کیا امام حسینؑ کو شیعہ نے قتل کیا؟

سوال: کیا امام حسینؑ کو شیعہ نے قتل کیا؟

مختصر جواب:

نہیں، امام حسین علیہ السلام کو شیعہ نے قتل نہیں کیا۔ امام حسینؑ کو یزید بن معاویہ کی حکومت کے حکم پر اموی فوج نے شہید کیا، جن کی قیادت عمر بن سعد، شمر بن ذی الجوشن، اور دیگر اموی کمانڈرز کر رہے تھے۔ ان میں سے اکثر نہ عقیدتاً شیعہ تھے، نہ اہل بیتؑ کے وفادار، بلکہ دنیاوی مفادات، خوف یا حکومت کی اطاعت میں شریک تھے۔

تفصیلی وضاحت:

📌 شیعہ کی تعریف:

لغوی معنی: "شیعہ" کا مطلب ہے کسی کے پیروکار۔ قرآن میں بھی لفظ "شیعه" آیا ہے: سورۃ الصافات 83: ﴿وَإِنَّ مِن شِيعَتِهِ لَإِبْرَاهِيمَ﴾ یعنی "ابراہیمؑ بھی اس (نوحؑ) کے پیروکاروں میں سے تھے۔"

خلافتِ راشدہ کے بعد "شیعه علیؑ" وہ کہلاتے تھے جو علیؑ کو خلافت کے لیے سب سے زیادہ حقدار مانتے تھے اور ان سے محبت رکھتے تھے۔ لهذا اس وقت "شیعہ" کا مطلب تھا: اہل بیت علیہم السلام کے ماننے والے اور ان کے سیاسی و روحانی حامی۔

📌 اہل کوفہ کون تھے؟

کوفہ حضرت علیؑ کا دارالخلافہ رہا، اس لیے وہاں بہت سے لوگ "شیعہ علیؑ" کہلاتے تھے۔ مگر وقت کے ساتھ ان میں منافقت، بزدلی، اور دنیا پرستی گھر کر گئی تھی۔ یزید کے گورنر ابن زیاد نےعوام کو خریدا یا ڈرایا۔ امام حسینؑ کی حمایت کرنے والوں کو قتل یا قید کیا۔حتیٰ کہ مسلم بن عقیلؑ کو بھی شہید کر دیا۔

کوفہ میں بہت سے ایسے لوگ موجود تھے جنہوں نے امام حسینؑ کو خطوط لکھے اور دعوت دی، مگر جب یزید کی طرف سے سختی، دھمکی اور قتل کا خطرہ آیا، تو بہت سے لوگ ڈر گئے یا خاموش ہو گئے۔ انہیں "شیعہ" کہنا آج کے معنوں میں درست نہیں۔

کیا خط لکھنے والے بعد میں کربلا میں امام کے خلاف تھے؟ نہیں۔ تاریخ گواہ ہے کہ کوفہ کے شیعہ جیسے سلیمان بن صرد خزاعی نے بعد میں "تَوّابین" کی تحریک چلائی تاکہ اپنے گناہ کا کفارہ ادا کر سکیں۔

اصل شیعہ، جیسے حبیب بن مظاہر، مسلم بن عقیل، زہیر بن قین، جون(حبشی غلام)، وہب اور ان کی ماں و بیوی اور جوانان بني هاشم۔ یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے اپنی جانیں قربان کیں لیکن امامؑ کا ساتھ نہ چھوڑا۔

📌 امام حسینؑ کے قاتل کون تھے؟

1- یزید بن معاویہ: ظالم حکمران، جس نے بیعت نہ کرنے پر قتل کا حکم دیا۔

2- عبید اللہ بن زیاد: کوفہ کا گورنر، جس نے امام حسینؑ کے خلاف لشکر تیار کیا۔

3- عمر بن سعد بن ابي وقاص: یزیدی لشکر کا سربراہ۔

4- شمر بن ذی الجوشن: امام حسینؑ کے قتل میں براہ راست شریک۔

ان میں سے کوئی بھی شیعہ علیؑ نہیں تھا۔ یہ لوگ دنیا طلب، حکومت کے وفادار، اور اہل بیتؑ کے دشمن تھے۔ ان کا تعلق مختلف قبیلوں سے تھا جنہوں نے کبھی علیؑ اور اہل بیتؑ کو قبول نہیں کیا۔

یہ کہنا کہ "امام حسینؑ کو شیعوں نے قتل کیا" ایک تاریخی مسخ (Distortion) ہے۔ اس کا مقصد اہل بیتؑ سے محبت کرنے والے طبقے کو بدنام کرنا ہے۔ امام حسینؑ کے قاتل وہ لوگ تھے جنہوں نے یزید کے لیے کام کیا، اور حقیقی شیعہ اس واقعے سے یا تو بےدخل تھے، خاموش کر دیے گئے، یا شہید کر دیے گئے۔

🔹 مستند حوالہ جات:

1- طبری (تاریخ الامم والملوک)

2- بلاذری (انساب الاشراف)

3- شیخ مفید (الارشاد)

4- ابن اثیر (الکامل فی التاریخ)

5- رضی الدین ابن طاؤس (اللهوف فی قتلی الطفوف)

بس ایک بار اور... پھر توبه!

بس ایک بار اور... پھر توبہ!

تحریر: سید غیور الحسنین نقوی

سوال: اگر ہمیں معلوم ہو کہ کوئی کام گناہ (حرام) ہے، اور ہم یہ سوچ کر کریں کہ "بس یہ آخری بار ہے، پھر توبہ کر لیں گے" تو کیا ہمارا گناہ اور بڑا ہو جائے گا؟

✅ جواب: جی ہاں، اگر کوئی گناہ جان بوجھ کر اور پہلے سے سوچ کر کیا جائے، تو وہ اور بھی بڑا گناہ بن جاتا ہے۔ یہ سوچنا کہ "ابھی گناہ کر لیں، بعد میں توبہ کر لیں گے" یہ شیطان کا دھوکہ ہے۔ کیا پتہ کہ ہمیں دوبارہ توبہ کا موقع ہی نہ ملے؟

جب کوئی شخص گناہ کرنے کا پلان بناتا ہے، تو اس کا مطلب ہے کہ وہ گناہ کو برا نہیں سمجھ رہا بلکہ اس سے خوش ہو رہا ہے۔ اور جو شخص دل سے گناہ کو برا نہ سمجھے، اس کی توبہ سچی نہیں ہوتی۔

🔸 مثال:

فرض کریں ایک بچہ جانتا ہے کہ جھوٹ بولنا غلط بات ہے۔ لیکن وہ سوچتا ہے: "میں صرف ایک آخری بار جھوٹ بولتا ہوں، بس اس کے بعد کبھی نہیں بولوں گا۔" اب وہ جھوٹ بولتا ہے، اور دل میں پہلے ہی یہ پلان بنایا ہوتا ہے کہ بعد میں توبہ کر لے گا۔ یہ بلکل ایسا ہے جیسے کوئی جان بوجھ کر آگ میں ہاتھ ڈالے اور کہے: "میں بعد میں پٹی باندھ لوں گا، ابھی تو ہاتھ جلنے دو!" ایسا سوچنا نہ عقلمندی ہے، نہ توبہ کی نشانی۔ کیونکہ: پہلے سے گناہ کا ارادہ کرنا، یہ دل کی سختی اور اللہ کی نافرمانی ہے۔ گناہ کرتے ہوئے "توبہ کا ارادہ" کرنا، یہ اصل توبہ نہیں، بلکہ ایک بہانہ ہے۔ زندگی کا کوئی بھروسہ نہیں، شاید توبہ کا موقع ہی نہ ملے۔

📌 نتیجہ:

سچی توبہ یہ ہے کہ انسان گناہ کو برائی سمجھے، اس پر شرمندہ ہو، اور دل سے ارادہ کرے کہ دوبارہ نہیں کرے گا۔ "آخری بار" کا بہانہ بنانا، دراصل گناہ کو چھوٹا سمجھنے کی علامت ہے جو خود ایک بڑا گناہ ہے۔

محبت كا اظهار كرو

بسم اللہ الرحمن الرحیم

💠 حدیث_روز 💠

🔻 امام صادق عليه‌السلام:

اِذا اَحْبَبْتَ رَجُلاً فَاَخْبِرْهُ بِذلِكَ فَاِنَّـهُ اَثْبَتُ لِلْمَـوَدَّةِ بَيْنَكُما۔

اردو ترجمہ:

"جب تم کسی سے محبت کرو تو اسے ضرور بتاؤ، کیونکہ ایسا کرنے سے تمہاری باہمی دوستی زیادہ پائیدار ہو جاتی ہے۔"

📚 اصول کافی، ج ۲، ص ۶۴۴

وضاحت

1- محبت کا اظہار کیوں ضروری ہے؟ جب آپ کسی کی خوبیوں، اخلاق یا کردار سے متاثر ہو کر اسے دل سے چاہیں، تو اس احساس کو چھپانے کے بجائے کھل کر بیان کرنا دونوں کے درمیان اعتماد اور خلوص کو گہرا کرتا ہے۔ مثال: جیسے کوئی دوست آپ کی مشکل وقت میں مدد کرے، اور آپ اسے بتائیں: "تمہاری دوستی میرے لیے بہت قیمتی ہے"۔

2- پائیداری کا راز: امام صادقؑ فرماتے ہیں کہ یہ عمل مودت (گہری دوستی) کو "اَثْبَتُ" (مضبوط/پائیدار) بناتا ہے، كيونكه محبت چھپانے سے شک یا دوری پیدا ہو سکتی ہے، جبکہ اظہار رشتے کو حقیقی بنیاد فراہم کرتا ہے۔

3- عملی اطلاق: یہ حکم صرف مردوں تک محدود نہیں؛ بلکہ ہر رشتے (ماں باپ، بہن بھائی، دوست، استاد) میں لاگو ہوتا ہے۔ لهذا جب بھی آپ کسی کی صلاحیت، نیکی یا حسنِ سلوک سے متاثر ہوں، اسے الفاظ یا عمل سے ضرور بتائیں۔

☑️آج کی مشق:

آج کسی ایک شخص کو بتائیں کہ "آپ کی موجودگی میری زندگی کے لیے اہم ہے"۔

•┈┈••🌷••┈┈•

*الفاظِ محبت انسان کے دل کا راستہ ہیں، جو دوسروں تک پہنچ کر گھر بنا لیتے ہیں۔*

الله تعالى کے دیدار کے تصور پر ایک تنقیدی مطالعه

اللہ تعالى کے دیدار کے تصور پر ایک تنقیدی مطالعہ

یہ مقالہ ابن تیمیہ کے تصورِ رؤیتِ الٰہی (اللہ کے دیدار) کا تفصیلی اور تنقیدی مطالعہ پیش کرتا ہے۔ ابن تیمیہ، جو سلفی مکتب فکر کے بڑے مشهور عالم ہیں، نے رؤیتِ باری تعالیٰ کو ایک مسلم عقیدہ قرار دیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کا دیدار نہ صرف آخرت میں ممکن ہے بلکہ دنیا میں بھی— اگرچہ غیرمعمولی حالات میں—ممکن ہو سکتا ہے۔ ان کے مطابق اللہ تعالیٰ کو خواب میں دیکھنا بھی ممکن ہے اور یہ بعض صالحین کو نصیب ہوا ہے۔

ابن تیمیہ کی آراء قرآن و سنت کی روشنی میں ہیں، لیکن ان کی تعبیرات میں ظاہریت غالب ہے۔ وہ نصوصِ شرعیہ کی تاویل یا مجاز سے گریز کرتے ہیں اور اس بات پر زور دیتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کو آخرت میں مومن اپنی آنکھوں سے دیکھیں گے، جیسا کہ بعض احادیث میں صراحت موجود ہے۔ وہ انکارِ رؤیت کو گمراہی قرار دیتے ہیں اور معتزلہ جیسے مکاتب فکر پر تنقید کرتے ہیں جو اللہ کے دیدار کے قائل نہیں۔

مقالہ نگار نے اس تصور پر تنقیدی نظر ڈالتے ہوئے مختلف پہلوؤں کو اجاگر کیا ہے۔ پہلا پہلو تو یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کو مخلوقات کے خواص سے متصف کرنا یا اسے مکان و جہت کا پابند سمجھنا توحید کے منافی ہو سکتا ہے۔ اگرچہ ابن تیمیہ خود تجسیم (anthropomorphism) کے قائل نہیں، لیکن ان کے بعض بیانات ایسے فہم کو جنم دیتے ہیں۔ وہ اللہ کے چہرے، ہاتھ، اور آنے جانے جیسے افعال کو بغیر کسی تاویل کے قبول کرتے ہیں، جو کہ بعض اوقات اللہ تعالیٰ کی صفات کو انسانی صفات کے مشابہ بنا دیتا ہے۔

مقالہ میں یہ نکتہ بھی اٹھایا گیا ہے کہ دنیا میں رؤیتِ الٰہی کی جو مثالیں دی گئی ہیں، وہ خواب یا غیر معمولی روحانی کیفیات پر مبنی ہیں جنہیں عام شرعی اصولوں پر پرکھنا مشکل ہے۔ نیز، دنیا میں دیدار کا امکان اس دنیا کی محدوديت اور اللہ تعالیٰ کے لامحدود ہونے میں تضاد پیدا کرتا ہے۔

ایک اور اہم پہلو مختلف مکاتبِ فکر کا تقابلی جائزہ ہے۔ معتزلہ رؤیتِ الٰہی کے سخت مخالف ہیں، کیونکہ ان کے نزدیک یہ بات اللہ کی ذات کے تنزیہی تصور کے خلاف ہے۔ اشاعرہ نے ایک درمیانی راستہ اختیار کیا ہے؛ وہ آخرت میں رؤیت کے قائل ہیں مگر دنیا میں نہیں۔ صوفیہ کی آراء متنوع ہیں، کچھ اسے روحانی مشاہدہ قرار دیتے ہیں تو کچھ حقیقی دیدار کے بھی قائل ہیں۔

تحقیق کے آخر میں مقالہ نگار اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ ابن تیمیہ کا تصورِ رؤیت اگرچہ سلفی مکتب کے مطابق ہے، لیکن اس میں بعض ایسے پہلو موجود ہیں جو متنازع اور مزید تحقیق کے متقاضی ہیں۔ ان کے دلائل اگرچہ نصوص پر مبنی ہیں، لیکن تعبیرات میں جمود اور تاویل سے انکار بعض اوقات توحید کے اساسی اصولوں سے متصادم ہو جاتا ہے۔

حضرت فاطمه معصومه(س) كى ولادت اور كمالات

حضرت فاطمه معصومه(س) كى ولادت اور كمالات

حضرت سیدہ فاطمہ بنت موسیٰ بن جعفر بن محمد بن علی بن الحسین بن علی بن ابی طالب علیہم السلام خدا کے ولی کی بیٹی، خدا کے ولی کی بہن اور خدا کے ولی کی پھوپھی ہیں جیسا کہ ان کی زیارت میں آیا ہے۔

والدہ: فاطمہ علیہا السلام امام رضا علیہ السلام کی حقیقی بہن ہیں، دونوں کی ماں ایک ہی ہے۔ ان کی والدہ ایک كنيز تھیں جنہیں "ام البنین" کے کنیت سے جانا جاتا تھا۔ ان کے متعدد نام ذکر کیے گئے ہیں جیسے نجمہ، ارویٰ، سکن، سمان، اور تکتم۔ امام موسیٰ کاظم علیہ السلام کی ملکیت میں آنے کے بعد ان کا نام "تکتم" مستحکم ہوا۔

وہ عقل اور دین میں بہترین خواتین میں سے تھیں۔ سیدہ حمیدہ مصفّٰی نے اپنے بیٹے امام کاظم علیہ السلام سے کہا: "اے میرے بیٹے! تکتم ایک كنيز ہے، میں نے اس سے بہتر كنيز نہیں دیکھی۔ مجھے یقین ہے کہ اگر اس کی اولاد ہوئی تو خدا ضرور اس کی نسل کو پاک رکھے گا۔ میں نے اسے تمہیں بخش دیا ہے، اس کے ساتھ اچھا سلوک کرنا۔"

جب فاطمہ علیہا السلام کی ولادت ہوئی تو امام کاظم علیہ السلام نے ان کا نام "طاہرہ" رکھا۔ وہ عبادت گزار اور خدا کے حضور گڑگڑانے والی تھیں۔

سیدہ فاطمہ معصومہ(س) کی زندگی:

سیدہ فاطمہ معصومہ علیہا السلام نے اپنے بھائی امام رضا علیہ السلام کے ساتھ کم از کم 20 سال گزارے۔ اگر ہم یہ مان لیں کہ ان کی ولادت 173 ہجری میں ہوئی (جیسا کہ بعض مورخین نے ترجیح دی ہے) تو امام رضا علیہ السلام کے مدینہ سے مرو (خراسان) جانے (200 ہجری) تک ان کی عمر 27 سال تھی۔ اگر ولادت 179 ہجری مان لی جائے تو عمر 21 سال تھی۔ بہر حال، انہوں نے اپنے بھائی کے سایہ میں تربیت پائی اور علم و فضیلت سیکھا۔ امام رضا علیہ السلام نے انہیں تعلیم دی، جس کی وجہ سے وہ علم و معرفت کے اعلیٰ مقام پر فائز ہوئیں۔

امام رضا علیہ السلام کے دور کی مشکلات:

اگرچہ یہ دور امام علیہ السلام کے لیے آسان نہیں تھا، خاندانی تنازعات (بعض بھائیوں اور رشتہ داروں کی ناراضی)، "واقفیہ" فرقے کی فتنہ انگیزی (جو امام موسیٰ کاظم علیہ السلام کی غیبت کے عقیدے پر یقین رکھتے تھے)، اور حکومتی جبر،لیکن امام نے اپنی بہن کی تربیت میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔

سیدہ فاطمہ معصومہ (س)کا مقام:

امام رضا علیہ السلام نے فرمایا: "جو شخص قم میں معصومہ کی زیارت کرے، گویا اس نے میری زیارت کی۔" یہ بات ان کے بلند علمی و روحانی مقام کی دلیل ہے۔ ان کی عصمت (معصومیت) کا تصور بھی ان کے علم کی گہرائی کو ظاہر کرتا ہے، کیونکہ عصمت علم و معرفت کے بغیر ممکن نہیں۔ ان کے جدّ امام جعفر صادق علیہ السلام نے بھی فرمایا کہ ان کی شفاعت تمام شیعوں کو جنت میں داخل کرے گی۔

اگرچہ تاریخی مصادر میں ان کی تعلیمات کے تفصیلی واقعات کم ملتے ہیں، لیکن ان کے مقام کے لیے یہی کافی ہے کہ امام معصوم نے انہیں "معصومہ" کا لقب دیا اور ان کی زیارت کو اپنی زیارت کے برابر قرار دیا۔

اور اس کی تائید میں علامہ شیخ علی اکبر مہدی پور نے ابن العرندس حلی کی کتاب "کشف اللئالی" سے ایک واقعہ نقل کیا ہے جو سید احمد مستنبط کے حوالے سے ایک فضلاء سے منسوب ہے۔ خلاصہ یہ کہ کچھ شیعہ امام موسیٰ کاظم علیہ السلام کے گھر ان سے ملنے اور سلام کرنے آئے، لیکن معلوم ہوا کہ امام سفر پر ہیں۔ ان کے پاس کچھ سوالات تھے جنہیں انہوں نے لکھ کر سیدہ فاطمہ معصومہ علیہا السلام کے حوالے کر دیا اور واپس چلے گئے۔

اگلے دن جب وہ اپنے گھر لوٹنے لگے تو امام کے گھر سے گزرے۔ دیکھا کہ امام ابھی واپس نہیں آئے۔ چونکہ انہیں جانا ضروری تھا، انہوں نے سیدہ سے اپنے سوالات واپس مانگے تاکہ کسی اور موقع پر امام کو پیش کریں۔ سیدہ فاطمہ علیہا السلام نے ان سوالات کے جوابات لکھ کر واپس کیے۔ جب لوگوں نے یہ دیکھا تو خوش ہو کر مدینہ سے نکل گئے۔ راستے میں انہیں امام کاظم علیہ السلام ملے جو مدینہ واپس آرہے تھے۔ انہوں نے واقعہ سنایا تو امام نے سوالات اور جوابات دیکھنے چاہے۔ جب امام نے جوابات پڑھے تو تین بار فرمایا: "فداها أبوها"(ان کے بابا ان پر قربان هو!)۔

یہ واقعہ سیدہ کے بلند علمی مرتبے کو ظاہر کرتا ہے۔ شیخ مہدی پور کے مطابق، یہ اس بات کی دلیل ہے کہ وہ "عالمہ غیر معلّمہ" تھیں، یعنی بغیر رسمی تعلیم کے ہی علم رکھتی تھیں۔ حالانکہ وہ اس وقت کم عمر تھیں، لیکن تاریخ نے ان سے منسوب چند روایات محفوظ کی ہیں جو ان کے علمی مقام کو ثابت کرتی ہیں۔

حدیث اور علم رجال کا تعلق:

حدیث کا علم تفسیر، فقہ، اخلاقیات، اور کلام جیسے علوم کا مجموعہ ہے۔ شیعہ علماء نے ائمہ علیہم السلام کی احادیث کو محفوظ کرنے، انہیں مرتب کرنے، اور ان کی تنقیدی تحقیق کر کے "کتب اربعہ" جیسی عظیم کتابیں تیار کیں۔ ساتھ ہی، انہوں نے "علم رجال" (راویوں کے حالات کا علم) کو فروغ دیا جس میں روایات کی سندوں اور راویوں کے حالات کو پرکھا جاتا ہے۔ اگرچہ اس علم کو "رجال" کا نام دیا گیا، لیکن یہ صرف مردوں تک محدود نہیں۔ کئی خواتین راویہ بھی تھیں جن کا ذکر معتبر کتب میں ملتا ہے، اور سیدہ فاطمہ معصومہ علیہا السلام ان میں سرفہرست ہیں۔ ان سے بڑے بڑے علماء نے روایات نقل کی ہیں، جو ان کے علمی مقام کی واضح دلیل ہے۔

سیدہ فاطمہ معصومہ علیہا السلام کا علمی مقام صرف روایات تک محدود نہیں، بلکہ ان کی شخصیت اماموں کے گھرانے کی تربیت، عصمت، اور خدا کی خاص عنایت کی عکاس ہے۔ امام رضا علیہ السلام کا ان کی زیارت کو اپنی زیارت کے برابر قرار دینا ان کے روحانی عظمت کو مزید اجاگر کرتا ہے۔لیکن یہ بات تعجب خیز ہے کہ ہمیں اس جلیل القدر اور عظیم محدثہ خاتون کا ترجمہ ان معاجم میں نہیں ملتا جو راویوں کے ناموں کو ضبط کرنے کے لیے مشہور ہیں۔ اسی لیے شیخ النمازی نے اپنی کتاب "مستدرکات" میں ان کا ذکر کرتے ہوئے صرف ان مقامات کی طرف اشارہ کیا ہے جہاں ان کا تذکرہ کتاب "بحار الانوار" میں آیا ہے۔ حالانکہ ان معاجم کے مصنفین نے ان سے کم شہرت اور کم روایت کرنے والی خواتین کا ذکر کیا ہے۔ ہم سمجھ نہیں پاتے کہ اس کی کیا وجہ ہو سکتی ہے! بہرحال، یہ جلیل القدر خاتون محدثات میں سے تھیں، اور ان کا ذکر شیعہ کے علاوہ اہل سنت کے اسناد میں بھی آیا ہے۔ مثال کے طور پر، امام جعفر بن احمد القمی کی کتاب "المسلسلات" میں ایک روایت ان الفاظ کے ساتھ نقل ہوئی ہے:

"ہمیں محمد بن علی بن الحسین نے حدیث بیان کی، انہوں نے کہا کہ مجھے احمد بن زیاد نے حدیث سنائی، انہوں نے کہا کہ مجھے ابو القاسم جعفر بن محمد العلوی العریضی نے حدیث سنائی، انہوں نے کہا کہ ابو عبد اللہ احمد بن محمد بن خلیل نے کہا کہ مجھے علی بن محمد بن جعفر الاہوازی نے خبر دی، انہوں نے کہا کہ مجھے بکیر بن احنف نے حدیث سنائی، انہوں نے کہا کہ ہمیں فاطمہ بنت علی بن موسی الرضا علیہ السلام نے حدیث سنائی، انہوں نے کہا کہ مجھے فاطمہ، زینب اور ام کلثوم (موسی بن جعفر علیہما السلام کی بیٹیوں) نے حدیث سنائی، انہوں نے کہا کہ ہمیں فاطمہ بنت جعفر بن محمد علیہ السلام نے حدیث سنائی، انہوں نے کہا کہ مجھے فاطمہ بنت محمد بن علی علیہ السلام نے حدیث سنائی، انہوں نے کہا کہ مجھے فاطمہ بنت علی بن الحسین علیہ السلام نے حدیث سنائی، انہوں نے کہا کہ مجھے فاطمہ اور سکینہ (حسین بن علی علیہ السلام کی بیٹیوں) نے حدیث سنائی، انہوں نے ام کلثوم بنت علی علیہ السلام سے روایت کی، انہوں نے فاطمہ بنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کی کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا:

"جب مجھے معراج ہوئی اور میں جنت میں داخل ہوا تو میں نے ایک سفید موتی کا محفوظ محل دیکھا، جس کے دروازے پر یاقوت اور موتی جڑے ہوئے تھے اور دروازے پر ایک پردہ تھا۔ میں نے سر اٹھایا تو دروازے پر لکھا ہوا دیکھا: 'لا الہ الا اللہ، محمد رسول اللہ، علی ولی الله'، اور پردے پر لکھا تھا: 'بخ بخ، شیعہ علی علیہ السلام جیسے لوگوں کے لیے!' پھر میں اس میں داخل ہوا تو ایک سرخ عقیق کا محل دیکھا، جس پر چاندی کا دروازہ تھا جس پر زبرجد جڑا ہوا تھا، اور دروازے پر ایک پردہ تھا۔ میں نے سر اٹھایا تو دروازے پر لکھا ہوا تھا: 'محمد رسول اللہ، علی وصی المصطفی'، اور پردے پر لکھا تھا: 'شیعہ علی کو خوشخبری ہو، ان کی پیدائش پاکیزہ ہے۔' پھر میں اس میں داخل ہوا تو ایک سبز زمرد کا محل دیکھا، جو نہایت خوبصورت تھا، اس پر سرخ یاقوت کا دروازہ تھا جس پر موتی جڑے ہوئے تھے، اور دروازے پر ایک پردہ تھا۔ میں نے سر اٹھایا تو پردے پر لکھا ہوا تھا: 'شیعہ علی ہی فلاح پانے والے ہیں۔' میں نے پوچھا: 'اے میرے محبوب جبرائیل! یہ کس کے لیے ہے؟' تو انہوں نے کہا: 'اے محمد! یہ آپ کے چچا زاد اور وصی علی بن ابی طالب (علیہ السلام) کے لیے ہے۔ قیامت کے دن تمام لوگ ننگے پاؤں اور ننگے بدن اٹھائے جائیں گے، سوائے شیعيان علی (علیہ السلام) کے۔ اور تمام لوگوں کو ان کی ماؤں کے نام سے پکارا جائے گا، سوائے شیعہ علی (علیہ السلام) کے، جنہیں ان کے باپوں کے نام سے پکارا جائے گا۔' میں نے پوچھا: 'اے جبرائیل! یہ کیسے ہوگا؟' تو انہوں نے کہا: 'کیونکہ انہوں نے علی (علیہ السلام) سے محبت کی، اس لیے ان کی پیدائش پاکیزہ ہوئی۔'"

اسی طرح محمد جزری نے اپنی کتاب "اسنی المطالب" میں علی بن محمد بن جعفر الاہوازی کے طریقے سے بکر بن احمد القصری کے ذریعے "الفواطم" (فاطمی خواتین) سے روایت کی ہے کہ فاطمہ بنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

"کیا تم لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ فرمان بھول گئے جو آپ نے غدیر خم کے دن فرمایا تھا: 'جس کا میں مولا ہوں، اس کا علی مولا ہے'؟ اور آپ کا یہ فرمان: 'تم میرے لیے وہی مقام رکھتے ہو جو ہارون (علیہ السلام) کا موسیٰ (علیہ السلام) کے لیے تھا'؟"

اس قسم کے اسناد کو "مسلسل" کہا جاتا ہے، جو حدیث کی حفاظت کا ایک خاص طریقہ ہے۔ اس میں راویوں کے تسلسل پر خصوصی توجہ دی جاتی ہے، جیسے ہر راوی کہتا ہے: "میں نے فلاں سے سنا، وہ کہہ رہا تھا کہ میں نے فلاں سے سنا..." یا "ہمیں فلاں نے اللہ کی قسم دے کر بیان کیا..." وغیرہ۔ محقق داماد نے اس کی تعریف کرتے ہوئے اس کی 15 سے زیادہ اقسام بیان کی ہیں۔ مذکورہ بالا دو اسناد میں ایک اضافی خصوصیت یہ بھی ہے کہ ہر فاطمہ اپنی پھوپھی سے روایت کر رہی ہے، یعنی یہ پانچ بہنیں ایک دوسرے سے روایت کرتی ہیں۔

مختصر یہ کہ یہ جلیل القدر خاتون (فاطمہ معصومہ علیہا السلام) نے علم و معرفت کا بڑا حصہ حاصل کیا، جو انہیں خالص سرچشموں سے ملا، یہاں تک کہ وہ بلند مقام تک پہنچ گئیں، اگرچہ ہم تک ان کی بہت سی روایات نہیں پہنچی ہیں۔

ماخذ:شبکہ المعارف الاسلامیہ

امام رضا عليه السلام کو غریب الغرباء کیوں کها جاتا ہے؟

امام رضا عليه السلام کو غریب الغرباء کیوں کها جاتا ہے؟

بہت سے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ امام رضا علیہ السلام کو "امام غریب" یا "غریب الغرباء" اس لیے کہا جاتا ہے کیونکہ آپ اپنے وطن اصلی یعنی مدینہ منورہ سے دور تھے۔ لیکن اگر اس معنی کو دیکھا جائے تو پھر امیر المؤمنین علی علیہ السلام بھی کوفہ میں غریب تھے، اسی طرح امام حسین علیہ السلام، امام موسیٰ بن جعفر علیہ السلام، امام جواد علیہ السلام اور امام عسکریین علیہما السلام بھی غریب تھے۔ لیکن امام رضا علیہ السلام کی غربت ایک خاص قسم کی تھی، اسی لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان "بضعة مني" صرف حضرت فاطمہ الزہرا سلام اللہ علیہا اور امام رضا علیہ السلام کے لیے آیا ہے۔ اگر ایک مخلص شیعہ امام رضا علیہ السلام کی غربت کو سمجھ لے تو اس کا دل ٹکڑے ٹکڑے ہو جائے گا!

آپ کی غربت کئی پہلوؤں سے تھی:

1- وطن سے دوری کی غربت

2- اپنے ہی خاندان میں غربت، کیونکہ بعض نے آپ کو شدید تکلیف پہنچائی۔

3- اپنے والد کے اصحاب میں غربت، کیونکہ بہت سے لوگوں نے آپ کے ساتھ خیانت کی۔

4- مأمون کے محل میں غربت، جو ظاہر میں محل تھا لیکن باطن میں ایک جیل تھی اور جبری قیام گاہ۔

5- اپنی قوم میں غربت، کیونکہ انہوں نے آپ کو تکلیف دی اور آپ پر بہتان لگایا۔

6- مأمون کی فتنہ انگیزیوں میں غربت۔

7- اپنے خاندان کو تباہ ہوتے دیکھنے کی غربت، جیسے حضرت فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیہا اور دیگر، لیکن آپ انہیں خبردار نہ کر سکتے تھے۔

# ایک واقعہ:

جب حرم رضوی میں ابھی دیواریں اور دروازے نہیں لگے تھے۔ ایک ایرانی انجینئر کام کی نگرانی کر رہا تھا کہ شیخ بہائی نے اس سے کہا: "جب تم دیواریں بنا لو تو دروازے نہ لگانا، جب تک میں تمہیں حکم نہ دوں۔" انجینئر نے کہا: "جی مولانا!" لیکن پہلی رات ہی اس نے خواب میں امام رضا علیہ السلام کو دیکھا، جو فرما رہے تھے: "دروازے لگا دو۔" جب وہ بیدار ہوا تو اس نے سوچا کہ یہ صرف ایک خواب ہے، کیونکہ شیخ نے انتظار کرنے کو کہا تھا۔ دوسری رات پھر یہی خواب دیکھا، لیکن امام علیہ السلام نے سختی سے فرمایا۔ تیسری رات امام نے اور بھی سختی سے حکم دیا، تو اس نے سوچا کہ یہ صرف خواب نہیں بلکہ حکم ہے۔ چنانچہ اس نے دروازے لگوا دیے۔

کچھ دن بعد شیخ بہائی آئے اور غصے سے پوچھا: "کیا میں نے تمہیں دروازے نہ لگانے کو نہیں کہا تھا؟" انجینئر نے بتایا کہ امام علیہ السلام نے تین بار خواب میں حکم دیا، تو مجھے یقین ہو گیا کہ یہ آپ کا حکم ہے۔ یہ سن کر شیخ بہائی رونے لگے۔ انجینئر نے پوچھا: "مولانا، آپ کیوں رو رہے ہیں؟" شیخ نے جواب دیا: "یہ واقعی رحمت کے دروازے ہیں اور امت کی نجات کا ذریعہ۔ میں نے سوچا تھا کہ ہر دروازے پر ایسی حفاظتی علامتیں لگاؤں کہ جو شخص بھی گناہگار ہو، وہ اندر نہ جا سکے۔ لیکن امام علیہ السلام نے فرمایا: 'یہ لوگ بے بس ہو کر ہماری پناہ میں آتے ہیں، اگر ہم انہیں واپس کر دیں گے تو پھر وہ کہاں جائیں گے؟"

السلام علیک یا ضامن الجنان یا علی بن موسی الرضا!

اللہ تعالیٰ ہمیں اور آپ کو دنیا میں آپ عليه السلام کی زیارت اور آخرت میں آپ کی شفاعت نصیب فرمائے۔ الهي آمين.

حواله: https://forums.alkafeel.net/node/95266

علم جفر کیا ہے؟

علم جفر کیا ہے؟

علم جفر یا علم الحروف وہ علم ہے جس کے ذریعے تمام حوادث عالم کو قیامت تک معلوم کیا جا سکتا ہے، اور اس علم کی مکمل اور درست صورت صرف ائمہ معصومینؑ کے پاس موجود ہے۔

شیخ الطریحی نے مجمع البحرین میں لکھا ہے کہ علم جفر اور علم جامعہ دو کتابیں ہیں، جنہیں حضرت علیؑ نے رسول اکرمﷺ کے املا (بول کر لکھوانے) کے ذریعے تحریر فرمایا۔ ان کتابوں میں تمام علوم اور قیامت تک کے تمام واقعات درج ہیں۔ تمام ائمہ معصومینؑ علم جفر سے واقف ہیں، اسے دیکھ کر اس کے ذریعے فیصلے کرتے ہیں۔

ائمہ علیہم السلام سے منقول روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ علم جفر الٰہی معارف کا ایک مجموعہ ہے، جو رسول اللہﷺ کے ذریعے حضرت علیؑ کو منتقل ہوا، اور پھر ان کے بعد یہ علم باقی ائمہ کو عطا ہوا۔ اس علم کا ایک حصہ قیامت تک کے تمام واقعات پر مشتمل ہے، جسے علم منایا و بلایا (یعنی موت اور مصیبتوں کا علم) بھی کہا جاتا ہے۔

جفر کا اجمالی مفہوم

تفصیلی وضاحت بعد میں کی جائے گی، لیکن یہاں ذہنی تیاری کے لیے اجمالاً بیان کیا جا رہا ہے کہ جفر کا مطلب ہے جنگلی مینڈھے (قوچ) کی کھال، جس میں تمام انبیاء کی کتابیں اور وہ کتب محفوظ ہیں جو رسول اللہﷺ کے املا سے حضرت علیؑ کے دستِ مبارک سے لکھی گئی تھیں۔ فارسی میں جفر کو "انبان" اور آذری زبان میں "تغارچہ" کہا جاتا ہے۔ جب کہا جاتا ہے کہ حضرت علیؑ علم جفر کے عالم تھے، تو اس کا مطلب یہ ہے کہ حضرت علیؑ اور ان کی معصوم اولاد کو اس "انبان" میں موجود کتابوں کے تمام علوم کا علم حاصل تھا۔

اب تک 12 کتابیں ایسی منظر عام پر آ چکی ہیں، جنہیں جفر کے عنوان سے پہچانا جاتا ہے۔ ان میں سے بیشتر انتہائی پیچیدہ جداول (چارٹ) پر مشتمل ہیں اور ہر ایک کو جفر سمجھا جاتا ہے۔ تاہم، یہ بات یقینی ہے کہ ان کتابوں کا جفر علیؑ سے کوئی تعلق نہیں۔ اگرچہ کچھ جداول میں ایسے راز پوشیدہ ہو سکتے ہیں جو جفر کے اصل علوم سے متعلق ہوں، لیکن ان کتابوں کا جفر ہونا یقینی نہیں ہے۔ اصل جفر اس وقت امام زمانہ (عج) کے پاس موجود ہے۔

یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ علم الحروف اور علم الاعداد دو اور علوم ہیں، جن سے بعض لوگ واقف ہیں۔ ان علوم کے ذریعے وہ یہاں تک معلوم کر لیتے ہیں کہ کسی شخص کا فون نمبر کیا ہے، مگر یہ علوم علم جفر نہیں ہیں۔

اہل بیت (علیہم السلام) کے نزدیک جفر کی حیثیت

امام صادق (علیہ السلام) نے فرمایا: "ہمارے گھر میں ایک ایسا مجموعہ موجود ہے کہ جس کی موجودگی میں ہم اہل بیت (علیہم السلام) کو کسی بھی انسان کی ضرورت نہیں ہے۔ یہ دنیا والے ہی ہیں جو اس مجموعے کی بنا پر ہم اہل بیت (علیہم السلام) کے سخت محتاج ہیں۔ اس مجموعے میں ایک ایسی کتاب بھی ہے جو خود حضرت محمد مصطفیٰ (صلی اللہ علیہ وآلہ) کے املا سے اور حضرت علی (علیہ السلام) کے دستِ مبارک کے خط سے لکھی گئی ہے۔ اس کتاب میں ایک صحیفہ موجود ہے، جس میں تمام حلال و حرام کے مسائل بیان کیے گئے ہیں اور ان امور کو اس قدر واضح کر دیا گیا ہے کہ جب تم اصحاب ہمارے گھر میں داخل ہوتے ہو تو بغیر اس کے کہ کچھ کہو، ہم اہل بیت (علیہم السلام) جان لیتے ہیں کہ تم نے اس کے کس حکم پر عمل کیا ہے اور کس پر نہیں!"

جفر؛ ایک حفاظتی کتاب

امام صادق (علیہ السلام) نے ایک اور روایت میں فرمایا:

"اگر تم نے پہلے ہی کچھ باتوں کو فاش نہ کیا ہوتا، تو ہم تمہیں ایک ایسی کتاب دیتے کہ اس کی برکت سے تم قیامِ امامِ عصر (علیہ السلام) تک کسی کے بھی محتاج نہ ہوتے اور کسی سے کسی مسئلے کے بارے میں سوال نہ کرتے۔"

روایات کا خلاصہ

اہل بیت (علیہم السلام) کی روایات میں علمِ جفر کے متعلق بہت زیادہ بیانات ملتے ہیں اور ان کا مفہوم ایک دوسرے کے قریب ہے۔ درج بالا روایات ان میں سے چند نمونے ہیں۔ ان روایات سے درج ذیل نکات اخذ کیے جا سکتے ہیں:

جفر کی دو اقسام ہیں:

جفرِ احمر: اس سے مراد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ) کے اسلحہ جات ہیں جو امام کی نشانیوں میں شامل ہیں اور اس وقت حضرت مہدی (عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف) کے پاس محفوظ ہیں۔ بعض روایات میں آیا ہے کہ آخر الزمان میں اس اسلحے سے معجزہ نما امور ظاہر ہوں گے۔

جفرِ ابیض: یہ چمڑے پر تحریر کردہ ایک صحیفہ ہے جو امامت کی نشانیوں میں سے ہے۔

روایات سے واضح ہوتا ہے کہ علمِ جفر نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت علی (علیہ السلام) کو سکھایا اور یہ علم صرف اہل بیت (علیہم السلام) کی میراث ہے۔ تحقیق سے معلوم ہوتا ہے کہ کسی روایت میں یہ ذکر نہیں ملتا کہ اہل بیت (علیہم السلام) نے یہ علم کسی غیر معصوم کو سکھایا ہو، بلکہ بعض مقامات پر اس بات کی صراحت کی گئی ہے کہ یہ علم صرف انبیاء اور اوصیاء کے لیے مخصوص ہے۔ اس کے علاوہ، اہل بیت (علیہم السلام) نے بعض مواقع پر اپنے پاس علمِ جفر ہونے کو اپنی امامت کی دلیل بھی قرار دیا ہے۔ لہٰذا، جو لوگ علمِ جفر کے دعوے دار ہیں، ان کے پاس یا تو جفر کا حقیقی علم نہیں یا اگر کچھ ہے تو وہ ناقص ہے۔ بعض عرفا نے بھی اس حقیقت کا اعتراف کیا ہے۔

روایات کے مطابق، علمِ جفر میں سابقہ تمام آسمانی کتابوں کے معارف، اسلامی احکام اور قیامت تک پیش آنے والے تمام واقعات پوشیدہ ہیں، لیکن اس میں کوئی قرآنی آیت نہیں ہے۔ چونکہ قرآن کریم خود ہر چیز کو واضح کرنے والا ہے، جیسا کہ فرمایا: "اور ہم نے تم پر کتاب نازل کی جو ہر چیز کو واضح کرنے والی ہے..." (النحل: 89)

اس سے یہ نتیجہ نکالا جا سکتا ہے کہ علمِ جفر درحقیقت قرآن کریم کی تاویل کا علم ہے۔ بعض عرفا نے بھی اس نکتے کی طرف اشارہ کیا ہے، جس کی تفصیل اپنی جگہ پر بیان کی جائے گی۔ اور چونکہ قرآن کی مکمل تاویل کا علم صرف امام معصوم (علیہ السلام) کے پاس ہوتا ہے، جو کہ علم میں راسخ ہیں، اس لیے فرمایا گیا:

"اور اس (قرآن) کی تاویل کو اللہ اور وہ لوگ جانتے ہیں جو علم میں راسخ ہیں..." (آل عمران: 7)

نماز شب

نماز شب

نماز شب پڑھنے کی توفیق حاصل کرنے کے لیے روایات میں کچھ طریقے بیان کیے گئے ہیں:

1- گناہوں کو ترک کرنا:

ایک شخص نے امیر المؤمنین حضرت علی عليه السلام سے عرض کیا کہ وہ نماز شب سے محروم ہے۔ آپ نے فرمایا کہ تمہارے گناہ تمہیں شب بیداری سے روک رہے ہیں: "أنت رجل قد قيّدتك ذنوبك"۔(۱)

2- صدق دل سے ارادہ کرنا:

امام باقر عليه السلام نے فرمایا کہ اگر کوئی شخص سوتے وقت صدق دل سے ارادہ کرے کہ ایک خاص وقت پر اٹھے گا، تو اللہ تعالیٰ دو فرشتوں کو مقرر کرتا ہے کہ وہ اسے مقررہ وقت پر جگا دیں: "ما نوی عبد أن يقوم أيّة ساعة نوي، فعلم الله تبارك و تعالي ذلك منه، إلاّ وكّل به ملكين يحرّكانه تلك الساعة"۔(2)

ایک اور روایت میں امام صادق عليه السلام نے فرمایا کہ اگر کوئی شخص سوتے وقت سورہ کہف کی آخری آیت پڑھے، تو وہ جس وقت چاہے بیدار ہو جائے گا: "ما من عبد يقرأ آخر الكهف حين ينام إلاّ استيقظ من منامه فی الساعة التي يريد"۔(3)

[۱ ] تهذیب الاحکام، ج۲، ص۳۶۰

[۲ ] من لايحضره الفقيه، ج۱، ص۴۷۹

[۳] من لايحضره الفقيه، ج۱، ص۴۷۱

تسنیم، ج۱۳، ص۳۷۱ - ۳۷۵

استغفار

🌼 لمحہ فکریہ🔔

میں نے اپنا لیپ ٹاپ آن کیا اور انٹرنیٹ کی گلیوں میں کھو گیا...😊

کچھ گلیوں میں گھومتے ہوئے اچانک دیکھا کہ اینٹی وائرس کی گھنٹی بجنے لگی؛

میں سمجھ گیا کہ وائرس نے حملہ کر دیا ہے۔😕

جلدی سے وائرس کو ختم کیا تاکہ میرے سسٹم کو کوئی نقصان نہ پہنچے...

جب میرا کام ختم ہوا تو میں خود پر ہنس پڑا

"یہ وہ ہنسی تھی... جو تلخ تھی،

اور غمگین آنسوؤں سے بھی زیادہ دردناک تھی"!😔

میں نے اپنے آپ سے کہا: کاش جتنا خیال

تم اپنے لیپ ٹاپ کا رکھتے ہو، اتنا ہی خیال اپنا بھی رکھتے۔😓

کاش جب تم گناہ کرتے ہو اور تمہارے دل کی گھنٹی

بجنے لگتی ہے کہ: خطرہ.. خطرہ..!!😔

مجھے اپنے آپ پر ترس آیا...!!😓

مجھے اب سمجھ آیا کہ بہت عرصے سے گناہوں نے،

میرے دل کے اینٹی وائرس کو بھی ختم کر دیا ہے۔😔

نمی‌دانم_کیا_کہوں

لیکن خوش نصیب ہیں وہ لوگ جن کے دل کا اینٹی وائرس

اصل ہے اور وہ ہر روز خدا سے جڑ کر

اسے اپ ڈیٹ کرتے ہیں...🌹

خوشبخت ہیں وہ لوگ جو ہر رات

اپنے اعمال کا جائزہ لیتے ہیں اور اگر کوئی گناہ

ان کے دل میں داخل ہو جائے تو وہ اینٹی وائرس

(استغفار)کے ساتھ اسے ختم کر دیتے ہیں۔🚫

✅میں نے ایک اینٹی وائرس خریدا ہے جس کا نام ہے استغفار

دل سے کہا:

استغفرالله ربی و أتوب علیه✨

خدا اور کائنات کی خلقت

خدا اور کائنات کی خلقت

اگر خدا خود غیر مادی ہے اور مادہ (میٹر) موجود نہیں تھا، تو خدا نے مادی جہان کو کیسے تخلیق کیا؟ یہ ایک گہرا فلسفیانہ اور کلامی سوال ہے جس پر صدیوں سے مفکرین، فلاسفہ، اور علمائے کرام بحث کرتے آئے ہیں۔ اس کا جواب مختلف نظریاتی اور مذہبی نقطہ نظر سے دیا جا سکتا ہے۔

1-تخلیق (ex nihilo ) لاشیء سے تخلیق

اسلام، مسيحيت اور یہودیت میں عمومی طور پر یہ عقیدہ پایا جاتا ہے کہ خدا نے کائنات کو "عدم سے پیدا کیا" (ex nihilo) یعنی بغیر کسی پہلے سے موجود مواد کے۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: "إِنَّمَا أَمْرُهُ إِذَا أَرَادَ شَيْئًا أَنْ يَقُولَ لَهُ كُنْ فَيَكُونُ"(سورۃ یٰسین: 82) "بے شک اس کا حکم یہی ہوتا ہے کہ جب وہ کسی چیز کا ارادہ کرتا ہے تو اسے کہتا ہے: ’ہو جا‘، تو وہ ہو جاتی ہے۔"

یہ تصور یہ واضح کرتا ہے کہ خدا کسی مادی وسیلے کا محتاج نہیں، بلکہ اس کی قدرت محض اس کے حکم اور ارادے سے چیزوں کو وجود میں لے آتی ہے۔

2- خدا کی صفتِ تخلیق اور علت و معلول کا قانون

فلسفہ میں ایک بحث "علت و معلول" (Cause and Effect) کی ہے، جس کے مطابق ہر چیز کی کوئی نہ کوئی وجہ ہوتی ہے۔ خدا خود واجب الوجود ہے، یعنی اس کا وجود اپنی ذات سے ہے اور وہ کسی اور چیز کا محتاج نہیں۔ چونکہ وہ لامحدود قدرت کا حامل ہے، اس لیے وہ بغیر کسی پہلے سے موجود مواد کے کسی بھی چیز کو پیدا کر سکتا ہے۔

3- جدید سائنسی زاویہ: بگ بینگ اور خلا (Quantum Fluctuations)

سائنس میں بگ بینگ تھیوری کے مطابق، کائنات ایک انتہائی چھوٹے نقطے (Singularity) سے وجود میں آئی، جس سے وقت، جگہ اور مادہ سب نے جنم لیا۔ کوانٹم فزکس میں ایک نظریہ یہ بھی ہے کہ خالی خلا میں بھی Quantum Fluctuations کے ذریعے ذرات خودبخود پیدا ہو سکتے ہیں اور ختم ہو سکتے ہیں۔

اگر طبیعیاتی قوانین خلا سے ذرات پیدا کر سکتے ہیں، تو خدا کی قدرت اس سے کہیں عظیم تر ہے، اور وہ عدم سے بھی تخلیق کر سکتا ہے۔

4- خدا مادی نہیں، مگر وہ مادے کو پیدا کر سکتا ہے

یہ ضروری نہیں کہ جو چیز مادی نہ ہو، وہ مادی چیزوں کو پیدا نہ کر سکے۔ مثال: ہمارا "ارادہ" اور "سوچ" غیر مادی ہیں، مگر وہ مادی اثرات ڈال سکتے ہیں، جیسے انسان کا ایک خیال کسی عمارت یا مشین کے بننے کی بنیاد بن سکتا ہے۔ اسی طرح، خدا کی قدرت، جو غیر مادی ہے، مادی چیزوں کو پیدا کر سکتی ہے۔

نتیجہ

خدا چونکہ لامحدود قدرت اور علم کا مالک ہے، اس لیے وہ بغیر کسی پہلے سے موجود مواد کے بھی کائنات کو وجود میں لا سکتا ہے۔ تخلیق ex nihilo کا تصور فلسفیانہ اور سائنسی دونوں زاویوں سے قابل فہم ہے، اور قرآن میں بھی اس کی تصدیق ہوتی ہے۔

محبت

محبت

محبت ایک ایسا جذبہ ہے جو انسانی زندگی کو گہرائی اور خوبصورتی عطا کرتا ہے۔ یہ ایک ایسا احساس ہے جو دلوں کو جوڑتا، تعلقات کو مضبوط بناتا اور زندگی کو ایک خاص معنی دیتا ہے۔ محبت کا دائرہ بہت وسیع ہے؛ یہ والدین کی شفقت، دوستوں کی مخلصی، شریک حیات کی قربت اور اللہ کی عبادت جیسے مختلف پہلوؤں میں نظر آتی ہے۔

محبت کی تعریف
محبت ایک ایسا جذبہ ہے جو کسی شخص یا شے کے لیے دل کی گہرائیوں سے لگاؤ کا باعث بنتا ہے۔ یہ الفاظ سے بیان کرنا مشکل ہے، لیکن یہ وہ احساس ہے جو دل کو سکون، خوشی اور مسرت فراہم کرتا ہے۔

محبت کی اقسام
محبت مختلف اقسام اور شکلوں میں ظاہر ہوتی ہے:

الہی محبت: یہ محبت انسان کے خالق سے ہوتی ہے جو روحانی سکون اور زندگی کا مقصد عطا کرتی ہے۔

والدین کی محبت: یہ خالص اور بے لوث ہوتی ہے جو ہمیشہ اولاد کی بھلائی چاہتی ہے۔

دوست کی محبت: یہ تعلق خلوص، اعتماد اور مدد پر مبنی ہوتا ہے۔

انسانی محبت: یہ محبت تمام انسانوں سے ہمدردی، مدد اور احترام کا درس دیتی ہے۔

محبت کی اہمیت
محبت زندگی کا سب سے طاقتور اور مثبت جذبہ ہے۔ یہ دلوں کو سکون دیتا، دکھوں کو کم کرتا اور مشکلات میں سہارا فراہم کرتا ہے۔ محبت انسانوں کو ایک دوسرے کے قریب لاتی ہے اور معاشرے میں امن و سکون پیدا کرتی ہے۔ محبت کے بغیر زندگی ویران اور بے مقصد محسوس ہوتی ہے۔

محبت کے اثرات
محبت انسان کی شخصیت پر گہرے اثرات ڈالتی ہے:
یہ دل کو نرم اور مہربان بناتی ہے۔
اختلافات کو ختم کرکے اتحاد اور یگانگت پیدا کرتی ہے۔
ذہنی سکون اور خوشی فراہم کرتی ہے۔
انسان کو دوسروں کی مدد اور خیرخواہی کی ترغیب دیتی ہے۔

محبت ایک نعمت ہے جو دلوں کو جوڑنے اور زندگی کو خوبصورت بنانے کی طاقت رکھتی ہے۔ یہ ایک ایسا جذبہ ہے جس کا اظہار کرنے سے نہ صرف انسان خود خوش ہوتا ہے بلکہ دوسروں کی زندگی میں بھی خوشی اور سکون لاتا ہے۔ ہمیں محبت کو زندگی کا حصہ بناتے ہوئے دوسروں کے ساتھ ہمدردی، احترام اور خلوص کا برتاؤ کرنا چاہیے تاکہ ایک پرامن اور خوشحال معاشرہ تشکیل دیا جا سکے۔

نماز

✳ نماز کی طرف ہر قدم صدقہ ہے!

🔻 [پیغمبر اکرم (ص) ابوذرؓ سے فرماتے ہیں:]
«یا اباذر! ... کلّ خطوة تخطوها إلی الصُّلاة صدقة.»
جو بھی قدم تم نماز کی طرف اٹھاتے ہو، وہ ایک صدقہ ہے۔ یہ بات نماز کی اہمیت کو ظاہر کرتی ہے۔ شریعتِ مقدس نے نماز کے لیے کتنا بڑا مقام مقرر کیا ہے! حقیقتاً نماز تمام بھلائیوں کی چابی اور تمام نیکیوں کی بنیاد ہے۔ جتنا زیادہ انسان نماز کے معاملے میں غور کرے، اتنا ہی اس کی اہمیت کو بہتر طور پر سمجھ سکتا ہے۔

نماز ہی ہمارے دلوں کو زندہ رکھتی ہے، نماز ہی ہمیں صراط مستقیم پر قائم رکھتی ہے، نماز ہی ہمیں غفلت کی دلدل میں گرنے سے بچاتی ہے۔ نماز ہی ہمیں قوت، خوشی، اور توکل عطا کرتی ہے۔ نماز کی اقامت پر جو زور دیا گیا ہے، اس کی وجہ یہی ہے۔

👤 مقام معظم رہبری
📚 کتاب: گزیدہ احادیثِ مکارم الاخلاق
📖 صفحات: ۲۳۷ اور ۲۳۸
#⃣ سلوک

دینداری کی علت کیا ہے؟

دینداری کی علت کیا ہے؟

دینداری اور خدا پرستی کے محرکات کے بارے میں مختلف نظریات پیش کیے گئے ہیں:

فریڈرک اینگلز (ایک مادہ پرست فلسفی) کا کہنا ہے کہ دین انسان کی محدود اور ناقص عقل کی پیداوار ہے۔

اگست کومٹ، جنہیں عمرانیات (سوشیالوجی) کے بانی کے طور پر جانا جاتا ہے، کا نظریہ ہے کہ مذہب کی جڑ اور محرک انسان کی قدرتی اسباب سے لاعلمی ہے۔


جواب:

خدا پرست یہ نہیں مانتے کہ قدیم زمانے میں انسان قدرتی اسباب سے بے خبر نہیں تھا، اور یہ بھی تسلیم کرتے ہیں کہ علم اور سائنس کی ترقی نے بہت سے رازوں سے پردہ اٹھایا ہے۔
تاہم، خدا پرستوں کا یہ مؤقف ہے کہ نہ تو سابقہ جہالت دینداری کی وجہ تھی اور نہ ہی موجودہ علم دینداری کے لیے رکاوٹ بن سکتا ہے۔

خدا پرستوں کا یقین ہے کہ تمام مادی اور محسوس عوامل کے پیچھے ایک مطلق اور قادر ہستی ہے، جو ہر چیز کا سرچشمہ ہے اور تمام اسباب اور عوامل اسی سے وجود پاتے ہیں۔

مزید تفصیلات کے لیے:

آیت اللہ بروجردی کی کتاب درس‌هایی از توحید کے دوسرے اور تیسرے مباحث کا مطالعہ کریں۔

حضرت اُمُّ البنین عليها السلام

حضرت اُمُّ البنین سلام اللہ علیہا

تحرير: سيد غيور الحسنين

حضرت ام البنین سلام اللہ علیہا تاریخ اسلام کی ان عظیم خواتین میں سے ہیں جن کے چار فرزندوں نے واقعہ کربلا میں اسلام پر اپنی جانیں نچھاور کیں۔ ام البنین یعنی بیٹوں کی ماں، آپ کے چار شجاع و بہادر بیٹے عباس، جعفر، عبد اللہ اور عثمان تھے حضرت علی بن ابی طالب عليه السلام کے شجاع و بہادر بچے امام حسین علیہ السلام کی نصرت و مدد کرتے ہوئے کربلا میں شہادت کے درجے پر فائز ہوگئے۔

حضرت اُمُّ البنین سلام اللہ علیہا، جن کا اصل نام فاطمہ بنت حزام بن خالد تھا، اسلامی تاریخ میں ایک عظیم المرتبت شخصیت کے طور پر معروف ہیں۔ آپ حضرت علی علیہ السلام کی زوجہ محترمہ اور حضرت عباس علیہ السلام سمیت چار جری بیٹوں کی والدہ ہیں، جو کربلا کے واقعہ میں اپنی وفاداری اور قربانیوں کی وجہ سے مشہور ہیں۔

جناب عقیل نے حضرت ام البنین کے گھرانے(بنو کلاب قبیلے) کے بارے میں بتایا کہ پورے عرب میں ان کے آباؤ و اجداد سے زيادہ بہادر کوئی نہ تھا اور شجاعت، اور ادبی خوبیوں میں معروف تھا۔ امام علی علیہ السلام نے اس تجویز کو قبول کرلیا اور عقیل کو رشتہ لے کر جناب ام البنین کے والد "حزام بن خالد" کے پاس بھیجا ان کے والد اس مبارک رشتے سے بہت زيادہ خوش ہوئے اور فورا ہی اپنی بیٹی کے پاس گئے اور اس سلسلے میں ان کی مرضی معلوم کرنا چاہی، ام البنین نے اس رشتے کو سربلندی و افتخار سمجھ کر قبول کرلیا اور پھر اس طرح جناب ام البنین اور حضرت علی علیہ السلام رشتہ ازدواج سے منسلک ہوگئے-

حضرت اُمُّ البنین نے اپنے چار بیٹے (حضرت عباس، عبداللہ، جعفر، اور عثمان) امام حسین علیہ السلام کی مدد کے لیے کربلا روانہ کیے۔ ان کا بیٹا، حضرت عباس علمدار علیہ السلام، کربلا میں وفاداری اور شجاعت کی اعلیٰ مثال بنے۔ حضرت اُمُّ البنین نے اپنی تمام اولاد کو امام حسین علیہ السلام پر قربان کردیا اور خود کربلا کے بعد مدینہ میں لوگوں کو امام حسین علیہ السلام کی مظلومیت سے آگاہ کرتی رہیں اور بنی امیہ کے ظلم و ستم کو بيان کرتی رہیں اور مجالس عزا منعقد کیا کرتی تھیں تاکہ کربلا کے شہیدوں کا ذکر ہمیشہ زندہ رہے اور ان مجلسوں میں خاندان عصمت و طہارت کی عورتیں شریک ہو کر کربلا کے شہیدوں پر آنسو بہاتی تھیں آپ اپنی تقریروں، مرثیوں اور اشعار کے ذریعے شہیدان کربلا کی مظلومیت کو کائنات کے ہر فرد تک پہنچانا چاہتی تھیں۔

بالآخر ایثار و قربانی اور کمال اخلاص و ایمان کی دولت سے سرشار عظیم خاتون ام البنین سلام الله عليها کا ستر ہجری میں انتقال ہوگیا - بعض مورخین نے آپ کی وفات کی تاریخ تیرہ جمادی الثانی سن چونسٹھ ہجری تحریر کیا ہے۔

آپ کی قبرمبارک جنت البقیع میں حضرت امام حسن علیہ السلام کی قبر کے پاس موجود ہے جو آج بھی نجدیوں کے ظلم کی داستان چیخ چیخ کر ان کے ظلم و بربریت کا اعلان کررہی ہے۔

حضرت اُمُّ البنین کی زندگی وفاداری، شجاعت اور ایثار کا ایک مثالی نمونہ ہے جو اہل بیت سے محبت کرنے والوں کے لیے مشعل راہ ہے۔

مصادر

1- ابن شہر آشوب، المناقب۔

2- شیخ عباس قمی، نفس المهموم۔

3- علامہ مجلسی، بحار الانوار: جلد 45 ۔

4- ابن اثیر، اسد الغابہ۔

انسان کى حقيقت كيا ہے؟

انسان کى حقيقت كيا ہے؟

تحرير: سيد غيور الحسنين

اسلامی فلسفہ میں انسان کی تعریف ایک جامع اور متوازن تصور پر مبنی ہے، جو انسان کو ایک مادی اور روحانی مخلوق کے طور پر پیش کرتا ہے۔ انسان کی تعریف کے مختلف پہلو قرآن، حدیث، اور اسلامی فلسفیوں کی تحریروں میں پائے جاتے ہیں.

اسلامی فلسفہ میں انسان کو دو بنیادی عناصر کا مجموعہ سمجھا جاتا ہے:

1- جسم (مادہ)

انسان کا مادی جسم اسے زمین سے جوڑتا ہے اور اسے دنیاوی معاملات میں حصہ لینے کے قابل بناتا ہے۔ الله تعالى قرآن ميں فرماتا ہے: "ہم نے انسان کو مٹی کے خلاصے سے پیدا کیا"۔ [سورہ المؤمنون: 12]

2- روح (غیر مادی)

روح انسان کی حقیقت اور اس کی اعلیٰ ترین پہچان ہے، جو اسے فرشتوں اور دیگر مخلوقات سے ممتاز کرتی ہے۔ الله تعالى قرآن ميں فرماتا ہے: "اور میں نے اس میں اپنی روح پھونکی"۔ [سورہ الحجر: 29]

انسان کی صفات

اسلامی فلسفہ میں انسان کی درج ذیل خصوصیات کو نمایاں کیا گیا ہے:

الف- عقل و شعور: عقل انسان کو دیگر مخلوقات سے ممتاز کرتی ہے اور اسے اچھے اور برے کی پہچان کے قابل بناتی ہے۔ امام علیؑ: "عقل انسان کا سب سے بڑا سرمایہ ہے"۔ [نہج البلاغہ، حکمت 4]

ب- اختیار و آزادی: انسان کو اعمال کے انتخاب میں آزادی دی گئی ہے، اور یہی اس کے امتحان کی بنیاد ہے۔ الله تعالى قرآن ميں فرماتا ہے: "ہم نے انسان کو راستہ دکھایا، چاہے وہ شکر گزار بنے یا ناشکرا"۔ [سورہ الدھر: 3]

ج- خلیفۂ خدا ہونا: انسان کو زمین پر اللہ کا نائب اور خلیفہ بنایا گیا ہے، جو اس کی عظمت اور ذمہ داری کو ظاہر کرتا ہے۔ الله تعالى قرآن ميں فرماتا ہے: "میں زمین میں اپنا خلیفہ بنانے والا ہوں"۔ [سورہ البقرہ: 30]

د- اخلاقی و روحانی ترقی: انسان کی زندگی کا مقصد روحانی اور اخلاقی کمال حاصل کرنا ہے۔ امام جعفر صادقؑ: "انسان کی حقیقت اس کے اخلاق میں ہے"۔

انسان کے مقاصد

اسلامی فلسفہ میں انسان کی تخلیق کا مقصد صرف دنیاوی زندگی نہیں، بلکہ وہ روحانی کمال ہے جو اسے اللہ تعالى کے قریب کر سکے:

1- عبادت و بندگی: الله تعالى قرآن ميں فرماتا ہے: "میں نے جنات اور انسانوں کو صرف اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا" [سورہ الذاریات: 56]۔

2- علم و معرفت کا حصول: انسان کو علم کی طلب اور جستجو کی صفت دی گئی ہے۔ حدیث نبویؐ: "علم حاصل کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے"۔

3- سماجی ذمہ داری: اسلامی فلسفہ میں انسان کو ایک اجتماعی مخلوق قرار دیا گیا ہے جو عدل، محبت، اور تعاون کے اصولوں پر معاشرہ تشکیل دیتا ہے۔ الله تعالى قرآن ميں فرماتا ہے: "تم بہترین امت ہو جو لوگوں کے لیے بھیجی گئی ہے"۔ [سورہ آل عمران: 110]

انسان اور کمال کا فلسفہ

اسلامی فلسفی، جیسے ابن سینا انسان کو "ناطق حیوان" (عقل رکھنے والا جاندار) کہتے ہیں، جو علم اور عمل کے ذریعے کمال حاصل کرتا ہے۔

ملا صدرا (صدر الدین شیرازى) کے مطابق انسان کی حقیقت اس کی روحانی ترقی ہے، جو حرکتِ جوہری کے ذریعے اپنی معراج تک پہنچتی ہے۔ وہ کہتے ہیں: "انسان ایک ممکن الوجود ہے جو اپنی قابلیتوں کے ذریعے اللہ تعالى کے نور کے قریب ہو سکتا ہے"۔

فارابی کے مطابق انسان ایک سماجی مخلوق ہے، اور اس کی تکمیل معاشرے میں رہ کر حاصل ہوتی ہے۔

لهذا انسان اسلامى فلسفه کے مطابق ایک مادی و روحانی مخلوق ہے۔ علم، عقل، اور اختیار رکھتا ہے۔ خدا کا خلیفہ ہے اور عبادت و کمال کا طلب گار ہے۔ سماجی ذمہ داری اور روحانی ترقی کی طرف متوجہ ہے۔ یہ جامع تصور انسان کو زندگی کے ہر پہلو میں ایک متوازن کردار ادا کرنے کا درس دیتا ہے، جو نہ صرف دنیاوی بلکہ اخروی کامیابی کے لیے ضروری ہے۔

لیبرالیزم کی بنیادیں اور اس کا رد

لیبرالیزم کی بنیادیں اور اس کا رد

تحرير: سيد غيور الحسنين

لیبرالیزم (Liberalism) ایک فکری و سیاسی نظریہ ہے جو آزادی، فرد کے حقوق، اور جمہوری اقدار کو مرکزیت دیتا ہے۔ اس نظریہ کی بنیادیں مغربی فکر سے نکلتی ہیں اور یہ بنیادی طور پر روشن خیالی (Enlightenment) کے دور سے متعلق ہے۔ لیبرالیزم کا بنیادی مقصد انسانی آزادی کو فروغ دینا اور افراد کو ریاستی یا دیگر ادارتی جبر سے محفوظ رکھنا ہے۔

لیبرالیزم کی بنیادیں:

1- فرد کی آزادی:

لیبرالیزم کا بنیادی اصول یہ ہے کہ ہر فرد کو ذاتی، سیاسی، اور مذہبی آزادی حاصل ہونی چاہیے۔ فرد کو اپنی زندگی کے فیصلے خود کرنے کا حق ہے، جب تک کہ اس سے دوسروں کو نقصان نہ پہنچے۔

2- قانون کی حکمرانی (Rule of Law):

لیبرالیزم اس بات پر زور دیتا ہے کہ معاشرے میں قانون سب کے لیے برابر ہو اور کوئی بھی قانون سے بالاتر نہ ہو۔

3- جمہوریت:

لیبرالیزم جمہوری نظام کی حمایت کرتا ہے، جہاں عوام کو حکومت کے انتخاب کا حق ہو اور حکمران عوام کے سامنے جوابدہ ہوں۔

4- معاشی آزادی:

کلاسیکی لیبرالیزم آزاد منڈی (Free Market) کی حمایت کرتا ہے، جہاں معیشت کو حکومتی مداخلت سے آزاد رکھا جائے۔

5- مذہبی آزادی:

لیبرالیزم فرد کے مذہبی عقائد کی آزادی کو اہم سمجھتا ہے اور مذہب کو ریاستی معاملات سے الگ رکھنے کا حامی ہے۔

6- برداشت اور رواداری:

مختلف خیالات، عقائد، اور ثقافتوں کے ساتھ برداشت کا مظاہرہ لیبرالیزم کا ایک لازمی جزو ہے۔

لیبرالیزم کا رد (تنقید):

1- فردیت پسندی کا نقصان:

لیبرالیزم فرد کی آزادی پر اتنا زور دیتا ہے کہ یہ اجتماعی اقدار اور خاندانی نظام کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔ اسلام اور دیگر روایتی معاشرے فرد کے بجائے خاندان اور معاشرے کو مرکزیت دیتے ہیں۔ اسلام فرد کو آزادی دیتا ہے لیکن یہ آزادی الٰہی حدود کے اندر ہوتی ہے۔ مطلق آزادی کے بجائے اسلامی معاشرتی نظام میں فرد اور معاشرے کے درمیان توازن برقرار رکھا جاتا ہے۔

2- اخلاقی نسبیت:

لیبرالیزم میں کسی بھی مطلق اخلاقی اصول کا انکار کیا جاتا ہے، جس سے معاشرتی بے راہ روی اور اخلاقی بحران جنم لے سکتے ہیں۔ لیبرالیزم میں قانون انسانی خواہشات کے تحت بنتا ہے، جبکہ اسلام میں قانون قرآن و سنت پر مبنی ہے جو خدائی رہنمائی فراہم کرتا ہے۔ اسلامی معاشرت میں اخلاقی اصول مطلق ہیں اور ان کا مقصد انسان کو روحانی، اخلاقی اور سماجی لحاظ سے بلند کرنا ہے۔

3- مذہب سے دوری:

لیبرالیزم میں مذہب کو ذاتی معاملہ سمجھا جاتا ہے اور اسے ریاستی امور سے دور رکھا جاتا ہے۔ اسلامی نقطہ نظر کے مطابق، دین ایک ہمہ گیر نظام ہے جو زندگی کے تمام پہلوؤں پر محیط ہے۔ اسلام مذہب کو نجی معاملہ نہیں بلکہ اجتماعی زندگی کا لازمی حصہ قرار دیتا ہے۔

4- سرمایہ داری کا غلبہ:

لیبرالیزم کا معاشی پہلو سرمایہ داری کو فروغ دیتا ہے، جس کے نتیجے میں معاشرتی ناانصافی اور امیر و غریب کے درمیان فرق بڑھتا ہے۔ اسلام سرمایہ داری اور اشتراکیت کے درمیان ایک معتدل نظام پیش کرتا ہے، جہاں دولت کی منصفانہ تقسیم اور زکوٰۃ و خمس کا نظام موجود ہے۔

5- ثقافتی انحطاط:

لیبرالیزم کے تحت اظہار رائے کی آزادی کے نام پر وہ چیزیں بھی قبول کی جاتی ہیں جو اسلامی یا مشرقی اقدار کے خلاف ہوتی ہیں، جیسے فحاشی اور بے حیائی۔

نتیجہ:

لیبرالیزم ایک مغربی نظریہ ہے جو آزادی اور حقوق پر زور دیتا ہے، لیکن اسلامی نقطہ نظر سے اس میں کئی خامیاں ہیں، خاص طور پر اس کا مذہب اور اخلاقیات سے دور ہونا۔ اسلامی نظام، جو الٰہی رہنمائی پر مبنی ہے، فرد، معاشرہ، اور ریاست کے درمیان ایک مثالی توازن قائم کرتا ہے۔

قدرت الهی از منظر امامیه

قدرت الهی از منظر امامیه

استاد راهنما: دکتر سید غیور الحسنین

تأليف: مستفید حسین

چکیده

برای اثبات قدرت خداوند بسیار دلایل عقلی و نقلی وجود دارند. سؤال اين است که آیا خداوند می‌تواند سنگی را خلق کند که خود توان برداشتن آن ندارد ؟ اگر پاسخ این سوال مثبت بدهیم لازم می‌آید که خداوند قدرت برداشتن آن ندارد و اگر پاسخ منفی دهیم لازم می‌ آید که خداوند قدرت خلق آن ندارد. یا اینکه آیا خداوند متعال می‌تواند مثل خود یک خدای خلق کند ؟این سوال از هر دو طرف منافی عقاید بنیادی است چون اگر پاسخ آن مثبت بدهیم تعدد آلِه لازم می ‌آید و اگر پاسخ منفی دهیم همان ناتوانی خلق لازم می‌آید. وقتی این سوال‌ها را با دقت مطالعه کردیم، پی بردیم که این سوال‌ها یا محال ذاتی است یعنی فی حد نفسه محال هستند یا محال وقوعی است یعنی فی حد نفسه نیستند ولی لازمه‌اش محال ذاتی می‌شود.

کلید واژه: معطی، نا متناهی، ملحد، واجب الوجود، ممکن الوجود، محال، مؤید

ادامه نوشته

جبر و اختيار

جبر و اختيار

استاد مشرف: سيد غيور الحسنين

تحرير: سيد خورشيد حيدر شيرازي

خداوند متعال خالق حقیقی انسان ، انسان کو خلق کرنے کے بعد فرماتا ہے: "لَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنْسَانَ فِي أَحْسَنِ تَقْوِيمٍ".(1) اللّٰہ تعالیٰ نے انجیر،زیتون،طور سینا اور شہر مکہ کی قسم ذکر کر کے ارشاد فرمایا کہ بیشک ہم نے انسان کو سب سے اچھی شکل وصورت میں پیدا کیا ،اس کے اَعضاء میں مناسبت رکھی، اسے جانوروں کی طرح جھکا ہوا نہیں بلکہ سیدھی قامت والا بنایا، اسے جانوروں کی طرح منہ سے پکڑ کر نہیں بلکہ اپنے ہاتھ سے پکڑ کر کھانے والا بنایا اوراسے علم، فہم، عقل، تمیز اور باتیں کرنے کی صلاحیت سے مُزَیّن کیا۔اور مخلوقات میں دوسري موجودات پر فضیلت بخشتے ہوئے أشرف المخلوقات قرار دیا کیونکہ انسان تفکر کے ذریعے قرب الہی کی خاطر کمالات کی طرف سفر کرتا ہے۔ پھر اسی أشرف مخلوق پر لطف و کرم کرتے ہوئے اس کی هدایت کی خاطر أنبیاء ،آئمه ،کتب آسمانی کے ذریعے اپنی حجت اس پر تمام کی اور فرمایا: "إِنَّا هَدَيْنَاهُ السَّبِيلَ إِمَّا شَاكِرًا وَ إِمَّا كَفُورًا ".(2) یقینا ہم نے اسے راستہ دکھا دیا ہے۔ چاہے وہ شکر گذار ہو جائے یا کفران نعمت کرنے والا بن جائے۔

هدایت کے بعد شکر گزار بننا اور کفران نعمت کرنے والا ہونا اس کا اختیار انسان کے ہاتھ میں دیا گیا، مگر کیا حقیقت یہی ہے یا نہیں؟ آیا انسان بااختیار ہے یا مجبور؟ اگر بااختیار ہے تو اُس اختیار کا کوئی مخصوص دائرہ ہے؟!!! اور اس طرح کے دسیوں سوالات زمانہ قدیم سے "جبر و اختیار انسان " کے عنوان سے ہونے والی بحثوں میں مختلف مکاتب فکر کے ہاں مطرح ہوتے رہے ہیں اور اس پر مختلف نظریات قائم کیے گیے ہیں۔ اور عرصہ دراز سے اس مسئلہ نے عقل بشری کو مشکلات میں مبتلا کیا ہوا ہے۔ کیونکہ " جبر و اختیار انسان" ایک دقیق، مهم اور حساس بحث ہے اس لیے اس پر بہت زیادہ تحقیق کی جا چکی ہے مگر اس حوالے سے یہ موضوع تشنگی کا شکار رہا کہ انسان کا مجبور و مختار ہونا اسکی زندگی پر کیا اثر رکھتا ہے۔اس تشنگی کو مد نظر رکھتے ہوتے اس مختصر مقالہ میں چند عرائض پیش کی گئي ہیں۔

جبر و اختیار کے لغوی اور ا صطلاحی معنی:

اختیار:

لغت میں لفظ اختیار سے مراد یہ ہے کہ کوئی حکم چلانے کی اہلیت، کسی بات یا معاملے پر پورا پورا تصرف حاصل ہونے کی حیثیت، اپنی مرضی کے مطابق کام کرنے کی قدرت رکھتا ہو۔

جبر:

لغت میں لفظ جبر سے مراد یہ ہے کہ کسی پر دباؤ ،زور، زبردستی، اکراہ، ظلم کے ساتھ کوئی حکم مسلط کیا جائے یہ اختیار کی ضد ہے۔

ا صطلاح میں اس سے مراد انسان کا اپنے افعال کو انجام دینے میں آزاد یا قید ہونا ہے یعنی انسان کے اعمال اس کے اپنے ارادہ کے تحت ہیں یا اس کی مرضی کے بغیر کروائے جاتے ہیں۔(3)

مجبور و مختار یعنی یہ کہ انسان صاحب اختیار ہے یا نہیں، یہ مسئلہ ہمیشہ سے فلسفیوں میں زیر بحث رہا ہے، اور مختلف گروہ اس پر اپنی رائے قائم کر چکے ہیں۔ ایک گروہ معتقد ہے کہ انسان اپنی مرضی کا مالک نہیں ہے بلکہ اس کی مرضی اس کی تعلیم و تربیت اور دوسرے امور اس کے ارادہ سے وقوع پذیر نہیں ہوتے یعنی اس گروہ کے مطابق انسان مجبور مطلق ہے جو کہ قدیم یونانی فلسفیوں کا نظریہ تھا۔ آغاز میں مسلمانوں نے بھی اس امر کی طرف رجحان رکھا۔ ان کا عقیدہ تھا کہ انسان کے اعمال و افعال کی تفصیل لوح محفوظ پر رقم ہو چکی ہے اور کوئی شخص صاحب قدرت نہیں ہے جو کہ اس لکھے ہوئے کو تبدیل کر سکے۔ مگر معتزلہ نے اس نظریے کی مخالفت کی۔ وہ انسان کی آزادی کے قائل تھے اور اسے مختار مطلق کہتے تھے ۔ پہلے گروہ کو جبریہ دوسرے کو قدریہ کہتے ہیں۔مگر ایک تیسرا نظریہ بھی اس فہرست میں شامل ہے جو پہلے دونوں نظریوں سے الگ ہے۔ وہ نہ تو انسان کے مطلق اختیار کا قائل ہے اور نہ ہی اس کے مطلق مجبور ہونے کا بلکہ وہ انسان کی حالت کو درمیانہ کہتا ہے کہ ایک ایسی حالت جیسے نہ تو اختیار کہا جا سکتا ہے نہ ہی مجبور، یعنی وہ نہ مختار مطلق ہے اور نہ مجبور مطلق ہے۔ شیعہ امامیہ کے علاوہ بھی چند گروہ اس نظریہ کے قائل ہیں۔

مجبور مطلق:

عقیدۂ خلق قرآن کا بانی جعد بن درهم جس نے ایک قدیمی بحث(کلام خدا قدیم ہے یا حادث) پر اپنی رائے کو قائم کرتے ہوئے ایک نئے نظریے کو قائم کیا اس کے شاگردوں میں سے ایک شاگرد جس کا نام جہم بن صفوان تھا اس نے عقیدہ جبر کی بنیاد رکھی۔جو اصلا کوفی نسل میں سے تھا یہ خلافت بنو امیہ کے دور میں نہر جیحون کے کنارے واقع شہر ترمذ میں پیدا ہوا ۔اس نے تشبیہ بالله کے موضوع میں اتنی شدت اختیار کی کہ تعطیل کا قائل ہو گیا۔اور اس کے علاوہ بھی بہت سے جاهلانہ عقائد کی بنیاد رکھی۔ جہمیہ کا کہنا ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ کی تمام صفات مخلوق ہیں، وہ ایک ایسے خیالی خدا پر ایمان رکھتے ہیں جس کا تصور کرنا ذہن ہی میں ممکن ہے کیونکہ حقیقت میں جو بھی چیز وجود رکھتی ہے اُس کی صفات ہوتی ہے۔ صفات سے علیحدہ کسی ذات کا حقیقت میں وجود نہیں ہے۔جہمیہ اس بات کے قائل ہیں کہ بندہ مُسَيَّر ہے (یعنی اسے چلایا جاتا ہے) نہ کہ مُخير۔ (یعنی اس کے پاس کوئی اختیار نہیں ہے)۔گناہوں کے ارتکاب پر تقدیر کو حجت بناتے ہیں کیوں کہ کائنات میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ اللہ کے ارادے اور مشیئت سے ہورہا ہے۔ جبریہ کی دو قسمیں ہیں: خالص جبریہ (یعنی غلوکرنے والے): یہ وہ لوگ ہیں جو بندے کے لیے سِرے سے نہ تو کسی فعل کا اثبات کرتے ہیں اور نہ ہی فعل کی قدرت کا، جیسے جہمیہ وغیرہ۔ دوسری قس متوسط جبریہ: جو بندے کے لیے قدرت کا اثبات تو کرتے ہیں لیکن ان کے نزدیک یہ قدرت غیرمؤثر ہوتی ہے۔ ، جیسے اشعریہ؛ ان کے نزدیک انسان کو قدرت و مشیئت تو حاصل ہے لیکن اس قدرت و مشیئت کی وجہ سے فعل واقع نہیں ہوتا۔اپنے گناہوں کی پردہ پوشی کی خاطر اس کفریہ عقیدہ کے قائل حضرات نے اس عقیدہ کو ترویج دی ہے اور سب گناہوں کا مصدر ارادہ الہی کو قرار دیا ہے کہ انسان جب مجبور محض ہے تو وہ گناہ کا مرتکب ہی نہیں ہو سکتا۔ اس عقیدہ پر ان کے ہاں ایک دلیل عقلی پیش کی جاتی ہے جو باطل ہے اور رد شدہ ہے۔ہرممکن، وجود میں آنے کیلئے علت کی طرف محتاج ہیں اور اسی طرح تمام علل معدّہ بھی علت تامہ کی طرف محتاج ہیں۔اور علت العلل وہی ذات پاک ہے ۔پس جیسے معلول کا علت سے جدا ہونا محال ہے۔ اسی طرح افعال انسان بھی مخلوقات خدا میں سے ہے اور خدا سے جدائی ممکن نہیں ہے، کیونکہ یہ ایک قاعدۂ فلسفی ہے کہ جہاں علت تامہ ہو وہاں اس کا معلول ہونا ضروری ہے۔ پس اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ افعال انسان بھی خدا سے وجود میں آئے ہیں نہ کہ خود انسان سے، جس میں انسان کا کوئی اختیار نہیں۔ اس دلیل پر کئی اشکالات ہیں؛ اولا ً توجو شبہات جبریوں کے ذھنوں میں آیات سے پیدا ہوئے ہیں یہ ہے کہ مشیئت و ارادہ اور قضا و قدر الہی کے مقابلے میں انسان کو کسی چیز پر اختیار حاصل نہیں، صحیح نہیں، کیونکہ ارادۂ خدا اور ارادۂ انسان ایک دوسرے کے طول میں ہے ۔ یہی وجہ ہے ارادۂ الہی جانشین ارادۂ انسان نہیں ہوسکتا۔ثانیا انسان کا ارادہ علل معدّہ ہے اور فعل انسان بھی اس کا معلول ہے۔ انسان جب ارادہ کرتا ہے تو فعل انجام پاتا ہے ۔ اگر ارادہ نہ کرے توانجام بھی نہیں پاتا ۔ لیکن یہی علت معدّہ (ارادہ) اور معلول (فعل) اور اس کے مبادی سب ارادۂ الہی سے متعلق ہے ۔ اس فعل کی نسبت علت معدّہ(ارادہ) مباشراور ملی ہوئی علت ہے ، اور ارادۂ خداوند علت بعیدہ ہے، لیکن اگر یہی علت بعیدہ نہ ہو تو نہ مرید (ہم) ہونگے نہ کوئی ارادہ ہوگا اور نہ ہی کوئی مراد(فعل) ۔ پس معلوم ہوا ارادۂ انسان تو اس کے اپنے اختیار میں ہے اور جو بھی کام انجام دیتا ہے اپنے ارادے سے انجام دیتا ہے۔ اور یہ سلسلۂ نظام ، ارادۂ الہی سے متعلق ہے ۔ یہی اس مشکل کا حل کی چابی ہے ۔ مگر اس باطل عقیدہ کو رد کیا گیا ہے۔(4)

دلیل اول:

اگر ہم جبر کے قائل ہوجائیں تو بہت سی صفات خدا (جو کہ عین ذات ہیں)کا انکار کرنا پڑے گا۔ خداوندعالم هر انسان کو اسکے اعمال کے مطابق جزا و سزا دے گا اور عدل الہی کا تقاضا ہے کہ نیک انسان کو اسکی نیکی کا اجر ملے اور گناہ گار کو اس کے گناہ کی سزا ،مگر جب اس عقیدہ پر ایمان رکھ لیا کہ انسان مجبور محض ہے تو نہ ہی جزا ہے اور نہ ہی سزا جب انسان سے کوئی فعل اسکے ارادہ و اختیار سے صادر ہی نہیں ہوا تو اسے جزا یا سزا دینا قبیح ہو گا۔پس جب خدا وندعالم حکیم مطلق ہے اور قبیح کام ذات حکیم سے محال ہے اس لیے یہ بھی محال ہے کہ خداوند عالم سزا و جزا دے۔ مگر ہم جانتے ہیں کہ خدا وند عالم عادل ہے اور عدل کا تقاضا ہے کہ نیکی کرنے والے کو اسکی نیکی کا اجر اور بدی کرنے والے کو اسکی بدی کی سزا دی جائے گی،پس پھر انسان مجبور محض نہیں ہو سکتا۔(5)

دلیل دوم:

اگر اہل حق اور اہل باطل کے درمیان مناظرہ اور مباحثہ ہو جائے تو قول مجبرہ کے مطابق یہ لازم آتا ہے کہ خدا نے خود مناظرہ کیا ہے کیونکہ مناظرہ فعل ہے اور خدا فاعل پس خدا ایک ہی وقت میں محق بھی ہے مبطل بھی۔کیونکہ ایک حق پر ہوتا ہے اور دوسرا باطل پر،اس کا لازمہ یہ ہے کہ خدا عالم بھی ہے اور جاهل بھی، جو کہ محال ہے، کیونکہ ذات خدا جو کہ کمالات مطلق رکھتی ہے محال ہے کہ وہ جاهل ہو کیونکہ جهل فقدان کمال ہے ۔(6)

مختار مطلق:

اس عقیدہ کی بنیاد جسے" اختیار مطلق انسان" ، "قدریہ" اور" منکر تقدیر" کے نام سے بھی جانا جاتا ہے،معبد جہنی اور غیلان دمشقی نے رکھی۔معبد جہنی نے عراق اور غیلان دمشقی نے دمشق میں اس باطل عقیدہ کی بنیادوں کو قوی کرنے کی کوشش شروع کی تھی۔ان کا نقطہ نظر یہ ہے کہ ہر چیز انسان کے ارادہ و قدرت کے تابع ہے، گویا انسان اپنی تقدیر خود بناتا ہے۔اور اس میں الله کا کوئی ارادہ شامل نہیں ہے اور هر عمل کا مطلق اختیار صرف انسان کی قدرت میں ہے حکمت خدا اس میں کوئی عمل دخل نہیں رکھتی،اور انسان اپنے فعل کا خود خالق ہے۔یہ لوگ اس حد تک تجاوز کر گئے ہیں کہ خدا سے ان صفات کی نفی کرتے ہوئے یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ انسان جن اعمال کا خالق ہے خدا ان کے وجود میں آنے سے پہلے ان کے بارے میں علم نہیں رکھتا ،جب انسان ان اعمال کو خلق کرے گا پھر جانے گا کہ اس کی مخلوق نے یہ عمل انجام دیا ہے۔اس عقیدہ کو بھی مستند دلائل سے رد کیا گیا ہے۔(7)

دلیل اول:

علم صفات کمالیہ میں سے ہے یعنی علم کا ہونا کمال ہے اور عدم علم فقدان کمال ہے۔خدا کی ذات جو کمالات مطلق رکھتی ہے،پس محال ہے کہ اس ذات سے کسی کمال کی نفی ہو،کیونکہ جس ذات میں فقدان کمال ہو وہ خدا نہیں، پس علم کا ہونا ذات خدا کے لیے لازم ہے اور جب خدا عالم ہے تو اس کا علم مخلوقات کے متعلق ابدی و ازلی ہے۔ یہی وہ مقام ہے جہاں کم فہمی سے گمراہی کے راستے پر قدم رکھا جاتا ہے ،تقدیرِ انسان کا علم خداوند عالم کی ذات کو ہے اور روزِ ازل سے لوحِ تقدیر پر رقم کر دیا گیا ہے مگر اس سے مراد یہ نہیں ہے کہ اب انسان مجبور ہے کہ اسی کے تحت عمل انجام دے بلکہ خدا عالم ہے کہ اس کی مخلوق کیا عمل انجام دے گی ۔(8)

دلیل دوم:

قدریہ اپنے عقیدے میں اس قدر غلو کر گئے ہیں کہ انسان کے اختیار کو مستقل قرار دیتے ہیں کہ انسان خدا کے مقابلے میں ایک موجود مختار ہے جو اپنے افعال کا خالق ہے ،پس ان کے عقیدہ کے مطابق متعدد انسان متعدد خالق ہیں جو اپنے افعال میں مستقل ہیں، یعنی یہ لوگ انسان کو خدا کے مقابلے میں موجود مستقل قرار دیتے ہیں جو قدرت میں کسی کا محتاج نہیں، لیکن اس پر متعدد دلائل مطرح ہو چکے ہیں کہ اگر اس جہان میں متعدد خدا ہوتے تو تباہی اور فساد لازم آتا ،کیونکہ متعدد خداؤں کی تدبیر بھی متعدد ہوتی،مگر کہ جب اس عالم کو دیکھتے ہیں تو اس کا نظم برقرار ہے ہر موجود اپنے ایک خاص نظم کے مطابق ہے ،تو متعدد خداؤں کی نفی ہوتی ہے پس اس عالم کی تدبیر ایک ہی خدا کر رہا ہے۔اور وہ الله سبحانه تعالیٰ کی ذات ہے۔پس محال ہے کہ کوئی اور مستقل مخلوق اس کے مقابلے میں ہو۔

امر بین الاَمرَین(درمیانی راستہ):

جیسا کہ مقدمہ میں بیان ہو چکا ہے اس مسئلہ میں تین نظریہ ہیں اور کوئی چھوتھا راستہ نظر نہیں آتا۔تیسرا نظریہ جو اس بات کا قائل ہے کہ نہ ہی جبر مطلق ہے نہ اختیار مطلق بلکہ ایک درمیانہ راستہ ہے جسے احادیث میں اس تعبیر سے بیان کیا گیا ہے "امر بین الاَمرَین" ۔اس عقیدہ کو شیعہ امامیہ اور دوسرے مکاتب میں سے "ما تریدیہ" جو کہ افعال انسان میں کسب کے قائل ہیں،طحاویہ اور اشاعرہ کے بعض علماء اس راستہ کو قبول کرتے ہیں اپنی خاص قیود کے ساتھ۔کیونکہ یہ بحث قدیم ہے اس لیے آئمہ علیہم السلام کے ادوار میں بھی اس پر ابحاث موجود ہیں جسکی تائید مختلف روایات کرتی ہیں۔اور روایات کے مطابق یہ تعبیر "امر بین الاَمرَین" امام علی علیہ السلام سے منسوب ہے کہ جب ایک شخص ان سے اختیار و جبر کے بارے میں سوال کرنے آیا تو امام ع نے اس تعبیر کو ارشاد فرمایا۔اور اس کے بعد دیگر آئمہ سے بھی یہ تعبیر اس طرح نقل ہوئی"المنزلة بين المنزلتين"یعنی ایک درمیانی منزل ہے۔ان روایات میں "امرین" یا "منزلتین" سے مراد ایک طرف جبر اور دوسری طرف اختیار ہے۔یہ موضوع بہت سے مختلف پہلو رکھتا ہے اسی وجہ سے علم کلام کے اہم مسائل میں شمار ہوتا ہے اور عقائد کے باب میں اہم باب ہے اور دینی مسائل کا ایک مشکل مسئلہ ہے۔اس لیے شیعہ علماء نے اس پر قرآن و سنت اور عقلی حوالے سے گفتگو کی ہے ۔اس نظریہ کی نظر کے مطابق "جبر و اختیار" آپس میں تضاد کی نسبت نہیں رکھتے کہ ان کا جمع ہونا محال ہو بلکہ یہ اکٹھے ہو سکتے ہیں۔اس کو سمجھنے کے لیے گہری فکر کی ضرورت ہے کہ انسان عدالت خداوند کو بھی مد نظر رکھے اور آزادی انسان اور وظیفہ عملیہ انسان کیا ہے اسکو بھی مد نظر رکھے۔کہ افراط و تفریط سے بچ کر درمیانی راستہ کو درک کرے جو کہ احادیث میں بیان ہوا ہے۔ایک مثال کے ذریعے سے اس مسئلہ کو واضح کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ مثلا:فرض کیجئے آپ بجلی سے چلنے والی ایک ریل گاڑی میں سفر کر رہے ہیں اور اس ٹرین کے ڈرائیور بھی آپ ہی ہیں ۔ٹرین کے پورے راستہ پر بجلی کا ایک قوی تارکھینچا گیا ہے اور ٹرین کی چھت پر لگا ہوا ایک مخصوص دائرہ بجلی کے اس تار سے ملا ہوا ہے اور حر کت کر رہا ہے اور لمحہ بہ لمحہ بجلی کو ایک قوی مر کز سے ٹرین کے انجن میں اس طرح منتقل کر رہا ہے کہ اگر ایک لمحہ کے لئے بھی اس قوی مرکز سے ٹرین تک بجلی نہ پہنچے تو ٹرین فوراً رک جائے گی۔اس ٹرین کے ڈرائیورکی حیثیت سے بیشک آپ آزاد ہیں کہ راستے میں جہاں پر بھی چاہیں ٹرین کو روک سکتے ہیں ،اسے آہستہ یا تیز چلا سکتے ہیں لیکن اس تمام آزادی کے باوجود بجلی کے مرکز یعنی بجلی گھر میں بیٹھا ہوا شخص جب چاہے بجلی کو منقطع کر کے آپ کی ٹرین کو روک سکتا ہے ۔کیونکہ آپ کی ٹرین کی حر کت بجلی کی مر ہون منت ہے اور اس کی چابی مرکز برق میں بیٹھے ہوئے شخص کے ہاتھ میں ہے۔اس مثال میں غور کر نے کے بعد واضح ہو جاتا ہے کہ ٹرین کا ڈرائیور تمام تر آزادی ،اختیار اور ذمہ داری کے باوجود کسی اور کے کنٹرول میں ہے اور یہ دونوں امر ایک دوسرے کے منافی نہیں ہیں۔پس اگر وہ ڈرائیور کوئی خطا کرتا ہے تو اس خطا پر اس سے سوال کیا جائے گا اور اگر وہ قصور وار ہوا تو تو جزاء و سزاء بھی ہوگی۔اسی طرح انسان بھی اپنے اعمال کو انجام دینے میں چلنے پھرنے،اٹھنے بیٹھنے ،کھانے پینے حتی دیگر اعمال شرعی وغیرہ میں ارادہ و اختیار رکھتا ہے مگر اس اختیار کی قدرت اسے خداوند عالم کی ذات سے لمحہ بہ لمحہ عطا ہو رہی ہے۔یعنی فیض الہی تمام ھستی سے لمحہ بہ لمحہ متصل ہے اور اگر یہ فیض ایک پلک جھپکنے کی مقدار یا جتنی بھی کم تر مقدار تصور کی جا سکتی ہے اس مقدار کے مطابق ہی منقطع ہو جائے تو یہ عالم ھستی ما سواء الله سب اسی لمحہ فناء ہو جائے۔پس انسان آزادی کے باوجود محتاج فیض الہی ہے انسان چاہ کر بھی خدا کی حکمت سے، اس کے علم سے، اس کی قدرت سے، اس کی حکومت سے ،خارج نہیں ہو سکتا۔اور یہی معنی سازگار ہوگا تعبیر "الامر بین الامرین"کا۔جیسے کہ پہلے ذکر ہو چکا ہے کہ اس بحث میں مذکورہ تین راستوں کے علاوہ کوئی چوتھا راستہ قابل تصور نہیں ہے اور نظریہ اشاعرہ (جبریہ) اور نظریہ معتزلہ(تفویض) دونوں کے عقیدہ کو محکم دلائل کے ساتھ باطل قرار دے چکے ہیں تو تیسرا راستہ ہی بچتا ہے۔اگر صرف ایک ارادہ دخیل ہو تو تفویض لازم آتی ہے اور اگر دو ارادہ دخیل ہوں تو الامر و بین الامین کی اصطلاح روشن ہوتی ہے۔

دلیل حکماء

حکماء کا استدلال کچھ یوں ہے: خدا ہر چیز پر قادر ہے لیکن اشیاء وجود کو قبول کرنے(یعنی موجود ہونے اور نہ ہونے) کے حوالے سے مختلف ہیں۔ خدا بعض اشیاء کو بغیر کسی واسطے کے خلق فرماتا ہے اور بعض کو واسطوں کے ذریعے خلق فرماتا ہے۔ یہ واسطہ کبھی ایک ہوتا ہے اور کبھی ایک سے زیادہ۔ اب جب بعض اشیاء کی خلقت میں واسطہ لازم ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ خدا اس واسطے کا محتاج ہو بلکہ یہ چیز اس مخلوق اور قابل میں موجود نقص کی وجہ سے ہے کیونکہ خدا مسبب الاسباب ہے اور تمام اسباب کو خدا نے ہی ایجاد کیا ہے اس لئے خدا کسی چیز کا محتاج نہیں ہے۔ انسان کے اختیاری افعال بھی انہی اشیاء میں سے ہیں جو بغیر واسطہ خدا سے خلق نہیں ہو سکتے اور انسان کا ارادہ ان واسطوں میں سے ایک ہے جس کے توسط سے یہ افعال وجود میں آتے ہیں پس جبر باطل ہے۔ اور دوسری طرف سے چونکہ تمام اسباب علل کو بھی خدا ہی خلق کرتا ہے اور اس کے ارادے سے خلق ہوتے ہیں پس تفویض بھی باطل ہے۔تو پس تیسرا عقیدہ ہی بچتا ہے جو کہ مطلوب ہے۔(9)

نتیجہ:

عقیدہ ایسا اثر معنوی ہے جو انسان کے افعال پر اثر رکھتا ہے۔اگر عقیدہ کی بنیاد ہی کمزور ہو گی تو اس پر اعمال کی عمارت برقرار نہیں رہ پائے گی۔جس طرح "جبر و اختیار "کے مسئلہ میں شیعہ امامیہ کے علاوہ دوسرے مکاتب فکر اس پر کوئی عقلی یا نقلی ایسی دلیل قائم نہیں کر سکے جو عقل قبول کرے۔اگر انسان فقط "جبر کا قائل ہو جائے تو بھی توحید سے ہاتھ دھو بیٹھے گا اور اگر فقط اختیار مطلق کو مانے وہ بھی توحید کے ساتھ سازگار نہیں ہے۔مگر یہ امتیاز ہے مكتب امامیہ کا کہ انہوں نے اگر توحید کی جس حد تک بھی معرفت حاصل کی ہے حجت خدا ، محمد و آل محمد (ص) کے دامن کو تھام کر ان کے علم کے نور کی روشنی میں ان حقائق کو درک کیا ہے اور جو توحید آئمه علیھم السلام نے بیان کی ہے اسی پر عقیدہ کی بنیاد رکھی ہے ۔جبر کے نظریے سے پیش آنے والی مشکلات انسان کی اخلاقی اور دینی مسئولیت کا بے معنی ہونا، برائیوں اور گناہوں کا خدا کی طرف سے خلق ہونا۔تفویض کے نظریے سے خدا کی قدرت محدود اور توحید افعالی کا نظریہ باطل ہو جاتا ہے۔اور اس طرح دیگر مسائل اور جنم لیں گے ۔جب انسان اس بات کا معتقد ہوتا ہے کہ خود مختار ہے اور اپنی طبیعت میں کچھ نہ کچھ تبدیلی لا سکتا ہے، تو اپنے اندر اخلاقی فضائل ایجاد کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ اور یہ خود مختاری کہاں تک ہے یہ بیان ہو چکا ہے کہ انسان مشیت الہی سے وابستہ رہ کر ا پنے ارادہ سے افعال کو انجام دیتا ہے اور هر لمحہ فیض خدا کا محتاج ہے کہ اگر یہ فیض خدا ایک لمحہ کے لیے بھی منقطع ہو جائے تو ہر شئ فنا ہو جائے۔

مصادر و مراجع:

۱- سورۃ التین ، آیت4

۲- سورۃ انسان، آیت 3

۳- Rekhta.com

۴-عبد الرحمن ، تفسیر تیسیر القرآن، ص2178، سورۃ الکہف،آیت22.

۵- محمد سعیدی مہر، کلام اسلامی، کتاب طہ؛ چاپ 39 ، 1402ش، ج1، ص339.

۶- مصدر سابق، ص93

۷- ابن کثیر، البدایہ والنہایہ (تاریخ ابن کثیر)، مطبوعہ لاہور، ج 9، ص54

۸- محمد سعیدی مہر، کلام اسلامی، کتاب، ج1، ص90-91.

۹- makarem.ir

صحيح بخارى اور صحيح مسلم میں اهل  بیت ؑ سے منقول روایات کا  جائزہ

صحيح بخاري اور صحيح مسلم میں اہل بیت ؑ سے منقول روایات کا جائزہ

جیساکه صحاح ستہ [چھے اہم کتابیں ] میں سے دو اہم کتاب صحیحین [ صحیح بخاری اور صحیح مسلم ]مسلمانوں کی اکثریت کے نزدیک قرآن مجید کے بعد اسلامی تعلیمات کا سب سے اہم ترین مجموعہ ہے۔ ہم ذیل میں ان کتابوں میں اہل بیت ؑ سے منقول روایات کا جائزہ لیتے ہیں۔

صحیح بخاری:

اس میں موجود روایات کی کل تعداد 7275 و با حذف مکررات 2602 ہیں ۔ اس میں پیغمبر ؐکے سب سے اہم شاگرد اور تربیت یافتہ شخصیت یعنی حضرت علیؑ سے رسول پاکﷺ کی صرف ’’۲۹‘‘ احادیث [1]نقل ہوئی ہیں۔ مکتب وحی کے پرورش یافتہ جناب فاطمہ ؑ سے چار ، امام حسن مجتبیؑ سے کوئی ایک روایت بھی نقل نہیں ہوئی ہے۔ امام حسین ؑسے صرف ایک روایت نقل ہوئی ہے[2]. انھیں چند احادیث کے علاوہ بخاری نے خود ان اہم اسلامی شخصیات کی سیرت اور تعلیمات کا ایک نمونہ بھی نقل نہیں کیا ہے۔ اسی طرح امام سجاد ؑسے تین اور امام باقر ؑ سے چار روایات اس میں نقل ہوئی ہیں۔ لیکن امام صادقؑ امام موسی کاظمؑ سمیت باقی ائمہ اہل بیت ؑ سے کوئی حدیث صحیح بخاری میں نہیں ہے۔ [3]

صحیح مسلم:

اس میں موجود روایات کی کل تعداد 7275 و با حذف مکررات 3033ہیں ۔ ابن جوزی کے بقول اس میں امام علی ؑ سے 35 روایات نقل ہوئی ہیں[4]۔ جناب فاطمہ زهراء ؑ سے تین روایات ، امام حسنؑ سے کوئی روایت نقل نہیں ہوئی ہے ۔امام حسینؑ سے ایک روایت، امام سجادؑ سے چار ، امام باقر ؑ سے 13 ، امام صادق ؑ سے 8 لیکن امام کاظمؑ سمیت باقی ائمہ اہل بیت ؑ سے ایک روایت بھی نقل نہیں ہوئی ہے۔ [5]

حواله جات

1- ابن‌جوزی، تلقیح فهوم اهل‌الاثر، ص287

2- مجلة علوم حدیث، شماره47، ص1۵۰-١۷۸.

3- سیری در صحیحین، ص133 ، مجلة علوم حدیث، شماره47، ص1۵۰-١۷۸.

4- ابن‌جوزی، تلقیح فهوم اهل‌الاثر، ص287

5- مجلة علوم حدیث، شماره47، ص1۵۰-١۷۸

كتب

1- ابن الجوزي، عبد الرحمن بن علي (م597هـ )، تلقيح فهوم أهل الأثر في عيون التاريخ والسير، شركة دار الأرقم ، بيروت 1997م.

2- فصلنامه علمی، علوم حدیث، شماره۴۷، انتشارات دارالحديث، قم ، 1387 ش.

3- نجمی، محمد صادق، سیری در صحیحین، دفتر انتشارات، ١۳۸۳ش.

کیا صحابه کی فضیلت قرآن میں بیان هوئی ہے؟

کیا صحابہ کی فضیلت قرآن میں بیان ہوئی ہے؟

سوال: حضرت ابو بکر کی صحابیت قرآن سے ثابت ہے۔ قرآن پاک کی آیت ہے:(إذ يقول لصاحبه لا تحزن) [التوبہ:40] "جب رسول(ص) اپنے ساتھی سے کہتے تھے غم نہ کرو۔"

اور رسول خدا(ص) کے متعلق اللہ تعالی نے یہ اعلان کیا ہے: (وما ينطق عن الهوى إن هو إلّا وحي يوحى) [النجم: 3-4] "رسول اپنی خواہش سے کلام نہیں کرتا وہ تو ایک وحی ہوتی ہے جو کی جاتی ہے۔"

اسی لیے رسول خدا(ص) کا ہر فرمان وحی الهی کا درجہ رکھتا ہے اور رسول خدا(ص) اپنے صحابہ کی تعظیم و توقیر کیا کرتے تھے اور ہر ایک کے حق میں بهت سی احادیث موجود ہیں۔ اب اس کے باوجود جو شخص یا گروہ ان نفوس قدسیہ پر اعتراض کرتا ہے تو وہ در حقیقت ان کے بجائے رسول خدا(ص) کی ذات والا صفات پر اعتراض کرتا ہے۔

جواب: رسول خدا(ص) کے صاحب ہونے کا حضرت ابو بکر کو شرف حاصل ہے:(إذ يقول لصاحبه لا تحزن) [التوبہ:40]. اس مسئلہ میں حقیقت یہ ہے کہ لفظ "صاحب" سے کوئی خاص اعزاز انہیں نہیں ملتا؛ کیونکہ قرآن مجید میں ایک مومن اور کافر کا واقعہ موجود ہے جس میں یہ الفاظ موجود ہیں:(قال له صاحبه وهو يحاوره أكفرت) [الكهف:37] "اس نے گفتگو کرتے ہوئے اپنے ساتھی سے کہا کیا تو نے کفر کیا۔"

اس آیت مجیدہ میں کافر کو مسلم کے صاحب کے لقب سے یاد کیا گیا ہے۔ اورحقیقت یہ ہے کہ مصاحب ہو یا اخوت ہو اس کے لیے کافر و مومن یکسان ہیں۔ ہر شخص جو نسب میں رشتہ دار ہو، وہ بھائی کہلاتا ہے خواہ مومن ہو یا کافر ہو، اور ہر ہمراہی صاحب کہلاتا ہے خواہ مومن ہو یا کافر ہو۔

قرآن مجید ہمیں بتاتا ہے کہ حضرت یوسف علیہ السلام نے اپنے قید کے دو ساتھیوں کو مخاطب کر کے فرمایا تھا:(يصاحبي السجن.... الخ) [يوسف:39] "میرے قید خانے کے دو ساتھیو.... الخ."

حضرت یوسف علیہ السلام اللہ کے نبی اور رسول تھے جبکہ ان کے دونوں ساتھی بت پرست اور کافر تھے۔

علاوہ از این سورہ نجم میں رسول خدا(ص) کو اللہ تعالی نے کافروں کا صاحب کہا:(ما ضلّ صاحبكم وما غوى) [النجم:2] "تمہارا ساتھی محمد(ص) نہ تو بہکا ہے نہ بھٹکا۔"

ان تمام آيات سے ثابت ہوتا ہے کہ لفظ "صاحب" کسی خوبی اور عظمت کی دلیل ہرگز نہیں ہے۔

حوالہ

مجالس المؤمنین، قاضی نور اللہ شوستری، ص195-196

فضائل  امام محمد تقی عليه السلام

فضائل امام محمد تقی علیہ السلام

محمد بن علی بن موسی (195–220 ھ) امام محمد تقی ؑ کے نام سے مشہور شیعوں کے نویں امام ہیں۔ آپ کی کنیت ابو جعفر ثانی ہے۔ آپ نے 17 سال امامت کے فرائض انجام دیئے اور 25 سال کی عمر میں شہید ہوئے۔ شیعہ آئمہ میں آپ سب سے کم عمر شہید امام ہیں۔بچپن میں امامت ملنے کی وجہ سے امام رضاؑ کے بعض اصحاب نے ان کی امامت میں تردید کی جس کے نتیجے میں عبدالله بن موسی کو امام کہنے لگے اور کچھ دیگر افراد نے واقفیہ کی بنیاد ڈالی لیکن اکثر اصحاب نے آپ کی امامت کو قبول کیا۔امام محمد تقیؑ کا لوگوں کے ساتھ ارتباط وکالتی سسٹم کے تحت خط و کتابت کے ذریعے رہتا۔ آپ کے زمانے میں اہل حدیث، زیدیہ، واقفیہ اور غلات جیسے فرق بہت سرگرم تھے اسی بنا پر آپ شیعوں کو ان کے باطل عقائد سے آگاہ کرتے، ان کے پیچھے نماز پڑھنے سے روکتے اور غالیوں پر لعن کرتے تھے۔دوسرے مکاتب فکر کے علماء و دانشوروں کے ساتھ مختلف کلامی اور فقہی موضوعات پر آپ کے علمی مناظرے ہوئے جن میں شیخین کی حیثیت، چور کے ہاتھ کاٹنے اور احکام حج کے بارے میں مناظرہ، آپ کے معروف مناظرے ہیں۔

نام و نسب

امام محمد تقی علیہ السلام آسمان عصمت کے گیارهویں درخشاں ستارے اور ہمارے نویں امام ہیں۔ آپ کے والد بزرگوار حضرت امام علی رضاعلیہ السلام اور والدۀ ماجدہ حضرت سبیکہ علیھا السلام ہیں جن کا تعلق پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلّم کی زوجہ حضرت ماریہ قبطیہ رضی اللہ عنها سے ہے۔ آپ کی والدہ کے ناموں میں "ریحانہ" اور "خیزران" بھی شامل ہیں۔ آپ فضائل و کمالات کے اعتبار سے اپنے زمانہ کی بلند مرتبہ خاتون تھیں ۔ (۱)یہاں تک کہ خود امام علی رضا علیہ السلام نے اپنی زبان عصمت سے انہیں با فضیلت اور پاکدامن خاتون کہا ہے۔(۲)

امام کے دو بیٹے تھے:

۱- امام علی نقی علیہ السلام جو ہمارے دسویں امام ہیں۔

۲- حضرت موسیٰ مبرقع علیہ السلام جن سے رضوی سادات کی نسل چلی جو آج دنیا کے گوشے گوشے میں موجود ہے۔

شیخ مفید کی روایت کے مطابق امام محمد تقی کی چار اولاد امام علی نقی، موسی مبرقع، فاطمہ و اَمامہ ہیں۔(3) البتہ بعض راویوں نے آپؑ کی بیٹیوں کی تعداد حکیمہ، خدیجہ و ام کلثوم کے نام سے تین بتائی ہے۔(4)

القاب اور کنیت

جواد، تقی، مرتضی، قانع، رضی، مختار، باب المراد وغیرہ آپ کے مشہور القاب ہیں۔ اور "ابو جعفر "آپ کی کنیت ہے۔ چونکہ آپ کی کنیت اور پانچویں امام حضرت امام محمد باقر علیہ السلام کی کنیت ایک جیسی ہے لہذا فرق کے لئے آپ کی کنیت کے آگے "ثانی" کا اضافہ کر تے ہوئے "ابو جعفر ثانی" لکھا جاتا ہے۔

ولادت

امام محمد تقی علیہ السلام ۱۰ رجب المرجب ۱۹۵ھ کو مدینہ منورہ میں پیدا ہوئے۔ امام رضا علیہ السلام نے پہلے ہی امام کی ولادت کی خوشخبری سنا دی تھی۔ چنانچہ آپ نے اپنی ہمشیرہ جناب حکیمہ علیها السلام سے فرمایا: آج خیزران کا بابرکت بیٹا دنیا میں آئے گا لہذا اب سات دن تک ان کے ساتھ رہيے گا۔ حکیمہ خاتون کہتی ہیں: جب امام محمد تقی علیہ السلام پیدا ہوئے تو ایک ایسا نور ساطع ہوا جس سے پورا حجرہ روشن ہوگیا ۔(5) دنیا میں آنے کے بعد آپ کی زبان اقدس پر یہ جملے جاري ہوئے:" أشْهَدُ اَنْ لا اِلهَ اِلّا اللّه وَاَنَّ مُحَمَّدا رَسُولُ اللّه"۔ ولادت کے تیسرے روز جب آپ کو چھینک آئی تو فرمایا:" اَلْحَمْدُ للّه وَصَلّی اللّه عَلی مُحَمَّدٍ وَعَلَی الأئِمّة الرّاشِدین "۔ جناب حکیمہ نے جب امام محمد تقی علیہ السلام کے لب مبارک سے یہ جملے سنے تو آپ امام رضا علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور فرمایا: میں اس بچے میں عجیب و غریب اور حیرت انگیز چیزوں کا مشاہدہ کر رہی ہوں۔ امام نے فرمایا:"یا حَکیمةُ، ماتَرَوْنَ مِنْ عَجائِبِه أَکْثَرُ "۔ اے حکیمہ! آئندہ مزید حیرت انگیز باتوں کا مشاہدہ کیجئے گا۔(6)

امام محمد تقی علیہ السلام، اس زمانے مین بابرکت مولود اور خوش قدم بچہ کے عنوان سے مشہور تھے، جس کا اصل سبب امام علی رضا علیہ السلام کا وہ ارشاد تھا جسے ابو یحیی صنعانی نے نقل کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں: ایک روز میں امام رضا علیہ السلام کی خدمت میں حاضر تھا۔ اسی دوران آپ کے فرزند ابو جعفر کو لایا گیا جو ابھی بہت چھوٹے تھے، امام نے فرمایا: اس نو مولود بچہ سے زیادہ ہمارے شیعوں کے لئےباعث برکت کوئی بچہ پیدا نہیں ہوا ہے۔ مکہ میں بھی کچھ لوگوں کے درمیان آپ نے یہی فرمایا ۔(7)(8)

عصر امامت

امام تقریبا سات برس اپنے والد بزرگوار کے ہمراہ رہے۔ اس کمسنی میں آپ کو اپنے بابا کی مظلومانہ شہادت سے روبرو ہونا پڑا۔ اپنے بابا کی جانگداز شہادت کے بعد آپ امامت کے ظاہری منصب پر فائز ہوئے ۔ اتنی کمسنی میں منصب امامت کی باگ ڈور سنبھالنے والے آپ واحد امام ہیں۔ یہ مسئلہ ایسا تھا جس کے موجب آٹھویں امام کے بعض صحابہ تک شک و تردید میں مبتلا ہوگئے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ حضرت امام علی رضا اور خود امام محمد تقی علیهما السلام نے اس سلسلہ میں روشنی ڈالی اور شبهات کا جواب دیا۔ خالص اسلامی اور شیعی عقیدہ کی بنیاد پر امامت میں سن اور عمر کی شرط نہیں ہوتی۔ امامت بھی نبوت کی طرح الہی عہدہ ہے لہذا اس کا اختیار بھی اللہ کے ہاتھوں میں ہے۔ وہ جس عمر میں چاہے ، اپنے عہدے، مورد نظر بندوں کے سپرد کر سکتا ہے۔ قرآن مجید میں اس کی مثالیں موجود ہیں:

1- حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے سلسلہ میں قرآن مجید میں موجود ہے کہ جب آپ ماں کی گود میں ہوا کرتے تھے اس وقت فرمایا: ۔ "میں اللہ کا بندہ ہوں، اس نے مجھے کتاب عطا کی ہے اورمجھے نبی قرار دیا ہے"۔(9)

2- حضرت یحیی علیہ السلام کے سلسلہ میں بھی صاف طور پر قرآن میں موجود ہے کہ اللہ نے انہیں بچپن میں ہی نبوت عطا کی۔ ارشاد ہوتا ہے: "ہم نے انہیں [یحیی] کو بچپنے میں منصب نبوت عطا کیا"۔(10)

لہذا جس طرح اللہ نے حضرت عیسی اور حضرت یحیی علیهما السلام کو بچپنے میں نبی بنایا اسی طرح امام محمد تقی علیہ السلام کو بچپنے میں امام بنایا۔ اگر چہ نویں امام کافی کم عمری میں ظاہری منصب امامت پر فائز ہوئے تاہم آپ کی امامت کا سترہ برس پر مشتمل دور بہت سے دیگر معصومین علیهم السلام کی مدّت امامت سے قدرے طولانی ہے۔ مامون اور معتصم آپ کے ہمعصر عباسی خلفاء تھے۔

امام علی رضا علیہ السلام کی شہادت کے بعد مامون خراسان سے بغداد گیا ۔ وہ امام محمد تقی علیہ السلام کے علمی و معنوی فضائل سے خوب آگاہ تھا لہذا اس نے امام کو مدینہ سے بغداد آنے کی دعوت دی۔ اس کا اصل مقصد یہ تھا کہ امام کی فعالیتوں پر نظر رکھ سکے ۔ وہ امام کی شادی اپنی بیٹی ام الفضل سے کرنا چاہتا تھا، یہ چال بھی اس کے اس مقصد کا ہی حصہ تھی، اس کے علاوہ اس کا دوسرا مقصد یہ تھا کہ اپنے خلاف اٹھنے والی علوی تحریکوں کو خاموش کر سکے۔ اس کے قریبیوں کو اس شادی پر اعتراض تھا لہذا اس نے ایک مناظراتی نشست منعقد کروائی جس میں امام نے مختلف علماء و دانشوروں کے سوالات کے جوابات دئے ، سب کے سب مبہوت ہوکر رہ گئے۔ اس کے بعد مامون نے اپنی بیٹی کی شادی امام سے کردی۔

ظاہر ہے یہ شادی امام کی رضایت پر مبتنی نہ تھی بلکہ مامون نے امام کو اس بات پر مجبور کیا تھا ،یہاں تک کہ انہیں قتل کی دھمکی تک دی تھی۔ اگرچہ امام کی لغت زندگی میں خوف نام کا کوئی لفظ نہیں ہوتا لیکن کبھی وقت ایسا ہوتا ہے جس میں شہادت سے زیادہ امام کے زندہ رہنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ مصلحت خدا یہی تھی کہ امام زندہ رہیں۔ دوسرے یہ کہ اگر امام شادی نہ کرتے تو آپ کو تو شہید کیا ہی جاتا، شیعوں کو بھی تباہ و برباد کر دیا جاتا۔ ہمارے معصومین علیهم السلام کا ہمیشہ ایک اہم مقصد شیعوں کو تحفظ فراہم کرنا تھا۔ ظاہر ہے کہ مامون کی بیٹی سے شادی کی صورت میں، شیعوں کے خلاف اس کی سازشوں میں قدرے کمی آ سکتی تھی جو کہ آئی بھی۔

امام محمد تقی علیہ السلام کی دوسری زوجہ حضرت سمانہ علیها السلام تھیں۔ آپ دسویں امام حضرت امام علی نقی علیہ السلام کی والدۀ ماجدہ ہیں۔ آپ نہایت عفیف اور با فضیلت خاتون تھیں۔

امام کےعلم و اخلاق کے چند نمونے

امام محمد تقی علیہ السلام اعلیٰ اخلاقی فضائل و کمالات کے حامل تھے۔ بے مثال زہد و تقویٰ، عبادت و بندگی،علم و حلم،حسن خلق، جود و سخا، عفو و درگذر جیسی دیگر تمام خصوصیات آپ کے کردار کی آئینہ دار نظر آتی ہیں۔ آپ کی عظمت و فضیلت کا اظہار و اعتراف علمائے شیعہ ہی نہیں بلکہ اہل سنت کے بڑے بڑے علماء نے بھی کیا ہے:

ابن جوزی کہتے ہیں: "آپ علم و تقویٰ اور زہد و بخشش میں اپنے پدر بزرگوار کے راستہ پر تھے"۔(11)

ابن حجر ہیثمی کہتے ہیں: "…آپ کمسنی میں ہی علم و دانش اور حلم و بردباری میں تمام دیگر دانشوروں پر برتری رکھتے تھے"۔(۱2)

شبلنجی کہتے ہیں: "… آپ نے کمسنی میں ہی اپنے فضل و علم اور کمال عقل کا مظاہرہ کیا اور اپنے برہان کو لوگوں پر واضح کر دیا"۔(13)

آپ کی ذات ستودہ صفات پر بطور کامل روشنی ڈالنا اور آپ کے تمام کمالات کو شمار کرنا یقیناً نا ممکن ہے، بس نمونہ کے طور پر چند مثالیں معروض ذیل ہیں:

علم و دانش

امام جواد علیہ السلام علم کے میدان میں سرآمد روزگار تھے۔ آپ کا وجود علوم الہیہ کا مخزن تھا ۔ آپ خدا داد علمی صلاحیتوں کے ایسے مالک تھے کہ انتہائی کمسنی میں آپ نے زمانے کے بڑے بڑے عالموں سے مناظرہ کیا اور انہیں اپنے مستحکم دلائل و برہان کے ذریعہ مبہوت و لاجواب کر دیا۔ جن میں سر فہرست یحیی بن اکثم کے ساتھ ہونے والا مناظرہ ہے جسے تاریخ نے اپنے دامن میں محفوظ کر لیا ۔ (۱4)خود مامون کو اعتراف کرنا پڑا:"اس خاندان سے تعلق رکھنے والوں کے لئے کمسنی ، عقل کے کمال میں رکاوٹ نہیں ہوتی "۔ (۱5)دوست و دشمن آپ کےبے نظیر علم و فضل کے قائل تھے۔ بڑے بڑے راوی، محدثین، فقہاء و علماء نے اس کمسن امام کے حضور زانوئے ادب تہہ کئے اور اس منبع علوم سے فیضیاب ہوئے۔ علمی آثار و مکتوبات پر تاریخ کی بے انتہا جفاکاریوں کے باوجود،موجودہ کتب احادیث و تفاسیر میں عقائد، تفسیر، فقہ اور دیگر موضوعات کے سلسلہ میں آپ سے بکثرت روایات نقل ہوئی ہیں۔

على بن مهزيار، محمد بن ابى عمير، احمد بن محمد بن ابى نصر بزنطى، زكريا بن آدم، محمد بن اسماعيل،فضل بن شاذان، حضرت عبد العظیم حسنی، حبيب بن اوس طائى، حسن بن محبوب، على بن اسباط، عبدالله بن الصلت، سعد بن سعد القمى، حسن بن سعيد اهوازى، دعبل خزاعی جیسی بہت سی دیگر عظیم ہستیوں کو آپ کی شاگردی کا شرف و افتخار حاصل ہے۔

یحیی بن اکثم کے ساتھ ہونے والا مناظرہ

ایک روز خلیفہ کی موجودگی میں جب امام جوادؑ، یحیي بن اکثم اور دوسرے لوگ بیٹھے ہوئے تھے، یحیي نے امام علیہ السلام سے کہا :روایت ہوئی ہے کہ جبرئیلؑ،پیغمبر اکرم(ص) کی خدمت میں پہنچے اور کہا : یا محمدؐ ! خداوند عالم نے آپ پر سلام کہا ہے اور کہا ہے : میں ابوبکر سے راضی ہوں، اس سے پوچھو کہ کیا وہ بھی مجھ سے راضی ہے؟ اس حدیث کے متعلق آپ کا کیا نظریہ ہے؟

امامؑ نے فرمایا: جس راوی نے یہ خبر نقل کی ہے اس کو دوسری وہ خبر بھی بیان کرنی چاہئے تھی جو پیغمبرؐ اکرم نے حجة الوداع میں بیان کی تھی، پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے فرمایا تھا : جو بھی میرے اوپر جھوٹی تہمت لگائے گا اس کا ٹھکانہ جہنم ہوگا، لہذا اگر میری کوئی حدیث تمھارے سامنے پیش کی جائے تو اس کو کتاب خدا اور میری سنّت سے ملا کر دیکھو، جو بھی کتاب خدا اور میری سنّت کے مطابق ہو اس کو لے لو اور جو کچھ کتاب خدا اور میری سنت کے خلاف ہو اس کو چھوڑ دو ۔

امام محمد تقی (علیہ السلام) نے مزید فرمایا: (ابوبکر کے متعلق) یہ روایت خدا کی کتاب سے موافقت نہیں رکھتی کیونکہ خداوند عالم نے فرمایا ہے : ہم نے انسان کو خلق کیا ہے اور ہم ہی جانتے ہیں کہ اس کے دل میں کیا ہے اور ہم اپنے بندے سے اس کی شہ رگ سے زیادہ نزدیک ہیں (سوره ق: 16)۔ کیا ابوبکر کی خوشنودی یا ناراضگی خدا کے لیے پوشیدہ تھی کہ وہ اس کے بارے میں پیغمبر اکرم (ص) سے پوچھتا؟ یہ بات عقلی طور پر محال ہے۔

یحیی نے کہا: اس طرح بھی روایت ہوئی ہے : ابوبکر اور عمر زمین پر اس طرح ہیں جیسے آسمان پر جبرئیلؑ و میکائیلؑ ہیں ۔

آپؑ نے فرمایا: اس حدیث کے متعلق بھی غور و فکر سے کام لو۔ جبرئیلؑ و میکائیلؑ خداوندعالم کی بارگاہ میں مقرب دو فرشتے ہیں اور ان دونوں سے کبھی بھی کوئی گناہ سرزد نہیں ہوا ہے اور یہ دونوں ایک لمحہ کے لئے بھی خدا کی اطاعت کے دائرے سے باہر نہیں ہوئے ہیں جبکہ ابوبکر اور عمر ایک عرصے تک مشرک تھے اگرچہ ظہور اسلام کے بعد مسلمان کہلائے مگر ان کی بیشتر عمر حالت شرک اور بت پرستی میں گزری ہے۔ اس بناء پر محال ہے کہ خداوند عالم ان دونوں کو جبرئیلؑ اور میکائیلؑ سے تشبیہ دے ۔

یحیی نے کہا: اسی طرح ایک اور روایت ہوئی ہے کہ ابوبکر اور عمر اہل بہشت میں بوڑھے لوگوں کے سردار ہیں۔ اس حدیث کے متعلق آپ کیا کہتے ہیں؟

آپؑ نے فرمایا: اس روایت کا صحیح ہونا بھی محال ہے کیونکہ تمام اہل بہشت جوان ہوں گے اوران کے درمیان کوئی ایک بھی بوڑھا نہیں ہوگا(تاکہ ابوبکر اور عمر ان کے سردار بن سکیں) یہ روایت بنی امیہ نے پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی اس حدیث کے مقابلے میں کھڑی کی ہے جو امام حسن اور امام حسین (علیہما السلام ) کے متعلق بیان ہوئی ہے ،نقل ہوا ہے کہ حسنؑ و حسینؑ، جوانان جنت کے سردار ہیں ۔

یحیی نے کہا: یہ بھی ایک روایت نقل ہوتی ہے کہ “عمر بن خطاب اہل بہشت کے چراغ ہیں۔”

آپؑ نے فرمایا: یہ بھی محال ہے کیونکہ بہشت میں خدا کے مقرب فرشتے، انبیاء، جناب آدم، آنحضرتؐ اور تمام فرشتے موجود ہیں پھر کس طرح ممکن ہے کہ بہشت ان کے نور سے روشن نہ ہو لیکن عمر کے نور سے روشن ہوجائے؟

یحیی نے کہا: روایت ہوئی ہے کہ “سکینہ” عمر کی زبان سے بولی ہوئى باتیں ہیں۔ (یعنی عمر جو کچھ کہتے ہیں وہ ملائکہ اور فرشتوں کی طرف سے ہے) ۔

آپؑ نے فرمایا: ۔۔۔ ابوبکر جو کہ عمر سے افضل تھے، منبر کے اوپر کہتے تھے: میرے پاس ایک شیطان ہے جو مجھے منحرف کردیتا ہے، لہذا تم جب بھی مجھے منحرف ہوتے ہوئے دیکھو تو میرا ہاتھ پکڑ لینا ۔

یحیی نے کہا: یہ بھی روایت ہوئی ہے کہ پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے فرمایا: اگر میں نبوت کے لئے مبعوث نہ ہوتا تو یقیناً عمر مبعوث ہوتے ۔

آپؑ نے فرمایا: یقیناً کتاب خدا (قرآن کریم) اس حدیث سے زیادہ سچی اور صحیح ہے، خداوند عالم نے اپنی کتاب میں فرماتا ہے : (وَإِذْ أَخَذْنَا مِنَ النَّبِيِّينَ مِيثَاقَهُمْ وَمِنْكَ وَمِنْ نُوحٍ وَإِبْرَاهِيمَ وَمُوسَىٰ وَعِيسَى ابْنِ مَرْيَمَ ۖ وَأَخَذْنَا مِنْهُمْ مِيثَاقًا غَلِيظًا) ( سورہ احزاب، آیت ٧) ۔ اور اس وقت کو یاد کیجئے جب ہم نے تمام انبیاء( علیہم السّلام) سے اور بالخصوص آپؐ سے اور نوح (علیہ السلام)،ابراہیم (علیہ السّلام)، موسیٰ (علیہ السّلام) اور عیسٰی بن مریم (علیہما السلام) سے عہد لیا اور سب سے بہت سخت قسم کا عہد لیا۔ اس آیت سے واضح طور پر معلوم ہو رہا ہے کہ خداوند عالم نے انبیاء سے عہد و پیمان لیا تھا پھر کس طرح ممکن ہے کہ وہ اپنے عہد و پیمان کو بدل دیتا؟ انبیاء میں سے کسی ایک نبی نے ذرا سی دیر کے لئے بھی شرک اختیار نہیں کیا، لہذا کس طرح ممکن ہے کہ خداوند عالم ایسے شخص کو نبوت کے لئے مبعوث کرے جس کی عمر کا اکثر و بیشتر حصہ خدا کے شرک میں گزرا ہو؟ نیز پیغمبر اکرم (ص) نے فرمایا : جس وقت آدمؑ آب و گل کے درمیان تھے (یعنی ابھی خلق نہیں ہوئے تھے) میں اس وقت بھی نبی تھا ۔

یحیی نے پھر کہا: روایت ہوئی ہے کہ پیغمبر اکرم (ص) نے فرمایا : کبھی بھی مجھ سے وحی قطع نہیں ہوئی اور اگر قطع ہوئی تو مجھے یہ خیال آیا کہ وحی خطاب (عمر کے باپ) کے گھر میں منتقل ہوگئی ہے ۔ یعنی نبوت میرے گھر سے ان کے گھر میں منتقل ہوگئی ہے ۔

آپؑ نے فرمایا: یہ بھی محال ہے کیونکہ ممکن نہیں ہے کہ پیغمبرؐ اکرم اپنی نبوت میں شک کریں، خداوند عالم فرماتا ہے: خداوند فرشتوں اور اسی طرح انسانوں کے درمیان سے انبیاء کا انتخاب کرتا ہے( سوره حج: 75) ۔ اس بناء پر خدا کے انتخاب کے بعد پیغمبر اکرم (ص) کے لئے کوئی شک و شبہ باقی نہیں رہ جاتا) ۔

یحیی نے کہا: روایت میں ذکر ہوا ہے کہ پیغمبر اکرم (ص) نے فرمایا: اگر عذاب نازل ہوتا تو عمر کے علاوہ کسی اور کو نجات نہ ملتی ۔

امام علیہ السلام نے فرمایا: یہ بھی محال ہے کیونکہ خداوند عالم نے پیغمبر اکرم (ص) سے فرمایا ہے : جب تک تم ان کے درمیان ہو اس وقت تک خداوند عالم ان پر عذاب نہیں کرے گا اور جب تک یہ استغفار کرتے رہیں گے اس وقت تک ان پر عذاب نہیں ہوگا (سوره انفال: 33) ۔ اس وجہ سے جب تک پیغمبر اکرم (ص) ان کے درمیان ہیں اور جب تک لوگ استغفار کرتے رہیں گے، خدا ان پر عذاب نازل نہیں کرے گا.(16)

احکام حج کے بارے میں مناظرہ

یحیی ابن اکثم نے امام تقى عليه السلام سے پوچھا: کیا اگر کوئی شخص احرام کی حالت میں شکار کرے تو اس کا کفارہ کیا ہے؟

امام محمد تقی (ع)نے اس سے سوال کیا: اس نے شکار حرم میں کیا تھا یا حرم کے باہر، محرم عالم تھا یا جاہل، عمداً ایسا کیا تھا یا غلطی سے ایسا ہوگیا تھا، محرم آزاد تھا یا غلام، وہ عمرہ کے احرام میں تھا یا حج کے احرام میں؟

یحیی ابن اکثم ان سوالات کا جواب دینے سے حیران رہ گیا اس طرح کہ اس کے چہرہ پر عاجزی کے آثار نمایاں ہوگئے اور حاضرین نے اچھی طرح اسے محسوس کر لیا۔ اس وقت مامون نے کہا اس نعمت اور توفیق پر خدا کا شکر ادا کرتا ہوں اس کے بعد اپنے خاندان والوں کی طرف دیکھا اور کہا دیکھا تم نے میں نے جو کچھ ابو جعفر(ع) کے بارے میں کہا تھا وہ حق تھا۔

پھر اس کے بعد امام تقى(ع)سے عرض کیا اگر آپ مناسب سمجھیں تو ان فقہی مسائل کی فروعات کا جواب آپ خود ہی دیدیں تاکہ ہمارے علم میں اضافہ ہوسکے۔

امام(ع)نے فرمایا: اگر شکار حرم کے باہر کیا ہو اور وہ شکار بڑے پرندے کا ہو تو ایک گوسفند کفارہ میں دے۔

اگر حرم میں مارا ہو تو دو گوسفند دے۔

اگر شکار جوجہ (چھوٹے پرندہ) کا ہو اور حرم کے باہر مارا ہو تو ایک گوسفند کا بچہ کفارے میں دے جس کا دودھ چھڑا دیا گیا ہو۔

اور اگر جنگلی گدھے کا شکار کیا ہو تو اس کا کفارہ ایک گائے ہے ۔

اگر شتر مرغ کا شکار کیا ہو تو اس کا کفارہ ایک اونٹ ذبح کرنا ہے۔

اگر شکار ہرن کا ہو تو اس کا کفارہ ایک گوسفند ہے۔

اگر ان میں سے کسی ایک کا شکار حرم میں کیا ہو تو کفارہ دو گنا ہوجائے گا اور کعبہ کے پاس ذبح کرنا پڑے گا۔

اگر احرام حج کا ہو تو وہ قربانی کا جانور ساتھ لیکر آئے اور اسے منی میں ذبح کرے حالت احرام میں کفارہ عالم اور جاہل دونوں کے لئے برابر ہے.

اگر عمداً کیا ہو تو گناہگار بھی اور اگر غلطی سے ہوگیا ہو تو گناہگار نہ ہوگا صرف کفارہ واجب ہوگا۔

جو کفارہ آزاد شخص پر واجب ہے وہ خود اسے دینا پڑے گا لیکن اگر غلام ہے تو اس کا کفارہ اس کے آقا پر لازم ہے۔

اگر شکار کرنے والا نابالغ ہو تو اس پر کفارہ واجب نہیں ہے۔ حالت احرام میں شکار کرنے والا اگر اپنے عمل پر توبہ کرلے تو آخرت میں اس پر عذاب نہیں ہوگا لیکن اگر توبہ نہ کرے اور اپنے گناہ پر اصرار کرے تو آخرت میں بھی عذاب کا مستحق ہوگا۔

یہ سن کر مامون نے کہا: شاباش ابو جعفر خدا آپ کو جزائے خیر عطا کرے اگر مناسب سمجھیں تو آپ بھی یحیی سے کوئی سوال کریں۔

ايك عورت كى طرف نظر كرنا حلال اور حرام

امام ابو جعفر(ع)نے یحیی ابن اکثم سے فرمایا: اجازت ہے کہ ایک سوال کروں؟

اس نے عرض کیا: پوچھئے اگر مجھے اس کا جواب معلوم ہوا تو جواب دے دوں گا ورنہ اس کا جواب خود آپ ہی سے معلوم کرلوں گا۔

امام(ع)نے فرمایا: مجھے ایسے شخص کے بارے میں بتائیں جس نے دن کی ابتدا میں ایک عورت کی طرف دیکھا تواس کا دیکھنا حرام تھا، دن چڑھ جانے کے بعد اس مرد کے لئے اس عورت کی طرف دیکھنا حلال ہوگیا۔ ظہر کے وقت اس عورت کی طرف دیکھنا پھر حرام ہوگیا اور عصر کے وقت اس کی طرف دیکھنا حلال ہوگیا، غروب آفتاب کے بعد دوبارہ اس عورت پر نظر ڈالنا حرام ہوگیا، عشاء کے وقت پھر حلال ہوگیا، آدھی رات میں پھر حرام ہوگیا، طلوع فجر کے وقت پھر حلال ہوگیا۔ یہ عورت کیسی عورت ہے اور یہ حلیت و حرمت کس طرح پیش آتی ہے؟

یحیی ابن اکثم نے عرض کیا: مجھے ان سوالوں کا جواب نہیں معلوم، آپ بتا دیجئے تاکہ ہمارے علم میں اضافہ ہو جائے۔

امام(ع)نے فرمایا: مذکورہ عورت ایک کنیز ہے جس کی طرف دن کی ابتدا میں ایک نامحرم دیکھتا ہے تو اس کا دیکھنا حرام ہے لیکن دن چڑھے وہ مرد اس کنیز کو اس کے آقا سے خرید لیتا ہے تو اس کی طرف دیکھنا حلال ہو جاتا ہے۔ ظہر کے وقت اس کو آزاد کر دیتا ہے تواس کی طرف دیکھنا پھر حرام ہو جاتا ہے۔ عصر کے وقت اس سے شادی کرلیتا ہے اوراس عورت کو دیکھنا حلال ہو جاتا ہے ۔مغرب کے وقت ظہار کی صورت میں اس سے الگ ہو جاتا ہے اور اس کو دیکھنا حرام ہو جاتا ہے۔ عشاء کے وقت کفارہ دیدیتا ہے اور اس کی طرف دیکھنا پھر حلال ہو جاتا ہے۔ آدھی رات میں اسے طلاق دیدیتا ہے اوراس کی طرف دیکھنا حرام ہو جاتا ہے ۔ طلوع فجر کے وقت اسے پھر رجوع کر لیتا ہے اور اس کی طرف دیکھنا حلال ہو جاتا ہے۔

یہ سن کر مامون نے حاضرین کی طرف رخ کر کے کہا: تم میں سے کون اس طرح فقہی مسائل کا جواب دے سکتا ہے؟

ان لوگوں نے عرض کیا: ہم میں ایسا کوئی نہیں ہے۔

مامون نے کہا: تم لوگوں نے جو فضل و کمال اور جو علم دیکھا وہ اہلبیت(ع)کا خاصہ ہے اور کمسنی ان کو ان کمالات سے محروم نہیں کرتی ہے۔

جب حاضرین امام جواد(ع)کے فضائل و کمالات سے آگاہ ہوگئے تو مامون نے امام(ع)کے ساتھ اپنی بیٹی ام الفضل کا عقد کر دیا۔خطبۂ عقد پڑھا گیا اور حاضرین کے درمیان ہدایا تقسیم کئے گئے۔ (17)

جود و کرم

امام علی رضا علیہ السلام نے آپ کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا: مرکزی دروازہ سے رفت و آمد کیا کیجئے۔ اپنے ساتھ سونے چاندی رکھا کیجئے اور اپنے چچا حضرات کو ۵۰ دینار سے کم نہ دیا کیجئے، انفاق کیجئے اور فقر و تنگدستی کا خوف نہ رکھئے اس لئے کہ اللہ کی قدرت آپ کے ساتھ ہے۔ امام محمد تقی علیہ السلام اپنے بابا کی نصیحت پر ہی عمل کیا کرتے تھے۔(۱8)

لوگوں کے ساتھ نیکی کرنا ائمہ معصومین علیهم السلام کی زندگی کا اہم جزو ہے۔ امام محمد تقی الجواد علیہ السلام بھی اس میدان میں پیش پیش نظر آتے ہیں۔ آپ کی نظر میں کسی ضرورتمند کے ساتھ نیکی کرناجتنا اس ضرورتمند انسان کے لئے مفید ہے اس سے زیادہ خود نیکی کرنے والے کے لئے فائدہ مند ہے۔ آپ فرماتے ہیں: نیکی کرنے والوں کو نیکی کرنے کی ضرورت محتاجوں اور ضرورتمند انسانوں سے زیادہ ہے، کیونکہ اس عمل کے ذریعہ نیک افراد اپنے پروانۀ اعمال میں جزائے آخرت اور نیک نامی و افتخار کو محفوظ کر لیتے ہیں۔ جو بھی محتاجوں کی خدمت اور ان کے ساتھ نیکی کرتا ہے درحقیقت وہ پہلے اپنے حق میں نیکی کرتا ہے، لہذا اسے ایسے عمل کے شکریہ اور قدردانی کی توقع دوسرے سے نہیں رکھنا چاہئے جسے اس نے اپنے لئے انجام دیا ہے۔(۱9)

عقدہ کشائی

روایت میں آیا ہے کہ خراسان کے سجستان کا ایک شخص سفر حج کے دوران امام کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی کہ میں اپنے شہر کے گورنر کا مقروض ہوں، وہ آپ اہل بیت کا دوستدار ہے، آپ ایک مکتوب اس کے نام تحریر کردیجئے تاکہ میرا ٹیکس معاف کر دے۔ امام نے ایک کاغذ اٹھایا اور اس پر تحریر فرمایا: "نامہ بر کا کہنا ہے کہ تم خوش عقیدہ انسان ہو ، لہذا اس کے ساتھ نیکی کرو" ۔ والی شہر حسين بن عبدالله نيشابورى کو خط کے بارے میں پہلے ہی خبر ہو گئی تھی لہذا وہ سجستان میں اس کے استقبال کو پہنچا، اس کی مشکلات کو جانا، ٹیکس معاف کیا اور اس کی مناسب مدد بھی کی۔(20)

صبر و بردباری

نویں امام مصائب و آلام کے مقابلہ میں انتہائی صبر کرنے والے تھے۔ آپ کبھی مضطرب نہیں ہوتے تھے بلکہ اللہ پر بھروسہ کرتے ہوئے حلم و بردباری کی راہ پر باقی رہتے تھے۔ بد اخلاق اور کج دہن زوجہ کے مقابلہ میں صبر و بردباری، ظالم و جابر حاکموں کے مقابلہ میں اللہ پر بھروسہ اور اپنے بابا کی شہادت جیسے دردناک واقعات پر تحمّل کا مظاہرہ، آپ کی اس عظیم صفت کی چند مثالیں ہیں۔ آپ صبر و شکیبائی کو نیک انسانوں کی ایک اہم صفت جانتے تھے۔(21)

استجابت دعا

داؤد بن قاسم کہتے ہیں: "ایک دن میں امام جوادؑ کے ہمراہ ایک باغ میں پہنچا اور میں نے عرض کیا: "میں آپ پر فدا ہوجاؤں! میں مٹی اور گارا کھانے کا بہت شوقین ہوں؛ آپ دعا فرمائیں (تاکہ میں اس عادت سے چھٹکارا پاؤں)۔ آنجناب نے جواب نہیں دیا اور چند روز بعد بغیر کسی تمہید کے فرمایا: "اے ابا ہاشم! خداوند متعال نے مٹی کھانے کی عادت تم سے دور کردی”۔ ابو ہاشم کہتے ہیں: اس دن کے بعد میرے نزدیک مٹی کھانے سے زیادہ منفور چیز کوئی نہ تھی”۔(22)

درخت پر پھل آ جانا

بغداد سے مدینہ واپسی کے وقت بڑی تعداد میں لوگ امام جوادؑ کو وداع کرنے کے لئے شہر سے باہر تک آئے۔ نماز مغرب کے وقت ایک مقام پر پہنچے جہاں ایک پرانی مسجد تھی۔ امامؑ نماز کے لئے مسجد میں داخل ہوئے۔ مسجد کے صحن میں سدر (بیری) کا ایک درخت تھا جس نے اس وقت تک پھل نہیں دیا تھا۔ امامؑ نے پانی منگوایا اور درخت کے پاس بیٹھ کر وضو کیا اور نماز جماعت ادا کی اور نماز کے بعد سجدہ شکر بجالائے اور بعدازاں بغدادیوں سے وداع کرکے مدینہ روانہ ہوئے۔ اس رات کے دوسرے روز اس درخت نے خوب پھل دیا؛ لوگ بہت حیرت زدہ ہوئے۔ مرحوم شیخ مفید کہتے ہیں: "میں نے برسوں بعد اس درخت کو دیکھا اور اس کا پھل کھایا۔(23)

شہادت

عباسی خلیفہ معتصم نے امام جوادؑ کو مدینے سے بغداد بلوایا۔ امامؑ 28 محرم الحرام سنہ 220 ہجری کو بغداد پہنچے اور اسی سال ذی قعدہ کے مہینے اسی شہر میں وفات پاگئے۔(24) بعض مآخذ میں ہے کہ آپ پانچ یا چھ ذی الحج کو وفات پاگئے(25) اور بعض مآخذ میں کہا گیا ہے کہ آپؑ ذوالقعدہ کی آخری تاریخ کو شہادت پاگئے۔(26)

آپؑ کی شہادت کے اسباب کے حوالے سے، مروی ہے کہ بغداد کے قاضی ابن ابی داؤد نے معتصم عباسی کے ہاں چغل خوری کی اور اس سخن چینی کا اصل سبب یہ تھا کہ چور کا ہاتھ کاٹنے کے سلسلے میں امامؑ کی رائے پر عمل ہوا تھا اور یہ بات ابن ابی داؤد اور دیگر درباری فقہاء کی شرمندگی کا باعث ہوئی تھی۔ بہر حال ابن ابی داؤد نے بادشاہ کو شیشی میں اتار دیا تو اس نے قتل امامؑ کا ارادہ کیا جبکہ آپؑ کی عمر 25 سال سے زیادہ نہ تھی۔ معتصم نے اپنی اس نیت کو اپنے ایک وزیر کے توسط سے عملی جامہ پہنایا جس نے امامؑ کو زہر دے کر شہید کردیا۔(27) البتہ بعض دوسروں کی رائے ہے کہ امامؑ کو ام الفضل بنت مامون نے زہر دیا تھا۔(28)

شیخ مفید (متوفی 413 ہجری) کہتے ہیں: "اگرچہ بعض لوگوں کی رائے کے مطابق امامؑ کو زہر کھلا کر شہید کئے گئے ہیں لیکن میرے نزدیک یہ ثابت نہیں ہے چنانچہ میں اس سلسلے میں گواہی نہیں دے سکتا”(29)۔ تاہم مسعودی (متوفی 346ہجری) کا کہنا ہے کہ: "معتصم عباسی اور ام الفضل کا بھائی جعفر بن مامون مسلسل امامؑ کو زہر دینے کے منصوبے بنا رہے تھے۔ چونکہ ام الفضل کی کوئی اولاد نہ تھی اور امام ہادیؑ امام جوادؑ کی دوسری زوجہ سے تھے۔ جعفر نے اپنی بہن کو اکسایا کہ آپؑ کو زہر دے کر قتل کرے۔ چنانچہ اس نے زہر انگور کے ذریعے امامؑ کو کھلا دیا۔ مسعودی کے بقول ام الفضل امام کو زہر دینے کے بعد پشیمان ہوئی اور رورہی تھی۔ اسی حال میں امامؑ نے اس کو بد دعا دی اور آپؑ کی شہادت کے بعد ام الفضل بہت شدید مرض میں مبتلا ہوئی۔(30)

حواله جات

۱ ۔ اثبات الوصیۃ ، مسعودی ص ۲۰۹

۲۔ بحار الانوار، علامہ مجلسی، ج۵۰ ص۱۵۰

3۔ الارشاد، مفید، ج2، ص284

4۔ مناقب آل ابی طالب، ابن شہر آشوب، ج 4،ص 380۔

5۔ منتهی الامال، ج۱، ص۲۱۸

6۔ اعلام الهدایه، ص۲۸

7۔ اصول کافی، ج۱، ص۳۲۱؛ الارشاد، شیخ مفید، ص۳۱۹؛ اعلام الوری، طبرسی، ص۳۴۷؛ کشف الغمه، اربلی، ج۳، ص۱۴۳

8۔ فروع کافی، دارالکتب الاسلامیه، ج۶، ص۳۶۱؛ الامام الجواد من المهد الی اللحد، سیدکاظم قزوینی، مؤسسه البلاغ، ص۳۳۷ 9۔ سورہ مریم/۳۱

10۔ سورہ مریم/۱۲

11۔ تذکره الخواص، ص ۳۵۹

۱2۔ الصواعق المحرقه، ص ۲۰۵

۱3۔ نور الابصار، ص ۱۶۱

۱4۔ بحار الأنوار، علامہ مجلسی،ج 50، ص 75 - 76

۱5۔ اعلام الوری، فضل بن حسن طبرسی، ص۳۵۳

16۔ احتجاج، علامہ طبرسى، ج 2، ص 247 – 248 ، بحار الأنوار، علامہ مجلسى، ج 50، ص 80 – 83

17۔ الارشاد، ج۲، ص۲۸۱؛ الفصول المہمہ، ص۲۴۹

۱8۔ کافی، شیخ کلینی، ج۴، ص۴۳

۱9۔ اربلی، کشف الغمۃ،ص۱۹۲

20۔ کافی، شیخ کلینی، ج۵، ص ۱۱۱

21۔ اربلی، کشف الغمۃ،ج۳، ص۱۹۵

22۔ الارشاد، شیخ مفید، ج2، ص586

23۔مناقب آل ابی طالب، ابن شہر آشوب، ج4، ص390، الارشاد، شیخ مفید، ج2، ص278، فتال نیشابوری، ص241و242

24۔ الارشاد، مفید، ص481

25۔ ابن‌ابی‌الثلج‌، ص‌13

26۔ سعد بن‌ عبدالله‌ اشعری‌؛ ص99۔ فضل‌ بن‌ حسن‌ طبرسی‌، 1417، ج‌2، ص‌106

27۔ تفسیر، عیاشی، ج1، ص320

28۔ زندگانی سیاسی امام جواد، عاملی، ص153

29۔الارشاد، شیخ مفید، 2/311

30۔ اثبات الوصیۃ للامام علی بن ابی طالب علیہ السلام، المسعودی، ص192

باب الحوائج شهزاده علی اصغر عليه السلام

باب الحوائج شهزاده علی اصغر علیہ السلام

اہل بیت علیہم السلام کی ذوات مقدسہ طہارت و عصمت،منا بع نور اور معرفت کی کانیں ہیں۔اس خاندان بزرگوار سے تعلق رکھنے والا ہر فرد خواہ وہ سن صغیر کا مالک ہویا سن کبیر کا اپنی جگہ خورشید عصمت و طہارت،تقویٰ ،شجاعت، شہامت اور قیامت تک مخلوق خدا کے لیے سرچشمہ ہدایت ہیں۔ یہ ایک ایسی معصوم ہستی ہے جو سن کے اعتبار سے سفینہ کربلا میں سب سے چھوٹی تھی لیکن معرفت و ولایت کے اعتبار سے اکمل تھی اور کرب و بلا ایک ایسا سفینہ ہے جس میں ہر عمر سے تعلق رکھنے افراد کے لیے نمونہ عمل موجود ہے اور اس سفینہ کے مالک و سردار کا نام حسین ابن علی عليه السلام ہے جن کے بارے میں رسول "ماینطق عن الهوی" کے مصداق فرماتے ہیں: "إنّ الحسین مصباح الهدیٰ و سفینة النجاة"(۱)

والدین کا تعارف

والد کا اسم گرامی حسین بن علی بن ابوطالب بن عبد المطلب علیہم السلام ۔ امام حسین علیہ السلام کی ذات گرامی کسی تعارف کی محتاج نہیں جن کے بارے میں حبیب خدا فرماتے ہوئے نظر آتے ہیں: "الحسین منی وأنا من الحسین".(2)

والدہ کا اسم گرامی رباب بنت امرء القیس بن عدی بن اوس بن جابر بن کعب بن علیم بن جناب بن کلب تھا۔(۴) امرء القیس جناب رباب ؑ کے والد گرامی دوستداران اہل بیت میں سے تھے اور جانتے تھے کہ بقا ء انسان اس میں مضمر ہے کہ وقت کےامام کی معرفت اور پہچان حاصل کی جائے اور بخاطر امام ہر قسم کی قربانی سے گریز نہیں کرنا چاہیے۔ ہشام کلبی لکھتے ہیں؛ "و کانت الرباب من خیار النّساء وأفضلهنّ." جناب رباب سلام اللہ علیہا بہترین اور افضل ترین عورتوں میں سے تھیں۔ اور جناب رباب کے والد گرامی عرب کے عظیم خاندان کے اشراف میں سے تھے کہ جن کی امام کے نزدیک قدر ومنزلت تھی۔( 3)

سن مبارک

ماہتاب امامت کے اس کران کی عمر کرب و بلا میں ۶ ماہ کی تھی اورشہزادہ ۱۰رجب المرجب ۶۰ہجری کے حسین دن مدینہ منورہ جیسے عظیم شہر میں یہ پھول گلشن امام حسین علیہ السلام میں کھلا جس کی خوشبو سےپورا مدینہ مہک اٹھا۔ یہ امر اس قدر رواج پا گیا کہ آج تقویم شیعہ میں بھی یہی تاریخ ثبت ہو گئی اور آج پورے عالم تشیع میں اسی تاریخ کو شہزادے کی ولادت با سعادت پر جشن کے اہتمام کیےجاتے ہیں (4)

اسم مبارک

معصوم کے اسم مبارک کے بارے میں دو مختلف روایتیں ملتی ہیں۔

۱۔ ایک روایت کے مطابق آپکا اسم گرامی ’’علی‘‘ تھا۔(5)

۲۔ دوسری روایت کے مطابق آپ کا اسم گرامی ’’عبد اللہ‘‘ تھا۔(6)

ارباب مقاتل کے درمیان زیادہ مشہور جناب عبد اللہ ہے(7)۔

على نام ركھنے كى وجه

یزید ملعون نے امام زین العابدین علیہ السلام سے ان کے اسم کے بارے میں پوچھا تو آپ علیہ السلام نے فرمایا میرا نام ’’علی‘‘ ہے۔ جس پر وہ ملعون کہنے لگا وہ تو کربلا میں شہید کر دئیے گئے ہیں ۔ آپ علیہ السلام نے فرمایا وہ میرے بھائی ’’علی بن الحسین ‘‘ تھے ۔ یہ ملعون کہتا ہے کہ کیا وجہ ہے آپ کے والد نے ہر بیٹے کا نام علی رکھا ہے؟امام زین العابدین علیہ السلام نے فرمایا کیونکہ وہ اپنے والد محترم امام علی علیہ السلام سے بہت محبت کرتے تھے جس کی وجہ سے اپنے ہر بیٹے کا نام علی رکھا ہے۔(8)

اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ اس شہزادہ کا اسم گرامی علی تھا اگرچہ ارباب مقاتل کے درمیان شہرت جناب عبد اللہ کی ہے جیسا کہ امام زمانہ عجل اللہ الشریف نےزیارت قائمیہ میں اس شہزادہ کو عبداللہ کے نام سے تعبیر کیا ہےاورتصریح فرمائی ہے کہ بعد از شہادت اس شہزادے کا خون آسمان کی طرف پھینکا گیااور شہزادے کے قاتل کا نام حرملہ ملعون تھا۔(9)

القابات

آپ کو علی اصغر، طفل صغیر، شیر خوار، شش ماہہ، باب الحوائج، طفل رضیع کے ناموں سے بھی پکارا جاتا ہے۔

مختصر زندگی

۲۸رجب المرجب ۶۰ ہجری کو امام حسین علیہ السلام نے بقاء اسلام کے لئے سفر کا آغاز کیااس سفر عظیم میں جہاں خاندان عصمت و طہارت کےدیگر افراد شامل تھےاس کاروان حریت اسلام میں جناب علی اصغر علیہ السلام بھی شامل تھے جبکہ آپ اس وقت صرف اٹھارہ دن کے تھے۔ یہ سفینہ اپنی منا زل طے کرتے ہوئےکربلاجیسے صحرا کی تقدیر بدلنے کے لئے ۲محرم ۶۱ہجری کوآ پہنچا۔

آپ کو عاشور کے دن آپ کے والد گرامی کی آغوش میں حرملہ نے اس وقت تیر مارا جب وہ آپ کی تشنگی بجھانے کے لئے پانی کا تقاضہ کر رہے تھے۔ امام عالی مقام نے آپ کے معصوم سے جسد کو خیمہ گاہ کے نزدیک قبر کھود کر سپرد خاک کردیا۔

زیارت ناحیہ میں آپ کے لئے آیا ہے: "السلام علي عبدالله بن‏الحسين، الطفل الرضيع، المرمي الصريع، المشحط دما، المصعد دمه في السماء، المذبوح ‏بالسهم في حجر أبيه، لعن الله راميه حرملة بن کاهل الأسدي‏."

اسی طرح روزعاشورہ کی ایک زیارت میں ذکر ہوا ہے: "و علي ولدک علي الأصغر الذي فجعت به"‏۔

حضرت علی اصغر علیہ السلام کربلا کے ایک درخشاں چہرے، مظلومیت کی سب سے مظلوم سند اور شہادت کا معتبر ترین زاویہ ہیں۔ تاریخ نے آپ سے زیادہ مظلوم شہادت کسی کی بھی نہیں دیکھی۔ بقاء اسلام، حیات اسلام اور تاریخ اسلام میں اس معصوم شہزادے کا خصوصی حصہ ہے، جہاں پر بھی اسلام کی بات ہوگی اس معصوم کا ذکر ضرور ہو گا۔

حوالہ جات

۱۔ جوادمحدثی،فرہنگ عاشورہبہ نقل ازسفینۃ البحار،ج۱،ص۲۵۷۔

2۔ بحارالانوار،ج۴۳۔

3۔ قمقام زخار،ج۲،ص۶۵۴۔

4۔ مقتل ابومخنف،ص۱۲۹۔

5۔ بحارالانوار،ج۴۵،ص۳۳۱۔

6۔ شیخ مفید،ارشاد،ج۳،ص135۔

7۔ اعلام الوریٰ،ص۲۵۱۔

8۔ الملہوف،ص۲۰۲۔

9 ۔بحارالانوار،ج۴۵،ص۴۴۔

كيا مزارات كو تعمير كرنا  جائز هے؟

كيا مزارات كو تعمير كرنا جائز هے؟

تحرير: سيد غيور الحسنين

قبور پرعمارت بنانا ایک اصطلاح ہے جس میں قبر پر کی جانے والی ہر طرح کی تعمیر شامل ہے ۔ اہل سنت اور شیعوں کے درمیان حکم شرعی کے لحاظ سے قبور پر عمارت بنانے کا اختلاف ایک طرف اور وہابیوں سے ان کا اختلاف ایک اور جہت سے ہے۔ مذاہب اسلامی خاص طور پر شیعہ حضرات طول تاریخ میں بزرگوں، پیشوا اور علما کی قبور پر عمارتیں بناتے چلیں آ رہے ہیں۔ تاریخی لحاظ سے اس امر کی بازگشت صدر اسلام کی طرف ہے نیز تاریخی شواہد کے مطابق صحابہ اور تابعین کی جانب سے کبھی ان تعمیرات کو تنقید کا سامنا نہیں رہا اگرچہ وہابیت کے نزدیک اس کے مفہوم میں وسعت پائی جاتی ہے۔ وہابی معتقد ہیں کہ مردوں کی قبور پر عمارت کی تعمیر ایک طرح سے ان قبور کی عبادت کے مقدمات فراہم کرتی ہے اور عبادت میں شرک کی مانند ہے، جبكه عبادت کسی کو اوصاف الہی سے متصف کرتے ہوئے اس کے سامنے اظہارِ خضوع کرنا ہے۔ اس اشكال كا جواب هم " كيا توسل و شفاعت حرام ہے اور غیر خدا كى هر قسم کی تعظیم شرک ہے؟" کے عنوان سے بيان كر چکے هيں۔ اور يهاں پر مزارات كي تعمير پر دليل بيان كرنا مقصود هے۔

پهلی دلیل: قرآن مجید اصحاب کہف کے واقعہ میں فرماتا ہے کہ جب وہ تقریباً تین سو برس کی طویل نیند سے بیدار ہوئے اور ان کے بارے میں شہر کے لوگوں کو پتہ چلا تو شہر سے لوگ غار کی طرف دوڑے اور جیسے ہی وہاں پہنچے، تو انہوں نے اصحاب کہف کو پھر مردہ پایا۔ قرآن مجید اس کی منظر کشی کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ جب لوگوں نے یہ ماجرا دیکھا تو وہ دو گروہوں میں تقسیم ہو گئے :﴿فَقَالُوا ابْنُوا عَلَيْهِم بُنْيَانًا ۖ رَّبُّهُمْ أَعْلَمُ بِهِمْ ۚ قَالَ الَّذِينَ غَلَبُوا عَلَىٰ أَمْرِهِمْ لَنَتَّخِذَنَّ عَلَيْهِم مَّسْجِدًا[الكهف: 21]

"تو کچھ نے کہا کہ ان (کے غار) پر ایک (یادگاری) عمارت بنا دو۔ ان کا رب ہی ان کا حال بہتر جانتا ہے۔ (آخرکار) جنهوں نے ان كے بارے ميں غلبه حاصل كيا وہ كهنے لگے: ہم ان کے غار پر ضرور ایک مسجد ( یعنی عبادت گاہ) بناتے هيں۔"

جیسا کہ اس آیت سے سمجھ میں آتا ہے کہ ان دونوں گروہوں میں سے کوئی بھی قبروں کو تعمیر کرنے کا مخالف نہیں تھا۔ بس فرق یہ تھا کہ مؤمنین وہاں ایک مسجد بنانا چاہتے تھے جبکہ دوسرے لوگ ان کی نشانی اور یادگار کے طور پر وہاں ایک عالی شان عمارت تعمیر کرنا چاہتے تھے۔

یہ امر بھی ذہن نشین رہے کہ قرآن مجید نے اس ماجرے کو مدح و تعریف کی زبان میں نقل کیا ہے اور اس پر کسی قسم کی تنقید بھی نہیں کی ہے۔ لہذا اس نکتہ سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ یہ کام شرعی ممانعت نہیں رکھتا۔ اور خاص طور پر جبکہ اس آیت میں موجود ’’ لَنَتَّخِذَنَّ عَلَيْهِم مَّسْجِدًا ‘‘ کی تعبیر سے پتہ چلتا ہے کہ انہوں نے اس درخواست کو ایک حکم شرعی کے طور پر لیا تھا۔ بہر کیف! اس تعبیر سے یہ واضح ہو جاتا ہے - وہابیوں کے تصور کے برخلاف - کہ قبروں پر بارگاہ اور گنبد وغیرہ تعمیر کرنا ایک شرعی اور دینی عمل ہے۔

اسی طرح اس واقعہ سے یہ بھی استفادہ ہوتا ہے کہ غیر معمولی لوگوں کی قبروں پر روضے تعمیر کرنا ، سابقہ اقوام اور امتوں کے آداب و سنتوں میں سے بھی رہا ہے ۔ اور وہ لوگ اس کام کو اپنے بزرگوں اور عظیم ہستیوں کے احترام و تجلیل میں انجام دیا کرتے تھے۔

دوسری دلیل: بزرگوں کی قبور پر مزارات تعمیر کرنا ’’ ترفیع بیوت ‘‘ کا ایک مصداق ہے ۔ وہ گھر جن کے لیے اللہ تعالیٰ کی مرضی یہ ہے کہ ان کی رفعت و منزلت بلند و بالا رہے ۔ اور اس کی وضاحت یہ ہے کہ قرآن مجید سورہ نور میں اللہ تعالیٰ کو منور چراغ سے تشبیہ دیتا ہے جو آسمان میں چمکتے ہوئے ستاروں کی طرح روشن ہے پھر اس آیت کے بعد والی آیت میں ان چراغوں کے رکھے جانے کی جگہ ان گھروں کو بتلاتا ہے جن کے لیے خدا کی منشأ یہ ہے کہ ان کا احترام کیا جاتا رہے اور وہ ارفع و اعلیٰ رہیں۔ چنانچہ قرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہے:﴿ فِي بُيُوتٍ أَذِنَ اللَّـهُ أَن تُرْفَعَ وَيُذْكَرَ فِيهَا اسْمُهُ يُسَبِّحُ لَهُ فِيهَا بِالْغُدُوِّ وَالْآصَالِ[النور: 36]

"(هدايت پانے والے) ایسے گھروں میں ہیں جن کى تعظيم كا اللہ نے اذن دیا ہے اور ان میں اس کا نام لینے كا بهى، وه ان گھروں میں صبح و شام الله کی تسبیح کرتے ہیں۔"

واضح سی بات ہے کہ اس آیت میں ’’ بیوت ‘‘ سے مراد مساجد نہیں ہوسکتیں، چونکہ بیوت لفظ بیت کی جمع ہے اور بیت عربی لغت میں ایسی جگہ کو کہتے ہیں کہ جس میں انسان رات بسر کرتا ہے اور مسجد رات گذارنے کی جگہ نہیں ہوتی۔ اسی وجہ سے اسے ’’ بیت ‘‘ نہیں کہا جاتا، بلکہ اس آیت میں ’’ بیوت ‘‘ سے مراد، اولیائے الہی اور ایسے پاک لوگوں کے گھر ہیں کہ جن میں صبح و شام اللہ کی تسبیح ہوتی ہے اور اس کا ذکر کیا جاتا ہے۔

اس آیت میں موجود رفعت و بلندی سے مراد کیا چیز ہے؟ اس کے سلسلہ میں دو احتمال پائے جاتے ہیں :

۱۔ رفعت ظاہری

۲ ۔ رفعت معنوی

اگر اس آیت میں رفعت ظاہری مراد لی جائے تو اس کے معنیٰ یہ ہیں کہ اس گھر کے در و دیوار اور چھت وغیرہ کو بلند کرکے بنایا جائے اور ان کی بلندی کو مزید بڑھایا جائے۔ لیکن چونکہ یہ معنی اس مقام کے شایان شان نہیں ہیں اور اس آیت میں ذکر اور تسبیح الہی کا تذکرہ ہے۔ چنانچہ موضوع اور حکم میں مناسبت کا خیال رکھتے ہوئے۔ تو معنی کا تقاضہ یہ ہے کہ اس سے مراد رفعت معنوی ہونی چاہیے۔ اور کسی گھر کی معنوی رفعت کا تقاضہ یہ ہے کہ اسے تکریم و تعظیم کی نگاہ سے دیکھا جائے اور ان مکانوں کا احترام کیا جائے۔ اور یہ بھی واضح ہے کہ ان گھروں کے احترام کا ایک مصداق، اس مکان کو تعمیرکرنا، اسے منہدم اور مسمار ہونے سے بچانا اور اس کی حفاظت کی کوشش کرنا ہے۔

کئی روایات کے مطابق جب یہ آیت: ’’ فِي بُيُوتٍ أَذِنَ اللَّـهُ أَن تُرْفَعَ ‘‘ نازل ہوئی اور پیغمبر اکرمﷺ نے اسے مسجد میں اصحاب کے سامنے تلاوت کیا تو ایک صحابی نے حضرتﷺ سے سوال کیا: یا رسول اللہ! اس’’ بیوت ‘‘ سے مراد کیا ہے؟ آنحضرتﷺ نے فرمایا : انبیاء(عليهم السلام) کے گھر۔ اسی وقت حضرت ابوبکر اٹھے اور علی و فاطمہ سلام اللہ علیہما کے گھر کی طرف اشارہ کر کے پوچھا: یا رسول اللہ ﷺ! کیا یہ (علی وفاطمہ کا) گھر بھی انہیں گھروں میں سے ہے جنہیں اللہ نے بلند رکھنے کی اجازت دی ہے تاکہ ان کی منزلت، رفیع و اعلیٰ رہے؟ پیغمبرﷺ نے فرمایا : ’’ نعم، من أفضلھا‘‘ ہاں! یہ گھر ان سب میں با فضیلت ہے۔[1]

اس بیان کی روشنی میں اب سوال یہ ہے کہ وہ گھر جو اللہ کے حکم کے موجب سب سے افضل و برتر ہو اور جس کی تکریم و تعظیم ہونی چاہیئے، کس بنیاد پر اس گھر کو جس میں فاطمہ (س) کو دفنایا گیا ہو ویران کرنا جائز ہوگا ؟ کیا اس حکم کو منسوخ کرنے والا کوئی جدید حکم، اللہ کی جانب سے نازل ہوا تھا؟

تيسرى دليل: صالحین اور اولاد رسول اللہ ﷺ کی قبروں کو تعمیر کرنا، ان کی نسبت مسلمانوں کے ادب اور احترام کے ساتھ ساتھ ان سے مودت و محبت کی بھی نشانی ہے اور یہ وہی اجر رسالت ہے جس کی ادائیگی کا انہیں حکم ملا ہے جیسا کہ قرآن مجید کا ارشاد ہے :

﴿قُل لَّا أَسْأَلُكُمْ عَلَيْهِ أَجْرًا إِلَّا الْمَوَدَّةَ فِي الْقُرْبَىٰ[الشورى: 23]

"اے پیغمبر! آپ(ص) کہ دیجيے! میں اس(تبلیغ رسالت) پر تم سے کوئی اجرت نہیں مانگتا سوائے قريب ترين رشته داروں کی محبت کے۔"

بے شک اولیاء الہی کے معنوی مقام كے احترام و تعظیم کا اظہار اور ان سے محبت و مودت کا شرک سے کوئی تعلق نہیں ہے۔


[1] - تفسیر آلوسی ، ج۱۸ ، ص ۱۷۴ ؛ الکشف و البیان عن تفسیر القرآن، ج۷ ، ص ۱۰۷ ؛ الدر المنثور، ج ۵ ، ص ۵۰ ۔’’ أخرج ابن مرویۃ عن أنس بن مالک و بریدۃ قال : قرأ رسول اللہ ھذہ الآیۃ ( فی بیوت ۔۔۔۔) فقام إلیہ علیہ السلام رجل، فقال: أیّ بیوت ھذہ یا رسول اللہ ؟ فقال (ص) : بیوت الأنبیاء علیھم السلام ، فقام إلیہ أبوبکر، فقال: یا رسول اللہ ! ھذا البیت منھا لبیت علی و فاطمة ؟ قال : نعم ، من أفضلھا ۔‘‘

فضائل امام على نقي عليه السلام

فضائل امام على نقي عليه السلام

ہمارے تمام آئمہ علیہم السلام صرف امت کے رہنما اور احکام قرآنی کے بیان کرنے والے نہیں تھے بلکہ شیعہ معارف کے مطابق امام علیہ السلام زمین پر اللہ کا نور، مخلوقات عالم پر اللہ کی حجت کاملہ، حیات کائنات کا محور، خالق اور مخلوق کے درمیان واسطہ فیض، روحانی کمالات کا آئنیہ نور، انسانی فضائل کا اعلٰی نمونہ، تمام اچھائیوں اور نیکیوں کا مجموعہ، علم اور قدرت خدا کا مظہر، بندگان خدا رسیدہ کا اعلٰی شاہکار، ہر طرح کے سہو و نسیاں سے پاک و صاف، رموز زمین، اسرار غیب، اور فرشتگان الٰہی کے راز دان، جن کی ولایت رسول خدا(ص) كے علاوه انبیاء و مرسلین سے بالا تر، جن کی حقیقت ان کے علاوہ کسی اور کے لئے قابل درک نہیں ہے، یہ پروردگار عالم کا خاص عطیہ ہے۔جس سے صرف حضرت محمد و آل محمد علیہم السلام سے مخصوص رکھا، طمع کرنے والے کا یہاں گزارا نہیں ہے۔ آسمان امامت کے دسویں آفتاب، ہمارے مولی، ہمارے ولی و سرپرست حضرت امام ابو الحسن علی نقی علیہ السلام نے ہم شیعوں پر یہ احسان غظیم فرمایا کہ، زیارت جامعہ کبیرہ کی شکل میں معرفت امام علیہ السلام کا لامحدود اور پیش قیمت خزانہ ہمیں عطاء فرمایا۔ (1)معارف خداوندی کے چمن کھلائے، اور علم و دانش کے گوہر روشن کئے اور اپنے دوستوں کو ان کی عقل و فہم کے مطابق رموز امامت سے روشناس کرایا ہے۔ حکمت الٰہی کے ایک گوشہ کی نقاب کشائی کی ہے۔ ہماری جانیں قربان ہوں اس خاک پاک پر جہاں امام علیہ السلام مدفون ہیں کہ ہمیں عظمت الٰہی سے آگاہ کیا اور تشنگان معرفت کو آب کوثر سے سیراب فرمایا۔ حضرت امام علی نقی علیہ السلام نے اپنے ایک دوست کی درخواست پر زیارت جامعہ کبیرہ اسے تعلیم دی تھی کہ اس طرح آئمہ علیہم السلام کی زیارت کیا کرو۔

حضرت ابوالحسن امام علی نقی علیہ السلام ہمارے دسویں امام ہیں ، آپؑ پانچ رجب المرجب (دوسری روایت کے مطابق 15ذی الحجہ) سن 212 ہجری کو مدینہ منورہ کے قریب صریا نامی قریہ میں پیدا ہوئے، یہ وہی قریہ ہے جسے امام موسیٰ کاظم علیہ السلام نے آباد کیا تھا۔ اور 3 رجب المرجب 254 ہجری کو سامرا میں معتز عباسی کے زہر دغا سے شہید ہوئے۔

ادامه نوشته

فضائل امام محمد باقر  عليه السلام

امام محمد باقر عليه السلام کي زندگی کامختصر تعارف

آپ کی ولادت باسعادت

حضرت امام محمد باقر علیہ السلام بتاریخ یکم رجب المرجب ۵۷ ھ یوم جمعہ مدینہ منورہ میں پیدا ہوئے(1)

علامہ مجلسی تحریرفرماتے ہیں کہ جب آپ بطن مادرمیں تشریف لائے تو آباؤ اجداد کی طرح آپ کے گھرمیں آوازغیب آنے لگی اورجب نوماہ کے ہوئے تو فرشتوں کی بے انتہا آوازیں آنے لگیں اورشب ولادت ایک نورساطع ہوا، ولادت کے بعد قبلہ رو ہو کرآسمان کی طرف رخ فرمایا،اور(آدم کی مانند) تین بار چھینکنے کے بعد حمد خدا بجا لائے،ایک شبانہ روز دست مبارک سے نور ساطع رہا، آپ ختنہ کردہ ،ناف بریدہ، تمام آلائشوں سے پاک اورصاف متولد ہوئے(2)

اسم گرامی ،کنیت اور القاب

آپ کا اسم گرامی ”لوح محفوظ“ کے مطابق اورسرورکائنات کی تعیین کے موافق ”محمد“تھا۔ آپ کی کنیت ”ابوجعفر“ تھی، اورآپ کے القاب کثیرتھے، جن میں باقر،شاکر،ہادی زیادہ مشہورہیں(3)

بادشاہان وقت

آپ ۵۷ ھ میں معاویہ بن ابی سفیان کے عہد میں پیدا ہوئے ۔ ۶۰ ھ میں یزید بن معاویہ بادشاہ وقت رہا، ۶۴ ھ میں معاویہ بن یزیداورمروان بن حکم بادشاہ رہے ۶۵ ھ تک عبدالملک بن مروان خلیفہ وقت رہا ۔ پھر ۸۶ ھ سے ۹۶ ھ تک ولید بن عبدالملک نے حکمرانی کی، اسی نے ۹۵ ھ میں آپ کے والد ماجد کو درجہ شہادت پرفائز کر دیا، اسی ۹۵ ھ سے آپ کی امامت کا آغاز ہوا، اور ۱۱۴ ھ تک آپ فرائض امامت ادا فرماتے رہے، اسی دور میں ولید بن عبدالملک کے بعد سلیمان بن عبدالملک ،عمربن عبدالعزیز، یزید بن عبدالملک اورہشام بن عبدالملک بادشاہ وقت رہے(4)

حضرت امام محمد باقر علیہ السلام کی علمی حیثیت

کسی معصوم کی علمی حیثیت پر روشنی ڈالنا اور وضاحت کرنا ناممکن ہے۔ علامہ ابن شہرآشوب لکھتے ہیں کہ حضرت کا خود ارشاد ہے کہ”علّمنا منطق الطیر و أوتینا من کل شيء“ ہمیں پرندوں تک کی زبان سکھا گئی ہے اور ہمیں ہرچیز کا علم عطا کیا گیا ہے(5)

روضة الصفاء میں ہے : خداکی قسم! ہم زمین اورآسمان میں خداوند عالم کے خازن علم ہیں اور ہم ہی شجرہ نبوت اورمعدن حکمت ہیں ،وحی ہمارے یہاں آتی رہی اور فرشتے ہمارے یہاں آتے رہتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا کے ظاہری ارباب اقتدار ہم سے جلتے اورحسد کرتے ہیں۔

علامہ شبلنجی فرماتے ہیں کہ علم دین، علم احادیث،علم سنن اورتفسیر قرآن وعلم السیرت وعلوم وفنون ،ادب وغیرہ کے ذخیرے جس قدرامام محمد باقرعلیہ السلام سے ظاہر ہوئے اتنے امام حسین و امام حسین کی اولاد میں سے کسی اورسے ظاہرنہیں ہوئے(6)

صاحب صواعق محرقہ لکھتے ہیں : عارفوں کے قلوب میں آپ کے آثار راسخ اورگہرے نشانات نمایاں ہو گئے تھے، جن کے بیان کرنے سے وصف کرنے والوں کی زبانیں گونگی اورعاجز و ماندہ ہیں ۔ آپ کے ہدایات وکلمات اس کثرت سے ہیں کہ ان کا احصاء اس کتاب میں ناممکن ہے(7)

علامہ ابن خلکان لکھتے ہیں کہ امام محمد باقرعلامہ زمان اور سردار کبیرالشان تھے آپ علوم میں بڑے تبحراور وسیع الاطلاق تھے(8)

علامہ ذہبی لکھتے ہیں کہ آپ بنی ہاشم کے سرداراورمتبحر علمی کی وجہ سے باقرمشہورتھے ۔ آپ علم کی تہ تک پہنچ گئے تھے، اورآپ نے اس کے وقائق کو اچھی طرح سمجھ لیا تھا(9)

حضرت امام محمدباقرعلیہ السلام کی دمشق میں طلبی

علامہ مجلسی اورسیدابن طاؤس لکتھے ہیں کہ جب ہشام بن عبدالملک اپنے عہدحکومت کے آخری ایام میں حج بیت اللہ کے لیے مکہ معظمہ میں پہنچا تو وہاں حضرت امام محمدباقرعلیہ السلام اورحضرت امام جعفرصادق علیہ السلام بھی موجودتھے ایک دن حضرت امام جعفرصادق علیہ السلام نے مجمع عام میں ایک خطبہ ارشادفرمایاجس میں یہ بھی کہاکہ ہم روئے زمین پرخداکے خلیفہ اوراس کی حجت ہیں ، ہمارادشمن جہنم میں جائے گا،اورہمارادوست نعمات جنت سے متنعم ہوگا ۔

اس خطبہ کی اطلاع ہشام کودی گئی ،وہ وہاں توخاموش رہا،لیکن دمشق پہنچنے کے بعدوالی مدینہ کوفرمان بھیجاکہ محمدبن علی اورجعفربن محمدکومیرے پاس بھیج دے ، چنانچہ آپ حضرات دمشق پہنچے ۔ اس کے بعدامام نے فرمایا: بادشاہ ہم معدن رسالت ہیں، کسی امرمیں ہمارامقابلہ کوئی نہیں کرسکتا،یہ سن کرہشام کوغصہ آگیا،اور بولاکہ آب لوگ بہت بڑے بڑے دعوے کرتے ہیں آپ کے دادا علی بن ابی طالب نے غیب کادعوی کیاہے ، آپ نے فرمایا: بادشاہ قرآن مجید میں سب کچھ موجود ہے اورحضرت علی امام مبین تھے انہیں کیانہیں معلوم تھا(10)

علامہ مجلسی لکھتے ہیں کہ اس واقعہ کے بعدہشام نے والی مدینہ ابراہیم بن عبدالملک کولکھاکہ امام محمدباقرکوزہرسے شہیدکردے(11)

کتاب الخرائج والبحرائح میں علامہ راوندی لکھتے ہیں کہ اس واقعہ کے بعدہشام بن عبدالملک نے زیدبن حسن کے ساتھ باہمی سازش کے ذریعہ امام علیہ السلام کودوبارہ دمشق میںطلب کرناچاہالیکن والی مدینہ کی ہمنوائی حاصل نہ ہونے کی وجہ سے اپنے ارادہ سے بازآیا اس نے تبرکات رسالت جبرا طلب کئے اورامام علیہ السلام نے بروایتے ارسال فرمادئیے۔

امام محمدباقر علیہ السلام کی شہادت

آپ اگرچہ اپنے علمی فیوض وبرکات کی وجہ سے اسلام کوبرابرفروغ دے رہے تھے لیکن اس کے باوجودہشام بن عبدالملک نے آپ کوزہرکے ذریعہ سے شہیدکرادیا اورآپ بتاریخ ۷/ ذی الحجہ ۱۱۴ ھ یوم دوشنبہ مدینہ منورہ میں انتقال فرماگئے اس وقت آپ کی عمر ۵۷/ سال کی تھی آپ جنت البقیع میں دفن ہوئے(12)

علامہ شبلنجی اورعلامہ ابن حجرمکی فرماتے ہیں ”مات مسموما کأبيه“ آپ اپنے پدربزرگوارامام زین العابدین علیہ السلام کی طرح زہرسے شہیدکردیئے گئے(13)

ازواج و اولاد

آپ کی چاربیویاں تھیں اورانہیں سے اولادہوئیں ۔ام فروہ،ام حکیم،لیلی،اور ایک اوربیوی ام فروہ بنت قاسم بن محمدبن ابی بکرجن سے حضرات امام جعفرصادق علیہ السلام اورعبداللہ افطح پیداہوئے اورام حکیم بنت اسدبن مغیرہ ثقفی سے ابراہیم وعبداللہ اورلیلی سے علی اورزینب پیداہوئے اورچوتھی بیوی سے ام سلمی متولدہوئے(14)

علامہ محمدباقربہبھانی ،علامہ محمدرضاآل کاشف الغطاء اورعلامہ حسین واعظ کاشفی لکھتے ہیں کہ حضرت امام باقرعلیہ السلام کی نسل صرف امام جعفر صادق علیہ السلام سے بڑھی ہے ان کے علاوہ کسی کی اولادزندہ اورباقی نہیں رہی(15)

حوالجات

(1) اعلام الوری ص ۱۵۵ ،جلاء العیون ص ۲۶۰ ،جنات الخلود ص ۲۵

(2) جلاء العیون ص ۲۵۹

(3) مطالب السؤال ص ۳۶۹ ،شواہدالنبوت ص ۱۸۱

(4) اعلام الوری ص ۱۵۶

(5) مناقب شہرآشوب جلد ۵ ص ۱۱

(6) کتاب الارشاد ص ۲۸۶ ،نورالابصار ص ۱۳۱ ،ارجح المطالب ص ۴۴۷

(7) صواعق محرقہ ص ۱۲۰

(8) وفیات الاعیان جلد ۱ ص ۴۵۰

(9) تذکرةالحفاظ جلد ۱ ص ۱۱۱

(10) جلاء العیون

(11) جلاء العیون ص ۲۶۲

(12) کشف الغمہ ص ۹۳ ،جلاء العیون ص ۲۶۴ ،جنات الخلودص ۲۶ ،دمعہ ساکبہ ص ۴۴۹ ،انوارالحسینہ ص ۴۸ ، شواہدالنبوت ص ۱۸۱ ، روضة الشہداء ص ۴۳۴

(13) نورالابصار ص ۳۱ ،صواعق محرقہ ص ۱۲۰

(14) ارشادمفید ص ۲۹۴ ، مناقب جلد ۵ ص ۱۹ ،نورالابصارص ۱۳۲

(15) دمعہ ساکبہ جلد ۲ ص ۴۷۹ ،انوارالحسینیہ جلد ۲ ص ۴۸ ،روضة الشہداء ص ۴۳۴ طبع لکھنؤ

كيا توسل و شفاعت حرام ہے اور غیر خدا كى هر قسم کی تعظیم شرک ہے؟

اشكال: كيا توسل و شفاعت حرام ہے اور غیر خدا كى هر قسم کی تعظیم شرک ہے؟

جواب: وھابی و سلفى اپنی نادرست فہم کی بنا پر لفظ عبادت کو ایک وسیع ترین معنی پر حمل کرتے ہیں اور اس بنیاد پر بہت سارے اعمال جو مسلمانوں کی نظر میں جائز ہیں، کو حرام اور شرک سمجھتے ہیں۔ اس سوال کے جواب کے لیے معنى عبادت کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔

عبادت کا لغوى معنى كسى کے سامنے خضوع اور اظهار ذلت كرنا ہے، ليكن حقیقی اصطلاحى معنی خاص ہے اور وه يه ہے کہ کسی کو اوصاف الہی سے متصف کرتے ہوئے اس کے سامنے اظہارِ خضوع کرنا۔ اور اگر غیر خدا کے لیے هو تو يه اظهار ذلت شرک ہے۔

اگر اس حقیقت کو مد نظر رکھا جائے تو یہ بات واضح ہے کہ انبیاء سے توسل اور اولیاء الہی سے مدد طلب کرنا ممکن ہے اور یہ کسی قسم کا شرک قرار نہیں پاتا۔

لهذا اگر کوئی شخص انبیاء سے اور اولیاء الہی سے مدد طلب کرے یا ان سے توسل کرے اور ان كو شفيع قرار دے، تو ان جیسے افعال کی دو صورتیں ہيں:

پہلی صورت یہ ہے کہ وہ شخص اس اعتقاد کے ساتھ کہ وہ جس سے مدد طلب کر رہا ہے یا توسل کر رہا ہے، وہ مستقل طور پر ان کاموں کو انجام دے سکتا ہے اور خدا کے عرض میں ربوبیت کا مقام رکھتا ہے تو یہ شرک کہلائے گا۔

اور دوسری صورت یہ ہے کہ وہ شخص اس اعتقاد کے ساتھ کہ وہ جس سے مدد طلب کر رہا ہے یا توسل کر رہا ہے وہ مستقل نهيں، بلكه خدا سے وابستہ اور اس کا محتاج ہے اور اذن خدا سے یہ کام انجام دیتا ہے، تو یہ عین عبادت ہے اور کسی قسم کا شرک نہیں۔

لهذا اگر توسل، شفاعت اور غير خدا كى تعظيم کو شرک قرار دیا جائے تو فرشتوں کا آدم عليه السلام کو سجدہ کرنا، یعقوب عليه السلام کا اپنے بیٹے(يوسف عليه السلام) کے سامنے سجدہ کرنا اور مسلمانوں کا پیغمبر اسلام صلى الله عليه وآله وسلم سے توسل کرنا، یہ سب کام شرک کہلائیں گے جبکہ ایسا عقیدہ درست نہیں ہے، کیونکہ انبیاء شرک نہیں کرتے۔

سیرة العلامة الطباطبائي

إنّ الطباطبائي كان فيلسوفاً وحكيماً، وكان أستاذاً موهوباً كرّس معظم حياته لتعليم المعارف الإسلاميّة الحقّة. أعطى دروساً في الفلسفة والتّفسير والأخلاق والفقه والأصول وغير ذلك في مدينة "قم". نبيّن سيرته بصورة مختصرة في النّقاط التالية:

اسمه ونشأته

هو السيّد محمّد حسين بن السيّد محمّد بن السيّد محمّد حسين الميرزا على أصغر شيخ الإسلام العلامة الطباطبائى التبريزى القاضى‏.[1] وُلد في تبريز في التاسع والعشرين من ذي الحجة سنة 1321 هـ في أسرة عريقة معروفة بالفضل والعلم. توفّيت والدته وعمره خمس سنوات، وتوفّي والده عندما بلغ التّاسعة من عمره، وبقي هو وأخوه السيّد محمّد حسن القاضي الطباطبائي تحت كفالة وصيّ أبيه الذي كان يرعاهما برفق.[2]

دراسته

تعلّم القرآن والأدب الفارسي والريّاضيات في مدرسة تبريز، وتابع دراسته في الجامعة الإسلاميّة في تبريز حيث تعلّم الصّرف والنّحو، وعلم المعاني وعلم البيان، والفقه وعلم الأصول، وعلم الكلام. سنة 1344هـ، بغية إكمال دراسته، انتقل الطباطبائي إلى النّجف الأشرف وأمضى فيها أحد عشر عاماً منشغلاً بالدّراسات الفقهيّة والأصوليّة والفلسفيّة والعرفانيّة والرّياضيّة. وبسبب تدهور الأوضاع الاقتصاديّة، اضطرّ الطباطبائي إلى مغادرة النّجف والعودة إلى مسقط رأسه تبريز حيث اشتغل بالزّراعة لمدّة عشر سنوات في قرية "شادباد" التبريزيّة. وقام خلال هذه الفترة بتأليف رسائل عرفانيّة وفلسفيّة، منها "الإنسان قبل الدنيا" و"الإنسان في الدّنيا" و"الإنسان بعد الدّنيا"، والرسائل الأربع وغيرها من الرسائل. وبسبب الاضطرابات التي حدثت في محافظة أذربيجان، توجّه الطباطبائي إلى قم سنة 1364هـ، وظلّ يعيش فيها ما يقارب 35 سنة، حيث درّس علم التّفسير والفلسفة والعلوم العقليّة. ومنذ سنة 1368هـ، شرع بتدريس الأخلاق والعرفان، ثم قام بعدها بتدريس رسالة السير والسلوك المنسوبة للسيّد بحر العلوم. وتخرّج على يده جيلٌ كبيرٌ من أكابر الحوزة وعلمائها وهم بين مفسِّر لكتاب الله العزيز وحكيم وأخلاقي.[3]

أساتذته

درس في "النجف" على يد أكابر العلماء، ومنهم: الميرزا محمد حسين النائيني (1247هـ - 1355 هـ) وأبو الحسن الأصفهاني (1284هـ - 1365 هـ) والشيخ محمد حسين الأصفهاني (1296هـ - 1361هـ) والمشهور بالكمباني، ودرس عندهم الفقه والأصول.

ودرس الرّياضيّات عند عبد القاسم الخونساري. ودرس المعارف الإلهيّة والأخلاق والعرفان والسّير والسلوك على يد الميرزا على القاضي(1285هـ - 1365 هـ).

وقد درس عند حسين البادكوبي (1293هـ - 1358 هـ) "الشفاء" لابن سينا، و"تمهيد القواعد" لابن تركة و"الأسفار" و"المشاعر" لصدر المتألّهين، و"المنظومة" لملّا هادي السبزواري، وكتاب "أثولوجيا" لأرسطو، و"طهارة الأعراق" لابن مسكويه. وكان الطباطبائي يُثني على أستاذه البادكوبي كثيراً وكان يصفه بالحكيم البارع.[4]

تلامذته

لقد امتاز العلامة السيّد محمّد حسين الطّباطبائي بجمع الخلق حوله بسبب المعنويّة الإلهيّة الرّفيعة، فكان عاملًا رئيسيًا في شدّ الطلاب إلى محاضراته القيّمة، إذ كان يحضرها المئات، فنال الكثيرون منهم درجة الاجتهاد في الحكمة وأصبحوا قادرين على تدريسها. ولقد درس على يديه جيل من الطلبة والأفاضل الذين نهلوا من علومه المختلفة، وكان لهم دورٌ بارزٌ في تنمية العلوم العقليّة التي كان الطباطبائي يولّيها اهتمامه، نذكر منهم: الشّهيد مرتضى المطهري، الشّهيد محمد حسين البهشتي، الشّهيد محمد مفتح الهمداني، الشّيخ علي القدوسي، الشّهيد محمد رضا السّعيدي، آية الله جوادي آملي، الأستاذ محمد تقي مصباح اليزدي، آية الله مكارم الشيرازي، الشّهيد مصطفى الخميني، السيّد عبد الكريم الأردبيلي، العلّامة السيّد محمّد حسين الطّهراني الذي ألّف كتاب "مهر تابان" حول شرح أحوال أستاذه العلّامة الطّباطبائي، والشّيخ أنصاري الشّيرازي.[5]

آثاره العلميّة

للعلامة الطباطبائي مؤلّفات كثيرة باللّغتين: العربيّة والفارسيّة، منها ما ألّفه في النّجف الأشرف، ومنها ما ألّفه في تبريز، ومنها ما ألّفه في قم المقدّسة، من أبرزها:

1- أصول الفلسفة والمذهب الواقعي، وهو عبارة عن مجالس علميّة عقدها الطباطبائي في البحث المقارن بين فلسفة الشرق والغرب. وقد نُشر في خمس مجلدات مع تعليقات وشروحات تلميذه الشّهيد مرتضي

المطهري.

2- حاشية على كتاب "الأسفار الأربعة" لصدر الدّين الشّيرازي، والذي درّسه رغم الصّعوبات التي واجهته أثناء تدريسه.

3- بداية الحكمة، وهو كتاب ألّفه للمبتدئين في دراسة الفلسفة.

4- نهاية الحكمة، وهو كتاب دراسي جامع للمسائل الفلسفيّة.

5- الرّسائل التّوحيديّة، وهي رسائل ثلاث في طبيعة الإنسان قبل الدّنيا، وفي الدّنيا، وبعد الدّنيا.

6- الرّسائل السبع، وهو مجموعة تحتوي على رسائل فلسفيّة وهي البرهان، المغالطة، التركيب، التحليل، الاعتباريات، المنامات والنبوات، القوة والفعل.

7- الشيعة في الإسلام، تُرجم إلى الإنجليزيّة من قبل حسين نصر تحت عنوان Shi'ite in Islam بمساعدة وليام شيتيك.

8- ومن أهمّ أعماله ذات القيمة العالية وتُعتبر زبدة وخلاصة دراساته القرآنيّة "الميزان في تفسير القرآن" في عشرين مجلداً. وقد ترجم إلى الفارسيّة وإلى لغات أخرى.[6]

وفاته

بقي الطباطبائي في مدينة قم حتى وافته المنيّة في الساعة التاسعة صباحاً من يوم الأحد المصادف 18 محرم الحرام سنة 1402هـ، وشيّع تشييعاً مهيباً بعد إعلان الحداد الرّسمي، وقد ووري جثمانه الطاهر الثرى في أحد جوانب مرقد السّيّدة الطّاهرة فاطمة المعصومة بنت الإمام موسى الكاظم عليهما السلام.[7]

كلمات العلماء حوله

1- يقول العلّامة الطهراني: "لقد بلغ أستاذنا العلامة الطباطبائي مبلغ الكمال في العناصر الثلاثة جميعاً، بل حاز بين الأقران على المرتبة الأولى. فمن جهة كمال القوة العقليّة والحكمة النظريّة، ثمّ اتفاق على ذلك بين الصديق والعدو، وقد كان في ذلك ممن لا نظير له في العالم الإسلامي. وأمّا من جهة كمال القوة العلميّة والحكمة العلميّة والسير الباطني في المدارج ومعارج عوالم الغيب والملكوت، والبلوغ إلى درجات المقرّبين والصّدّيقين، فقد كان صمته عن ذلك وسكوته عنه، وإطباق شفتيه عليه حتى في حياته، ممّا لا يسمح لنا أن نكشف السّتار عن أكثر من ذلك في هذه المرحلة، لا سيّما وأنَّه كان يعتبر كتمان السرّ من أعظم الفرائض. وأمّا من جهة الشّرع، فقد كان فقيهاً مشرعاً، بذل سعيه بتمام معنى الكلمة في رعاية السنن والآداب، ولم يكن يتوانى عن الالتزام بأداء أقل المستحبّات، وكان ينظر بعين التّعظيم والإجلال والتّبجيل لأولياء الشرع المبين."[8]

2- يقول آية الله الحاج الشيخ محمد تقي الآملي في مكانة الطباطبائي بين أقرانه من التلامذة: "إن كان ينبغي للمرء أن يصل إلى مرحلة معيّنة ويخطو خطوة ما في ظلّ رعاية وتربيّة كاملة، فإنّني لا أرى بالنّسبة لكم من هو أفضل من سماحة السّيّد الطّباطبائي، فعليكم بالتّردّد عليه أكثر، فإنّه والمغفور له السّيّد أحمد الكربلائي الكشميري كانا الأفضل من بين تلامذة المغفور له السّيّد القاضي، وكان للسّيّد الطّباطبائي في ذلك الوقت الكشفيّات الكثيرة."[9]

3- وممّا قال عنه قائد الثّورة الإسلاميّة السّيّد علي الخامنئي دام ظله العالي: "لقد كان من الذين لا يمكن تربيّة أمثاله إلّا في الحضن المبارك لعقيدة جامعة، كالإسلام. كان وجهه المعنويّ صورة صلبة لرجل قرن الإيمان الرّاسخ والعرفان الحقيقيّ بعلم واسع وعميق...وكان يعدّ من أسطع الجواهر في مائدة المتاع القيّمة في الحوزة العلميّة في قم...وكانت المعارف التي تخرج من لسانه وقلمه وتطبع على صفحات القلوب والأوراق، تنتشر من خلال مئات وآلاف الألسن ومئات وآلاف الكلمات في كلّ مكان وكان يعلّم الجميع العلم والمعرفة."[10]

4- يذكر آية الله الشّيخ جوادي آملى عن أُستاذه العلّامة الطّباطبائى: "إنّه بلغ أوج التكامل العقلىّ والتّجرّد الرّوحى، صار معه يدرك الكلّيّات العقليّة بدون تدخّل قوّة التّخيّل وتمثّل مصداقها فى مرحلة الخيال، وتجسّدها فى مرتبة المثال المتّصل، أو بصرف النظر عن ذلك."[11]


[1]- راجع: الأوسى، على، العلامة الطباطبائى ومنهجه فى تفسير الميزان، ص 36.

[2]- راجع: طباطبايي، محمد حسين، مجموعه مقالات، پرسشها و پاسخها، ج 1 ص 3، بالفارسية.

[3]- راجع: المصدر السابق.

[4]- راجع: المصدر السابق.

[5]- راجع: هنديجاني فرد، عارف، علوم القرآن عند العلامة آية الله السيد محمد حسين الطباطبائي، دراسة مقارنة، ص42-64.

[6]- راجع: المصدر السابق، ص42-64.

[7]- انظر: المصدر السابق، ص60-64، بالتّصرّف، وراجع: الأوسى، على، العلامة الطباطبائى ومنهجه فى تفسير الميزان، ص51.

[8]- حسينى طهرانى، محمد حسين، مهر تابان: يادنامه و مصاحبات تلميذ و علامه عالم ربانى علامه سيد محمدحسين طباطبائى تبريزى، ص122.

[9]- هنديجاني فرد، عارف، علوم القرآن عند العلامة آية الله السّيّد محمد حسين الطّباطبائيّ، دراسة مقارنة، ص53، نقلا عن سيرة العلامة الطباطبائي، بقلم كبار العلماء والأعلام، ص29.

[10]- المصدر السابق، ص54، نقلا عن سيرة العلامة الطباطبائي، بقلم كبار العلماء والأعلام، ص6-7.

[11]- المصدر السابق.

مسئله شر اور اس كا حل

مسئله شر اور اس كا حل

تحرير: سید شهباز حیدر

انسان کو خداوند متعال نے فطرتاً اس طرح بنایا ہے کہ وہ تجسس کرتا ہے کسی بھی چیز کی گہرائي تک جانا چاہتا ہے چونکہ خالق كائنات کا وجود مخفی ہے انسان اس پر ایمان تو لے آتا ہے لیکن اس کا تجسس ختم نہیں ہوتا یہ سوال کرتا ہے. کبھی خالق کے وجود پر سوال کرتا ہے، کبھی اطمینان قلب کے واسطے اس کو دیکھنے کا تقاضہ کرتا ہے، کبھی اس کے وجود کی حدود کو ماپتا ہے تو کبھی اس کی صفات پہ سوال اٹھاتا ہے. اسی طرح کے ہزاروں سوالات میں سے ایک سوال یہ ہے کہ خدا جو اس کائنات کا خالق ہے اس کی صفات میں عالم مطلق،قادرمطلق اور خیر محض ہونا ہے اگر وہ خیر محض ہے تو اس نے کائنات کی ساخت تشکیل دیتے ہوئے یہ رعایت کیوں نا کی کہ اس کائنات میں کسی کے لئے ضرر اور نقصان نا ہوتا ؟

اس كائنات ميں شر كا وجود خدا كي صفات: عالم مطلق،قادر مطلق اور خیر محض سے متناقض هے. اس تناقض كو ختم كرنے كے لیے ضروري هے كه حقيقت شر كو بيان كريں۔

1- تعریف شر

شر ایک بدیهی مفهوم ہے جس کی تعریف کی احتیاج نہیں البتہ مختصرا یوں کہا جا سکتا ہے کہ فقدان کمال یا درد و رنج جو خدا کی مخلوق یعنی انسان کو پہنچے اسے یہ انسان شر تصور کرتا ہے. (جعفر سبحاني، محمد رضاعي، انديشه اسلامي(1)، ص121)

2- اقسام شر

شر کی دو اقسام ہیں ایک شر طبیعی ہے اور ایک شر اخلاقی۔

1- شر اخلاقی: جس شر کا عامل خود ذات انسان ہے جیسے چوری ، قتل و غارت ، جنگ و جدال وغیرہ.

2- شر طبیعی: جس میں انسان کا عمل دخل نہیں ہوتا جیسے قدرتی آفات، زلزلہ ، سیلاب ، طوفان اور وہ امراض جو لا علاج ہیں شر طبیعی میں آتے ہیں۔(جعفر سبحاني، محمد رضاعي، انديشه اسلامي(1)، ص121-122)

مسئله شر كا حل

1- بعض فیلسوف یہ کہتے ہیں کہ شر اصلا موجود ہی نہیں ہے ملا صدرا اس پر دلیل بیان کرتے ہیں کہ "أنّ الوجود فی نفسه خیر و بهاء کما أنّ العدم فی نفسه شرٌّ علی ما حکم به الفطرة."وجود اپنے آپ میں خیر محض ہے( یعنی جس چیز پر لفظ وجود کا اطلاق ہے وہ خیر ہے). اسی طرح عدم اپنے آپ میں شر ہے (یعنی جس چیز پر عدم كا اطلاق ہو گا وہی شر ہے )یہ حکم فطرت انسان لگاتی ہے (اگر کوئي آوازِ فطرت تک رسائي رکھتا ہو تو اس کے لئے یہ بات واضح ہے)"(ملاصدرا، الحکمه المتعالیه، ج4، ص 121).

دوسری دلیل شر کے معدوم ہونے پر قاعدہ سنخیت ہے ۔ یعنی خدا قادر مطلق ہے عالِمِ کل ہے اور خیرخواهِ مطلق ہے یا یوں کہيں کہ خیر محض ہے ۔لہذا علت و معلول کے درمیان خیر محض سے خیر کے سوا کچھ ایجاد نہیں ہو سکتا ۔

2- اس سوال کا جواب یوں دیا جا سکتا ہے کہ خداوند متعال کا مقصد مخلوق خلق کرنا نہیں بلکہ ایک نظام خلق کرنا تھا۔ خلقِ بشر کی بات آئے تو یہ زاویہ الگ ہے مگر جب خلق نظام کی بات آئے تو آئینہ فکر تبدیل کرنا پڑے گا. پھر مد نظر صرف انسان نہیں بلکہ کائنات میں بسر کرنے والی ہر مخلوق ہے. عالم میں صرف بشر نہیں بلکہ کئي مخلوقات ایسی ہیں جو انسان کی نظر سے اوجھل ہیں اور وہ اپنے ہونے کا احساس بھی کرواتی ہیں فیلسوف حضرات عوالم کو تین حصوں میں تقسیم کرتے ہیں: (جعفر سبحاني، محمد رضاعي، انديشه اسلامي(1)، ص122-124)

1- عالم عقل

2- عالم مثال

3- عالم ماده

1- عالم عقل: ایک ایسا عالم ہے کہ جس کی مخلوقات مجرد تام ہیں ۔اس کا مادی اور جسمانی مخلوقات سے کوئي تعلق نہیں، نا ہی یہ زمان یا مکان میں محدود ہے اور نه هي اس کی کسی جہت کا تعین ہو سکتا ہے ۔ عالم عقل تخلیق کی دنیا کا سب سے اعلی درجہ ہے اور ادنیٰ عوامل کا موثر سبب ہے۔ مشائین کا خیال تھا کہ اس عالم میں کل دس عقلیں ہیں جن کا ایک دوسرے سے قوی تعلق ہے اور ہر مرتبے میں عقل صرف ایک ہے اس سے زیادہ ممکن نہیں، لیکن ملا صدرا اور شیخ اشراق نے افلاطون کے نظریات کو قبول کیا ہے اور افقی کثرت کے قائل تھے. (ملا صدرا، الحكمة المتعاليه، ج۲، ص۸۲ – ۴۶)

2- عالم مثال:تخلیق کا دوسرے درجے کا مرحلہ ہے. یہ عالم عقل اور عالم مادہ کے درمیان میں قرار پایا ہے. یہ عالم مادہ سے مجرد ہے لیکن اسکی جہت زمانی و مکانی مشخص ہے اس کی شکل بھی ہے، رنگ بھی ہے ،ليكن جسم مادي نهيں ہے. اسے تجرد مثالی یا تجرد برزخی سے بھی تعبیر کیا گیا ہے۔

3- عالم مادہ: يه عالم محسوس ہے کہ جسے عالم طبیعت اور عالم شھادت سے تعبیر کیا جاتا ہے یعنی جسے ہم محسوس کر سکتے ہیں دیکھ سکتے ہیں۔ عالم عقل و مثال کے بر عکس حواس خمسه اس عالم کا ادراک کرنے سے قاصر نہیں ہيں۔

دوسرا جواب يه هے كه شر اس جہان مادی کا لازمہ ہے،تجرد محض ہونا، خیر محض ہونا اس عالم مادی کے لئے محال ہے خداوند متعال اگر چاہتا تو اس عالم کو بھی خیر محض بنا سکتا تھا لیکن اس کا مقصد مخلوق نہیں نظام خلق کرنا تھا جیسا کہ وہ قرآن کریم میں ارشاد فرماتا ہے: ﴿الَّذِي خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ وَمَا بَيْنَهُمَا فِي سِتَّةِ أَيَّامٍ ثُمَّ اسْتَوَىٰ عَلَى الْعَرْشِ ۚ الرَّحْمَٰنُ فَاسْأَلْ بِهِ خَبِيرًا( فرقان 59)

زمین و آسمان کی خلقت 6 دن میں ہوئی حالانکہ وہ یہ بھی فرماتا ہے:﴿إِنَّمَا أَمْرُهُ إِذَا أَرَادَ شَيْئًا أَنْ يَقُولَ لَهُ كُنْ فَيَكُونُ( يس 82)"وہ جب کسی چیز کا ارادہ کرتا ہے تو اسے کہتا ہے ہو جا تو وہ ہو جاتی ہے"۔ اگر حقیقت امر یونہی ہے تو پھر یہ چھ دن کا دورانیہ کیوں ؟ کیونکہ اس حکیم ذات کا مقصد اس نِظام کو ایک خاص پیراہے میں چلانا تھا اگر مقصد فقط مخلوق بنانا ہوتا تو وہ ایسے بنا دیتا کہ جیسے انسان تقاضہ کرتا ہے مگر اس کا مقصد نظام بنانا تھا نظام میں مینیجمٹ ہوتی ہے اور نظام کے خاص تقاضے ہوتے ہیں یہ عالم عالمِ عقل و مثال نہیں کہ جس میں تزاحم و تنازع نا پایا جائے یہ عالمْ تزاحم و تنازع اپنے اندر سموئے ہوئے ہے اس لئے اس عالم کا لازمہ شر قرار پایا ہے.

فارابی عالم اسلام کا ایک مایہ ناز فلسفی یہ کہتا ہوا نظر آتا ہے:

"الأول تام القدرة والحکمة والعلم، کامل فی جمیعه أفعاله لا یدخل فی جمیع أفعاله خللٌ البتةً ولا یلحقه عجز ولا قصور والآفات والعاهات التی تدخل علی الأشیاء الطبیعية، إنّما هی للضّرورات ویعجز المادة عن قبول النّظام التّام"

"خداوند متعال اپنی قدرت اپنے علم اور اپنی حکمت میں کمال مطلق ہے اس کے کسی کام میں نقص کا تصور ممکن نہیں آفات و شرور تو بس طبیعت کا تقاضہ ہیں یہ عالم طبیعت پہ عارض ہونے والی چیزیں ہیں عالم طبیعت و عالم مادہ میں اتنی ظرفیت نہیں کہ یہ خیر محض کو قبول کر سکے "( فارابی ،تعلیقات ، ص 46)

اب اگر کوئي اشکال کرے کہ خدا نے اس عالم کو ایسا کیوں نہیں بنایا کہ اس میں خیر محض ہو. آگ کو ایسا کیوں نہیں بنایا کہ وہ کسی بے گناہ یا معصوم کو نا جلائے ؟ وہ لباس کو نا جلائے ؟

المختصر! که طبیعت کے قوانین کو ایسا کیوں نہیں بنایا کہ ان میں کسی کو تکلیف پہنچانے کی صلاحیت ہی نا ہوتی ؟

ان اشکالات کا مختصر جواب یہ ہے کہ اعطاء المعطی کے ساتھ قابلية القابل شرط ہے عطا کرنے والے کی عطا میں کمی نہیں ہے قبول کرنے والے کی ظرفیت میں کمی ہے اس نے ہر مخلوق کو اتنا عطا کیا ہے جتنی اس میں تحمل کی طاقت ہے:﴿وَلَا نُكَلِّفُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا﴾ ( المؤمنون 62) کسی نفس پر ظلم کرنا اس خالق کے شایان شان نہیں وہ صرف اتنا بوجھ ڈالتا ہے جتنا کوئي برداشت کر سکے ۔

ابن سینا اپنی کتاب الھیات کے باب شرّيتِ عالم میں کہتا ہے کہ: "اگر وہ کہیں کہ خدا نے عالم کو اس طرح خلق کیوں نا کیا کہ یہ خیر محض ہو اس میں مانع شرور پیدا کیوں نا کئے ؟ تو ان کے جواب میں یہ کہا جائے گا کہ اگر عالم مادی کہ جس کا لازمہ ہی یہ هے کہ اس میں شر قرار پائے اگر اس طرح خلق ہوتا کہ اس میں کوئي شر نا ہوتا تو یہ عالم مادی ہی نا رہتا یہ کوئي اور عالم ہوتا کہ جو خیر محض ہو اگر مادیت ہے تو شر الزامی ہے "۔

اور اگر یه کها جا ئے که کائنات شرور سے بھری پڑی ہے اس میں خیر کم ہے اور شر زیادہ ہے اس سے تو بہتر تھا کہ یہ کائنات خلق نا ہوتی۔

اس كا جواب یہ ہے يه کہنا بیوقوفی کے سوا کچھ بھی نہیں کیونکہ یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ اس کائنات میں اگر دس فیصد شر ہے تو نوّے فیصد خیر ہے. اب اتنے قلیل سے شر کی موجودگی کی وجہ سے کائنات کے عدم کا تقاضہ خود ایک شر کبیر ہے ۔

اور دوسری بات یہ کہ انسان ہر چیز میں خود کو مد نظر رکھتا ہے اپنی ذات کو محور و مرکز قرارداد دیتا ہے اگر خود کو محور قراردینا چھوڑ دے اور اس کائنات کی وسعتوں کو مد نظر رکھے تو انسان یہ درک کر سکتا ہے کہ یہ کائنات ہر لحاظ سے خیر ہے. اگر آگ کو جلانے کی قوت دی ہے تو انسان کو عقل کی طاقت دی ہے تا کہ وہ اس کو اپنے فائدے کے لئے استعمال کر سکے اور اس کے نقصان سے بچ سکے. (جعفر سبحاني، محمد رضاعي، انديشه اسلامي(1)، ص124-125)

3- اللہ نے انسان کو آزاد پیدا کیا۔ وہ ارتقاء کی راہ پر چل سکتا ہے اور اپنی مرضی سے سعادت حاصل کر سکتا ہے، گمراہی کے راستے پر چل سکتا ہے اور گمراہ ہو سکتا ہے اور ایسے برے کاموں میں مشغول ہو سکتا ہے، جس کی وجہ سے دوسروں کے لئے تکلیف کا باعث بنتا ہے ۔ لہٰذا دنیا میں برائی انسان کی آزادی کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے۔ خدا انسان کو دو طریقوں سے تخلیق کر سکتا تها:

1- خدا انسان کو مجبور پیدا كرتا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ خدا انسان کو اس طرح پیدا کرتا کہ اس سے صرف نیکیاں ہی صادر ہوتیں۔ اس صورت ميں انسان كے اعمال كي كوئي اهميت نه هوتي اور كمال كى طرف سفر بے معنى هو جاتا.

2- خدا انسان كو آزاد پیدا کرتا، جس کا تقاضا ہے کہ کچھ لوگ برے کام کریں۔ تا کہ پھر اس آزادی کا انسان سے حساب لیا جائے کہ ہم نے تمھیں با اختیار بنایا تھا تم نے عمل خیر کیا تو اپنے اختیار سے اور موجب شر بنے تو اپنے ارادے اور اختیار سے ۔ اس ميں انسان كے اعمال كي اهميت هے اور كمال كا حصول معنى ركهتا هے. (جعفر سبحاني، محمد رضاعي، انديشه اسلامي(1)، ص125-127)جیسا کہ قرآن مجید میں خداوند متعال نے اس طرف اشارہ کیا ہے:

﴿ظَهَرَ الْفَسَادُ فِی الْبَرِّ وَالْبَحْرِ بِمَا كَسَبَتْ اَيدِی النَّاسِ لِيذِيقَهُمْ بَعْضَ الَّذِیْ عَمِلُوْا لَعَلَّهُمْ يرْجِعُوْنَ﴾ (الروم41)

"لوگوں کے اعمال كے باعث خشکی اور سمندر میں فساد برپا ہوگیا تاکہ انہیں ان کے بعض اعمال کا ذائقه چکھايا جائے شايد يه لوگ باز آجائیں"۔

4- مسئلہ شر کو حل کرنے کے لیے بعض مفکرین یہ نظر رکھتے ہیں کہ جسے کچھ لوگ برائی سمجھتے ہیں وہ لوگوں کی جهالت يا سطحی اور جزوی قضاوتوں کا نتیجہ ہے۔ اگر لوگوں کے پاس وسیع اور جامع علم ہوتا تو وہ کبھی بھی کچھ چیزوں کی برائی کا اتنی آسانی سے فیصلہ نہ کرتے۔ اپنے مطلق کمالات کی وجہ سے، خدا نے بہترین ممکنہ دنیا بنائی ہے جہاں ہر چیز اپنی جگہ پر خیر ہے۔ لیکن کچھ لوگ تنگ نظری کی وجہ سے چیزوں کے بارے میں صحیح فیصلہ نہیں کر سکتے۔(جعفر سبحاني، محمد رضاعي، انديشه اسلامي(1)، ص127-129) یہ نقصِ علمی اور نظر کی تنگی باعث بنتی ہے کہ انسان ہر چیز کو شر تصور کرتا ہے جیسا کہ پروردگار عالم قرآن مجید میں اشارہ فرماتا ہے:

﴿وَعَسَىٰ أَن تَكْرَهُوا شَيْئًا وَهُوَ خَيْرٌ لَّكُمْ ۖ وَعَسَىٰ أَن تُحِبُّوا شَيْئًا وَهُوَ شَرٌّ لَّكُمْ ۗ وَاللَّهُ يَعْلَمُ وَأَنتُمْ لَا تَعْلَمُونَ ( البقرہ 216)

"اورممکن ہے تمهیں ایک چیز ناگوار گزر ے مگر وہی تمھارے لئے بهتر ہو(جيسا كه) ممکن ہے تمهیں ایک چیز پسند هو مگر وہ تمھارے لئے بری ہو، (ان باتوں كو) خدا بهتر جانتا ہے اور تم نہیں جانتے"۔

المختصر: یہ کائنات اور اس کی وسعتیں اس خالق نے کہ جو عقل انسان سے ماورا ہے ہر طرح سے کامل اور منظم بنائي ہیں اور انسان کو اختیار دیا ہے کہ وہ چاہے تو اپنے اختیار سے اشرف المخلوقات بن جائے اور چاہے تو اپنے اختیار سے وہ کسب کرے جو اسے اسفل السافلین تک پہنچا دے۔

شر كے فوائد:

1- شر عالم مادہ کا لازمہ ہے اور فطری تقاضہ ہے.

کشمکش اور تصادم مادی دنیا کی ذاتی خصوصیات ہیں۔ اگر یہ خصوصیات نہ ہوتیں تو مادی دنیا جیسی کوئی چیز نہ ہوتی۔ یا تو یہ خصوصیات مادے کی دنیا میں موجود ہونی چاہئیں یا ایسی دنیا کا کوئی وجود ہی نہیں۔ دوسری طرف، خدا کی حکمت اور فضل کا تقاضا ہے کہ مادی دنیا کی تخلیق کی ہو کیونکہ اس کی اچھائی اس کے عیبوں اور برائیوں سے زیادہ ہے اور تھوڑی سی برائی کی خاطر بڑی بھلائی کو ترک کرنا خدا کی حکمت اور فضل کے خلاف ہے.

2- شر استعداد انسان کے پھلنے پھولنے کا سبب ہے .

انسان کی ساخت ایسی ہے کہ اس کی بہت سی صلاحیتیں مشکلات اور مسائل کا سامنا کرنے کے سائے میں پروان چڑھتی ہیں۔ بہت سی ایجادات اور اختراعات مسائل اور مشکلات سے نمٹ کر حاصل کی جاتی ہیں۔ اس لیے برائی کا وجود انسان کی روحانی اور سائنسی ترقی کے لیے مفید ہے۔ قرآن اس بارے میں سورہ الشرح کی آیات 5 اور 6 میں کہتا ہے: ﴿ اِنَّ مَعَ العُسْرِ يُسْراً " يقينا مشکل کے ساتھ آسانی ہے".

3- شر غفلت سے بیداری کا سبب ہے.

برائیوں اور مشقتوں کا ایک فائدہ یہ ہے کہ یہ انسان کے لئے غفلت سے بیداری کا زینہ فراہم کرتی ہیں. آئیے ایک ایسے ڈرائیور کی مثال لے لیں جو ڈرائیونگ تو جانتا ہے مگر ڈرائیونگ کے اصول و ضوابط کو مد نظر نہیں رکھتا اور گاڑی چلانے میں غفلت برتتا ہے اگر وہ اسی طرح غفلت برتتا رہے تو خود بھی نقصان اٹھائے گا اور دوسروں کے بھی نقصان کا باعث بنے گا لیکن ایک انتباہ کے طور پر، پولیس اسے جرمانہ کرتی ہے اور اس لا پرواہی کو جاری رکھنے سے روکتی ہے۔ یہ دشواری اور تکلیف اس کے حق میں ہے اور اسے ناخوشگوار نتائج سے دور رہنے کے لیے بیدار اور چوکنا بناتی ہے۔ قرآن میں اللہ تعالیٰ نے غفلت سے بیدار ہونے کے لیے مشکلات اور پریشانیوں کا بھی ذکر کیا ہے اور سورہ سجدہ کی آیت نمبر 21 میں فرمایا ہے: "اور یقیناً آخرت کے بڑے عذاب کے علاوہ ہم قریب کے عذاب کا مزہ چکھائیں گے۔ دنیا کے عذاب سے، امید ہے کہ وہ خدا کی طرف لوٹ آئیں۔"

4- یہ خدا کے خاص بندوں کے لئے تحفہ ہے.

بعض روایات کے مطابق جب بندے پر خداوند منان کا خاص کرم ہوتا ہے تو خدا سے مشکلات میں مبتلا کرتا ہے ۔

امام صادق علیہ السلام اس بارے میں فرماتے ہیں:

جب خدا کسی بندے سے محبت کرتا ہے تو اسے مشکلات کے سمندر میں غرق کر دیتا ہے۔

ایک اور جگہ امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں: انبیاء دوسرے لوگوں کے مقابلے میں زیادہ مصیبتوں میں مبتلا ہوتے ہیں اور پھر جو لوگ ان سے مشابہ ہوتے ہیں، جتنے زیادہ خدا کے منتخب بندوں (انبیاء و اولیا) کے مشابہ ہونگے اتنے ہی مشکلات میں مبتلا ہونگے ۔

5- شر امتحانِ الہی ہے .

خدا بعض اوقات اپنے بندوں کو مصیبت اور مشکل سے آزماتا ہے تاکہ ان کی پہچان ہو سکے جو سچے اور کھرے ہیں جس طرح سے ناپاک سونے کو گرمی سے پاک کرتے ہیں اور اسے مزید خوبصورتی اور قدر عطا کرتے ہیں۔ اسی طرح الله بعض بندوں کو مصائب، آفات اور پریشانیوں میں آزماتا ہے تاکہ وہ پاکیزہ اور قیمتی بن جائیں۔(جعفر سبحاني، محمد رضاعي، اندیشہ اسلامی، ص130-131)

﴿أَحَسِبَ النَّاسُ أَنْ يُتْرَكُوا أَنْ يَقُولُوا آمَنَّا وَهُمْ لَا يُفْتَنُونَ.وَلَقَدْ فَتَنَّا الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ ۖ فَلَيَعْلَمَنََّ الله الَّذِينَ صَدَقُوا وَلَيَعْلَمَنَّ الْكَاذِبِينَ(العنكبوت: 2-3)

"کیا لوگوں نے یہ خیال کر رکھا ہے کہ وہ صرف اتنا کہنے سے چھوڑ دیے جائیں گے کہ ہم ایمان لائے اور یہ کہ وہ آزمائے نہیں جائیں گے؟ اور بتحقیق ہم ان سے پہلوں کو بھی آزما چکے ہیں کیونکہ اللہ کو بہرحال یہ واضح کرنا ہے کہ کون سچے ہیں اور یہ بھی ضرور واضح کرنا ہے کہ کون جھوٹے ہیں۔ "

منابع

1- قرآن كريم.

2- ملاصدرا، الحکمة المتعالیه فی الاسفار العقلیة الاربعه، چاپ: بیروت ، اعلمی.

3- فارابي، التعليقات، چاپ: حیدرآباد دکن، ۱۳۰۶ ش.

4- جعفر سبحاني، محمد رضاعي، انديشه اسلامي(1)، نشر معارف، قم، چاپ: 100، سال1400ش.

محبت اهل بيت اسلام كى اساس هے؟

محبت اهل بيت اسلام كى اساس هے؟

زیارت ناحیہ ميں امام زمانه (عج) كا  امام حسين عليه السلام كے بارے  ميں مرثيه

زیارت ناحیہ ميں امام زمانه (عج) كا  امام حسين عليه السلام كے بارے  ميں مرثيه

 

" میرا سلام ہو اس شہید پر جس کی داہنی طرف کی پسلیاں ٹوٹ کر بائیں طرف آ گئی تھیں، اور بائیں طرف کی پسلیاں ٹوٹ کر داہنی طرف آ گئی تھیں

ﺳﻼﻡ ﺍُﻥ ﭘﺎﮐﯿﺰﮦ ﻧﻔﻮﺱ ﭘﺮ ﺟﻨﮭﯿﮟ ﭨﮑﮍﮮ ﭨﮑﮍﮮ ﮐﯿﺎ ﮔﯿﺎ ،

مسافرں میں سب سے زیادہ بے کس ؤ مظلوم مسافر پر سلام

ان گریبانوں پرسلام جو خون سے بھرے ہوے تھے

سلام اس مظلوم امام پر جس کے سر کو پشت گردن سے کاٹا گیا

اس ریش اقدس پرسلام جو خون سے سرخ تھی

اس روخسار پر سلام جو خاک الودہ تھا

ﺳﻼﻡ ﺍﺭﺽِ ﮐﺮﺑﻼ ﭘر ﺑﮩﻨﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﺧﻮﻥ ﭘﺮ ،

ﺳﻼﻡ ﺟﺴﻤﻮﮞ ﺳﮯ ﺟﺪﺍ ﮐﺮﺩﯾﮱ ﺟﺎﻧﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﺍﻋﻀﺎﺀ ﭘﺮ ،

ﺳﻼﻡ ﻧﯿﺰﻭﮞ ﭘﮧ ﺍُﭨﮭﺎﮰ ﺟﺎﻧﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﺳﺮﻭﮞ ﭘﺮ ،

" میرا سلام ہو اس مظلوم حسین(ع)  پرکہ جس پرآسمان کے فرشتےبھی رو دیئے".

میرا سلام ہو اس قیدی پر جس کا گوشت زنجیریں کھا گیں.......

میرا سلام ھو اس معصومہ پہ جس کے رخساروں کی رنگت کربلا سے شام تک مسلسل تبدیل ھوتی رہی.

"سلام" اُن ھونٹوں پر جو پیاس سے سوکھے ھوۓ تھے

میرا سلام ہو اس بی بی (س) پر جس نے کربلا سے شام تک اپنے زخمی ہاتھوں سے اپنے بھائی کے یتیموں کو کھانا کھلایا

سلام ہو اُس پر جس کے قبر کی مٹی خاکِ شفا ہے-

سلام ہو اس پر جس کے حرم کی فضامیں دعائیں قبول ہوتی ہیں "