بس ایک بار اور... پھر توبه!

بس ایک بار اور... پھر توبہ!

تحریر: سید غیور الحسنین نقوی

سوال: اگر ہمیں معلوم ہو کہ کوئی کام گناہ (حرام) ہے، اور ہم یہ سوچ کر کریں کہ "بس یہ آخری بار ہے، پھر توبہ کر لیں گے" تو کیا ہمارا گناہ اور بڑا ہو جائے گا؟

✅ جواب: جی ہاں، اگر کوئی گناہ جان بوجھ کر اور پہلے سے سوچ کر کیا جائے، تو وہ اور بھی بڑا گناہ بن جاتا ہے۔ یہ سوچنا کہ "ابھی گناہ کر لیں، بعد میں توبہ کر لیں گے" یہ شیطان کا دھوکہ ہے۔ کیا پتہ کہ ہمیں دوبارہ توبہ کا موقع ہی نہ ملے؟

جب کوئی شخص گناہ کرنے کا پلان بناتا ہے، تو اس کا مطلب ہے کہ وہ گناہ کو برا نہیں سمجھ رہا بلکہ اس سے خوش ہو رہا ہے۔ اور جو شخص دل سے گناہ کو برا نہ سمجھے، اس کی توبہ سچی نہیں ہوتی۔

🔸 مثال:

فرض کریں ایک بچہ جانتا ہے کہ جھوٹ بولنا غلط بات ہے۔ لیکن وہ سوچتا ہے: "میں صرف ایک آخری بار جھوٹ بولتا ہوں، بس اس کے بعد کبھی نہیں بولوں گا۔" اب وہ جھوٹ بولتا ہے، اور دل میں پہلے ہی یہ پلان بنایا ہوتا ہے کہ بعد میں توبہ کر لے گا۔ یہ بلکل ایسا ہے جیسے کوئی جان بوجھ کر آگ میں ہاتھ ڈالے اور کہے: "میں بعد میں پٹی باندھ لوں گا، ابھی تو ہاتھ جلنے دو!" ایسا سوچنا نہ عقلمندی ہے، نہ توبہ کی نشانی۔ کیونکہ: پہلے سے گناہ کا ارادہ کرنا، یہ دل کی سختی اور اللہ کی نافرمانی ہے۔ گناہ کرتے ہوئے "توبہ کا ارادہ" کرنا، یہ اصل توبہ نہیں، بلکہ ایک بہانہ ہے۔ زندگی کا کوئی بھروسہ نہیں، شاید توبہ کا موقع ہی نہ ملے۔

📌 نتیجہ:

سچی توبہ یہ ہے کہ انسان گناہ کو برائی سمجھے، اس پر شرمندہ ہو، اور دل سے ارادہ کرے کہ دوبارہ نہیں کرے گا۔ "آخری بار" کا بہانہ بنانا، دراصل گناہ کو چھوٹا سمجھنے کی علامت ہے جو خود ایک بڑا گناہ ہے۔

محبت كا اظهار كرو

بسم اللہ الرحمن الرحیم

💠 حدیث_روز 💠

🔻 امام صادق عليه‌السلام:

اِذا اَحْبَبْتَ رَجُلاً فَاَخْبِرْهُ بِذلِكَ فَاِنَّـهُ اَثْبَتُ لِلْمَـوَدَّةِ بَيْنَكُما۔

اردو ترجمہ:

"جب تم کسی سے محبت کرو تو اسے ضرور بتاؤ، کیونکہ ایسا کرنے سے تمہاری باہمی دوستی زیادہ پائیدار ہو جاتی ہے۔"

📚 اصول کافی، ج ۲، ص ۶۴۴

وضاحت

1- محبت کا اظہار کیوں ضروری ہے؟ جب آپ کسی کی خوبیوں، اخلاق یا کردار سے متاثر ہو کر اسے دل سے چاہیں، تو اس احساس کو چھپانے کے بجائے کھل کر بیان کرنا دونوں کے درمیان اعتماد اور خلوص کو گہرا کرتا ہے۔ مثال: جیسے کوئی دوست آپ کی مشکل وقت میں مدد کرے، اور آپ اسے بتائیں: "تمہاری دوستی میرے لیے بہت قیمتی ہے"۔

2- پائیداری کا راز: امام صادقؑ فرماتے ہیں کہ یہ عمل مودت (گہری دوستی) کو "اَثْبَتُ" (مضبوط/پائیدار) بناتا ہے، كيونكه محبت چھپانے سے شک یا دوری پیدا ہو سکتی ہے، جبکہ اظہار رشتے کو حقیقی بنیاد فراہم کرتا ہے۔

3- عملی اطلاق: یہ حکم صرف مردوں تک محدود نہیں؛ بلکہ ہر رشتے (ماں باپ، بہن بھائی، دوست، استاد) میں لاگو ہوتا ہے۔ لهذا جب بھی آپ کسی کی صلاحیت، نیکی یا حسنِ سلوک سے متاثر ہوں، اسے الفاظ یا عمل سے ضرور بتائیں۔

☑️آج کی مشق:

آج کسی ایک شخص کو بتائیں کہ "آپ کی موجودگی میری زندگی کے لیے اہم ہے"۔

•┈┈••🌷••┈┈•

*الفاظِ محبت انسان کے دل کا راستہ ہیں، جو دوسروں تک پہنچ کر گھر بنا لیتے ہیں۔*

نماز شب

نماز شب

نماز شب پڑھنے کی توفیق حاصل کرنے کے لیے روایات میں کچھ طریقے بیان کیے گئے ہیں:

1- گناہوں کو ترک کرنا:

ایک شخص نے امیر المؤمنین حضرت علی عليه السلام سے عرض کیا کہ وہ نماز شب سے محروم ہے۔ آپ نے فرمایا کہ تمہارے گناہ تمہیں شب بیداری سے روک رہے ہیں: "أنت رجل قد قيّدتك ذنوبك"۔(۱)

2- صدق دل سے ارادہ کرنا:

امام باقر عليه السلام نے فرمایا کہ اگر کوئی شخص سوتے وقت صدق دل سے ارادہ کرے کہ ایک خاص وقت پر اٹھے گا، تو اللہ تعالیٰ دو فرشتوں کو مقرر کرتا ہے کہ وہ اسے مقررہ وقت پر جگا دیں: "ما نوی عبد أن يقوم أيّة ساعة نوي، فعلم الله تبارك و تعالي ذلك منه، إلاّ وكّل به ملكين يحرّكانه تلك الساعة"۔(2)

ایک اور روایت میں امام صادق عليه السلام نے فرمایا کہ اگر کوئی شخص سوتے وقت سورہ کہف کی آخری آیت پڑھے، تو وہ جس وقت چاہے بیدار ہو جائے گا: "ما من عبد يقرأ آخر الكهف حين ينام إلاّ استيقظ من منامه فی الساعة التي يريد"۔(3)

[۱ ] تهذیب الاحکام، ج۲، ص۳۶۰

[۲ ] من لايحضره الفقيه، ج۱، ص۴۷۹

[۳] من لايحضره الفقيه، ج۱، ص۴۷۱

تسنیم، ج۱۳، ص۳۷۱ - ۳۷۵

استغفار

🌼 لمحہ فکریہ🔔

میں نے اپنا لیپ ٹاپ آن کیا اور انٹرنیٹ کی گلیوں میں کھو گیا...😊

کچھ گلیوں میں گھومتے ہوئے اچانک دیکھا کہ اینٹی وائرس کی گھنٹی بجنے لگی؛

میں سمجھ گیا کہ وائرس نے حملہ کر دیا ہے۔😕

جلدی سے وائرس کو ختم کیا تاکہ میرے سسٹم کو کوئی نقصان نہ پہنچے...

جب میرا کام ختم ہوا تو میں خود پر ہنس پڑا

"یہ وہ ہنسی تھی... جو تلخ تھی،

اور غمگین آنسوؤں سے بھی زیادہ دردناک تھی"!😔

میں نے اپنے آپ سے کہا: کاش جتنا خیال

تم اپنے لیپ ٹاپ کا رکھتے ہو، اتنا ہی خیال اپنا بھی رکھتے۔😓

کاش جب تم گناہ کرتے ہو اور تمہارے دل کی گھنٹی

بجنے لگتی ہے کہ: خطرہ.. خطرہ..!!😔

مجھے اپنے آپ پر ترس آیا...!!😓

مجھے اب سمجھ آیا کہ بہت عرصے سے گناہوں نے،

میرے دل کے اینٹی وائرس کو بھی ختم کر دیا ہے۔😔

نمی‌دانم_کیا_کہوں

لیکن خوش نصیب ہیں وہ لوگ جن کے دل کا اینٹی وائرس

اصل ہے اور وہ ہر روز خدا سے جڑ کر

اسے اپ ڈیٹ کرتے ہیں...🌹

خوشبخت ہیں وہ لوگ جو ہر رات

اپنے اعمال کا جائزہ لیتے ہیں اور اگر کوئی گناہ

ان کے دل میں داخل ہو جائے تو وہ اینٹی وائرس

(استغفار)کے ساتھ اسے ختم کر دیتے ہیں۔🚫

✅میں نے ایک اینٹی وائرس خریدا ہے جس کا نام ہے استغفار

دل سے کہا:

استغفرالله ربی و أتوب علیه✨

خاموشی کے فوائد اور اثرات

خاموشی کے فوائد اور اثرات

تحرير: سيد غيور الحسنين

امام جعفر صادق (علیہ السلام) نے خاموشی کے فوائد کے بارے میں فرمایا:
"خاموشی تحقیق کرنے والوں کا طریقہ اور ان لوگوں کا شعار ہے جو بصیرت کی آنکھ سے دنیا کی حقیقتوں کو ثابت اور استوار دیکھتے ہیں؛ وہ لوگ جو ماضی کی حقیقتوں میں غور و فکر کرتے ہیں اور ایسی باتیں بیان کرتے ہیں جو نہ قلموں نے لکھی ہیں اور نہ ہی کتابوں میں آئی ہیں۔"

خاموشی کے فوائد اور اثرات:
امام (علیہ السلام) نے خاموشی کے درج ذیل فوائد بیان کیے:

1. خاموشی دنیا اور آخرت کی ہر قسم کی راحت اور سکون کی کنجی ہے۔


2. یہ اللہ کی رضا اور خوشنودی کا باعث ہے۔


3. قیامت کے دن انسان کے حساب کو ہلکا کر دیتی ہے۔


4. خطاؤں اور لغزشوں سے محفوظ رکھتی ہے۔


5. جاہل کے لیے پردہ اور عالم کے لیے زینت ہے۔


6. نفسانی خواہشات کے خاتمے کا ذریعہ ہے۔


7. نفس کی ریاضت کا وسیلہ ہے۔


8. عبادت اور خدا سے مناجات کے لطف اور مٹھاس کو سمجھنے کا ذریعہ ہے۔


9. دل کی سختی اور قساوت کو ختم کرتی ہے۔


10. حیاء اور پرہیزگاری حاصل کرنے کا وسیلہ ہے۔


11. تدبر، تفکر، اور مروت میں اضافے کا سبب بنتی ہے۔


12. فہم و فراست پیدا کرتی ہے۔

مزید فرمایا:
"اب جبکہ تم خاموشی کے فوائد سے آگاہ ہوگئے ہو، تو اپنی زبان کو بند رکھو اور ضرورت کے بغیر بات نہ کرو، خاص طور پر جب تمہیں کوئی ایسا شخص نہ ملے جس سے اللہ کی رضا کے لیے گفتگو کی جا سکے۔ پھر فرمایا:
'انسان کی ہلاکت اور نجات دونوں کا ذریعہ اس کی گفتگو اور خاموشی میں ہے۔'"

خوش نصیب ہے وہ شخص:
جو اچھی اور بری بات کا فرق پہچاننے میں کامیاب ہو جائے اور کم بولنے اور خاموشی کے فوائد سے آگاہ ہو جائے۔ خاموشی انبیاء کے اخلاق اور خدا کے برگزیدہ بندوں کا شعار ہے۔ جو شخص کلام کی قدر اور اہمیت کو جان لے، وہ بے جا بات نہیں کرتا اور خاموشی کو اپنا شعار بنا لیتا ہے۔ ایسا شخص جو خاموشی کے لطیف پہلوؤں کو سمجھ لے اور اسے اپنے دل کے رازوں کی امانت دار بنا لے، اس کی گفتگو اور خاموشی دونوں عبادت بن جاتی ہیں، اور اس عبادت کی حقیقت کو خدا کے سوا کوئی نہیں جان سکتا۔

📖 (عزیزی، صفحہ 172، 1377)

محبت اور عشق کیا ہیں؟

كيا نكاح سے پهلے دو نامحرموں كا عشق جائز هے؟

كيا صرف نماز اور روزه هي عبادت هے؟

كيا صرف نماز اور روزه هي عبادت هے؟

https://www.youtube.com/watch?v=DOrkZyH_czg

ماہ رمضان  اور قرآن كا رابطه

ماہ رمضان  اور قرآن كا رابطه

    تحرير: سيد غيور الحسين

ماہ رمضان برکتوں  والا مہينہ ہے -  اس ماہ کي عظمت کا اندازہ اس بات سے لگايا جا سکتا ہے کہ قرآن مقدس کا نزول اسى پاک مہينے ميں ہوا  اور يہ وہ کتاب ہے جو قيامت تک کے انسانوں کے ليۓ ہدايت کا ذريعہ ہے -

رمضان کے مہينہ کي فضيلت کي وجہ اس مہينہ ميں قرآن کا نازل ہونا ہے. الله تعالى فرماتا هے: ) شھر رمضان الذي انزل فيہ القرآن ھديً للنّاس( (سورہ بقرہ 185)

ترجمه:ماه رمضان وه هے جس ميں لوگوں كى هدايت كے ليےقرآن نازل هوا.

اسي وجہ سے قرآن اور ماہ مبارک رمضان ميں ايک خاص رابطہ پايا جاتا ہے- جيسے موسم بھار (بسنت) ميں انسان کا مزاج شاداب رہتا ہے اور گل و گياہ سر سبز و شاداب رہتے ہيں- اسي طرح قرآن بھي دلوں کيلۓ موسم بھار کے مانند ہے کہ جس کے پڑھنے حفظ کرنے اور اسکے مطلب کو سمجھنے ميں انسان کا دل ہميشہ ايک خاص شادابي کا احساس کرتا ہے-

جيسا کہ امام علي (ع) فرماتے ہيں:(تعلموا کتاب اللہ تبارک و تعالي فانہ احسن الحديث و ابلغ الموعظہ و تفقھوا فيہ فانہ ربيع القلوب)

کتاب خداوند کو پڑھو کيونکہ اس کا کلام بہت لطيف و خوبصورت ہے اور اس کي نصيحت کامل ہے اور اسےسمجھو کيونکہ وہ دلوں کيلۓ بہار ہے- اسي بناء پر قرآن اور رمضان کے مہينہ کا رابطہ آپس ميں بہت گہرا ہے -

قرآن کو پڑھنے اور اس ميں غور و فکر کر نے کے بعد انسان اس بات پر قدرت رکھتا ہے کہ وہ حيات طيبہ تک پہنچ جاۓ اور شب قدر کو درک کر سکے-

رسول اکرم (ص) خطبہ شعبانيہ ميں فرماتے ہيں : رمضان کے مہينہ ميں قرآن کي ايک آيت کي تلاوت کا ثواب اس ثواب کے برابر ہے جو دوسرے مہينوں ميں قرآن ختم کرنے سے حاصل ہوتا ہے-

(يا أيّھا الّذين آمنوا کتب عليکم الصّيام کما کتب علي الّذين من قبلکم لعلّکم تتّقون)(البقرة183)

ترجمہ:اے صاحبان ايمان تمہارے اوپر روزے اسي طرح لکھ ديئے گئے ہيں جس طرح تمہارے پہلے والوں پر لکھے گئے تھے شايد تم اس طرح متّقي بن جاۆ. 

رمضان کا مہينہ ايک مبارک اور باعظمت مہينہ هے. يہ وہ مہينہ هے جس ميں مسلسل رحمت پروردگار نازل هوتي رہتي هے. اس مہينہ ميں پروردگار نے اپنے بندوں کو يہ وعدہ ديا هے کہ وہ ان کي دعا کو قبول کرے گا .  يہي وہ مہينہ هے جس ميں انسان دنيا و آخرت کي نيکياں حاصل کرتے هوئے کمال کي منزل تک پہنچ سکتا هے.اور پچاس سال کا معنوي سفر ايک دن يا ايک گھنٹہ ميں طے کر سکتا هے. اپني اصلاح اور نفس امارہ پر کنٹرول کي ايک فرصت هے جو خدا وند متعال نے انسان کو دي هے . خوش نصيب ہيں وہ لوگ جنہيں ايک بار پھر ماہ مبارک رمضان نصيب هوا اور يہ خود ايک طرح سے توفيق الھي هے تا کہ انسان خدا کي بارگاہ ميں آکراپنے گناهوں کي بخشش کا سامان کر سکے ، ورنہ کتنے ايسے لوگ ہيں جو  پچھلے سال ہمارے اور آپ کے ساتھ تھے ليکن آج وہ اس دار فنا سے دار بقاء کي طرف منتقل هو چکے ہيں .

آخر مين دعا هے كه خداوند عالم بحق محمد و آل محمد اس ماه مبارك  سے هميں صحيح معنى ميں استفاده كرنے كى توفيق عطا فرمائے.(آمين)

حواله: Tebyan.net

توبہ کے مراحل کونسے ہیں؟

اخلاقی دروس کا سلسلہ ناظرین کی خدمت میں پیش کیا جا رہا ہے۔ اس درس میں علمائے اخلاق کے بیان کی روشنی میں توبہ کے مراحل بیان ہوئے ہیں۔ مولانا سید غیور الحسنین

https://www.shiatv.net/view_video.php?viewkey=1577760633

توبہ قبول ہونے کی شرائط کیا ہیں؟

اخلاقی دروس کا سلسلہ ناظرین کی خدمت میں پیش کیا جا رہا ہے۔ اس درس میں توبہ کا معنی بیان کرتے ہوئے روایات کی روشنی میں توبہ کے مراحل اور اس کی قبولیت کی شرائط بیان کی گئی ہیں۔ مولانا سید غیور الحسنین

https://www.shiatv.net/video/553789937

گھر میں بے سکونی کیوں؟

گھر میں بے سکونی کیوں؟

 

آیت اللہ فاطمی نیا نے فرمایا :

ہمارے گھروں میں اختلاف، لڑائی، بداخلاقی، غصہ، ایک دوسرے کا دل توڑنا،وغیرہ کیوں ہوتا ہے اس کی وجوہات کیا ہیں؟

 

بھت سے گھریلو مشکلات کی ایک وجہ یہ ہے کہ ہمارے گھروں میں  فرشتوں کا آنا جانا نھیں رہتا۰ اگر کسی گھر میں فرشتوں کا آنا جانا رہے وہ گھر بھشت رہتا ہے۰

 اب اپنے گھروں میں کیا کیا جائے کہ فرشتے ھمارے گھروں میں رھیں اور کن چیزوں سے پرھیز کیا جائے تاکہ کہیں فرشتے چلے نہ جائیں ؟

 

1-  حدیث کساء کی زیادہ تلاوت کی جائے

2-  کوشش کریں اوّل وقت میں نماز ادا کریں.

3-  نماز قضا نہ کریں اس کا بھت برا اثر ہوتا ہے.

4-  کوئی نجس چیز گھر میں نہ رکھیں سارا گھر پاک رہنا چاہیے.

5- فرشتے جس گھر میں چیخ و پکار یا بلند آواز میں بات کی جاتی ہے اس گھر سے چلے جاتے ہیں.

6-  گھر میں برے الفاظ استعمال نہ کریں۰ گالیوں ،جھوٹ غیبت اور توھین وغیرہ سے پرھیز کیا جائے.

7-   کوشش کریں گھر میں اپنی آنکھوں ، کانوں اور پیٹ کو حرام سے بچائیں.

8- جب گھر میں داخل ہوں تو سلام کریں چاہے گھر میں کوئی بھی موجود نہ ھو.

ریا اور اس  كے نتائج

  ریا  اور اس  كے نتائج

ہرعمل کی قدر و قیمت اس کے سبب کے ساتھ وابستہ ہوتی ہے ، یا دوسرے لفظوں میں اسلام کی نگاہ میں ہر عمل کی بنیاد اس کی  نیت پر ہوتی ہے، وہ بھی  خالص نیت ۔ اسلام ہر چیز سے پہلے نیت کے بارے میں تحقیق کرتا ہے ، لہٰذا ایک مشہور حدیث میں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے آیا ہے۔

انما الاعمال بالنیات و لکل امرء ما نوی

" ہر عمل نیت کے ساتھ وابستہ ہے او ر ہر شخص کا عمل میں حصہ ، اس کی اس نیت کے مطابق ہوگا، جو وہ عمل میں رکھتا تھا "۔ 

اور اسی حدیث کے ذیل میں آیا ہے : 

" جو شخص خد اکے لیے جہاد کرے اس کا اجر خدائے بزرگ و بر تر ہے ۔ اور جو شخص مالِ دنیا کے لیے جنگ کرے، یہاں تک کہ ایک عقال (وہ چھوٹی سی رسّی جس سے اونٹ کے پاوٴں کو باندھتے ہیں  ) لینے کے لیے کرے اس کا حصہ بس وہی ہے ۔ ۱" 

یہ سب اس بناء پر ہے کہ  نیت سے ہی عمل وجود میں آتا ہے ۔ وہ شخص جو خدا کے لیے کوئی کام انجام دیتا ہے ، تو وہ اس کی بنیاد کومحکم کرتا ہے ، اور اس کی تمام کوشش یہ ہوتی ہے کہ لوگ اس سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھائیں ۔ لیکن جو شخص تظاہر اور ریا کاری کے لیے کسی عمل کو انجام دیتا ہے وہ صرف ا س کے ظاہر اور زرق و برق پرنظر رکھتا ہے ، اور وہ اس کی گہرائی و بنیاد اورحاجت مندوں کے استفادے کو کوئی اہمیت نہیں دیتا ۔ 

وہ معاشرہ جو ریا کاری کا عادی ہو جاتا ہے وہ نہ صرف  خدا ، اخلاق حسنہ اور ملکاتِ فاضلہ سے دور کردیا جاتا ہے ، بلکہ اس کے تمام اجتماعی پروگرام مفہوم و مطلب سے خالی ہو جاتے ہیں ،  اور ایسے انسان اور اس قسم کے معاشرے کی سر نوشت کتنی دردناک ہے ؟ ! ۔ 

" ریا " کی مذمت میں بہت زیادہ روایات آئی ہیں ، یہاں تک کہ اس کو شرک کی ایک نوع کہا گیا ہے ، اور ہم یہاں تین ہلادینے والی روایات پر قناعت کرتے ہیں ۔ 

۱۔ ایک حدیث میں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے آیاہے : 

"سیاٴ تی علی الناس زمان تخبث فیہ سرائر ھم ۔ ونحن فیہ علانیتھم، طمعاً فی الدنیا لایدون بہ ما عند ربھم، یکون دینھم ریاء لایخالطھم خوف، یعمعھم اللہ بعقاب فیدعونہ  دعا ء الغریق فلا یستجب لھم! : 

"لوگوں پر ایک ایسا زمانہ آنے والا ہے جب ان کے باطن قبیح ، گندے اور آلودہ ہوجائیں ، اور ان کے ظاہر زیبا اور خوبصورت ہوں گے۔ دنیا میں طمع کی خاطر وہ اس سے اپنے پروردگار کی جزاوٴں کے طلب گار نہیں ہوں گے ۔ ان کا دین ریا ہو جائے گا، خوف خدا ان کے دل میں باقی نہ رہے گا، خد اان سب کو ایک سخت عذاب میں گرفتار کرے گا ، اور وہ جتنا بھی ایک ڈوبنے والے کی طرح خدا کو پکاریں گے ، ہرگز  ان کی دعا قبول نہ ہوگی"۔ ۲

۲۔ ایک دوسری حدیث میں امام جعفر صادق علیہ السلام سے آیا ہے کہ آپ نے اپنے ایک صحابی"زرارہ" سے فرمایا : 

"من عمل للناس کان ثوابہ علی الناس یا زرارہ ! کل ریاء شرک!"۔ 

"جو شخص لوگوں کے لیے عمل کرے گا اس کا اجر و ثواب لوگوں پر ہی ہو گا۔ اے زرارہ ! ہر ریا شرک ہے ۔" 3

۳۔ ایک اور حدیث میں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ آلہ وسلم سے آیاہے :" ان المرائی یدعی یوم القیامة باربعة اسماء یا کافر ! یا فاجر ! غادر ! یا خاسر ! حبط عملک ، و بطل اجرک، فلا خلاص لک الیوم ، فالتمس اجرک ممن کنت تعمل لہ!: 

" ریا کار شخص کو قیامت کے دن چار ناموں سے پکارا جائے گا: اے کافر! اے فاجر ! اے حیلہ گر ! اے خاسر و  زیاں کار ! تیرا عمل نابود ہو گیا ہے ، تیرا اجر و ثواب باطل ہوچکا ہے۔ آج تیرے لیے نجات کی کوئی راہ نہیں ہے ، لہٰذا تو اپنا اجر و ثواب اس سے طلب کر جس کے لیے تو عمل کرتا تھا۔" 4

خد اوندا !  خلوص نیت سخت مشکل کام ہے ، تو خود اس راہ میں ہماری مدد فرما۔ 

پروردگارا ! ہمیں ایسا ایمان مرحمت فر ما کہ ہم تیرے ثواب و عقاب کے علاوہ اور کچھ نہ سوچیں، او رمخلوق کی رضا  و خشنودی اور غصہ و غضب تیری راہ میں ہمارے لیے یکساں ہو۔ 

بار لہٰا ! اس راہ میں جو خطا اور غلطی اب تک ہم نے کی ہے وہ ہمیں بخش دے ۔ 

آمین یا رب العالمین ۔

حوالہ جات:

۱۔وسائل الشیعہ، جلد اول، ص ۳۵ ( ابواب مقدمہٴ العبادات باب ۵ حدیث ۱۰)۔

۲۔ اصول کافی ، جلد ۲ ،باب الریاء، حدیث ۱۴۔

3۔   وسائل الشیعہ ، جلد اول، ص ۴۹، ( حدیث  ۱۱  کے ذیل میں )۔

4۔   وسائل الشیعہ ، جلد اول، ص ۵۱، ( حدیث  ۱۶ کے ذیل میں )۔

___________

سایت رسمی دفتر آیت اللہ مکارم شیرازی۔

🌿عزاداري اور آغا ماشا الله🌻

🌿عزادارى اور آغا ماشا الله🌻

تحرير: نامعلوم

🌿ایران کے شھر، کرمان کے ایک علاقے میں ایک ستر سالہ شخص آغا ماشااللہ کی داستان جس نے حالت بیداری میں امام حسین علیہ السلام کا دیدار کیا اور آپ (ع) سے شفا پائی 🌿🌻🌿

🍃🍁آغا ماشااللہ کے بارے میں مشھور ہے کہ وہ اول محرم سے اٹھارہ محرم تک اپنے گھر میں طرح طرح کے کھانوں سے عزاداروں کی پذیرائی کرتے ہیں.

جب آغا ماشااللہ سے معلوم کیا گیا کہ آپ کہاں سے اتنے بڑے پیمانے عزاداروں کی پذیرائی کا انتظام کرتے ہیں؟ تو آغا ماشااللہ نے اپنی داستان اسطرح بیان کی......

🍃جوانی میں مجھے حصبہ جیسی مہلک بیماری نے اپنی لپیٹ میں لے لیا ، مجھے ایران کے بڑے بڑے شھروں میں علاج کے لیے لے جایا گیا، لیکن کوی فائدہ نہیں ہوا اور میری بیماری بڑھتی گی.

ڈاکٹروں نے کہہ دیا کہ اب علاج کا کوی فائدہ نہیں بلکہ جو بھی اس کے نزدیک آیا وہ بھی اس بیماری میں مبتلا ہو جاے گا. یہ کچھ دن کا مہمان ہے آپ اسے گھر لے جا یں اور اسے جو چیز بھی کھانے کا دل چاہے وہ دیں.

ماں مجھے گھر لے آئیں اور صحن میں چار پای پر لٹا دیا  - میری ماں کے پاس ہمیشہ ایک سیاہ رومال ہوتا تھا وہ جب امام حسین علیہ السلام پر گریہ کرتیں تو اس رومال سے اپنے آنسو پونچھتیں. میں نے اپنی ماں کو بچپن سے صرف امام حسین علیہ السلام پر گریہ کرتے دیکھا تھا. وہ کبھی اپنی مشکلات پر نہیں روتیں تھیں. اس روز بھی میری ماں کا دل بھرا ہوا تھا، سب نے ہمارا ساتھ چھوڑ دیا تھا، ڈاکٹروں نے بھی جواب دے دیا تھا، انہوں نے مجھے چارپای پر لٹایا اپنا رومال نکالا اور اسے صحن میں بنے حوض کے پانی سے دھونا شروع کیا....

ساتھ ہی رو رو کے کہتی جارہی تھیں : اے میرے مولا !  محرم میں صرف دو دن رہ گئے ہیں، مجھے آپ کی عزاداری کرنی ہے آپ میرے بچے کو یا تو اچھا کردیں کہ وہ خود اپنے ہاتھوں سے آپ کے عزاداروں کی خدمت کرے، یا اسے اپنے ساتھ لے جایں، ایسا نہ ہو کہ !  میں اسکی تیمارداری میں لگی رہوں اور آپ کی فرش عزا نہ بچھا سکوں. میری ماں روٹی جارہی تھی اور آہیں بھرتی جارہی تھی.

ماں کی بےقراری دیکھ کر میں بھی منقلب ہوگیا،  میں نے بھی رونا شروع کیا اور آواز دی،  اے میرے مظلوم امام،  کہاں ہیں آپ جو ہماری فریاد رسی کریں. آپ کی فرش عزا بچھانی ہے مجھے ٹھیک کردیئے، میرا آپ سے وعدہ ہے اگر میں صحت یاب ہوگیا تو یکم محرم سے روز عاشورہ تک آپ کے عزاداروں کے لیئے کھانے کا انتظام کروں گا. آپ کے کسی بھی عزادار کو بھوکا پیاسا نہیں جانے دوں گا.

حالانکہ میں جانتا تھا کہ اسوقت ہمارے پاس کچھہ بھی نہیں، جتنا پیسہ اور جو کچھ بھی تھا سب میری بیماری پر خرچ ہو چکا تھا.

میری ماں جب تھوڑی بھتر ہوی تو حوض کے کنارے سے اٹھی اور مجھے لے جاکر نیچے سرداب میں لٹا دیا، میری دونوں ٹانگیں فلج ہوچکی تھیں.

آدھی رات کے قریب اچانک تیز روشنی سے میری آنکھ کھل گئ، میں نے کسی کو سرداب کی سیڑھیوں سے نیچے آتے دیکھا. اس آنے والے کے وجود سے پورے سرداب میں روشنی پھیل گئ، 🌅 وہ میرے پاس آکر بیٹھ گئے اور میرے چہرے اور سر پر انتہای محبت سے ہاتھ پھیرنا شروع کیا، میں نے خوفزدہ ہوکر کہا : آپ کون ہیں؟  خدا کے لیئے میرے قریب نہ آئیں؛ میری بیماری آپ کو لگ جاے گی. آنے والے نے کہا آغا ماشااللہ تمہاری بیماری سے ہمیں کوی نقصان نہیں پہنچے گا. اٹھو محرم نزدیک ہے تمہیں عزاداری کا اہتمام نہیں کرنا؟ میں نے کہا : میں تو اپنی جگہ سے ہل بھی نہیں سکتا. آنے والے نے کہا : یا حسین کہو اور اٹھو؛  میں نے یا حسین کہا آور اپنی جگہ سے اٹھنے کی کوشش کی، دیکھا میرے پاوں حرکت میں آگئے ہیں. اور میں اٹھ کر کھڑا ہو گیا ہوں. میں سمجھ گیا کہ یہ میرے آقا حسین ہیں. 😭 میں انکے پیروں پر گر گیا پھر انکے گرد گھومنا شروع کیا،  میں روتا جاتا تھا اور کہتا جاتا تھا : کہ اے میرے مظلوم امام،  ماشااللہ آپ کے قربان! آپ مجھ گناہکار کے گھر تشریف لاے، آقا کیسے آپ کی میزبانی کروں!  میں اسی طرح امام (ع)کے گرد گھومتا جارہا تھا اور روتا جارہا تھا - کہ امام نے فرمایا : آغا ماشااللہ تمہیں اپنا وعدہ یاد ہے... تم نے کہا تھا کہ ٹھیک ہو گیئے تو دس دن تک میرے عزاداروں کو کھانا کھلاوگے.؟

میں نے کہا : ہاں آقا یاد ہے. یہ سن کر امام نے فرمایا  : تم دس دن نہیں بلکہ اٹھارہ دن عزاداری کا اہتمام کرنا، میں نے کہا آقا میں آپ کے قربان،  اٹھارہ دن،؟ امام (ع )نے جواب میں فرمایا : میری فاطمہ زھرا کی عمر کے مطابق اٹھارہ دن عزاداری کرنا. یہ آٹھ دن میری ماں کے لیے عزاداری کرنا،. اچانک میں نے دیکھا کہ امام وہاں نہیں ہیں.

کرمان میں سب کو میرے شفا یاب ہونے کی اطلاع مل چکی تھی. لوگ جوق در جوق مجھ سے ملنےآرہے تھے.

محرم سے ایک دن پہلے، میں اس فکر میں تھا کہ کل پہلی محرم ہے، اٹھارہ دن عزاداروں کے لیے کھانے کا انتظام کیسے کیا جاے؟ اچانک دروازے پر کھٹکا ہوا، میں نے دروازہ کھولا، دیکھا، ایک پک اپ چاول کی بوریوں سے بھری دروازے پر کھڑی ہے. آنے والے شخص نے کہا کہ : ہمارے صاحب نے یہ چاول بھیجے ہیں اور کہا ہے کہ جب تک تمہارے گھر میں عزاداری ہوتی رہے گی،  نذر کے لیے چاول میری طرف سے ہونگے. ھرگز پریشان نہ ہونا. 🍃🍀

🌹 سالوں گزر گئے ہیں ہر سال محرم سے پہلے لوگ میرے گھر میں ضرورت کا سامان پہنچا دیتے ہیں.

نذر کا سامان آنا شروع ہوجاتا ہے. گوشت، چاول،  تیل، دہی، حتی دیگیں، چولہے، میں ان تمام سامان بھیجنے والوں کو ہرگز نہیں جانتا، میں صرف عزاداروں کی پذیرای کرتا ہوں. 🍁🌷

آغا ماشااللہ نے ایک اور واقعہ بیان کرتے ہوے کہا کہ : جس سال مجھے شفا ہوی ہے . تیسری محرم تھی، میں بےحد تھکا ہوا تھا. سوچا تھوڑی دیر آرام کرلوں پھر صحن میں سے صفائی شروع کروں گا، یہ کام میں خود انجام دیتا تھا. ( ایران میں جن لوگوں کے ہاں بڑے صحن ہوتے ہیں، یا گلی کے کونے پر شامیانہ اور سیاہ پرچم لگا کر امام بارگاہ بناے جاتے ہیں. )))

آغا ماشااللہ کا کہنا ہے کہ میں وہیں صحن میں تخت پر لیٹ گیا، میں نے دیکھا، وہی نورانی چہرے والے آغا تشریف لاے ہیں اور فرماتے ہیں : ماشااللہ کیا تمہارے گھر میں عزاداری نہیں، اٹھو..... اور صحن کی صفای شروع کرو ؛ ماشااللہ کا کہنا ہے کہ اسکے بعد انہوں نے جھاڑو اٹھای اور صحن سے لگانی شروع کی.؛ یہ دیکھ کر میں لرز گیا،  ایک دم اٹھا اور دوڑ کر امام کے قدموں پر گر پڑا اور کہا : مولا یہ کیا کرتے ہیں اے فرزند رسول مجھے شرمندہ نہ کیجئے.

آغا ماشااللہ کا کہنا ہے کہ : امام نے فرمایا : ماشااللہ، میں اپنی ماں زھرا پر رونے کے لیئے آنے والوں کے لئیے خود فرش عزا کو صاف کرنا چاہتا ہوں. 😢😢😔آخر میں آغا ماشااللہ نے کہا کہ : شھزادی فاطمہ زھرا کے لیے جتنی بار فرش عزا بچھای جاے کم ہے. افسوس کہ ہم صرف بی بی کی شھادت کے ایام میں ہی ان کی مجالس کرتے ہیں. ہمیں اپنی مظلوم بی بی کے ذکر کو اور ان پر گزرنے والے واقعات کو زندہ رکھنا چاہیے.

😭😭😭😭😭😭😭😭

امام حسين عليه السلام كى كربلا ميں زيارت كے دنيوى و اخروى فوائد

امام حسين عليه السلام كى كربلا ميں زيارت كے دنيوى و اخروى فوائد

تحریر: سید غیور الحسنین

 

   زيارت امام حسين عليه السلام كو روايات ميں بهت اهميت دي گئى هے اور اس كے بهت زياده دنيوى اور اخروى فوائد ذكر كيے گئے هيں.يه فوائد ايك جگه ذكر نهيں هوئے لهذا ان فوائد كو روايات سے استقراء كركے آپ كى خدمت ميں بيان كيا جا رها هے.

 

دنيوى فوائد:

1- رزق ميں اضافه هوتا هے.

2- عمر طولانى هوتى هے.

3- انسان زندگى ميں فقر و فاقه سے محفوظ رهتا هے.

4- انسان پرمستقبل ميں آنے والى پريشانياں دفع هوتى هيں.

 

اخروى فوائد:

1- زيارت كے ايام زائر امام حسين(ع) كى زندگى ميں شمار نهيں هوں گے.

2-زيارت امام حسين (ع) عرش پر الله كى زيارت كے برابر هے.

3- زيارت امام حسين (ع) الله كى راه ميں هزار غلام آزاد كرنے كےمانند هے.

4- زيارت امام حسين (ع) راه خدا ميں جهاد كے ليے ايك هزارگهو‎‎ڑے دينے كے برابر هے.

5- امام حسين (ع) كى زيارت سے 200حج و عمره (جو صحيح اور مقبول هوں) كا ثواب ملتا هے.

6- زائر امام حسين(ع) كے گذشته گناه معاف هو جاتے هيں.

7- اگر زائر عيد فطر يا عيد قربان كى رات  يا 15 شعبان كى رات امام حسين(ع) كى قبر مطهر كى زيارت كرے تو اس كے گذشته اور آئنده كے گناه بهى معاف هو جاتے هيں.

8- اگر كوئى شخص عاشور كے دن امام حسين(ع) كى كربلا ميں زيارت كرے بهشت اس پر واجب هو جاتى هے.

 

حواله:

مناقب اهل بيت، (فارسى)، تحرير: سيد محمد نجفى  يزدى، كوثر كوير، قم، 1392، ج2، ص290-298 .   

 

 

شاگردوں نے اُستاد سے پوچھا

شاگردوں نے اُستاد سے پوچھا: ہم کیسی کیسی اور کتنی کتنی اللہ کی نافرمانیاں کرتے ہیں اور وہ ہمیں کوئی سزا ہی نہیں دیتے؟

اُستاد نے کہا: اور اللہ ہمیں کتنی کتنی اور کیسی کیسی سزائیں دیتا ہے اور ہم محسوس ہی نہیں کرتے؟

کیا اُس نے کئیوں سے مناجات کی لذت نہیں چھین لی؟

کیا اُس نے کئیوں کے دلوں کو پتھر نہیں بنا کر رکھ دیا؟

اور ان سب سے بڑی سزا، کیا اُس نے کئیوں سے نیک اعمال کرنے کی توفیق نہیں چھین لی؟

کیا ایسا نہیں ہے کہ کئی کئی دن گزر جاتے ہیں اور قران سے ایک لفظ تک پڑھنا نصیب نہیں ہوتا؟

بلکہ کئی کئی تو یہ آیت مبارک (اگر ہم نے یہ قرآن کسی پہاڑ پر بھی اتار دیا ہوتا تو تم دیکھتے کہ وہ اللہ کے خوف سے دبا جا رہا ہے اور پھٹا پڑتا ہے) سُن کر بھی ایسے بن جاتے ہیں جیسے کچھ سُنا ہی نا ہو۔

کیا ایسا نہیں ہوتا کہ راتیں تو جگراتوں میں گزریں مگر اُس کے سامنے کھڑے ہونے کی توفیق نا ہو؟

کیا ایسا نہیں ہوتا کہ خیر کے موسم جیسے: رمضان کے تیس، شوال کے چھ یا ذی الحجۃ کے دس دن ایسے گزر جائیں جیسے سال کے دوسرے عام دن؟

اس سے بڑی سزا کیا ہوگی کہ:

نیکی کا کام کرنا بھاری لگے۔

زبانیں اللہ کے ذکر سے رُکی رہیں،

مال، عزت اور شہرت کی ہوس میں مبتلا ہوجائیں۔

غیبت اور جھوٹ بولنا مسلط ہو جائے،

دماغ اُن کاموں میں الجھے رہیں جن کا ہم سے کوئی تعلق ہی نا ہو،

آخرت بھول جائے اور دنیا کے غم گھیرے رکھیں۔

یہ سب کچھ اللہ کی پکڑ، سزائیں اور عذاب کی ہی شکلیں تو ہیں۔

یہ سب غیر محسوس طریقے سے دیئے جانے والے عذاب ہیں اور سب سے بڑی مصیبت یہ ہوگی کہ کوئی ان عذابوں سے گزر بھی رہا ہو اور اُسے محسوس بھی نا ہو رہا ہو۔

جوانی اور جذبات کا ظھور(قسط2)

اسلام اور عيسائي مذهب ميں شادي

اس بنا پر عیسائیت کا یہ نظریہ کہ شادی نہ کرنا فضیلت کی بات ھے قرآن اور اسلام کی نظر میں کوئی اھمیت نھیں رکھتا.


کیتھولک فرقے میں ایک ایسا ” دینی گروہ “ ھے جو بخیال خود تقویٰ اور پاکیزگی کی منزلوں تک پھونچنے کے لئے جنسی لذت سے کنارہ کش رھتا ھے ۔


مغربی گرجاگھروں میں پادری مرد و عورت کنوارے رھنے کی نذر کرتے ھیں۔ مغربی گر جا گھر وں میں تقریباً انھیں لوگوں کو پادری منتخب کیا جاتا ھے جو کنوارے ھوں اور اس منصب پر پھونچنے کے بعد انھیں یہ حق نھيںھے کہ وہ شادی کر لیں اور اگر پھلے سے شادی شدہ ھیں تو زوجہ کے انتقال کے بعد دوسری شادی نھیں کر سکتے ۔یہ افراد کس حد تک کنوارے رھتے ھیں اور تقویٰ و پرھیزگاری کی کس منزل پر فائز ھیں اور اس گروہ نے کیا کیا تباھی اور گندگی پھیلائی ھے یہ وہ موضوع ھے جس کو بیان کرنے کی ضرورت نھیں ھے اور اس وقت ھماری بحث سے خارج بھی ھے ۔


ھم تو اتنا کھنا چاھتے ھیں کہ دین اسلام خدا ترسی اور تقویٰ و پرھیز گاری کی عظیم منزل پر فائز ھونے کے لئے با شرائط، شادی کو رکاوٹ نھیں تصور کرتا بلکہ اسلام یہ چاھتا ھے کہ مسلمان شادی کے سلسلے میں پیش آنے والی مشکلات کا سامنا کرتے ھوئے روحانی اور معنوی فضیلتوں کو حاصل کرے ۔

تسکین خواھشات اور شدت پسند افراد

 

ادامه نوشته

جوانی اور جذبات کا ظھور(قسط1)

پیغمبر اسلام (ص) کا ارشاد ھے : " اے جوانو ! اگر شادی کرنے کی قدرت رکھتے ھو تو شادی کرو کیونکہ شادی آنکھ کو نا محرموں سے زیادہ محفوظ رکھتی ھے اور پاکدامنی و پرھیز گاری عطا کرتی ھے "(۱)


بلوغ کی بھار اور جوانی کے پھول کھلنے کے بعد لڑکوں اور لڑکیوں کے ذھن میں جنس مخالف کی طرف ایک پر اسرار کشش محسوس ھوتی ھے۔ جیسے جیسے قوتیں ظاھر ھوتی رھتی ھیں ویسے ویسے یہ کشش طاقتور ھوتی جاتی ھے اور آخر میں شدید تقاضے کی صورت اختیار کر لیتی ھے ۔ یہ وھی فطری تقاضا ھے جس کو جنسی کشش کے نام سے یاد کیا جاتا ھے ۔


جسم و روح پر جنسی کشش کا اثر یہ جاننا چاھئیے کہ :
1- یہ کشش صرف لذت کے لئے نھیں ھے بلکہ خدا وند عالم نے اپنی حکمت کی بنا پر اس کو بقائے نسل کا ذریعہ قرار دیا ھے۔ اگر یہ کشش انسان میں نہ ھوتی تو وہ ھرگز شادی کے لئے تیار نہ ھوتا جس کی بنا پر نسل انسانی نیست و نابود ھو جاتی ۔یھی کشش مرد و عورت کو اس بات پرآمادہ کرتی ھے کہ وہ شادی کی زحمتوں کو برداشت کریں اور ذمہ داریاں قبول کریں ۔
2-  جنسی کشش ایک فطری تقاضا ھے اگر صحیح طور سے اس کا جواب نہ دیا جائے تو ھو سکتا ھے کہ جسم اور روح پر منفی اثرات مرتب ھوں اور انسان کو اعتدال کی حد سے خارج کر دیں ۔ خاص کر اس زمانے میں جبکہ ھر طرف سے ایسے وسائل مھیہ کئے جا رھے ھیں جن سے اس کشش کو بڑھا و ا مل رھا  ھے اور روز بروز اس میں اضافہ ھوتا چلا جارھا ھے ۔
اس کشش کی اھمیت کو پیش نظر رکھتے ھوئے ضروری ھے کہ ھم صحیح راستے کا انتخاب کریں تاکہ انسان کے ساتھ ساتھ یہ بھی ارتقائی منزلیں طے کر سکے ۔یہ بات مسلم ھے کہ اس فطری تقاضے سے صرف نظر نھیں کیا جا سکتا اور نہ اس سلسلہ میں بے توجھی برتی جا سکتی ھے اور اسی کے ساتھ ساتھ اس کو مکمل آزادی بھی نھیں دی جا سکتی کیونکہ اس صورت میں فرد اور معاشرہ دونوں ھی راہ سے منحرف ھو جائیں گے اور اخلاقی لحاظ سے نھایت پست ھو جائیں گے ۔ اس فطری تقاضے کا صحیح جواب شادی ھے ۔


بعض لوگوں کا خیال غلط ھے کہ اس کشش کو بالکل دبا دیا جائے اور ھمیشہ کنوارا رھا جائے ان لوگوں کے نزدیک کنوارا  رھنا فضیلت کی بات ھے ۔


اسلام نے اس خیال کو پسند نھیں کیا ھے بلکہ مسلمانوں کو ذمہ دار قرار دیا ھے کہ وہ شادی کے سائے میں اس فطری تقاضے کو پورا کریں ۔ اولاد کی تربیت اور رونما ھونے والی مشکلات کو برداشت کرتے ھوئے اپنی روحانی اور معنوی منازل کی تکمیل کریں۔ اسی بنا پر اسلام نے شادی سے فرار اور کنوارا رھنے کو اچھا نھیں سمجھا ھے بلکہ شادی کو لازم اور مستحب قرار دیا ھے ۔(۲)

۱۔مستدرک الوسائل ج۲ ص ۵۳۱ حدیث ۲۱
۲۔جواھر الکلام ،حدائق ، عروة الوثقی

/www.erfan.ir/urdu

وہ انسان جو زيادہ باتيں کرتے ہيں ان کي عقل کم ہوتي ہے

دين اسلام کے احکام  اپنے تمام جزيات کے ساتھ ايسے احکامات ہيں کہ جنہيں اللہ تعالي نے اپنے مومن بندوں کے ليۓ مقرر کيا ہے - اس لحاظ سے ان احکامات کي انجام دھي  قطعي طور پرمسلمانوں کے ذمہ ہے اور ايک مومن مسلمان وہي ہے جو اللہ تعالي کي طرف سے واجب کيۓ گۓ احکامات کو بغير کسي  اگر و مگر  کے انجام دے   اور ان احکامات کو انجام ديتے ہوۓ کسي بھي قسم کے شک اور ترديد ميں نہ پڑے - کسي بھي طرح کے سوال جواب نہ کرے اور کسي قسم کي دليل اور ثبوت نہ مانگے -  اس طرح بعض اوقات  ہمارے  معصوم پيشوا اور اماموں نے ان احکامت کي منطقي علت، انفرادي  اور اجتماعي  فلسفے کي تشريح  کي اور  ہر ايک کے بارے ميں کافي حد تک وضاحت کي تاکہ غير مسلم بھي ان منطقي اور مدلل احکامات کو سمجھ سکيں اور دوسرے مذاھب کے احکامات سے  موازنہ کر سکيں  اور اس کے ساتھ وہ  مسلمان بھي جو ان احکامات کي بجا آوري لاتے ہيں وہ ان احکامات کے فلسفے سے آشنا ہو سکيں - اس طرح وہ بہتر انداز ميں ان احکامات کے فوائد و برکات سے مستفيد ہو سکتے ہيں -

وہ انسان جو زيادہ باتيں کرتے ہيں اور اپني زبان پر قابو نہيں رکھتے  ان کي عقل کم ہوتي ہے  اور ان ميں سمجھ بوجھ  کي کمي ہوتي ہے -  اس  ليۓ بات کرتے ہوۓ وہ سوچتے نہيں اور جو کچھ زبان پر آتا ہے وہ بول ديتے ہيں  جبکہ اس کے برعکس ايک عاقل انسان ہميشہ کسي موضوع کو سمجھنے  کے بعد اس کے بارے ميں کوئي بات کرتا ہے -

(فَرَضَ اللهُ الاِْيمَانَ تَطْهِيراً مِنَ الشِّرْكِ، وَالصَّلاَةَ تَنْزِيهاً عَنِ الْكِبْرِ، وَالزَّكَاةَ تَسْبِيباً لِلرِّزْقِ، وَالصِّيَامَ ابْتِلاَءً لاِِخْلاَصِ الْخَلْقِ، وَالْحَجَّ تَقْرِبَةً لِلدِّينِ وَالْجِهَادَ عِزّاً لِلاْسْلاَمِ، وَالاَْمْرَ بِالْمَعْرُوفِ مَصْلَحَةً لِلْعَوَامِّ، وَالنَّهْيَ عَنِ الْمُنْكَرِ رَدْعاً لِلسُّفَهَاءِ؛)

اللہ نے  کفر اور شرک کي آلودگي سے دل کے  پاک ہونے کے ليۓ ايمان کو  اور نماز کو سرکشي اور نافرماني سے پاک ہونے کے ليۓ واجب کيا ، زکوۃ کو بےبسوں کي روزي کا وسيلہ اور روزے کو بندوں کے اخلاص کي آزمائش کا وسيلہ  قرار ديا ، حج کو دين کي قوت کے ليۓ اور جہاد کو اسلام کے شکوہ اور سربلندي  کے ليۓ واجب کيا ، امربالمعروف کو  لوگوں کي اصلاح کے ليۓ اور نھي المنکر کو   بےعقل لوگوں کے برے اور گناہ آلود کام پر پکڑ کے ليۓ مقرر کيا -

http://www.erfan.ir/urdu