کو پتھر نہیں بنا کر رکھ دیا؟

اور ان سب سے بڑی سزا، کیا اُس نے کئیوں سے نیک اعمال کرنے کی توفیق نہیں چھین لی؟

کیا ایسا نہیں ہے کہ کئی کئی دن گزر جاتے ہیں اور قران سے ایک لفظ تک پڑھنا نصیب نہیں ہوتا؟

بلکہ کئی کئی تو یہ آیت مبارک (اگر ہم نے یہ قرآن کسی پہاڑ پر بھی اتار دیا ہوتا تو تم دیکھتے کہ وہ اللہ کے خوف سے دبا جا رہا ہے اور پھٹا پڑتا ہے) سُن کر بھی ایسے بن جاتے ہیں جیسے کچھ سُنا ہی نا ہو۔

کیا ایسا نہیں ہوتا کہ راتیں تو جگراتوں میں گزریں مگر اُس کے سامنے کھڑے ہونے کی توفیق نا ہو؟

کیا ایسا نہیں ہوتا کہ خیر کے موسم جیسے: رمضان کے تیس، شوال کے چھ یا ذی الحجۃ کے دس دن ایسے گزر جائیں جیسے سال کے دوسرے عام دن؟

اس سے بڑی سزا کیا ہوگی کہ:

نیکی کا کام کرنا بھاری لگے۔

زبانیں اللہ کے ذکر سے رُکی رہیں،

مال، عزت اور شہرت کی ہوس میں مبتلا ہوجائیں۔

غیبت اور جھوٹ بولنا مسلط ہو جائے،

دماغ اُن کاموں میں الجھے رہیں جن کا ہم سے کوئی تعلق ہی نا ہو،

آخرت بھول جائے اور دنیا کے غم گھیرے رکھیں۔

یہ سب کچھ اللہ کی پکڑ، سزائیں اور عذاب کی ہی شکلیں تو ہیں۔

یہ سب غیر محسوس طریقے سے دیئے جانے والے عذاب ہیں اور سب سے بڑی مصیبت یہ ہوگی کہ کوئی ان عذابوں سے گزر بھی رہا ہو اور اُسے محسوس بھی نا ہو رہا ہو۔

اهل  تشيع حق پر هيں

اهل  تشيع حق پر هيں

تحرير: سيد غيور الحسنين

 

اهل  تشيع حق پر هيں. اس كے اثبات كے ليےآسان ترين دليل جو خود شيعه هونے والے حضرات نےبيان كي هے وه يه هے كه استادكا رتبه شاگرد سے بلند هوتا هے  اور اهل تشيع كے جتنے بهي امام هيں وه كسي كے دروازے پر علم حاصل كرنے نهيں گئے جبكه اهل سنت كے چاروں امام: امام ابو حنيفه، امام حنبل، امام مالك، امام شافعي بالواسطه يا بلا واسطه امام جعفر صادق عليه السلام كے شاگرد هيں. پس امام جعفر صادق(ع) ان تمام سے افضل هوئے.

امام كى عصمت پر  ايك دليل

امام كى عصمت پر  ايك دليل

تحرير: سيد غيور الحسنين

 

محمد بن ابى عمير اور هشام بن حكم دونوں مولا  امام صادق عليه السلام كے شاگرد تهے اور مناظره ميں بے مثال تهے.

ايك دفعه محمد بن ابى عمير نے هشام بن حكم سے پوچها: تم رافضى امام كو معصوم مانتے هو. كيا اس پر كوئى دليل هے؟ تو هشام بن حكم نے كها: هاں دليل هے. محمد بن ابى عمير نے پوچها: وه دليل كيا هے؟ تو هشام نے كها: امام معصوم هوتا هے چونكه گناه نهيں كرتا اور انسان كے گناه كرنے كي چار وجه هوتى هيں:

1- حرص وطمع و لالچ

2-حسد

3- غضب

4- شهوت

   اور يه چاروں  امام سے منتفى هيں پس ثابت هوا كه امام معصوم هوتا هے.

حواله: اقتباس از مجلس  مولانا شميم رضوي  هندستان.

محرم  و اربعين نے کیا دیا؟

ہر طرح کے ظلم و زیادتی کے خلاف قیام

    پوچھتے ہیں محرم و اربعين نے کیا دیا؟ عزاداری کا کیا Output ہے؟ مگر ایران کا اسلامی انقلاب اتنا چھوٹا تو نہیں کہ ذرہ بین سے دیکھنے کی ضرورت پڑے بلکہ اتنا روشن ہے کہ آنکھیں چندھیا جاتی ہیں۔ اسی انقلاب کے بانی خمینی کبیر فرماتے ہیں”اس محرم کو زندہ رکھیں۔ ہمارے پاس جو کچھ بھی ہے اس محرم اور ان مجالس کی وجہ سے ہے․․․اگر یہ مجالس، عزاداری اورجلوس کے اجتماعات نہ ہوتے ہمارا ملک کبھی کامیاب نہ ہوتا“ (صحیفہ امام، ج ۱۷، ص۵۸ )


حزب اللہ لبنان کو کون نہیں جانتا۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے مکتب عاشورا کی گود میں پرورش پائی۔ ماؤں نے عباس عباس کی لوریاں سنائیں اور پھر عباس کا علم لے کر اس اسرائیل کو للکارا جسکے ہاتھوں ساری عرب دنیا شکست کھا چکی تھی۔ سینہ زنی والے ہاتھ جب دشمن کے گریبان پر پڑے تو دنیا نے روز روشن میں دیکھا کہ اسرائیلی سورما اسلحہ کے انبار چھوڑ کر فرار کر گئے ۔حزب اللہ کے انگشت شمار عزاداروں نے آسان سی زبان میں سمجھایا کہ ”عاشورا اور عزاداری مظلومیت کا مرثیہ نہیں بلکہ ظلم اور بر بریت کے خلاف حریت پسندوں کا رجز اور ہر استکبار کے خلاف لشکر خدا کی فریاد ہے۔“

 

ادامه نوشته

اسلامی انقلاب یا ایرانی انقلاب

اسلامی انقلاب یا ایرانی انقلاب

  خدا قرآن میں فرماتا هے که بے شک دین صرف اسلام هے. اور امام خمینی(ره)- جو اسلامی انقلاب کے بانی هیں- انهوں نے بهی فرمایا هے که هم نے اسلامی انقلاب کے لیے قیام کیا هے.

اسلامي انقلاب كے دو ركن هيں جن پر يه انقلاب قائم هے:

1- معارف اهل بيت.

2- ظلم ستيزي يا ظلم كا مقابله.

دشمن ان دونوں باتوں سے واقف هے۔ لهذا اسلامی انقلاب - جو عالمي وجهانی هے - کو ایرانی انقلاب کهتا هے چونکه اگر اس انقلاب کو فقط ایرانی انقلاب کها جائے تو اس کا دائره تنگ هو جائے گا اور اس کا مقابله آسان هے اور اس كو جنگ کے ذريعه ختم كيا جا سکتا هے۔ اور اگر اس انقلاب کو اسلامی انقلاب کها جائے تو اس کا دائره بهت وسيع هوگا۔ اور فقط ايران ميں محصور نهيں رهے گا۔  یهی وجه هے كه امریکه همیشه ایران کے انقلاب کو لسانی اور نسلی رنگ دیتا هے.