تفكر و تعقل
دوستوں كو ويب بلاگ ميں خوش آمديد كهتے هيں
دوستوں كو ويب بلاگ ميں خوش آمديد كهتے هيں
سوال: کیا امام حسینؑ کو شیعہ نے قتل کیا؟
مختصر جواب:
نہیں، امام حسین علیہ السلام کو شیعہ نے قتل نہیں کیا۔ امام حسینؑ کو یزید بن معاویہ کی حکومت کے حکم پر اموی فوج نے شہید کیا، جن کی قیادت عمر بن سعد، شمر بن ذی الجوشن، اور دیگر اموی کمانڈرز کر رہے تھے۔ ان میں سے اکثر نہ عقیدتاً شیعہ تھے، نہ اہل بیتؑ کے وفادار، بلکہ دنیاوی مفادات، خوف یا حکومت کی اطاعت میں شریک تھے۔
تفصیلی وضاحت:
📌 شیعہ کی تعریف:
لغوی معنی: "شیعہ" کا مطلب ہے کسی کے پیروکار۔ قرآن میں بھی لفظ "شیعه" آیا ہے: سورۃ الصافات 83: ﴿وَإِنَّ مِن شِيعَتِهِ لَإِبْرَاهِيمَ﴾ یعنی "ابراہیمؑ بھی اس (نوحؑ) کے پیروکاروں میں سے تھے۔"
خلافتِ راشدہ کے بعد "شیعه علیؑ" وہ کہلاتے تھے جو علیؑ کو خلافت کے لیے سب سے زیادہ حقدار مانتے تھے اور ان سے محبت رکھتے تھے۔ لهذا اس وقت "شیعہ" کا مطلب تھا: اہل بیت علیہم السلام کے ماننے والے اور ان کے سیاسی و روحانی حامی۔
📌 اہل کوفہ کون تھے؟
کوفہ حضرت علیؑ کا دارالخلافہ رہا، اس لیے وہاں بہت سے لوگ "شیعہ علیؑ" کہلاتے تھے۔ مگر وقت کے ساتھ ان میں منافقت، بزدلی، اور دنیا پرستی گھر کر گئی تھی۔ یزید کے گورنر ابن زیاد نےعوام کو خریدا یا ڈرایا۔ امام حسینؑ کی حمایت کرنے والوں کو قتل یا قید کیا۔حتیٰ کہ مسلم بن عقیلؑ کو بھی شہید کر دیا۔
کوفہ میں بہت سے ایسے لوگ موجود تھے جنہوں نے امام حسینؑ کو خطوط لکھے اور دعوت دی، مگر جب یزید کی طرف سے سختی، دھمکی اور قتل کا خطرہ آیا، تو بہت سے لوگ ڈر گئے یا خاموش ہو گئے۔ انہیں "شیعہ" کہنا آج کے معنوں میں درست نہیں۔
کیا خط لکھنے والے بعد میں کربلا میں امام کے خلاف تھے؟ نہیں۔ تاریخ گواہ ہے کہ کوفہ کے شیعہ جیسے سلیمان بن صرد خزاعی نے بعد میں "تَوّابین" کی تحریک چلائی تاکہ اپنے گناہ کا کفارہ ادا کر سکیں۔
اصل شیعہ، جیسے حبیب بن مظاہر، مسلم بن عقیل، زہیر بن قین، جون(حبشی غلام)، وہب اور ان کی ماں و بیوی اور جوانان بني هاشم۔ یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے اپنی جانیں قربان کیں لیکن امامؑ کا ساتھ نہ چھوڑا۔
📌 امام حسینؑ کے قاتل کون تھے؟
1- یزید بن معاویہ: ظالم حکمران، جس نے بیعت نہ کرنے پر قتل کا حکم دیا۔
2- عبید اللہ بن زیاد: کوفہ کا گورنر، جس نے امام حسینؑ کے خلاف لشکر تیار کیا۔
3- عمر بن سعد بن ابي وقاص: یزیدی لشکر کا سربراہ۔
4- شمر بن ذی الجوشن: امام حسینؑ کے قتل میں براہ راست شریک۔
ان میں سے کوئی بھی شیعہ علیؑ نہیں تھا۔ یہ لوگ دنیا طلب، حکومت کے وفادار، اور اہل بیتؑ کے دشمن تھے۔ ان کا تعلق مختلف قبیلوں سے تھا جنہوں نے کبھی علیؑ اور اہل بیتؑ کو قبول نہیں کیا۔
یہ کہنا کہ "امام حسینؑ کو شیعوں نے قتل کیا" ایک تاریخی مسخ (Distortion) ہے۔ اس کا مقصد اہل بیتؑ سے محبت کرنے والے طبقے کو بدنام کرنا ہے۔ امام حسینؑ کے قاتل وہ لوگ تھے جنہوں نے یزید کے لیے کام کیا، اور حقیقی شیعہ اس واقعے سے یا تو بےدخل تھے، خاموش کر دیے گئے، یا شہید کر دیے گئے۔
🔹 مستند حوالہ جات:
1- طبری (تاریخ الامم والملوک)
2- بلاذری (انساب الاشراف)
3- شیخ مفید (الارشاد)
4- ابن اثیر (الکامل فی التاریخ)
5- رضی الدین ابن طاؤس (اللهوف فی قتلی الطفوف)

بس ایک بار اور... پھر توبہ!
تحریر: سید غیور الحسنین نقوی
❓ سوال: اگر ہمیں معلوم ہو کہ کوئی کام گناہ (حرام) ہے، اور ہم یہ سوچ کر کریں کہ "بس یہ آخری بار ہے، پھر توبہ کر لیں گے" تو کیا ہمارا گناہ اور بڑا ہو جائے گا؟
✅ جواب: جی ہاں، اگر کوئی گناہ جان بوجھ کر اور پہلے سے سوچ کر کیا جائے، تو وہ اور بھی بڑا گناہ بن جاتا ہے۔ یہ سوچنا کہ "ابھی گناہ کر لیں، بعد میں توبہ کر لیں گے" یہ شیطان کا دھوکہ ہے۔ کیا پتہ کہ ہمیں دوبارہ توبہ کا موقع ہی نہ ملے؟
جب کوئی شخص گناہ کرنے کا پلان بناتا ہے، تو اس کا مطلب ہے کہ وہ گناہ کو برا نہیں سمجھ رہا بلکہ اس سے خوش ہو رہا ہے۔ اور جو شخص دل سے گناہ کو برا نہ سمجھے، اس کی توبہ سچی نہیں ہوتی۔
🔸 مثال:
فرض کریں ایک بچہ جانتا ہے کہ جھوٹ بولنا غلط بات ہے۔ لیکن وہ سوچتا ہے: "میں صرف ایک آخری بار جھوٹ بولتا ہوں، بس اس کے بعد کبھی نہیں بولوں گا۔" اب وہ جھوٹ بولتا ہے، اور دل میں پہلے ہی یہ پلان بنایا ہوتا ہے کہ بعد میں توبہ کر لے گا۔ یہ بلکل ایسا ہے جیسے کوئی جان بوجھ کر آگ میں ہاتھ ڈالے اور کہے: "میں بعد میں پٹی باندھ لوں گا، ابھی تو ہاتھ جلنے دو!" ایسا سوچنا نہ عقلمندی ہے، نہ توبہ کی نشانی۔ کیونکہ: پہلے سے گناہ کا ارادہ کرنا، یہ دل کی سختی اور اللہ کی نافرمانی ہے۔ گناہ کرتے ہوئے "توبہ کا ارادہ" کرنا، یہ اصل توبہ نہیں، بلکہ ایک بہانہ ہے۔ زندگی کا کوئی بھروسہ نہیں، شاید توبہ کا موقع ہی نہ ملے۔
📌 نتیجہ:
سچی توبہ یہ ہے کہ انسان گناہ کو برائی سمجھے، اس پر شرمندہ ہو، اور دل سے ارادہ کرے کہ دوبارہ نہیں کرے گا۔ "آخری بار" کا بہانہ بنانا، دراصل گناہ کو چھوٹا سمجھنے کی علامت ہے جو خود ایک بڑا گناہ ہے۔

بسم اللہ الرحمن الرحیم
💠 حدیث_روز 💠
🔻 امام صادق عليهالسلام:
اِذا اَحْبَبْتَ رَجُلاً فَاَخْبِرْهُ بِذلِكَ فَاِنَّـهُ اَثْبَتُ لِلْمَـوَدَّةِ بَيْنَكُما۔
اردو ترجمہ:
"جب تم کسی سے محبت کرو تو اسے ضرور بتاؤ، کیونکہ ایسا کرنے سے تمہاری باہمی دوستی زیادہ پائیدار ہو جاتی ہے۔"
📚 اصول کافی، ج ۲، ص ۶۴۴
وضاحت
1- محبت کا اظہار کیوں ضروری ہے؟ جب آپ کسی کی خوبیوں، اخلاق یا کردار سے متاثر ہو کر اسے دل سے چاہیں، تو اس احساس کو چھپانے کے بجائے کھل کر بیان کرنا دونوں کے درمیان اعتماد اور خلوص کو گہرا کرتا ہے۔ مثال: جیسے کوئی دوست آپ کی مشکل وقت میں مدد کرے، اور آپ اسے بتائیں: "تمہاری دوستی میرے لیے بہت قیمتی ہے"۔
2- پائیداری کا راز: امام صادقؑ فرماتے ہیں کہ یہ عمل مودت (گہری دوستی) کو "اَثْبَتُ" (مضبوط/پائیدار) بناتا ہے، كيونكه محبت چھپانے سے شک یا دوری پیدا ہو سکتی ہے، جبکہ اظہار رشتے کو حقیقی بنیاد فراہم کرتا ہے۔
3- عملی اطلاق: یہ حکم صرف مردوں تک محدود نہیں؛ بلکہ ہر رشتے (ماں باپ، بہن بھائی، دوست، استاد) میں لاگو ہوتا ہے۔ لهذا جب بھی آپ کسی کی صلاحیت، نیکی یا حسنِ سلوک سے متاثر ہوں، اسے الفاظ یا عمل سے ضرور بتائیں۔
☑️آج کی مشق:
آج کسی ایک شخص کو بتائیں کہ "آپ کی موجودگی میری زندگی کے لیے اہم ہے"۔
•┈┈••🌷••┈┈•
*الفاظِ محبت انسان کے دل کا راستہ ہیں، جو دوسروں تک پہنچ کر گھر بنا لیتے ہیں۔*
الحرية الليبرالية في ميزان النقد
الخلاصة
يتناول هذا البحث مفهوم الحرّية في الفكر الليبرالي باعتبارها ركيزةً أساسيةً له، ويستعرض الأبعاد المختلفة للحرّية، مثل الحرّية الفكرية والعقدية والاجتماعية والسياسية، ويحلّل المبادئ الأساسية الّتي تقوم عليها الليبرالية، كالإنسانوية والفردية وأصالة اللذّة وأصالة الحسّ والعقل الأداتي. كما يناقش الإسهامات الفكرية لروّاد الليبرالية مثل جون لوك وجون ستيوارت مل. يركّز البحث على الانتقادات الموجّهة للحرّية الليبرالية، خاصّةً من المنظور الإسلامي، الذي يرى الحرّية كقيمة متوازنة بين حقوق الفرد وواجباته تجاه المجتمع. يوضّح أنّ الحرّية التي تدعو إليها الليبرالية تتعارض مع القيم النظرية والعملية. في الختام، يبرز البحث أهمّية التوازن بين حرّية الفرد والمصالح العامّة، مع نقد التصوّرات الليبرالية للحرّية من حيث تعريفها ومبادئها وأنواعها. هذا و قد اعتُمِد على المنهج الوصفي والتحليلي النقدي في بيان الآراء المختلفة للّيبرالية والمتعلّقة بالحرّية وتقييمها.

اللہ تعالى کے دیدار کے تصور پر ایک تنقیدی مطالعہ
یہ مقالہ ابن تیمیہ کے تصورِ رؤیتِ الٰہی (اللہ کے دیدار) کا تفصیلی اور تنقیدی مطالعہ پیش کرتا ہے۔ ابن تیمیہ، جو سلفی مکتب فکر کے بڑے مشهور عالم ہیں، نے رؤیتِ باری تعالیٰ کو ایک مسلم عقیدہ قرار دیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کا دیدار نہ صرف آخرت میں ممکن ہے بلکہ دنیا میں بھی— اگرچہ غیرمعمولی حالات میں—ممکن ہو سکتا ہے۔ ان کے مطابق اللہ تعالیٰ کو خواب میں دیکھنا بھی ممکن ہے اور یہ بعض صالحین کو نصیب ہوا ہے۔
ابن تیمیہ کی آراء قرآن و سنت کی روشنی میں ہیں، لیکن ان کی تعبیرات میں ظاہریت غالب ہے۔ وہ نصوصِ شرعیہ کی تاویل یا مجاز سے گریز کرتے ہیں اور اس بات پر زور دیتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کو آخرت میں مومن اپنی آنکھوں سے دیکھیں گے، جیسا کہ بعض احادیث میں صراحت موجود ہے۔ وہ انکارِ رؤیت کو گمراہی قرار دیتے ہیں اور معتزلہ جیسے مکاتب فکر پر تنقید کرتے ہیں جو اللہ کے دیدار کے قائل نہیں۔
مقالہ نگار نے اس تصور پر تنقیدی نظر ڈالتے ہوئے مختلف پہلوؤں کو اجاگر کیا ہے۔ پہلا پہلو تو یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کو مخلوقات کے خواص سے متصف کرنا یا اسے مکان و جہت کا پابند سمجھنا توحید کے منافی ہو سکتا ہے۔ اگرچہ ابن تیمیہ خود تجسیم (anthropomorphism) کے قائل نہیں، لیکن ان کے بعض بیانات ایسے فہم کو جنم دیتے ہیں۔ وہ اللہ کے چہرے، ہاتھ، اور آنے جانے جیسے افعال کو بغیر کسی تاویل کے قبول کرتے ہیں، جو کہ بعض اوقات اللہ تعالیٰ کی صفات کو انسانی صفات کے مشابہ بنا دیتا ہے۔
مقالہ میں یہ نکتہ بھی اٹھایا گیا ہے کہ دنیا میں رؤیتِ الٰہی کی جو مثالیں دی گئی ہیں، وہ خواب یا غیر معمولی روحانی کیفیات پر مبنی ہیں جنہیں عام شرعی اصولوں پر پرکھنا مشکل ہے۔ نیز، دنیا میں دیدار کا امکان اس دنیا کی محدوديت اور اللہ تعالیٰ کے لامحدود ہونے میں تضاد پیدا کرتا ہے۔
ایک اور اہم پہلو مختلف مکاتبِ فکر کا تقابلی جائزہ ہے۔ معتزلہ رؤیتِ الٰہی کے سخت مخالف ہیں، کیونکہ ان کے نزدیک یہ بات اللہ کی ذات کے تنزیہی تصور کے خلاف ہے۔ اشاعرہ نے ایک درمیانی راستہ اختیار کیا ہے؛ وہ آخرت میں رؤیت کے قائل ہیں مگر دنیا میں نہیں۔ صوفیہ کی آراء متنوع ہیں، کچھ اسے روحانی مشاہدہ قرار دیتے ہیں تو کچھ حقیقی دیدار کے بھی قائل ہیں۔
تحقیق کے آخر میں مقالہ نگار اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ ابن تیمیہ کا تصورِ رؤیت اگرچہ سلفی مکتب کے مطابق ہے، لیکن اس میں بعض ایسے پہلو موجود ہیں جو متنازع اور مزید تحقیق کے متقاضی ہیں۔ ان کے دلائل اگرچہ نصوص پر مبنی ہیں، لیکن تعبیرات میں جمود اور تاویل سے انکار بعض اوقات توحید کے اساسی اصولوں سے متصادم ہو جاتا ہے۔
حضرت فاطمه معصومه(س) كى ولادت اور كمالات
حضرت سیدہ فاطمہ بنت موسیٰ بن جعفر بن محمد بن علی بن الحسین بن علی بن ابی طالب علیہم السلام خدا کے ولی کی بیٹی، خدا کے ولی کی بہن اور خدا کے ولی کی پھوپھی ہیں جیسا کہ ان کی زیارت میں آیا ہے۔
والدہ: فاطمہ علیہا السلام امام رضا علیہ السلام کی حقیقی بہن ہیں، دونوں کی ماں ایک ہی ہے۔ ان کی والدہ ایک كنيز تھیں جنہیں "ام البنین" کے کنیت سے جانا جاتا تھا۔ ان کے متعدد نام ذکر کیے گئے ہیں جیسے نجمہ، ارویٰ، سکن، سمان، اور تکتم۔ امام موسیٰ کاظم علیہ السلام کی ملکیت میں آنے کے بعد ان کا نام "تکتم" مستحکم ہوا۔
وہ عقل اور دین میں بہترین خواتین میں سے تھیں۔ سیدہ حمیدہ مصفّٰی نے اپنے بیٹے امام کاظم علیہ السلام سے کہا: "اے میرے بیٹے! تکتم ایک كنيز ہے، میں نے اس سے بہتر كنيز نہیں دیکھی۔ مجھے یقین ہے کہ اگر اس کی اولاد ہوئی تو خدا ضرور اس کی نسل کو پاک رکھے گا۔ میں نے اسے تمہیں بخش دیا ہے، اس کے ساتھ اچھا سلوک کرنا۔"
جب فاطمہ علیہا السلام کی ولادت ہوئی تو امام کاظم علیہ السلام نے ان کا نام "طاہرہ" رکھا۔ وہ عبادت گزار اور خدا کے حضور گڑگڑانے والی تھیں۔
سیدہ فاطمہ معصومہ(س) کی زندگی:
سیدہ فاطمہ معصومہ علیہا السلام نے اپنے بھائی امام رضا علیہ السلام کے ساتھ کم از کم 20 سال گزارے۔ اگر ہم یہ مان لیں کہ ان کی ولادت 173 ہجری میں ہوئی (جیسا کہ بعض مورخین نے ترجیح دی ہے) تو امام رضا علیہ السلام کے مدینہ سے مرو (خراسان) جانے (200 ہجری) تک ان کی عمر 27 سال تھی۔ اگر ولادت 179 ہجری مان لی جائے تو عمر 21 سال تھی۔ بہر حال، انہوں نے اپنے بھائی کے سایہ میں تربیت پائی اور علم و فضیلت سیکھا۔ امام رضا علیہ السلام نے انہیں تعلیم دی، جس کی وجہ سے وہ علم و معرفت کے اعلیٰ مقام پر فائز ہوئیں۔
امام رضا علیہ السلام کے دور کی مشکلات:
اگرچہ یہ دور امام علیہ السلام کے لیے آسان نہیں تھا، خاندانی تنازعات (بعض بھائیوں اور رشتہ داروں کی ناراضی)، "واقفیہ" فرقے کی فتنہ انگیزی (جو امام موسیٰ کاظم علیہ السلام کی غیبت کے عقیدے پر یقین رکھتے تھے)، اور حکومتی جبر،لیکن امام نے اپنی بہن کی تربیت میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔
سیدہ فاطمہ معصومہ (س)کا مقام:
امام رضا علیہ السلام نے فرمایا: "جو شخص قم میں معصومہ کی زیارت کرے، گویا اس نے میری زیارت کی۔" یہ بات ان کے بلند علمی و روحانی مقام کی دلیل ہے۔ ان کی عصمت (معصومیت) کا تصور بھی ان کے علم کی گہرائی کو ظاہر کرتا ہے، کیونکہ عصمت علم و معرفت کے بغیر ممکن نہیں۔ ان کے جدّ امام جعفر صادق علیہ السلام نے بھی فرمایا کہ ان کی شفاعت تمام شیعوں کو جنت میں داخل کرے گی۔
اگرچہ تاریخی مصادر میں ان کی تعلیمات کے تفصیلی واقعات کم ملتے ہیں، لیکن ان کے مقام کے لیے یہی کافی ہے کہ امام معصوم نے انہیں "معصومہ" کا لقب دیا اور ان کی زیارت کو اپنی زیارت کے برابر قرار دیا۔
اور اس کی تائید میں علامہ شیخ علی اکبر مہدی پور نے ابن العرندس حلی کی کتاب "کشف اللئالی" سے ایک واقعہ نقل کیا ہے جو سید احمد مستنبط کے حوالے سے ایک فضلاء سے منسوب ہے۔ خلاصہ یہ کہ کچھ شیعہ امام موسیٰ کاظم علیہ السلام کے گھر ان سے ملنے اور سلام کرنے آئے، لیکن معلوم ہوا کہ امام سفر پر ہیں۔ ان کے پاس کچھ سوالات تھے جنہیں انہوں نے لکھ کر سیدہ فاطمہ معصومہ علیہا السلام کے حوالے کر دیا اور واپس چلے گئے۔
اگلے دن جب وہ اپنے گھر لوٹنے لگے تو امام کے گھر سے گزرے۔ دیکھا کہ امام ابھی واپس نہیں آئے۔ چونکہ انہیں جانا ضروری تھا، انہوں نے سیدہ سے اپنے سوالات واپس مانگے تاکہ کسی اور موقع پر امام کو پیش کریں۔ سیدہ فاطمہ علیہا السلام نے ان سوالات کے جوابات لکھ کر واپس کیے۔ جب لوگوں نے یہ دیکھا تو خوش ہو کر مدینہ سے نکل گئے۔ راستے میں انہیں امام کاظم علیہ السلام ملے جو مدینہ واپس آرہے تھے۔ انہوں نے واقعہ سنایا تو امام نے سوالات اور جوابات دیکھنے چاہے۔ جب امام نے جوابات پڑھے تو تین بار فرمایا: "فداها أبوها"(ان کے بابا ان پر قربان هو!)۔
یہ واقعہ سیدہ کے بلند علمی مرتبے کو ظاہر کرتا ہے۔ شیخ مہدی پور کے مطابق، یہ اس بات کی دلیل ہے کہ وہ "عالمہ غیر معلّمہ" تھیں، یعنی بغیر رسمی تعلیم کے ہی علم رکھتی تھیں۔ حالانکہ وہ اس وقت کم عمر تھیں، لیکن تاریخ نے ان سے منسوب چند روایات محفوظ کی ہیں جو ان کے علمی مقام کو ثابت کرتی ہیں۔
حدیث اور علم رجال کا تعلق:
حدیث کا علم تفسیر، فقہ، اخلاقیات، اور کلام جیسے علوم کا مجموعہ ہے۔ شیعہ علماء نے ائمہ علیہم السلام کی احادیث کو محفوظ کرنے، انہیں مرتب کرنے، اور ان کی تنقیدی تحقیق کر کے "کتب اربعہ" جیسی عظیم کتابیں تیار کیں۔ ساتھ ہی، انہوں نے "علم رجال" (راویوں کے حالات کا علم) کو فروغ دیا جس میں روایات کی سندوں اور راویوں کے حالات کو پرکھا جاتا ہے۔ اگرچہ اس علم کو "رجال" کا نام دیا گیا، لیکن یہ صرف مردوں تک محدود نہیں۔ کئی خواتین راویہ بھی تھیں جن کا ذکر معتبر کتب میں ملتا ہے، اور سیدہ فاطمہ معصومہ علیہا السلام ان میں سرفہرست ہیں۔ ان سے بڑے بڑے علماء نے روایات نقل کی ہیں، جو ان کے علمی مقام کی واضح دلیل ہے۔
سیدہ فاطمہ معصومہ علیہا السلام کا علمی مقام صرف روایات تک محدود نہیں، بلکہ ان کی شخصیت اماموں کے گھرانے کی تربیت، عصمت، اور خدا کی خاص عنایت کی عکاس ہے۔ امام رضا علیہ السلام کا ان کی زیارت کو اپنی زیارت کے برابر قرار دینا ان کے روحانی عظمت کو مزید اجاگر کرتا ہے۔لیکن یہ بات تعجب خیز ہے کہ ہمیں اس جلیل القدر اور عظیم محدثہ خاتون کا ترجمہ ان معاجم میں نہیں ملتا جو راویوں کے ناموں کو ضبط کرنے کے لیے مشہور ہیں۔ اسی لیے شیخ النمازی نے اپنی کتاب "مستدرکات" میں ان کا ذکر کرتے ہوئے صرف ان مقامات کی طرف اشارہ کیا ہے جہاں ان کا تذکرہ کتاب "بحار الانوار" میں آیا ہے۔ حالانکہ ان معاجم کے مصنفین نے ان سے کم شہرت اور کم روایت کرنے والی خواتین کا ذکر کیا ہے۔ ہم سمجھ نہیں پاتے کہ اس کی کیا وجہ ہو سکتی ہے! بہرحال، یہ جلیل القدر خاتون محدثات میں سے تھیں، اور ان کا ذکر شیعہ کے علاوہ اہل سنت کے اسناد میں بھی آیا ہے۔ مثال کے طور پر، امام جعفر بن احمد القمی کی کتاب "المسلسلات" میں ایک روایت ان الفاظ کے ساتھ نقل ہوئی ہے:
"ہمیں محمد بن علی بن الحسین نے حدیث بیان کی، انہوں نے کہا کہ مجھے احمد بن زیاد نے حدیث سنائی، انہوں نے کہا کہ مجھے ابو القاسم جعفر بن محمد العلوی العریضی نے حدیث سنائی، انہوں نے کہا کہ ابو عبد اللہ احمد بن محمد بن خلیل نے کہا کہ مجھے علی بن محمد بن جعفر الاہوازی نے خبر دی، انہوں نے کہا کہ مجھے بکیر بن احنف نے حدیث سنائی، انہوں نے کہا کہ ہمیں فاطمہ بنت علی بن موسی الرضا علیہ السلام نے حدیث سنائی، انہوں نے کہا کہ مجھے فاطمہ، زینب اور ام کلثوم (موسی بن جعفر علیہما السلام کی بیٹیوں) نے حدیث سنائی، انہوں نے کہا کہ ہمیں فاطمہ بنت جعفر بن محمد علیہ السلام نے حدیث سنائی، انہوں نے کہا کہ مجھے فاطمہ بنت محمد بن علی علیہ السلام نے حدیث سنائی، انہوں نے کہا کہ مجھے فاطمہ بنت علی بن الحسین علیہ السلام نے حدیث سنائی، انہوں نے کہا کہ مجھے فاطمہ اور سکینہ (حسین بن علی علیہ السلام کی بیٹیوں) نے حدیث سنائی، انہوں نے ام کلثوم بنت علی علیہ السلام سے روایت کی، انہوں نے فاطمہ بنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کی کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا:
"جب مجھے معراج ہوئی اور میں جنت میں داخل ہوا تو میں نے ایک سفید موتی کا محفوظ محل دیکھا، جس کے دروازے پر یاقوت اور موتی جڑے ہوئے تھے اور دروازے پر ایک پردہ تھا۔ میں نے سر اٹھایا تو دروازے پر لکھا ہوا دیکھا: 'لا الہ الا اللہ، محمد رسول اللہ، علی ولی الله'، اور پردے پر لکھا تھا: 'بخ بخ، شیعہ علی علیہ السلام جیسے لوگوں کے لیے!' پھر میں اس میں داخل ہوا تو ایک سرخ عقیق کا محل دیکھا، جس پر چاندی کا دروازہ تھا جس پر زبرجد جڑا ہوا تھا، اور دروازے پر ایک پردہ تھا۔ میں نے سر اٹھایا تو دروازے پر لکھا ہوا تھا: 'محمد رسول اللہ، علی وصی المصطفی'، اور پردے پر لکھا تھا: 'شیعہ علی کو خوشخبری ہو، ان کی پیدائش پاکیزہ ہے۔' پھر میں اس میں داخل ہوا تو ایک سبز زمرد کا محل دیکھا، جو نہایت خوبصورت تھا، اس پر سرخ یاقوت کا دروازہ تھا جس پر موتی جڑے ہوئے تھے، اور دروازے پر ایک پردہ تھا۔ میں نے سر اٹھایا تو پردے پر لکھا ہوا تھا: 'شیعہ علی ہی فلاح پانے والے ہیں۔' میں نے پوچھا: 'اے میرے محبوب جبرائیل! یہ کس کے لیے ہے؟' تو انہوں نے کہا: 'اے محمد! یہ آپ کے چچا زاد اور وصی علی بن ابی طالب (علیہ السلام) کے لیے ہے۔ قیامت کے دن تمام لوگ ننگے پاؤں اور ننگے بدن اٹھائے جائیں گے، سوائے شیعيان علی (علیہ السلام) کے۔ اور تمام لوگوں کو ان کی ماؤں کے نام سے پکارا جائے گا، سوائے شیعہ علی (علیہ السلام) کے، جنہیں ان کے باپوں کے نام سے پکارا جائے گا۔' میں نے پوچھا: 'اے جبرائیل! یہ کیسے ہوگا؟' تو انہوں نے کہا: 'کیونکہ انہوں نے علی (علیہ السلام) سے محبت کی، اس لیے ان کی پیدائش پاکیزہ ہوئی۔'"
اسی طرح محمد جزری نے اپنی کتاب "اسنی المطالب" میں علی بن محمد بن جعفر الاہوازی کے طریقے سے بکر بن احمد القصری کے ذریعے "الفواطم" (فاطمی خواتین) سے روایت کی ہے کہ فاطمہ بنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
"کیا تم لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ فرمان بھول گئے جو آپ نے غدیر خم کے دن فرمایا تھا: 'جس کا میں مولا ہوں، اس کا علی مولا ہے'؟ اور آپ کا یہ فرمان: 'تم میرے لیے وہی مقام رکھتے ہو جو ہارون (علیہ السلام) کا موسیٰ (علیہ السلام) کے لیے تھا'؟"
اس قسم کے اسناد کو "مسلسل" کہا جاتا ہے، جو حدیث کی حفاظت کا ایک خاص طریقہ ہے۔ اس میں راویوں کے تسلسل پر خصوصی توجہ دی جاتی ہے، جیسے ہر راوی کہتا ہے: "میں نے فلاں سے سنا، وہ کہہ رہا تھا کہ میں نے فلاں سے سنا..." یا "ہمیں فلاں نے اللہ کی قسم دے کر بیان کیا..." وغیرہ۔ محقق داماد نے اس کی تعریف کرتے ہوئے اس کی 15 سے زیادہ اقسام بیان کی ہیں۔ مذکورہ بالا دو اسناد میں ایک اضافی خصوصیت یہ بھی ہے کہ ہر فاطمہ اپنی پھوپھی سے روایت کر رہی ہے، یعنی یہ پانچ بہنیں ایک دوسرے سے روایت کرتی ہیں۔
مختصر یہ کہ یہ جلیل القدر خاتون (فاطمہ معصومہ علیہا السلام) نے علم و معرفت کا بڑا حصہ حاصل کیا، جو انہیں خالص سرچشموں سے ملا، یہاں تک کہ وہ بلند مقام تک پہنچ گئیں، اگرچہ ہم تک ان کی بہت سی روایات نہیں پہنچی ہیں۔
ماخذ:شبکہ المعارف الاسلامیہ
امام رضا عليه السلام کو غریب الغرباء کیوں کها جاتا ہے؟
بہت سے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ امام رضا علیہ السلام کو "امام غریب" یا "غریب الغرباء" اس لیے کہا جاتا ہے کیونکہ آپ اپنے وطن اصلی یعنی مدینہ منورہ سے دور تھے۔ لیکن اگر اس معنی کو دیکھا جائے تو پھر امیر المؤمنین علی علیہ السلام بھی کوفہ میں غریب تھے، اسی طرح امام حسین علیہ السلام، امام موسیٰ بن جعفر علیہ السلام، امام جواد علیہ السلام اور امام عسکریین علیہما السلام بھی غریب تھے۔ لیکن امام رضا علیہ السلام کی غربت ایک خاص قسم کی تھی، اسی لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان "بضعة مني" صرف حضرت فاطمہ الزہرا سلام اللہ علیہا اور امام رضا علیہ السلام کے لیے آیا ہے۔ اگر ایک مخلص شیعہ امام رضا علیہ السلام کی غربت کو سمجھ لے تو اس کا دل ٹکڑے ٹکڑے ہو جائے گا!
آپ کی غربت کئی پہلوؤں سے تھی:
1- وطن سے دوری کی غربت
2- اپنے ہی خاندان میں غربت، کیونکہ بعض نے آپ کو شدید تکلیف پہنچائی۔
3- اپنے والد کے اصحاب میں غربت، کیونکہ بہت سے لوگوں نے آپ کے ساتھ خیانت کی۔
4- مأمون کے محل میں غربت، جو ظاہر میں محل تھا لیکن باطن میں ایک جیل تھی اور جبری قیام گاہ۔
5- اپنی قوم میں غربت، کیونکہ انہوں نے آپ کو تکلیف دی اور آپ پر بہتان لگایا۔
6- مأمون کی فتنہ انگیزیوں میں غربت۔
7- اپنے خاندان کو تباہ ہوتے دیکھنے کی غربت، جیسے حضرت فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیہا اور دیگر، لیکن آپ انہیں خبردار نہ کر سکتے تھے۔
# ایک واقعہ:
جب حرم رضوی میں ابھی دیواریں اور دروازے نہیں لگے تھے۔ ایک ایرانی انجینئر کام کی نگرانی کر رہا تھا کہ شیخ بہائی نے اس سے کہا: "جب تم دیواریں بنا لو تو دروازے نہ لگانا، جب تک میں تمہیں حکم نہ دوں۔" انجینئر نے کہا: "جی مولانا!" لیکن پہلی رات ہی اس نے خواب میں امام رضا علیہ السلام کو دیکھا، جو فرما رہے تھے: "دروازے لگا دو۔" جب وہ بیدار ہوا تو اس نے سوچا کہ یہ صرف ایک خواب ہے، کیونکہ شیخ نے انتظار کرنے کو کہا تھا۔ دوسری رات پھر یہی خواب دیکھا، لیکن امام علیہ السلام نے سختی سے فرمایا۔ تیسری رات امام نے اور بھی سختی سے حکم دیا، تو اس نے سوچا کہ یہ صرف خواب نہیں بلکہ حکم ہے۔ چنانچہ اس نے دروازے لگوا دیے۔
کچھ دن بعد شیخ بہائی آئے اور غصے سے پوچھا: "کیا میں نے تمہیں دروازے نہ لگانے کو نہیں کہا تھا؟" انجینئر نے بتایا کہ امام علیہ السلام نے تین بار خواب میں حکم دیا، تو مجھے یقین ہو گیا کہ یہ آپ کا حکم ہے۔ یہ سن کر شیخ بہائی رونے لگے۔ انجینئر نے پوچھا: "مولانا، آپ کیوں رو رہے ہیں؟" شیخ نے جواب دیا: "یہ واقعی رحمت کے دروازے ہیں اور امت کی نجات کا ذریعہ۔ میں نے سوچا تھا کہ ہر دروازے پر ایسی حفاظتی علامتیں لگاؤں کہ جو شخص بھی گناہگار ہو، وہ اندر نہ جا سکے۔ لیکن امام علیہ السلام نے فرمایا: 'یہ لوگ بے بس ہو کر ہماری پناہ میں آتے ہیں، اگر ہم انہیں واپس کر دیں گے تو پھر وہ کہاں جائیں گے؟"
السلام علیک یا ضامن الجنان یا علی بن موسی الرضا!
اللہ تعالیٰ ہمیں اور آپ کو دنیا میں آپ عليه السلام کی زیارت اور آخرت میں آپ کی شفاعت نصیب فرمائے۔ الهي آمين.
حواله: https://forums.alkafeel.net/node/95266
علم جفر کیا ہے؟
علم جفر یا علم الحروف وہ علم ہے جس کے ذریعے تمام حوادث عالم کو قیامت تک معلوم کیا جا سکتا ہے، اور اس علم کی مکمل اور درست صورت صرف ائمہ معصومینؑ کے پاس موجود ہے۔
شیخ الطریحی نے مجمع البحرین میں لکھا ہے کہ علم جفر اور علم جامعہ دو کتابیں ہیں، جنہیں حضرت علیؑ نے رسول اکرمﷺ کے املا (بول کر لکھوانے) کے ذریعے تحریر فرمایا۔ ان کتابوں میں تمام علوم اور قیامت تک کے تمام واقعات درج ہیں۔ تمام ائمہ معصومینؑ علم جفر سے واقف ہیں، اسے دیکھ کر اس کے ذریعے فیصلے کرتے ہیں۔
ائمہ علیہم السلام سے منقول روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ علم جفر الٰہی معارف کا ایک مجموعہ ہے، جو رسول اللہﷺ کے ذریعے حضرت علیؑ کو منتقل ہوا، اور پھر ان کے بعد یہ علم باقی ائمہ کو عطا ہوا۔ اس علم کا ایک حصہ قیامت تک کے تمام واقعات پر مشتمل ہے، جسے علم منایا و بلایا (یعنی موت اور مصیبتوں کا علم) بھی کہا جاتا ہے۔
جفر کا اجمالی مفہوم
تفصیلی وضاحت بعد میں کی جائے گی، لیکن یہاں ذہنی تیاری کے لیے اجمالاً بیان کیا جا رہا ہے کہ جفر کا مطلب ہے جنگلی مینڈھے (قوچ) کی کھال، جس میں تمام انبیاء کی کتابیں اور وہ کتب محفوظ ہیں جو رسول اللہﷺ کے املا سے حضرت علیؑ کے دستِ مبارک سے لکھی گئی تھیں۔ فارسی میں جفر کو "انبان" اور آذری زبان میں "تغارچہ" کہا جاتا ہے۔ جب کہا جاتا ہے کہ حضرت علیؑ علم جفر کے عالم تھے، تو اس کا مطلب یہ ہے کہ حضرت علیؑ اور ان کی معصوم اولاد کو اس "انبان" میں موجود کتابوں کے تمام علوم کا علم حاصل تھا۔
اب تک 12 کتابیں ایسی منظر عام پر آ چکی ہیں، جنہیں جفر کے عنوان سے پہچانا جاتا ہے۔ ان میں سے بیشتر انتہائی پیچیدہ جداول (چارٹ) پر مشتمل ہیں اور ہر ایک کو جفر سمجھا جاتا ہے۔ تاہم، یہ بات یقینی ہے کہ ان کتابوں کا جفر علیؑ سے کوئی تعلق نہیں۔ اگرچہ کچھ جداول میں ایسے راز پوشیدہ ہو سکتے ہیں جو جفر کے اصل علوم سے متعلق ہوں، لیکن ان کتابوں کا جفر ہونا یقینی نہیں ہے۔ اصل جفر اس وقت امام زمانہ (عج) کے پاس موجود ہے۔
یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ علم الحروف اور علم الاعداد دو اور علوم ہیں، جن سے بعض لوگ واقف ہیں۔ ان علوم کے ذریعے وہ یہاں تک معلوم کر لیتے ہیں کہ کسی شخص کا فون نمبر کیا ہے، مگر یہ علوم علم جفر نہیں ہیں۔
اہل بیت (علیہم السلام) کے نزدیک جفر کی حیثیت
امام صادق (علیہ السلام) نے فرمایا: "ہمارے گھر میں ایک ایسا مجموعہ موجود ہے کہ جس کی موجودگی میں ہم اہل بیت (علیہم السلام) کو کسی بھی انسان کی ضرورت نہیں ہے۔ یہ دنیا والے ہی ہیں جو اس مجموعے کی بنا پر ہم اہل بیت (علیہم السلام) کے سخت محتاج ہیں۔ اس مجموعے میں ایک ایسی کتاب بھی ہے جو خود حضرت محمد مصطفیٰ (صلی اللہ علیہ وآلہ) کے املا سے اور حضرت علی (علیہ السلام) کے دستِ مبارک کے خط سے لکھی گئی ہے۔ اس کتاب میں ایک صحیفہ موجود ہے، جس میں تمام حلال و حرام کے مسائل بیان کیے گئے ہیں اور ان امور کو اس قدر واضح کر دیا گیا ہے کہ جب تم اصحاب ہمارے گھر میں داخل ہوتے ہو تو بغیر اس کے کہ کچھ کہو، ہم اہل بیت (علیہم السلام) جان لیتے ہیں کہ تم نے اس کے کس حکم پر عمل کیا ہے اور کس پر نہیں!"
جفر؛ ایک حفاظتی کتاب
امام صادق (علیہ السلام) نے ایک اور روایت میں فرمایا:
"اگر تم نے پہلے ہی کچھ باتوں کو فاش نہ کیا ہوتا، تو ہم تمہیں ایک ایسی کتاب دیتے کہ اس کی برکت سے تم قیامِ امامِ عصر (علیہ السلام) تک کسی کے بھی محتاج نہ ہوتے اور کسی سے کسی مسئلے کے بارے میں سوال نہ کرتے۔"
روایات کا خلاصہ
اہل بیت (علیہم السلام) کی روایات میں علمِ جفر کے متعلق بہت زیادہ بیانات ملتے ہیں اور ان کا مفہوم ایک دوسرے کے قریب ہے۔ درج بالا روایات ان میں سے چند نمونے ہیں۔ ان روایات سے درج ذیل نکات اخذ کیے جا سکتے ہیں:
جفر کی دو اقسام ہیں:
جفرِ احمر: اس سے مراد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ) کے اسلحہ جات ہیں جو امام کی نشانیوں میں شامل ہیں اور اس وقت حضرت مہدی (عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف) کے پاس محفوظ ہیں۔ بعض روایات میں آیا ہے کہ آخر الزمان میں اس اسلحے سے معجزہ نما امور ظاہر ہوں گے۔
جفرِ ابیض: یہ چمڑے پر تحریر کردہ ایک صحیفہ ہے جو امامت کی نشانیوں میں سے ہے۔
روایات سے واضح ہوتا ہے کہ علمِ جفر نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت علی (علیہ السلام) کو سکھایا اور یہ علم صرف اہل بیت (علیہم السلام) کی میراث ہے۔ تحقیق سے معلوم ہوتا ہے کہ کسی روایت میں یہ ذکر نہیں ملتا کہ اہل بیت (علیہم السلام) نے یہ علم کسی غیر معصوم کو سکھایا ہو، بلکہ بعض مقامات پر اس بات کی صراحت کی گئی ہے کہ یہ علم صرف انبیاء اور اوصیاء کے لیے مخصوص ہے۔ اس کے علاوہ، اہل بیت (علیہم السلام) نے بعض مواقع پر اپنے پاس علمِ جفر ہونے کو اپنی امامت کی دلیل بھی قرار دیا ہے۔ لہٰذا، جو لوگ علمِ جفر کے دعوے دار ہیں، ان کے پاس یا تو جفر کا حقیقی علم نہیں یا اگر کچھ ہے تو وہ ناقص ہے۔ بعض عرفا نے بھی اس حقیقت کا اعتراف کیا ہے۔
روایات کے مطابق، علمِ جفر میں سابقہ تمام آسمانی کتابوں کے معارف، اسلامی احکام اور قیامت تک پیش آنے والے تمام واقعات پوشیدہ ہیں، لیکن اس میں کوئی قرآنی آیت نہیں ہے۔ چونکہ قرآن کریم خود ہر چیز کو واضح کرنے والا ہے، جیسا کہ فرمایا: "اور ہم نے تم پر کتاب نازل کی جو ہر چیز کو واضح کرنے والی ہے..." (النحل: 89)
اس سے یہ نتیجہ نکالا جا سکتا ہے کہ علمِ جفر درحقیقت قرآن کریم کی تاویل کا علم ہے۔ بعض عرفا نے بھی اس نکتے کی طرف اشارہ کیا ہے، جس کی تفصیل اپنی جگہ پر بیان کی جائے گی۔ اور چونکہ قرآن کی مکمل تاویل کا علم صرف امام معصوم (علیہ السلام) کے پاس ہوتا ہے، جو کہ علم میں راسخ ہیں، اس لیے فرمایا گیا:
"اور اس (قرآن) کی تاویل کو اللہ اور وہ لوگ جانتے ہیں جو علم میں راسخ ہیں..." (آل عمران: 7)
نماز شب
نماز شب پڑھنے کی توفیق حاصل کرنے کے لیے روایات میں کچھ طریقے بیان کیے گئے ہیں:
1- گناہوں کو ترک کرنا:
ایک شخص نے امیر المؤمنین حضرت علی عليه السلام سے عرض کیا کہ وہ نماز شب سے محروم ہے۔ آپ نے فرمایا کہ تمہارے گناہ تمہیں شب بیداری سے روک رہے ہیں: "أنت رجل قد قيّدتك ذنوبك"۔(۱)
2- صدق دل سے ارادہ کرنا:
امام باقر عليه السلام نے فرمایا کہ اگر کوئی شخص سوتے وقت صدق دل سے ارادہ کرے کہ ایک خاص وقت پر اٹھے گا، تو اللہ تعالیٰ دو فرشتوں کو مقرر کرتا ہے کہ وہ اسے مقررہ وقت پر جگا دیں: "ما نوی عبد أن يقوم أيّة ساعة نوي، فعلم الله تبارك و تعالي ذلك منه، إلاّ وكّل به ملكين يحرّكانه تلك الساعة"۔(2)
ایک اور روایت میں امام صادق عليه السلام نے فرمایا کہ اگر کوئی شخص سوتے وقت سورہ کہف کی آخری آیت پڑھے، تو وہ جس وقت چاہے بیدار ہو جائے گا: "ما من عبد يقرأ آخر الكهف حين ينام إلاّ استيقظ من منامه فی الساعة التي يريد"۔(3)
[۱ ] تهذیب الاحکام، ج۲، ص۳۶۰
[۲ ] من لايحضره الفقيه، ج۱، ص۴۷۹
[۳] من لايحضره الفقيه، ج۱، ص۴۷۱
تسنیم، ج۱۳، ص۳۷۱ - ۳۷۵