کیا امام حسینؑ کو شیعہ نے قتل کیا؟

سوال: کیا امام حسینؑ کو شیعہ نے قتل کیا؟

مختصر جواب:

نہیں، امام حسین علیہ السلام کو شیعہ نے قتل نہیں کیا۔ امام حسینؑ کو یزید بن معاویہ کی حکومت کے حکم پر اموی فوج نے شہید کیا، جن کی قیادت عمر بن سعد، شمر بن ذی الجوشن، اور دیگر اموی کمانڈرز کر رہے تھے۔ ان میں سے اکثر نہ عقیدتاً شیعہ تھے، نہ اہل بیتؑ کے وفادار، بلکہ دنیاوی مفادات، خوف یا حکومت کی اطاعت میں شریک تھے۔

تفصیلی وضاحت:

📌 شیعہ کی تعریف:

لغوی معنی: "شیعہ" کا مطلب ہے کسی کے پیروکار۔ قرآن میں بھی لفظ "شیعه" آیا ہے: سورۃ الصافات 83: ﴿وَإِنَّ مِن شِيعَتِهِ لَإِبْرَاهِيمَ﴾ یعنی "ابراہیمؑ بھی اس (نوحؑ) کے پیروکاروں میں سے تھے۔"

خلافتِ راشدہ کے بعد "شیعه علیؑ" وہ کہلاتے تھے جو علیؑ کو خلافت کے لیے سب سے زیادہ حقدار مانتے تھے اور ان سے محبت رکھتے تھے۔ لهذا اس وقت "شیعہ" کا مطلب تھا: اہل بیت علیہم السلام کے ماننے والے اور ان کے سیاسی و روحانی حامی۔

📌 اہل کوفہ کون تھے؟

کوفہ حضرت علیؑ کا دارالخلافہ رہا، اس لیے وہاں بہت سے لوگ "شیعہ علیؑ" کہلاتے تھے۔ مگر وقت کے ساتھ ان میں منافقت، بزدلی، اور دنیا پرستی گھر کر گئی تھی۔ یزید کے گورنر ابن زیاد نےعوام کو خریدا یا ڈرایا۔ امام حسینؑ کی حمایت کرنے والوں کو قتل یا قید کیا۔حتیٰ کہ مسلم بن عقیلؑ کو بھی شہید کر دیا۔

کوفہ میں بہت سے ایسے لوگ موجود تھے جنہوں نے امام حسینؑ کو خطوط لکھے اور دعوت دی، مگر جب یزید کی طرف سے سختی، دھمکی اور قتل کا خطرہ آیا، تو بہت سے لوگ ڈر گئے یا خاموش ہو گئے۔ انہیں "شیعہ" کہنا آج کے معنوں میں درست نہیں۔

کیا خط لکھنے والے بعد میں کربلا میں امام کے خلاف تھے؟ نہیں۔ تاریخ گواہ ہے کہ کوفہ کے شیعہ جیسے سلیمان بن صرد خزاعی نے بعد میں "تَوّابین" کی تحریک چلائی تاکہ اپنے گناہ کا کفارہ ادا کر سکیں۔

اصل شیعہ، جیسے حبیب بن مظاہر، مسلم بن عقیل، زہیر بن قین، جون(حبشی غلام)، وہب اور ان کی ماں و بیوی اور جوانان بني هاشم۔ یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے اپنی جانیں قربان کیں لیکن امامؑ کا ساتھ نہ چھوڑا۔

📌 امام حسینؑ کے قاتل کون تھے؟

1- یزید بن معاویہ: ظالم حکمران، جس نے بیعت نہ کرنے پر قتل کا حکم دیا۔

2- عبید اللہ بن زیاد: کوفہ کا گورنر، جس نے امام حسینؑ کے خلاف لشکر تیار کیا۔

3- عمر بن سعد بن ابي وقاص: یزیدی لشکر کا سربراہ۔

4- شمر بن ذی الجوشن: امام حسینؑ کے قتل میں براہ راست شریک۔

ان میں سے کوئی بھی شیعہ علیؑ نہیں تھا۔ یہ لوگ دنیا طلب، حکومت کے وفادار، اور اہل بیتؑ کے دشمن تھے۔ ان کا تعلق مختلف قبیلوں سے تھا جنہوں نے کبھی علیؑ اور اہل بیتؑ کو قبول نہیں کیا۔

یہ کہنا کہ "امام حسینؑ کو شیعوں نے قتل کیا" ایک تاریخی مسخ (Distortion) ہے۔ اس کا مقصد اہل بیتؑ سے محبت کرنے والے طبقے کو بدنام کرنا ہے۔ امام حسینؑ کے قاتل وہ لوگ تھے جنہوں نے یزید کے لیے کام کیا، اور حقیقی شیعہ اس واقعے سے یا تو بےدخل تھے، خاموش کر دیے گئے، یا شہید کر دیے گئے۔

🔹 مستند حوالہ جات:

1- طبری (تاریخ الامم والملوک)

2- بلاذری (انساب الاشراف)

3- شیخ مفید (الارشاد)

4- ابن اثیر (الکامل فی التاریخ)

5- رضی الدین ابن طاؤس (اللهوف فی قتلی الطفوف)

حضرت فاطمه معصومه(س) كى ولادت اور كمالات

حضرت فاطمه معصومه(س) كى ولادت اور كمالات

حضرت سیدہ فاطمہ بنت موسیٰ بن جعفر بن محمد بن علی بن الحسین بن علی بن ابی طالب علیہم السلام خدا کے ولی کی بیٹی، خدا کے ولی کی بہن اور خدا کے ولی کی پھوپھی ہیں جیسا کہ ان کی زیارت میں آیا ہے۔

والدہ: فاطمہ علیہا السلام امام رضا علیہ السلام کی حقیقی بہن ہیں، دونوں کی ماں ایک ہی ہے۔ ان کی والدہ ایک كنيز تھیں جنہیں "ام البنین" کے کنیت سے جانا جاتا تھا۔ ان کے متعدد نام ذکر کیے گئے ہیں جیسے نجمہ، ارویٰ، سکن، سمان، اور تکتم۔ امام موسیٰ کاظم علیہ السلام کی ملکیت میں آنے کے بعد ان کا نام "تکتم" مستحکم ہوا۔

وہ عقل اور دین میں بہترین خواتین میں سے تھیں۔ سیدہ حمیدہ مصفّٰی نے اپنے بیٹے امام کاظم علیہ السلام سے کہا: "اے میرے بیٹے! تکتم ایک كنيز ہے، میں نے اس سے بہتر كنيز نہیں دیکھی۔ مجھے یقین ہے کہ اگر اس کی اولاد ہوئی تو خدا ضرور اس کی نسل کو پاک رکھے گا۔ میں نے اسے تمہیں بخش دیا ہے، اس کے ساتھ اچھا سلوک کرنا۔"

جب فاطمہ علیہا السلام کی ولادت ہوئی تو امام کاظم علیہ السلام نے ان کا نام "طاہرہ" رکھا۔ وہ عبادت گزار اور خدا کے حضور گڑگڑانے والی تھیں۔

سیدہ فاطمہ معصومہ(س) کی زندگی:

سیدہ فاطمہ معصومہ علیہا السلام نے اپنے بھائی امام رضا علیہ السلام کے ساتھ کم از کم 20 سال گزارے۔ اگر ہم یہ مان لیں کہ ان کی ولادت 173 ہجری میں ہوئی (جیسا کہ بعض مورخین نے ترجیح دی ہے) تو امام رضا علیہ السلام کے مدینہ سے مرو (خراسان) جانے (200 ہجری) تک ان کی عمر 27 سال تھی۔ اگر ولادت 179 ہجری مان لی جائے تو عمر 21 سال تھی۔ بہر حال، انہوں نے اپنے بھائی کے سایہ میں تربیت پائی اور علم و فضیلت سیکھا۔ امام رضا علیہ السلام نے انہیں تعلیم دی، جس کی وجہ سے وہ علم و معرفت کے اعلیٰ مقام پر فائز ہوئیں۔

امام رضا علیہ السلام کے دور کی مشکلات:

اگرچہ یہ دور امام علیہ السلام کے لیے آسان نہیں تھا، خاندانی تنازعات (بعض بھائیوں اور رشتہ داروں کی ناراضی)، "واقفیہ" فرقے کی فتنہ انگیزی (جو امام موسیٰ کاظم علیہ السلام کی غیبت کے عقیدے پر یقین رکھتے تھے)، اور حکومتی جبر،لیکن امام نے اپنی بہن کی تربیت میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔

سیدہ فاطمہ معصومہ (س)کا مقام:

امام رضا علیہ السلام نے فرمایا: "جو شخص قم میں معصومہ کی زیارت کرے، گویا اس نے میری زیارت کی۔" یہ بات ان کے بلند علمی و روحانی مقام کی دلیل ہے۔ ان کی عصمت (معصومیت) کا تصور بھی ان کے علم کی گہرائی کو ظاہر کرتا ہے، کیونکہ عصمت علم و معرفت کے بغیر ممکن نہیں۔ ان کے جدّ امام جعفر صادق علیہ السلام نے بھی فرمایا کہ ان کی شفاعت تمام شیعوں کو جنت میں داخل کرے گی۔

اگرچہ تاریخی مصادر میں ان کی تعلیمات کے تفصیلی واقعات کم ملتے ہیں، لیکن ان کے مقام کے لیے یہی کافی ہے کہ امام معصوم نے انہیں "معصومہ" کا لقب دیا اور ان کی زیارت کو اپنی زیارت کے برابر قرار دیا۔

اور اس کی تائید میں علامہ شیخ علی اکبر مہدی پور نے ابن العرندس حلی کی کتاب "کشف اللئالی" سے ایک واقعہ نقل کیا ہے جو سید احمد مستنبط کے حوالے سے ایک فضلاء سے منسوب ہے۔ خلاصہ یہ کہ کچھ شیعہ امام موسیٰ کاظم علیہ السلام کے گھر ان سے ملنے اور سلام کرنے آئے، لیکن معلوم ہوا کہ امام سفر پر ہیں۔ ان کے پاس کچھ سوالات تھے جنہیں انہوں نے لکھ کر سیدہ فاطمہ معصومہ علیہا السلام کے حوالے کر دیا اور واپس چلے گئے۔

اگلے دن جب وہ اپنے گھر لوٹنے لگے تو امام کے گھر سے گزرے۔ دیکھا کہ امام ابھی واپس نہیں آئے۔ چونکہ انہیں جانا ضروری تھا، انہوں نے سیدہ سے اپنے سوالات واپس مانگے تاکہ کسی اور موقع پر امام کو پیش کریں۔ سیدہ فاطمہ علیہا السلام نے ان سوالات کے جوابات لکھ کر واپس کیے۔ جب لوگوں نے یہ دیکھا تو خوش ہو کر مدینہ سے نکل گئے۔ راستے میں انہیں امام کاظم علیہ السلام ملے جو مدینہ واپس آرہے تھے۔ انہوں نے واقعہ سنایا تو امام نے سوالات اور جوابات دیکھنے چاہے۔ جب امام نے جوابات پڑھے تو تین بار فرمایا: "فداها أبوها"(ان کے بابا ان پر قربان هو!)۔

یہ واقعہ سیدہ کے بلند علمی مرتبے کو ظاہر کرتا ہے۔ شیخ مہدی پور کے مطابق، یہ اس بات کی دلیل ہے کہ وہ "عالمہ غیر معلّمہ" تھیں، یعنی بغیر رسمی تعلیم کے ہی علم رکھتی تھیں۔ حالانکہ وہ اس وقت کم عمر تھیں، لیکن تاریخ نے ان سے منسوب چند روایات محفوظ کی ہیں جو ان کے علمی مقام کو ثابت کرتی ہیں۔

حدیث اور علم رجال کا تعلق:

حدیث کا علم تفسیر، فقہ، اخلاقیات، اور کلام جیسے علوم کا مجموعہ ہے۔ شیعہ علماء نے ائمہ علیہم السلام کی احادیث کو محفوظ کرنے، انہیں مرتب کرنے، اور ان کی تنقیدی تحقیق کر کے "کتب اربعہ" جیسی عظیم کتابیں تیار کیں۔ ساتھ ہی، انہوں نے "علم رجال" (راویوں کے حالات کا علم) کو فروغ دیا جس میں روایات کی سندوں اور راویوں کے حالات کو پرکھا جاتا ہے۔ اگرچہ اس علم کو "رجال" کا نام دیا گیا، لیکن یہ صرف مردوں تک محدود نہیں۔ کئی خواتین راویہ بھی تھیں جن کا ذکر معتبر کتب میں ملتا ہے، اور سیدہ فاطمہ معصومہ علیہا السلام ان میں سرفہرست ہیں۔ ان سے بڑے بڑے علماء نے روایات نقل کی ہیں، جو ان کے علمی مقام کی واضح دلیل ہے۔

سیدہ فاطمہ معصومہ علیہا السلام کا علمی مقام صرف روایات تک محدود نہیں، بلکہ ان کی شخصیت اماموں کے گھرانے کی تربیت، عصمت، اور خدا کی خاص عنایت کی عکاس ہے۔ امام رضا علیہ السلام کا ان کی زیارت کو اپنی زیارت کے برابر قرار دینا ان کے روحانی عظمت کو مزید اجاگر کرتا ہے۔لیکن یہ بات تعجب خیز ہے کہ ہمیں اس جلیل القدر اور عظیم محدثہ خاتون کا ترجمہ ان معاجم میں نہیں ملتا جو راویوں کے ناموں کو ضبط کرنے کے لیے مشہور ہیں۔ اسی لیے شیخ النمازی نے اپنی کتاب "مستدرکات" میں ان کا ذکر کرتے ہوئے صرف ان مقامات کی طرف اشارہ کیا ہے جہاں ان کا تذکرہ کتاب "بحار الانوار" میں آیا ہے۔ حالانکہ ان معاجم کے مصنفین نے ان سے کم شہرت اور کم روایت کرنے والی خواتین کا ذکر کیا ہے۔ ہم سمجھ نہیں پاتے کہ اس کی کیا وجہ ہو سکتی ہے! بہرحال، یہ جلیل القدر خاتون محدثات میں سے تھیں، اور ان کا ذکر شیعہ کے علاوہ اہل سنت کے اسناد میں بھی آیا ہے۔ مثال کے طور پر، امام جعفر بن احمد القمی کی کتاب "المسلسلات" میں ایک روایت ان الفاظ کے ساتھ نقل ہوئی ہے:

"ہمیں محمد بن علی بن الحسین نے حدیث بیان کی، انہوں نے کہا کہ مجھے احمد بن زیاد نے حدیث سنائی، انہوں نے کہا کہ مجھے ابو القاسم جعفر بن محمد العلوی العریضی نے حدیث سنائی، انہوں نے کہا کہ ابو عبد اللہ احمد بن محمد بن خلیل نے کہا کہ مجھے علی بن محمد بن جعفر الاہوازی نے خبر دی، انہوں نے کہا کہ مجھے بکیر بن احنف نے حدیث سنائی، انہوں نے کہا کہ ہمیں فاطمہ بنت علی بن موسی الرضا علیہ السلام نے حدیث سنائی، انہوں نے کہا کہ مجھے فاطمہ، زینب اور ام کلثوم (موسی بن جعفر علیہما السلام کی بیٹیوں) نے حدیث سنائی، انہوں نے کہا کہ ہمیں فاطمہ بنت جعفر بن محمد علیہ السلام نے حدیث سنائی، انہوں نے کہا کہ مجھے فاطمہ بنت محمد بن علی علیہ السلام نے حدیث سنائی، انہوں نے کہا کہ مجھے فاطمہ بنت علی بن الحسین علیہ السلام نے حدیث سنائی، انہوں نے کہا کہ مجھے فاطمہ اور سکینہ (حسین بن علی علیہ السلام کی بیٹیوں) نے حدیث سنائی، انہوں نے ام کلثوم بنت علی علیہ السلام سے روایت کی، انہوں نے فاطمہ بنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کی کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا:

"جب مجھے معراج ہوئی اور میں جنت میں داخل ہوا تو میں نے ایک سفید موتی کا محفوظ محل دیکھا، جس کے دروازے پر یاقوت اور موتی جڑے ہوئے تھے اور دروازے پر ایک پردہ تھا۔ میں نے سر اٹھایا تو دروازے پر لکھا ہوا دیکھا: 'لا الہ الا اللہ، محمد رسول اللہ، علی ولی الله'، اور پردے پر لکھا تھا: 'بخ بخ، شیعہ علی علیہ السلام جیسے لوگوں کے لیے!' پھر میں اس میں داخل ہوا تو ایک سرخ عقیق کا محل دیکھا، جس پر چاندی کا دروازہ تھا جس پر زبرجد جڑا ہوا تھا، اور دروازے پر ایک پردہ تھا۔ میں نے سر اٹھایا تو دروازے پر لکھا ہوا تھا: 'محمد رسول اللہ، علی وصی المصطفی'، اور پردے پر لکھا تھا: 'شیعہ علی کو خوشخبری ہو، ان کی پیدائش پاکیزہ ہے۔' پھر میں اس میں داخل ہوا تو ایک سبز زمرد کا محل دیکھا، جو نہایت خوبصورت تھا، اس پر سرخ یاقوت کا دروازہ تھا جس پر موتی جڑے ہوئے تھے، اور دروازے پر ایک پردہ تھا۔ میں نے سر اٹھایا تو پردے پر لکھا ہوا تھا: 'شیعہ علی ہی فلاح پانے والے ہیں۔' میں نے پوچھا: 'اے میرے محبوب جبرائیل! یہ کس کے لیے ہے؟' تو انہوں نے کہا: 'اے محمد! یہ آپ کے چچا زاد اور وصی علی بن ابی طالب (علیہ السلام) کے لیے ہے۔ قیامت کے دن تمام لوگ ننگے پاؤں اور ننگے بدن اٹھائے جائیں گے، سوائے شیعيان علی (علیہ السلام) کے۔ اور تمام لوگوں کو ان کی ماؤں کے نام سے پکارا جائے گا، سوائے شیعہ علی (علیہ السلام) کے، جنہیں ان کے باپوں کے نام سے پکارا جائے گا۔' میں نے پوچھا: 'اے جبرائیل! یہ کیسے ہوگا؟' تو انہوں نے کہا: 'کیونکہ انہوں نے علی (علیہ السلام) سے محبت کی، اس لیے ان کی پیدائش پاکیزہ ہوئی۔'"

اسی طرح محمد جزری نے اپنی کتاب "اسنی المطالب" میں علی بن محمد بن جعفر الاہوازی کے طریقے سے بکر بن احمد القصری کے ذریعے "الفواطم" (فاطمی خواتین) سے روایت کی ہے کہ فاطمہ بنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

"کیا تم لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ فرمان بھول گئے جو آپ نے غدیر خم کے دن فرمایا تھا: 'جس کا میں مولا ہوں، اس کا علی مولا ہے'؟ اور آپ کا یہ فرمان: 'تم میرے لیے وہی مقام رکھتے ہو جو ہارون (علیہ السلام) کا موسیٰ (علیہ السلام) کے لیے تھا'؟"

اس قسم کے اسناد کو "مسلسل" کہا جاتا ہے، جو حدیث کی حفاظت کا ایک خاص طریقہ ہے۔ اس میں راویوں کے تسلسل پر خصوصی توجہ دی جاتی ہے، جیسے ہر راوی کہتا ہے: "میں نے فلاں سے سنا، وہ کہہ رہا تھا کہ میں نے فلاں سے سنا..." یا "ہمیں فلاں نے اللہ کی قسم دے کر بیان کیا..." وغیرہ۔ محقق داماد نے اس کی تعریف کرتے ہوئے اس کی 15 سے زیادہ اقسام بیان کی ہیں۔ مذکورہ بالا دو اسناد میں ایک اضافی خصوصیت یہ بھی ہے کہ ہر فاطمہ اپنی پھوپھی سے روایت کر رہی ہے، یعنی یہ پانچ بہنیں ایک دوسرے سے روایت کرتی ہیں۔

مختصر یہ کہ یہ جلیل القدر خاتون (فاطمہ معصومہ علیہا السلام) نے علم و معرفت کا بڑا حصہ حاصل کیا، جو انہیں خالص سرچشموں سے ملا، یہاں تک کہ وہ بلند مقام تک پہنچ گئیں، اگرچہ ہم تک ان کی بہت سی روایات نہیں پہنچی ہیں۔

ماخذ:شبکہ المعارف الاسلامیہ

امام رضا عليه السلام کو غریب الغرباء کیوں کها جاتا ہے؟

امام رضا عليه السلام کو غریب الغرباء کیوں کها جاتا ہے؟

بہت سے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ امام رضا علیہ السلام کو "امام غریب" یا "غریب الغرباء" اس لیے کہا جاتا ہے کیونکہ آپ اپنے وطن اصلی یعنی مدینہ منورہ سے دور تھے۔ لیکن اگر اس معنی کو دیکھا جائے تو پھر امیر المؤمنین علی علیہ السلام بھی کوفہ میں غریب تھے، اسی طرح امام حسین علیہ السلام، امام موسیٰ بن جعفر علیہ السلام، امام جواد علیہ السلام اور امام عسکریین علیہما السلام بھی غریب تھے۔ لیکن امام رضا علیہ السلام کی غربت ایک خاص قسم کی تھی، اسی لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان "بضعة مني" صرف حضرت فاطمہ الزہرا سلام اللہ علیہا اور امام رضا علیہ السلام کے لیے آیا ہے۔ اگر ایک مخلص شیعہ امام رضا علیہ السلام کی غربت کو سمجھ لے تو اس کا دل ٹکڑے ٹکڑے ہو جائے گا!

آپ کی غربت کئی پہلوؤں سے تھی:

1- وطن سے دوری کی غربت

2- اپنے ہی خاندان میں غربت، کیونکہ بعض نے آپ کو شدید تکلیف پہنچائی۔

3- اپنے والد کے اصحاب میں غربت، کیونکہ بہت سے لوگوں نے آپ کے ساتھ خیانت کی۔

4- مأمون کے محل میں غربت، جو ظاہر میں محل تھا لیکن باطن میں ایک جیل تھی اور جبری قیام گاہ۔

5- اپنی قوم میں غربت، کیونکہ انہوں نے آپ کو تکلیف دی اور آپ پر بہتان لگایا۔

6- مأمون کی فتنہ انگیزیوں میں غربت۔

7- اپنے خاندان کو تباہ ہوتے دیکھنے کی غربت، جیسے حضرت فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیہا اور دیگر، لیکن آپ انہیں خبردار نہ کر سکتے تھے۔

# ایک واقعہ:

جب حرم رضوی میں ابھی دیواریں اور دروازے نہیں لگے تھے۔ ایک ایرانی انجینئر کام کی نگرانی کر رہا تھا کہ شیخ بہائی نے اس سے کہا: "جب تم دیواریں بنا لو تو دروازے نہ لگانا، جب تک میں تمہیں حکم نہ دوں۔" انجینئر نے کہا: "جی مولانا!" لیکن پہلی رات ہی اس نے خواب میں امام رضا علیہ السلام کو دیکھا، جو فرما رہے تھے: "دروازے لگا دو۔" جب وہ بیدار ہوا تو اس نے سوچا کہ یہ صرف ایک خواب ہے، کیونکہ شیخ نے انتظار کرنے کو کہا تھا۔ دوسری رات پھر یہی خواب دیکھا، لیکن امام علیہ السلام نے سختی سے فرمایا۔ تیسری رات امام نے اور بھی سختی سے حکم دیا، تو اس نے سوچا کہ یہ صرف خواب نہیں بلکہ حکم ہے۔ چنانچہ اس نے دروازے لگوا دیے۔

کچھ دن بعد شیخ بہائی آئے اور غصے سے پوچھا: "کیا میں نے تمہیں دروازے نہ لگانے کو نہیں کہا تھا؟" انجینئر نے بتایا کہ امام علیہ السلام نے تین بار خواب میں حکم دیا، تو مجھے یقین ہو گیا کہ یہ آپ کا حکم ہے۔ یہ سن کر شیخ بہائی رونے لگے۔ انجینئر نے پوچھا: "مولانا، آپ کیوں رو رہے ہیں؟" شیخ نے جواب دیا: "یہ واقعی رحمت کے دروازے ہیں اور امت کی نجات کا ذریعہ۔ میں نے سوچا تھا کہ ہر دروازے پر ایسی حفاظتی علامتیں لگاؤں کہ جو شخص بھی گناہگار ہو، وہ اندر نہ جا سکے۔ لیکن امام علیہ السلام نے فرمایا: 'یہ لوگ بے بس ہو کر ہماری پناہ میں آتے ہیں، اگر ہم انہیں واپس کر دیں گے تو پھر وہ کہاں جائیں گے؟"

السلام علیک یا ضامن الجنان یا علی بن موسی الرضا!

اللہ تعالیٰ ہمیں اور آپ کو دنیا میں آپ عليه السلام کی زیارت اور آخرت میں آپ کی شفاعت نصیب فرمائے۔ الهي آمين.

حواله: https://forums.alkafeel.net/node/95266

حضرت اُمُّ البنین عليها السلام

حضرت اُمُّ البنین سلام اللہ علیہا

تحرير: سيد غيور الحسنين

حضرت ام البنین سلام اللہ علیہا تاریخ اسلام کی ان عظیم خواتین میں سے ہیں جن کے چار فرزندوں نے واقعہ کربلا میں اسلام پر اپنی جانیں نچھاور کیں۔ ام البنین یعنی بیٹوں کی ماں، آپ کے چار شجاع و بہادر بیٹے عباس، جعفر، عبد اللہ اور عثمان تھے حضرت علی بن ابی طالب عليه السلام کے شجاع و بہادر بچے امام حسین علیہ السلام کی نصرت و مدد کرتے ہوئے کربلا میں شہادت کے درجے پر فائز ہوگئے۔

حضرت اُمُّ البنین سلام اللہ علیہا، جن کا اصل نام فاطمہ بنت حزام بن خالد تھا، اسلامی تاریخ میں ایک عظیم المرتبت شخصیت کے طور پر معروف ہیں۔ آپ حضرت علی علیہ السلام کی زوجہ محترمہ اور حضرت عباس علیہ السلام سمیت چار جری بیٹوں کی والدہ ہیں، جو کربلا کے واقعہ میں اپنی وفاداری اور قربانیوں کی وجہ سے مشہور ہیں۔

جناب عقیل نے حضرت ام البنین کے گھرانے(بنو کلاب قبیلے) کے بارے میں بتایا کہ پورے عرب میں ان کے آباؤ و اجداد سے زيادہ بہادر کوئی نہ تھا اور شجاعت، اور ادبی خوبیوں میں معروف تھا۔ امام علی علیہ السلام نے اس تجویز کو قبول کرلیا اور عقیل کو رشتہ لے کر جناب ام البنین کے والد "حزام بن خالد" کے پاس بھیجا ان کے والد اس مبارک رشتے سے بہت زيادہ خوش ہوئے اور فورا ہی اپنی بیٹی کے پاس گئے اور اس سلسلے میں ان کی مرضی معلوم کرنا چاہی، ام البنین نے اس رشتے کو سربلندی و افتخار سمجھ کر قبول کرلیا اور پھر اس طرح جناب ام البنین اور حضرت علی علیہ السلام رشتہ ازدواج سے منسلک ہوگئے-

حضرت اُمُّ البنین نے اپنے چار بیٹے (حضرت عباس، عبداللہ، جعفر، اور عثمان) امام حسین علیہ السلام کی مدد کے لیے کربلا روانہ کیے۔ ان کا بیٹا، حضرت عباس علمدار علیہ السلام، کربلا میں وفاداری اور شجاعت کی اعلیٰ مثال بنے۔ حضرت اُمُّ البنین نے اپنی تمام اولاد کو امام حسین علیہ السلام پر قربان کردیا اور خود کربلا کے بعد مدینہ میں لوگوں کو امام حسین علیہ السلام کی مظلومیت سے آگاہ کرتی رہیں اور بنی امیہ کے ظلم و ستم کو بيان کرتی رہیں اور مجالس عزا منعقد کیا کرتی تھیں تاکہ کربلا کے شہیدوں کا ذکر ہمیشہ زندہ رہے اور ان مجلسوں میں خاندان عصمت و طہارت کی عورتیں شریک ہو کر کربلا کے شہیدوں پر آنسو بہاتی تھیں آپ اپنی تقریروں، مرثیوں اور اشعار کے ذریعے شہیدان کربلا کی مظلومیت کو کائنات کے ہر فرد تک پہنچانا چاہتی تھیں۔

بالآخر ایثار و قربانی اور کمال اخلاص و ایمان کی دولت سے سرشار عظیم خاتون ام البنین سلام الله عليها کا ستر ہجری میں انتقال ہوگیا - بعض مورخین نے آپ کی وفات کی تاریخ تیرہ جمادی الثانی سن چونسٹھ ہجری تحریر کیا ہے۔

آپ کی قبرمبارک جنت البقیع میں حضرت امام حسن علیہ السلام کی قبر کے پاس موجود ہے جو آج بھی نجدیوں کے ظلم کی داستان چیخ چیخ کر ان کے ظلم و بربریت کا اعلان کررہی ہے۔

حضرت اُمُّ البنین کی زندگی وفاداری، شجاعت اور ایثار کا ایک مثالی نمونہ ہے جو اہل بیت سے محبت کرنے والوں کے لیے مشعل راہ ہے۔

مصادر

1- ابن شہر آشوب، المناقب۔

2- شیخ عباس قمی، نفس المهموم۔

3- علامہ مجلسی، بحار الانوار: جلد 45 ۔

4- ابن اثیر، اسد الغابہ۔

فضائل  امام محمد تقی عليه السلام

فضائل امام محمد تقی علیہ السلام

محمد بن علی بن موسی (195–220 ھ) امام محمد تقی ؑ کے نام سے مشہور شیعوں کے نویں امام ہیں۔ آپ کی کنیت ابو جعفر ثانی ہے۔ آپ نے 17 سال امامت کے فرائض انجام دیئے اور 25 سال کی عمر میں شہید ہوئے۔ شیعہ آئمہ میں آپ سب سے کم عمر شہید امام ہیں۔بچپن میں امامت ملنے کی وجہ سے امام رضاؑ کے بعض اصحاب نے ان کی امامت میں تردید کی جس کے نتیجے میں عبدالله بن موسی کو امام کہنے لگے اور کچھ دیگر افراد نے واقفیہ کی بنیاد ڈالی لیکن اکثر اصحاب نے آپ کی امامت کو قبول کیا۔امام محمد تقیؑ کا لوگوں کے ساتھ ارتباط وکالتی سسٹم کے تحت خط و کتابت کے ذریعے رہتا۔ آپ کے زمانے میں اہل حدیث، زیدیہ، واقفیہ اور غلات جیسے فرق بہت سرگرم تھے اسی بنا پر آپ شیعوں کو ان کے باطل عقائد سے آگاہ کرتے، ان کے پیچھے نماز پڑھنے سے روکتے اور غالیوں پر لعن کرتے تھے۔دوسرے مکاتب فکر کے علماء و دانشوروں کے ساتھ مختلف کلامی اور فقہی موضوعات پر آپ کے علمی مناظرے ہوئے جن میں شیخین کی حیثیت، چور کے ہاتھ کاٹنے اور احکام حج کے بارے میں مناظرہ، آپ کے معروف مناظرے ہیں۔

نام و نسب

امام محمد تقی علیہ السلام آسمان عصمت کے گیارهویں درخشاں ستارے اور ہمارے نویں امام ہیں۔ آپ کے والد بزرگوار حضرت امام علی رضاعلیہ السلام اور والدۀ ماجدہ حضرت سبیکہ علیھا السلام ہیں جن کا تعلق پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلّم کی زوجہ حضرت ماریہ قبطیہ رضی اللہ عنها سے ہے۔ آپ کی والدہ کے ناموں میں "ریحانہ" اور "خیزران" بھی شامل ہیں۔ آپ فضائل و کمالات کے اعتبار سے اپنے زمانہ کی بلند مرتبہ خاتون تھیں ۔ (۱)یہاں تک کہ خود امام علی رضا علیہ السلام نے اپنی زبان عصمت سے انہیں با فضیلت اور پاکدامن خاتون کہا ہے۔(۲)

امام کے دو بیٹے تھے:

۱- امام علی نقی علیہ السلام جو ہمارے دسویں امام ہیں۔

۲- حضرت موسیٰ مبرقع علیہ السلام جن سے رضوی سادات کی نسل چلی جو آج دنیا کے گوشے گوشے میں موجود ہے۔

شیخ مفید کی روایت کے مطابق امام محمد تقی کی چار اولاد امام علی نقی، موسی مبرقع، فاطمہ و اَمامہ ہیں۔(3) البتہ بعض راویوں نے آپؑ کی بیٹیوں کی تعداد حکیمہ، خدیجہ و ام کلثوم کے نام سے تین بتائی ہے۔(4)

القاب اور کنیت

جواد، تقی، مرتضی، قانع، رضی، مختار، باب المراد وغیرہ آپ کے مشہور القاب ہیں۔ اور "ابو جعفر "آپ کی کنیت ہے۔ چونکہ آپ کی کنیت اور پانچویں امام حضرت امام محمد باقر علیہ السلام کی کنیت ایک جیسی ہے لہذا فرق کے لئے آپ کی کنیت کے آگے "ثانی" کا اضافہ کر تے ہوئے "ابو جعفر ثانی" لکھا جاتا ہے۔

ولادت

امام محمد تقی علیہ السلام ۱۰ رجب المرجب ۱۹۵ھ کو مدینہ منورہ میں پیدا ہوئے۔ امام رضا علیہ السلام نے پہلے ہی امام کی ولادت کی خوشخبری سنا دی تھی۔ چنانچہ آپ نے اپنی ہمشیرہ جناب حکیمہ علیها السلام سے فرمایا: آج خیزران کا بابرکت بیٹا دنیا میں آئے گا لہذا اب سات دن تک ان کے ساتھ رہيے گا۔ حکیمہ خاتون کہتی ہیں: جب امام محمد تقی علیہ السلام پیدا ہوئے تو ایک ایسا نور ساطع ہوا جس سے پورا حجرہ روشن ہوگیا ۔(5) دنیا میں آنے کے بعد آپ کی زبان اقدس پر یہ جملے جاري ہوئے:" أشْهَدُ اَنْ لا اِلهَ اِلّا اللّه وَاَنَّ مُحَمَّدا رَسُولُ اللّه"۔ ولادت کے تیسرے روز جب آپ کو چھینک آئی تو فرمایا:" اَلْحَمْدُ للّه وَصَلّی اللّه عَلی مُحَمَّدٍ وَعَلَی الأئِمّة الرّاشِدین "۔ جناب حکیمہ نے جب امام محمد تقی علیہ السلام کے لب مبارک سے یہ جملے سنے تو آپ امام رضا علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور فرمایا: میں اس بچے میں عجیب و غریب اور حیرت انگیز چیزوں کا مشاہدہ کر رہی ہوں۔ امام نے فرمایا:"یا حَکیمةُ، ماتَرَوْنَ مِنْ عَجائِبِه أَکْثَرُ "۔ اے حکیمہ! آئندہ مزید حیرت انگیز باتوں کا مشاہدہ کیجئے گا۔(6)

امام محمد تقی علیہ السلام، اس زمانے مین بابرکت مولود اور خوش قدم بچہ کے عنوان سے مشہور تھے، جس کا اصل سبب امام علی رضا علیہ السلام کا وہ ارشاد تھا جسے ابو یحیی صنعانی نے نقل کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں: ایک روز میں امام رضا علیہ السلام کی خدمت میں حاضر تھا۔ اسی دوران آپ کے فرزند ابو جعفر کو لایا گیا جو ابھی بہت چھوٹے تھے، امام نے فرمایا: اس نو مولود بچہ سے زیادہ ہمارے شیعوں کے لئےباعث برکت کوئی بچہ پیدا نہیں ہوا ہے۔ مکہ میں بھی کچھ لوگوں کے درمیان آپ نے یہی فرمایا ۔(7)(8)

عصر امامت

امام تقریبا سات برس اپنے والد بزرگوار کے ہمراہ رہے۔ اس کمسنی میں آپ کو اپنے بابا کی مظلومانہ شہادت سے روبرو ہونا پڑا۔ اپنے بابا کی جانگداز شہادت کے بعد آپ امامت کے ظاہری منصب پر فائز ہوئے ۔ اتنی کمسنی میں منصب امامت کی باگ ڈور سنبھالنے والے آپ واحد امام ہیں۔ یہ مسئلہ ایسا تھا جس کے موجب آٹھویں امام کے بعض صحابہ تک شک و تردید میں مبتلا ہوگئے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ حضرت امام علی رضا اور خود امام محمد تقی علیهما السلام نے اس سلسلہ میں روشنی ڈالی اور شبهات کا جواب دیا۔ خالص اسلامی اور شیعی عقیدہ کی بنیاد پر امامت میں سن اور عمر کی شرط نہیں ہوتی۔ امامت بھی نبوت کی طرح الہی عہدہ ہے لہذا اس کا اختیار بھی اللہ کے ہاتھوں میں ہے۔ وہ جس عمر میں چاہے ، اپنے عہدے، مورد نظر بندوں کے سپرد کر سکتا ہے۔ قرآن مجید میں اس کی مثالیں موجود ہیں:

1- حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے سلسلہ میں قرآن مجید میں موجود ہے کہ جب آپ ماں کی گود میں ہوا کرتے تھے اس وقت فرمایا: ۔ "میں اللہ کا بندہ ہوں، اس نے مجھے کتاب عطا کی ہے اورمجھے نبی قرار دیا ہے"۔(9)

2- حضرت یحیی علیہ السلام کے سلسلہ میں بھی صاف طور پر قرآن میں موجود ہے کہ اللہ نے انہیں بچپن میں ہی نبوت عطا کی۔ ارشاد ہوتا ہے: "ہم نے انہیں [یحیی] کو بچپنے میں منصب نبوت عطا کیا"۔(10)

لہذا جس طرح اللہ نے حضرت عیسی اور حضرت یحیی علیهما السلام کو بچپنے میں نبی بنایا اسی طرح امام محمد تقی علیہ السلام کو بچپنے میں امام بنایا۔ اگر چہ نویں امام کافی کم عمری میں ظاہری منصب امامت پر فائز ہوئے تاہم آپ کی امامت کا سترہ برس پر مشتمل دور بہت سے دیگر معصومین علیهم السلام کی مدّت امامت سے قدرے طولانی ہے۔ مامون اور معتصم آپ کے ہمعصر عباسی خلفاء تھے۔

امام علی رضا علیہ السلام کی شہادت کے بعد مامون خراسان سے بغداد گیا ۔ وہ امام محمد تقی علیہ السلام کے علمی و معنوی فضائل سے خوب آگاہ تھا لہذا اس نے امام کو مدینہ سے بغداد آنے کی دعوت دی۔ اس کا اصل مقصد یہ تھا کہ امام کی فعالیتوں پر نظر رکھ سکے ۔ وہ امام کی شادی اپنی بیٹی ام الفضل سے کرنا چاہتا تھا، یہ چال بھی اس کے اس مقصد کا ہی حصہ تھی، اس کے علاوہ اس کا دوسرا مقصد یہ تھا کہ اپنے خلاف اٹھنے والی علوی تحریکوں کو خاموش کر سکے۔ اس کے قریبیوں کو اس شادی پر اعتراض تھا لہذا اس نے ایک مناظراتی نشست منعقد کروائی جس میں امام نے مختلف علماء و دانشوروں کے سوالات کے جوابات دئے ، سب کے سب مبہوت ہوکر رہ گئے۔ اس کے بعد مامون نے اپنی بیٹی کی شادی امام سے کردی۔

ظاہر ہے یہ شادی امام کی رضایت پر مبتنی نہ تھی بلکہ مامون نے امام کو اس بات پر مجبور کیا تھا ،یہاں تک کہ انہیں قتل کی دھمکی تک دی تھی۔ اگرچہ امام کی لغت زندگی میں خوف نام کا کوئی لفظ نہیں ہوتا لیکن کبھی وقت ایسا ہوتا ہے جس میں شہادت سے زیادہ امام کے زندہ رہنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ مصلحت خدا یہی تھی کہ امام زندہ رہیں۔ دوسرے یہ کہ اگر امام شادی نہ کرتے تو آپ کو تو شہید کیا ہی جاتا، شیعوں کو بھی تباہ و برباد کر دیا جاتا۔ ہمارے معصومین علیهم السلام کا ہمیشہ ایک اہم مقصد شیعوں کو تحفظ فراہم کرنا تھا۔ ظاہر ہے کہ مامون کی بیٹی سے شادی کی صورت میں، شیعوں کے خلاف اس کی سازشوں میں قدرے کمی آ سکتی تھی جو کہ آئی بھی۔

امام محمد تقی علیہ السلام کی دوسری زوجہ حضرت سمانہ علیها السلام تھیں۔ آپ دسویں امام حضرت امام علی نقی علیہ السلام کی والدۀ ماجدہ ہیں۔ آپ نہایت عفیف اور با فضیلت خاتون تھیں۔

امام کےعلم و اخلاق کے چند نمونے

امام محمد تقی علیہ السلام اعلیٰ اخلاقی فضائل و کمالات کے حامل تھے۔ بے مثال زہد و تقویٰ، عبادت و بندگی،علم و حلم،حسن خلق، جود و سخا، عفو و درگذر جیسی دیگر تمام خصوصیات آپ کے کردار کی آئینہ دار نظر آتی ہیں۔ آپ کی عظمت و فضیلت کا اظہار و اعتراف علمائے شیعہ ہی نہیں بلکہ اہل سنت کے بڑے بڑے علماء نے بھی کیا ہے:

ابن جوزی کہتے ہیں: "آپ علم و تقویٰ اور زہد و بخشش میں اپنے پدر بزرگوار کے راستہ پر تھے"۔(11)

ابن حجر ہیثمی کہتے ہیں: "…آپ کمسنی میں ہی علم و دانش اور حلم و بردباری میں تمام دیگر دانشوروں پر برتری رکھتے تھے"۔(۱2)

شبلنجی کہتے ہیں: "… آپ نے کمسنی میں ہی اپنے فضل و علم اور کمال عقل کا مظاہرہ کیا اور اپنے برہان کو لوگوں پر واضح کر دیا"۔(13)

آپ کی ذات ستودہ صفات پر بطور کامل روشنی ڈالنا اور آپ کے تمام کمالات کو شمار کرنا یقیناً نا ممکن ہے، بس نمونہ کے طور پر چند مثالیں معروض ذیل ہیں:

علم و دانش

امام جواد علیہ السلام علم کے میدان میں سرآمد روزگار تھے۔ آپ کا وجود علوم الہیہ کا مخزن تھا ۔ آپ خدا داد علمی صلاحیتوں کے ایسے مالک تھے کہ انتہائی کمسنی میں آپ نے زمانے کے بڑے بڑے عالموں سے مناظرہ کیا اور انہیں اپنے مستحکم دلائل و برہان کے ذریعہ مبہوت و لاجواب کر دیا۔ جن میں سر فہرست یحیی بن اکثم کے ساتھ ہونے والا مناظرہ ہے جسے تاریخ نے اپنے دامن میں محفوظ کر لیا ۔ (۱4)خود مامون کو اعتراف کرنا پڑا:"اس خاندان سے تعلق رکھنے والوں کے لئے کمسنی ، عقل کے کمال میں رکاوٹ نہیں ہوتی "۔ (۱5)دوست و دشمن آپ کےبے نظیر علم و فضل کے قائل تھے۔ بڑے بڑے راوی، محدثین، فقہاء و علماء نے اس کمسن امام کے حضور زانوئے ادب تہہ کئے اور اس منبع علوم سے فیضیاب ہوئے۔ علمی آثار و مکتوبات پر تاریخ کی بے انتہا جفاکاریوں کے باوجود،موجودہ کتب احادیث و تفاسیر میں عقائد، تفسیر، فقہ اور دیگر موضوعات کے سلسلہ میں آپ سے بکثرت روایات نقل ہوئی ہیں۔

على بن مهزيار، محمد بن ابى عمير، احمد بن محمد بن ابى نصر بزنطى، زكريا بن آدم، محمد بن اسماعيل،فضل بن شاذان، حضرت عبد العظیم حسنی، حبيب بن اوس طائى، حسن بن محبوب، على بن اسباط، عبدالله بن الصلت، سعد بن سعد القمى، حسن بن سعيد اهوازى، دعبل خزاعی جیسی بہت سی دیگر عظیم ہستیوں کو آپ کی شاگردی کا شرف و افتخار حاصل ہے۔

یحیی بن اکثم کے ساتھ ہونے والا مناظرہ

ایک روز خلیفہ کی موجودگی میں جب امام جوادؑ، یحیي بن اکثم اور دوسرے لوگ بیٹھے ہوئے تھے، یحیي نے امام علیہ السلام سے کہا :روایت ہوئی ہے کہ جبرئیلؑ،پیغمبر اکرم(ص) کی خدمت میں پہنچے اور کہا : یا محمدؐ ! خداوند عالم نے آپ پر سلام کہا ہے اور کہا ہے : میں ابوبکر سے راضی ہوں، اس سے پوچھو کہ کیا وہ بھی مجھ سے راضی ہے؟ اس حدیث کے متعلق آپ کا کیا نظریہ ہے؟

امامؑ نے فرمایا: جس راوی نے یہ خبر نقل کی ہے اس کو دوسری وہ خبر بھی بیان کرنی چاہئے تھی جو پیغمبرؐ اکرم نے حجة الوداع میں بیان کی تھی، پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے فرمایا تھا : جو بھی میرے اوپر جھوٹی تہمت لگائے گا اس کا ٹھکانہ جہنم ہوگا، لہذا اگر میری کوئی حدیث تمھارے سامنے پیش کی جائے تو اس کو کتاب خدا اور میری سنّت سے ملا کر دیکھو، جو بھی کتاب خدا اور میری سنّت کے مطابق ہو اس کو لے لو اور جو کچھ کتاب خدا اور میری سنت کے خلاف ہو اس کو چھوڑ دو ۔

امام محمد تقی (علیہ السلام) نے مزید فرمایا: (ابوبکر کے متعلق) یہ روایت خدا کی کتاب سے موافقت نہیں رکھتی کیونکہ خداوند عالم نے فرمایا ہے : ہم نے انسان کو خلق کیا ہے اور ہم ہی جانتے ہیں کہ اس کے دل میں کیا ہے اور ہم اپنے بندے سے اس کی شہ رگ سے زیادہ نزدیک ہیں (سوره ق: 16)۔ کیا ابوبکر کی خوشنودی یا ناراضگی خدا کے لیے پوشیدہ تھی کہ وہ اس کے بارے میں پیغمبر اکرم (ص) سے پوچھتا؟ یہ بات عقلی طور پر محال ہے۔

یحیی نے کہا: اس طرح بھی روایت ہوئی ہے : ابوبکر اور عمر زمین پر اس طرح ہیں جیسے آسمان پر جبرئیلؑ و میکائیلؑ ہیں ۔

آپؑ نے فرمایا: اس حدیث کے متعلق بھی غور و فکر سے کام لو۔ جبرئیلؑ و میکائیلؑ خداوندعالم کی بارگاہ میں مقرب دو فرشتے ہیں اور ان دونوں سے کبھی بھی کوئی گناہ سرزد نہیں ہوا ہے اور یہ دونوں ایک لمحہ کے لئے بھی خدا کی اطاعت کے دائرے سے باہر نہیں ہوئے ہیں جبکہ ابوبکر اور عمر ایک عرصے تک مشرک تھے اگرچہ ظہور اسلام کے بعد مسلمان کہلائے مگر ان کی بیشتر عمر حالت شرک اور بت پرستی میں گزری ہے۔ اس بناء پر محال ہے کہ خداوند عالم ان دونوں کو جبرئیلؑ اور میکائیلؑ سے تشبیہ دے ۔

یحیی نے کہا: اسی طرح ایک اور روایت ہوئی ہے کہ ابوبکر اور عمر اہل بہشت میں بوڑھے لوگوں کے سردار ہیں۔ اس حدیث کے متعلق آپ کیا کہتے ہیں؟

آپؑ نے فرمایا: اس روایت کا صحیح ہونا بھی محال ہے کیونکہ تمام اہل بہشت جوان ہوں گے اوران کے درمیان کوئی ایک بھی بوڑھا نہیں ہوگا(تاکہ ابوبکر اور عمر ان کے سردار بن سکیں) یہ روایت بنی امیہ نے پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی اس حدیث کے مقابلے میں کھڑی کی ہے جو امام حسن اور امام حسین (علیہما السلام ) کے متعلق بیان ہوئی ہے ،نقل ہوا ہے کہ حسنؑ و حسینؑ، جوانان جنت کے سردار ہیں ۔

یحیی نے کہا: یہ بھی ایک روایت نقل ہوتی ہے کہ “عمر بن خطاب اہل بہشت کے چراغ ہیں۔”

آپؑ نے فرمایا: یہ بھی محال ہے کیونکہ بہشت میں خدا کے مقرب فرشتے، انبیاء، جناب آدم، آنحضرتؐ اور تمام فرشتے موجود ہیں پھر کس طرح ممکن ہے کہ بہشت ان کے نور سے روشن نہ ہو لیکن عمر کے نور سے روشن ہوجائے؟

یحیی نے کہا: روایت ہوئی ہے کہ “سکینہ” عمر کی زبان سے بولی ہوئى باتیں ہیں۔ (یعنی عمر جو کچھ کہتے ہیں وہ ملائکہ اور فرشتوں کی طرف سے ہے) ۔

آپؑ نے فرمایا: ۔۔۔ ابوبکر جو کہ عمر سے افضل تھے، منبر کے اوپر کہتے تھے: میرے پاس ایک شیطان ہے جو مجھے منحرف کردیتا ہے، لہذا تم جب بھی مجھے منحرف ہوتے ہوئے دیکھو تو میرا ہاتھ پکڑ لینا ۔

یحیی نے کہا: یہ بھی روایت ہوئی ہے کہ پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے فرمایا: اگر میں نبوت کے لئے مبعوث نہ ہوتا تو یقیناً عمر مبعوث ہوتے ۔

آپؑ نے فرمایا: یقیناً کتاب خدا (قرآن کریم) اس حدیث سے زیادہ سچی اور صحیح ہے، خداوند عالم نے اپنی کتاب میں فرماتا ہے : (وَإِذْ أَخَذْنَا مِنَ النَّبِيِّينَ مِيثَاقَهُمْ وَمِنْكَ وَمِنْ نُوحٍ وَإِبْرَاهِيمَ وَمُوسَىٰ وَعِيسَى ابْنِ مَرْيَمَ ۖ وَأَخَذْنَا مِنْهُمْ مِيثَاقًا غَلِيظًا) ( سورہ احزاب، آیت ٧) ۔ اور اس وقت کو یاد کیجئے جب ہم نے تمام انبیاء( علیہم السّلام) سے اور بالخصوص آپؐ سے اور نوح (علیہ السلام)،ابراہیم (علیہ السّلام)، موسیٰ (علیہ السّلام) اور عیسٰی بن مریم (علیہما السلام) سے عہد لیا اور سب سے بہت سخت قسم کا عہد لیا۔ اس آیت سے واضح طور پر معلوم ہو رہا ہے کہ خداوند عالم نے انبیاء سے عہد و پیمان لیا تھا پھر کس طرح ممکن ہے کہ وہ اپنے عہد و پیمان کو بدل دیتا؟ انبیاء میں سے کسی ایک نبی نے ذرا سی دیر کے لئے بھی شرک اختیار نہیں کیا، لہذا کس طرح ممکن ہے کہ خداوند عالم ایسے شخص کو نبوت کے لئے مبعوث کرے جس کی عمر کا اکثر و بیشتر حصہ خدا کے شرک میں گزرا ہو؟ نیز پیغمبر اکرم (ص) نے فرمایا : جس وقت آدمؑ آب و گل کے درمیان تھے (یعنی ابھی خلق نہیں ہوئے تھے) میں اس وقت بھی نبی تھا ۔

یحیی نے پھر کہا: روایت ہوئی ہے کہ پیغمبر اکرم (ص) نے فرمایا : کبھی بھی مجھ سے وحی قطع نہیں ہوئی اور اگر قطع ہوئی تو مجھے یہ خیال آیا کہ وحی خطاب (عمر کے باپ) کے گھر میں منتقل ہوگئی ہے ۔ یعنی نبوت میرے گھر سے ان کے گھر میں منتقل ہوگئی ہے ۔

آپؑ نے فرمایا: یہ بھی محال ہے کیونکہ ممکن نہیں ہے کہ پیغمبرؐ اکرم اپنی نبوت میں شک کریں، خداوند عالم فرماتا ہے: خداوند فرشتوں اور اسی طرح انسانوں کے درمیان سے انبیاء کا انتخاب کرتا ہے( سوره حج: 75) ۔ اس بناء پر خدا کے انتخاب کے بعد پیغمبر اکرم (ص) کے لئے کوئی شک و شبہ باقی نہیں رہ جاتا) ۔

یحیی نے کہا: روایت میں ذکر ہوا ہے کہ پیغمبر اکرم (ص) نے فرمایا: اگر عذاب نازل ہوتا تو عمر کے علاوہ کسی اور کو نجات نہ ملتی ۔

امام علیہ السلام نے فرمایا: یہ بھی محال ہے کیونکہ خداوند عالم نے پیغمبر اکرم (ص) سے فرمایا ہے : جب تک تم ان کے درمیان ہو اس وقت تک خداوند عالم ان پر عذاب نہیں کرے گا اور جب تک یہ استغفار کرتے رہیں گے اس وقت تک ان پر عذاب نہیں ہوگا (سوره انفال: 33) ۔ اس وجہ سے جب تک پیغمبر اکرم (ص) ان کے درمیان ہیں اور جب تک لوگ استغفار کرتے رہیں گے، خدا ان پر عذاب نازل نہیں کرے گا.(16)

احکام حج کے بارے میں مناظرہ

یحیی ابن اکثم نے امام تقى عليه السلام سے پوچھا: کیا اگر کوئی شخص احرام کی حالت میں شکار کرے تو اس کا کفارہ کیا ہے؟

امام محمد تقی (ع)نے اس سے سوال کیا: اس نے شکار حرم میں کیا تھا یا حرم کے باہر، محرم عالم تھا یا جاہل، عمداً ایسا کیا تھا یا غلطی سے ایسا ہوگیا تھا، محرم آزاد تھا یا غلام، وہ عمرہ کے احرام میں تھا یا حج کے احرام میں؟

یحیی ابن اکثم ان سوالات کا جواب دینے سے حیران رہ گیا اس طرح کہ اس کے چہرہ پر عاجزی کے آثار نمایاں ہوگئے اور حاضرین نے اچھی طرح اسے محسوس کر لیا۔ اس وقت مامون نے کہا اس نعمت اور توفیق پر خدا کا شکر ادا کرتا ہوں اس کے بعد اپنے خاندان والوں کی طرف دیکھا اور کہا دیکھا تم نے میں نے جو کچھ ابو جعفر(ع) کے بارے میں کہا تھا وہ حق تھا۔

پھر اس کے بعد امام تقى(ع)سے عرض کیا اگر آپ مناسب سمجھیں تو ان فقہی مسائل کی فروعات کا جواب آپ خود ہی دیدیں تاکہ ہمارے علم میں اضافہ ہوسکے۔

امام(ع)نے فرمایا: اگر شکار حرم کے باہر کیا ہو اور وہ شکار بڑے پرندے کا ہو تو ایک گوسفند کفارہ میں دے۔

اگر حرم میں مارا ہو تو دو گوسفند دے۔

اگر شکار جوجہ (چھوٹے پرندہ) کا ہو اور حرم کے باہر مارا ہو تو ایک گوسفند کا بچہ کفارے میں دے جس کا دودھ چھڑا دیا گیا ہو۔

اور اگر جنگلی گدھے کا شکار کیا ہو تو اس کا کفارہ ایک گائے ہے ۔

اگر شتر مرغ کا شکار کیا ہو تو اس کا کفارہ ایک اونٹ ذبح کرنا ہے۔

اگر شکار ہرن کا ہو تو اس کا کفارہ ایک گوسفند ہے۔

اگر ان میں سے کسی ایک کا شکار حرم میں کیا ہو تو کفارہ دو گنا ہوجائے گا اور کعبہ کے پاس ذبح کرنا پڑے گا۔

اگر احرام حج کا ہو تو وہ قربانی کا جانور ساتھ لیکر آئے اور اسے منی میں ذبح کرے حالت احرام میں کفارہ عالم اور جاہل دونوں کے لئے برابر ہے.

اگر عمداً کیا ہو تو گناہگار بھی اور اگر غلطی سے ہوگیا ہو تو گناہگار نہ ہوگا صرف کفارہ واجب ہوگا۔

جو کفارہ آزاد شخص پر واجب ہے وہ خود اسے دینا پڑے گا لیکن اگر غلام ہے تو اس کا کفارہ اس کے آقا پر لازم ہے۔

اگر شکار کرنے والا نابالغ ہو تو اس پر کفارہ واجب نہیں ہے۔ حالت احرام میں شکار کرنے والا اگر اپنے عمل پر توبہ کرلے تو آخرت میں اس پر عذاب نہیں ہوگا لیکن اگر توبہ نہ کرے اور اپنے گناہ پر اصرار کرے تو آخرت میں بھی عذاب کا مستحق ہوگا۔

یہ سن کر مامون نے کہا: شاباش ابو جعفر خدا آپ کو جزائے خیر عطا کرے اگر مناسب سمجھیں تو آپ بھی یحیی سے کوئی سوال کریں۔

ايك عورت كى طرف نظر كرنا حلال اور حرام

امام ابو جعفر(ع)نے یحیی ابن اکثم سے فرمایا: اجازت ہے کہ ایک سوال کروں؟

اس نے عرض کیا: پوچھئے اگر مجھے اس کا جواب معلوم ہوا تو جواب دے دوں گا ورنہ اس کا جواب خود آپ ہی سے معلوم کرلوں گا۔

امام(ع)نے فرمایا: مجھے ایسے شخص کے بارے میں بتائیں جس نے دن کی ابتدا میں ایک عورت کی طرف دیکھا تواس کا دیکھنا حرام تھا، دن چڑھ جانے کے بعد اس مرد کے لئے اس عورت کی طرف دیکھنا حلال ہوگیا۔ ظہر کے وقت اس عورت کی طرف دیکھنا پھر حرام ہوگیا اور عصر کے وقت اس کی طرف دیکھنا حلال ہوگیا، غروب آفتاب کے بعد دوبارہ اس عورت پر نظر ڈالنا حرام ہوگیا، عشاء کے وقت پھر حلال ہوگیا، آدھی رات میں پھر حرام ہوگیا، طلوع فجر کے وقت پھر حلال ہوگیا۔ یہ عورت کیسی عورت ہے اور یہ حلیت و حرمت کس طرح پیش آتی ہے؟

یحیی ابن اکثم نے عرض کیا: مجھے ان سوالوں کا جواب نہیں معلوم، آپ بتا دیجئے تاکہ ہمارے علم میں اضافہ ہو جائے۔

امام(ع)نے فرمایا: مذکورہ عورت ایک کنیز ہے جس کی طرف دن کی ابتدا میں ایک نامحرم دیکھتا ہے تو اس کا دیکھنا حرام ہے لیکن دن چڑھے وہ مرد اس کنیز کو اس کے آقا سے خرید لیتا ہے تو اس کی طرف دیکھنا حلال ہو جاتا ہے۔ ظہر کے وقت اس کو آزاد کر دیتا ہے تواس کی طرف دیکھنا پھر حرام ہو جاتا ہے۔ عصر کے وقت اس سے شادی کرلیتا ہے اوراس عورت کو دیکھنا حلال ہو جاتا ہے ۔مغرب کے وقت ظہار کی صورت میں اس سے الگ ہو جاتا ہے اور اس کو دیکھنا حرام ہو جاتا ہے۔ عشاء کے وقت کفارہ دیدیتا ہے اور اس کی طرف دیکھنا پھر حلال ہو جاتا ہے۔ آدھی رات میں اسے طلاق دیدیتا ہے اوراس کی طرف دیکھنا حرام ہو جاتا ہے ۔ طلوع فجر کے وقت اسے پھر رجوع کر لیتا ہے اور اس کی طرف دیکھنا حلال ہو جاتا ہے۔

یہ سن کر مامون نے حاضرین کی طرف رخ کر کے کہا: تم میں سے کون اس طرح فقہی مسائل کا جواب دے سکتا ہے؟

ان لوگوں نے عرض کیا: ہم میں ایسا کوئی نہیں ہے۔

مامون نے کہا: تم لوگوں نے جو فضل و کمال اور جو علم دیکھا وہ اہلبیت(ع)کا خاصہ ہے اور کمسنی ان کو ان کمالات سے محروم نہیں کرتی ہے۔

جب حاضرین امام جواد(ع)کے فضائل و کمالات سے آگاہ ہوگئے تو مامون نے امام(ع)کے ساتھ اپنی بیٹی ام الفضل کا عقد کر دیا۔خطبۂ عقد پڑھا گیا اور حاضرین کے درمیان ہدایا تقسیم کئے گئے۔ (17)

جود و کرم

امام علی رضا علیہ السلام نے آپ کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا: مرکزی دروازہ سے رفت و آمد کیا کیجئے۔ اپنے ساتھ سونے چاندی رکھا کیجئے اور اپنے چچا حضرات کو ۵۰ دینار سے کم نہ دیا کیجئے، انفاق کیجئے اور فقر و تنگدستی کا خوف نہ رکھئے اس لئے کہ اللہ کی قدرت آپ کے ساتھ ہے۔ امام محمد تقی علیہ السلام اپنے بابا کی نصیحت پر ہی عمل کیا کرتے تھے۔(۱8)

لوگوں کے ساتھ نیکی کرنا ائمہ معصومین علیهم السلام کی زندگی کا اہم جزو ہے۔ امام محمد تقی الجواد علیہ السلام بھی اس میدان میں پیش پیش نظر آتے ہیں۔ آپ کی نظر میں کسی ضرورتمند کے ساتھ نیکی کرناجتنا اس ضرورتمند انسان کے لئے مفید ہے اس سے زیادہ خود نیکی کرنے والے کے لئے فائدہ مند ہے۔ آپ فرماتے ہیں: نیکی کرنے والوں کو نیکی کرنے کی ضرورت محتاجوں اور ضرورتمند انسانوں سے زیادہ ہے، کیونکہ اس عمل کے ذریعہ نیک افراد اپنے پروانۀ اعمال میں جزائے آخرت اور نیک نامی و افتخار کو محفوظ کر لیتے ہیں۔ جو بھی محتاجوں کی خدمت اور ان کے ساتھ نیکی کرتا ہے درحقیقت وہ پہلے اپنے حق میں نیکی کرتا ہے، لہذا اسے ایسے عمل کے شکریہ اور قدردانی کی توقع دوسرے سے نہیں رکھنا چاہئے جسے اس نے اپنے لئے انجام دیا ہے۔(۱9)

عقدہ کشائی

روایت میں آیا ہے کہ خراسان کے سجستان کا ایک شخص سفر حج کے دوران امام کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی کہ میں اپنے شہر کے گورنر کا مقروض ہوں، وہ آپ اہل بیت کا دوستدار ہے، آپ ایک مکتوب اس کے نام تحریر کردیجئے تاکہ میرا ٹیکس معاف کر دے۔ امام نے ایک کاغذ اٹھایا اور اس پر تحریر فرمایا: "نامہ بر کا کہنا ہے کہ تم خوش عقیدہ انسان ہو ، لہذا اس کے ساتھ نیکی کرو" ۔ والی شہر حسين بن عبدالله نيشابورى کو خط کے بارے میں پہلے ہی خبر ہو گئی تھی لہذا وہ سجستان میں اس کے استقبال کو پہنچا، اس کی مشکلات کو جانا، ٹیکس معاف کیا اور اس کی مناسب مدد بھی کی۔(20)

صبر و بردباری

نویں امام مصائب و آلام کے مقابلہ میں انتہائی صبر کرنے والے تھے۔ آپ کبھی مضطرب نہیں ہوتے تھے بلکہ اللہ پر بھروسہ کرتے ہوئے حلم و بردباری کی راہ پر باقی رہتے تھے۔ بد اخلاق اور کج دہن زوجہ کے مقابلہ میں صبر و بردباری، ظالم و جابر حاکموں کے مقابلہ میں اللہ پر بھروسہ اور اپنے بابا کی شہادت جیسے دردناک واقعات پر تحمّل کا مظاہرہ، آپ کی اس عظیم صفت کی چند مثالیں ہیں۔ آپ صبر و شکیبائی کو نیک انسانوں کی ایک اہم صفت جانتے تھے۔(21)

استجابت دعا

داؤد بن قاسم کہتے ہیں: "ایک دن میں امام جوادؑ کے ہمراہ ایک باغ میں پہنچا اور میں نے عرض کیا: "میں آپ پر فدا ہوجاؤں! میں مٹی اور گارا کھانے کا بہت شوقین ہوں؛ آپ دعا فرمائیں (تاکہ میں اس عادت سے چھٹکارا پاؤں)۔ آنجناب نے جواب نہیں دیا اور چند روز بعد بغیر کسی تمہید کے فرمایا: "اے ابا ہاشم! خداوند متعال نے مٹی کھانے کی عادت تم سے دور کردی”۔ ابو ہاشم کہتے ہیں: اس دن کے بعد میرے نزدیک مٹی کھانے سے زیادہ منفور چیز کوئی نہ تھی”۔(22)

درخت پر پھل آ جانا

بغداد سے مدینہ واپسی کے وقت بڑی تعداد میں لوگ امام جوادؑ کو وداع کرنے کے لئے شہر سے باہر تک آئے۔ نماز مغرب کے وقت ایک مقام پر پہنچے جہاں ایک پرانی مسجد تھی۔ امامؑ نماز کے لئے مسجد میں داخل ہوئے۔ مسجد کے صحن میں سدر (بیری) کا ایک درخت تھا جس نے اس وقت تک پھل نہیں دیا تھا۔ امامؑ نے پانی منگوایا اور درخت کے پاس بیٹھ کر وضو کیا اور نماز جماعت ادا کی اور نماز کے بعد سجدہ شکر بجالائے اور بعدازاں بغدادیوں سے وداع کرکے مدینہ روانہ ہوئے۔ اس رات کے دوسرے روز اس درخت نے خوب پھل دیا؛ لوگ بہت حیرت زدہ ہوئے۔ مرحوم شیخ مفید کہتے ہیں: "میں نے برسوں بعد اس درخت کو دیکھا اور اس کا پھل کھایا۔(23)

شہادت

عباسی خلیفہ معتصم نے امام جوادؑ کو مدینے سے بغداد بلوایا۔ امامؑ 28 محرم الحرام سنہ 220 ہجری کو بغداد پہنچے اور اسی سال ذی قعدہ کے مہینے اسی شہر میں وفات پاگئے۔(24) بعض مآخذ میں ہے کہ آپ پانچ یا چھ ذی الحج کو وفات پاگئے(25) اور بعض مآخذ میں کہا گیا ہے کہ آپؑ ذوالقعدہ کی آخری تاریخ کو شہادت پاگئے۔(26)

آپؑ کی شہادت کے اسباب کے حوالے سے، مروی ہے کہ بغداد کے قاضی ابن ابی داؤد نے معتصم عباسی کے ہاں چغل خوری کی اور اس سخن چینی کا اصل سبب یہ تھا کہ چور کا ہاتھ کاٹنے کے سلسلے میں امامؑ کی رائے پر عمل ہوا تھا اور یہ بات ابن ابی داؤد اور دیگر درباری فقہاء کی شرمندگی کا باعث ہوئی تھی۔ بہر حال ابن ابی داؤد نے بادشاہ کو شیشی میں اتار دیا تو اس نے قتل امامؑ کا ارادہ کیا جبکہ آپؑ کی عمر 25 سال سے زیادہ نہ تھی۔ معتصم نے اپنی اس نیت کو اپنے ایک وزیر کے توسط سے عملی جامہ پہنایا جس نے امامؑ کو زہر دے کر شہید کردیا۔(27) البتہ بعض دوسروں کی رائے ہے کہ امامؑ کو ام الفضل بنت مامون نے زہر دیا تھا۔(28)

شیخ مفید (متوفی 413 ہجری) کہتے ہیں: "اگرچہ بعض لوگوں کی رائے کے مطابق امامؑ کو زہر کھلا کر شہید کئے گئے ہیں لیکن میرے نزدیک یہ ثابت نہیں ہے چنانچہ میں اس سلسلے میں گواہی نہیں دے سکتا”(29)۔ تاہم مسعودی (متوفی 346ہجری) کا کہنا ہے کہ: "معتصم عباسی اور ام الفضل کا بھائی جعفر بن مامون مسلسل امامؑ کو زہر دینے کے منصوبے بنا رہے تھے۔ چونکہ ام الفضل کی کوئی اولاد نہ تھی اور امام ہادیؑ امام جوادؑ کی دوسری زوجہ سے تھے۔ جعفر نے اپنی بہن کو اکسایا کہ آپؑ کو زہر دے کر قتل کرے۔ چنانچہ اس نے زہر انگور کے ذریعے امامؑ کو کھلا دیا۔ مسعودی کے بقول ام الفضل امام کو زہر دینے کے بعد پشیمان ہوئی اور رورہی تھی۔ اسی حال میں امامؑ نے اس کو بد دعا دی اور آپؑ کی شہادت کے بعد ام الفضل بہت شدید مرض میں مبتلا ہوئی۔(30)

حواله جات

۱ ۔ اثبات الوصیۃ ، مسعودی ص ۲۰۹

۲۔ بحار الانوار، علامہ مجلسی، ج۵۰ ص۱۵۰

3۔ الارشاد، مفید، ج2، ص284

4۔ مناقب آل ابی طالب، ابن شہر آشوب، ج 4،ص 380۔

5۔ منتهی الامال، ج۱، ص۲۱۸

6۔ اعلام الهدایه، ص۲۸

7۔ اصول کافی، ج۱، ص۳۲۱؛ الارشاد، شیخ مفید، ص۳۱۹؛ اعلام الوری، طبرسی، ص۳۴۷؛ کشف الغمه، اربلی، ج۳، ص۱۴۳

8۔ فروع کافی، دارالکتب الاسلامیه، ج۶، ص۳۶۱؛ الامام الجواد من المهد الی اللحد، سیدکاظم قزوینی، مؤسسه البلاغ، ص۳۳۷ 9۔ سورہ مریم/۳۱

10۔ سورہ مریم/۱۲

11۔ تذکره الخواص، ص ۳۵۹

۱2۔ الصواعق المحرقه، ص ۲۰۵

۱3۔ نور الابصار، ص ۱۶۱

۱4۔ بحار الأنوار، علامہ مجلسی،ج 50، ص 75 - 76

۱5۔ اعلام الوری، فضل بن حسن طبرسی، ص۳۵۳

16۔ احتجاج، علامہ طبرسى، ج 2، ص 247 – 248 ، بحار الأنوار، علامہ مجلسى، ج 50، ص 80 – 83

17۔ الارشاد، ج۲، ص۲۸۱؛ الفصول المہمہ، ص۲۴۹

۱8۔ کافی، شیخ کلینی، ج۴، ص۴۳

۱9۔ اربلی، کشف الغمۃ،ص۱۹۲

20۔ کافی، شیخ کلینی، ج۵، ص ۱۱۱

21۔ اربلی، کشف الغمۃ،ج۳، ص۱۹۵

22۔ الارشاد، شیخ مفید، ج2، ص586

23۔مناقب آل ابی طالب، ابن شہر آشوب، ج4، ص390، الارشاد، شیخ مفید، ج2، ص278، فتال نیشابوری، ص241و242

24۔ الارشاد، مفید، ص481

25۔ ابن‌ابی‌الثلج‌، ص‌13

26۔ سعد بن‌ عبدالله‌ اشعری‌؛ ص99۔ فضل‌ بن‌ حسن‌ طبرسی‌، 1417، ج‌2، ص‌106

27۔ تفسیر، عیاشی، ج1، ص320

28۔ زندگانی سیاسی امام جواد، عاملی، ص153

29۔الارشاد، شیخ مفید، 2/311

30۔ اثبات الوصیۃ للامام علی بن ابی طالب علیہ السلام، المسعودی، ص192

باب الحوائج شهزاده علی اصغر عليه السلام

باب الحوائج شهزاده علی اصغر علیہ السلام

اہل بیت علیہم السلام کی ذوات مقدسہ طہارت و عصمت،منا بع نور اور معرفت کی کانیں ہیں۔اس خاندان بزرگوار سے تعلق رکھنے والا ہر فرد خواہ وہ سن صغیر کا مالک ہویا سن کبیر کا اپنی جگہ خورشید عصمت و طہارت،تقویٰ ،شجاعت، شہامت اور قیامت تک مخلوق خدا کے لیے سرچشمہ ہدایت ہیں۔ یہ ایک ایسی معصوم ہستی ہے جو سن کے اعتبار سے سفینہ کربلا میں سب سے چھوٹی تھی لیکن معرفت و ولایت کے اعتبار سے اکمل تھی اور کرب و بلا ایک ایسا سفینہ ہے جس میں ہر عمر سے تعلق رکھنے افراد کے لیے نمونہ عمل موجود ہے اور اس سفینہ کے مالک و سردار کا نام حسین ابن علی عليه السلام ہے جن کے بارے میں رسول "ماینطق عن الهوی" کے مصداق فرماتے ہیں: "إنّ الحسین مصباح الهدیٰ و سفینة النجاة"(۱)

والدین کا تعارف

والد کا اسم گرامی حسین بن علی بن ابوطالب بن عبد المطلب علیہم السلام ۔ امام حسین علیہ السلام کی ذات گرامی کسی تعارف کی محتاج نہیں جن کے بارے میں حبیب خدا فرماتے ہوئے نظر آتے ہیں: "الحسین منی وأنا من الحسین".(2)

والدہ کا اسم گرامی رباب بنت امرء القیس بن عدی بن اوس بن جابر بن کعب بن علیم بن جناب بن کلب تھا۔(۴) امرء القیس جناب رباب ؑ کے والد گرامی دوستداران اہل بیت میں سے تھے اور جانتے تھے کہ بقا ء انسان اس میں مضمر ہے کہ وقت کےامام کی معرفت اور پہچان حاصل کی جائے اور بخاطر امام ہر قسم کی قربانی سے گریز نہیں کرنا چاہیے۔ ہشام کلبی لکھتے ہیں؛ "و کانت الرباب من خیار النّساء وأفضلهنّ." جناب رباب سلام اللہ علیہا بہترین اور افضل ترین عورتوں میں سے تھیں۔ اور جناب رباب کے والد گرامی عرب کے عظیم خاندان کے اشراف میں سے تھے کہ جن کی امام کے نزدیک قدر ومنزلت تھی۔( 3)

سن مبارک

ماہتاب امامت کے اس کران کی عمر کرب و بلا میں ۶ ماہ کی تھی اورشہزادہ ۱۰رجب المرجب ۶۰ہجری کے حسین دن مدینہ منورہ جیسے عظیم شہر میں یہ پھول گلشن امام حسین علیہ السلام میں کھلا جس کی خوشبو سےپورا مدینہ مہک اٹھا۔ یہ امر اس قدر رواج پا گیا کہ آج تقویم شیعہ میں بھی یہی تاریخ ثبت ہو گئی اور آج پورے عالم تشیع میں اسی تاریخ کو شہزادے کی ولادت با سعادت پر جشن کے اہتمام کیےجاتے ہیں (4)

اسم مبارک

معصوم کے اسم مبارک کے بارے میں دو مختلف روایتیں ملتی ہیں۔

۱۔ ایک روایت کے مطابق آپکا اسم گرامی ’’علی‘‘ تھا۔(5)

۲۔ دوسری روایت کے مطابق آپ کا اسم گرامی ’’عبد اللہ‘‘ تھا۔(6)

ارباب مقاتل کے درمیان زیادہ مشہور جناب عبد اللہ ہے(7)۔

على نام ركھنے كى وجه

یزید ملعون نے امام زین العابدین علیہ السلام سے ان کے اسم کے بارے میں پوچھا تو آپ علیہ السلام نے فرمایا میرا نام ’’علی‘‘ ہے۔ جس پر وہ ملعون کہنے لگا وہ تو کربلا میں شہید کر دئیے گئے ہیں ۔ آپ علیہ السلام نے فرمایا وہ میرے بھائی ’’علی بن الحسین ‘‘ تھے ۔ یہ ملعون کہتا ہے کہ کیا وجہ ہے آپ کے والد نے ہر بیٹے کا نام علی رکھا ہے؟امام زین العابدین علیہ السلام نے فرمایا کیونکہ وہ اپنے والد محترم امام علی علیہ السلام سے بہت محبت کرتے تھے جس کی وجہ سے اپنے ہر بیٹے کا نام علی رکھا ہے۔(8)

اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ اس شہزادہ کا اسم گرامی علی تھا اگرچہ ارباب مقاتل کے درمیان شہرت جناب عبد اللہ کی ہے جیسا کہ امام زمانہ عجل اللہ الشریف نےزیارت قائمیہ میں اس شہزادہ کو عبداللہ کے نام سے تعبیر کیا ہےاورتصریح فرمائی ہے کہ بعد از شہادت اس شہزادے کا خون آسمان کی طرف پھینکا گیااور شہزادے کے قاتل کا نام حرملہ ملعون تھا۔(9)

القابات

آپ کو علی اصغر، طفل صغیر، شیر خوار، شش ماہہ، باب الحوائج، طفل رضیع کے ناموں سے بھی پکارا جاتا ہے۔

مختصر زندگی

۲۸رجب المرجب ۶۰ ہجری کو امام حسین علیہ السلام نے بقاء اسلام کے لئے سفر کا آغاز کیااس سفر عظیم میں جہاں خاندان عصمت و طہارت کےدیگر افراد شامل تھےاس کاروان حریت اسلام میں جناب علی اصغر علیہ السلام بھی شامل تھے جبکہ آپ اس وقت صرف اٹھارہ دن کے تھے۔ یہ سفینہ اپنی منا زل طے کرتے ہوئےکربلاجیسے صحرا کی تقدیر بدلنے کے لئے ۲محرم ۶۱ہجری کوآ پہنچا۔

آپ کو عاشور کے دن آپ کے والد گرامی کی آغوش میں حرملہ نے اس وقت تیر مارا جب وہ آپ کی تشنگی بجھانے کے لئے پانی کا تقاضہ کر رہے تھے۔ امام عالی مقام نے آپ کے معصوم سے جسد کو خیمہ گاہ کے نزدیک قبر کھود کر سپرد خاک کردیا۔

زیارت ناحیہ میں آپ کے لئے آیا ہے: "السلام علي عبدالله بن‏الحسين، الطفل الرضيع، المرمي الصريع، المشحط دما، المصعد دمه في السماء، المذبوح ‏بالسهم في حجر أبيه، لعن الله راميه حرملة بن کاهل الأسدي‏."

اسی طرح روزعاشورہ کی ایک زیارت میں ذکر ہوا ہے: "و علي ولدک علي الأصغر الذي فجعت به"‏۔

حضرت علی اصغر علیہ السلام کربلا کے ایک درخشاں چہرے، مظلومیت کی سب سے مظلوم سند اور شہادت کا معتبر ترین زاویہ ہیں۔ تاریخ نے آپ سے زیادہ مظلوم شہادت کسی کی بھی نہیں دیکھی۔ بقاء اسلام، حیات اسلام اور تاریخ اسلام میں اس معصوم شہزادے کا خصوصی حصہ ہے، جہاں پر بھی اسلام کی بات ہوگی اس معصوم کا ذکر ضرور ہو گا۔

حوالہ جات

۱۔ جوادمحدثی،فرہنگ عاشورہبہ نقل ازسفینۃ البحار،ج۱،ص۲۵۷۔

2۔ بحارالانوار،ج۴۳۔

3۔ قمقام زخار،ج۲،ص۶۵۴۔

4۔ مقتل ابومخنف،ص۱۲۹۔

5۔ بحارالانوار،ج۴۵،ص۳۳۱۔

6۔ شیخ مفید،ارشاد،ج۳،ص135۔

7۔ اعلام الوریٰ،ص۲۵۱۔

8۔ الملہوف،ص۲۰۲۔

9 ۔بحارالانوار،ج۴۵،ص۴۴۔

فضائل امام على نقي عليه السلام

فضائل امام على نقي عليه السلام

ہمارے تمام آئمہ علیہم السلام صرف امت کے رہنما اور احکام قرآنی کے بیان کرنے والے نہیں تھے بلکہ شیعہ معارف کے مطابق امام علیہ السلام زمین پر اللہ کا نور، مخلوقات عالم پر اللہ کی حجت کاملہ، حیات کائنات کا محور، خالق اور مخلوق کے درمیان واسطہ فیض، روحانی کمالات کا آئنیہ نور، انسانی فضائل کا اعلٰی نمونہ، تمام اچھائیوں اور نیکیوں کا مجموعہ، علم اور قدرت خدا کا مظہر، بندگان خدا رسیدہ کا اعلٰی شاہکار، ہر طرح کے سہو و نسیاں سے پاک و صاف، رموز زمین، اسرار غیب، اور فرشتگان الٰہی کے راز دان، جن کی ولایت رسول خدا(ص) كے علاوه انبیاء و مرسلین سے بالا تر، جن کی حقیقت ان کے علاوہ کسی اور کے لئے قابل درک نہیں ہے، یہ پروردگار عالم کا خاص عطیہ ہے۔جس سے صرف حضرت محمد و آل محمد علیہم السلام سے مخصوص رکھا، طمع کرنے والے کا یہاں گزارا نہیں ہے۔ آسمان امامت کے دسویں آفتاب، ہمارے مولی، ہمارے ولی و سرپرست حضرت امام ابو الحسن علی نقی علیہ السلام نے ہم شیعوں پر یہ احسان غظیم فرمایا کہ، زیارت جامعہ کبیرہ کی شکل میں معرفت امام علیہ السلام کا لامحدود اور پیش قیمت خزانہ ہمیں عطاء فرمایا۔ (1)معارف خداوندی کے چمن کھلائے، اور علم و دانش کے گوہر روشن کئے اور اپنے دوستوں کو ان کی عقل و فہم کے مطابق رموز امامت سے روشناس کرایا ہے۔ حکمت الٰہی کے ایک گوشہ کی نقاب کشائی کی ہے۔ ہماری جانیں قربان ہوں اس خاک پاک پر جہاں امام علیہ السلام مدفون ہیں کہ ہمیں عظمت الٰہی سے آگاہ کیا اور تشنگان معرفت کو آب کوثر سے سیراب فرمایا۔ حضرت امام علی نقی علیہ السلام نے اپنے ایک دوست کی درخواست پر زیارت جامعہ کبیرہ اسے تعلیم دی تھی کہ اس طرح آئمہ علیہم السلام کی زیارت کیا کرو۔

حضرت ابوالحسن امام علی نقی علیہ السلام ہمارے دسویں امام ہیں ، آپؑ پانچ رجب المرجب (دوسری روایت کے مطابق 15ذی الحجہ) سن 212 ہجری کو مدینہ منورہ کے قریب صریا نامی قریہ میں پیدا ہوئے، یہ وہی قریہ ہے جسے امام موسیٰ کاظم علیہ السلام نے آباد کیا تھا۔ اور 3 رجب المرجب 254 ہجری کو سامرا میں معتز عباسی کے زہر دغا سے شہید ہوئے۔

ادامه نوشته

فضائل امام محمد باقر  عليه السلام

امام محمد باقر عليه السلام کي زندگی کامختصر تعارف

آپ کی ولادت باسعادت

حضرت امام محمد باقر علیہ السلام بتاریخ یکم رجب المرجب ۵۷ ھ یوم جمعہ مدینہ منورہ میں پیدا ہوئے(1)

علامہ مجلسی تحریرفرماتے ہیں کہ جب آپ بطن مادرمیں تشریف لائے تو آباؤ اجداد کی طرح آپ کے گھرمیں آوازغیب آنے لگی اورجب نوماہ کے ہوئے تو فرشتوں کی بے انتہا آوازیں آنے لگیں اورشب ولادت ایک نورساطع ہوا، ولادت کے بعد قبلہ رو ہو کرآسمان کی طرف رخ فرمایا،اور(آدم کی مانند) تین بار چھینکنے کے بعد حمد خدا بجا لائے،ایک شبانہ روز دست مبارک سے نور ساطع رہا، آپ ختنہ کردہ ،ناف بریدہ، تمام آلائشوں سے پاک اورصاف متولد ہوئے(2)

اسم گرامی ،کنیت اور القاب

آپ کا اسم گرامی ”لوح محفوظ“ کے مطابق اورسرورکائنات کی تعیین کے موافق ”محمد“تھا۔ آپ کی کنیت ”ابوجعفر“ تھی، اورآپ کے القاب کثیرتھے، جن میں باقر،شاکر،ہادی زیادہ مشہورہیں(3)

بادشاہان وقت

آپ ۵۷ ھ میں معاویہ بن ابی سفیان کے عہد میں پیدا ہوئے ۔ ۶۰ ھ میں یزید بن معاویہ بادشاہ وقت رہا، ۶۴ ھ میں معاویہ بن یزیداورمروان بن حکم بادشاہ رہے ۶۵ ھ تک عبدالملک بن مروان خلیفہ وقت رہا ۔ پھر ۸۶ ھ سے ۹۶ ھ تک ولید بن عبدالملک نے حکمرانی کی، اسی نے ۹۵ ھ میں آپ کے والد ماجد کو درجہ شہادت پرفائز کر دیا، اسی ۹۵ ھ سے آپ کی امامت کا آغاز ہوا، اور ۱۱۴ ھ تک آپ فرائض امامت ادا فرماتے رہے، اسی دور میں ولید بن عبدالملک کے بعد سلیمان بن عبدالملک ،عمربن عبدالعزیز، یزید بن عبدالملک اورہشام بن عبدالملک بادشاہ وقت رہے(4)

حضرت امام محمد باقر علیہ السلام کی علمی حیثیت

کسی معصوم کی علمی حیثیت پر روشنی ڈالنا اور وضاحت کرنا ناممکن ہے۔ علامہ ابن شہرآشوب لکھتے ہیں کہ حضرت کا خود ارشاد ہے کہ”علّمنا منطق الطیر و أوتینا من کل شيء“ ہمیں پرندوں تک کی زبان سکھا گئی ہے اور ہمیں ہرچیز کا علم عطا کیا گیا ہے(5)

روضة الصفاء میں ہے : خداکی قسم! ہم زمین اورآسمان میں خداوند عالم کے خازن علم ہیں اور ہم ہی شجرہ نبوت اورمعدن حکمت ہیں ،وحی ہمارے یہاں آتی رہی اور فرشتے ہمارے یہاں آتے رہتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا کے ظاہری ارباب اقتدار ہم سے جلتے اورحسد کرتے ہیں۔

علامہ شبلنجی فرماتے ہیں کہ علم دین، علم احادیث،علم سنن اورتفسیر قرآن وعلم السیرت وعلوم وفنون ،ادب وغیرہ کے ذخیرے جس قدرامام محمد باقرعلیہ السلام سے ظاہر ہوئے اتنے امام حسین و امام حسین کی اولاد میں سے کسی اورسے ظاہرنہیں ہوئے(6)

صاحب صواعق محرقہ لکھتے ہیں : عارفوں کے قلوب میں آپ کے آثار راسخ اورگہرے نشانات نمایاں ہو گئے تھے، جن کے بیان کرنے سے وصف کرنے والوں کی زبانیں گونگی اورعاجز و ماندہ ہیں ۔ آپ کے ہدایات وکلمات اس کثرت سے ہیں کہ ان کا احصاء اس کتاب میں ناممکن ہے(7)

علامہ ابن خلکان لکھتے ہیں کہ امام محمد باقرعلامہ زمان اور سردار کبیرالشان تھے آپ علوم میں بڑے تبحراور وسیع الاطلاق تھے(8)

علامہ ذہبی لکھتے ہیں کہ آپ بنی ہاشم کے سرداراورمتبحر علمی کی وجہ سے باقرمشہورتھے ۔ آپ علم کی تہ تک پہنچ گئے تھے، اورآپ نے اس کے وقائق کو اچھی طرح سمجھ لیا تھا(9)

حضرت امام محمدباقرعلیہ السلام کی دمشق میں طلبی

علامہ مجلسی اورسیدابن طاؤس لکتھے ہیں کہ جب ہشام بن عبدالملک اپنے عہدحکومت کے آخری ایام میں حج بیت اللہ کے لیے مکہ معظمہ میں پہنچا تو وہاں حضرت امام محمدباقرعلیہ السلام اورحضرت امام جعفرصادق علیہ السلام بھی موجودتھے ایک دن حضرت امام جعفرصادق علیہ السلام نے مجمع عام میں ایک خطبہ ارشادفرمایاجس میں یہ بھی کہاکہ ہم روئے زمین پرخداکے خلیفہ اوراس کی حجت ہیں ، ہمارادشمن جہنم میں جائے گا،اورہمارادوست نعمات جنت سے متنعم ہوگا ۔

اس خطبہ کی اطلاع ہشام کودی گئی ،وہ وہاں توخاموش رہا،لیکن دمشق پہنچنے کے بعدوالی مدینہ کوفرمان بھیجاکہ محمدبن علی اورجعفربن محمدکومیرے پاس بھیج دے ، چنانچہ آپ حضرات دمشق پہنچے ۔ اس کے بعدامام نے فرمایا: بادشاہ ہم معدن رسالت ہیں، کسی امرمیں ہمارامقابلہ کوئی نہیں کرسکتا،یہ سن کرہشام کوغصہ آگیا،اور بولاکہ آب لوگ بہت بڑے بڑے دعوے کرتے ہیں آپ کے دادا علی بن ابی طالب نے غیب کادعوی کیاہے ، آپ نے فرمایا: بادشاہ قرآن مجید میں سب کچھ موجود ہے اورحضرت علی امام مبین تھے انہیں کیانہیں معلوم تھا(10)

علامہ مجلسی لکھتے ہیں کہ اس واقعہ کے بعدہشام نے والی مدینہ ابراہیم بن عبدالملک کولکھاکہ امام محمدباقرکوزہرسے شہیدکردے(11)

کتاب الخرائج والبحرائح میں علامہ راوندی لکھتے ہیں کہ اس واقعہ کے بعدہشام بن عبدالملک نے زیدبن حسن کے ساتھ باہمی سازش کے ذریعہ امام علیہ السلام کودوبارہ دمشق میںطلب کرناچاہالیکن والی مدینہ کی ہمنوائی حاصل نہ ہونے کی وجہ سے اپنے ارادہ سے بازآیا اس نے تبرکات رسالت جبرا طلب کئے اورامام علیہ السلام نے بروایتے ارسال فرمادئیے۔

امام محمدباقر علیہ السلام کی شہادت

آپ اگرچہ اپنے علمی فیوض وبرکات کی وجہ سے اسلام کوبرابرفروغ دے رہے تھے لیکن اس کے باوجودہشام بن عبدالملک نے آپ کوزہرکے ذریعہ سے شہیدکرادیا اورآپ بتاریخ ۷/ ذی الحجہ ۱۱۴ ھ یوم دوشنبہ مدینہ منورہ میں انتقال فرماگئے اس وقت آپ کی عمر ۵۷/ سال کی تھی آپ جنت البقیع میں دفن ہوئے(12)

علامہ شبلنجی اورعلامہ ابن حجرمکی فرماتے ہیں ”مات مسموما کأبيه“ آپ اپنے پدربزرگوارامام زین العابدین علیہ السلام کی طرح زہرسے شہیدکردیئے گئے(13)

ازواج و اولاد

آپ کی چاربیویاں تھیں اورانہیں سے اولادہوئیں ۔ام فروہ،ام حکیم،لیلی،اور ایک اوربیوی ام فروہ بنت قاسم بن محمدبن ابی بکرجن سے حضرات امام جعفرصادق علیہ السلام اورعبداللہ افطح پیداہوئے اورام حکیم بنت اسدبن مغیرہ ثقفی سے ابراہیم وعبداللہ اورلیلی سے علی اورزینب پیداہوئے اورچوتھی بیوی سے ام سلمی متولدہوئے(14)

علامہ محمدباقربہبھانی ،علامہ محمدرضاآل کاشف الغطاء اورعلامہ حسین واعظ کاشفی لکھتے ہیں کہ حضرت امام باقرعلیہ السلام کی نسل صرف امام جعفر صادق علیہ السلام سے بڑھی ہے ان کے علاوہ کسی کی اولادزندہ اورباقی نہیں رہی(15)

حوالجات

(1) اعلام الوری ص ۱۵۵ ،جلاء العیون ص ۲۶۰ ،جنات الخلود ص ۲۵

(2) جلاء العیون ص ۲۵۹

(3) مطالب السؤال ص ۳۶۹ ،شواہدالنبوت ص ۱۸۱

(4) اعلام الوری ص ۱۵۶

(5) مناقب شہرآشوب جلد ۵ ص ۱۱

(6) کتاب الارشاد ص ۲۸۶ ،نورالابصار ص ۱۳۱ ،ارجح المطالب ص ۴۴۷

(7) صواعق محرقہ ص ۱۲۰

(8) وفیات الاعیان جلد ۱ ص ۴۵۰

(9) تذکرةالحفاظ جلد ۱ ص ۱۱۱

(10) جلاء العیون

(11) جلاء العیون ص ۲۶۲

(12) کشف الغمہ ص ۹۳ ،جلاء العیون ص ۲۶۴ ،جنات الخلودص ۲۶ ،دمعہ ساکبہ ص ۴۴۹ ،انوارالحسینہ ص ۴۸ ، شواہدالنبوت ص ۱۸۱ ، روضة الشہداء ص ۴۳۴

(13) نورالابصار ص ۳۱ ،صواعق محرقہ ص ۱۲۰

(14) ارشادمفید ص ۲۹۴ ، مناقب جلد ۵ ص ۱۹ ،نورالابصارص ۱۳۲

(15) دمعہ ساکبہ جلد ۲ ص ۴۷۹ ،انوارالحسینیہ جلد ۲ ص ۴۸ ،روضة الشہداء ص ۴۳۴ طبع لکھنؤ

سیرة العلامة الطباطبائي

إنّ الطباطبائي كان فيلسوفاً وحكيماً، وكان أستاذاً موهوباً كرّس معظم حياته لتعليم المعارف الإسلاميّة الحقّة. أعطى دروساً في الفلسفة والتّفسير والأخلاق والفقه والأصول وغير ذلك في مدينة "قم". نبيّن سيرته بصورة مختصرة في النّقاط التالية:

اسمه ونشأته

هو السيّد محمّد حسين بن السيّد محمّد بن السيّد محمّد حسين الميرزا على أصغر شيخ الإسلام العلامة الطباطبائى التبريزى القاضى‏.[1] وُلد في تبريز في التاسع والعشرين من ذي الحجة سنة 1321 هـ في أسرة عريقة معروفة بالفضل والعلم. توفّيت والدته وعمره خمس سنوات، وتوفّي والده عندما بلغ التّاسعة من عمره، وبقي هو وأخوه السيّد محمّد حسن القاضي الطباطبائي تحت كفالة وصيّ أبيه الذي كان يرعاهما برفق.[2]

دراسته

تعلّم القرآن والأدب الفارسي والريّاضيات في مدرسة تبريز، وتابع دراسته في الجامعة الإسلاميّة في تبريز حيث تعلّم الصّرف والنّحو، وعلم المعاني وعلم البيان، والفقه وعلم الأصول، وعلم الكلام. سنة 1344هـ، بغية إكمال دراسته، انتقل الطباطبائي إلى النّجف الأشرف وأمضى فيها أحد عشر عاماً منشغلاً بالدّراسات الفقهيّة والأصوليّة والفلسفيّة والعرفانيّة والرّياضيّة. وبسبب تدهور الأوضاع الاقتصاديّة، اضطرّ الطباطبائي إلى مغادرة النّجف والعودة إلى مسقط رأسه تبريز حيث اشتغل بالزّراعة لمدّة عشر سنوات في قرية "شادباد" التبريزيّة. وقام خلال هذه الفترة بتأليف رسائل عرفانيّة وفلسفيّة، منها "الإنسان قبل الدنيا" و"الإنسان في الدّنيا" و"الإنسان بعد الدّنيا"، والرسائل الأربع وغيرها من الرسائل. وبسبب الاضطرابات التي حدثت في محافظة أذربيجان، توجّه الطباطبائي إلى قم سنة 1364هـ، وظلّ يعيش فيها ما يقارب 35 سنة، حيث درّس علم التّفسير والفلسفة والعلوم العقليّة. ومنذ سنة 1368هـ، شرع بتدريس الأخلاق والعرفان، ثم قام بعدها بتدريس رسالة السير والسلوك المنسوبة للسيّد بحر العلوم. وتخرّج على يده جيلٌ كبيرٌ من أكابر الحوزة وعلمائها وهم بين مفسِّر لكتاب الله العزيز وحكيم وأخلاقي.[3]

أساتذته

درس في "النجف" على يد أكابر العلماء، ومنهم: الميرزا محمد حسين النائيني (1247هـ - 1355 هـ) وأبو الحسن الأصفهاني (1284هـ - 1365 هـ) والشيخ محمد حسين الأصفهاني (1296هـ - 1361هـ) والمشهور بالكمباني، ودرس عندهم الفقه والأصول.

ودرس الرّياضيّات عند عبد القاسم الخونساري. ودرس المعارف الإلهيّة والأخلاق والعرفان والسّير والسلوك على يد الميرزا على القاضي(1285هـ - 1365 هـ).

وقد درس عند حسين البادكوبي (1293هـ - 1358 هـ) "الشفاء" لابن سينا، و"تمهيد القواعد" لابن تركة و"الأسفار" و"المشاعر" لصدر المتألّهين، و"المنظومة" لملّا هادي السبزواري، وكتاب "أثولوجيا" لأرسطو، و"طهارة الأعراق" لابن مسكويه. وكان الطباطبائي يُثني على أستاذه البادكوبي كثيراً وكان يصفه بالحكيم البارع.[4]

تلامذته

لقد امتاز العلامة السيّد محمّد حسين الطّباطبائي بجمع الخلق حوله بسبب المعنويّة الإلهيّة الرّفيعة، فكان عاملًا رئيسيًا في شدّ الطلاب إلى محاضراته القيّمة، إذ كان يحضرها المئات، فنال الكثيرون منهم درجة الاجتهاد في الحكمة وأصبحوا قادرين على تدريسها. ولقد درس على يديه جيل من الطلبة والأفاضل الذين نهلوا من علومه المختلفة، وكان لهم دورٌ بارزٌ في تنمية العلوم العقليّة التي كان الطباطبائي يولّيها اهتمامه، نذكر منهم: الشّهيد مرتضى المطهري، الشّهيد محمد حسين البهشتي، الشّهيد محمد مفتح الهمداني، الشّيخ علي القدوسي، الشّهيد محمد رضا السّعيدي، آية الله جوادي آملي، الأستاذ محمد تقي مصباح اليزدي، آية الله مكارم الشيرازي، الشّهيد مصطفى الخميني، السيّد عبد الكريم الأردبيلي، العلّامة السيّد محمّد حسين الطّهراني الذي ألّف كتاب "مهر تابان" حول شرح أحوال أستاذه العلّامة الطّباطبائي، والشّيخ أنصاري الشّيرازي.[5]

آثاره العلميّة

للعلامة الطباطبائي مؤلّفات كثيرة باللّغتين: العربيّة والفارسيّة، منها ما ألّفه في النّجف الأشرف، ومنها ما ألّفه في تبريز، ومنها ما ألّفه في قم المقدّسة، من أبرزها:

1- أصول الفلسفة والمذهب الواقعي، وهو عبارة عن مجالس علميّة عقدها الطباطبائي في البحث المقارن بين فلسفة الشرق والغرب. وقد نُشر في خمس مجلدات مع تعليقات وشروحات تلميذه الشّهيد مرتضي

المطهري.

2- حاشية على كتاب "الأسفار الأربعة" لصدر الدّين الشّيرازي، والذي درّسه رغم الصّعوبات التي واجهته أثناء تدريسه.

3- بداية الحكمة، وهو كتاب ألّفه للمبتدئين في دراسة الفلسفة.

4- نهاية الحكمة، وهو كتاب دراسي جامع للمسائل الفلسفيّة.

5- الرّسائل التّوحيديّة، وهي رسائل ثلاث في طبيعة الإنسان قبل الدّنيا، وفي الدّنيا، وبعد الدّنيا.

6- الرّسائل السبع، وهو مجموعة تحتوي على رسائل فلسفيّة وهي البرهان، المغالطة، التركيب، التحليل، الاعتباريات، المنامات والنبوات، القوة والفعل.

7- الشيعة في الإسلام، تُرجم إلى الإنجليزيّة من قبل حسين نصر تحت عنوان Shi'ite in Islam بمساعدة وليام شيتيك.

8- ومن أهمّ أعماله ذات القيمة العالية وتُعتبر زبدة وخلاصة دراساته القرآنيّة "الميزان في تفسير القرآن" في عشرين مجلداً. وقد ترجم إلى الفارسيّة وإلى لغات أخرى.[6]

وفاته

بقي الطباطبائي في مدينة قم حتى وافته المنيّة في الساعة التاسعة صباحاً من يوم الأحد المصادف 18 محرم الحرام سنة 1402هـ، وشيّع تشييعاً مهيباً بعد إعلان الحداد الرّسمي، وقد ووري جثمانه الطاهر الثرى في أحد جوانب مرقد السّيّدة الطّاهرة فاطمة المعصومة بنت الإمام موسى الكاظم عليهما السلام.[7]

كلمات العلماء حوله

1- يقول العلّامة الطهراني: "لقد بلغ أستاذنا العلامة الطباطبائي مبلغ الكمال في العناصر الثلاثة جميعاً، بل حاز بين الأقران على المرتبة الأولى. فمن جهة كمال القوة العقليّة والحكمة النظريّة، ثمّ اتفاق على ذلك بين الصديق والعدو، وقد كان في ذلك ممن لا نظير له في العالم الإسلامي. وأمّا من جهة كمال القوة العلميّة والحكمة العلميّة والسير الباطني في المدارج ومعارج عوالم الغيب والملكوت، والبلوغ إلى درجات المقرّبين والصّدّيقين، فقد كان صمته عن ذلك وسكوته عنه، وإطباق شفتيه عليه حتى في حياته، ممّا لا يسمح لنا أن نكشف السّتار عن أكثر من ذلك في هذه المرحلة، لا سيّما وأنَّه كان يعتبر كتمان السرّ من أعظم الفرائض. وأمّا من جهة الشّرع، فقد كان فقيهاً مشرعاً، بذل سعيه بتمام معنى الكلمة في رعاية السنن والآداب، ولم يكن يتوانى عن الالتزام بأداء أقل المستحبّات، وكان ينظر بعين التّعظيم والإجلال والتّبجيل لأولياء الشرع المبين."[8]

2- يقول آية الله الحاج الشيخ محمد تقي الآملي في مكانة الطباطبائي بين أقرانه من التلامذة: "إن كان ينبغي للمرء أن يصل إلى مرحلة معيّنة ويخطو خطوة ما في ظلّ رعاية وتربيّة كاملة، فإنّني لا أرى بالنّسبة لكم من هو أفضل من سماحة السّيّد الطّباطبائي، فعليكم بالتّردّد عليه أكثر، فإنّه والمغفور له السّيّد أحمد الكربلائي الكشميري كانا الأفضل من بين تلامذة المغفور له السّيّد القاضي، وكان للسّيّد الطّباطبائي في ذلك الوقت الكشفيّات الكثيرة."[9]

3- وممّا قال عنه قائد الثّورة الإسلاميّة السّيّد علي الخامنئي دام ظله العالي: "لقد كان من الذين لا يمكن تربيّة أمثاله إلّا في الحضن المبارك لعقيدة جامعة، كالإسلام. كان وجهه المعنويّ صورة صلبة لرجل قرن الإيمان الرّاسخ والعرفان الحقيقيّ بعلم واسع وعميق...وكان يعدّ من أسطع الجواهر في مائدة المتاع القيّمة في الحوزة العلميّة في قم...وكانت المعارف التي تخرج من لسانه وقلمه وتطبع على صفحات القلوب والأوراق، تنتشر من خلال مئات وآلاف الألسن ومئات وآلاف الكلمات في كلّ مكان وكان يعلّم الجميع العلم والمعرفة."[10]

4- يذكر آية الله الشّيخ جوادي آملى عن أُستاذه العلّامة الطّباطبائى: "إنّه بلغ أوج التكامل العقلىّ والتّجرّد الرّوحى، صار معه يدرك الكلّيّات العقليّة بدون تدخّل قوّة التّخيّل وتمثّل مصداقها فى مرحلة الخيال، وتجسّدها فى مرتبة المثال المتّصل، أو بصرف النظر عن ذلك."[11]


[1]- راجع: الأوسى، على، العلامة الطباطبائى ومنهجه فى تفسير الميزان، ص 36.

[2]- راجع: طباطبايي، محمد حسين، مجموعه مقالات، پرسشها و پاسخها، ج 1 ص 3، بالفارسية.

[3]- راجع: المصدر السابق.

[4]- راجع: المصدر السابق.

[5]- راجع: هنديجاني فرد، عارف، علوم القرآن عند العلامة آية الله السيد محمد حسين الطباطبائي، دراسة مقارنة، ص42-64.

[6]- راجع: المصدر السابق، ص42-64.

[7]- انظر: المصدر السابق، ص60-64، بالتّصرّف، وراجع: الأوسى، على، العلامة الطباطبائى ومنهجه فى تفسير الميزان، ص51.

[8]- حسينى طهرانى، محمد حسين، مهر تابان: يادنامه و مصاحبات تلميذ و علامه عالم ربانى علامه سيد محمدحسين طباطبائى تبريزى، ص122.

[9]- هنديجاني فرد، عارف، علوم القرآن عند العلامة آية الله السّيّد محمد حسين الطّباطبائيّ، دراسة مقارنة، ص53، نقلا عن سيرة العلامة الطباطبائي، بقلم كبار العلماء والأعلام، ص29.

[10]- المصدر السابق، ص54، نقلا عن سيرة العلامة الطباطبائي، بقلم كبار العلماء والأعلام، ص6-7.

[11]- المصدر السابق.

من هو ناصر الدين الألباني؟

محمد ناصر الدين الألباني هو أحد العلماء الّذين اشتهروا في علم الحديث النبويّ الشّريف، والّذي عُرِف عنه كباحث مختصّ في علوم الحديث، فهو كالبخاريّ في عصره، وفيما يأتي نبذة عن الألبانيّ:

اسمه ونشأته

هو العلّامة محمّد ناصر الدين الألباني الأرنؤوطي، وُلِد في ألبانيا سنة 1914م في منطقة أشقودرة، كان والده أحد علماء المذهب الحنفي، هاجر إلى سوريا بعد أحداث منع النّساء من الحجاب والنّقاب من قبل الرئيس الألبانيّ؛ فكان لهجرته سببًا في تعلّم الّلغة العربيّة، وتفرّغه للعلّم.

دراسته

درس الإبتدائيّة في مدرسة جمعيّة الإسعاف الخيري في دمشق، ثمّ وضع له والده خطّة دراسيّة؛ لدراسة علوم القرآن الكريم، والحديث النّبويّ، بالإضافة إلى تعلّم "الفقه الحنفيّ"، وقد ساعده على ذلك وجود مكتبة لوالده مليئة بالكتب، ولكنّه لم يكتفِ بذلك فكان يقضي السّاعات الطّوال في "المكتبة الظاهريّة" في دمشق؛ حتى ينهل من كلّ العلوم. أخذ عن أبيه مهنة إصلاح الساعات فأجادها حتى صار من أصحاب الشهرة فيها، وأخذ يتكسّب رزقه منها، وقد وفرّت له هذه المهنة وقتاً جيداً للمطالعة والدّراسة، وهيّأت له هجرته للشام معرفة باللّغة العربيّة والاطّلاع على العلوم الشرعيّة من مصادرها الأصليّة. وعلى الرّغم من توجيه والد الألباني المنهجيّ له بتقليد المذهب الحنفي وتحذيره الشّديد من الاشتغال بعلم الحديث، فقد أخذ الألباني بالتوجّه نحو علم الحديث وعلومه، فتعلّم الحديث في نحو العشرين من عمره متأثّراً بأبحاث مجلّة المنار التي كان يصدرها الشيخ محمد رشيد رضا، و كان أوّل عمل حديثي قام به هو نسخ كتاب "المغني عن حمل الأسفار في تخريج ما في الإحياء من الأخبار" للحافظ العراقي مع التّعليق عليه. كان ذلك العمل فاتحةَ خيرٍ كبيرٍ على الألباني حيث أصبح الاهتمام بالحديث وعلومه شغله الشاغل، فأصبح معروفاً بذلك في الأوساط العلميّة بدمشق، حتى إنّ إدارة المكتبة الظاهريّة بدمشق خصّصت غرفة خاصة له ليقوم فيها بأبحاثه العلميّة.

آثاره العلميّة

يعدّ الألبانيّ من علماء العصر الحديث، وممّن لهم باعٌ كبيرٌ في حفظ الأحاديث النّبويّة الشّريفة، وقد عُرِف عنه نهمه الشّديد في طلب العلم وتدوينه، على الرّغم من فقره، فكان لا يستطيع شراء الكتب ولا الأوراق، فقد كان يبحث عن الأوراق المكتوبة السّاقطة حتى يأخذها ويكتب على ظهرها، فلم يمنعه فقره من القعود عن طلب العلم حتى أنجز الكثير منها. ألّف العديد من الكتب في علم الحديث، من أشهرها "السّلسلة الصّحيحة" و"صحيح الجامع" و"ضعيف الجامع" و"السّلسلة الضعيفة". ألقى عدّة محاضرات عن علم الحديث النّبويّ في عدّة دُول مثل مصر، وقطر، والسعوديّة، وأستراليا، وغيرها من الدُّول. اختير الألبانيّ ليقوم بتخريج أحاديث البيوع في موسوعة في الفقه الإسّلاميّ في دمشق. تمّ اختيار الألبانيّ كعضو في لجنة الحديث التي تمّ إعدادها للإشراف على نشر كتب السّنة النّبويّة، عندما تمّت الوحدة بين مصر وسوريا. لبّى دعوة اتحاد الطّلبة المسلمين في إسبانيا لإلقاء محاضرة، بعنوان "الحديث حجّة بنفسه في العقائد والأحكام" وقد تمّت طباعتها. إضافة إلى ذلك اشتغل بالتّدريس في الجامعة الإسلاميّة في المدينة المنوّرة لمدّة قصيرة.

وفاته

توفّي الألباني قبيل يوم السبت في الثاني والعشرين من جمادى الآخرة 1420هـ. ق، الموافق الثاني من أكتوبر 1999م، ودفن بعد صلاة العشاء. وقد عجّل بدفن الألباني لتنفيذ وصيّته كما أمر. بالرّغم من عدم إعلام أحد عن وفاة الألباني إلا المقرّبين منهم حتى يعينوا على تجهيزه ودفنه، أنّ خمسة آلاف المصلّين قد حضروا صلاة جنازته.

كلمات العلماء حوله

من الذين مدحوا الألباني منهم:

1- قال عبد العزيز بن باز: "ما رأيت تحت أديم السّماء عالمًا بالحديث في العصر الحديث مثل العلّامة محمد ناصر الدين الألباني."ووصفه بأنّه مجدّد هذا العصر في علوم الحديث.

2- وزعم محمد صالح العثيمين: "فالذي عرفته عن الشيخ من خلال اجتماعي به وهو قليل، أنّه حريص جداً على العمل بالسنة، ومحاربة البدعة، سواء كان في العقيدة أم في العمل، أمّا من خلال قراءتي لمؤلّفاته فقد عرفت عنه ذلك، وأنّه ذو علم جم في الحديث، رواية ودراية،..."

بعد أن عُرف الألباني واشتهر في الأوساط العلميّة، كداعية للمذهب الوهابي- كما يظهر من أقوال عبد العزيز بن باز ومحمد صالح العثيمين- ومتأثّرا بأفكار السّلفيّة، وسائرا على نهج ابن تيمية ومن اتّبعه، وقف ضدّه من يخالفه الرأي ولا يعتقد بأفكار الوهابيّة من علماء ومثقّفين من أتباع مدرسة الخلفاء وأهل البيت. وقام جماعة من المشايخ والعلماء بالردّ على الألباني وكتبه وأفكاره، فألّفوا عدّة رسائل منها: تنبيه المسلم إلى تعدّي الألباني على صحيح مسلم للشيخ محمد سعيد الشافعي، القول المقنع في الرد على الألباني المبتدع للشيخ عبد الله ابن الصديق الغماري، قاموس شتائم الألباني للشيخ حسن بن علي السقّاف، تناقضات الألباني الواضحات، له أيضا، الألباني شذوذه وأخطاؤه للشيخ حبيب الرحمن الأعظمي، ثمّ شيّعني الألباني للشيخ عبد الحميد الجاف.

صلح امام حسن عليه السلام


صلح امام حسن علیہ السلام


صُلح امام حسنؑ اس قرارداد کو کہا جاتا ہے جو شیعوں کے دوسرے امام، امام حسنؑ اور معاویۃ بن ابی سفیان کے درمیان سنہ 41 ہجری کو منعقد ہوا۔ یہ صلح نامہ ایک ایسے جنگ کے بعد منعقد ہوا جو معاویہ کی زیادہ خواہی اور اس کی طرف سے امام حسنؑ کی بعنوان خلیفہ مسلمین بیعت سے انکار کے نتیجے میں شروع ہوئی تھی۔ اس صلح کے مختلف عوامل و اسباب ہیں جن میں سے امام حسنؑ کے بعض کمانڈروں کی خیانت، حفظ مصلحت مسلمین، شیعوں کی جان، مال اور عزت و آبرو کی حفاظت اور خوارج کی طرف سے اسلام کو نقصان پہچانے کا خطرہ وہ اہم ترین عوامل میں سے ہیں جن کی وجہ سے امام عالی مقام اس صلح نامے پر راضی ہونے پر مجبور ہوئے۔ اس صلح نامے کے مطابق امام حسنؑ نے کئی شرائط کے ساتھ خلافت کو معاویہ کے سپرد کردیا۔ ان شرائط میں سے اہم ترین شرط یہ تھا کہ معاویہ اپنے بعد کسی کو اپنا جانشین مقرر نہیں کرے گا اور امامؑ اور آپ کے پیروکاروں کی جان مال عزت و آبرو محفوظ رہے گا۔ لیکن معاویہ نے ان میں سے کسی ایک پر بھی عمل نہیں کیا۔


امام حسنؑ کی امامت
امام علی علیہ السلام کی شہادت اور تدفین کے بعد عراق، مکہ اور مدینہ سمیت اس وقت کے تمام اسلامی ممالک میں موجود مسلمانوں بالاخص پیغمبر اکرمؐ کے بڑے بڑے اصحاب نے آپ کے فرزند امام حسنؑ کے ہاتھ پر بعنوان خلیفۃ المسلمین بیعت کی۔ جبکہ معاویہ جو شام اور مصر پر حکومت کرتا تھا، نے امام علیؑ کی طرح امام حسنؑ کی بیعت سے بھی انکار کردیا۔ جب امام حسنؑ کی خلافت کی خبر شام میں پہنچی تو معاویہ نے اپنے جاسوس عراق روانہ کیا اور امام اور آپ کے سپاہیوں کی تحرکات کی رپورٹ ہر لحظہ اسے پہنچتی تھی۔ دوسری طرف سے امام حسنؑ نے معاویہ کو اپنی بیعت کرنے کی دعوت دی اور مختلف خطوط کے ذریعے اسے بیعت سے انکار پر جنگ کی دھمکی دی جس کے مقابلے میں معاویہ بھی اپنے آپ کو خلافت کا سزاوار سمجھتا تھا۔ [1]


امام حسنؑ کا صلح کی طرف تمائل
بعض مورخین امام حسنؑ کو ایک صلح پسند انسان معرفی کرتے ہوئے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہیں کہ امام حسنؑ شروع سے ہی معاویہ کے ساتھ صلح کرنے کے درپے تھے۔ اس نظریے کے مطابق جسے ابن شہاب زہری جو بنی امیہ کی طرف تمائل رکھتا تھا نے تاریخ طبری میں نقل کیا ہے، اس وقت کے عراق میں موجود مسلمان معاویہ کے ساتھ جنگ کرنا چاہتے تھے اس لئے ابتداء میں امام حسنؑ اپنے سپاہیوں کی چاہت پر عمل کرنے پر مجبور ہوئے درحالیکہ خود امامؑ جنگ کی طرف کبھی تمائل نہیں رکھتا تھے۔[2] اس سلسلے میں دوسرا نظریہ یہ ہے کہ امام حسنؑ اپنی بیعت کے ابتدائی دنوں سے ہی اپنے لشکر کے ان سپاہیوں کے مخالف تھے جو معاویہ کے ساتھ جنگ کرنے کے خواہاں تھے۔ طبری کے مطابق پہلا شخص جس نے امام حسنؑ کی بعت کی وہ قیس بن سعد بن عبادہ تھا اس نے اپنا ہاتھ آگے بڑھاتے ہوئے کہا کہ قرآن و سنت پر عمل کرنے اور منحرفین کے ساتھ جنگ کرنے کی شرط پر آپ کی بیعت کرتا ہوں۔ امام حسنؑ نے اس سے کہا: قرآن و سنت کی بیس پر بیعت کرو تمام چیزیں انہی دو چیزوں میں مضمر ہیں یعنی امام نے غیر مستقیم طور پر قیس کی دوسری شرط کو رد کردیا۔ قیس نے بعت کیا اور کچھ نہیں کہا۔[3] ان دو نظریوں کے حامی اپنی بات کی تائید نیں کہتے ہیں: امام نے اپنی اسی حکمت عملی کو عملی جامہ پہنانے کی خاطر اپنے لشکر کی کمانڈ عبیداللہ بن عباس کے سپرد کیا نہ کہ قیس بن سعد بن عبادہ کے جو سختی سے معاویہ کے ساتھ جنگ کرنے پر مصر تھے۔[4]
ان کے مقابلے میں ایک تیسرا نظریہ بھی ہے جو عموما تمام شیعیان حیدر کرار کا مورد تائید بھی ہے، اس نظریے کے مطابق امام حسنؑ نے اپنی بعت کی ابتدائی دنوں سے ہی معاویہ کے ساتھ جنگ کرنے کا ارادہ کیا تھا لیکن بعد اپنی سپاہیوں کا جنگ سے بیزار ہونے اور معاویہ کی طرف سے امام کے لشکریوں کو دینے والے طمع اور لالچ کی وجہ سے آپ معاویہ کے ساتھ صلح کرنے پر مجبور ہوئے۔ ایک روایت کے مطابق امام حسنؑ نے عراق کے لوگوں کو معاویہ کے ساتھ جنگ کرنے کی طرف دعوت دی جو عراق کی جانب پیشروی کرنے میں مصروف تھے۔ لیکن کسی نے آپ کی صدا پر لبیک نہیں کہا اور آخرکار اپنے بعض باوفا اصحاب منجملہ "عدی بن حاتم" ، قبیلہ طی کے بزرگان اور" قیس بن سعد بن عبادہ" کی کوششوں سے 12 ہزار سپاہیوں پر مشتمل لشکر جنگ کیلئے آمادہ ہوئے۔[5]


مسکن کی طرف لشکر کشی
تاریخی منابع میں امام حسنؑ کی سپاہیوں کی تعداد کے بارے میں اختلاف نظر پایا جاتا ہے۔ ایک قول کی بنا پر امام کے سپاہیوں کی تعداد 12 ہزار اور انکی کمانڈ عبیداللہ بن عباس کر رہے تھے اور قیس بن سعد بن عبادہ اور سعید بن قیس اس کے مشاورین میں سے تھے۔ ایک اور قول کی بنا پر امام کے سپاہیوں کی تعداد 40 ہزار تھی اور اس کا ہراول دستہ قیس بن سعد بن عبادہ کی سرکردگی میں مسکن روانہ ہوا۔ [6]
کوفہ سے امام کا لشکر مسکن کی طرف روانہ ہوا جبکہ امام حسنؑ خود مدائن تشریف لے گئے اور وہاں سے اپنے لشکریوں کی طرف روانہ ہونا تھا۔ امام کا اس دوران مدائن سفر کرنے کی وجہ خاص مشخص نہیں ہے لیکن ظاہرا ایسا معلوم ہوتا ہے کہ فوج جمع کرنے کی خاطر آپ نے مدائن کا سفر کیا تھا۔ [7] جبکہ ایک اور قول کی بنا پر معاویہ نے اپنی فوج کا ایک دستہ مدائن بھیجا تھا اور امام ان سےمقابلہ کیلئے مدائن سفر کیا تھا۔[8]


مدائن میں امام حسنؑ پر حملہ
مدائن میں امامؑ پر حملہ ہوا اور اس حملے میں آپ کا خیمہ جلایا گیا اور آپؑ بھی زخمی ہوئے۔ یہ حملہ کیوں اور کیسے ہوا؟ اس بارے میں مختلف اقوال نقل ہوئے ہیں۔ ایک قول کی بنا پر امام حسنؑ نے مدائن میں لوگوں کے مجمع سے خطاب کرتے ہوئے غیر مستقیم طور پر معاویہ کے ساتھ جنگ نہ کرنے کی ذاتی تمائل ظاہر کیا تھا۔ [9] امام حسنؑ کی اس بات سے لوگ ناراض ہوئے اور آپ کی تقریر کے بعد کچھ لوگوں نے خوارج کی طرز پر امامؑ کو کافر کہنا شروع کیا اسی دوران مجمع میں سے کسی ایک نے امام پر حملہ کیا اور اپنی خنجر کے ذریعے امام کو زخمی کیا۔ یہاں یہ بات ذکر نہیں کیا گیا ہے کہ امام کا اس بات کی طرف اشارہ کرنے کی وجہ اور علت کیا تھی۔ [10]
یہاں پر بعض محققین یہ سوال اٹھاتے ہوئے کہ اگر امام جنگ کرنا نہیں چاہتے تھے تو کوفہ سے اپنے سپاہیوں کو کیوں مسکن کر طرف روانہ کرتے؟، اس قول کو ماننے سے انکار کرتے ہیں اور صلح امام حسنؑ کی بنیادی وجہ کو ایک طرف سے امام کے سپاہیوں کی سستی اور کاہلی اور دوسری طرف سے معاویہ کے لشکریوں کی طرف سے پھیلائے جانے والے غلط پروپیگنڈے بیان کرتے ہیں جس کی بنا پر امامؑ صلح قبول کرنے پر مجبور ہوئے۔ [11]
بعض دیگر اقوال مدائن میں امام پر ہونے والے حملے کو بعض عوامل کا نتیجہ قرار دیتے ہیں۔ واقعہ اس طرح پیش آیا کہ در اصل صلح نامے کی بات امام کی طرف سے نہیں بلکہ یہ بات معاویہ کی سازش کا حصہ تھا جو اس نے مدائن میں بروئے کار لایا تھا۔ معاویہ کے کارندوں نے مدائن میں یہ پروپیگنڈا مہم چلائی کہ امام حسنؑ نے صلح کی پیش کش کی ہے۔ قضیہ یوں پیش آتا ہے؛ معاویہ امام سے مذاکرات کے بہانے مغیرہ بن شعبہ اور عبداللہ بن عامر کو مدائن بھیجتا ہے اورجب یہ دونوں امام کے خیمے سے باہر آتے ہیں تو یہ افواہ پھیلاتے ہیں کہ امام نے معاویہ کے ساتھ صلح کرنے کو قبول کیا ہے۔ اس خبر سے لوگ ناراض ہو جاتے ہیں اوراسی دوران ایک گروہ امام پر حملہ آور ہوتا ہے۔[12]
ایک اور قول اس بارے میں یہ ہے کہ مدائن میں امام کے سپاہیوں کے درمیان کسی نے یہ خبر پھیلائی کہ "قیس بن سعد بن عبادہ" نے معاویہ کے ساتھ جنگ میں شکست کھایا ہے۔ اس خبر نے امام کے سپاہیوں میں افراتفری پھیلا دی اسی دوران لوگوں کے ایک گروہ نے امامؑ کے خیمے کو آگ لگا دی اور اسے غارت کرنے لگا۔ یہاں پر امام کی طرف سے صلح نامے کی پیش کش وغیرہ کی طرف کوئی اشارہ نہیں کی گیا ہے۔[13]
بعض اقوال کی بنا پر عبیداللہ بن عباس 12 ہزار سپاہیوں کو لے کر معاویہ سے جنگ کی خاطر مسکن روانہ ہوا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ جس دن مدائن میں امامؑ پر حملہ ہوا ادھر مسکن میں بھی اسی دن عراق اور شام کے لشکر کے درمیان مختصر درگیری وجود میں آگئی۔ رات کو معاویہ نے عبیداللہ بن عباس کو یہ پیغام بھیجا کہ مدائن میں امام حسنؑ نے صلح کرنے کو قبول کیا ہے اور میری بیعت کرنے کیلئے آمادہ ہوا ہے اور اگر تم بھی ابھی مجھ سے ملحق ہوتے ہو تو میں تمہیں دس لاکھ درہم دوں گا۔ عبیداللہ نے اس معاویہ کی اس تجویز کو قبول کیا اور راتوں رات معاویہ کی طرف چلا گیا۔ قیس بن سعد بن عبادہ نے عبیداللہ کے بعد لشکر کی کمانڈ سنبھال لیا اور امام کی طرف سے یقینی طور پر صلح کے قبول کرنے کی تائید ہونے پر امام کے سپاہی قیس کی سرکردگی میں کوفہ واپس لوٹ آئے۔ [14]
ایسے منابع جو امام کے لشکر کی سپہ سالاری کو عبیداللہ بن عباس کی جگہ قیس بن سعد بن عبادہ کو قرار دیتی ہیں اس ماجرا کو کسی اور طرح بیان کرتی ہیں۔ ان منابع کے مطابق عراق اور شام کے لشکریوں کے درمیان مختصر درگیری وجود میں آتی رہتی تھی لیکن جب مدائن میں امام پر ہونے والے حملے کی خبر پھیلی تو قیس نے موقتا جنگ روک لیا تاکہ صحیح خبریں دریافت کر سکیں لیکن اس دوران امام کے سپاہیوں میں سے کثیر تعداد لشکر شام کے ساتھ ملحق ہوگئی۔ قیس نے اس صورتحال کا مشاہدہ کرنے کے بعد امامؑ کی طرف پیغام بھیجا جب امامؑ کو لشکر عراق کی ناگفتہ بہ حالت کا علم ہوا تو آپؑ نے لوگوں کو جمع کرکے عراقیوں کی طرف سے آپؑ اور آپ کے والد گرامی حضرت علیؑ کے ساتھ منافقانہ رویہ اختیار کرنے پر گلہ شکوہ کیا اور آخر میں صلح قبول کرنے پر اپنی رضامندی کا اظہار کیا۔ [15]


صلح نامہ اور اس کے شقوق
تاریخی منابع میں صلح نامہ اور اس کے مفاد کے بارے میں فاش اور واضح اختلاف پایا جاتا ہے۔ بعض منابع کے مطابق امام حسنؑ نے درج ذیل شرائط کے ساتھ صلح نامہ قبول کیا: کوفہ کے خزانے میں موجود 50 لاکھ درہم خود امام اپنے لئے رکھے گا۔دارابگرد فارس کی سالانہ آمدنی خود امام سے مختص ہوگی۔امام حسن کی موجودگی میں امام علیؑ پر منابر سے سب و شتم نہیں ہوگی۔عراق سمیت دیگر مناطق میں موجود اہل بیتؑ کے پیروکار عفو عمومی کے تحت مورد عفو قرار پائے گا۔ [16]
کتاب الفتوح ابن اعثم کوفی نے صلح نامے کی ایک اور مفاد کو نقل کیا ہے جس کے تحت صلح نامے کے شرائط مذکورہ شرائط سے مکمل متفاوت ہے اور اکثر شیعہ محققین اس قول کو اس حوالے سے صحیح ترین قول قرار دیتے ہیں۔ [17]
ابن اعثم کی مطابق امام حسنؑ نے ابتداء میں عبداللہ بن نوفل بن حارث کو صلح کی مذاکرات کیلئے معاویہ کے پاس بھیجا اور ان کے ذریعے امامؑ نے معاویہ کو پیغام بھیجا کہ اس شرط پر میں تمہارے ساتھ صلح کرونگا کہ ہمارے چاہنے والوں کی جان مال ہر حال میں محفوظ رہے گی اور ان کو کسی قسم کی کوئی آزار و اذیت نہیں پہنچائی جائے۔ عبداللہ جب معاویہ کے پاس گیا تو اس نے امام کے بیان کردہ شرائط کے علاوہ اپنی طرف سے بھی کچھ شرائط بیان کر ڈالا منجملہ ان میں سے یہ کہ کوفہ کے خزانے میں موجود 50 لاکھ درہم اور دارابگرد فارس کی سالانہ آمدنی امام حسنؑ سے مختص ہوگی اور یہ کہ خلافت معاویہ کے بعد امام حسنؑ کا حق ہوگا۔ معاویہ نے تمام شرائط کو قبول کیا بلکہ اس نے ایک سفید کاغذ پر دستخط کر کے عبداللہ نوفل کے حوالے کر دیا تاکہ امام جو بھی چاہے شرط رکھ سکیں۔ لیکن امام حسنؑ نے عبداللہ کی طرف سے مطرح کرنے والے کسی بھی شرط کی حمایت نہیں کی بلکہ اپنی طرف سے بعض دیگر شرائط کا اضافہ کیا ان میں سے کوئی ایک بھی بعد مالی نہیں رکھتا تھا۔ صلح نامے کیلئے امامؑ کی طرف سے مطرح کرنے والی شرائط درج ذیل ہیں: معاویہ کتاب خدا، سنت پیغمبرؐ اور خلفای راشدین کی سیر پر عمل پیرا ہوگا۔معاویہ کسی کو اپنا ولیعہد اور جانشین مقرر نہیں کرے گا بلکہ خلیفہ کا انتخاب مسلمانوں کی شورا پر چھوڑے گا۔تمام لوگ جہاں کہیں بھی ہو امن و امان میں ہوگا۔شیعیان علی اور آپ کے پیروکا کی جان، مال، اور عزت و ناموس محفوظ ہوگی۔معاویہ امام حسنؑ، امام حسینؑ اور خاندان اہل بیتؑ کے کسی دوسرے فرد کے خلاف کوئی سازش نہیں کرے گا اور انہیں کسی قسم کی کوئی آزار و اذییت نہیں پہنچائے گا۔
یوں امام حسنؑ نے اس صلح نامے کے ذریعے معاویہ کو خلافت کے موروثی کرنے سے باز رکھا اور شیعیان علی اور عراق کے دوسرے مکینوں کی جان، مال اور عزت و ناموس کی حفاظت کو یقینی بنایا۔[18]


زمان و مکان صلح نامہ
صلح کی قرارداد پر مَسکِن میں دستخط ہوئے اور اس سرزمین پر شامیوں کی بڑی تعداد کی موجودگی میں صلحنامے سے متعلق قواعد و ضوابط کا اعلان ہوا اور انہیں نافذ کیا گیا۔[19] باقر شریف قرشی اپنی کتاب حیاة الحسن میں لکھتے ہیں: صلح کے وقت کے بارے میں اختلاف پایا جاتا ہے؛ چنانچہ ربیع الاول کو بھی صلح کے انعقاد اور نفاذ کا مہینہ جانا گیا ہے اور ربیع الاخر اور جمادی الاولی کو بھی۔[20]


بلا فاصلہ عہد شکنی
بہر صورت سنہ 41 کے نصف اول میں امام حسنؑ کی متعینہ شرطوں اور [اور نوشتہ نکات صلح] سے ترتیب یافتہ صلح نامے پر دستخط ہوئے۔[21] لیکن معاویہ نے ان شرطوں کو قبول کرنے کے باوجود، کوفہ میں اپنی پہلی آمد کے دوران ـ جس کا اہتمام دو لشکروں کی ملاقات کے لئے کیا گیا تھا ـ کوفیوں سے خطاب کرتے ہوئے اپنے تمام وعدوں اور عہد و پیمان کو ناقابل عمل سمجھا۔ اس نے دعوی کیا کہ صلح کی درخواست امام حسنؑ نے کی تھی؛ اور پھر امام علیؑ کے خلاف دشنام طرازی کی۔ امام حسینؑ نے اسی وقت اس کا جواب دینا چاہا لیکن بھائی امام حسنؑ نے امام حسینؑ کو ایسا نہیں کرنے دیا اور خود اٹھے اور ایک خطبہ دے کر لوگوں کے لئے معاہدے کی تصویر کشی کی اور معاویہ کی طرف سے صلح کی پیشکش کی وضاحت کی اور پھر بہت فصیح و بلیغ بیان کے ساتھ اپنے والد کی بےحرمتی کے جواب میں اپنے اصل و نسب اور معاویہ کے اصل و نسب کا تقابلی جائزہ پیش کیا۔[22][23][24][25][26] امامؑ کا یہ عمل معاویہ پر بہت گراں گذرا۔[27]


صلح کے مخالفین
حجر بن عدی، عدی بن حاتم، مسیب بن نجبہ، مالک بن ضمرہ، سفیان بن ابی لیلی، بشیر ہمدانی، سلیمان بن صرد، عبداللہ بن زبیر، ابو سعید اور قیس بن سعد اصحاب امام حسنؑ میں سے ہیں جو صلح کے خلاف تھے اور ان کی گفتگو تاریخی کتب میں محفوظ ہے۔[28]
معاویہ کے ساتھ امام حسنؑ کی صلح کے دلائل
امام حسنؑ کی صلح نہایت مفید اور پر ثمر تھی اور ہم جانتے ہیں کہ جو مصالحت اہداف حصول پر منتج ہو وہ اس جنگ سے بہتر ہے جس سے مقاصد کا حصول پردہ ابہام میں ہو یا پھر اس سے نقصان کے سوا کچھ بھی نہ مل رہا ہو؛ چنانچہ صلح امام حسن علیہ السلام آپ ؑ کی فتح ہے۔
اپنی اور شیعیان آل محمدؐ کا جانی تحفظ
امیرالمؤمنینؑ کے اکثر اصحاب و انصار جنگ جمل، جنگ صفین اور جنگ نہروان میں جام شہادت نوش کرگئے تھے اور ان میں سے قلیل ساتھی باقی تھے اور جنگ چھڑ جاتی تو عراقی عوام کی کمزور و ضعف کے پیش نظر امام حسنؑ اور آپ کے شیعہ و پیروکاروں کو ناقابل تلافی نقصانات کا سامنا کرنا پڑتا کیونکہ معاویہ اس صورت حال میں انہیں مدت سے کچل دیتا۔[29]
ابو سعید العقیصا کا کہنا ہے: میں امام حسنؑ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا: اے فرزند رسول خدا! اس کے باوجود کہ آپ حق پر ہیں، آپ نے معاویہ جیسے گمراہ اور ستمگر سے مصالحت کیوں کی؟ آپ نے فرمایا:
اگر میں یہ کام نہ کرتا روئے زمین پر ایک شیعہ بھی زندہ نہ رہتا اور یہ (معاویہ اور اس کے حامی) سب کو [چن چن کر] قتل کرتے۔[30]
کسی نے گستاخانہ لہجہ اختیار کرکے امام حسن مجتبیؑ سے کہا: "یا مُذِلَّ المُؤمِنینَ" (اے مؤمنوں کو ذلیل کرنے والے)، تو آپ نے فرمایا: میں "مذل المؤ‎منین" نہیں ہوں بلکہ "مُعِزُّ المؤمنین" (مؤمنوں کو عزت دینے والا] ہوں؛ کیونکہ جب میں نے دیکھا کہ تم (پیروان آل محمدؐ) میں سپاہ شام کا مقابلہ کرنے کی قوت نہیں ہے تو میں نے اپنی حکومت واگذار کردی تا کہ میں اور تم باقی رہیں۔ جس طرح کہ ایک زیرک آدمی ایک کشتی کو معیوب کردیتا ہے تا کہ وہ اپنے مالکوں اور مسافروں کے لئے باقی رہے[31]، میری اور تمہاری داستان یہی ہے تا کہ ہم اور تم دشمنوں اور مخالفین کے درمیان زندہ اور باقی رہیں۔[32] یا امام حسن ایک مفصل حدیث کے ضمن میں فرماتا ہے: "۔۔۔والله الذي عملت خير لشيعتي مما طلعت عليه الشمس أو غربت۔۔۔"۔(ترجمہ: خدا کی قسم جو کچھ میں نے کیا وہ میرے پیروکاروں کے لئے بہتر ہے ہر اس چیز سے جس پر سورج کا طلوع یا غروب ہوتا ہے)۔[33]
صلح کے بعد حجر بن عدی امام حسن کی خدمت میں حاضر ہوا اور اعتراض کرتے ہوئے کہا: "سودت وجوه المؤمنين"۔ (ترجمہ: آپ نے مؤمنین کو روسیاہ کیا)! تو امامؑ نے جواب دیتے ہوئے فرمایا: "ما كل أحد يحب ما تحب ولا رأيه كرأيك، وإنما فعلت ما فعلت إبقاء عليكم"۔ (ترجمہ: ایسا نہیں ہے کہ سب وہی چاہتے ہوں جو تم چاہتے ہو یا سب تمہاری طرح سوچتے ہوں اور جو کچھ میں نے کیا وہ تمہاری جانوں کے تحفظ اور تمہاری بقاء کے سوا کسی اور مقصد کے لئے نہ تھا۔[34]


امام حسنؑ اور عوامی حمایت کا فقدان
امام حسنؑ نے معاویہ کے خلاف جنگ کے لئے لوگوں کی آمادگی آزمانے کے لئے ان سے مخاطب ہوکر فرمایا: "اگر جنگ کے لئے تیار ہو تو ہم صلح کی پیشکش کو مسترد کريں اور اپنی شمشیر کا سہارا لے کر انجامِ کار کو اللہ کے سپرد کریں؛ لیکن اگر بقاء چاہتے ہو تو صلح کی پیشکش قبول کریں اور تمہارے لئے امان حاصل کریں!"؛ اس اثناء میں پوری مسجد سے آوازیں آنے لگیں: "البقیة، البقیة" (یعنی بقاء، بقاء)، اور یوں انھوں نے صلح کی تائید کرلی۔[35]
شیخ مفید ارشاد میں رقمطراز ہیں: "امام حسنؑ کے لئے آشکار ہوگیا کہ لوگوں نے آپ کو تنہا چھوڑ دیا ہے اور خوارج کے کافر کہنے اور دشنام طرازی کرنے کی وجہ سے بددل ہوگئے ہیں اور انھوں نے آپ کے خون کو مباح سمجھا ہے اور آپ کے اموال کو لوٹ کر لے گئے ہیں؛ اور ان کے سوا ایسا کوئی باقی نہ تھا جن کے ناپاک عزائم سے امامؑ محفوظ ہوں؛ سوائے ان قلیل اقارب اور شیعیان آل رسولؐ کے، جو آپ کے والد اور آنجناب کے شیعہ تھے اور یہ اس قدر قلیل تھے کہ شام کی بڑی سپاہ کے سامنے استقامت نہیں کرسکتے تھے۔ [36]
سلیم بن قیس ہلالی سے مروی ہےکہ: معاویہ کوفہ آیا، تو امام حسنؑ اس کی موجودگی میں منبر پر چلے گئے اور اللہ کی حمد و ثناء کے بعد فرمایا: "فاقسم بالله لو ان الناس بايعوني واطاعوني ونصروني، لاعطتهم السماء قطرها، والارض بركتها، ولما طمعتم فيها يا معاوية"۔ (ترجمہ: پس خدا کی قسم! اگر لوگ میری بیعت کرتے اور میرے اطاعت گزار و فرمانبردار ہوجاتے اور میری مدد کرتے تو آسمان انہیں اپنی بارش عطا کرتا اور زمین اپنی برکت عطا کرتی اور تم بھی اس میں طمع نہ کرتے اے معاویہ)۔[37]
امام حسن نے ایک خطبے کے ضمن ميں اشارہ کیا کہ "لوگ آپ کی حمایت نہیں کررہے تھے اور آپ کو اپن باوفا اصحاب کی قلت کا سامنا تھا"؛ فرمایا: "اگر مجھے یار و یاور اور ناصر و مددگار ملتا تو حکومت کو معاویہ کے حوالے نہ کرتا کیونکہ حکومت بنو امیہ پر حرام ہے۔ است۔[38]، جب ایک شخص نے صلح کو مورد تنقید ٹہرایا تو آپ نے فرمایا: " والله ما سلمت الامر إليه الا اني لم أجد أنصارا ولو وجدت أنصارا لقاتلته ليلي ونهاري حتى يحكم الله بيني وبينه"۔ (ترجمہ: میں نے حکومت اس وجہ سے معاویہ کو واگذار کردی کہ میرا کوئی مددگار نہ تھا اور اگر میرے مددگار ہوتے تو اس کے خلاف شب و روز لڑتا حتی کہ خداوند متعال میرے اور اس کے درمیان فیصلہ کرتا)۔[39]


خونریزی کا سدّ باب
امام حسنؑ نے معاویہ کے ساتھ صلح کے اسباب بیان کرتے ہوئے اپنے خطبے میں فرمایا:" فرأيت أن أسالم معاوية وأضع الحرب بيني وبينه ورأيت حقن الدماء خير من سفكها ولم أرد بذلك إلا صلاحكم و بقاءكم"۔ (ترجمہ: اور میں نے اسی کو مصلحت سمجھا کہ معاویہ کے ساتھ مسالمت آمیز رویہ اپناؤں اور اپنے اور اس کے درمیان جنگ کو بند کردوں؛ میں نے دیکھا کہ خون کا تحفظ خون بہانے سے بہتر ہے اور اس کام سے میرا ارادہ تمہاری خیر خواہی اور بقاء کے سوا کچھ نہ تھا۔ [40]
یا پھر آپ نے فرمایا: "كانت جماجم العرب بيدي يسالمون من سالمت ويحاربون من حاربت فتركتها ابتغاء وجه الله وحقن دماء المسلمين"۔ (بےشک عربوں کی کھوپڑیاں میرے ہاتھ میں تھیں اور میں جس کے ساتھ صلح کرتا وہ بھی اس کے ساتھ صلح کرتے تھے اور جس سے لڑتا وہ بھی اس سے لڑتے تھے پس میں نے انہیں اللہ کی خاطر اور مسلمانوں کے خون کے تحفظ کے مقصد سے جانے دیا۔[41] امامؑ نے سلیمان بن صرد خزاعی کے اعتراض کا جواب دیتے ہوئے فرمایا: "أری غير ما رأيتم، وما أردت بما فعلت إلا حقن الدماء"۔ (ترجمہ: میں نے جو کچھ دیکھا وہ مختلف تھا اس سے جو تم نے دیکھا؛ اور جو کچھ میں نے کیا اس سے میرا مقصد سوائے تمہارے خون کی حفاظت کے، کچھ بھی نہ تھا[42]
نیز آپ نے ایک موقع پر فرمایا: "ورأيت حقن الدماء خير من سفكها"۔ (ترجمہ: میں نے دیکھا کہ خون کا تحفظ خون بہانے سے بہتر ہے)۔[43]
جب معاویہ نے آپ سے کہا کہ خوارج کے ساتھ جنگ میں شرکت کریں تو آپ نے جواب دیا: "لو آثرت أن أقاتل أحداً من أهل القبلة لبدأت بقتالك، فإني تركتك لصلاح الأمة وحقن دمائها"۔ (ترجمہ: اگر میں اہل قبلہ میں سے کسی کے خلاف جنگ کرنا چاہتا تو اپنی جنگ کا آغاز تم سے کرتا لیکن میں نے تمہیں امت کی مصلحت و خیرخواہی اور اس کے خون کے تحفظ کے لئے اپنے حال پر چھوڑ دیا)۔[44]


دین کا تحفظ
صلح امام حسنؑ کا ایک اہم سبب دین کا تحفظ گردانا جاسکتا ہے، کیونکہ اسلامی معاشرے کی حالت کچھ ایسی تھی کہ معاویہ کے ساتھ جنگ دین ہی کو جڑ سے اکھاڑ سکتی تھی کیونکہ اس زمانے میں جنگ نہ تو کوفیوں کے مفاد میں تھی اور نہ ہی شامیوں کے، بلکہ یہ جنگ رومیوں کی طرف سے عالم اسلام پر بہت بڑے حملے کا سبب فراہم کررہی تھی۔ یعقوبی کا کہنا ہے کہ معاویہ سنہ 41 میں شام واپس چلا گیا اور اس کے خبر ملی کہ رومیوں نے بہت بڑا لشکر تیار کیا ہے اور وہ جنگ کا ارادہ رکھتے ہیں تو ایک شخص کو رومیوں کی طرف روانہ کیا اور ایک لاکھ دینار دے کر ان سے صلح کرلی!۔[45]
دوسری طرف سے لوگ بھی تعلیم و تربیت اور تہذیب و ثقافت کے لحاظ سے ایسی حالت میں تھے کہ مزید جنگ اور خونریزی ان کے درمیان دین کی نسبت بدگمانیوں کا سبب بن سکتی تھی؛ چنانچہ شاید ان ہی وجوہات کی بنا پر امام حسنؑ نے مالک بن ضمرہ کی تلخ باتوں کا جواب دیتے ہوئے فرمایا: "إني خشيت أن يجتث المسلمون عن وجه الأرض فأردت أن يكون للدين ناعي"۔ (ترجمہ: مجھے ڈر تھا کہ مسلمانوں کی جڑیں روئے زمین سے اکھڑ جائیں چنانچہ میں نے ارادہ کیا کہ دین کی محافظت کی جائے [اور میں نے صلح کرلی])۔[46]


لوگوں کا جنگ سے اکتا جانا
مسلمانوں نے رسول اللہؐ کی ہجرت کے بعد اور اسلامی حکومت کی تشکیل سے 40 برس کے عرصے میں غزوات اور سرایا کے علاوہ خلفاء ثلاثہ کے دور میں بھی روم، ایران اور جزیرہ نمائے عرب کے پڑوسی ممالک کے ساتھ طویل المدت لڑنے کے علاوہ امیرالمؤمنینؑ کے دور میں بھی تین بڑی اندرونی جنگیں بھی برداشت کی تھیں۔ چنانچہ ان میں جنگ و پیکار کا حوصلہ دکھائی نہيں دے رہا تھا؛ اور معدودے چند مخلص شیعیا علیؑ اور جنگجو نوجوانوں کے علاوہ باقی مسلمان عافیت طلبی کے سامنے ہتھیار ڈالے ہوئے تھے اور حالات حاضرہ کو تسلیم کرچکے تھے۔ چنانچہ جب امام حسنؑ اور آپ کے قریبی اصحاب [یعنی] حجر بن عدی اور قیس بن سعد انصاری نے عوام کو عام لام بندی کے لئے آپ کی لشکرگاہ میں آنے کی دعوت دی تو بہت کم لوگوں نے مثبت جواب دیا اور باقی لوگوں نے کوئی رغبت نہ دکھلائی۔[47]
امام حسنؑ نے اپنے ساتھ بیعت کرنے والوں ـ جو آپ سے تعاون اور نصرت کا وعدہ کئے ہوئے تھے ـ سے مخاطب ہوکر فرمایا: "اگر تم اپنے قول میں سچے ہو تو ہماری وعدہ گاہ مدائن کی چھاؤنی ہے، پس وہاں مجھ سے آملو۔ پس آنجناب مدائن کی طرف روانہ ہوئے اور جنگ کا ارادہ کرنے والے بھی آپ کے ساتھ روانہ ہوئے لیکن ایک بڑی تعداد نے وعدہ خلافی کی اور اپنے دیئے ہوئے وعدے کے پابند نہیں رہ سکے، اور وعدہ گاہ میں حاضر نہیں ہوئے اور آپ کو دھوکا دیا؛ جس طرح کہ انھوں نے قبل ازاں آپ کے والد امیرالمؤمنینؐ کو دھوکا دیا تھا۔[48]
امام حسن نے اپنی سپاہیوی کی مذمت کرتے ہوئے فرمایا: " يا عجبا من قوم لا حياء لهم ولا دين، ولو سلمت له الأمر فأيم الله لا ترون فرجا أبدا مع بني امية، والله ليسومونكم سوء العذاب"۔ (ترجمہ: حیرت ہے اس قوم سے جس میں کوئی حیاء ہے نہ ہی کوئی دین، اور اگر میں امر حکومت واگذار کروں تو خدا کی قسم! تم بنو امیہ کی حکومت میں کبھی بھی فراخی نہ دیکھ سکو گے، خدا کی قسم! بدترین عذاب و آزار و اذیت کے ساتھ وہ تمہیں نہایت بری طرح تکلیفیں پہنچائیں گے)۔[49]
یا آپ نے ایک اور موقع پر فرمایا: "إني رأيت هوى عظم الناس في الصلح، وكرهوا الحرب، فلم أحب أن أحملهم على ما يكرهون"۔ (ترجمہ: میں دیکھا کہ زیادہ تر لوگ صلح کی طرف راغب اور جنگ سے روگردان ہیں چنانچہ میں نے نہیں چاہا کہ ان پر ایسی چیز (جنگ) پر مجبور کروں جس کو وہ ناپسند کرتے ہیں)۔[50]


خوارج کا خطرہ
کتاب احکام القرآن کا مؤلف، ابن عربی، کہتا ہے: صلح امام حسنؑ کا ایک سبب یہ تھا کہ آپ دیکھ رہے تھے کہ خوارج نے آپ کو گھیر لیا ہے اور جان گئے کہ اگر معاویہ کے خلاف جنگ جاری رکھیں اور اس جنگ میں مصروف ہوجائیں تو خوارج اسلامی ممالک کی طرف دست درازی کریں گے اور ان پر مسلط ہوجائیں گے اور اگر خوارج کے ساتھ میدان جنگ میں اتریں اور انہیں دفع کرنے میں مصروف ہوجائیں تو معاویہ اسلامی ممالک اور آپ کے قلمرو پر مسلط ہوجائے گا۔[51]


غیرمتوازن لشکر
شیخ مفید الارشاد میں لکھتے ہیں: امام حسنؑ کی معیت میں ہر قسم کے لوگ تھے: آپ اور آپ کے والد کے بعض شیعہ اور [جنگ صفین میں] حکمیت کے بعض حامی (خوارج)، جو مختلف حیلوں بہانوں سے معاویہ کے خلاف لڑنے کے درپے تھے، اور افراتفری (انارکی) کے حامی اور جنگی غنائم کے شائقین کا ایک گروہ، اور بعض اہل شک اور قبائلی عصبیتوں سے سرشار لوگ، جو اپنے قبائل کے سرداروں کے پیرو تھے اور ان کا محرک دین نہیں تھا۔[52]
جو لشکر اس طرح کے عناصر ترکیبی سے تشکیل پایا تھا، کسی بھی حادثے کے نتیجے میں خطرے میں پڑسکتا تھا اور ہر قسم کا خطرہ پیش آنے کی صورت میں دو یا دو سے زیادہ دھڑوں میں تقسیم ہوسکتا تھا اور ایسی صورت میں لشکر اور فوج اپنے ہی قائدین کے خلاف قیام کرسکتی ہے "خوارج حسنؑ کے ساتھ تھے لیکن ان کا مقصد فتنہ انگیزي کے سوا کچھ نہیں تھا؛ وہ جہاد کی راہ پر گامزن ضرور تھے مگر ان کا مقصد فساد کے سوا کچھ نہ تھا۔[53]
امام مجتبیؑ نے صلح پر اعتراض کرنے والے شخص کا جواب دیتے ہوئے اپنے اقدام کے عوام و اسباب کو یوں بیان فرمایا: "رأيت أهل الكوفة قوماً لا يثق بهم أحد أبداً إلا غلب، ليس أحد منهم يوافق آخر في رأي ولا هواء، مختلفين لا نية لهم في خير ولا شر"۔" (ترجمہ: اہل کوفہ ایسے لوگ ہیں کہ ان پر جو بھی اعتما کرتا ہے وہ مغلوب ہوجاتا ہے کیونکہ ان میں سے کوئی بھی دوسرے کے ساتھ فکر اور آرزوؤں میں اتفاق رائے نہیں رکھتا وہ نہ خیر میں اور نہ ہی شر میں کسی قسم کا ارادہ نہیں رکھتے)۔[54]
امام حسنؑ کے پاس صلح قبول کرنے اور جنگ ترک کرنے کے سوا کوئی راستہ نہ تھا کیونکہ آپ کے پیروکار آپ کی نسبت عقیدتی لحاظ سے کمزور اور ضیعف النفس تھے اور جیسا کہ دیکھا گیا انھوں نے آپ کی مخالفت تک کا منصوبہ بنایا تھا اور ان میں سے بہت ایسے بھی تھے جو آپ کو دشمن کی تحویل میں دینا چاہتے تھے اور آپ کا خون مباح سمجھنے لگے تھے اور آپ کے چچا زاد بھائی عبید اللہ بن عباس نے آپ کا ساتھ چھوڑ دیا اور دشمن سے جا ملا اور عام طور پر ان لوگوں نے دو دن کی دنیا کی طرف مائل ہوگئے اور آخرت کی نعمتوں سے آنکھیں پھیر لیں۔ [55]
امام حسنؑ کے لشکر میں تھے ایسے کوفی عمائدین جو بظاہر آپ کے تابع و فرمانبردار تھے لیکن انھوں نے خفیہ طور پر معاویہ کو خطوط لکھے اور اپنی اطاعت و فرمانبرداری کی یقین دہانی کرائی اور اس کو اپنی جانب آنے کی رغبت دلائی اور اپنے ذمے لیا کہ جب وہ اپنا لشکر لے کر امام حسن کے لشکر کے قریب پہنچیں تو وہ آپ کو گرفتار کرکے معاویہ کی تحویل میں دیں گے یا پھر آنجناب کو اچانک گھیر کر قتل کریں گے!۔[56]
زید بن وہب جہنی کہتا ہے: جب بعض لوگوں نے امام حسنؑ پر حملہ کیا اور آپ کو خنجر مار کر زخمی کیا اور مدائن میں زخمی اور بیمار ہوکر بستر سے لگے ہوئے تھے تو میں آپ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا: آپ کے کیا ارادے ہیں کیونکہ لوگ حیران و پریشان ہیں؟ تو آپ نے فرمایا: "أَرىٰ والله معاوية خيراً لي من هؤلاء يزعمون انهم لي شيعة ابتغوا قتلي وانتهبوا ثقلي، واخذوا مالي"۔ (ترجمہ: خدا کی قسم! میں معاویہ کو اپنے لئے ان لوگوں سے بہتر سمجھتا ہوں جو گمان کرتے ہیں کہ میرے شیعہ ہیں لیکن میرے قتل کے منصوبے بناتنے ہیں اور میرا مال و اسباب لوٹ کر لے جاتے ہیں میرا مال و متاع چھین لیتے ہیں۔۔۔)۔[57]
شیخ صدوق(رح) اپنی کتاب علل الشرائع میں اپنی سند سے ابو سعید العقیصا سے روایت کی ہے کہ انھوں نے امام حسنؑ کی خدمت میں حاضر ہوکر عرض کیا: اے فرزند رسول خداؐ! آپ جانتے تھے کہ حق آپ کی جانب ہے تو پھر گمراہ اور ظالم معاویہ کے ساتھ صلح کیوں کی؟
امامؑ نے جواباً فرمایا:
يا أبا سعيد ألست حجة الله تعالى ذكره على خلقه وإماما عليهم بعد أبي عليه السلام؟ قلت: بلی!
قال: ألست الذي قال رسول الله صلى الله عليه وآله لي ولأخي الحسن والحسين إمامان قاما أو قعدا؟ قلت بلى
قال: فانا اذن امام لو قمت و انا امام اذا قعدت یا با سعید علة مصالحتی لمعاویة علة مصالحة رسول اللهؐلبنی ضمرة و بنی اشجع، و لاهل مکة حین انصرف من الحدیبیة، اولئک کفار بالتنزیل و معاویة و اصحابه کفار بالتاویل، یا أبا سعید اذا کنت اماما من قبل الله تعالی ذکره لم یجب ان یسفه رایی فیما اتیته من مهادنة او محاربة، و ان کان وجه الحکمة فیما اتیته ملتبسا۔
قال فأنا إذن إمام لو قمت وأنا إمام إذ لو قعدت، يا أبا سعيد علة مصالحتي لمعاوية علة مصالحة رسول الله صلى الله عليه وآله لبني ضمرة وبني اشجع ولاهل مكة حين انصرف من الحديبية أولئك كفار بالتنزيل ومعاوية وأصحابه كفار بالتأويل،
يا أبا سعيد إذا كنت إماما من قبل الله تعالى ذكره لم يجب ان يسفه رأيى فيما أتيته من مهادنة أو محاربة وإن كان وجه الحكمة فيما أتيته ملتبساً۔
ألا ترى الخضر عليه السلام لما خرق السفينة وقتل الغلام وأقام الجدار سخط موسى عليه السلام فعله لاشتباه وجه الحكمة عليه حتى أخبره فرضى؛
هكذا أنا، سخطتم علي بجهلكم بوجه الحكمة فيه ولولا ما أتيت لما ترك من شيعتنا على وجه الارض أحد إلا قتل۔
ترجمہ: اے ابا سعید! کیا میں خدائے تعالی کی مخلوق پر اس کی حجت اور تمہارا امام و رہبر نہیں ہوں؟
کیوں نہیں؟
کیا میں وہی نہیں ہوں کہ رسول اللہؐ نے میرے اور میرے بھائی حسینؑ کے بارے میں فرمایا: "حسن اور حسین دونوں امام ہیں چاہے وہ قائم ہوں [اور حکومت قائم کئے ہوئے ہوں]، چاہے بیٹھے ہوں [اور حکومت سے کنارہ کشی اختیار کرچکے ہوں]؟
کیوں نہیں!
پس میں امام اور رہبر ہوں خواہ قیام کروں خواہ نہ کروں۔ اے ابا سعید! معاویہ کے ساتھ میری مصالحت کا سبب وہی ـ حدیبیہ کے بعد مدینہ واپسی کے وقت بنو ضمرہ اور بنو اشجع اور کوفی عوام کے ساتھ ـ رسول اللہؐ کی مصالحت کا سبب ہی ہے۔ وہ (قرآن) تنزیل کے کافر (ومنکر) تھے [اور قرآن کے نزول کے ہی انکاری تھے] اور معاویہ اور اس کے اصحاب قرآن کی تاویل (اور باطن قرآن) کے منکر ہیں۔
اے ابا سعید! جب میں خدائے تعالی کی طرف سے امام ہوں چنانچہ جو کچھ میں نے کیا ہے ـ خواہ وہ صلح ہو خواہ جنگ ہو ـ اس میں مجھے خطاکار نہيں سمجھا جاسکتا؛ اگر چہ جو کچھ میں نے کیا ہے اس کا راز دوسروں کے لئے آشکار نہ ہو۔
کیا تم نے خضرؑ کو نہیں دیکھا جب انھوں نے کشتی میں سوراخ کردیا اور اس لڑکے کو قتل کیا اور اس دیوار کو تعمیر کیا؟ ان کے اس کام کو حضرت موسی علیہ السلام کی تنقید کا نشانہ بننا پڑا کیونکہ انہيں اس کام کا راز معلوم نہ تھا؛ اور جب خضرؑ نے اپنے اعمال کا راز موسیؑ کو بتایا تو وہ راضی ہوئے۔
یہی ہے میرا معاملہ؛ کہ چونکہ تم میرے اس اقدام کے اسرار سے ناواقف ہو مجھ پر اعتراض کررہے ہو۔ [میرے اس اقدام کا ایک راز یہ ہے کہ] اگر میں یہ کام نہ کرتا تو ہمارے پیروکاروں اور شیعیان آل محمدؐ میں سے حتی ایک فرد بھی روئے زمین پر باقی نہ رہتا۔ اور وہ سب کو قتل کردیتے۔[58]۔


صلح کا انجام
معاویہ نے صلح کے تمام شقوق کو پامال کرکے رکھ دیا
صلح کے بعد معاویہ نے مسجد کوفہ میں تقریر کی اور کہا: "ألا إني كنتُ شرطت شروطا أردت بها الأُلفة ووضع الحرب، ألا وإنها تحت قدمي"۔ ترجمہ: جان لو کہ میں نے کچھ شرطیں رکھیں [اور صلح کی] جس سے میرا مقصد الفت اور جنگ بندی تھی؛ جان لو کہ میں صلح کے معاہدے کو پاؤں تلے روندتا ہوں)۔ اس موقع پر اس نے امیرالمؤمنین کی توہین کی اور پھر امام حسن کی شان میں گستاخی کی جس پر امام حسن مجتبیؑ نے کھڑے ہوکر نہایت فصیح و بلیغ اور طویل خطبہ دیا۔[59]
گوکہ امام حسن مجتبیؑ کو اپنے ساتھیوں کی طرف سے شدید دباؤ کا سامنا تھا لیکن آپ صلحنامے کے پہلے شق کے پابند رہے اگرچہ آپ شرطوں میں تبدیلی کرنے کے سلسلے میں صاحب اختیار تھے کیونکہ خلافت کی واگذاری مشروط تھی؛ تاہم معاویہ نے حتی ایک شرط کا بھی پابند نہ رہا۔ "اولاد زنا کو نسب سے ملحق کرنا، نماز جمعہ روز چہارشنبہ (بدھ) قائم کرنا[60]، حدود الہیہ کو معطل کرنا، ربا (سود) کو جائز قرار دینا، نماز عید میں اذان کو رواج دینا، نماز عید سے قبل خطبہ پڑھنے کا حکم وضع کرنا، عطیات پر زکوٰة لاگو کرنا، ہرزگی اور بےشرمی کو ترویج دینا اور وضع حدیث کو رونق دینا،[61] وغیرہ وغیرہ معاویہ کی بدعتوں اور سنت دشمن اعمال میں سے ہیں۔ معاویہ نے اپنے بعد یزید کو ولیعہد مقرر کرکے صلحنامے کے دوسرے نکتے کو بھی پامال کردیا۔[62]
صلح نامے کا تیسرا نکتہ امیر المؤمنینؑ پر سبّ و لعن کا سد باب کرنے سے متعلق تھا جبکہ معاویہ سمجھتا تھا کہ گویا اس کی حکومت کا استحکام ہی امام علیؑ پر سبّ اور دشنام طرازي اور آپؑ کے خلاف انتقامی کاروائیوں پر منحصر ہے؛ چنانچہ اس کے کارگزار اور والی اس قدر اس موضوع پر اصرار کرتے تھے کہ امیر المؤمنینؑ پر سبّ و لعن کو نماز جمعہ کا جزء سمجھتے تھے؛ اور ان میں سے جو کوئی ایسا کرنے سے اجتناب کرتا اس کو سرکاری مناصب سے ہٹا دیا جاتا تھا۔[63]
صلحنامے کی چوتھی شق کے مطابق دارابگرد کا خراج امامؑ کے حوالے کیا جانا تھا لیکن اس پر بھی عمل نہيں ہوا اور بصرہ کے عوام نے اس پر قبضہ کیا اور کہا کہ "اس مال غنیمت کا تعلق ہم سے ہے"،[64] اور وہاں کے عوام نے یہ عمل معاویہ کے حکم پر انجام دیا[65] کیونکہ معاویہ کے حکم کے بغیر ایسا کرنا ممکن نہ تھا۔
واضح رہے کہ قرار داد کے اس حصے پر مندرجہ بالا سطور میں جرح ہوئی ہے اور اور بیان ہوا ہے کہ امامؑ اس قسم کی شرطوں سے برتر و بالاتر ہیں اور یہ اموی اور عباسی تحریفات کے نتیجے میں صلح کی قرارداد میں قرار دیا گیا ہے۔[66]
معاویہ نے پانچویں شق کی بھی خلاف ورزی کی اور اپنے کارگزاروں اور والیوں کو ایک ہدایت نامہ لکھا کہ "جان لو کہ اگر ثابت ہوجائے کہ کوئی علیؑ سے محبت کرتا ہے اس کا نام تنخواہ اور وظیفہ لینے والوں کی فہرست سے حذف کرو"، اور پھر دوسرا ہدایت نامہ لکھا اور حکم دیا: "جو بھی اس گروہ سے محبت کا ملزم ٹہرے اس کو قیدخانوں میں ڈال دو اور اس کا گھر منہدم کرو"۔[67]
امام حسنؑ بھی محفوظ نہ رہے
امام حسنؑ نے صلح کی مکمل پابندی کی مگر معاویہ نے اس کے تمام نکات کی خلاف ورزی کی اور سبّ علیؑ کا سلسلہ جاری رہا، شیعیان آل محمدؐ محفوظ نہ رہے، حتی کہ امام حسنؑ خود بھی معاویہ کی ریشہ دوانیوں سے محفوظ نہ رہے۔
معاویہ نے کئی بار امام حسن کو مسموم کرکے شہید کرنے کی کوشش کی لیکن وہ ناکام رہتا تھا[68] اور آخر کار آپ کی زوجہ جعدہ بنت اشعث کو فریب دیا اور یوں امام حسن مجتبی علیہ السلام کو زہر دلوا کر شہید کردیا[69] اور امام حسن، کو قتل کرکے معاویہ نے قرارداد کی آخری شق کو بھی پامال کردیا۔
صلح امام حسن کے بارے میں میں لکھی گئی کتابیں
امام حسنؑ کی صلح کے بارے میں لکھی گئی بعض کتابوں کا نام فہرستوں میں آیا ہے لیکن خود ان کتابوں کے بارے میں کچھ معلوم نہیں ہے وہ درج ذیل ہیں: صلح الحسن و معاويۃ؛ تأليف: احمد بن محمد بن سعيد بن عبد الرحمن السبيعى الہمدانى متوفى بسال 333 ہجرى۔صلح الحسن عليہ السلام؛ تأليف: عبد الرحمن بن كثير الہاشمى (جو بنو ہاشم کے موالی میں سے ہیں اور خود خاندان [[بنو ہاشم سے تعلق نہیں رکھتے)۔قيام الحسن عليہ السلام تأليف: ابراہيم بن محمد بن سعيد بن ہلال بن عاصم بن سعد بن مسعود الثقفى متوفى' 283 ہجرى۔قيام الحسن عليہ السلام تأليف: ہشام بن محمد بن السائب۔كتاب عبد العزيز بن يحيى الجلودى البصرى امام حسنؑ کے واقعے کے بارے میں۔اخبار الحسن عليہ السلام و وفاتہ تأليف: ہيثم بن عدى الثعلبى متوفى بسال 207 ہجرى۔اخبار الحسن بن على عليہ السلام تأليف: ابى اسحاق ابراہيم بن محمد الاصفہانى الثقفى‏۔[70]


حوالہ جات 
  شہیدی، تاریخ تحلیلی اسلام، ص158۔
    طبری، تاریخ الامم و الملوک، ج۵، ص۱۵۸؛ ابن کثیر، البدایہ و النہایہ، ج/
    طبری، تاریخ الامم و الملوک، ج۵، ص۱۵۸
    طبری، تاریخ الامم و الملوک، ج۵، ص۱۵۸
    اصفہانی، مقاتل الطالبیین، ص۷۰؛ نک: جعفریان، تاریخ خلفا، ص۳۷۴
    طبری، تاریخ الامم و الملوک، ج۵، ص۱۵۹
    جعفریان، تاریخ خلفا، ص۳۷۹
    دینوری، اخبار الطوال، ص۲۱۶
    اخبار الطوال، ص۲۱۶
    دینوری، اخبار الطوال،‌ص۲۶۵
    جعفری، تشیع در مسیر تاریخ، ص۱۷۴؛ جعفریان، تاریخ خلفا، ص۳۷۸
    تاریخ الیعقوبی، ج۲،ص۲۱۵
    طبری، تاریخ الامم و الملوک، ج۵، ص۱۵۹
    یعقوبی، تاریخ الیعقوبی، ج۲، ص۲۱۴
    ابن اعثم، الفتوح، ج ۴،‌ ص۲۹۰
    طبری، تاریخ الامم و الملوک، ج۵، ص۱۶۰؛ دینوری، اخبار الطوال،ص۲۱۸
    جعفری، تشیع در مسیر تاریخ، ص۱۸۰؛ جعفریان، تاریخ خلفا، ص۳۹۲-۳۹۴
    ابن اعثم، الفتوح، ص۲۹۰-۲۹۱
    قرشی، حیاة الحسن، ص 471
    باقر شریف قرشی، حیاةالحسن ص 471
    خلیفہ بن خیاط، تاریخ، باہتمام اکرم ضیاء عمری، دمشق/بیروت، 1397ق، ص 203۔
    طبری، ج 4، صص 124-125، 128-129۔
    ابوالفرج، 45 اور بعد کے صفحات۔
    ابن شعبه 232 اور بعد کے صفحات۔
    رسائل الامام حسنؑ، باہتمام زینب حسن عبدالقادر، قاہرہ، 1411ق/1991م، ص 29 اور بعد کے صفحات۔
    حاج منوچہری، دائرة المعارف بزرگ اسلامی، ج 20، مدخل امام حسنؑ، ص 538۔
    حاج منوچہری، وہی ماخذ۔
    قرشی، حیاة الحسن، ص 507 تا 499
    امام حسن ؑ کیوں؟ صلح کے ثمرات۔
    شیخ صدوق، علل الشرائع، ج‏1، ص: 211
    حضرت موسیؑ اور مرد دانا کے قصے کی طرف اشارہ؛ سورہ کہف (18)، آیت 79: جہاں ارشاد ہوتا ہے: "أَمَّا السَّفِينَةُ فَكَانَتْ لِمَسَاكِينَ يَعْمَلُونَ فِي الْبَحْرِ فَأَرَدتُّ أَنْ أَعِيبَهَا وَكَانَ وَرَاءهُم مَّلِكٌ يَأْخُذُ كُلَّ سَفِينَةٍ غَصْباً"۔ (ترجمہ: وہ جو کشتی تھی، وہ کچھ غریبوں کی تھی جو دریا میں کام کرتے تھے تو میں نے چاہا کہ اسے ناقص بنا دوں اور ادھر ایک بادشاہ ہے جو ہر (ثابت) کشتی پر زبردستی قبضہ کر لیتا ہے۔
    مجلسی، بحار، ج‏75 ص 287
    مجلسی، بحار، ج‏44، ص19
    شریف مرتضی، تنزیه الأنبیاء، ص: 170؛ مجلسی، ج44 صص 28-29۔
    ابن اثیر،الکامل فی التاریخ، ج 3، ص 406
    مفید،الإرشاد ج‏2، ص: 10
    طبرسی،احتجاج، ج‏2، ص289۔ مجلسی، بحارالانوار ج44 ص22۔"ايها الناس ان معاوية زعم: اني رأيته للخلافة اهلا ولم ار نفسي لها اهلا وكذب معاوية، انا أولى الناس بالناس في كتاب الله وعلى لسان نبي الله، فاقسم بالله لو ان الناس بايعوني واطاعوني ونصروني، لاعطتهم السماء قطرها، والارض بركتها، ولما طمعتم فيها يا معاوية"۔ (ترجمہ: لوگو! معاویہ نے گمان کیا ہے کہ میں نے اس کو خلافت کے لئے اہل سمجھا اور خلافت اس کے سپرد کی ہے جبکہ معاویہ نے جھوٹ بولا ہے؛ میں کتاب اللہ اور رسول اللہؐ کے زبانی مسلمانوں کے معاملہ میں ان سے بھی زيادہ دخل دینے کا حقدار ہوں؛ پس خدا کی قسم! اگر لوگ میری بیعت کرتے اور میرے اطاعت گزار و فرمانبردار ہوجاتے اور میری مدد کرتے تو آسمان انہیں اپنی بارش عطا کرتا اور زمین اپنی برکت عطا کرتی اور تم بھی اس میں طمع نہ کرتے اے معاویہ۔
    راوندی، الخرائج و الجرائح، ج‏2، ص: 576۔ "فأيم الله لا ترون فرجا أبدا مع بني أمية، والله ليسومنكم سوء العذاب، حتى تتمنون أن يلي عليكم حبشيا ولو وجدت أعوانا ما سلمت له الامر، لانه محرم علي بني أمية"۔ (ترجمہ: اور اللہ کی قسم! تمہیں کبھی بھی بنو امیہ کی حکومت میں فراخی حاصل نہ ہوگی؛ خدا کی قسم! وہ تمہیں بدترین عذاب اور آزار و اذیت پہنچا کر تم پر حکومت کریں گے حتی کہ تم آرزو کروگے کہ کاش کوئی حبشی تم پر حکومت کرتا۔ اگر مجھے یار و یاور ملتا تو حکومت کبھی بھی بنو امیہ کے سپرد نہ کرتا کیونکہ حکومت بنو امیہ پر حرام ہے)۔
    طبرسی،الإحتجاج، ج‏2، ص: 291۔ "والله ما سلمت الامر إليه الا اني لم أجد أنصارا، ولو وجدت أنصارا لقاتلته ليلي ونهاري حتى يحكم الله بيني وبينه، ولكني عرفت أهل الكوفة، وبلوتهم، ولا يصلح لي منهم من كان فاسدا، انهم لا وفاء لهم۔ ولا ذمة في قول ولا فعل، انهم لمختلفون، ويقولون لنا: ان قلوبهم معنا، وان سيوفهم لمشهورة علينا"۔ (خدا کی قسم! میں نے حکومت اس کے سپرد نہیں کی مگر یہ کہ مجھے انصار و اعوان نہیں ملے اور اگر میرے اعوان و انصار ہوتے تو میں دن رات اس کے خلاف لڑتا حتی کہ اللہ میرے اور اس کے درمیان فیصلہ کرتا لیکن میں نے اہل کوفہ کو پہچان لیا اور انہیں آزما لیا اور جو ان میں برا ہے وہ میرے لئے مناسب نہیں ہے وہ بے وفا ہیں وہ اپنے قول و فعل کی ذمہ داری قبول کرنے والے نہيں ہیں اور ان کے قول و فعل میں اختلاف ہے؛ وہ ہم سے کہتے ہیں کہ ان کے دل ہمارے ساتھ ہیں حالانکہ ان کی تلواریں ہمارے خلاف نیام سے باہر آچکی ہیں)۔
    اربلی، کشف الغمه، ج‏1، ص: 571۔
    اربلی، کشف الغمة، ج‏1، ص: 523
    راوندی، تنزیه الأنبیاء، ص: 172۔ بحار الانوار، ج 44، صص 28-21۔"أنتم شيعتنا و أهل مودتنا فلو كنت بالحزم في أمر الدنيا أعمل، و لسلطانها أركض و أنصب، ما كان معاوية بأبأس مني بأسا، و لا أشد شكيمة و لا أمضی عزيمة و لكني أری غير ما رأيتم، و ما أردت بما فعلت إلا حقن الدماء"۔ (ترجمہ: تم ہمارے شیعہ اور پیروکار، ہماری مودت کرنے والے ہو پس اگر میں دنیا کے لئے کام کرنے والا ہوتا اور تسلط جمانے اور اقتدار کے لئے کام کرتا تو معاویہ ہرگز مجھے سے زیادہ طاقتور، نہ تھکنے والا اور صاحب عزم صمیم نہ تھا؛ لیکن میں نے جو کچھ دیکھا وہ مختلف تھا اس سے جو تم نے دیکھا؛ اور جو کچھ میں نے کیا اس سے میرا مقصد سوائے تمہارے خون کی حفاظت کے، کچھ بھی نہ تھا)۔
    طبرسی، الإحتجاج، ج‏1، ص: 282 ، الكامل في التاريخ, الجزء (3)، الصفحة (409)
    ابن اثیر،الکامل فی التاریخ، ج 3 ص 409
    یعقوبی، تاریخ یعقوبی، ج 2، ص 144 و 145۔
    قرشی، حياة الإمام الحسن بن علي عليهما السلام دراسة وتحليل، ص 131۔
    مفید،الارشادج‏2، ص: 6
    راوندی، الخرائج و الجرائح، ج‏2، ص: 574
    راوندی، الخرائج و الجرائح، ج‏2، ص: 576
    دینوری،اخبار الطوال، ص 220
    ابن عربی،احکام القرآن، ج 3 ص 152
    راضی آل یاسین، صلح الحسن، ص 170
    راضی آل یاسین، صلح الحسن، ص 177
    ابن اثیر،الکامل فی التاریخ، ج 3 دارالکتب العلميةو بيروت - لبنان۔ الطبعة الاولی 1987ـ 1407۔صص273و274۔
    مفید، الإرشاد، ج‏2، ص10۔
    مفید،الإرشاد، ج‏2، ص: 9
    طبرسی، الاحتجاج، طبع نجف 1386 ه‍ - 1966 م،ج2 ص10۔
    ابوجعفر محمد علی بابویہ(شیخ صدوق)، علل الشرائع، ص 200۔ اسی طرح کی روایت طبرسی نےاحتجاج میں بھی نقل کی ہے: رجوع کریں: مجلسی، بحار الانوار، ج 44، ص19۔
    اربلی،کشف الغمه، ج 2 ص 341
    راضی آل یاسین،صلح الحسن، ص 192
    قرشی، حیاة الحسن ترجمه حجازی،ص 410 ـ 402
    راضی یاسین، صلح الحسن، ص 409
    قرشی، حیاة الحسن، صص 555 ـ 554
    ابن جریرطبری، تاریخ طبری، ص 126
    ابن اثیر،الکامل فی التاریخ، ج 3 ص 405
    اسی مضمون میں ڈاکٹر سید جعفر شہیدی کا تجزیہ دیکھئے۔
    قرشی، حیاة الحسن، ص 568
    مفید، الارشاد، ص 357
    مفید، الارشاد، ج 2 ص 13   صلح امام حسن، ترجمہ: آیت الله خامنه ای، ص 32۔
 
منابعنرم افزار جامع الاحادیث، نسخہ 3/5 مرکز تحقیقات کامپیوتری علوم اسلامی نورنرم افزار نورالسیرہ 2 مرکز تحقیقات کامپیوتری علوم اسلامی نورعاملی، تحلیلی از زندگی امام حسن مجتبی، مترجم: سپہری، انتشارات دفتر تبلیغات، 1376جعفریان، حیات فکری و سیاسی امامان شیعہ، انتشارات انصاریان 1381مفید، الجمل، ناشر مکتب الاعلام الاسلامی، 1371جریر طبری، تاریخ طبری، موسسۃ الاعلمی للمطبوعات بیروت، بی تاراضی یاسین، صلح الحسن، ترجمہ سید علی خامنہ‌ای، انتشارات گلشن چاپ سیزدہم 1378یعقوبی، تاریخ یعقوبی ترجمہ محمد ابراہیم آیتی انتشارات علمی و فرہنگی 1362طبرسی، الاحتجاج، انتشارات اسوہ 1413 ہ۔قاربلی، کشف الغمہ، ناشر مجمع جہانی اہل بیتؑ 1426 ہ ۔ قمفید، الارشاد، ترجمہ خراسانی انتشارات علمیہ اسلامیہ 1380باقر شریف قرشی، الحیاۃ الحسن، ترجمہ فخرالدین حجازی، انتشارات بعثت، 1376شیخ صدوق، عیون أخبار الرضا، ترجمہ علی اکبر غفاری، چاپ اختر شمال، 1373سیوطی، تاریخ الخلفاء، بی جا بی تاشہیدی، سیدجعفر، تاریخ تحلیلی اسلام، تہران: مرکز نشر دانشگاہی، 1390ش۔شیخ صدوق، امالی، ترجمہ کمرہ ای 1363شیخ صدوق، امالی، انتشارات کتابخانہ اسلامی1362

نیاز امام جعفر صادق عليه السلام(كونڈے)

نیاز امام جعفر صادق عليه السلام(كونڈے)

تحرير: سيد غيور الحسنين

کونڈے وہ برتن ہیں جن میں کھانے کی پاکیزہ چیزوں کو رکھا جاتا ہے. زمانہ امام جعفر صادق عليه السلام 34 سال پہ محیط ہے. (114ھ تا 148ھ) ان میں معجزات وکرامات اور ارشادات بھی ہیں جنہیں الجرائح و الخرائج نے اور تزکرة المعصومین نے تفصیل سے لکھا ہے. امام عليه السلام علم لدنی کے مالک تھے اور پسندیدہ رب تھے . ایک صحابی نے دعا کے لیے کہا آپ نے الله تعالى سے التجا کر کے مراد پوری کر دی. صحابی نے عقیدت میں نیاز تیار کی کونڈے میں رکھ کر صبح کی نماز کے بعد نمازیوں کو کھلا دی (22 رجب تھی) لوگوں نے دیکھا دیکھی منتیں ماننا شروع کر دیں جن کی پوری ہوگئیں کونڈے بھرنے شروع ہو گے. اور یوں تیرہ سو سال سے یہ رسم چلی آ رہی ہے.عبدالرحمن جامی نے شواہد النبوة میں امام جعفر صادق عليه السلام  کا وعدہ پورا کرنا اور کرامات دکھانا وضاحت سے لکھا ہے. یہ نذر ونیاز اس لیے زیادہ مقبول ہوئی کہ امام جعفر صادق عليه السلام  نے فرمایا: منت کے صیغے پڑھ کر قصد کیا جاے،تو مراد پوری ہوتی ہے، رزق میں اضافہ ہوتا ہے، مومنین سے محبت بڑھتی ہے، صلہ رحمی کا موقع ملتا ہے، پاکیزگی سے کھانا پکانے کا درس ملتا ہے، اور اہل بیت سے محبت بڑھتی ہے.

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

امام رضا عليه السلام كى روايت ميں كما يذبح الكبش سے كيا مراد هے؟

قال الإمام  الرضا عليه السلام: يَا ابْنَ شَبِيبٍ إِنْ كُنْتَ بَاكِياً لِشَيْ‏ءٍ فَابْكِ لِلْحُسَيْنِ بْنِ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ فَإِنَّهُ ذُبِحَ كَمَا يُذْبَحُ الْكَبْشُ

اے فرزند شبیب! اگر تم کسی پر رونا چاہو (اور اس کا غم تم کو رلائے تو پہلے) فرزند رسولؐ حسینؑ ابن علیؑ پر گریہ کرو۔ اس لیے کہ ان کو مظلومی کی حالت میں اس طرح ذبح کیا گیا جیسے کسی بھیڑ کو ذبح کیا جاتا ہے۔

کما یذبح الکبش کی بعض علماء نے تفسیر کی ہے کہ کن وجوہ کی بنا پہ  دنبے یا بھیڑ سے تشبیہ دی گئی ہے



پہلی وجہ دنبہ ذبح کرتے وقت کوئی ڈر خوف نہیں ہوتا کہ کوئی مجھے روکے ٹوکے گا کوئی میرا ہاتھ پکڑے گا اسیطرح شمر لعین کو کوئی ڈر خوف نہیں تھا 



دوسری وجہ ذبح کرتے وقت ایک خوشی ہوتی ہے 

بعینہ یہ ملعون خوش تھا بغض کیوجہ سے

 تیسری وجہ ذبح ہونے بعد لوگ انتظار میں ہوتے ہیں کہ تقسیم میں میرے حصے کیا آئے گا اسی طرح اشقیاء منتظر تھے کہ کون کیا لوٹے گا کسی نے کمر بند لوٹا تو کسی نے انگوٹھی 😭😭وگرنہ کبش یا دنبے سے اس کے علاوہ باقی مصائب عظیم ہیں

 

دنبے کو پانی پلا کے ذبح کیا جاتا ہے جبکہ جگر گوشہ بتول پیاسے شہید کیے گئے 😭😭



ہم جنس کے سامنے ذبح نہیں کیا جاتا جبکہ بہن دیکھ رہی تھی 😭😭



ذبیحہ کی گردن سانس ختم ہونیکے بعد جدا کی جاتی ہے مولا حسین  کے زندہ ہوتے ہوئے گردن جدا کی گئی 😭😭 

إنا لله و إنا إليه راجعون

🚩🏴امام حسین(ع) اور پیغمبر (ص)🏴🚩

🚩🏴امام حسین(ع) اور پیغمبر (ص)🏴🚩

 

💐امام حسین ع کی ولادت سےلیکررسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رحلت تک چھ سال اور چند ماہ کی مدت میں لوگوں نے بار بار دیکھا کہ رسول اکرم (ص) امام حسین علیہ السلام سے کتنی محبت فرماتے تھے اور کس حد تک احترام کرتے تھے کہ جس سے لوگوں کو امام حسین ع کی عظمت اور بزرگی کا اندازہ ہوگیا۔

🌸جناب سلمان فارسی کابیان ہے کہ:

میں نے دیکھا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حسین علیہ السلام کو اپنےزانو پر بٹھائے ھوئےہیں اور یہ فرمارہے ہیں:

 

''تم کریم ہو، کریم کے فرزند ھو اور کریموں کے پدر ھو۔، تم خود امام ھو، امام کے فرزند ھو اور اماموں کےپدر ھو، تم خود حجت خدا ھو، حجت خدا کے فرزند ھو اور حجج الہی کے پدر ھو، جن کا نواں قائم (امام زمانہ) ھوگا۔،، 1۔

 

🌸انس بن مالک کی روایت ہےکہ:

'' جس وقت پیغمبر اکرم (ص) سے یہ سوال کیاگیا کہ آپ اپنے اہل بیت میں سب سے زیادہ کسے چاہتے ہیں؟

تو آپ نے فرمایا

حسن و حسین کو۔2

رسول خدا  ، بارہا حسن ع و حسین ع کواپنے سینے سے لگاتےتھے انکوسونگھتےتھے اور بوسہ لیتے تھے۔3۔

 

🌸ابوہریرہ کا بیان ہے کہ:

 

میں نے رسول اللہ کودیکھا کہ حسن و حسین کواپنے شانوں پر بٹھائے ھوئے ھماری طرف تشریف لارہے ہیں۔ جب ھمارے پاس پہنچے تو ارشاد فرمایا:

 

جوشخص میرے ان دونوں فرزندوں کودوست رکھے اس نے مجھے دوست رکھا، اور جو انہیں  دشمن رکھے اس نے مجھ سے دشمنی کی،، 4،

 

رسول خداصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور امام حسین علیہ السلام کےدرمیان عمیق ترین واضح ترین اور معنوی و ملکوتی رابطہ کو رسول خدا(ص) کے اس جملہ میں دیکھا جاسکتا ہے۔

"حسین منی وانامن الحسین،،

حسین مجھ سے ہے اور میں حسین سے ھوں۔5۔

🏴🚩🏴🚩🏴🚩🏴🚩

📕1-مقتل خوارزمی،ج1ص146۔

کمال الدین،صدوق،ص152

📗2- سنن ترمذی،ج5ص323۔

📕3- ذخائرالعقبی،ص122۔

📗4- الاصابہ،ج1ص330۔

📕5- سنن ترمذی،ج5ص324۔

محرم الحرام 1441

http://uplod.ir/ju8skjenw7kn/muharram_1441.jpg.htm

باید ما محرم و صفر را زنده نگه داریم

امام خمینی ره: باید ماها وشماها در گفتاری که داریم و خصوصا در این ماه محرم و صفر،‌که ماه برکات اسلامی است و ماه زنده ماندن اسلام است، باید ما محرم و صفر را زنده نگه داریم به ذکر مصائب اهل بیت(ع) که با ذکر مصائب اهل بیت (ع) زنده مانده است این مذهب تا حالا؛ با همان وضع سنتی، با همان وضع مرثیه‌سرایی و روضه خوانی.

صحیفه امام؛ ج 15؛ ص 330- جماران؛ 4 آبان 1360

نبذة عن حياة السيدة فاطمة المعصومة عليها السلام

نبذة عن حياة السيدة فاطمة المعصومة عليها السلام

دربار یزید ملعون میں حضرت زینب کبری سلام اللہ علیہا كا خطبه

دربار یزید ملعون میں حضرت زینب کبری سلام اللہ علیہا كا خطبه

دربار یزید ملعون میں حضرت زینب کبری سلام اللہ علیہا كا خطبه  بنت علی بن ابی طالب و بنت سیدہ زھراء کا تاریخی خطبہ اردو ترجمہ کے ساتھ جس نے دنیا کو ہلا کر رکھ دیا-

بسم اللہ الرحمن الرحیم

أَلْحَمْدُللهِِ رَبِّ الْعالَمينَ، وَصَلَّى اللهُ عَلى رَسُولِهِ وَآلِهِ أجْمَعينَ، صَدَقَ اللهُ كَذلِكَ يَقُولُ: (ثُمَّ كَانَ عَاقِبَةَ الَّذِينَ أَسَاءُوا السُّوأَى أَنْ كَذَّبُوا بِآيَاتِ اللهِ وَكَانُوا بِهَا يَسْتَهْزِئُون)

أَظَنَنْتَ يا يَزِيدُ حَيْثُ أَخَذْتَ عَلَيْنا أَقْطارَ الاَْرْضِ وَآفاقَ السَّماءِ، فَأَصْبَحْنا نُساقُ كَما تسُاقُ الأُسارى أَنَّ بِنا عَلَى اللهِ هَواناً، وَبِكَ عَلَيْهِ كَرامَةً وَأَنَّ ذلِكَ لِعِظَمِ خَطَرِكَ عِنْدَهُ، فَشَمَخْتَ بِأَنْفِكَ، وَنَظَرْتَ فِي عِطْفِكَ جَذْلانَ مَسْرُوراً حِينَ رَأَيْتَ الدُّنْيا لَكَ مُسْتَوْثِقَةٌ وَالاُْمُورَ مُتَّسِقَةٌ وَحِينَ صَفا لَكَ مُلْكُنا وَسُلْطانُنا، فَمَهْلاً مَهْلاً، أَنَسِيتَ قَوْلَ اللهِ عَزَّوَجَلَّ: (وَ لاَ يَحْسَبَنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا أَنَّمَا نُمْلِى لَهُمْ خَيْرٌ لاَِّنْفُسِهِمْ إِنَّمَا نُمْلِي لَهُمْ لِيَزْدَادُوا إِثْماً وَ لَهُمْ عَذَابٌ مُهِينٌ)

سب تعریفیں اس خدا کے لئے ہیں جو کائنات کا پروردگار ہے ۔ اور خدا کی رحمتیں نازل ہوں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر اور ان کی پاکیزہ عترت و اہل بیت(علیهم السلام) پر۔ اما بعد ! بالاخر ان لوگوں کا انجام برا ہے جنہوں نے اپنے دامن حیات کو برائیوں کی سیاہی سے داغدار کر کے اپنے خدا کی آیات کی تکذیب کی اور آیات پروردگار کا مذاق اڑایا ۔ اے یزید! کیا تو سمجھتا ہے کہ تو نے ہم پر زمین کے گوشے اور آسمان کے کنارے[مختلف طرح سے] تنگ کر دئیے ہیں اور آلِ رسول کو رسیوں اور زنجیروں میں جکڑ کر دربدر پھرانے سے تو خدا کی بارگاہ میں سرفراز هوا اور ہم رسوا ہوئے ہیں؟۔ کیا تیرے خیال میں ہم مظلوم ہو کر ذلیل ہو گئے اور تو ظالم بن کر سر بلند ہوا ہے؟۔ کیا تو سمجھتا ہے کہ ہم پر ظلم کر کے خدا کی بارگاہ میں تجھے شان و مقام حاصل ہو گیا ہے؟۔ آج تو اپنی ظاہری فتح کی خوشی میں سرمست ہے ، مسرت و شادمانی سے سرشار ہو کر اپنے غالب ہونے پر اترا رہا ہے ۔ اور زمامداری[خلافت] کے ہمارے مسلمہ حقوق کو غصب کر کے خوشی و سرور کا جشن منانے میں مشغول ہے ۔ اپنی غلط سوچ پر مغرور نہ ہو اور هوش کی سانس لے ۔ کیا تو نے خدا کا یہ فرمان بھلا دیا ہے کہ حق کا انکار کرنے والے یہ خیال نہ کریں کہ ہم نے انہیں جو مہلت دی ہے وہ ان کے لئے بہتر ہے ۔ بلکہ ہم نے انہیں اس لئے ڈھیل دے رکھی ہے کہ جی بھر کر اپنے گناہوں میں اضافہ کر لیں ۔ اور ان کے لئے خوفناک عذاب معین کیا جا چکا ہے ۔

اس کے بعد فرمایا :

أَ مِنَ الْعَدْلِ يَابْنَ الطُّلَقاءِ! تَخْدِيرُكَ حَرائِرَكَ وَ إِمائَكَ، وَ سَوْقُكَ بَناتِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَ سَلَّم سَبايا، قَدْ هَتَكْتَ سُتُورَهُنَّ، وَ أَبْدَيْتَ وُجُوهَهُنَّ، تَحْدُو بِهِنَّ الاَْعداءُ مِنْ بَلد اِلى بَلد، يَسْتَشْرِفُهُنَّ أَهْلُ الْمَناهِلِ وَ الْمَناقِلِ، وَ يَتَصَفَّحُ وُجُوهَهُنَّ الْقَرِيبُ وَ الْبَعِيدُ، وَ الدَّنِيُّ وَ الشَّرِيفُ، لَيْسَ مَعَهُنَّ مِنْ رِجالِهِنَّ وَلِيُّ، وَ لا مِنْ حُماتِهِنَّ حَمِيٌّ، وَ كَيْفَ يُرْتَجى مُراقَبَةُ مَنْ لَفَظَ فُوهُ أَكْبادَ الاَْزْكِياءِ، وَ نَبَتَ لَحْمُهُ مِنْ دِماءِ الشُّهَداءِ، وَ كَيْفَ يَسْتَبْطِأُ فِي بُغْضِنا أَهْلَ الْبَيْتِ مَنْ نَظَرَ إِلَيْنا بِالشَّنَفِ وَ الشَّنَآنِ وَ الاِْحَنِ وَ الاَْضْغانِ، ثُمَّ تَقُولُ غَيْرَ مُتَّأَثِّم وَ لا مُسْتَعْظِم:

لاََهَلُّوا و اسْتَهَلُّوا فَرَحاً * ثُمَّ قالُوا يا يَزيدُ لا تَشَلْ مُنْتَحِياً عَلى ثَنايا أَبِي عَبْدِاللهِ سَيِّدِ شَبابِ أَهْلِ الجَنَّةِ، تَنْكُتُها بِمِخْصَرَتِكَ، وَ كَيْفَ لا تَقُولُ ذلِكَ وَ قَدْ نَكَأْتَ الْقَرْحَةَ، وَ اسْتَأْصَلْتَ الشَّأْفَةَ بِإِراقَتِكَ دِماءَ ذُرّيَةِ مُحَمَّد صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ، وَ نُجُومِ الاَْرْضِ مِنْ آلِ عَبْدِالمُطَّلِبِ، وَ تَهْتِفُ بِأَشْياخِكَ، زَعَمْتَ أَنَّكَ تُنادِيهِمْ، فَلَتَرِدَنَّ وَ شِيكاً مَوْرِدَهُمْ وَ لَتَوَدَّنَّ أَنَّكَ شَلَلْتَ وَ بَكِمْتَ، وَ لَمْ تَكُنْ قُلْتَ ما قُلْتَ وَ فَعَلْتَ ما فَعَلْتَ.

اے طلقاءکے بیٹے (آزاد کردہ غلاموں کی اولاد) کیا یہ تیرا انصاف ہے کہ تو نے اپنی مستورات اور لونڈیوں کو چادر اور چار دیواری کا تحفظ فراہم کر کے پردے میں بٹها رکھا ہوا ہے جبکہ رسول زادیوں کو سر برہنہ در بدر پھرا رہا ہے ۔ تو نے مخدرات عصمت کی چادریں لوٹ لیں اور ان کی بے حرمتی کا مرتکب ہوا ۔ تیرے حکم پر اشقیاءنے رسول زادیوں کو بے نقاب کر کے شہر بہ شہر پھرایا ۔ تیرے حکم پر دشمنان خدا، اہل بیت رسولکی پاکدامن مستورات کو ننگے سر لوگوں کے ہجوم میں لے آئے ۔ اورلوگ رسول زادیوں کے کھلے سر دیکھ کر ان کا مذاق اڑا رہے ہیں اور دور و نزدیک کے رہنے والے سب لوگ ان کی طرف نظریں اٹھا اٹھا کر دیکھ رہے ہیں ۔ ہر شریف و کمینے کی نگاہیں ان پاک بی بیوں کے ننگے سروں پر جمی ہیں ۔آج رسول زادیوں کے ساتھ ہمدردی کرنے والا کوئی نہیں ہے ۔ آج ان قیدی مستورات کے ساتھ ان کے مرد موجود نہیں ہیں جو اِن کی سرپرستی کریں ۔ آج آلِ محمد کا معین و مددگار کوئی نہیں ہے ۔

اس شخص سے بھلائی کی کیا توقع ہو سکتی ہے جس کی ماں (یزید کی دادی) نے پاکیزہ لوگوں کے جگر کو چبایا هو ۔ اور اس شخص سے انصاف کی کیا امید ہو سکتی ہے جس نے شہیدوں کا خون پی رکها ہو۔ وہ شخص کس طرح ہم اہل بیت(علیهم اسلام) پر مظالم ڈھانے میں کمی کر سکتا ہے جو بغض و عداوت اور کینے سے بھرے ہوئے دل کے ساتھ ہمیں دیکھتا ہے ۔

اے یزید ! کیا تجھے شرم نہیں آتی کہ تو اتنے بڑے جرم کا ارتکاب کرنے اور اتنے بڑے گناہ کو انجام دینے کے باوجود فخر و مباہات کرتا ہوا یہ کہہ رہا ہے کہ آج اگر میرے اجداد موجود ہوتے تو ان کے دل باغ باغ ہو جاتے اور مجھے دعائیں دیتے ہوئے کہتے کہ اے یزید تیرے ہاتھ شل نہ ہوں ۔

اے یزید ! کیا تجھے حیا نہیں آتی کہ تو جوانانِ جنت کے سردار حسین ابن علی (علیه السلم) کے دندان مبارک پر چھڑی مار کر ان کی بے ادبی کر رہا ہے ۔

اے یزید، تو کیوں خوش نہ ہو اور فخر و مباہات کے قصیدے نہ پڑھے کیونکہ تو نے اپنے ظلم و استبداد کے ذریعے فرزند رسول خدا اور عبدالمطلب کے خاندانی ستاروں کا خون بها کر ہمارے دلوں کے زخموں کو گہرا کر دیا ہے اور شجرہ طیبہ کی جڑیں کاٹنے کے گھناونے جرم کا مرتکب ہوا ہے ۔تو نے اولاد رسول کے خون میں اپنے ہاتھ رنگین کئے ہیں ۔

تو نے عبدالمطلب کے خاندان کے ان نوجوانوں کو تہہ تیغ کیا ہے جن کی عظمت و کردار کے درخشندہ ستارے زمین کے گوشے گوشے کو منور کیے ہوئے ہیں ۔

آج تو آلِ رسول کو قتل کر کے اپنے بد نہاد[برے] اسلاف کو پکار کر انہیں اپنی فتح کے گیت سنانے میں منہمک ہے ۔ تو سمجهتا هے که وه تیری آواز سن رهے هیں؟ ! (جلدی نه کر) عنقریب تو بهی اپنے ان کافر بزرگوں کے ساتھ جا ملے گا اور اس وقت اپنی گفتار و کردار پر پشیمان ہو کر یہ آرزو کرے گا کہ کاش میرے ہاتھ شل ہو جاتے اور میری زبان بولنے سے عاجز ہوتی اور میں نے جو کچھ کیا اور کہا اس سے باز رہتا ۔

اس کے بعد حضرت زینب نے آسمان کی طرف منہ کر بارگاہِ الٰہی میں عرض کیا !

أَللّهُمَّ خُذْ بِحَقِّنا، وَ انْتَقِمْ مِنْ ظالِمِنا، وَ أَحْلِلْ غَضَبَكَ بِمَنْ سَفَكَ دِماءَنا، وَ قَتَلَ حُماتَنا، فَوَاللهِ ما فَرَيْتَ إِلاّ جِلْدَكَ، وَلا حَزَزْتَ إِلاّ لَحْمَكَ، وَ لَتَرِدَنَّ عَلى رَسُولِ اللهِ بِما تَحَمَّلْتَ مِنْ سَفْكِ دِماءِ ذُرِّيَّتِهِ، وَ انْتَهَكْتَ مِنْ حُرْمَتِهِ فِي عَتْرَتِهِ وَ لُحْمَتِهِ، حَيْثُ يَجْمَعُ اللهُ شَمْلَهُمْ، وَ يَلُمُّ شَعْثَهُمْ، وَ يَأْخُذُ بِحَقِّهِمْ (وَ لاَ تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِى سَبِيلِ اللهِ أَمْوَاتاً بَلْ أَحْيَاءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ يُرْزَقُونَ). وَ حَسْبُكَ بِاللهِ حاكِماً، وَ بِمُحَمَّد صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَ سَلَّمَ خَصِيماً، وَ بِجَبْرَئِيلَ ظَهِيراً، وَ سَيَعْلَمُ مَنْ سَوّى لَكَ وَ مَكَّنَكَ مِنْ رِقابِ المُسْلِمِينَ، بِئْسَ لِلظّالِمِينَ بَدَلاً، وَ أَيُّكُمْ شَرٌّ مَكاناً، وَ أَضْعَفُ جُنْداً.

اے ہمارے پروردگار، تو ہمارا حق ان ظالموں سے ہمیں دلا دے اور تو ہمارے حق کا بدلہ ان سے لے ۔ اے پردگار تو ہی ان ستمگروں سے ہمارا انتقام لے ۔ اور اے خدا تو ہی ان پر اپنا غضب نازل فرما جس نے ہمارے عزیزوں کو خون میں نہلایا اور ہمارے مددگاروں کو تہہ تیغ کر دیا ۔ اے یزید ! (خدا کی قسم ) تو نے جو ظلم کیا ہے یه اپنے ساتھ ظلم کیا ہے ۔ تو نے کسی کی نہیں بلکہ اپنی ہی کھال چاک کی ہے ۔ اور تو نے کسی کا نہیں بلکہ اپنا ہی گوشت کاٹا ہے ۔ تو رسولِ خدا کے سامنے ایک مجرم کی صورت میں لایا جائے گا اور تجھ سے تیرے اس گھناونے جرم کی باز پرس ہو گی کہ تو نے اولادِ رسول کا خونِ ناحق کیوں بہایا اور رسول زادیوں کو کیوں دربدر پھرایا ۔ نیز رسول کے جگر پاروں کے ساتھ ظلم کیوں روا رکھا ۔

اے یزید ! یاد رکھ کہ خدا، آلِ رسول کا تجھ سے انتقام لے کر ان مظلوموں کا حق انہیں دلائے گا ۔ اور انہیں امن و سکون کی نعمت سے مالامال کر دے گا ۔ خدا کا فرمان ہے کہ تم گمان نہ کرو کہ جو لوگ راہِ خدا میں مارے گئے وہ مر چکے ہیں ۔ بلکہ وہ ہمیشہ کی زندگی پا گئے اور بارگاہِ الٰہی سے روزی پا رہے ہیں ۔

اے یزید ! یاد رکھ کہ تو نے جو ظلم آلِ محمد پر ڈھائے ہیں اس پر رسول خدا ، عدالتِ الٰہی میں تیرے خلاف شکایت کریں گے ۔ اور جبرائیلِ امین آلِ رسول کی گواہی دیں گے ۔ پھر خدا اپنے عدل و انصاف کے ذریعه تجھے سخت عذاب میں مبتلا کر دے گا ۔ اور یہی بات تیرے برے انجام کے لئے کافی ہے ۔

عنقریب وہ لوگ بھی اپنے انجام کو پہنچ جائیں گے جنہوں نے تیرے لئے ظلم و استبداد کی بنیادیں مضبوط کیں اور تیری آمرانہ سلطنت کی بساط بچھا کر تجھے اہل اسلام پر مسلط کر دیا ۔ ان لوگوں کو بہت جلد معلوم ہو جائے گا کہ ستمگروں کا انجام برا ہوتا ہے اور کس کے ساتھی ناتوانی کا شکار ہیں ۔

اس کے بعد فرمایا :

وَ لَئِنْ جَرَّتْ عَلَيَّ الدَّواهِي مُخاطَبَتَكَ، إِنِّي لاََسْتَصْغِرُ قَدْرَكَ، وَ أَسْتَعْظِمُ تَقْرِيعَكَ، وَ أَسْتَكْثِرُ تَوْبِيخَكَ، لكِنَّ العُيُونَ عَبْرى، وَ الصُّدُورَ حَرّى، أَلا فَالْعَجَبُ كُلُّ الْعَجَبِ لِقَتْلِ حِزْبِ اللهِ النُّجَباءِ بِحِزْبِ الشَّيْطانِ الطُّلَقاءِ، فَهذِهِ الاَْيْدِي تَنْطِفُ مِنْ دِمائِنا، وَ الأَفْواهُ تَتَحَلَّبُ مِنْ لُحُومِنا، وَ تِلْكَ الجُثَثُ الطَّواهِرُ الزَّواكِي تَنْتابُها العَواسِلُ، وَ تُعَفِّرُها اُمَّهاتُ الْفَراعِلِ.

وَ لَئِنِ اتَّخَذْتَنا مَغْنَماً لَتَجِدَ بِنا وَ شِيكاً مَغْرَماً حِيْنَ لا تَجِدُ إلاّ ما قَدَّمَتْ يَداكَ، وَ ما رَبُّكَ بِظَلاَّم لِلْعَبِيدِ، وَ إِلَى اللهِ الْمُشْتَكى، وَ عَلَيْهِ الْمُعَوَّلُ، فَكِدْ كَيْدَكَ، وَ اسْعَ سَعْيَكَ، وَ ناصِبْ جُهْدَكَ، فَوَاللهِ لا تَمْحُو ذِكْرَنا، وَ لا تُمِيتُ وَحْيَنا، وَ لا تُدْرِكُ أَمَدَنا، وَ لا تَرْحَضُ عَنْكَ عارَها، وَ هَلْ رَأيُكَ إِلاّ فَنَدٌ، وَ أَيّامُكَ إِلاّ عَدَدٌ، وَ جَمْعُكَ إِلاّ بَدَدٌ؟ يَوْمَ يُنادِي الْمُنادِي: أَلا لَعْنَةُ اللهِ عَلَى الظّالِمِينَ.

وَ الْحَمْدُ للهِ رَبِّ الْعالَمِينَ، أَلَّذِي خَتَمَ لاَِوَّلِنا بِالسَّعادَةِ وَ الْمَغْفِرَةِ، وَ لاِخِرِنا بِالشَّهادَةِ وَ الرَّحْمَةِ. وَ نَسْأَلُ اللهَ أَنْ يُكْمِلَ لَهُمُ الثَّوابَ، وَ يُوجِبَ لَهُمُ الْمَزيدَ، وَ يُحْسِنَ عَلَيْنَا الْخِلافَةَ، إِنَّهُ رَحيمٌ وَدُودٌ، وَ حَسْبُنَا اللهُ وَ نِعْمَ الْوَكيلُ.

اے یزید ! یہ گردش ایام اور حوادث روزگار کا اثر ہے کہ مجھے تجھ جیسے بدنہاد [برے انسان] سے ہمکلام ہونا پڑا ہے اور میں تجھ جیسے ظالم و ستمگر سے گفتگو کر رہی ہوں ۔ لیکن یاد رکھ میری نظر میں تو ایک نہایت پست اور گھٹیا شخص ہے جس سے کلام کرنا بھی شریفوں کی توہین ہے ۔ میری اس جرائت سخن پر تو مجھے اپنے ستم کا نشانہ ہی کیوں نہ بنا دے لیکن میں اسے ایک عظیم امتحان اور آزمائش سمجھتے ہوئے صبر و استقامت اختیار کروں گی اور تیری بد کلامی و بدسلوکی میرے عزم و استقامت پر اثر انداز نہیں ہو سکتی۔اے یزید ! آج ہماری آنکھیں اشکبار ہیں اور سینوں میں آتش غم کے شعلے بھڑک رہے ہیں ۔

افسوس تو اس بات پر ہے کہ شیطان کے ہمنوا اور بدنام لوگوں نے رحمان کے سپاہیوں اور پاکباز لوگوں کو تہہ تیغ کرڈالا ہے ۔ اور ابھی تک اس شیطانی ٹولے کے ہاتھوں سے ہمارے پاک خون کے قطرے ٹپک رہے ہیں ۔ ان کے ناپاک دہن ہمارا گوشت چبانے میں مصروف ہیں اور صحرا کے بھیڑیئے ان پاکباز شہیدوں کی مظلوم لاشوں کے ارد گرد گھوم رہے ہیں اور جنگل کے نجس درندے ان پاکیزہ جسموں کی بے حرمتی کر رہے ہیں ۔

اے یزید ! اگر آج تو ہماری مظلومیت پر خوش ہو رہا ہے اور اسے اپنے دل کی تسکین کا باعث سمجھ رہا ہے تو یاد رکھ کہ جب قیامت کے دن اپنی بد کرداری کی سزا پائے گا تو اس کا برداشت کرنا تیرے بس سے باہر ہو گا ۔ خدا عادل ہے اور وہ اپنے بندوں پر ظلم نہیں کرتا ۔ ہم اپنی مظلومیت اپنے خدا کے سامنے پیش کرتے ہیں ۔ اور ہر حال میں اسی کی عنایات اور عدل و انصاف پر ہمارا بھروسہ ہے ۔

اے یزید ! تو جتنا چاہے مکر و فریب کر لے اور بھر پور کوشش کر کے دیکھ لے مگر تجهے معلوم ہونا چاہیئے کہ تو نہ تو ہماری یاد لوگوں کے دلوں سے مٹا سکتا ہے اور نہ ہی وحی الٰہی کے پاکیزہ آثار محو کر سکتا ہے ۔تو یہ خیال خام اپنے دل سے نکال دے کہ ظاہر سازی کے ذریعے ہماری شان و منزلت کو پا لے گا ۔تو نے جس گھناونے جرم کا ارتکاب کیا ہے اس کا بد نما داغ اپنے دامن سے نہیں دھو پائے گا ۔ تیرا نظریہ نہایت کمزور اور گھٹیا ہے ۔تری حکومت میں گنتی کے چند دن باقی ہیں ۔ تیرے سب ساتھی تیرا ساتھ چھوڑ جائیں گے ۔ تیرے پاس اس دن کی حسرت و پریشانی کے سوا کچھ بھی نہیں بچے گا ۔ جب منادی ندا کرے گا کہ ظالم و ستمگر لوگوں کے لئے خدا کی لعنت ہے ۔

ہم خدائے قدوس کی بارگاہ میں سپاس گزار ہیں کہ ہمارے خاندان کے پہلے فرد حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو سعادت و مغفرت سے بہرہ مند فرمایا اور امام حسین علیہ السلام کو شہادت و رحمت کی نعمتوں سے نوازا ۔ ہم بارگاہِ ایزدی میں دعا کرتے ہیں کہ وہ ہمارے شہیدوں کے ثواب و اجر میں اضافہ و تکمیل فرمائے اور ہم باقی سب افراد کو اپنی عنایتوں سے نوازے، بے شک خدا ہی رحم و رحمت کرنے والا اور حقیقی معنوں میں مہربان ہے ۔ خدا کی عنایتوں کے سوا ہمیں کچھ مطلوب نہیں اور ہمیں صرف اور صرف اسی کی ذات پر بھروسہ ہے اس لئے کہ اس سے بہتر کوئی سہارا نہیں ہے”

میدانِ کربلا میں شہید ھونے والے امام حسین کے رُفقاء کا مختصر تعارف( قسمت8)

شُہدائے بنی ہاشم علیہم السلام

کارزارِ کربلا میں امام علیہ السلام کے اصحاب باصفاء اور موالیانِ باوفا کی شہادت کے بعد اِمام علیہ السلام کے اعزاء و اقرباء ، برادران  اور اولاد نے راہِ اسلام میں عظیم اور لازوال قربانیاں دیں اور اسلام کو سدا بہار بنا دیا ۔

اسلام کے دامن میں بس اس کے سواء کیا ہے ۔

ایک ضرب ید اللہ ،  ایک سجدہ شبیری

 

1-  عبداللہ بن مُسلم بن عقيل

آپ حضرت مُسلم بن عقيل علیہ السلام کے فرزند اور امام علیہ السلام کے بھانجے  اور امیر المومین علی علیہ السلام کے نواسے تھے۔ آپ کی والدہ ماجدہ رقیہ بنت علی علیہ السلام اور نانی کا نام صہباء بنتِ عباد تھا ۔ آپ کی والدہ قبیلہ بنی ثعلبة کی فرد اور کنیت ام حبیبہ تھی۔ آپ اٹھارہ بنی ہاشم کے سب سے پہلے شہید ہیں۔ آپ نے 90 دشمنوں کو واصلِ نار کیا اور دوران جنگ عمر بن صبیح صیداوی نے آپ کی پیشانی پر تیر مارا جس کو روکتے ہوئے  آپ کا ہاتھ پیشانی میں پیوست ہو گیا ۔  اس نے دوسرا تیر آپ کے سینے پر مارا جس سے آپ نے شہادت پائی۔

2-  محمد بن مسلم بن عقيل

آپ بھائی کو زخمی دیکھ کر امام علیہ السلام سے اِذنِ شہادت طلب کر کے میدان میں گئے اور گھمسان کی جنگ کی۔ آپ کو ابوجرہم ازدی اور لقیط  نے شہید کیا ۔

3-  جعفر بن عقیل

آپ عقیل ابن ابی طالب کے فرزند اور آپ کی والدہ "حوصا" بنت عمرہ بن عام بن حسان بن کعب بن عبد بن ابی بکر ابن کلاب عامری اور آپ کی نانی ریطة بنت عبداللہ بن ابی بکر تھیں۔ میدان جنگ میں 15 دشمنوں کو قتل کر کے بشر بن خوط کے ہاتھوں شہید ہوئے ۔۔

4- عبد الرحمان بن عقیل

آپ عقیل ابن ابی طالب کے فرزند اورمیدان کربلا میں 17 دشمنوں کو قتل کر کے عثمان بن خالد ابن اثیم اور بشر بن خوط کے ہاتھوں شہید ہوئے ۔

5-  عبداللہ بن عقیل

آپ عقیل ابن ابی طالب کے فرزند اورمیدان کربلا میں بہت سے  دشمنوں کو قتل کر کے عثمان بن خالد کے ہاتھوں شہید ہوئے۔

6- موسی بن عقیل

آپ عقیل ابنِ ابی طالب کے فرزند اورمیدانِ کربلا میں 70 دشمنون کو قتل کر کے سرورِ کائنات کی بارگاہ میں پہنچے ۔

7-   عون بن عبداللہ بن جعفر طیار(فرزند حضرت زينب عليها السلام)

آپ جناب عبداللہ کے فرزند اور حضرت جعفر طیار کے پوتے تھے ۔ امیر المومنین علیہ السلام  کے نواسے آپ کی والدہ زینب کُبریٰ علیہ السلام اور نانی جناب خاتونِ جنت حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہ تھیں ۔

جناب عبداللہ ابنِ جعفر نے علالت کی وجہ سے اپنے بیٹوں کو امام علیہ السلام کی بارگاہ میں  دے دیا تھا  اور امام علیہ السلام پر جانثاری کی ہدایت کر کے چلے گئے تھے۔

جناب عون کے رجز کے اشعار نےدشمنوں  کے دل دہلا دِیے تھے ۔ آپ نے 30  سوار اور 18 پیادے قتل کئے اور عبد بن قطنہ نبھانی کے ہاتھوں  شہید ہوئے ۔

8- محمد بن عبداللہ بن جعفر طیار(فرزند حضرت زينب عليها السلام)

آپ جناب عون کے بھائی تھے۔ 10 دشمنوں کو قتل کرنے کے بعد عامر بن نہشل کے ہاتھوں شہید ہوئے ۔

9- عبداللہ الاکبر عرف عمرو بن الحسن ابن علی ابن ابی طالب

آپ امام حسن علیہ السلام کے بڑے بیٹے اور آپ کی کنیت ابو بکر تھی  آپ کی والدہ گرامی کا نام  جناب "رملہ " اور کچھ روایات کے مطابق" نفیلہ" تھا۔ میدان کربلا میں 80 آدمیوں کو قتل کرنے کے بعد عبداللہ بن عقبی غنوی کے ہاتھوں شہید ہوئے ۔

10-   قاسم بن حسن بن علی ابن ابی طالب

آپ امام حسن علیہ السلام  اور جناب ام فروه کے فرزند تھے آپ نہایت جری تھے ارزق شامی جیسے نامی گرامی پہلوان کو میدان کربلا میں قتل کیا ۔ اور جب دشمنوں سے زیر نہ ہوئے تو سب نے اچانک چاروں طرف سے گھیر کر حملہ کیا  اور عمیر بن نفیل ازدی کے وار سے گھائل ہوئے ۔ گھوڑے سے گرنے کے بعد زندہ ہی پامال سُم اسپاں ہو گئے ۔

11- عبداللہ بن حسن ابن علی ابن ابی طالب

آپ اِمام حسن علیہ السلام کے فرزند اور والدہ بنت شکیل بن عبداللہ بجلی تھیں ۔ آپ کے نانا صحابی رسول تھے ۔  کربلا میں سنِ بلوغ تک نہ پہنچے تھے مگر شجاعت  بے مثال کے مالک تھے ۔  14 دشمنوں کو قتل کر کے بدست ہانی بن  شیت خضرمی شہید ہوئے ۔

12- عبداللہ بن علی ابن ابی طالب

آپ علمدارِ کربلا کے حقیقی بھائی اور فرزند جناب اُم البنین اور امیر المومنین علیہ السلام تھے ۔کربلا میں ہانی بن ثبیث حضرمی کے ہاتھوں شہید ہوئے ۔

13-   عثمان بن علی ابن ابی طالب

آپ بھی علمدارِ کربلا کے بھائی  تھے۔ آپ کی عمر 23 برس تھی اور میدان کربلا میں خولی شقی کے تیر سے گھائل ہوکر زخمی ہوئے اور قبیلہ ابان بن وارم کے ایک شخص کی تلوار سے شہید ہوئے ۔

14- جعفر بن علی ابن ابی طالب

آپ کی عمر 21 برس اور میدانِ کربلا میں  ہانی ابن ثبیث کے ہاتھوں شہید ہوئے ۔

15- علمدارِ کربلا عباس بن علی ابن ابی طالب

ان بہادران بنی ہاشم کی شہادت کے بعد علمدارِ کربلا نے اِذن شہادت طلب کیا مگر امام علیہ السلام نے اذنِ جنگ نہ دیا اور فرمایا کہ اطفال کے لیے پانی کا بندوبست کرو ۔

آپ مشکیزہ اور علم لے کے میدان میں گئے، جنگ کی اجازت نہ ملنےکے باوجود آپ کی ہیبت سے لشکر میں ہلچل مچ گئی تھی ۔ آپ نے پانی پر قبضہ کیا مشک بھری اور  واپس راه خیام ہوئے ۔ جب لشکر نے دیکھا کہ آپ بغیر تلوار کے ہیں تو آپ پر حملہ کیا اور پانی کی مشک بچاتے ہوئے آپ کا داہنا ہاتھ زیند بن ورقا کی تلوار سے قلم ہوا ۔ بایاں ہاتھ حکیم ابن طفیل نے قلم کیا مشکیزے پر تیر لگنے سے سارا پانی بہہ گیا  اور ایک تیر آپ کی سینے پر لگا۔ آپ کی شہادت پر امام علیہ السلام نے فرمایا ۔

" ہائے میری کمر ٹوٹ گئی" آپ کو کمال حُسن کی وجہ سے قمر بنی ہاشم بھی کہا جاتا تھا۔ مشہور القاب " سقہ " ، ابو قریہ ہیں شہادت کے وقت آپ کی عمر 34 برس تھی۔

16- علی اکبر بن الحسین الشہید ابن علی ابن ابی طالب

آپ امام علیہ السلام کے بیٹے تھے ۔ امیر المومنین علی علیہ السلام  اور جناب خاتونِ جنت سلام اللہ علیہا کے پوتے تھے ۔ آپ کی والدہ کا نام " اُمِ لیلٰی"  تھا۔  آپ صورت اور سیرت میں پیغمبر اسلام صلى الله عليه و آله وسلم کے مشابہ تھے ۔ آپ کا نام علی ابن حسین ۔ کنیت ابو الحسن اور لقب اکبر تھا۔ آپ نے میدان کربلا میں120 دشمنوں کو قتل کیا اور منقذ ابن مرہ عبدی نے آپ کے گلوئے مبارک پر تیر مار اور ابن نمیر نے سینہ اقدس پر نیزے کا وار کیا ۔ شہادت کے وقت آپ کی عمر 18 برس تھی ۔

17- محمد بن ابی سعید بن عقیل

آپ جناب عقیل کے فرزند اور نہایت کم سن تھے ۔  جناب علی اکبر کی شہادت کے بعد آپ چوب خیمہ  لے کر باہر نکلے  اور امام علیہ السلام کی طرف رُخ کیا ابھی آپ امام علیہ السلام کے نزدیک بھی نہیں پہنچے تھے کہ نفیظ ابن یاسی  نے آپ پر تلوار کی ضرب لگائی اور آپ شہید ہو گئے ۔

18-  علی اصغر بن الحسین الشہید ابن علی ابن ابی طالب

آپ امام علیہ السلام کے کمسن ترین فرزند تھے۔ آپ 10 رجب سن 60 ہجری کو پیدا ہوئے ۔ آپ کی والدہ  کا نام رباب بنت امرہ القیس بن عدی بن اوس تھا۔ یوم عاشور کو جب امام علیہ السلام نے آواز استغاثہ بلند کی تو آپ نے خود کو جھولے سے گرا دیا ۔ امام علیہ السلام جب6 ماہ کے شہزادے کو لے کر اُس کے لئے پانی مانگنے  کے لئے میدان میں گئے تو لشکر میں ہلچل مچ گئی اور لشکر بے قابو ہونے لگا ۔  ابن سعد  نے حرملہ کو حکم دیا کہ تیر سہ شعبہ استعمال کرو۔  اس لعین نے گلوئے صغیر کو تاکا اور تیر کمان سے چھوڑ دیا تیر کا لگنا تھا کہ 6 ماہ کا معصوم بچہ امام علیہ السلام کے ہاتھوں میں دم توڑ گیا۔ امام علیہ السلام نے خون علی اصغر علیہ السلام آسمان کی طرف پھر زمین کی طرف پھینکنا چاہا مگر دونوں نے اس خون نا حق کو قبول کرنے سے انکار کر دیا ۔ بالآخر آپ علیہ السلام نے اس لہو کو اپنے چہرہ مبارک پر مل لیا ، اور فرمایا کہ " اسی حالت میں اپنے نانا کی بارگاہ میں جاوں گا " ۔

انکار آسمان کو ہے ، راضی زمیں نہیں

اصغر تمہارے خون کا ٹھکانا کہیں نہیں ۔

 

تاجدار انسانیت سید الشُہداء  امام حسین علیہ السلام کی شہادت

جب آپ علیہ السلام کا کوئی معین اور مددگار باقی نہ رہا تو آپ خود میدان کارزار میں آئے ۔

آپ علیہ السلام کے جسم مبارک پر 1951 زخم آئےاور آپ زمین پر اس طرح تشریف لائے که آپ علیہ السلام نہ تو زین پر تھے اور نہ زمین پر ۔ نماز عصر کا وقت آ چکا تھا۔ آپ سجدہ خالق میں گئے تو شِمر ملعون نے کُند خنجر سے آپ کا سر مبارک جسمِ اقدس  سے جدا کر دیا ۔

یہ المناک واقعہ  10 محرم س61 ہجری بمطابق 10 اکتوبر 680 عیسوی بروز جمعہ اس دنیا میں وقوع پزیر ہوا اور دین اسلام کی لازوال تاریخ رقم کر گیا ۔

 

 

 

میدانِ کربلا میں شہید ھونے والے امام حسین کے رُفقاء کا مختصر تعارف( قسمت7)

61-  جنادہ بن کعب الخزرجی

آپ قبیلہ خزرج کی یادگار تھے اور مکہ میں امام علیہ السلام کے ساتھ شامل ہوئے۔ 18 دشمنوں کو قتل کر کے شہید ہوئے ۔

62- عمر بن جنادۃ انصاری

آپ جنادہ بن کعب کے فرزند اور کم عمر تھے باپ کی شہادت کے بعد والدہ نے آپ کو تیار کر کے امام علیہ السلام کی بارگاہ میں پیش کیا امام نے کہا " ابھی تمہارا باپ شہید ہوا ہے، میں تم کو اجازت نہیں دے سکتا"

 یہ سن کر آپ کی والدہ نے امام علیہ السلام کی قدم بوسی کی اور اجازت طلب کی ۔ امام علیہ السلام سے اجازت لے کر میدان میں گئے اور شہید ہوئے ۔ روایت ہے کہ قاتل نے سر کاٹ کر خیام کی طرف پھینکا تو آپ کی والدہ نے واپس میدان میں پھینک دیا۔

63-   جنادہ بن الحرث سلمانی

اپ کوفہ کے رہائشی تھے اور امام علیہ السلام سے راستے میں ملاقات کر کے آپ کے رفقاء میں شامل ہوئے ۔ میدانِ کربلا میں ظہر سے قبل شہید ہوئے ۔

64- عابس بن شبیب شاکری

آپ قبیلہ بنو شاکر کی یادگار تھے اور  یہ وہی قبیلہ ہے جس کی بابت امیر المومنین علیہ السلام  نے جنگ صفین میں فرمایا تھا " اگر بنو شاکر کے 1000 افراد موجود ہوں تو دنيا میں اسلام کے علاوہ کوئی اور مذہب نہ ہو۔ " یوم عاشور پر جب میدان میں آ کر مبازر طلب کیا تو کوئی بھی سامنے نہیں آیا ۔ بالآخر آپ پر اجتماعی پتھراو کیا گیا اور سب نے مل کر حملہ کیا جس سے آپ شہید ہوگئے ۔

65-  شوذب بن عبداللہ ہمدانی

آپ عابس الشاکری کے غلام تھے اور بلا کے جری تھے ۔ آپ بھی اپنے مالک کے ہمراہ میدانِ کربلا میں شہید ہوئے ۔

66- عبد الرحمان بن عروة الغفاری

آپ کوفہ کے رہائشی تھے اور میدان کربلا میں امام علیہ السلام کے نصرت اور تائید میں شہید ہوئے ۔

67-  حارث بن امرو القیس الکندی

آپ صبحِ عاشور لشکر ابن سعد سے نکل کر امام علیہ السلام کے لشکر میں شامل ہوئے اور جامِ شہادت نوش کیا ۔

68- یزید بن زیاد كندى

آپ کی کنیت ابو الشعشاء تھی ۔ آپ اپنی قوم کے سردار اور فنون جنگ میں طاق تھے ۔آپ میدان کربلا میں بے جگری سے لڑے تو دشمنوں نے آپ کے گھوڑے کے پیر کاٹ دیے اس وقت آپ کے ترکش میں 100 تیر تھے آپ نے ہر تیر سے ایک فرد کو واصلِ نار کیا ۔ تیر ختم ہونے کے بعد تلوار بازی کی اور  نیزہ لگنے سے گھائل ہوئے  اور درجہ شہادت حاصل کیا ۔

69- ابو عمرہ النہثلی

آپ میدانِ کربلا کی انفرادی  جنگ میں شہید ہوئے آپ کا قاتل عامر بن نہشل تھا

70- جندب بن حجر خولانی کندی

آپ انصار امیر المومنین علیہ السلام تھے اور کوفہ سے نکل کر لشکر حُر کی آمد سے پهلے امام علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوئے ۔ یومِ عاشورہ کو حمایتِ فرزندِ رسول علیہ السلام میں جنت کے حقدار ہوئے ۔

71- سلمان بن مضارب بجلى

آپ زہیر ابن قین کے چچا زاد بھائی تھے ۔ مکہ سے امام علیہ السلام کے ہم رکاب ہوئے اور یومِ عاشور بعد نمازِ ظُہر شہادت سے سرفراز ہوئے ۔

72- مالک بن عبداللہ همدانى

آپ یومِ عاشور سے چند روز پہلے امام علیہ السلام کی بارگاہ میں حاضر ہوئے تھے ۔ آپ کی شہادت پر اِمام نے وہ ایک جملہ کہا جو تاریخ میں محفوظ ہے ۔

" اے میرے وفادار بہادرو ۔ تم میرے نانا کی خدمت میں چلو میں تمہارے پیچھے آ رہا ہوں " ۔

میدانِ کربلا میں شہید ھونے والے امام حسین کے رُفقاء کا مختصر تعارف( قسمت6)

51-  انس بن حارث کاهلی

آپ کا نام انس بن حارث بن کاہل بن عمر بن صعب بن اسد بن حزیمہ اسدی کاہلی تھا ۔ آپ رسول اللہ صلی علیہ و آلہ وسلم کے صحابی  اور راوی حدیث بھی ہیں ۔ آپ کوفہ سے نکل کے امام علیہ السلام کی بارگاہ میں کربلا میں حاضر ہوئے ۔ آپ نہایت کبیر السن تھے ۔ یوم عاشور ظہر کی نماز سے کچھ پہلے شہید ہوئے۔

52- زیاد بن عریب الصائدی

آپ کی کنیت ابو عمرۃ تھی ۔ آپ بنی ہمدان کی شاخ بنی حائد کے چشم و چراغ تھے۔ امام علیہ السلام سے کربلا میں ملاقات کی اور درجہ شہادت حاصل کیا ۔ آپ کا قاتل عامر بن نہشل تھا۔

53-  عمر بن مطاع الجعفی

امام علیہ السلام سے کربلا میں ملاقات کی اور درجہ شہادت حاصل کیا ۔

54- حجاج بن مسروق المذحجی

آپ کا شمار انصار امیر المومنین علیہ السلام میں ہوتا تھا ۔ امام علیہ السلام کی مکہ سے روانگی کا سن کر آپ بھی کوفہ سے عازم سفر ہوئے اور منزل قصر بنی مقاتل میں شرف ملاقات حاصل کیا اور 15 دشمنوں کو واصل جہنم کرنے کے بعد واپس امام کی بارگاہ میں حاضر ہوئے واپسی پر آپ کا غلام " مبارک " بھی ہمراہ ہو گیا دونوں نے کمال کی جنگ کی اور 150 دشمنوں کو قتل کر کے شہید ہوئے

55-   زہیر بن قین بجلی

آپ کوفہ کے رہائشی تھے پہلے عثمانی بعد میں حسینی علوی ہو گئے ۔  حج سے  اپنے اہل خانہ کے ہمراہ واپسی پر امام علیہ السلام سے ملاقات ہوئی اور امام علیہ السلام کے ہمراہ ہو گئے ۔ امام کے لشکر میں شامل ہونے کے بعد اپنی زوجہ کو طلاق دے کر واپس بھیج دیا اور خود شهيد ہو گئے۔ روایت ہے کہ شب عاشور جب ایک رات کی مہلت لینے کے لیے علمدار کربلا گئے تھے تو آپ بھی ان کے ہمراہ گئے تھے ۔ مؤرخین کا اتفاق ہے کہ امام علیہ السلام کے لشکر کے میمنہ کی سربراہی بھی جناب کو ہی عطا کی گئی تھی۔ آپ نے 120 افراد کو قتل کر کے جام شہادت نوش کیا ۔

56- حبیب بن مظاہر الاسدی

آپ صحابی رسول صلی علیہ و آلہ وسلم تھے  اور امام علیہ السلام کے بچپن کے دوست تھے ۔ آپ کا ایک اعزاز یہ بھی ہے کہ آپ نے ۳ اماموں علیہم السلام  کی صحبت کا شرف حاصل کیا ۔  امام عليه السلام نے خط لكه كر كوفه سے بلوايا اور اس خط ميں آپ كو رجل فقيه كا لقب عطا كيا. كربلا ميں میسرہ کی کمان آپ کے سپرد کی ۔ یوم عاشور آپ نے 62 دشمن واصل نار کیے اور بدیل بن حریم عفقائی کی تلوار کی ضرب سے گھائل ہوئے اور حصین بن نمیر نے تلوار کا وار کیا جو آپ کے سر مبارک پر لگی اور شہید ہوگئے ۔ روایت ہے کہ آپ کا قاتل ابن زیاد سے 100 درہم کا انعام لينے كے ليے آپ کا سر مبارک گھوڑے کی گردن میں لٹکا کر كوفه پہنچا جہان حبیب کے ایک فرزند نے اس کو قتل کر کے آپ کا سر مبارک لے ليا ۔

57- ابو ثمامہ عمرو بن عبداللہ صائدى

ابوثمامہ صائدی شہدائے کربلا اور حضرت امام علی عليه السلام کے اصحاب میں سے ہیں۔ انہوں نے حضرت علی کے ساتھ تمام جنگوں میں شرکت کی ۔ وہ دلاوران عرب اور کوفہ کے مشہور شیعہ تابعین میں سے شمار ہوتے ہیں. مسلم بن عقیل کو کوفہ آنے پر ان سے مل گئے اور مسلم کی شہادت کے بعد کوفہ چھوڑ کر چلے گئے۔ مکہ سے کربلا آتے ہوئے حضرت امام حسین عليه السلام  کے کاروان میں شامل ہوئے. آپ نماز ظہر کے لیے عین ہنگامہ کارزار میں، جب امام علیہ السلام  امامت فرما رہے تھے ۔ آپ نے امام علیہ السلام کی حفاظت کرتے ہوئے  کمال دلیری سے شمشیر زنی کی اور اپنے چچا زاد بھائی قیس بن عبداللہ انصاری کے ہاتھوں شہید ہوئے ۔

58- انیس بن معقل الاصبحی

آپ آلِ محمد علیہ السلام کے جانثاروں میں سے تھے ۔ یوم عاشور ظہر کی نماز سے کچھ پہلے 10 دشمنوں کو قتل کرنے کے بعد شہید ہوئے ۔

59- جابر بن عروة الغفاری

کتاب’’شہدائے کربلا‘‘ میں بیان ہوا ہے کہ متأخرین کے نزدیک یہ صحابی رسول خد(ص) تھے جوکربلا میں شہید ہوئے جنگ بدر اوردیگر غزوات میں رسول اکرم(ص) کے ہمراہ شریک ہوئے یہ بوڑھے صحابی روز عاشورا رومال باندھ کراپنے آبروؤں کوآنکھوں سے ہٹاتے ہیں اورعازم میدان جنگ ہوتے ہیں جب امام علیہ السلام کی نظر پڑی توفرمایا: اے پیرمرد! خدا تجھے اجردے۔ غضب کا معرکہ لڑا اور 60 افراد کو قتل کر کے شہید ہوئے۔

60-  سالم مولی عامر العبدی

آپ بصرہ کے رہنے والے تھے اور مکہ میں امام علیہ السلام کے ساتھ شامل ہوئے ۔ اور کربلا میں شہید ہوئے ۔

میدانِ کربلا میں شہید ھونے والے امام حسین کے رُفقاء کا مختصر تعارف( قسمت5)

41- سعید بن عبداللہ الحنفی

آپ کوفے کی نامی گرامی اشخاص میں سے تھے ۔ اور میدان کربلا میں بوقت نماز ظہر جب دوران جماعت دشمنوں نے تیر اندازی شروع کی تو آپ امام علیہ السلام کے سامنے کھڑے ہو گئے اور ایک بھی تیر امام کی طرف آنے نہ دیا حتیٰ کہ زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے شہید ہو گئے ۔

42- عبد الرحمن بن عبد المزنی

آپ نہایت سعید اور مُحب آل محمد تھے۔ یوم عاشور اذنِ جنگ حاصل کر کے میدان میں آئے اور شجاعت سے لڑ کر شہید ہوئے ۔

43-  نافع بن ہلال الجملی

آپ امیر المومنین علیہ السلام کے اصحاب میں شامل تھے. جمل، نہروان ، اور صفین میں شر کت کی ۔ کربلا میں سعی آب کی کوششوں میں علمدارِ کربلا کے ساتھ شریک ہوئے ۔ 12 دشمنوں کو قتل کر کے شہید ہوئے۔

44- عمر بن قرظة الانصاری

آپ مدینہ سے آ کر کوفہ میں مقیم ہو گئے تھے اصحاب امیر المومنین میں شامل تھے ۔ میدان کربلا میں امام علیہ السلام کے پیغامات عمر بن سعد تک پہنچایا کرتے تھے ۔ آپ نے بہت شجاعت سے جنگ لڑی اور با لآ خر شہید ہو کر راہ حق میں امر ہوگئے ۔

45- جون بن حوی غلام الغفاری

آپ جناب ابوذر غفاری کے غلام تھے ۔ جون پہلے امام حسن علیہ السلام کی خدمت  کرتے تھے اور اس کے بعد امام علیہ السلام کے خدمت میں مصروف ہو گئے۔ آپ امام علیہ السلام کے ہمراہ مکہ سے مدینہ اور کربلا آئے، عاشورہ کے دن آپ پہلے فرد ہیں جن کو امام علیہ السلام نے کئی بار اِذنِ شہادت طلب کرنے کا باوجود منع فرمایا اور کہا " جون مجھے پسند نہیں کہ میں تم کو قتل ہوتا دیکھوں " پھر جون کا وہ جملہ جو تاریخ میں مرقوم ہے " "مولا  میرا پسینہ بدبودار، حسب خراب اور رنگ کالا ہی سہی لیکن عزم شہادت میں کوئی خامی نہیں ہے۔ مولا خدارا اجازت عطا کریں تا کہ سرخ رُو ہو سکوں۔"  اِذن ملنے کے بعد جب آپ شہید ہو گئے تو امام علیہ السلام نے دعا فرمائی کہ " پروردگار ان کے پسینے کو مشکبار، رنگ کو سفید اور حسب کو آل محمد کے انتساب سے ممتاز کر دے " روایت ہے کہ دعا ختم ہوتے ہی جون مثل گلاب اور پسینہ انتہائی معطر ہو گیا تھا۔

46- عمر بن خال الصیداوی

آپ کوفہ سے نکل کر مقام عذیب پر امام علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوئے اور یوم عاشورہ کو عروسِ شہادت سے ہم کنار ہوئے ۔

47- حنظلہ بن اسعد شبامی

آپ امام علیہ السلام کے پاس کربلا میں پہنچے تھے اور بہت جواں مردی کے ساتھ جنگ کر کے شہید ہوئے ۔

48-  سوید بن عمار الخثعمى

آپ بڑے شجاع اور آزمودہ کار زار تھے آپ کو میدان کربلا میں عروہ بن بکار اور یزید بن ورقا نے شہید کیا۔

49- یحیی بن سلیم مازنی

آپ شب عاشور بریر ہمدانی کے ساتھ پانی کے لیے کی جانے والی کوشش میں شریک تھے اور یوم عاشور کو امام علیہ السلام کے انصاروں کے ساتھ میدان کربلا میں شہید ہوئے ۔

50-  قرة بن ابی قرة الغفاری

آپ نہایت شریف اور جانباز تھے ۔ یوم عاشور امام علیہ السلام سے اجازت حاصل کرنے کے بعد دشمن پر اتنی شجاعت سے حملے کیے کہ ان کے دانت کھٹے کر ديے ۔ آپ رجز پڑھتے اور حملے کرتے،  یہاں تک کے شہید ہو گئے۔

میدانِ کربلا میں شہید ھونے والے امام حسین کے رُفقاء کا مختصر تعارف( قسمت4)

31-   بشر بن عمر الکندی 

آپ حضر موت کے رہنے والے تھے اور قبیلہ کندہ کے فرد تھے آپ بھی جنگ اولین میں شہید ہوئے ۔

32-   عبداللہ بن عروہ الغفاری

آپ کربلا میں امام علیہ السلام سے آ کر ملے اور جنگ مغلوبہ میں شہادت پائی ۔

33- بریر بن خضیر الہمدانی

آپ قبیلہ بنو ہمدان کی شاخ بنو مشرق کی عظیم شخصیت تھے ۔ انصار امیر المومنین علیہ السلام تھے اور مکہ سے امام علیہ السلام کے ہم رکاب ہوئے ۔ شب عاشور پانی کی جدوجہد میں جو کارنامہ سرانجام دیا وہ  تاریخ میں سونے کے حروف سے لکھنے کے قابل ہے.  یوم عاشور سب سے پہلا گریہ جو امام علیہ السلام نے فرمایا وہ آپ ہی کے جسد خاکی پر کیا تھا "إن بریر من عباد اللہ الصالحین "  ہاے بریر ہم سے جدا ہو گئے جو خدا کے بہترین بندوں میں سے ایک تھے.

34- وہب بن عبداللہ الکلبی

یہ حسینی بہادر نصرانی (عیسائی) تھا اور کسی سفر میں اپنی بیوی اور والدہ کے ہمراہ جا رہا تھا امام علیہ السلام کی نُصرت کے لیے رکا اور اسلام قبول کیا ۔ کتاب ذکر العباس میں تفصیل سے موجود ہے ۔ آپ نے 24 پیادے  قتل کیے اور آپ کی شہادت کے بعد آپ کی زوجہ آپ کی لاش پر گئیں اور اسی دوران شمر کے حکم پر اس کے غلام رُستم نے آپ کو بھی شہید کر دیا ۔ بعض مورخین نے آپ کی زوجہ کو پہلی خاتون شہید لکھا ہے ۔ روایت ہے کے آپ کا سر کاٹ کے خیام حسینی کی طرف پھینکا گیا تو آپ کی والدہ نے واپس میدان کی طرف پھینک دیا اور فرمایا " ہم راہ خدا میں جو چیز دے دیتے ہیں اسے واپس نہیں لیتے ۔"

روایت ہے کہ آپ کی والدہ نے بھی 2 دشمنوں کو واصل جہنم کیا تھا ۔ دمعہ ساکبہ ص 331 ، طوفان بکا ص13.

35- ادہم بن امیة العبدی

آپ بصرہ کے رہنے والے تھے اور کوفہ میں سکونت اختیار کی تھی ۔ ماریہ کے مکان پر ہونے والے تمام اجلاسوں میں شریک ہوئے ۔ ایک دن یزید بن ثبیط نے کہا کے میں امام علیہ السلام کی امداد کے لیے مکہ جا رہا ہوں ۔ آپ نے کہا کے میں بھی ساتھ چلوں گا ۔ آپ مکہ پہنچے اور یوم عاشور اپنی جان عزیز امام علیہ السلام پر قربان کر کے امر ہو گئے ۔

36- امیہ بن سعد الطائی

آپ کوفے میں رہتے تھے جب آپ کو علم ہوا کے امام حسین علیہ السلام کربلا پہنچ گئے ہیں تو آپ فی الفور کوفے سے نکل کر امام علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہو کر امام علیہ السلام کے لشکر میں شامل ہو گئےاور یوم عاشور کمال جذبہ قربانی کے پیش نظر امام علیہ السلام اور اسلام پر قربان ہو گئے ۔

 37- سعد بن حنظلہ التمیمی

آپ کے بیشتر حالات تاریخ میں موجود نہیں ہیں مگر ایک جملہ  موجود ہے کہ آپ نہایت جگری سے لڑے اور بہت سے دشمنوں کو فنا كر کے گھاٹ اتار کر میدان کارزار میں جام شہادت نوش کیا۔

38- عمیر ابن عبداللہ المذحجی

جناب سعد ابن حنظلہ کی شہادت کے بعد آپ میدان میں آئے اور کمال شجاعت سے لڑ کر بالاخر مُسلم صبانی اور عبداللہ بجلی نے آپ کو شہید کیا ۔

39-  مسلم بن عوسجہ الاسدی

آپ کو صحابی رسول ہونے کا شرف حاصل ہے ۔ 24 ہجری میں فتح آذربائیجان  میں حذیفہ یمان کے ہمراہ جو کارنامے سرانجام دئیے تھے وہ تاریخ میں موجود ہیں ۔

9 محرم کی شام کو امام علیہ السلام کا وہ خطبہ جس میں امام علیہ السلام نے جب انصار اور احباب سے واپس جانے کو کہا تھا تو رُفقاء کی جانب سے حضرت عباس علمدار علیہ السلام اور انصار کی جانب سے جناب مسلم بن عوسجہ نے کہا تھا: " کہ یہ ہو ہی نہیں سکتا ۔ اگر ہم ساری عمر مارے جائیں اور جلا بھی دئے جائیں تب بھی آپ کی معرفت اور ساتھ نہیں چھوڑیں گے ۔ آپ علیہ السلام کی خدمت میں شہادت ، شہادتِ عظیم ہے۔"

شب عاشور جب خندق کے گرد آگ جلانے پر لشکر کفار سے لڑائی ہوئی تھی تو آپ نے ہی اس کا منہ توڑ جواب دیا تھا۔

جب آپ مسلم بن عبداللہ اور عبداللہ بن خشکارہ بلخی کے ہاتھوں شہید ہوئے تو شبت ابن ربعی اگر چہ دشمن تھا بولا " افسوس تم ایسے شخص کے مرنے پر خوشی منا رہے ہو جس کے اسلام پر احسانات ہیں ۔ جس نے جنگ آذربائیجان میں مُشرکوں کی کمر توڑ دی تھی "

آپ کی شہادت کے بعد آپ کے فرزند میدان میں آئے اور 30 دشمنوں کو قتل کر کے شہید ہوئے ۔

40-   ہلال بن نافع البجلی

آپ کی پرورش امیر المومنین علیہ السلام نے کی تھی ۔ تیر اندازی میں ثانی نہیں رکھتے تھے ۔ اور عادت تھی که تیروں پر اپنا نام کندہ کر کے استعمال کرتے تھے ۔ شب عاشور امام علیہ السلام کے ہمراہ تھے اور موقعہ جنگ کا معائنہ کیا ۔ ترکش میں موجود 80 تیروں سے 75 دشمنوں کو قتل کیا اور اسکے بعد تلوار سے 13 کو واصل جہنم کیا ۔ اور پھر کفار کی طرف سے اجتماعی حملے میں شہید ہوئے ۔

میدانِ کربلا میں شہید ھونے والے امام حسین کے رُفقاء کا مختصر تعارف( قسمت3)

21-   زاہر بن عمر الکندی

آپ امیر المومنین علیہ السلام کے ایک صحابی عمرو بن الحمق کے ساتھ ہر وقت ہمراہ رہتے تھے آپ نہایت زبردست پہلوان مشہور تھے اور عرب کے لوگ آپ سے متاثرتھے آپ حج کے لیے مکہ پہنچے اور پھر امام علیہ السلام کے ہمراہ ہو گئے۔ آپ مکہ سے کربلا امام علیہ السلام کے ہمراہ آئے اور جنگ مغلوبہ میں شہید ہوئے ۔  آپ کے پوتوں میں محمد بن سنان  امام رضا علیہ السلام اور امام محمد تقی علیہ السلام کے راویوں میں شامل ہیں محمد ابن سنان کی وفات 220 ہجری میں ہوئی ۔

22- جبلہ بن علی الشیبانی

آپ جناب مسلم علیہ السلام کی شہادت کے بعد کوفے سے نکل کر امام علیہ السلام کے ساتھ شامل ہو گئے اور جنگ مغلوبہ میں شہید ہوئے ۔

23-   مسعود بن حجاج التیمی

آپ امیر المومنین علیہ السلام کے اصحاب میں سے ایک تھے۔ آپ ابن سعد کے لشکر کے ہمراہ کربلا پہنچے اور پھرامام علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہو کر جبگ مغلوبہ میں شہید ہو کر حیات ابدی کے مالک بن گئے ۔ علماء نے لکھا ہے کہ آپ کے ہمراہ آپ کے فرزند عبد الرحمن ابن مسعود بھی شہید ہوئے تھے ۔

24-  حجاح بن بدر التیمیمی السعدی

آپ بصرہ کے رہنے والے تھے اور آپ کا تعلق بنی سعد سے تھا ۔ آپ رئیس بصرہ مسعود بن عمر کا خط لے کر امام علیہ السلام کی بارگاہ میں حاضر ہوئے اور پھر واپس نہیں گئے ۔ اور یوم عاشور جنگ مغلوبہ میں امام علیہ السلام پر قربان ہو گئے ۔

25- عبداللہ بن بشر الخثعمی

آپ ابنِ سعد کے لشکر  کے ہمراہ کوفہ سے کربلا آئے تھے اور صبحِ عاشور امام علیہ السلام کی بارگاہ میں حاضر ہو کر جنگ مغلوبہ میں شہید ہو کر عظیم شہداء میں شامل ہوگئے ۔

26- عمار بن حسان الطائی

آپ امام عالی مقام علیہ السلام کے ساتھ مکہ سے کربلا آئے اور صبح عاشور جنگ مغلوبہ میں  شہید ہوئے

27- عبداللہ بن عمیر الکلبى

آپ قبیلہ علیم کے چراغ تھے آپ پہلوانی میں بہت ماہر تھے اور کوفہ کے محلہ ہمدان  کے قریب چاہ جعد میں رہتے تھے ۔ کوفہ سے اپنی زوجہ کے ہمراہ نکل کر امام کی لشکر میں شامل ہوئے اور جنگ مغلوبہ میں شہید ہوئے ۔ آپ کی زوجہ اُم وہب جب آپ کی لاش پر پہنچی تو شِمر کے ایک غلام رُستم نے اس مومنہ کے سر پر گرز کا وار کر کے ان کو بھی شہید کر دیا ۔ آپ کی زوجہ کو کربلا کی پہلی خاتون شہید کہا جاتا ہے ۔

28- مسلم بن کشیر الازدی:

آپ امام علیہ السلام کے کربلا پہنچنے سے قبل کسی مقام پر امام علیہ السلام کے ہمراہ شامل ہو گئے تھے  اور صبح عاشور شہید ہوئے ۔ کچھ مورخین نے لکھا ہے کہ آپ کے  ہمراہ آپ کے ایک غلام رافع بن عبد اللہ  بھی شامل تھے جو کربلا میں نماز ظہر کے بعد  شہید ہوئے ۔

29- زہیر بن سیلم الازدی

آپ قبیلہ ازد کے نمایاں فرد تھے اور شب عاشور امام علیہ السلام کی بارگاہ میں پہنچ کو شامل لشکر ہوئے اور صبح عاشور جنگ مغلوبہ میں شہید ہوئے ۔

30- عبداللہ بن یزید العبدی

آپ اپنی قوم کے سردار اور کوفے میں ماریہ کےگھر جو اجلاس ہوتا تھا اس میں شرکت کرتے تھے آپ مکہ میں امام علیہ السلام کے ساتھ شامل ہوئے اور کربلا میں اولین جنگ میں شہادت کا رتبہ حاصل کیا ۔ کچھ مؤرخین کا خیال ہے کہ آپ کے بھائی عبید اللہ اور والد گرامی یزید ابن ثبیط بھی مکہ سے ہم رکاب ہوئے اور عبید اللہ نے نماز سے پہلے اور والد نے نماز کے بعد ھونے والی جنگ میں شہادت پائی ۔

میدانِ کربلا میں شہید ھونے والے امام حسین کے رُفقاء کا مختصر تعارف( قسمت2)

11- غامر بن مسلم العبدی.

آپ امیرالمومنین علیہ السلام کے چاہنے والے اور بصرہ کے رہنے والے تھے ۔ آپ کا پورا نام غامر بن مسلم عبدی المطری تھا ۔  آپ مکہ معظمہ میں ہی امام علیہ السلام کے ساتھ ہو گئے تھے  اور تا دم آخر ساتھ ہی رہے ۔ آپ کے ہمراہ آپ کا غلام سالم بھی تھا ۔ زیارت ناحیہ کی بناء پر آپ کا غلام بھی آپ کے ہمراہ ہی شہید ہوا۔

 

12-  سیف بن مالک العبدی

آپ امیر المومنین علیہ السلام کے خاص اصحاب میں سے تھے ۔امام علیہ السلام کی نصرت کے لیے  ماریہ کے مکان پر جو خفیہ اجتماع ہوا کرتا تھا آپ اس میں شامل ہوا کرتے تھے۔ آپ نے مکہ میں امام علیہ السلام کی معیت اختیار کی اور جنگ مغلوبہ میں یوم عاشور کو  شہید ہوئے ۔

 

13-  عبد الرحمان الارجبی

آپ قبیلہ بنو ہمدان کى شاخ بنو ارجب کے چشم و چراغ تھے۔ آپ کا پورا نام عبد الرحمن بن عبداللہ الکذن بن ارجب بن دعام بن مالک بن معاویہ بن صعب بن رومان بن بکیر الھمدانی الارجبی تھا۔ آپ اس دوسرے وفد کے ایک  رکن تھے جو کوفے سے خطوط لے کے مکہ گئے تھے۔  جبکہ آپ کے ہمراہ قیس  اور 50 خطوط تھے ۔ یہ وفد12 رمضان کو امام علیہ السلام کی بارگاہ میں پہنچا تھا ۔ کچھ مورخین کا کہنا ہے کے جناب مسلم علیہ السلام کے ہمراہ یہی عبد الرحمن ، قیس اور عمارہ شامل تھے ۔ عبد الرحمن جناب مسلم کو کوفے پہنچا کر واپس امام علیہ السلام کی خدمت میں مستقل شامل ہو گئے تھے اور عاشور کو امام علیہ السلام کے ساتھیوں کے ہمراہ شہید ہوئے ۔

 

14-   مجمع بن عبداللہ العامذی

آپ قبیلہ مذحج کے نمایاں فرد تھے ۔ آپ کو امیر المومنین علیہ السلام کے صحابی ہونے کا شرف بھی حاصل ہے ۔  یہ وہی ہیں جنہوں نے امام علیہ السلام مقام عذیب میں کوفے کے تمام حالات سے آگاہ کیا تھا اور کوفہ جانے والے امام کے آخری قاصد قیس بن مسہر کی گرفتاری اور انکی شہادت  سے امام علیہ السلام کو آگاہ کیا تھا۔ آپ بھی جنگ مغلوبہ میں شہید ہوئے ۔ کچھ روایات نے آپ کے ہمراہ آپ کے فرزند عائذ بن مجمع کی شہادت بھی کربلا میں لکھی ہے ۔

 

15-  حیان بن حارث السلمانی

آپ قبیلہ ازو کے چشم و چراغ تھے ۔ مدینے سے کربلا جاتے ہوئے امام علیہ السلام کے ہمراہ ہوئے اور صبح عاشور جنگ مغلوبہ میں امام علیہ السلام کی نصرت کرتے ہوئے شہید ہوئے ۔

 

16- عمرو بن عبداللہ الجندعی

جندع قبائل ہمدان کی ایک شاخ کا نام تھا ، آپ کربلا میں شاملِ لشکر ہوئے  اور جنگ مغلوبہ میں شہید ہوئے ۔ علامہ مجلسی ، فاضل اربلی اور سپہر کاشانی نے اپنی کتابوں میں جنگ مغلوبہ کےبجائے میدان کارزار میں شہادت بیان کی ہے ۔ زیارت ناحیہ میں ورد آگین الفاظ کے ساتھ آپ پر  سلام کیا گیا ہے ۔

 

17- حلاس بن عمر الراسبی

آپ کوفہ کے رہائشی اور قبیلہ ازو کی شاخ راسب کی یادگار تھے  اصحاب امیر المومنین علیہ السلام میں شمار ہوتے تھے ۔ کوفہ سے عمر سعد کے لشکر  کے ہمراہ آئے تھے اور جب آپ کو یقین ہو گیا کے صلح نہ ہو سکے گی تو شب عاشور امام علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوئے اور جنگ مغلوبہ میں شہید ہوئے ۔

 

18- نعمان بن عمر الراسبی

آپ بھی قبیلہ ازو کے چشم و چراغ تھے آپ حلاس ازدی کے سگے بھائی تھے ۔ لشکر ابن سعد  سے بغاوت کر کے شب عاشور امام علیہ السلام کی بارگاہ میں حاضر ہوئے اور جنگ مغلوبہ میں شہید ہو کر حیات ابدی کے مالک بن گئے ۔

 

19- سوار ابن ابی عمیر الہمدانی

آپ ھمدان کے رہنے والے تھے اور  محرم کے مہینے میں امام علیہ السلام کے پاس پہنچے تھے ۔  اور جنگ مغلوبہ میں شہید ہوئے ۔

 

20- عمار ابن سلامة الدالانی

آپ قبائل ہمدان کی ایک شاخ بنی دالان کے ایک معزز فرد تھے اورآپ کو  صحابی رسول صلی علیہ و آل وسلم  اور صحابی امیر المومنین علیہ السلام ہونے کا شرف حاصل ہے ۔ جنگ جمل ، صفین و نہروان میں حضرت امیر المومنین کے ساتھ رہے ۔ آپ بھی جنگ مغلوبہ میں شہید ہوئے ۔

میدانِ  کربلا میں شہید ھونے والے امام حسین  کے رُفقاء کا مختصر تعارف( قسمت1)

میدانِ  کربلا میں شہید ھونے والے امام حسین عليه السلام کے رُفقاء کا مختصر تعارف

 

1-   حُر بن یزید الریاحی

آپ کا نام گرامی حُر بن یزید بن ناجیہ بن قعنب بن عتاب بن حرمی بن ایاح بن یربوع بن خنظلہ بن مالک بن زید مناۃ ابن تمیم الیرنوعی الریاحی تھا۔ آپ کا شمار کوفے کے روساء میں ہوتا تھا ۔ واقعہ کربلا میں آپ کی امام علیہ السلام سے پہلی ملاقات مقام شراف پر ہوئی تھی جب حُر کا لشکر پانی کی تلاش میں بے حال اور پریشان تھا ۔ امام عالی مقام ساقی کوثر نے لشکر کو سیراب کرنے کا حکم دیا اور اس کے بعد حُر نے نماز امام کی اقتداء میں پڑھی اور بعد از نماز  راستہ روکنے اور محاصرہ کرنےکا عندیہ دیا ۔

امام نے فرمایا کہ حق پر جان دینا ہماری عبادت ہے ۔  راستے میں مقام عذیب  پر طرماح ابن عدی اپنے 4 ساتھیوں سمیت امام سے آ ملے ۔  قصر بنی مقاتل پر مالک بن نصر حکم نامہ حاکم لے کے آیا ، جس میں مرقوم تھا کہ جہاں یہ حکم ملے امام علیہ السلام کو وہیں ٹھہرا دینا  اور اس امر کا خاص خیال رکھا جائے کے آس پاس پانی اور کوئی بھی جزوی انتظام نہ ہو ۔ قصہ مختصر شب عاشور حُر ساری رات پریشان اور متفکر رہے کہ جنت اور دوزخ میں سے کس کا انتخاب کریں ۔ صبحِ عاشور امام کی بارگاہ میں حاظر ہوئے اور اِذن معافی اور اِذن جہاد طلب کیا ، جو مل گیا ۔

امام کے اس غلام نے پچاس دشمنوں کو واصلِ جہنم کیا۔  بالآخر  ایوب ابن مشرح کے تیر سے گھائل ہو کر گھوڑے سے نیچے گرے اور قسور ابن کنانہ کے تیر سے جو آپ کے سینے پر لگا شہید ہو گئے۔

ریاض الشہادة میں روایت ہے کہ بنی اسد نے امام حسین علیہ السلام  سے ایک فرسخ کے فاصلے پر غربی جانب آپ علیہ السلام   کو دفن کیا  اور وہیں آپ علیہ السلام   کا روضہ بنا ہوا ہے ۔

 

2-  علی بن حُر الریاحی

آپ حُر بن یزید الریاحی کے بیٹے تھے ۔ نام علی تھا  حُر علیہ السلام  کی شہادت کے بعد  حُر شہید کے قدموں سے اپنی آنکھوں کو ملایا اور امام علیہ السلام  کی قدم بوسی  کر کے اذن شہادت طلب کیا  اور امام کی غلامی میں شہید ہوئے ۔

 

3-  نعیم بن العجلان الانصاری

آپ قبیلہ خزرج کے چشم و چراخ تھے اور آپ کے 2 بھائی  نضر اور نعمان اصحاب امیر المومنین علیہ السلام میں سے تھے اور آپ واقعہ کربلا میں عاشور کے اولین شُہداء میں شامل ہوئے ۔ یہ وہ جنگ تھی جو صبح عاشور بوقت نماز فجر ہوئی تھی ۔ تاریخ میں جنگ مغلوبہ کے نام سے مشہور ہے ۔

 

4-  عمران بن کعب الاشجعی

آپ کا پورا نام عمران بن کعب ابن حارث الاشجعی تھا ۔ آپ نے امام عالی مقام علیہ السلام کا جس وقت سے ساتھ دیا آخر دم تک اسی پر قائم رہے آپ بھی جنگ مغلوبہ میں شہید ہوئے ۔

 

5-  حنظلہ بن عمر الشیبانی

آپ بھی امام علیہ السلام کے وفاداروں میں تھے اور  جنگ مغلوبہ میں شہید ہوئے ۔

 

6- قاسط بن زہیر التغلبی

جناب امیر المومنین علیہ السلام کے اصحاب میں سے تھے جمل، نہروان، صفین میں جانبازی سے شریک ہوئے تھے اور بہت جری تھے ۔ آپ کوفہ سے امام علیہ السلام  کی نصرت کے لیے آئے تھے  اور صبحِ عاشور جنگ مغلوبہ میں شہید ہوئے ۔

 

7- کردوس بن زہیر التغلبی

آپ کا نام کردوس بن زہیر حرث تغلبی تھا آپ قاسط بن زہیر کے حقیقی بھائی تھے اور امیر المومنین علیہ السلام کے اصحاب میں سے تھے ۔ روایت ہے کہ آپ بھی اپنے تیسرے بھائی مسقط بن زہیر کے ہمراہ امام علیہ السلام   کی نصرت کے لیے شب عاشور کربلا میں وارد ہوئے تھے اور جنگ مغلوبہ میں شہید ہوئے ۔

 

8-  کنانہ بن عتیق التغلبی

آپ کوفہ کے مشہور پہلوانوں میں شمار ہوتے تھے ۔ قراْت قران میں بھی شہرت رکھتے تھے ۔ کربلا  میں جنگ مغلوبہ میں شہید ہوئے ۔

 

9- عمر بن صبیقی الضبعی

آپ کا پورا نام عمر بن صبیقہ بن قیس بن ثعلبة الضبعی تھا۔  ابن سعد کے لشکر کے ہمراہ امام علیہ السلام  سے مقابلے کے لیے کربلا آئے تھے ۔ لیکن صحیح حالات سے با خبر ہونے کے بعد لشکر کو خیر باد کہہ کر امام علیہ السلام کی بارگاہ میں معافی طلب کر کے جنگ مغلوبہ میں امام حسین علیہ السلام کی طرف سے لڑتے ھوئے شہید ہوئے ۔

 

10- ضرغامہ بن مالک التغلبی

آپ کا نام اسحاق اور لقب ضرغامہ تھا ۔ آپ امیرالمومنین علیہ السلام کے جانباز صحابی مالک اشتر کے بیٹے اور ابراہیم بن مالک کے بھائی تھے ۔ کوفہ میں جناب مسلم بن عقیل علیہ السلام  کے ہاتھ پر امام علیہ السلام کی بیعت کر کے کربلا پہنچ کر یوم عاشور 500 درندوں کو واصل جہنم کر کے شہید ہوئے ۔

میدانِ  کربلا میں شہید ھونے والے امام حسین عليه السلام کے رُفقاء کی مکمل فہرست

انصار امام حسين عليه السلام

 

1. حضرت حر ابن یزید الریاحی

2. علی ابن حر الریاحی

3۔ نعیم بن العجلا الانصاری

4۔عمران بن کعب الاشجعی

5۔ حنظلہ ابن عمر الشیبانی

6۔ قاسط بن زہیر التغلبی

7۔ کردوس بن زہیر التغلبی

8۔ کنانہ بن عتیق التغلبی

9۔ عمر بن صبیقی الضبعی

10. ضرغامہ ابن مالک التغلبی

11. غامر بن مسلم العبدی

12. سیف ابن مالک العبدی

13۔ عبد الرحمان الارجبی

14.مجمع بن عبداللہ العامذی

15.حیان بن حارث السلمانی

16۔ عمرو بن عبداللہ الجندعی

17۔ حلاس بن عمر الراسبی

18 ۔ نعمان بن عمرالراسبی

19۔ سوار ابن ابی عمیر الہمدانی

20۔ عمار ابن سلامتہ الدالانی

21۔ زاہر بن عمر الکندی

22۔ جبلہ ابن علی الشیبانی

23. مسعود بن حجاج التیمی

24. حجاح ابن بدر التیمیمی السعدی

25. عبداللہ ابن بشر الخثعمی

26۔ عمار ابن حسان الطائی

27۔عبداللہ ابن عمیر الکلبی

28۔ مسلم ابن کشیر الازدی

29۔ زہیر ابن سیلم الازدی

30. عبد اللہ بن یزید العبدی

31۔ بشر بن عمر الکندی

32 عبداللہ بن عروہ الغفاری

33. بریر ابن خضیر الہمدانی

34. وہب ابن عبداللہ الکلبی

35. ادہم بن امیتہ العبدی

36. امیہ بن سعد الطائی

37.سعد ابن حنظلہ التمیمی

38.عمیر ابن عبداللہ المد حجی

39. مسلم بن عوسجہ الاسدی

40. ہلال ابن نافع البجلی

41. سعید بن عبداللہ الحنفی

42.عبد الرحمن بن عبد المزنی

43. نافع بن ہلال الجملی

44. عمر ابن قرظتہ الانصاری

45. جون بن حوی غلام الغفاری

46. عمر ابن خالد الصیدادی

47. حنظلہ ابن اسعد الشبامی

48.سوید ابن عمار الاتماری

49۔یحیی بن سلیم المازنی

50. قرہ ابن ابی قرتہ الغفاری

51. مالک ان انس المالکی

52.  ذیاد ابن غریب الصائدی

53. عمر بن مطاع الجعفی۔

54. حجاج ابن مسروق المدحجی

55. زہیر ابن قین ابجلی

56. حبیب ابن مظاہر الاسدی

57. ابو ثمامہ عمرو بن عبداللہ الصیدادی

58. انیس بن معقل الاصبحی

59. جابر ان عروۃ الغفاری

60. سالم مولی عامر العبدی

61. جنادہ ابن کعب الخزرجی

62.عمر بن جنادۃ الانصاری

63. جنادہ بن الحرث السلمانی

64. عابس ابن شبیب الشاکری

65. شوذب ابن عبداللہ الہمدانی

66. عبد الرحمان بن عروۃ الغفاری

67.حرث ابن امرو القیس الکندی

68. یزید ابن زیاد الہدلی

69. ابو عمرو النہثلی

70. جندب بن حجیر الخولانی الکندی

71. سلمان بن مضارب الانماری

72.  مالک ابن عبداللہ الجابری

 

شہدائے  بنی ہاشم علیہم السلام   تعداد  18

 

1۔  عبداللہ ابن مسلم

2. محمد ابن مسلم

3.  جعفر ابن عقیل

4.  عبد الرحمان بن عقیل

5.  عبداللہ ابن عقیل

6.  موسی ابن عقیل

7. عون بن عبداللہ بن جعفر طیار

8. محمد ابن عبداللہ بن جعفر طیار

9. عبداللہ الاکبر عرف عمرو بن الحسن ابن علی ابن ابی طالب

10. قاسم بن حسن ابن علی ابن ابی طالب

11. عبداللہ ابن حسن ابن علی ابن ابی طال

12.  عبداللہ بن علی ابن ابی طالب

13. عثمان بن علی ابن ابی طالب

14. جعفر بن علی ابن ابی طالب

15. علمدار کربلا عباس بن علی ابن ابی طالب

16. علی اکبر بن الحسین الشہید ابن علی ابن ابی طالب

17. محمد بن ابی سعید بن عقیل

18. علی اصغر ابن الحسین الشہید ابن علی ابن ابی طالب.

معصومہ قم صلوات و سلام اللہ علیھا🌹

معصومہ قم صلوات و سلام اللہ علیھا🌹

 

 السلام عليكم یاعلی مدد

💐🌷🌹💐🌷🌹💐🌷🌹🌷🌹

 اول ذوالقعدہ یوم ولادت باسعادت حضرت سیدہ معصومہ  سلام اللہ علیہا،  مومنین و مومنات کو مبارک ہو.....

 

🌷مختصر سوانح حیات:

حضرت فاطمہ معصومہ علیھا السلام کہ جو برّصغیر میں معصومہ قم کے نام سے مشہور ہیں، امام ہفتم حضرت موسٰی بن جعفر الکاظم علیہ السلام کی بیٹی ہیں۔

 

آپ کی آمد یکم ذوالقعدہ سن ۱۷۳ھ ق کو مدینہ منورہ میں ہوئی۔ کمسنی کے عالم میں باپ کا سایہ سر سے اٹھ گیا اور اس وقت سے جناب معصومہ علیھا السلام کے بھائی امام رضا علیہ السلام نے آپ کی پرورش کی، یہی وجہ تھی کہ آپ اپنے بھائی امام رضا علیہ السلام سے بے انتہا محبت کرتی تھیں۔

 

امام رضا علیہ السلام کی مدینہ سے خراسان ہجرت کے بعد آپ نے بھی فیصلہ کیا کہ مدینہ سے ہجرت کر کے اپنے بھائی کے پاس خراسان جائیں گی، اس سفر کے دوران آپؑ نے بہت مصیبتیں اٹھائیں لیکن اپنے بھائی سے نہ مل سکیں اور خراسان پہنچنے سے پہلے ہی زہر دیئے جانے کی بنا پر شہرِقم میں ۲۸ سال کی عمر میں سن ۲۰۱ ھ میں آپ کی شھادت ہو گئی۔

 

قم المقدسہ میں آج بھی آپ کا روضہ بڑی شان و شوکت کے ساتھ موالیان اہلبیت علیھم السلام کی زیارتگاہ بنا ہوا ہے۔

 

🌷آپؑکی حضرت زہرا سلام الله علیھا سے شباہتیں:

۱) نام اور لقب: حضرت معصومہ علیھا السلام کا نام بھی فاطمہ ہے اور جناب سیدہ سلام اللہ علیھا کا نام بھی فاطمہ ہے۔

جناب سیدہ کونینؑ بھی معصوم اور حضرت معصومہ علیھا السلام کو بھی لقب ’معصومہ‘ سے نوازا گیا ہے۔

 

امام رضا علیہ السلام فرماتے ہیں:

"مَنْ زَارَ الْمَعصُومَةَ بِقُمْ كَمَنْ زَارَنى"

 جس نے قم میں معصومہ کی زیارت کی گویا اسنے میری زیارت کی۔

 

اگرچہ عصمت کے مراتب ہیں اور فقط چہاردہ معصومیںؑ عصمت کے اعلی تریں مراتب پر فائز ہیں لیکن امام معصومؑ کی اس حدیث سے علماء یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ جناب فاطمہ معصومہ علیھا السلام معصومہ ہیں۔

 

۲- شفیع روز محشر:

جیسا کہ حدیث میں ہے کہ جناب زہرا سلام الله علیھا کا مہر، امت رسول کے گناہگاروں کی شفاعت ہے۔ لھذا جس طرح سے بنت الرسول جناب فاطمہ سلام الله علیھابہت وسیع شفاعت کا اختیار رکھتیں ہیں اسی طرح جناب فاطمہ معصومہ علیھا السلام بھی وسیع شفاعت کی مالکہ ہیں۔

 

امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں:

"اَلا اِنّ لِلْجَنَّةِ ثَمانِیَةَ اَبْوابٍ ثَلاثَةٌ مِنْها اِلی قُمْ، تُقْبَضُ فیها اِمْرَأةٌ مِنْ وُلْدی اسمُها فاطِمَة بنتَ مُوْسی، و تُدْخَلُ بشفاعَتِها شیعَتی الْجَنَّةَ بِاَجْمَعِهِمْ"

 

جان لو کہ جنت کے آٹھ دروازے ہیں جن میں سے تیں قم کی طرف ہیں، قم میں ہماری نسل میں سے ایک خاتوں دفن کی جائیں گی جنکا نام فاطمہ بنت موسیٰ ہوگا، انکی شفاعت سے ہمارے تمام شیعہ جنت میں داخل کئے جائیں گے۔

 

۳-  فداھا ابوھا:

معصوم کبھی بھی مبالغہ یا احساسات کے بہاؤ میں کوئی بات نہیں کرتا۔ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جس طرح جناب زہرا سلام اللہ علیھا کے لئے فرمایا:

"فَداها اَبُوها"

اسکا باپ اس پر فدا ہو جائے یعنی میں (رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ پر قربان جاؤں۔

 

اسی طرح امام موسیٰ الکاظم علیہ السلام نے جناب معصومہ سلام اللہ علیھا کے لئے بھی فرمایا:

 

"فَداها اَبُوها"

 

۴-  جناب معصومہ علیھا السلام کا روضہ

 

" حضرت زہرا سلام اللہ علیھاکی قبر کی تجلی گاہ "

 

مصلحت خداوندی یہ ہے کہ حضرت زہرا سلام الله علیھاکی قبر مخفی رہے لیکن مؤمنین کو انکی قبر کی زیارت سے محروم نہیں رکھا، اس لیے بعض قرائن کی بنا پر کہا جا سکتا ہے کہ جناب معصومہ علیھا السلام کا روضہ حضرت زہرا سلام اللہ علیھاکے قبر کی تجلی گاہ ہے۔ مثلا جناب معصومہ علیھا السلام کی زیارت کے آداب میں تسبیح حضرت زہرا سلام الله علیھاکا پڑھنا یا وہ مشہور واقعہ کہ جس میں آیت اللہ سید محمود مرعشی (رہ) سے خواب میں امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں "عَلَیْكَ بِكَرِیمَةِ اَهْلِ الْبَیْتِ

" یعنی اگر تم جناب سیدہ سلام الله علیھاکی قبر ڈھونڈنا چاہتے ہو تو جاکر  کریمہ اھل البیت جناب فاطمہ معصومہ علیھا السلام کی قم میں زیارت کرو۔

Birthday of Syeda zainab AS

اربعين حسيني قائد انقلاب كي زباني

اربعين حسيني قائد انقلاب كي زباني

 

 چهلم كے بعد عاشورا اور امام حسين [ع]كا ذكر اور ان كا مقصد هميشه كے لئے زنده هوگيا اور اس كام كي بنيادچهلم كے دن جناب زينب سلام الله عليها اور امام سجاد عليه السلام كے هاتهوں امام حسين عليه السلام كي قبر كے پاس پڑي،اگر امام حسين كے بعد امام سجاد اور دوسرے اسيروں نے كربلا كا واقعه اور عاشورا كي اصليت بيان نه كي هوتي تو آج كربلا زنده نه هوتي، جتنا بڑا جهاد كربلا ميں شهيد هونے والوں نے كيا هے اس سے بڑا جهاد ان كے بعد ان كے مشن كو صحيح طريقے بيان كرنے والوں اور اسے بچانے والوں نے كيا هے۔ چهلم هميں يه سكهاتا هے كه دشمنوں كے غلط پروپيگنڈوں كے طوفان كے بيچ ره كر كربلا كي حقيقت كو كيسے زنده ركهنا هے۔

 

http://navideshahed.com/ur/news/367580/%D8%A7%D8%B1%D8%A8%D8%B9%D9%8A%D9%86-%D8%AD%D8%B3%D9%8A%D9%86%D9%8A-%D9%82%D8%A7%D8%A6%D8%AF-%D8%A7%D9%86%D9%82%D9%84%D8%A7%D8%A8-%D9%83%D9%8A-%D8%B2%D8%A8%D8%A7%D9%86%D9%8A

 

خبر کا کوڈ:367580