استغفار

🌼 لمحہ فکریہ🔔

میں نے اپنا لیپ ٹاپ آن کیا اور انٹرنیٹ کی گلیوں میں کھو گیا...😊

کچھ گلیوں میں گھومتے ہوئے اچانک دیکھا کہ اینٹی وائرس کی گھنٹی بجنے لگی؛

میں سمجھ گیا کہ وائرس نے حملہ کر دیا ہے۔😕

جلدی سے وائرس کو ختم کیا تاکہ میرے سسٹم کو کوئی نقصان نہ پہنچے...

جب میرا کام ختم ہوا تو میں خود پر ہنس پڑا

"یہ وہ ہنسی تھی... جو تلخ تھی،

اور غمگین آنسوؤں سے بھی زیادہ دردناک تھی"!😔

میں نے اپنے آپ سے کہا: کاش جتنا خیال

تم اپنے لیپ ٹاپ کا رکھتے ہو، اتنا ہی خیال اپنا بھی رکھتے۔😓

کاش جب تم گناہ کرتے ہو اور تمہارے دل کی گھنٹی

بجنے لگتی ہے کہ: خطرہ.. خطرہ..!!😔

مجھے اپنے آپ پر ترس آیا...!!😓

مجھے اب سمجھ آیا کہ بہت عرصے سے گناہوں نے،

میرے دل کے اینٹی وائرس کو بھی ختم کر دیا ہے۔😔

نمی‌دانم_کیا_کہوں

لیکن خوش نصیب ہیں وہ لوگ جن کے دل کا اینٹی وائرس

اصل ہے اور وہ ہر روز خدا سے جڑ کر

اسے اپ ڈیٹ کرتے ہیں...🌹

خوشبخت ہیں وہ لوگ جو ہر رات

اپنے اعمال کا جائزہ لیتے ہیں اور اگر کوئی گناہ

ان کے دل میں داخل ہو جائے تو وہ اینٹی وائرس

(استغفار)کے ساتھ اسے ختم کر دیتے ہیں۔🚫

✅میں نے ایک اینٹی وائرس خریدا ہے جس کا نام ہے استغفار

دل سے کہا:

استغفرالله ربی و أتوب علیه✨

خدا اور کائنات کی خلقت

خدا اور کائنات کی خلقت

اگر خدا خود غیر مادی ہے اور مادہ (میٹر) موجود نہیں تھا، تو خدا نے مادی جہان کو کیسے تخلیق کیا؟ یہ ایک گہرا فلسفیانہ اور کلامی سوال ہے جس پر صدیوں سے مفکرین، فلاسفہ، اور علمائے کرام بحث کرتے آئے ہیں۔ اس کا جواب مختلف نظریاتی اور مذہبی نقطہ نظر سے دیا جا سکتا ہے۔

1-تخلیق (ex nihilo ) لاشیء سے تخلیق

اسلام، مسيحيت اور یہودیت میں عمومی طور پر یہ عقیدہ پایا جاتا ہے کہ خدا نے کائنات کو "عدم سے پیدا کیا" (ex nihilo) یعنی بغیر کسی پہلے سے موجود مواد کے۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: "إِنَّمَا أَمْرُهُ إِذَا أَرَادَ شَيْئًا أَنْ يَقُولَ لَهُ كُنْ فَيَكُونُ"(سورۃ یٰسین: 82) "بے شک اس کا حکم یہی ہوتا ہے کہ جب وہ کسی چیز کا ارادہ کرتا ہے تو اسے کہتا ہے: ’ہو جا‘، تو وہ ہو جاتی ہے۔"

یہ تصور یہ واضح کرتا ہے کہ خدا کسی مادی وسیلے کا محتاج نہیں، بلکہ اس کی قدرت محض اس کے حکم اور ارادے سے چیزوں کو وجود میں لے آتی ہے۔

2- خدا کی صفتِ تخلیق اور علت و معلول کا قانون

فلسفہ میں ایک بحث "علت و معلول" (Cause and Effect) کی ہے، جس کے مطابق ہر چیز کی کوئی نہ کوئی وجہ ہوتی ہے۔ خدا خود واجب الوجود ہے، یعنی اس کا وجود اپنی ذات سے ہے اور وہ کسی اور چیز کا محتاج نہیں۔ چونکہ وہ لامحدود قدرت کا حامل ہے، اس لیے وہ بغیر کسی پہلے سے موجود مواد کے کسی بھی چیز کو پیدا کر سکتا ہے۔

3- جدید سائنسی زاویہ: بگ بینگ اور خلا (Quantum Fluctuations)

سائنس میں بگ بینگ تھیوری کے مطابق، کائنات ایک انتہائی چھوٹے نقطے (Singularity) سے وجود میں آئی، جس سے وقت، جگہ اور مادہ سب نے جنم لیا۔ کوانٹم فزکس میں ایک نظریہ یہ بھی ہے کہ خالی خلا میں بھی Quantum Fluctuations کے ذریعے ذرات خودبخود پیدا ہو سکتے ہیں اور ختم ہو سکتے ہیں۔

اگر طبیعیاتی قوانین خلا سے ذرات پیدا کر سکتے ہیں، تو خدا کی قدرت اس سے کہیں عظیم تر ہے، اور وہ عدم سے بھی تخلیق کر سکتا ہے۔

4- خدا مادی نہیں، مگر وہ مادے کو پیدا کر سکتا ہے

یہ ضروری نہیں کہ جو چیز مادی نہ ہو، وہ مادی چیزوں کو پیدا نہ کر سکے۔ مثال: ہمارا "ارادہ" اور "سوچ" غیر مادی ہیں، مگر وہ مادی اثرات ڈال سکتے ہیں، جیسے انسان کا ایک خیال کسی عمارت یا مشین کے بننے کی بنیاد بن سکتا ہے۔ اسی طرح، خدا کی قدرت، جو غیر مادی ہے، مادی چیزوں کو پیدا کر سکتی ہے۔

نتیجہ

خدا چونکہ لامحدود قدرت اور علم کا مالک ہے، اس لیے وہ بغیر کسی پہلے سے موجود مواد کے بھی کائنات کو وجود میں لا سکتا ہے۔ تخلیق ex nihilo کا تصور فلسفیانہ اور سائنسی دونوں زاویوں سے قابل فہم ہے، اور قرآن میں بھی اس کی تصدیق ہوتی ہے۔

انسانى ترقى اسلام كے آئينه ميں

انسانى ترقى اسلام كے آئينه ميں

اسلام ميں ترقی کا فلسفہ ایک ایسا تصور ہے جو انسانی ترقی کو اسلامی اصولوں اور تعلیمات کے مطابق تشکیل دیتا ہے۔ یہ فلسفہ معاشی، سماجی، سیاسی، اور روحانی ترقی کو ایک متوازن انداز میں پیش کرتا ہے، جس میں انسانی فلاح و بہبود، عدل، مساوات، اور اخلاقی اقدار کو مرکزی حیثیت حاصل ہے۔ اسلامی ترقی کا فلسفہ درج ذیل بنیادی اصولوں پر استوار ہے:

1- توحید اور عبادت کا مرکزی کردار

اسلامی ترقی کا فلسفہ یہ مانتا ہے کہ تمام ترقی کا مقصد اللہ کی رضا حاصل کرنا اور اس کی عبادت کرنا ہے۔ انسان کی تمام ترقی اور کوششیں اللہ کے احکامات کے تابع ہونی چاہئیں۔ ترقی کا مقصد صرف مادی فوائد حاصل کرنا نہیں، بلکہ روحانی اور اخلاقی بلندی بھی ہے۔

2- عدل اور مساوات

اسلامی ترقی کا فلسفہ معاشرے میں عدل اور مساوات کو فروغ دیتا ہے۔ اس میں معاشی عدم مساوات کو کم کرنے، غریبوں اور محتاجوں کی مدد کرنے، اور ہر فرد کو بنیادی حقوق فراہم کرنے پر زور دیا جاتا ہے۔ زکوٰۃ، خمس، صدقات، اور دیگر اسلامی مالیاتی نظام کا مقصد معاشرتی توازن قائم کرنا ہے۔

3- معاشی توازن

اسلامی معاشیات میں سود (ربا) کی ممانعت، منصفانہ تجارت، اور وسائل کی منصفانہ تقسیم پر زور دیا جاتا ہے۔ ترقی کا مقصد صرف دولت کمانا نہیں، بلکہ اس دولت کو معاشرے کی بہتری کے لیے استعمال کرنا ہے۔

4- علم اور تعلیم کی اہمیت

اسلام علم حاصل کرنے کو فرض قرار دیتا ہے۔ اسلامی ترقی کا فلسفہ علم اور تحقیق کو فروغ دیتا ہے، تاکہ معاشرہ ترقی کر سکے۔ علم صرف مادی ترقی کے لیے نہیں، بلکہ روحانی اور اخلاقی ترقی کے لیے بھی ضروری ہے۔

5- انسانی حقوق اور آزادی

اسلامی ترقی کا فلسفہ انسانی حقوق کا احترام کرتا ہے، جس میں جان، مال، عزت، اور آزادی کی حفاظت شامل ہے۔ ہر فرد کو اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لانے کا موقع دیا جانا چاہیے۔

6- ماحولیاتی تحفظ

اسلام فطرت اور ماحول کے تحفظ پر زور دیتا ہے۔ اسلامی ترقی کا فلسفہ یہ ہے کہ زمین اور اس کے وسائل اللہ کی امانت ہیں، اور انہیں محفوظ اور مستحکم رکھنا انسان کی ذمہ داری ہے۔

7- اجتماعی فلاح و بہبود

اسلامی ترقی کا مقصد صرف فرد کی ترقی نہیں، بلکہ پورے معاشرے کی فلاح و بہبود ہے۔ اس میں تعاون، ہمدردی، اور اجتماعی ذمہ داری کو اہمیت دی جاتی ہے۔

8- اخلاقیات اور روحانیت

اسلامی ترقی کا فلسفہ مادی ترقی کے ساتھ ساتھ اخلاقی اور روحانی ترقی پر بھی زور دیتا ہے۔ انسان کو صرف مادی خواہشات تک محدود نہیں رہنا چاہیے، بلکہ اپنے اندر اخلاقی اور روحانی خوبیاں بھی پیدا کرنی چاہئیں۔

9- استخلاف (امام ہونے کا تصور)

اسلام کے مطابق انسان زمین پر اللہ کا خلیفہ ہے، یعنی اسے زمین اور اس کے وسائل کو درست طریقے سے استعمال کرنا ہے۔ اس تصور کے تحت ترقی کا مقصد صرف ذاتی مفاد نہیں، بلکہ اللہ کی امانت کو بہتر طریقے سے استعمال کرنا ہے۔

خلاصہ

اسلامی ترقی کا فلسفہ ایک جامع اور متوازن تصور ہے، جو مادی ترقی کے ساتھ ساتھ روحانی، اخلاقی، اور سماجی ترقی کو بھی اہمیت دیتا ہے۔ یہ فلسفہ انسانی زندگی کے تمام پہلوؤں کو اسلام کے بنیادی اصولوں کے مطابق تشکیل دیتا ہے، تاکہ معاشرہ عدل، مساوات، اور فلاح و بہبود کی بنیاد پر ترقی کر سکے۔

دنیا کی ظاهرى ترقی میں مختلف فلسفیانه نظریات كا كردار

دنیا کی ظاهرى ترقی میں مختلف فلسفیانہ نظریات كا كردار

دنیا کی ظاهري ترقی میں مختلف فلسفیانہ نظریات نے اہم کردار ادا کیا ہے، لیکن کچھ مخصوص فلسفے نمایاں طور پر سائنسی، سماجی، اقتصادی، اور تکنیکی ترقی کا سبب بنے۔ درج ذیل فلسفیانہ نظریات دنیا کی ترقی میں سب سے زیادہ مؤثر ثابت ہوئے:

1- تجربیت (Empiricism) – سائنسی ترقی کی بنیاد

یہ فلسفہ اس نظریے پر مبنی ہے کہ تمام علم مشاہدے اور تجربے سے حاصل ہوتا ہے، نہ کہ محض عقلی سوچ یا الہامی ذرائع سے۔ نمایاں مفکرین: فرانسس بیکن، جان لاک، ڈیوڈ ہیوم۔تجربیت نے سائنسی انقلاب (Scientific Revolution) کی بنیاد رکھی، جس نے دنیا میں جدید سائنس اور ٹیکنالوجی کی ترقی کو ممکن بنایا۔

2- عقلانيت (Rationalism) – منطق اور استدلال کی اہمیت

یہ فلسفہ کہتا ہے کہ انسان عقل اور منطق کے ذریعے حقیقت کو سمجھ سکتا ہے، اور اكثر علم استدلال (Reason) اور تجزیے سے حاصل ہوتا ہے۔ نمایاں مفکرین: رینے ڈیکارٹ، باروخ اسپینوزا، گٹفریڈ لائبنز۔ عقلانيت نے ریاضی، طبیعیات، اور فلسفہ میں انقلاب برپا کیا اور جدید سائنسی طریقہ کار (Scientific Method) کی تشکیل میں مدد دی۔

3- روشن خیالی (Enlightenment) – آزادی، جمہوریت، اور ترقی

یہ فلسفہ انسانی آزادی، جمہوریت، سائنسی فکر، اور عقلی سوچ پر زور دیتا ہے اور مذہبی انتہا پسندی اور بادشاہی حکومتوں کے خلاف تھا۔ نمایاں مفکرین: عمانوئیل کانٹ، والٹیر، روسو، جان لاک۔ جمہوری انقلابوں (جیسے فرانسیسی اور امریکی انقلاب) کو جنم دیا۔ جدید انسانی حقوق، آئینی حکومت، اور تعلیم کے فروغ کا باعث بنا۔صنعتی انقلاب (Industrial Revolution) کی راہ ہموار کی۔

4- مادیت (Materialism) – سائنسی اور صنعتی ترقی کا نیا نظریہ

یہ فلسفہ کہتا ہے کہ دنیا مادی قوانین کے مطابق چلتی ہے، اور ہر چیز کو طبعی سائنسی اصولوں سے سمجھا جا سکتا ہے۔

نمایاں مفکرین: کارل مارکس، فریڈرک اینگلز، تھامس ہابز۔ سوشلسٹ اور کمیونسٹ تحریکوں کو جنم دیا، جس سے معاشرتی انصاف اور مزدوروں کے حقوق کی جدوجہد کو فروغ ملا۔ ٹیکنالوجی اور صنعت میں جدیدیت کا سبب بنا، کیونکہ سائنسی ترقی کو معیشت اور سماج سے جوڑ دیا گیا۔

5-عملیت (Pragmatism) – ٹیکنالوجی اور سائنسی ترقی کی بنیاد

یہ فلسفہ کہتا ہے کہ حقیقت کا اندازہ اس کے عملی نتائج سے لگایا جا سکتا ہے، یعنی کوئی نظریہ اسی وقت قابل قبول ہوگا جب وہ عملی فوائد فراہم کرے۔ نمایاں مفکرین: ویلیئم جیمز، جان ڈیوی، چارلس پیرس۔ امریکہ کی صنعتی ترقی اور کاروباری فلسفے کی بنیاد بنا۔ جدید ٹیکنالوجی، سائنسی تحقیق، اور تعلیم کے فروغ میں مدد کی۔

نتیجہ

دنیا کی ظاهري ترقی میں سب سے زیادہ تجربیت (Empiricism)، روشن خیالی (Enlightenment)، اور عملیت (Pragmatism) نے اہم کردار ادا کیا۔ سائنسی ترقی، صنعتی انقلاب، جمہوریت، اور ٹیکنالوجی کی ترقی ان فلسفوں کے مرہون منت ہیں۔

ذیمقراطیس کے نظریہ اتم کا رد

ذیمقراطیس کے نظریہ اتم کا رد

اگرچہ ذیمقراطیس کا نظریہ اتم ایک ابتدائی اور انقلابی تصور تھا، لیکن اس میں کئی کمزوریاں اور سائنسی خامیاں تھیں، جن کے باعث اسے کئی فلاسفہ اور بعد میں سائنسدانوں نے رد کیا۔ اس نظریے پر تنقید درج ذیل وجوہات کی بنیاد پر کی گئی:

1- نظریہ تجرباتی شواہد کے بغیر تھا

ذیمقراطیس نے اپنا نظریہ محض فلسفیانہ بنیادوں پر قائم کیا، جبکہ اس کے پاس کوئی سائنسی تجربات یا مشاہدات نہیں تھے جو اس کے دعووں کی تصدیق کرتے۔ اس وجہ سے، اس کے ہم عصر فلاسفہ، خاص طور پر ارسطو نے اس نظریے کو رد کر دیا اور کہا کہ مادہ تسلسل (Continuous) رکھتا ہے، نہ کہ الگ الگ ناقابل تقسیم ذرات پر مشتمل ہے۔

2- اتم کی ناقابل تقسیم ہونے کا نظریہ غلط ثابت ہوا

ذیمقراطیس کا ماننا تھا کہ اتم ناقابل تقسیم (Indivisible) ہیں، جبکہ جدید سائنس نے یہ ثابت کر دیا کہ اتم مزید چھوٹے ذرات (الیکٹران، پروٹون، اور نیوٹرون) پر مشتمل ہوتے ہیں۔ یہاں تک کہ پروٹون اور نیوٹرون بھی کوارکس (Quarks) سے بنے ہوتے ہیں، جس سے واضح ہوتا ہے کہ اتم سب سے بنیادی ذرہ نہیں ہے۔

3- تمام اتموں کی مختلف اشکال اور سائز کا تصور غلط تھا

ذیمقراطیس کا دعویٰ تھا کہ مختلف قسم کے مادے، اتموں کی شکل اور سائز میں فرق کی وجہ سے وجود میں آتے ہیں، جیسے کہ پانی کے اتم ہموار ہوتے ہیں اور آگ کے اتم نوک دار ہوتے ہیں۔ تاہم، جدید کیمیا اور طبیعیات نے یہ ثابت کیا کہ اتم مخصوص عناصر پر مشتمل ہوتے ہیں اور ان کی خصوصیات الیکٹرانک اسٹرکچر سے طے ہوتی ہیں، نہ کہ محض شکل اور سائز سے۔

4- نظریہ کیمیائی تعاملات کی وضاحت کرنے میں ناکام تھا

ذیمقراطیس کا نظریہ صرف یہ بیان کرتا تھا کہ اتم خلا میں حرکت کرتے ہیں اور مختلف اشیاء کی تشکیل کرتے ہیں، لیکن یہ وضاحت نہیں کرتا تھا کہ کیمیائی تعاملات (Chemical Reactions) کس طرح ہوتے ہیں۔ جدید سائنس نے دکھایا کہ کیمیائی تعاملات ایٹمز کے الیکٹرانز کے درمیان تعامل سے ہوتے ہیں، جو کہ ذیمقراطیس کے نظریے میں شامل نہیں تھا۔

5-طبیعی قوانین اور قوتوں کا کوئی ذکر نہیں تھا

ذیمقراطیس کے نظریے میں یہ وضاحت نہیں کی گئی کہ اتم کس طرح ایک دوسرے کے ساتھ جڑتے ہیں یا کیوں وہ مخصوص پیٹرن میں ترتیب پاتے ہیں۔ جدید طبیعیات نے ثابت کیا کہ مادہ بنیادی طور پر چار بنیادی قوتوں (ثقل، برقی مقناطیسیت، کمزور اور مضبوط جوہری قوت) کے تحت کام کرتا ہے، جن کا ذیمقراطیس کے نظریے میں کوئی ذکر نہیں تھا۔

نتیجہ

اگرچہ ذیمقراطیس کا نظریہ اتم ایک جدید سائنسی فکر کی بنیاد تھا، لیکن اس کی کئی خامیوں اور سائنسی شواہد کی کمی کی وجہ سے یہ مکمل طور پر درست ثابت نہ ہو سکا۔ بعد میں جان ڈالٹن، آئن سٹائن اور دیگر سائنسدانوں نے اس نظریے کو بہتر بنایا اور تجرباتی شواہد کی مدد سے ایٹمی ساخت کا حقیقی ماڈل پیش کیا۔ اس لیے، ذیمقراطیس کا نظریہ ایک ابتدائی تصور تو تھا، لیکن جدید سائنسی اصولوں کے مطابق اسے مکمل طور پر درست نہیں مانا جا سکتا۔