كيا مزارات كو تعمير كرنا  جائز هے؟

كيا مزارات كو تعمير كرنا جائز هے؟

تحرير: سيد غيور الحسنين

قبور پرعمارت بنانا ایک اصطلاح ہے جس میں قبر پر کی جانے والی ہر طرح کی تعمیر شامل ہے ۔ اہل سنت اور شیعوں کے درمیان حکم شرعی کے لحاظ سے قبور پر عمارت بنانے کا اختلاف ایک طرف اور وہابیوں سے ان کا اختلاف ایک اور جہت سے ہے۔ مذاہب اسلامی خاص طور پر شیعہ حضرات طول تاریخ میں بزرگوں، پیشوا اور علما کی قبور پر عمارتیں بناتے چلیں آ رہے ہیں۔ تاریخی لحاظ سے اس امر کی بازگشت صدر اسلام کی طرف ہے نیز تاریخی شواہد کے مطابق صحابہ اور تابعین کی جانب سے کبھی ان تعمیرات کو تنقید کا سامنا نہیں رہا اگرچہ وہابیت کے نزدیک اس کے مفہوم میں وسعت پائی جاتی ہے۔ وہابی معتقد ہیں کہ مردوں کی قبور پر عمارت کی تعمیر ایک طرح سے ان قبور کی عبادت کے مقدمات فراہم کرتی ہے اور عبادت میں شرک کی مانند ہے، جبكه عبادت کسی کو اوصاف الہی سے متصف کرتے ہوئے اس کے سامنے اظہارِ خضوع کرنا ہے۔ اس اشكال كا جواب هم " كيا توسل و شفاعت حرام ہے اور غیر خدا كى هر قسم کی تعظیم شرک ہے؟" کے عنوان سے بيان كر چکے هيں۔ اور يهاں پر مزارات كي تعمير پر دليل بيان كرنا مقصود هے۔

پهلی دلیل: قرآن مجید اصحاب کہف کے واقعہ میں فرماتا ہے کہ جب وہ تقریباً تین سو برس کی طویل نیند سے بیدار ہوئے اور ان کے بارے میں شہر کے لوگوں کو پتہ چلا تو شہر سے لوگ غار کی طرف دوڑے اور جیسے ہی وہاں پہنچے، تو انہوں نے اصحاب کہف کو پھر مردہ پایا۔ قرآن مجید اس کی منظر کشی کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ جب لوگوں نے یہ ماجرا دیکھا تو وہ دو گروہوں میں تقسیم ہو گئے :﴿فَقَالُوا ابْنُوا عَلَيْهِم بُنْيَانًا ۖ رَّبُّهُمْ أَعْلَمُ بِهِمْ ۚ قَالَ الَّذِينَ غَلَبُوا عَلَىٰ أَمْرِهِمْ لَنَتَّخِذَنَّ عَلَيْهِم مَّسْجِدًا[الكهف: 21]

"تو کچھ نے کہا کہ ان (کے غار) پر ایک (یادگاری) عمارت بنا دو۔ ان کا رب ہی ان کا حال بہتر جانتا ہے۔ (آخرکار) جنهوں نے ان كے بارے ميں غلبه حاصل كيا وہ كهنے لگے: ہم ان کے غار پر ضرور ایک مسجد ( یعنی عبادت گاہ) بناتے هيں۔"

جیسا کہ اس آیت سے سمجھ میں آتا ہے کہ ان دونوں گروہوں میں سے کوئی بھی قبروں کو تعمیر کرنے کا مخالف نہیں تھا۔ بس فرق یہ تھا کہ مؤمنین وہاں ایک مسجد بنانا چاہتے تھے جبکہ دوسرے لوگ ان کی نشانی اور یادگار کے طور پر وہاں ایک عالی شان عمارت تعمیر کرنا چاہتے تھے۔

یہ امر بھی ذہن نشین رہے کہ قرآن مجید نے اس ماجرے کو مدح و تعریف کی زبان میں نقل کیا ہے اور اس پر کسی قسم کی تنقید بھی نہیں کی ہے۔ لہذا اس نکتہ سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ یہ کام شرعی ممانعت نہیں رکھتا۔ اور خاص طور پر جبکہ اس آیت میں موجود ’’ لَنَتَّخِذَنَّ عَلَيْهِم مَّسْجِدًا ‘‘ کی تعبیر سے پتہ چلتا ہے کہ انہوں نے اس درخواست کو ایک حکم شرعی کے طور پر لیا تھا۔ بہر کیف! اس تعبیر سے یہ واضح ہو جاتا ہے - وہابیوں کے تصور کے برخلاف - کہ قبروں پر بارگاہ اور گنبد وغیرہ تعمیر کرنا ایک شرعی اور دینی عمل ہے۔

اسی طرح اس واقعہ سے یہ بھی استفادہ ہوتا ہے کہ غیر معمولی لوگوں کی قبروں پر روضے تعمیر کرنا ، سابقہ اقوام اور امتوں کے آداب و سنتوں میں سے بھی رہا ہے ۔ اور وہ لوگ اس کام کو اپنے بزرگوں اور عظیم ہستیوں کے احترام و تجلیل میں انجام دیا کرتے تھے۔

دوسری دلیل: بزرگوں کی قبور پر مزارات تعمیر کرنا ’’ ترفیع بیوت ‘‘ کا ایک مصداق ہے ۔ وہ گھر جن کے لیے اللہ تعالیٰ کی مرضی یہ ہے کہ ان کی رفعت و منزلت بلند و بالا رہے ۔ اور اس کی وضاحت یہ ہے کہ قرآن مجید سورہ نور میں اللہ تعالیٰ کو منور چراغ سے تشبیہ دیتا ہے جو آسمان میں چمکتے ہوئے ستاروں کی طرح روشن ہے پھر اس آیت کے بعد والی آیت میں ان چراغوں کے رکھے جانے کی جگہ ان گھروں کو بتلاتا ہے جن کے لیے خدا کی منشأ یہ ہے کہ ان کا احترام کیا جاتا رہے اور وہ ارفع و اعلیٰ رہیں۔ چنانچہ قرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہے:﴿ فِي بُيُوتٍ أَذِنَ اللَّـهُ أَن تُرْفَعَ وَيُذْكَرَ فِيهَا اسْمُهُ يُسَبِّحُ لَهُ فِيهَا بِالْغُدُوِّ وَالْآصَالِ[النور: 36]

"(هدايت پانے والے) ایسے گھروں میں ہیں جن کى تعظيم كا اللہ نے اذن دیا ہے اور ان میں اس کا نام لینے كا بهى، وه ان گھروں میں صبح و شام الله کی تسبیح کرتے ہیں۔"

واضح سی بات ہے کہ اس آیت میں ’’ بیوت ‘‘ سے مراد مساجد نہیں ہوسکتیں، چونکہ بیوت لفظ بیت کی جمع ہے اور بیت عربی لغت میں ایسی جگہ کو کہتے ہیں کہ جس میں انسان رات بسر کرتا ہے اور مسجد رات گذارنے کی جگہ نہیں ہوتی۔ اسی وجہ سے اسے ’’ بیت ‘‘ نہیں کہا جاتا، بلکہ اس آیت میں ’’ بیوت ‘‘ سے مراد، اولیائے الہی اور ایسے پاک لوگوں کے گھر ہیں کہ جن میں صبح و شام اللہ کی تسبیح ہوتی ہے اور اس کا ذکر کیا جاتا ہے۔

اس آیت میں موجود رفعت و بلندی سے مراد کیا چیز ہے؟ اس کے سلسلہ میں دو احتمال پائے جاتے ہیں :

۱۔ رفعت ظاہری

۲ ۔ رفعت معنوی

اگر اس آیت میں رفعت ظاہری مراد لی جائے تو اس کے معنیٰ یہ ہیں کہ اس گھر کے در و دیوار اور چھت وغیرہ کو بلند کرکے بنایا جائے اور ان کی بلندی کو مزید بڑھایا جائے۔ لیکن چونکہ یہ معنی اس مقام کے شایان شان نہیں ہیں اور اس آیت میں ذکر اور تسبیح الہی کا تذکرہ ہے۔ چنانچہ موضوع اور حکم میں مناسبت کا خیال رکھتے ہوئے۔ تو معنی کا تقاضہ یہ ہے کہ اس سے مراد رفعت معنوی ہونی چاہیے۔ اور کسی گھر کی معنوی رفعت کا تقاضہ یہ ہے کہ اسے تکریم و تعظیم کی نگاہ سے دیکھا جائے اور ان مکانوں کا احترام کیا جائے۔ اور یہ بھی واضح ہے کہ ان گھروں کے احترام کا ایک مصداق، اس مکان کو تعمیرکرنا، اسے منہدم اور مسمار ہونے سے بچانا اور اس کی حفاظت کی کوشش کرنا ہے۔

کئی روایات کے مطابق جب یہ آیت: ’’ فِي بُيُوتٍ أَذِنَ اللَّـهُ أَن تُرْفَعَ ‘‘ نازل ہوئی اور پیغمبر اکرمﷺ نے اسے مسجد میں اصحاب کے سامنے تلاوت کیا تو ایک صحابی نے حضرتﷺ سے سوال کیا: یا رسول اللہ! اس’’ بیوت ‘‘ سے مراد کیا ہے؟ آنحضرتﷺ نے فرمایا : انبیاء(عليهم السلام) کے گھر۔ اسی وقت حضرت ابوبکر اٹھے اور علی و فاطمہ سلام اللہ علیہما کے گھر کی طرف اشارہ کر کے پوچھا: یا رسول اللہ ﷺ! کیا یہ (علی وفاطمہ کا) گھر بھی انہیں گھروں میں سے ہے جنہیں اللہ نے بلند رکھنے کی اجازت دی ہے تاکہ ان کی منزلت، رفیع و اعلیٰ رہے؟ پیغمبرﷺ نے فرمایا : ’’ نعم، من أفضلھا‘‘ ہاں! یہ گھر ان سب میں با فضیلت ہے۔[1]

اس بیان کی روشنی میں اب سوال یہ ہے کہ وہ گھر جو اللہ کے حکم کے موجب سب سے افضل و برتر ہو اور جس کی تکریم و تعظیم ہونی چاہیئے، کس بنیاد پر اس گھر کو جس میں فاطمہ (س) کو دفنایا گیا ہو ویران کرنا جائز ہوگا ؟ کیا اس حکم کو منسوخ کرنے والا کوئی جدید حکم، اللہ کی جانب سے نازل ہوا تھا؟

تيسرى دليل: صالحین اور اولاد رسول اللہ ﷺ کی قبروں کو تعمیر کرنا، ان کی نسبت مسلمانوں کے ادب اور احترام کے ساتھ ساتھ ان سے مودت و محبت کی بھی نشانی ہے اور یہ وہی اجر رسالت ہے جس کی ادائیگی کا انہیں حکم ملا ہے جیسا کہ قرآن مجید کا ارشاد ہے :

﴿قُل لَّا أَسْأَلُكُمْ عَلَيْهِ أَجْرًا إِلَّا الْمَوَدَّةَ فِي الْقُرْبَىٰ[الشورى: 23]

"اے پیغمبر! آپ(ص) کہ دیجيے! میں اس(تبلیغ رسالت) پر تم سے کوئی اجرت نہیں مانگتا سوائے قريب ترين رشته داروں کی محبت کے۔"

بے شک اولیاء الہی کے معنوی مقام كے احترام و تعظیم کا اظہار اور ان سے محبت و مودت کا شرک سے کوئی تعلق نہیں ہے۔


[1] - تفسیر آلوسی ، ج۱۸ ، ص ۱۷۴ ؛ الکشف و البیان عن تفسیر القرآن، ج۷ ، ص ۱۰۷ ؛ الدر المنثور، ج ۵ ، ص ۵۰ ۔’’ أخرج ابن مرویۃ عن أنس بن مالک و بریدۃ قال : قرأ رسول اللہ ھذہ الآیۃ ( فی بیوت ۔۔۔۔) فقام إلیہ علیہ السلام رجل، فقال: أیّ بیوت ھذہ یا رسول اللہ ؟ فقال (ص) : بیوت الأنبیاء علیھم السلام ، فقام إلیہ أبوبکر، فقال: یا رسول اللہ ! ھذا البیت منھا لبیت علی و فاطمة ؟ قال : نعم ، من أفضلھا ۔‘‘

فضائل امام على نقي عليه السلام

فضائل امام على نقي عليه السلام

ہمارے تمام آئمہ علیہم السلام صرف امت کے رہنما اور احکام قرآنی کے بیان کرنے والے نہیں تھے بلکہ شیعہ معارف کے مطابق امام علیہ السلام زمین پر اللہ کا نور، مخلوقات عالم پر اللہ کی حجت کاملہ، حیات کائنات کا محور، خالق اور مخلوق کے درمیان واسطہ فیض، روحانی کمالات کا آئنیہ نور، انسانی فضائل کا اعلٰی نمونہ، تمام اچھائیوں اور نیکیوں کا مجموعہ، علم اور قدرت خدا کا مظہر، بندگان خدا رسیدہ کا اعلٰی شاہکار، ہر طرح کے سہو و نسیاں سے پاک و صاف، رموز زمین، اسرار غیب، اور فرشتگان الٰہی کے راز دان، جن کی ولایت رسول خدا(ص) كے علاوه انبیاء و مرسلین سے بالا تر، جن کی حقیقت ان کے علاوہ کسی اور کے لئے قابل درک نہیں ہے، یہ پروردگار عالم کا خاص عطیہ ہے۔جس سے صرف حضرت محمد و آل محمد علیہم السلام سے مخصوص رکھا، طمع کرنے والے کا یہاں گزارا نہیں ہے۔ آسمان امامت کے دسویں آفتاب، ہمارے مولی، ہمارے ولی و سرپرست حضرت امام ابو الحسن علی نقی علیہ السلام نے ہم شیعوں پر یہ احسان غظیم فرمایا کہ، زیارت جامعہ کبیرہ کی شکل میں معرفت امام علیہ السلام کا لامحدود اور پیش قیمت خزانہ ہمیں عطاء فرمایا۔ (1)معارف خداوندی کے چمن کھلائے، اور علم و دانش کے گوہر روشن کئے اور اپنے دوستوں کو ان کی عقل و فہم کے مطابق رموز امامت سے روشناس کرایا ہے۔ حکمت الٰہی کے ایک گوشہ کی نقاب کشائی کی ہے۔ ہماری جانیں قربان ہوں اس خاک پاک پر جہاں امام علیہ السلام مدفون ہیں کہ ہمیں عظمت الٰہی سے آگاہ کیا اور تشنگان معرفت کو آب کوثر سے سیراب فرمایا۔ حضرت امام علی نقی علیہ السلام نے اپنے ایک دوست کی درخواست پر زیارت جامعہ کبیرہ اسے تعلیم دی تھی کہ اس طرح آئمہ علیہم السلام کی زیارت کیا کرو۔

حضرت ابوالحسن امام علی نقی علیہ السلام ہمارے دسویں امام ہیں ، آپؑ پانچ رجب المرجب (دوسری روایت کے مطابق 15ذی الحجہ) سن 212 ہجری کو مدینہ منورہ کے قریب صریا نامی قریہ میں پیدا ہوئے، یہ وہی قریہ ہے جسے امام موسیٰ کاظم علیہ السلام نے آباد کیا تھا۔ اور 3 رجب المرجب 254 ہجری کو سامرا میں معتز عباسی کے زہر دغا سے شہید ہوئے۔

ادامه نوشته

فضائل امام محمد باقر  عليه السلام

امام محمد باقر عليه السلام کي زندگی کامختصر تعارف

آپ کی ولادت باسعادت

حضرت امام محمد باقر علیہ السلام بتاریخ یکم رجب المرجب ۵۷ ھ یوم جمعہ مدینہ منورہ میں پیدا ہوئے(1)

علامہ مجلسی تحریرفرماتے ہیں کہ جب آپ بطن مادرمیں تشریف لائے تو آباؤ اجداد کی طرح آپ کے گھرمیں آوازغیب آنے لگی اورجب نوماہ کے ہوئے تو فرشتوں کی بے انتہا آوازیں آنے لگیں اورشب ولادت ایک نورساطع ہوا، ولادت کے بعد قبلہ رو ہو کرآسمان کی طرف رخ فرمایا،اور(آدم کی مانند) تین بار چھینکنے کے بعد حمد خدا بجا لائے،ایک شبانہ روز دست مبارک سے نور ساطع رہا، آپ ختنہ کردہ ،ناف بریدہ، تمام آلائشوں سے پاک اورصاف متولد ہوئے(2)

اسم گرامی ،کنیت اور القاب

آپ کا اسم گرامی ”لوح محفوظ“ کے مطابق اورسرورکائنات کی تعیین کے موافق ”محمد“تھا۔ آپ کی کنیت ”ابوجعفر“ تھی، اورآپ کے القاب کثیرتھے، جن میں باقر،شاکر،ہادی زیادہ مشہورہیں(3)

بادشاہان وقت

آپ ۵۷ ھ میں معاویہ بن ابی سفیان کے عہد میں پیدا ہوئے ۔ ۶۰ ھ میں یزید بن معاویہ بادشاہ وقت رہا، ۶۴ ھ میں معاویہ بن یزیداورمروان بن حکم بادشاہ رہے ۶۵ ھ تک عبدالملک بن مروان خلیفہ وقت رہا ۔ پھر ۸۶ ھ سے ۹۶ ھ تک ولید بن عبدالملک نے حکمرانی کی، اسی نے ۹۵ ھ میں آپ کے والد ماجد کو درجہ شہادت پرفائز کر دیا، اسی ۹۵ ھ سے آپ کی امامت کا آغاز ہوا، اور ۱۱۴ ھ تک آپ فرائض امامت ادا فرماتے رہے، اسی دور میں ولید بن عبدالملک کے بعد سلیمان بن عبدالملک ،عمربن عبدالعزیز، یزید بن عبدالملک اورہشام بن عبدالملک بادشاہ وقت رہے(4)

حضرت امام محمد باقر علیہ السلام کی علمی حیثیت

کسی معصوم کی علمی حیثیت پر روشنی ڈالنا اور وضاحت کرنا ناممکن ہے۔ علامہ ابن شہرآشوب لکھتے ہیں کہ حضرت کا خود ارشاد ہے کہ”علّمنا منطق الطیر و أوتینا من کل شيء“ ہمیں پرندوں تک کی زبان سکھا گئی ہے اور ہمیں ہرچیز کا علم عطا کیا گیا ہے(5)

روضة الصفاء میں ہے : خداکی قسم! ہم زمین اورآسمان میں خداوند عالم کے خازن علم ہیں اور ہم ہی شجرہ نبوت اورمعدن حکمت ہیں ،وحی ہمارے یہاں آتی رہی اور فرشتے ہمارے یہاں آتے رہتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا کے ظاہری ارباب اقتدار ہم سے جلتے اورحسد کرتے ہیں۔

علامہ شبلنجی فرماتے ہیں کہ علم دین، علم احادیث،علم سنن اورتفسیر قرآن وعلم السیرت وعلوم وفنون ،ادب وغیرہ کے ذخیرے جس قدرامام محمد باقرعلیہ السلام سے ظاہر ہوئے اتنے امام حسین و امام حسین کی اولاد میں سے کسی اورسے ظاہرنہیں ہوئے(6)

صاحب صواعق محرقہ لکھتے ہیں : عارفوں کے قلوب میں آپ کے آثار راسخ اورگہرے نشانات نمایاں ہو گئے تھے، جن کے بیان کرنے سے وصف کرنے والوں کی زبانیں گونگی اورعاجز و ماندہ ہیں ۔ آپ کے ہدایات وکلمات اس کثرت سے ہیں کہ ان کا احصاء اس کتاب میں ناممکن ہے(7)

علامہ ابن خلکان لکھتے ہیں کہ امام محمد باقرعلامہ زمان اور سردار کبیرالشان تھے آپ علوم میں بڑے تبحراور وسیع الاطلاق تھے(8)

علامہ ذہبی لکھتے ہیں کہ آپ بنی ہاشم کے سرداراورمتبحر علمی کی وجہ سے باقرمشہورتھے ۔ آپ علم کی تہ تک پہنچ گئے تھے، اورآپ نے اس کے وقائق کو اچھی طرح سمجھ لیا تھا(9)

حضرت امام محمدباقرعلیہ السلام کی دمشق میں طلبی

علامہ مجلسی اورسیدابن طاؤس لکتھے ہیں کہ جب ہشام بن عبدالملک اپنے عہدحکومت کے آخری ایام میں حج بیت اللہ کے لیے مکہ معظمہ میں پہنچا تو وہاں حضرت امام محمدباقرعلیہ السلام اورحضرت امام جعفرصادق علیہ السلام بھی موجودتھے ایک دن حضرت امام جعفرصادق علیہ السلام نے مجمع عام میں ایک خطبہ ارشادفرمایاجس میں یہ بھی کہاکہ ہم روئے زمین پرخداکے خلیفہ اوراس کی حجت ہیں ، ہمارادشمن جہنم میں جائے گا،اورہمارادوست نعمات جنت سے متنعم ہوگا ۔

اس خطبہ کی اطلاع ہشام کودی گئی ،وہ وہاں توخاموش رہا،لیکن دمشق پہنچنے کے بعدوالی مدینہ کوفرمان بھیجاکہ محمدبن علی اورجعفربن محمدکومیرے پاس بھیج دے ، چنانچہ آپ حضرات دمشق پہنچے ۔ اس کے بعدامام نے فرمایا: بادشاہ ہم معدن رسالت ہیں، کسی امرمیں ہمارامقابلہ کوئی نہیں کرسکتا،یہ سن کرہشام کوغصہ آگیا،اور بولاکہ آب لوگ بہت بڑے بڑے دعوے کرتے ہیں آپ کے دادا علی بن ابی طالب نے غیب کادعوی کیاہے ، آپ نے فرمایا: بادشاہ قرآن مجید میں سب کچھ موجود ہے اورحضرت علی امام مبین تھے انہیں کیانہیں معلوم تھا(10)

علامہ مجلسی لکھتے ہیں کہ اس واقعہ کے بعدہشام نے والی مدینہ ابراہیم بن عبدالملک کولکھاکہ امام محمدباقرکوزہرسے شہیدکردے(11)

کتاب الخرائج والبحرائح میں علامہ راوندی لکھتے ہیں کہ اس واقعہ کے بعدہشام بن عبدالملک نے زیدبن حسن کے ساتھ باہمی سازش کے ذریعہ امام علیہ السلام کودوبارہ دمشق میںطلب کرناچاہالیکن والی مدینہ کی ہمنوائی حاصل نہ ہونے کی وجہ سے اپنے ارادہ سے بازآیا اس نے تبرکات رسالت جبرا طلب کئے اورامام علیہ السلام نے بروایتے ارسال فرمادئیے۔

امام محمدباقر علیہ السلام کی شہادت

آپ اگرچہ اپنے علمی فیوض وبرکات کی وجہ سے اسلام کوبرابرفروغ دے رہے تھے لیکن اس کے باوجودہشام بن عبدالملک نے آپ کوزہرکے ذریعہ سے شہیدکرادیا اورآپ بتاریخ ۷/ ذی الحجہ ۱۱۴ ھ یوم دوشنبہ مدینہ منورہ میں انتقال فرماگئے اس وقت آپ کی عمر ۵۷/ سال کی تھی آپ جنت البقیع میں دفن ہوئے(12)

علامہ شبلنجی اورعلامہ ابن حجرمکی فرماتے ہیں ”مات مسموما کأبيه“ آپ اپنے پدربزرگوارامام زین العابدین علیہ السلام کی طرح زہرسے شہیدکردیئے گئے(13)

ازواج و اولاد

آپ کی چاربیویاں تھیں اورانہیں سے اولادہوئیں ۔ام فروہ،ام حکیم،لیلی،اور ایک اوربیوی ام فروہ بنت قاسم بن محمدبن ابی بکرجن سے حضرات امام جعفرصادق علیہ السلام اورعبداللہ افطح پیداہوئے اورام حکیم بنت اسدبن مغیرہ ثقفی سے ابراہیم وعبداللہ اورلیلی سے علی اورزینب پیداہوئے اورچوتھی بیوی سے ام سلمی متولدہوئے(14)

علامہ محمدباقربہبھانی ،علامہ محمدرضاآل کاشف الغطاء اورعلامہ حسین واعظ کاشفی لکھتے ہیں کہ حضرت امام باقرعلیہ السلام کی نسل صرف امام جعفر صادق علیہ السلام سے بڑھی ہے ان کے علاوہ کسی کی اولادزندہ اورباقی نہیں رہی(15)

حوالجات

(1) اعلام الوری ص ۱۵۵ ،جلاء العیون ص ۲۶۰ ،جنات الخلود ص ۲۵

(2) جلاء العیون ص ۲۵۹

(3) مطالب السؤال ص ۳۶۹ ،شواہدالنبوت ص ۱۸۱

(4) اعلام الوری ص ۱۵۶

(5) مناقب شہرآشوب جلد ۵ ص ۱۱

(6) کتاب الارشاد ص ۲۸۶ ،نورالابصار ص ۱۳۱ ،ارجح المطالب ص ۴۴۷

(7) صواعق محرقہ ص ۱۲۰

(8) وفیات الاعیان جلد ۱ ص ۴۵۰

(9) تذکرةالحفاظ جلد ۱ ص ۱۱۱

(10) جلاء العیون

(11) جلاء العیون ص ۲۶۲

(12) کشف الغمہ ص ۹۳ ،جلاء العیون ص ۲۶۴ ،جنات الخلودص ۲۶ ،دمعہ ساکبہ ص ۴۴۹ ،انوارالحسینہ ص ۴۸ ، شواہدالنبوت ص ۱۸۱ ، روضة الشہداء ص ۴۳۴

(13) نورالابصار ص ۳۱ ،صواعق محرقہ ص ۱۲۰

(14) ارشادمفید ص ۲۹۴ ، مناقب جلد ۵ ص ۱۹ ،نورالابصارص ۱۳۲

(15) دمعہ ساکبہ جلد ۲ ص ۴۷۹ ،انوارالحسینیہ جلد ۲ ص ۴۸ ،روضة الشہداء ص ۴۳۴ طبع لکھنؤ