کیا صحابه کی فضیلت قرآن میں بیان هوئی ہے؟
کیا صحابہ کی فضیلت قرآن میں بیان ہوئی ہے؟
سوال: حضرت ابو بکر کی صحابیت قرآن سے ثابت ہے۔ قرآن پاک کی آیت ہے:(إذ يقول لصاحبه لا تحزن) [التوبہ:40] "جب رسول(ص) اپنے ساتھی سے کہتے تھے غم نہ کرو۔"
اور رسول خدا(ص) کے متعلق اللہ تعالی نے یہ اعلان کیا ہے: (وما ينطق عن الهوى إن هو إلّا وحي يوحى) [النجم: 3-4] "رسول اپنی خواہش سے کلام نہیں کرتا وہ تو ایک وحی ہوتی ہے جو کی جاتی ہے۔"
اسی لیے رسول خدا(ص) کا ہر فرمان وحی الهی کا درجہ رکھتا ہے اور رسول خدا(ص) اپنے صحابہ کی تعظیم و توقیر کیا کرتے تھے اور ہر ایک کے حق میں بهت سی احادیث موجود ہیں۔ اب اس کے باوجود جو شخص یا گروہ ان نفوس قدسیہ پر اعتراض کرتا ہے تو وہ در حقیقت ان کے بجائے رسول خدا(ص) کی ذات والا صفات پر اعتراض کرتا ہے۔
جواب: رسول خدا(ص) کے صاحب ہونے کا حضرت ابو بکر کو شرف حاصل ہے:(إذ يقول لصاحبه لا تحزن) [التوبہ:40]. اس مسئلہ میں حقیقت یہ ہے کہ لفظ "صاحب" سے کوئی خاص اعزاز انہیں نہیں ملتا؛ کیونکہ قرآن مجید میں ایک مومن اور کافر کا واقعہ موجود ہے جس میں یہ الفاظ موجود ہیں:(قال له صاحبه وهو يحاوره أكفرت) [الكهف:37] "اس نے گفتگو کرتے ہوئے اپنے ساتھی سے کہا کیا تو نے کفر کیا۔"
اس آیت مجیدہ میں کافر کو مسلم کے صاحب کے لقب سے یاد کیا گیا ہے۔ اورحقیقت یہ ہے کہ مصاحب ہو یا اخوت ہو اس کے لیے کافر و مومن یکسان ہیں۔ ہر شخص جو نسب میں رشتہ دار ہو، وہ بھائی کہلاتا ہے خواہ مومن ہو یا کافر ہو، اور ہر ہمراہی صاحب کہلاتا ہے خواہ مومن ہو یا کافر ہو۔
قرآن مجید ہمیں بتاتا ہے کہ حضرت یوسف علیہ السلام نے اپنے قید کے دو ساتھیوں کو مخاطب کر کے فرمایا تھا:(يصاحبي السجن.... الخ) [يوسف:39] "میرے قید خانے کے دو ساتھیو.... الخ."
حضرت یوسف علیہ السلام اللہ کے نبی اور رسول تھے جبکہ ان کے دونوں ساتھی بت پرست اور کافر تھے۔
علاوہ از این سورہ نجم میں رسول خدا(ص) کو اللہ تعالی نے کافروں کا صاحب کہا:(ما ضلّ صاحبكم وما غوى) [النجم:2] "تمہارا ساتھی محمد(ص) نہ تو بہکا ہے نہ بھٹکا۔"
ان تمام آيات سے ثابت ہوتا ہے کہ لفظ "صاحب" کسی خوبی اور عظمت کی دلیل ہرگز نہیں ہے۔
حوالہ
مجالس المؤمنین، قاضی نور اللہ شوستری، ص195-196