محبت كا اظهار كرو

بسم اللہ الرحمن الرحیم

💠 حدیث_روز 💠

🔻 امام صادق عليه‌السلام:

اِذا اَحْبَبْتَ رَجُلاً فَاَخْبِرْهُ بِذلِكَ فَاِنَّـهُ اَثْبَتُ لِلْمَـوَدَّةِ بَيْنَكُما۔

اردو ترجمہ:

"جب تم کسی سے محبت کرو تو اسے ضرور بتاؤ، کیونکہ ایسا کرنے سے تمہاری باہمی دوستی زیادہ پائیدار ہو جاتی ہے۔"

📚 اصول کافی، ج ۲، ص ۶۴۴

وضاحت

1- محبت کا اظہار کیوں ضروری ہے؟ جب آپ کسی کی خوبیوں، اخلاق یا کردار سے متاثر ہو کر اسے دل سے چاہیں، تو اس احساس کو چھپانے کے بجائے کھل کر بیان کرنا دونوں کے درمیان اعتماد اور خلوص کو گہرا کرتا ہے۔ مثال: جیسے کوئی دوست آپ کی مشکل وقت میں مدد کرے، اور آپ اسے بتائیں: "تمہاری دوستی میرے لیے بہت قیمتی ہے"۔

2- پائیداری کا راز: امام صادقؑ فرماتے ہیں کہ یہ عمل مودت (گہری دوستی) کو "اَثْبَتُ" (مضبوط/پائیدار) بناتا ہے، كيونكه محبت چھپانے سے شک یا دوری پیدا ہو سکتی ہے، جبکہ اظہار رشتے کو حقیقی بنیاد فراہم کرتا ہے۔

3- عملی اطلاق: یہ حکم صرف مردوں تک محدود نہیں؛ بلکہ ہر رشتے (ماں باپ، بہن بھائی، دوست، استاد) میں لاگو ہوتا ہے۔ لهذا جب بھی آپ کسی کی صلاحیت، نیکی یا حسنِ سلوک سے متاثر ہوں، اسے الفاظ یا عمل سے ضرور بتائیں۔

☑️آج کی مشق:

آج کسی ایک شخص کو بتائیں کہ "آپ کی موجودگی میری زندگی کے لیے اہم ہے"۔

•┈┈••🌷••┈┈•

*الفاظِ محبت انسان کے دل کا راستہ ہیں، جو دوسروں تک پہنچ کر گھر بنا لیتے ہیں۔*

الحرية الليبرالية في ميزان النقد

الحرية الليبرالية في ميزان النقد

الخلاصة
يتناول هذا البحث مفهوم الحرّية في الفكر الليبرالي باعتبارها ركيزةً أساسيةً له، ويستعرض الأبعاد المختلفة للحرّية، مثل الحرّية الفكرية والعقدية والاجتماعية والسياسية، ويحلّل المبادئ الأساسية الّتي تقوم عليها الليبرالية، كالإنسانوية والفردية وأصالة اللذّة وأصالة الحسّ والعقل الأداتي. كما يناقش الإسهامات الفكرية لروّاد الليبرالية مثل جون لوك وجون ستيوارت مل. يركّز البحث على الانتقادات الموجّهة للحرّية الليبرالية، خاصّةً من المنظور الإسلامي، الذي يرى الحرّية كقيمة متوازنة بين حقوق الفرد وواجباته تجاه المجتمع. يوضّح أنّ الحرّية التي تدعو إليها الليبرالية تتعارض مع القيم النظرية والعملية. في الختام، يبرز البحث أهمّية التوازن بين حرّية الفرد والمصالح العامّة، مع نقد التصوّرات الليبرالية للحرّية من حيث تعريفها ومبادئها وأنواعها. هذا و قد اعتُمِد على المنهج الوصفي والتحليلي النقدي في بيان الآراء المختلفة للّيبرالية والمتعلّقة بالحرّية وتقييمها.

الحرية الليبرالية في ميزان النقد

بگ بینگ تھیوری كيا ہے اور اس كا رد

بگ بینگ تھیوری كيا ہے اور اس كا رد

بگ بینگ تھیوری (Big Bang Theory) ایک سائنسی نظریہ ہے جو کائنات کی ابتدا کی وضاحت کرتا ہے۔ اس نظریے کے مطابق، کائنات تقریباً 13.8 ارب سال پہلے ایک بہت ہی چھوٹے، گرم اور کثیف نقطے (Singularity) سے وجود میں آئی۔ پھر ایک بڑے دھماکے (Big Bang) کے نتیجے میں یہ تیزی سے پھیلنا شروع ہوئی اور آج بھی پھیل رہی ہے۔

یہ نظریہ کئی سائنسی مشاہدات پر مبنی ہے، جن میں شامل ہیں:

1- کائنات کا پھیلاؤ: ایڈون ہبل کی دریافت کے مطابق کہکشائیں ایک دوسرے سے دور ہو رہی ہیں، جو ظاہر کرتا ہے کہ کائنات کسی وقت ایک نقطے پر مرکوز تھی۔

2- کاسمولوجیکل مائیکرو ویو بیک گراؤنڈ ریڈی ایشن: (CMB) یہ ابتدائی دھماکے کی باقیات سمجھی جاتی ہیں جو پوری کائنات میں موجود ہیں۔

3- ہلکے عناصر کی ترکیب: ہائیڈروجن اور ہیلیم جیسے عناصر کی مقدار اسی ماڈل کے مطابق بنتی ہے۔

بگ بینگ تھیوری کا رد

1- سنگولیرٹی (Singularity) کا مسئلہ: بگ بینگ سے پہلے کیا تھا؟ اس کا کوئی مکمل سائنسی جواب نہیں۔ سائنس خود یہ تسلیم کرتی ہے کہ بگ بینگ سے پہلے کی حالت کا کوئی واضح جواب نہیں۔ اگر بگ بینگ سے پہلے کچھ نہیں تھا تو یہ کیسے ممکن ہے کہ کچھ بھی وجود میں آیا؟ کیا بگ بینگ کے بعد جو کچھ ہوا، وہ ایک بے مقصد اتفاقی عمل تھا یا کسی عقل کل (اللہ) کی نگرانی میں تھا؟

2- ڈارک میٹر اور ڈارک انرجی: بگ بینگ تھیوری کو درست ثابت کرنے کے لیے فرضی چیزوں جیسے ڈارک میٹر اور ڈارک انرجی کی ضرورت پڑتی ہے، جن کی نوعیت ابھی تک واضح نہیں۔

دوسرے الفاظ ميں بگ بینگ ماڈل میں بہت سی چیزیں ابھی تک مفروضہ ہیں، جیسے کہ کائنات کا 95% حصہ ڈارک میٹر اور ڈارک انرجی پر مشتمل ہونے کا نظریہ، جس کا کوئی مشاہداتی ثبوت نہیں۔

3- ہورائزن مسئلہ: اگر کائنات بہت تیزی سے پھیلی تو مختلف حصے ایک جیسے کیوں نظر آتے ہیں؟ اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے "کاسمک انفلیشن" کا نظریہ پیش کیا گیا، لیکن یہ بھی مکمل طور پر ثابت نہیں ہوا۔

نتیجہ

بگ بینگ تھیوری ایک سائنسی ماڈل ہے جو کائنات کی ابتدا کی وضاحت کرتا ہے اور کئی مشاہداتی شواہد جیسے کائنات کے پھیلاؤ، کاسمولوجیکل مائیکرو ویو بیک گراؤنڈ ریڈی ایشن، اور ہلکے عناصر کی ترکیب سے مطابقت رکھتا ہے۔ تاہم، اس میں کچھ نامعلوم پہلو بھی ہیں، جیسے کہ سنگولیرٹی کا مسئلہ، ڈارک میٹر اور ڈارک انرجی کی نوعیت، اور ہورائزن مسئلہ۔ کائنات کے وجود اور اس کے مقصد پر سائنسی اور فلسفیانہ دونوں زاویوں سے بحث کی جا سکتی ہے۔ کچھ لوگ اسے محض ایک طبیعیاتی عمل سمجھتے ہیں، جبکہ دیگر اسے اعلیٰ ہستی (اللہ) کی تخلیق کا نتیجہ مانتے ہیں۔ اس لیے، بگ بینگ تھیوری سائنسی لحاظ سے مضبوط تو ہے، مگر اس کے کچھ بنيادى پہلو فلسفي تحقیق اور غور و فکر کے متقاضی ہیں۔

خدا اور کائنات کی خلقت

خدا اور کائنات کی خلقت

اگر خدا خود غیر مادی ہے اور مادہ (میٹر) موجود نہیں تھا، تو خدا نے مادی جہان کو کیسے تخلیق کیا؟ یہ ایک گہرا فلسفیانہ اور کلامی سوال ہے جس پر صدیوں سے مفکرین، فلاسفہ، اور علمائے کرام بحث کرتے آئے ہیں۔ اس کا جواب مختلف نظریاتی اور مذہبی نقطہ نظر سے دیا جا سکتا ہے۔

1-تخلیق (ex nihilo ) لاشیء سے تخلیق

اسلام، مسيحيت اور یہودیت میں عمومی طور پر یہ عقیدہ پایا جاتا ہے کہ خدا نے کائنات کو "عدم سے پیدا کیا" (ex nihilo) یعنی بغیر کسی پہلے سے موجود مواد کے۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: "إِنَّمَا أَمْرُهُ إِذَا أَرَادَ شَيْئًا أَنْ يَقُولَ لَهُ كُنْ فَيَكُونُ"(سورۃ یٰسین: 82) "بے شک اس کا حکم یہی ہوتا ہے کہ جب وہ کسی چیز کا ارادہ کرتا ہے تو اسے کہتا ہے: ’ہو جا‘، تو وہ ہو جاتی ہے۔"

یہ تصور یہ واضح کرتا ہے کہ خدا کسی مادی وسیلے کا محتاج نہیں، بلکہ اس کی قدرت محض اس کے حکم اور ارادے سے چیزوں کو وجود میں لے آتی ہے۔

2- خدا کی صفتِ تخلیق اور علت و معلول کا قانون

فلسفہ میں ایک بحث "علت و معلول" (Cause and Effect) کی ہے، جس کے مطابق ہر چیز کی کوئی نہ کوئی وجہ ہوتی ہے۔ خدا خود واجب الوجود ہے، یعنی اس کا وجود اپنی ذات سے ہے اور وہ کسی اور چیز کا محتاج نہیں۔ چونکہ وہ لامحدود قدرت کا حامل ہے، اس لیے وہ بغیر کسی پہلے سے موجود مواد کے کسی بھی چیز کو پیدا کر سکتا ہے۔

3- جدید سائنسی زاویہ: بگ بینگ اور خلا (Quantum Fluctuations)

سائنس میں بگ بینگ تھیوری کے مطابق، کائنات ایک انتہائی چھوٹے نقطے (Singularity) سے وجود میں آئی، جس سے وقت، جگہ اور مادہ سب نے جنم لیا۔ کوانٹم فزکس میں ایک نظریہ یہ بھی ہے کہ خالی خلا میں بھی Quantum Fluctuations کے ذریعے ذرات خودبخود پیدا ہو سکتے ہیں اور ختم ہو سکتے ہیں۔

اگر طبیعیاتی قوانین خلا سے ذرات پیدا کر سکتے ہیں، تو خدا کی قدرت اس سے کہیں عظیم تر ہے، اور وہ عدم سے بھی تخلیق کر سکتا ہے۔

4- خدا مادی نہیں، مگر وہ مادے کو پیدا کر سکتا ہے

یہ ضروری نہیں کہ جو چیز مادی نہ ہو، وہ مادی چیزوں کو پیدا نہ کر سکے۔ مثال: ہمارا "ارادہ" اور "سوچ" غیر مادی ہیں، مگر وہ مادی اثرات ڈال سکتے ہیں، جیسے انسان کا ایک خیال کسی عمارت یا مشین کے بننے کی بنیاد بن سکتا ہے۔ اسی طرح، خدا کی قدرت، جو غیر مادی ہے، مادی چیزوں کو پیدا کر سکتی ہے۔

نتیجہ

خدا چونکہ لامحدود قدرت اور علم کا مالک ہے، اس لیے وہ بغیر کسی پہلے سے موجود مواد کے بھی کائنات کو وجود میں لا سکتا ہے۔ تخلیق ex nihilo کا تصور فلسفیانہ اور سائنسی دونوں زاویوں سے قابل فہم ہے، اور قرآن میں بھی اس کی تصدیق ہوتی ہے۔

انسانى ترقى اسلام كے آئينه ميں

انسانى ترقى اسلام كے آئينه ميں

اسلام ميں ترقی کا فلسفہ ایک ایسا تصور ہے جو انسانی ترقی کو اسلامی اصولوں اور تعلیمات کے مطابق تشکیل دیتا ہے۔ یہ فلسفہ معاشی، سماجی، سیاسی، اور روحانی ترقی کو ایک متوازن انداز میں پیش کرتا ہے، جس میں انسانی فلاح و بہبود، عدل، مساوات، اور اخلاقی اقدار کو مرکزی حیثیت حاصل ہے۔ اسلامی ترقی کا فلسفہ درج ذیل بنیادی اصولوں پر استوار ہے:

1- توحید اور عبادت کا مرکزی کردار

اسلامی ترقی کا فلسفہ یہ مانتا ہے کہ تمام ترقی کا مقصد اللہ کی رضا حاصل کرنا اور اس کی عبادت کرنا ہے۔ انسان کی تمام ترقی اور کوششیں اللہ کے احکامات کے تابع ہونی چاہئیں۔ ترقی کا مقصد صرف مادی فوائد حاصل کرنا نہیں، بلکہ روحانی اور اخلاقی بلندی بھی ہے۔

2- عدل اور مساوات

اسلامی ترقی کا فلسفہ معاشرے میں عدل اور مساوات کو فروغ دیتا ہے۔ اس میں معاشی عدم مساوات کو کم کرنے، غریبوں اور محتاجوں کی مدد کرنے، اور ہر فرد کو بنیادی حقوق فراہم کرنے پر زور دیا جاتا ہے۔ زکوٰۃ، خمس، صدقات، اور دیگر اسلامی مالیاتی نظام کا مقصد معاشرتی توازن قائم کرنا ہے۔

3- معاشی توازن

اسلامی معاشیات میں سود (ربا) کی ممانعت، منصفانہ تجارت، اور وسائل کی منصفانہ تقسیم پر زور دیا جاتا ہے۔ ترقی کا مقصد صرف دولت کمانا نہیں، بلکہ اس دولت کو معاشرے کی بہتری کے لیے استعمال کرنا ہے۔

4- علم اور تعلیم کی اہمیت

اسلام علم حاصل کرنے کو فرض قرار دیتا ہے۔ اسلامی ترقی کا فلسفہ علم اور تحقیق کو فروغ دیتا ہے، تاکہ معاشرہ ترقی کر سکے۔ علم صرف مادی ترقی کے لیے نہیں، بلکہ روحانی اور اخلاقی ترقی کے لیے بھی ضروری ہے۔

5- انسانی حقوق اور آزادی

اسلامی ترقی کا فلسفہ انسانی حقوق کا احترام کرتا ہے، جس میں جان، مال، عزت، اور آزادی کی حفاظت شامل ہے۔ ہر فرد کو اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لانے کا موقع دیا جانا چاہیے۔

6- ماحولیاتی تحفظ

اسلام فطرت اور ماحول کے تحفظ پر زور دیتا ہے۔ اسلامی ترقی کا فلسفہ یہ ہے کہ زمین اور اس کے وسائل اللہ کی امانت ہیں، اور انہیں محفوظ اور مستحکم رکھنا انسان کی ذمہ داری ہے۔

7- اجتماعی فلاح و بہبود

اسلامی ترقی کا مقصد صرف فرد کی ترقی نہیں، بلکہ پورے معاشرے کی فلاح و بہبود ہے۔ اس میں تعاون، ہمدردی، اور اجتماعی ذمہ داری کو اہمیت دی جاتی ہے۔

8- اخلاقیات اور روحانیت

اسلامی ترقی کا فلسفہ مادی ترقی کے ساتھ ساتھ اخلاقی اور روحانی ترقی پر بھی زور دیتا ہے۔ انسان کو صرف مادی خواہشات تک محدود نہیں رہنا چاہیے، بلکہ اپنے اندر اخلاقی اور روحانی خوبیاں بھی پیدا کرنی چاہئیں۔

9- استخلاف (امام ہونے کا تصور)

اسلام کے مطابق انسان زمین پر اللہ کا خلیفہ ہے، یعنی اسے زمین اور اس کے وسائل کو درست طریقے سے استعمال کرنا ہے۔ اس تصور کے تحت ترقی کا مقصد صرف ذاتی مفاد نہیں، بلکہ اللہ کی امانت کو بہتر طریقے سے استعمال کرنا ہے۔

خلاصہ

اسلامی ترقی کا فلسفہ ایک جامع اور متوازن تصور ہے، جو مادی ترقی کے ساتھ ساتھ روحانی، اخلاقی، اور سماجی ترقی کو بھی اہمیت دیتا ہے۔ یہ فلسفہ انسانی زندگی کے تمام پہلوؤں کو اسلام کے بنیادی اصولوں کے مطابق تشکیل دیتا ہے، تاکہ معاشرہ عدل، مساوات، اور فلاح و بہبود کی بنیاد پر ترقی کر سکے۔

دنیا کی ظاهرى ترقی میں مختلف فلسفیانه نظریات كا كردار

دنیا کی ظاهرى ترقی میں مختلف فلسفیانہ نظریات كا كردار

دنیا کی ظاهري ترقی میں مختلف فلسفیانہ نظریات نے اہم کردار ادا کیا ہے، لیکن کچھ مخصوص فلسفے نمایاں طور پر سائنسی، سماجی، اقتصادی، اور تکنیکی ترقی کا سبب بنے۔ درج ذیل فلسفیانہ نظریات دنیا کی ترقی میں سب سے زیادہ مؤثر ثابت ہوئے:

1- تجربیت (Empiricism) – سائنسی ترقی کی بنیاد

یہ فلسفہ اس نظریے پر مبنی ہے کہ تمام علم مشاہدے اور تجربے سے حاصل ہوتا ہے، نہ کہ محض عقلی سوچ یا الہامی ذرائع سے۔ نمایاں مفکرین: فرانسس بیکن، جان لاک، ڈیوڈ ہیوم۔تجربیت نے سائنسی انقلاب (Scientific Revolution) کی بنیاد رکھی، جس نے دنیا میں جدید سائنس اور ٹیکنالوجی کی ترقی کو ممکن بنایا۔

2- عقلانيت (Rationalism) – منطق اور استدلال کی اہمیت

یہ فلسفہ کہتا ہے کہ انسان عقل اور منطق کے ذریعے حقیقت کو سمجھ سکتا ہے، اور اكثر علم استدلال (Reason) اور تجزیے سے حاصل ہوتا ہے۔ نمایاں مفکرین: رینے ڈیکارٹ، باروخ اسپینوزا، گٹفریڈ لائبنز۔ عقلانيت نے ریاضی، طبیعیات، اور فلسفہ میں انقلاب برپا کیا اور جدید سائنسی طریقہ کار (Scientific Method) کی تشکیل میں مدد دی۔

3- روشن خیالی (Enlightenment) – آزادی، جمہوریت، اور ترقی

یہ فلسفہ انسانی آزادی، جمہوریت، سائنسی فکر، اور عقلی سوچ پر زور دیتا ہے اور مذہبی انتہا پسندی اور بادشاہی حکومتوں کے خلاف تھا۔ نمایاں مفکرین: عمانوئیل کانٹ، والٹیر، روسو، جان لاک۔ جمہوری انقلابوں (جیسے فرانسیسی اور امریکی انقلاب) کو جنم دیا۔ جدید انسانی حقوق، آئینی حکومت، اور تعلیم کے فروغ کا باعث بنا۔صنعتی انقلاب (Industrial Revolution) کی راہ ہموار کی۔

4- مادیت (Materialism) – سائنسی اور صنعتی ترقی کا نیا نظریہ

یہ فلسفہ کہتا ہے کہ دنیا مادی قوانین کے مطابق چلتی ہے، اور ہر چیز کو طبعی سائنسی اصولوں سے سمجھا جا سکتا ہے۔

نمایاں مفکرین: کارل مارکس، فریڈرک اینگلز، تھامس ہابز۔ سوشلسٹ اور کمیونسٹ تحریکوں کو جنم دیا، جس سے معاشرتی انصاف اور مزدوروں کے حقوق کی جدوجہد کو فروغ ملا۔ ٹیکنالوجی اور صنعت میں جدیدیت کا سبب بنا، کیونکہ سائنسی ترقی کو معیشت اور سماج سے جوڑ دیا گیا۔

5-عملیت (Pragmatism) – ٹیکنالوجی اور سائنسی ترقی کی بنیاد

یہ فلسفہ کہتا ہے کہ حقیقت کا اندازہ اس کے عملی نتائج سے لگایا جا سکتا ہے، یعنی کوئی نظریہ اسی وقت قابل قبول ہوگا جب وہ عملی فوائد فراہم کرے۔ نمایاں مفکرین: ویلیئم جیمز، جان ڈیوی، چارلس پیرس۔ امریکہ کی صنعتی ترقی اور کاروباری فلسفے کی بنیاد بنا۔ جدید ٹیکنالوجی، سائنسی تحقیق، اور تعلیم کے فروغ میں مدد کی۔

نتیجہ

دنیا کی ظاهري ترقی میں سب سے زیادہ تجربیت (Empiricism)، روشن خیالی (Enlightenment)، اور عملیت (Pragmatism) نے اہم کردار ادا کیا۔ سائنسی ترقی، صنعتی انقلاب، جمہوریت، اور ٹیکنالوجی کی ترقی ان فلسفوں کے مرہون منت ہیں۔

ذیمقراطیس کے نظریہ اتم کا رد

ذیمقراطیس کے نظریہ اتم کا رد

اگرچہ ذیمقراطیس کا نظریہ اتم ایک ابتدائی اور انقلابی تصور تھا، لیکن اس میں کئی کمزوریاں اور سائنسی خامیاں تھیں، جن کے باعث اسے کئی فلاسفہ اور بعد میں سائنسدانوں نے رد کیا۔ اس نظریے پر تنقید درج ذیل وجوہات کی بنیاد پر کی گئی:

1- نظریہ تجرباتی شواہد کے بغیر تھا

ذیمقراطیس نے اپنا نظریہ محض فلسفیانہ بنیادوں پر قائم کیا، جبکہ اس کے پاس کوئی سائنسی تجربات یا مشاہدات نہیں تھے جو اس کے دعووں کی تصدیق کرتے۔ اس وجہ سے، اس کے ہم عصر فلاسفہ، خاص طور پر ارسطو نے اس نظریے کو رد کر دیا اور کہا کہ مادہ تسلسل (Continuous) رکھتا ہے، نہ کہ الگ الگ ناقابل تقسیم ذرات پر مشتمل ہے۔

2- اتم کی ناقابل تقسیم ہونے کا نظریہ غلط ثابت ہوا

ذیمقراطیس کا ماننا تھا کہ اتم ناقابل تقسیم (Indivisible) ہیں، جبکہ جدید سائنس نے یہ ثابت کر دیا کہ اتم مزید چھوٹے ذرات (الیکٹران، پروٹون، اور نیوٹرون) پر مشتمل ہوتے ہیں۔ یہاں تک کہ پروٹون اور نیوٹرون بھی کوارکس (Quarks) سے بنے ہوتے ہیں، جس سے واضح ہوتا ہے کہ اتم سب سے بنیادی ذرہ نہیں ہے۔

3- تمام اتموں کی مختلف اشکال اور سائز کا تصور غلط تھا

ذیمقراطیس کا دعویٰ تھا کہ مختلف قسم کے مادے، اتموں کی شکل اور سائز میں فرق کی وجہ سے وجود میں آتے ہیں، جیسے کہ پانی کے اتم ہموار ہوتے ہیں اور آگ کے اتم نوک دار ہوتے ہیں۔ تاہم، جدید کیمیا اور طبیعیات نے یہ ثابت کیا کہ اتم مخصوص عناصر پر مشتمل ہوتے ہیں اور ان کی خصوصیات الیکٹرانک اسٹرکچر سے طے ہوتی ہیں، نہ کہ محض شکل اور سائز سے۔

4- نظریہ کیمیائی تعاملات کی وضاحت کرنے میں ناکام تھا

ذیمقراطیس کا نظریہ صرف یہ بیان کرتا تھا کہ اتم خلا میں حرکت کرتے ہیں اور مختلف اشیاء کی تشکیل کرتے ہیں، لیکن یہ وضاحت نہیں کرتا تھا کہ کیمیائی تعاملات (Chemical Reactions) کس طرح ہوتے ہیں۔ جدید سائنس نے دکھایا کہ کیمیائی تعاملات ایٹمز کے الیکٹرانز کے درمیان تعامل سے ہوتے ہیں، جو کہ ذیمقراطیس کے نظریے میں شامل نہیں تھا۔

5-طبیعی قوانین اور قوتوں کا کوئی ذکر نہیں تھا

ذیمقراطیس کے نظریے میں یہ وضاحت نہیں کی گئی کہ اتم کس طرح ایک دوسرے کے ساتھ جڑتے ہیں یا کیوں وہ مخصوص پیٹرن میں ترتیب پاتے ہیں۔ جدید طبیعیات نے ثابت کیا کہ مادہ بنیادی طور پر چار بنیادی قوتوں (ثقل، برقی مقناطیسیت، کمزور اور مضبوط جوہری قوت) کے تحت کام کرتا ہے، جن کا ذیمقراطیس کے نظریے میں کوئی ذکر نہیں تھا۔

نتیجہ

اگرچہ ذیمقراطیس کا نظریہ اتم ایک جدید سائنسی فکر کی بنیاد تھا، لیکن اس کی کئی خامیوں اور سائنسی شواہد کی کمی کی وجہ سے یہ مکمل طور پر درست ثابت نہ ہو سکا۔ بعد میں جان ڈالٹن، آئن سٹائن اور دیگر سائنسدانوں نے اس نظریے کو بہتر بنایا اور تجرباتی شواہد کی مدد سے ایٹمی ساخت کا حقیقی ماڈل پیش کیا۔ اس لیے، ذیمقراطیس کا نظریہ ایک ابتدائی تصور تو تھا، لیکن جدید سائنسی اصولوں کے مطابق اسے مکمل طور پر درست نہیں مانا جا سکتا۔

ذیمقراطیس کا نظریہ اتم 

ذیمقراطیس کا نظریہ اتم

ذیمقراطیس (Democritus)، جو کہ ایک یونانی فلسفی تھا اور پانچویں اور چوتھی صدی قبل مسیح میں زندگی گزار رہا تھا، ان اولین مفکرین میں سے تھا جنہوں نے مادے کی ساخت کے بارے میں نظریہ پیش کیا۔ اس نے اپنے استاد لیوکیپوس (Leucippus) کے ساتھ مل کر ایک نظریہ پیش کیا، جو بعد میں نظریہ اتم کے نام سے مشہور ہوا۔

ذیمقراطیس کے نظریہ کے بنیادی اصول:

ہر چیز اتموں اور خالی خلا پر مشتمل ہے: اس کا ماننا تھا کہ تمام اشیاء بہت چھوٹے ذرات سے بنی ہیں جو مزید تقسیم نہیں کیے جا سکتے، اور انہیں اتم (ἄτομος – atomos، یعنی "ناقابل تقسیم") کہا جاتا ہے۔

اتم مقدار، شکل اور حرکت میں مختلف ہوتے ہیں: اس کے مطابق، مختلف مادوں میں فرق ان کے اتموں کی شکل، حجم اور حرکت کی وجہ سے ہوتا ہے۔ مثلاً، پانی کے اتم ہموار اور گول ہوتے ہیں، جبکہ آگ کے اتم نوک دار اور تیز ہوتے ہیں۔

اتم خلا میں حرکت کرتے ہیں: ذیمقراطیس کے مطابق، اتموں کے درمیان خالی جگہ موجود ہوتی ہے، جو انہیں آزادانہ حرکت کرنے کی اجازت دیتی ہے۔ یہ خیال اس وقت کے کچھ دیگر فلاسفہ، جیسے پارمیندس، کے نظریے کے خلاف تھا، جو خلا کے وجود کو مسترد کرتے تھے۔

کائنات فطری قوانین کے مطابق چلتی ہے: اس کا عقیدہ تھا کہ دنیا میں ہر چیز ایک قدرتی اصول کے مطابق وقوع پذیر ہوتی ہے، اور دیوتاؤں کا ان میں کوئی عمل دخل نہیں ہوتا۔

ذیمقراطیس کے نظریہ کا اثر:

ذیمقراطیس کا نظریہ کئی صدیوں تک زیادہ مقبول نہ ہو سکا کیونکہ ارسطو جیسے مشہور فلاسفہ نے اس کو رد کر دیا اور اس کے بجائے چار عناصر (مٹی، پانی، ہوا، آگ) کے نظریے کو ترجیح دی۔ تاہم، انیسویں صدی میں جان ڈالٹن جیسے سائنسدانوں نے اتمی نظریہ کو دوبارہ زندہ کیا اور یہ جدید کیمیائی سائنس کی بنیاد بن گیا۔

مختصراً، ذیمقراطیس کو مادے کے ایٹمی نظریے کا بانی کہا جا سکتا ہے، اگرچہ اس کا نظریہ فلسفیانہ بنیادوں پر تھا، نہ کہ سائنسی تجربات پر۔

دینداری کی علت کیا ہے؟

دینداری کی علت کیا ہے؟

دینداری اور خدا پرستی کے محرکات کے بارے میں مختلف نظریات پیش کیے گئے ہیں:

فریڈرک اینگلز (ایک مادہ پرست فلسفی) کا کہنا ہے کہ دین انسان کی محدود اور ناقص عقل کی پیداوار ہے۔

اگست کومٹ، جنہیں عمرانیات (سوشیالوجی) کے بانی کے طور پر جانا جاتا ہے، کا نظریہ ہے کہ مذہب کی جڑ اور محرک انسان کی قدرتی اسباب سے لاعلمی ہے۔


جواب:

خدا پرست یہ نہیں مانتے کہ قدیم زمانے میں انسان قدرتی اسباب سے بے خبر نہیں تھا، اور یہ بھی تسلیم کرتے ہیں کہ علم اور سائنس کی ترقی نے بہت سے رازوں سے پردہ اٹھایا ہے۔
تاہم، خدا پرستوں کا یہ مؤقف ہے کہ نہ تو سابقہ جہالت دینداری کی وجہ تھی اور نہ ہی موجودہ علم دینداری کے لیے رکاوٹ بن سکتا ہے۔

خدا پرستوں کا یقین ہے کہ تمام مادی اور محسوس عوامل کے پیچھے ایک مطلق اور قادر ہستی ہے، جو ہر چیز کا سرچشمہ ہے اور تمام اسباب اور عوامل اسی سے وجود پاتے ہیں۔

مزید تفصیلات کے لیے:

آیت اللہ بروجردی کی کتاب درس‌هایی از توحید کے دوسرے اور تیسرے مباحث کا مطالعہ کریں۔

انسان کى حقيقت كيا ہے؟

انسان کى حقيقت كيا ہے؟

تحرير: سيد غيور الحسنين

اسلامی فلسفہ میں انسان کی تعریف ایک جامع اور متوازن تصور پر مبنی ہے، جو انسان کو ایک مادی اور روحانی مخلوق کے طور پر پیش کرتا ہے۔ انسان کی تعریف کے مختلف پہلو قرآن، حدیث، اور اسلامی فلسفیوں کی تحریروں میں پائے جاتے ہیں.

اسلامی فلسفہ میں انسان کو دو بنیادی عناصر کا مجموعہ سمجھا جاتا ہے:

1- جسم (مادہ)

انسان کا مادی جسم اسے زمین سے جوڑتا ہے اور اسے دنیاوی معاملات میں حصہ لینے کے قابل بناتا ہے۔ الله تعالى قرآن ميں فرماتا ہے: "ہم نے انسان کو مٹی کے خلاصے سے پیدا کیا"۔ [سورہ المؤمنون: 12]

2- روح (غیر مادی)

روح انسان کی حقیقت اور اس کی اعلیٰ ترین پہچان ہے، جو اسے فرشتوں اور دیگر مخلوقات سے ممتاز کرتی ہے۔ الله تعالى قرآن ميں فرماتا ہے: "اور میں نے اس میں اپنی روح پھونکی"۔ [سورہ الحجر: 29]

انسان کی صفات

اسلامی فلسفہ میں انسان کی درج ذیل خصوصیات کو نمایاں کیا گیا ہے:

الف- عقل و شعور: عقل انسان کو دیگر مخلوقات سے ممتاز کرتی ہے اور اسے اچھے اور برے کی پہچان کے قابل بناتی ہے۔ امام علیؑ: "عقل انسان کا سب سے بڑا سرمایہ ہے"۔ [نہج البلاغہ، حکمت 4]

ب- اختیار و آزادی: انسان کو اعمال کے انتخاب میں آزادی دی گئی ہے، اور یہی اس کے امتحان کی بنیاد ہے۔ الله تعالى قرآن ميں فرماتا ہے: "ہم نے انسان کو راستہ دکھایا، چاہے وہ شکر گزار بنے یا ناشکرا"۔ [سورہ الدھر: 3]

ج- خلیفۂ خدا ہونا: انسان کو زمین پر اللہ کا نائب اور خلیفہ بنایا گیا ہے، جو اس کی عظمت اور ذمہ داری کو ظاہر کرتا ہے۔ الله تعالى قرآن ميں فرماتا ہے: "میں زمین میں اپنا خلیفہ بنانے والا ہوں"۔ [سورہ البقرہ: 30]

د- اخلاقی و روحانی ترقی: انسان کی زندگی کا مقصد روحانی اور اخلاقی کمال حاصل کرنا ہے۔ امام جعفر صادقؑ: "انسان کی حقیقت اس کے اخلاق میں ہے"۔

انسان کے مقاصد

اسلامی فلسفہ میں انسان کی تخلیق کا مقصد صرف دنیاوی زندگی نہیں، بلکہ وہ روحانی کمال ہے جو اسے اللہ تعالى کے قریب کر سکے:

1- عبادت و بندگی: الله تعالى قرآن ميں فرماتا ہے: "میں نے جنات اور انسانوں کو صرف اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا" [سورہ الذاریات: 56]۔

2- علم و معرفت کا حصول: انسان کو علم کی طلب اور جستجو کی صفت دی گئی ہے۔ حدیث نبویؐ: "علم حاصل کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے"۔

3- سماجی ذمہ داری: اسلامی فلسفہ میں انسان کو ایک اجتماعی مخلوق قرار دیا گیا ہے جو عدل، محبت، اور تعاون کے اصولوں پر معاشرہ تشکیل دیتا ہے۔ الله تعالى قرآن ميں فرماتا ہے: "تم بہترین امت ہو جو لوگوں کے لیے بھیجی گئی ہے"۔ [سورہ آل عمران: 110]

انسان اور کمال کا فلسفہ

اسلامی فلسفی، جیسے ابن سینا انسان کو "ناطق حیوان" (عقل رکھنے والا جاندار) کہتے ہیں، جو علم اور عمل کے ذریعے کمال حاصل کرتا ہے۔

ملا صدرا (صدر الدین شیرازى) کے مطابق انسان کی حقیقت اس کی روحانی ترقی ہے، جو حرکتِ جوہری کے ذریعے اپنی معراج تک پہنچتی ہے۔ وہ کہتے ہیں: "انسان ایک ممکن الوجود ہے جو اپنی قابلیتوں کے ذریعے اللہ تعالى کے نور کے قریب ہو سکتا ہے"۔

فارابی کے مطابق انسان ایک سماجی مخلوق ہے، اور اس کی تکمیل معاشرے میں رہ کر حاصل ہوتی ہے۔

لهذا انسان اسلامى فلسفه کے مطابق ایک مادی و روحانی مخلوق ہے۔ علم، عقل، اور اختیار رکھتا ہے۔ خدا کا خلیفہ ہے اور عبادت و کمال کا طلب گار ہے۔ سماجی ذمہ داری اور روحانی ترقی کی طرف متوجہ ہے۔ یہ جامع تصور انسان کو زندگی کے ہر پہلو میں ایک متوازن کردار ادا کرنے کا درس دیتا ہے، جو نہ صرف دنیاوی بلکہ اخروی کامیابی کے لیے ضروری ہے۔

الاتّجاه النصّي والاتّجاه العقلي

الاتّجاه النصّي والاتّجاه العقلي

سيد غيور الحسنين

تفسير النصوص الدِّينيّة والأدبيّة يمثّل نقطة تقاطع بين عدّة توجّهات منهجيّة، يتباين فيها الفكر والتطبيق. ويعتبر الاتّجاه النصّي والاتّجاه العقلي من أبرز المناهج المستخدمة لفهم النصوص وتحليلها. ولكل اتّجاه منهما مبادئه الخاصّة، الّتي تعكس أولوياته وأهدافه.

الاتّجاه النصّي: تعريفه ومبادئه

يعتمد الاتّجاه النصّي على التركيز الحصري على النص بوصفه المصدر الأساسي والوحيد للمعرفة والفهم. في هذا المنهج، يتمّ التّعامل مع النص ككيان مستقلّ، لا يتأثّر بالسياقات الخارجيّة أو الظروف التاريخيّة والاجتماعيّة المحيطة به.

المبادئ الأساسيّة للاتّجاه النصّي

1. النص كمرجع أساسي:

يتم تفسير النصوص بناءً على ألفاظها ومعانيها المباشرة. التركيز يكون على اللّغة، القواعد، والأساليب الأدبيّة المستخدمة.

2. تجنّب التأويل المفرط:

يُنظر بعين الريبة إلى التأويلات الّتي تبتعد عن المعاني الظاهرة للنص، حيث يُعتبر ذلك خرقًا لسلامة النص واستقلاليّته. بعبارة أخرى: ينكر العقل من حيث المصدر والمنهج.

3. استقلاليّة النص:

النص يُعامل على أنّه كيان مكتمل بذاته، وليس مجرّد انعكاس لسياقات اجتماعيّة أو تاريخيّة.

4. رفض التّدخُّل الذّاتي:

يتمّ السعي إلى تقليل أثر المفسر أو القارئ على النص، والتركيز على الموضوعيّة في التحليل.

5. استخدام أدوات لغويّة وأدبيّة:

يستعين الاتّجاه النصّي بأدوات مثل تحليل المفردات، البناء النحوي، ودراسة الإيقاع والأسلوب لفهم النص.

الاتّجاه العقلي: تعريفه ومبادئه

في المقابل، يعتمد الاتجاه العقلي على إعمال العقل والمنطق في تفسير النصوص، ويهدف إلى فهم أعمق يعكس الظروف والسياقات الّتي أُنتج فيها النص. يرى هذا الاتّجاه أنّ النصوص لا يمكن فصلها عن تطوّر الفكر الإنساني والتحدّيّات الّتي يواجهها المجتمع.

المبادئ الأساسيّة للاتّجاه العقلي

1. إعمال العقل والمنطق:

يعتمد هذا الاتّجاه على التحليل العقلي لفهم النصوص، وتجاوز المعاني الحرفيّة إذا تعارضت مع المبادئ العقليّة أو القيم الإنسانيّة

2. السياق التاريخي والاجتماعي:

يتم تفسير النصوص بناءً على الظروف التاريخيّة والاجتماعيّة الّتي أُنتجت فيها، ممّا يساعد على فهم الخلفيّات الّتي أثّرت في تكوينها.

3. البحث عن المقاصد:

يُركّز الاتّجاه العقلي على مقاصد النصوص وأهدافها الأساسيّة، وليس فقط على المعاني الحرفيّة.

4. التأويل المفتوح:

يُشجّع هذا الاتّجاه التأويل الّذي يتناسب مع تطوّر الزمن وظروف العصر، ويُعتبر أنّ النصوص يجب أن تكون مرنة لتلائم السياقات المختلفة. يقبل العقل من حيث المصدر والمنهج.

5. الاستفادة من العلوم المختلفة:

يستخدم هذا الاتّجاه معارف متعدّدة مثل الفلسفة، علم الاجتماع، والتاريخ لفهم النصوص بشكل أشمل.

المقارنة بين الاتّجاهين

بينما يُعطي الاتّجاه النصي الأولويّة للنص ذاته ويُركّز على ألفاظه ودلالاته المباشرة، يتوسّع الاتّجاه العقلي ليشمل السياقات الخارجيّة والعقلانيّة. النص في الاتّجاه النصّي يُعتبر نهائيًا ومطلقًا، بينما في الاتّجاه العقلي، يُعتبر نقطة انطلاق لفهم أعمق. يُفضّل الاتّجاه النصّي البساطة والموضوعيّة، بينما يُركّز الاتّجاه العقلي على التّأويل الإبداعي والمرونة.

الخاتمة

إنّ الاختلاف بين الاتّجاه النصّي والاتّجاه العقلي في تفسير النصوص يعكس تنوّع الفهم الإنساني وثراء المناهج التّحليليّة. كل من الاتّجاهين يُقدّم أدوات فعالة لفهم النصوص، إلّا أنّ الجمع بينهما قد يوفّر رؤية متوازنة تجمع بين احترام النص وإعمال العقل لفهمه في سياقاته المتعددة.

لیبرالیزم کی بنیادیں اور اس کا رد

لیبرالیزم کی بنیادیں اور اس کا رد

تحرير: سيد غيور الحسنين

لیبرالیزم (Liberalism) ایک فکری و سیاسی نظریہ ہے جو آزادی، فرد کے حقوق، اور جمہوری اقدار کو مرکزیت دیتا ہے۔ اس نظریہ کی بنیادیں مغربی فکر سے نکلتی ہیں اور یہ بنیادی طور پر روشن خیالی (Enlightenment) کے دور سے متعلق ہے۔ لیبرالیزم کا بنیادی مقصد انسانی آزادی کو فروغ دینا اور افراد کو ریاستی یا دیگر ادارتی جبر سے محفوظ رکھنا ہے۔

لیبرالیزم کی بنیادیں:

1- فرد کی آزادی:

لیبرالیزم کا بنیادی اصول یہ ہے کہ ہر فرد کو ذاتی، سیاسی، اور مذہبی آزادی حاصل ہونی چاہیے۔ فرد کو اپنی زندگی کے فیصلے خود کرنے کا حق ہے، جب تک کہ اس سے دوسروں کو نقصان نہ پہنچے۔

2- قانون کی حکمرانی (Rule of Law):

لیبرالیزم اس بات پر زور دیتا ہے کہ معاشرے میں قانون سب کے لیے برابر ہو اور کوئی بھی قانون سے بالاتر نہ ہو۔

3- جمہوریت:

لیبرالیزم جمہوری نظام کی حمایت کرتا ہے، جہاں عوام کو حکومت کے انتخاب کا حق ہو اور حکمران عوام کے سامنے جوابدہ ہوں۔

4- معاشی آزادی:

کلاسیکی لیبرالیزم آزاد منڈی (Free Market) کی حمایت کرتا ہے، جہاں معیشت کو حکومتی مداخلت سے آزاد رکھا جائے۔

5- مذہبی آزادی:

لیبرالیزم فرد کے مذہبی عقائد کی آزادی کو اہم سمجھتا ہے اور مذہب کو ریاستی معاملات سے الگ رکھنے کا حامی ہے۔

6- برداشت اور رواداری:

مختلف خیالات، عقائد، اور ثقافتوں کے ساتھ برداشت کا مظاہرہ لیبرالیزم کا ایک لازمی جزو ہے۔

لیبرالیزم کا رد (تنقید):

1- فردیت پسندی کا نقصان:

لیبرالیزم فرد کی آزادی پر اتنا زور دیتا ہے کہ یہ اجتماعی اقدار اور خاندانی نظام کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔ اسلام اور دیگر روایتی معاشرے فرد کے بجائے خاندان اور معاشرے کو مرکزیت دیتے ہیں۔ اسلام فرد کو آزادی دیتا ہے لیکن یہ آزادی الٰہی حدود کے اندر ہوتی ہے۔ مطلق آزادی کے بجائے اسلامی معاشرتی نظام میں فرد اور معاشرے کے درمیان توازن برقرار رکھا جاتا ہے۔

2- اخلاقی نسبیت:

لیبرالیزم میں کسی بھی مطلق اخلاقی اصول کا انکار کیا جاتا ہے، جس سے معاشرتی بے راہ روی اور اخلاقی بحران جنم لے سکتے ہیں۔ لیبرالیزم میں قانون انسانی خواہشات کے تحت بنتا ہے، جبکہ اسلام میں قانون قرآن و سنت پر مبنی ہے جو خدائی رہنمائی فراہم کرتا ہے۔ اسلامی معاشرت میں اخلاقی اصول مطلق ہیں اور ان کا مقصد انسان کو روحانی، اخلاقی اور سماجی لحاظ سے بلند کرنا ہے۔

3- مذہب سے دوری:

لیبرالیزم میں مذہب کو ذاتی معاملہ سمجھا جاتا ہے اور اسے ریاستی امور سے دور رکھا جاتا ہے۔ اسلامی نقطہ نظر کے مطابق، دین ایک ہمہ گیر نظام ہے جو زندگی کے تمام پہلوؤں پر محیط ہے۔ اسلام مذہب کو نجی معاملہ نہیں بلکہ اجتماعی زندگی کا لازمی حصہ قرار دیتا ہے۔

4- سرمایہ داری کا غلبہ:

لیبرالیزم کا معاشی پہلو سرمایہ داری کو فروغ دیتا ہے، جس کے نتیجے میں معاشرتی ناانصافی اور امیر و غریب کے درمیان فرق بڑھتا ہے۔ اسلام سرمایہ داری اور اشتراکیت کے درمیان ایک معتدل نظام پیش کرتا ہے، جہاں دولت کی منصفانہ تقسیم اور زکوٰۃ و خمس کا نظام موجود ہے۔

5- ثقافتی انحطاط:

لیبرالیزم کے تحت اظہار رائے کی آزادی کے نام پر وہ چیزیں بھی قبول کی جاتی ہیں جو اسلامی یا مشرقی اقدار کے خلاف ہوتی ہیں، جیسے فحاشی اور بے حیائی۔

نتیجہ:

لیبرالیزم ایک مغربی نظریہ ہے جو آزادی اور حقوق پر زور دیتا ہے، لیکن اسلامی نقطہ نظر سے اس میں کئی خامیاں ہیں، خاص طور پر اس کا مذہب اور اخلاقیات سے دور ہونا۔ اسلامی نظام، جو الٰہی رہنمائی پر مبنی ہے، فرد، معاشرہ، اور ریاست کے درمیان ایک مثالی توازن قائم کرتا ہے۔

قدرت الهی از منظر امامیه

قدرت الهی از منظر امامیه

استاد راهنما: دکتر سید غیور الحسنین

تأليف: مستفید حسین

چکیده

برای اثبات قدرت خداوند بسیار دلایل عقلی و نقلی وجود دارند. سؤال اين است که آیا خداوند می‌تواند سنگی را خلق کند که خود توان برداشتن آن ندارد ؟ اگر پاسخ این سوال مثبت بدهیم لازم می‌آید که خداوند قدرت برداشتن آن ندارد و اگر پاسخ منفی دهیم لازم می‌ آید که خداوند قدرت خلق آن ندارد. یا اینکه آیا خداوند متعال می‌تواند مثل خود یک خدای خلق کند ؟این سوال از هر دو طرف منافی عقاید بنیادی است چون اگر پاسخ آن مثبت بدهیم تعدد آلِه لازم می ‌آید و اگر پاسخ منفی دهیم همان ناتوانی خلق لازم می‌آید. وقتی این سوال‌ها را با دقت مطالعه کردیم، پی بردیم که این سوال‌ها یا محال ذاتی است یعنی فی حد نفسه محال هستند یا محال وقوعی است یعنی فی حد نفسه نیستند ولی لازمه‌اش محال ذاتی می‌شود.

کلید واژه: معطی، نا متناهی، ملحد، واجب الوجود، ممکن الوجود، محال، مؤید

ادامه نوشته

جبر و اختيار

جبر و اختيار

استاد مشرف: سيد غيور الحسنين

تحرير: سيد خورشيد حيدر شيرازي

خداوند متعال خالق حقیقی انسان ، انسان کو خلق کرنے کے بعد فرماتا ہے: "لَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنْسَانَ فِي أَحْسَنِ تَقْوِيمٍ".(1) اللّٰہ تعالیٰ نے انجیر،زیتون،طور سینا اور شہر مکہ کی قسم ذکر کر کے ارشاد فرمایا کہ بیشک ہم نے انسان کو سب سے اچھی شکل وصورت میں پیدا کیا ،اس کے اَعضاء میں مناسبت رکھی، اسے جانوروں کی طرح جھکا ہوا نہیں بلکہ سیدھی قامت والا بنایا، اسے جانوروں کی طرح منہ سے پکڑ کر نہیں بلکہ اپنے ہاتھ سے پکڑ کر کھانے والا بنایا اوراسے علم، فہم، عقل، تمیز اور باتیں کرنے کی صلاحیت سے مُزَیّن کیا۔اور مخلوقات میں دوسري موجودات پر فضیلت بخشتے ہوئے أشرف المخلوقات قرار دیا کیونکہ انسان تفکر کے ذریعے قرب الہی کی خاطر کمالات کی طرف سفر کرتا ہے۔ پھر اسی أشرف مخلوق پر لطف و کرم کرتے ہوئے اس کی هدایت کی خاطر أنبیاء ،آئمه ،کتب آسمانی کے ذریعے اپنی حجت اس پر تمام کی اور فرمایا: "إِنَّا هَدَيْنَاهُ السَّبِيلَ إِمَّا شَاكِرًا وَ إِمَّا كَفُورًا ".(2) یقینا ہم نے اسے راستہ دکھا دیا ہے۔ چاہے وہ شکر گذار ہو جائے یا کفران نعمت کرنے والا بن جائے۔

هدایت کے بعد شکر گزار بننا اور کفران نعمت کرنے والا ہونا اس کا اختیار انسان کے ہاتھ میں دیا گیا، مگر کیا حقیقت یہی ہے یا نہیں؟ آیا انسان بااختیار ہے یا مجبور؟ اگر بااختیار ہے تو اُس اختیار کا کوئی مخصوص دائرہ ہے؟!!! اور اس طرح کے دسیوں سوالات زمانہ قدیم سے "جبر و اختیار انسان " کے عنوان سے ہونے والی بحثوں میں مختلف مکاتب فکر کے ہاں مطرح ہوتے رہے ہیں اور اس پر مختلف نظریات قائم کیے گیے ہیں۔ اور عرصہ دراز سے اس مسئلہ نے عقل بشری کو مشکلات میں مبتلا کیا ہوا ہے۔ کیونکہ " جبر و اختیار انسان" ایک دقیق، مهم اور حساس بحث ہے اس لیے اس پر بہت زیادہ تحقیق کی جا چکی ہے مگر اس حوالے سے یہ موضوع تشنگی کا شکار رہا کہ انسان کا مجبور و مختار ہونا اسکی زندگی پر کیا اثر رکھتا ہے۔اس تشنگی کو مد نظر رکھتے ہوتے اس مختصر مقالہ میں چند عرائض پیش کی گئي ہیں۔

جبر و اختیار کے لغوی اور ا صطلاحی معنی:

اختیار:

لغت میں لفظ اختیار سے مراد یہ ہے کہ کوئی حکم چلانے کی اہلیت، کسی بات یا معاملے پر پورا پورا تصرف حاصل ہونے کی حیثیت، اپنی مرضی کے مطابق کام کرنے کی قدرت رکھتا ہو۔

جبر:

لغت میں لفظ جبر سے مراد یہ ہے کہ کسی پر دباؤ ،زور، زبردستی، اکراہ، ظلم کے ساتھ کوئی حکم مسلط کیا جائے یہ اختیار کی ضد ہے۔

ا صطلاح میں اس سے مراد انسان کا اپنے افعال کو انجام دینے میں آزاد یا قید ہونا ہے یعنی انسان کے اعمال اس کے اپنے ارادہ کے تحت ہیں یا اس کی مرضی کے بغیر کروائے جاتے ہیں۔(3)

مجبور و مختار یعنی یہ کہ انسان صاحب اختیار ہے یا نہیں، یہ مسئلہ ہمیشہ سے فلسفیوں میں زیر بحث رہا ہے، اور مختلف گروہ اس پر اپنی رائے قائم کر چکے ہیں۔ ایک گروہ معتقد ہے کہ انسان اپنی مرضی کا مالک نہیں ہے بلکہ اس کی مرضی اس کی تعلیم و تربیت اور دوسرے امور اس کے ارادہ سے وقوع پذیر نہیں ہوتے یعنی اس گروہ کے مطابق انسان مجبور مطلق ہے جو کہ قدیم یونانی فلسفیوں کا نظریہ تھا۔ آغاز میں مسلمانوں نے بھی اس امر کی طرف رجحان رکھا۔ ان کا عقیدہ تھا کہ انسان کے اعمال و افعال کی تفصیل لوح محفوظ پر رقم ہو چکی ہے اور کوئی شخص صاحب قدرت نہیں ہے جو کہ اس لکھے ہوئے کو تبدیل کر سکے۔ مگر معتزلہ نے اس نظریے کی مخالفت کی۔ وہ انسان کی آزادی کے قائل تھے اور اسے مختار مطلق کہتے تھے ۔ پہلے گروہ کو جبریہ دوسرے کو قدریہ کہتے ہیں۔مگر ایک تیسرا نظریہ بھی اس فہرست میں شامل ہے جو پہلے دونوں نظریوں سے الگ ہے۔ وہ نہ تو انسان کے مطلق اختیار کا قائل ہے اور نہ ہی اس کے مطلق مجبور ہونے کا بلکہ وہ انسان کی حالت کو درمیانہ کہتا ہے کہ ایک ایسی حالت جیسے نہ تو اختیار کہا جا سکتا ہے نہ ہی مجبور، یعنی وہ نہ مختار مطلق ہے اور نہ مجبور مطلق ہے۔ شیعہ امامیہ کے علاوہ بھی چند گروہ اس نظریہ کے قائل ہیں۔

مجبور مطلق:

عقیدۂ خلق قرآن کا بانی جعد بن درهم جس نے ایک قدیمی بحث(کلام خدا قدیم ہے یا حادث) پر اپنی رائے کو قائم کرتے ہوئے ایک نئے نظریے کو قائم کیا اس کے شاگردوں میں سے ایک شاگرد جس کا نام جہم بن صفوان تھا اس نے عقیدہ جبر کی بنیاد رکھی۔جو اصلا کوفی نسل میں سے تھا یہ خلافت بنو امیہ کے دور میں نہر جیحون کے کنارے واقع شہر ترمذ میں پیدا ہوا ۔اس نے تشبیہ بالله کے موضوع میں اتنی شدت اختیار کی کہ تعطیل کا قائل ہو گیا۔اور اس کے علاوہ بھی بہت سے جاهلانہ عقائد کی بنیاد رکھی۔ جہمیہ کا کہنا ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ کی تمام صفات مخلوق ہیں، وہ ایک ایسے خیالی خدا پر ایمان رکھتے ہیں جس کا تصور کرنا ذہن ہی میں ممکن ہے کیونکہ حقیقت میں جو بھی چیز وجود رکھتی ہے اُس کی صفات ہوتی ہے۔ صفات سے علیحدہ کسی ذات کا حقیقت میں وجود نہیں ہے۔جہمیہ اس بات کے قائل ہیں کہ بندہ مُسَيَّر ہے (یعنی اسے چلایا جاتا ہے) نہ کہ مُخير۔ (یعنی اس کے پاس کوئی اختیار نہیں ہے)۔گناہوں کے ارتکاب پر تقدیر کو حجت بناتے ہیں کیوں کہ کائنات میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ اللہ کے ارادے اور مشیئت سے ہورہا ہے۔ جبریہ کی دو قسمیں ہیں: خالص جبریہ (یعنی غلوکرنے والے): یہ وہ لوگ ہیں جو بندے کے لیے سِرے سے نہ تو کسی فعل کا اثبات کرتے ہیں اور نہ ہی فعل کی قدرت کا، جیسے جہمیہ وغیرہ۔ دوسری قس متوسط جبریہ: جو بندے کے لیے قدرت کا اثبات تو کرتے ہیں لیکن ان کے نزدیک یہ قدرت غیرمؤثر ہوتی ہے۔ ، جیسے اشعریہ؛ ان کے نزدیک انسان کو قدرت و مشیئت تو حاصل ہے لیکن اس قدرت و مشیئت کی وجہ سے فعل واقع نہیں ہوتا۔اپنے گناہوں کی پردہ پوشی کی خاطر اس کفریہ عقیدہ کے قائل حضرات نے اس عقیدہ کو ترویج دی ہے اور سب گناہوں کا مصدر ارادہ الہی کو قرار دیا ہے کہ انسان جب مجبور محض ہے تو وہ گناہ کا مرتکب ہی نہیں ہو سکتا۔ اس عقیدہ پر ان کے ہاں ایک دلیل عقلی پیش کی جاتی ہے جو باطل ہے اور رد شدہ ہے۔ہرممکن، وجود میں آنے کیلئے علت کی طرف محتاج ہیں اور اسی طرح تمام علل معدّہ بھی علت تامہ کی طرف محتاج ہیں۔اور علت العلل وہی ذات پاک ہے ۔پس جیسے معلول کا علت سے جدا ہونا محال ہے۔ اسی طرح افعال انسان بھی مخلوقات خدا میں سے ہے اور خدا سے جدائی ممکن نہیں ہے، کیونکہ یہ ایک قاعدۂ فلسفی ہے کہ جہاں علت تامہ ہو وہاں اس کا معلول ہونا ضروری ہے۔ پس اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ افعال انسان بھی خدا سے وجود میں آئے ہیں نہ کہ خود انسان سے، جس میں انسان کا کوئی اختیار نہیں۔ اس دلیل پر کئی اشکالات ہیں؛ اولا ً توجو شبہات جبریوں کے ذھنوں میں آیات سے پیدا ہوئے ہیں یہ ہے کہ مشیئت و ارادہ اور قضا و قدر الہی کے مقابلے میں انسان کو کسی چیز پر اختیار حاصل نہیں، صحیح نہیں، کیونکہ ارادۂ خدا اور ارادۂ انسان ایک دوسرے کے طول میں ہے ۔ یہی وجہ ہے ارادۂ الہی جانشین ارادۂ انسان نہیں ہوسکتا۔ثانیا انسان کا ارادہ علل معدّہ ہے اور فعل انسان بھی اس کا معلول ہے۔ انسان جب ارادہ کرتا ہے تو فعل انجام پاتا ہے ۔ اگر ارادہ نہ کرے توانجام بھی نہیں پاتا ۔ لیکن یہی علت معدّہ (ارادہ) اور معلول (فعل) اور اس کے مبادی سب ارادۂ الہی سے متعلق ہے ۔ اس فعل کی نسبت علت معدّہ(ارادہ) مباشراور ملی ہوئی علت ہے ، اور ارادۂ خداوند علت بعیدہ ہے، لیکن اگر یہی علت بعیدہ نہ ہو تو نہ مرید (ہم) ہونگے نہ کوئی ارادہ ہوگا اور نہ ہی کوئی مراد(فعل) ۔ پس معلوم ہوا ارادۂ انسان تو اس کے اپنے اختیار میں ہے اور جو بھی کام انجام دیتا ہے اپنے ارادے سے انجام دیتا ہے۔ اور یہ سلسلۂ نظام ، ارادۂ الہی سے متعلق ہے ۔ یہی اس مشکل کا حل کی چابی ہے ۔ مگر اس باطل عقیدہ کو رد کیا گیا ہے۔(4)

دلیل اول:

اگر ہم جبر کے قائل ہوجائیں تو بہت سی صفات خدا (جو کہ عین ذات ہیں)کا انکار کرنا پڑے گا۔ خداوندعالم هر انسان کو اسکے اعمال کے مطابق جزا و سزا دے گا اور عدل الہی کا تقاضا ہے کہ نیک انسان کو اسکی نیکی کا اجر ملے اور گناہ گار کو اس کے گناہ کی سزا ،مگر جب اس عقیدہ پر ایمان رکھ لیا کہ انسان مجبور محض ہے تو نہ ہی جزا ہے اور نہ ہی سزا جب انسان سے کوئی فعل اسکے ارادہ و اختیار سے صادر ہی نہیں ہوا تو اسے جزا یا سزا دینا قبیح ہو گا۔پس جب خدا وندعالم حکیم مطلق ہے اور قبیح کام ذات حکیم سے محال ہے اس لیے یہ بھی محال ہے کہ خداوند عالم سزا و جزا دے۔ مگر ہم جانتے ہیں کہ خدا وند عالم عادل ہے اور عدل کا تقاضا ہے کہ نیکی کرنے والے کو اسکی نیکی کا اجر اور بدی کرنے والے کو اسکی بدی کی سزا دی جائے گی،پس پھر انسان مجبور محض نہیں ہو سکتا۔(5)

دلیل دوم:

اگر اہل حق اور اہل باطل کے درمیان مناظرہ اور مباحثہ ہو جائے تو قول مجبرہ کے مطابق یہ لازم آتا ہے کہ خدا نے خود مناظرہ کیا ہے کیونکہ مناظرہ فعل ہے اور خدا فاعل پس خدا ایک ہی وقت میں محق بھی ہے مبطل بھی۔کیونکہ ایک حق پر ہوتا ہے اور دوسرا باطل پر،اس کا لازمہ یہ ہے کہ خدا عالم بھی ہے اور جاهل بھی، جو کہ محال ہے، کیونکہ ذات خدا جو کہ کمالات مطلق رکھتی ہے محال ہے کہ وہ جاهل ہو کیونکہ جهل فقدان کمال ہے ۔(6)

مختار مطلق:

اس عقیدہ کی بنیاد جسے" اختیار مطلق انسان" ، "قدریہ" اور" منکر تقدیر" کے نام سے بھی جانا جاتا ہے،معبد جہنی اور غیلان دمشقی نے رکھی۔معبد جہنی نے عراق اور غیلان دمشقی نے دمشق میں اس باطل عقیدہ کی بنیادوں کو قوی کرنے کی کوشش شروع کی تھی۔ان کا نقطہ نظر یہ ہے کہ ہر چیز انسان کے ارادہ و قدرت کے تابع ہے، گویا انسان اپنی تقدیر خود بناتا ہے۔اور اس میں الله کا کوئی ارادہ شامل نہیں ہے اور هر عمل کا مطلق اختیار صرف انسان کی قدرت میں ہے حکمت خدا اس میں کوئی عمل دخل نہیں رکھتی،اور انسان اپنے فعل کا خود خالق ہے۔یہ لوگ اس حد تک تجاوز کر گئے ہیں کہ خدا سے ان صفات کی نفی کرتے ہوئے یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ انسان جن اعمال کا خالق ہے خدا ان کے وجود میں آنے سے پہلے ان کے بارے میں علم نہیں رکھتا ،جب انسان ان اعمال کو خلق کرے گا پھر جانے گا کہ اس کی مخلوق نے یہ عمل انجام دیا ہے۔اس عقیدہ کو بھی مستند دلائل سے رد کیا گیا ہے۔(7)

دلیل اول:

علم صفات کمالیہ میں سے ہے یعنی علم کا ہونا کمال ہے اور عدم علم فقدان کمال ہے۔خدا کی ذات جو کمالات مطلق رکھتی ہے،پس محال ہے کہ اس ذات سے کسی کمال کی نفی ہو،کیونکہ جس ذات میں فقدان کمال ہو وہ خدا نہیں، پس علم کا ہونا ذات خدا کے لیے لازم ہے اور جب خدا عالم ہے تو اس کا علم مخلوقات کے متعلق ابدی و ازلی ہے۔ یہی وہ مقام ہے جہاں کم فہمی سے گمراہی کے راستے پر قدم رکھا جاتا ہے ،تقدیرِ انسان کا علم خداوند عالم کی ذات کو ہے اور روزِ ازل سے لوحِ تقدیر پر رقم کر دیا گیا ہے مگر اس سے مراد یہ نہیں ہے کہ اب انسان مجبور ہے کہ اسی کے تحت عمل انجام دے بلکہ خدا عالم ہے کہ اس کی مخلوق کیا عمل انجام دے گی ۔(8)

دلیل دوم:

قدریہ اپنے عقیدے میں اس قدر غلو کر گئے ہیں کہ انسان کے اختیار کو مستقل قرار دیتے ہیں کہ انسان خدا کے مقابلے میں ایک موجود مختار ہے جو اپنے افعال کا خالق ہے ،پس ان کے عقیدہ کے مطابق متعدد انسان متعدد خالق ہیں جو اپنے افعال میں مستقل ہیں، یعنی یہ لوگ انسان کو خدا کے مقابلے میں موجود مستقل قرار دیتے ہیں جو قدرت میں کسی کا محتاج نہیں، لیکن اس پر متعدد دلائل مطرح ہو چکے ہیں کہ اگر اس جہان میں متعدد خدا ہوتے تو تباہی اور فساد لازم آتا ،کیونکہ متعدد خداؤں کی تدبیر بھی متعدد ہوتی،مگر کہ جب اس عالم کو دیکھتے ہیں تو اس کا نظم برقرار ہے ہر موجود اپنے ایک خاص نظم کے مطابق ہے ،تو متعدد خداؤں کی نفی ہوتی ہے پس اس عالم کی تدبیر ایک ہی خدا کر رہا ہے۔اور وہ الله سبحانه تعالیٰ کی ذات ہے۔پس محال ہے کہ کوئی اور مستقل مخلوق اس کے مقابلے میں ہو۔

امر بین الاَمرَین(درمیانی راستہ):

جیسا کہ مقدمہ میں بیان ہو چکا ہے اس مسئلہ میں تین نظریہ ہیں اور کوئی چھوتھا راستہ نظر نہیں آتا۔تیسرا نظریہ جو اس بات کا قائل ہے کہ نہ ہی جبر مطلق ہے نہ اختیار مطلق بلکہ ایک درمیانہ راستہ ہے جسے احادیث میں اس تعبیر سے بیان کیا گیا ہے "امر بین الاَمرَین" ۔اس عقیدہ کو شیعہ امامیہ اور دوسرے مکاتب میں سے "ما تریدیہ" جو کہ افعال انسان میں کسب کے قائل ہیں،طحاویہ اور اشاعرہ کے بعض علماء اس راستہ کو قبول کرتے ہیں اپنی خاص قیود کے ساتھ۔کیونکہ یہ بحث قدیم ہے اس لیے آئمہ علیہم السلام کے ادوار میں بھی اس پر ابحاث موجود ہیں جسکی تائید مختلف روایات کرتی ہیں۔اور روایات کے مطابق یہ تعبیر "امر بین الاَمرَین" امام علی علیہ السلام سے منسوب ہے کہ جب ایک شخص ان سے اختیار و جبر کے بارے میں سوال کرنے آیا تو امام ع نے اس تعبیر کو ارشاد فرمایا۔اور اس کے بعد دیگر آئمہ سے بھی یہ تعبیر اس طرح نقل ہوئی"المنزلة بين المنزلتين"یعنی ایک درمیانی منزل ہے۔ان روایات میں "امرین" یا "منزلتین" سے مراد ایک طرف جبر اور دوسری طرف اختیار ہے۔یہ موضوع بہت سے مختلف پہلو رکھتا ہے اسی وجہ سے علم کلام کے اہم مسائل میں شمار ہوتا ہے اور عقائد کے باب میں اہم باب ہے اور دینی مسائل کا ایک مشکل مسئلہ ہے۔اس لیے شیعہ علماء نے اس پر قرآن و سنت اور عقلی حوالے سے گفتگو کی ہے ۔اس نظریہ کی نظر کے مطابق "جبر و اختیار" آپس میں تضاد کی نسبت نہیں رکھتے کہ ان کا جمع ہونا محال ہو بلکہ یہ اکٹھے ہو سکتے ہیں۔اس کو سمجھنے کے لیے گہری فکر کی ضرورت ہے کہ انسان عدالت خداوند کو بھی مد نظر رکھے اور آزادی انسان اور وظیفہ عملیہ انسان کیا ہے اسکو بھی مد نظر رکھے۔کہ افراط و تفریط سے بچ کر درمیانی راستہ کو درک کرے جو کہ احادیث میں بیان ہوا ہے۔ایک مثال کے ذریعے سے اس مسئلہ کو واضح کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ مثلا:فرض کیجئے آپ بجلی سے چلنے والی ایک ریل گاڑی میں سفر کر رہے ہیں اور اس ٹرین کے ڈرائیور بھی آپ ہی ہیں ۔ٹرین کے پورے راستہ پر بجلی کا ایک قوی تارکھینچا گیا ہے اور ٹرین کی چھت پر لگا ہوا ایک مخصوص دائرہ بجلی کے اس تار سے ملا ہوا ہے اور حر کت کر رہا ہے اور لمحہ بہ لمحہ بجلی کو ایک قوی مر کز سے ٹرین کے انجن میں اس طرح منتقل کر رہا ہے کہ اگر ایک لمحہ کے لئے بھی اس قوی مرکز سے ٹرین تک بجلی نہ پہنچے تو ٹرین فوراً رک جائے گی۔اس ٹرین کے ڈرائیورکی حیثیت سے بیشک آپ آزاد ہیں کہ راستے میں جہاں پر بھی چاہیں ٹرین کو روک سکتے ہیں ،اسے آہستہ یا تیز چلا سکتے ہیں لیکن اس تمام آزادی کے باوجود بجلی کے مرکز یعنی بجلی گھر میں بیٹھا ہوا شخص جب چاہے بجلی کو منقطع کر کے آپ کی ٹرین کو روک سکتا ہے ۔کیونکہ آپ کی ٹرین کی حر کت بجلی کی مر ہون منت ہے اور اس کی چابی مرکز برق میں بیٹھے ہوئے شخص کے ہاتھ میں ہے۔اس مثال میں غور کر نے کے بعد واضح ہو جاتا ہے کہ ٹرین کا ڈرائیور تمام تر آزادی ،اختیار اور ذمہ داری کے باوجود کسی اور کے کنٹرول میں ہے اور یہ دونوں امر ایک دوسرے کے منافی نہیں ہیں۔پس اگر وہ ڈرائیور کوئی خطا کرتا ہے تو اس خطا پر اس سے سوال کیا جائے گا اور اگر وہ قصور وار ہوا تو تو جزاء و سزاء بھی ہوگی۔اسی طرح انسان بھی اپنے اعمال کو انجام دینے میں چلنے پھرنے،اٹھنے بیٹھنے ،کھانے پینے حتی دیگر اعمال شرعی وغیرہ میں ارادہ و اختیار رکھتا ہے مگر اس اختیار کی قدرت اسے خداوند عالم کی ذات سے لمحہ بہ لمحہ عطا ہو رہی ہے۔یعنی فیض الہی تمام ھستی سے لمحہ بہ لمحہ متصل ہے اور اگر یہ فیض ایک پلک جھپکنے کی مقدار یا جتنی بھی کم تر مقدار تصور کی جا سکتی ہے اس مقدار کے مطابق ہی منقطع ہو جائے تو یہ عالم ھستی ما سواء الله سب اسی لمحہ فناء ہو جائے۔پس انسان آزادی کے باوجود محتاج فیض الہی ہے انسان چاہ کر بھی خدا کی حکمت سے، اس کے علم سے، اس کی قدرت سے، اس کی حکومت سے ،خارج نہیں ہو سکتا۔اور یہی معنی سازگار ہوگا تعبیر "الامر بین الامرین"کا۔جیسے کہ پہلے ذکر ہو چکا ہے کہ اس بحث میں مذکورہ تین راستوں کے علاوہ کوئی چوتھا راستہ قابل تصور نہیں ہے اور نظریہ اشاعرہ (جبریہ) اور نظریہ معتزلہ(تفویض) دونوں کے عقیدہ کو محکم دلائل کے ساتھ باطل قرار دے چکے ہیں تو تیسرا راستہ ہی بچتا ہے۔اگر صرف ایک ارادہ دخیل ہو تو تفویض لازم آتی ہے اور اگر دو ارادہ دخیل ہوں تو الامر و بین الامین کی اصطلاح روشن ہوتی ہے۔

دلیل حکماء

حکماء کا استدلال کچھ یوں ہے: خدا ہر چیز پر قادر ہے لیکن اشیاء وجود کو قبول کرنے(یعنی موجود ہونے اور نہ ہونے) کے حوالے سے مختلف ہیں۔ خدا بعض اشیاء کو بغیر کسی واسطے کے خلق فرماتا ہے اور بعض کو واسطوں کے ذریعے خلق فرماتا ہے۔ یہ واسطہ کبھی ایک ہوتا ہے اور کبھی ایک سے زیادہ۔ اب جب بعض اشیاء کی خلقت میں واسطہ لازم ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ خدا اس واسطے کا محتاج ہو بلکہ یہ چیز اس مخلوق اور قابل میں موجود نقص کی وجہ سے ہے کیونکہ خدا مسبب الاسباب ہے اور تمام اسباب کو خدا نے ہی ایجاد کیا ہے اس لئے خدا کسی چیز کا محتاج نہیں ہے۔ انسان کے اختیاری افعال بھی انہی اشیاء میں سے ہیں جو بغیر واسطہ خدا سے خلق نہیں ہو سکتے اور انسان کا ارادہ ان واسطوں میں سے ایک ہے جس کے توسط سے یہ افعال وجود میں آتے ہیں پس جبر باطل ہے۔ اور دوسری طرف سے چونکہ تمام اسباب علل کو بھی خدا ہی خلق کرتا ہے اور اس کے ارادے سے خلق ہوتے ہیں پس تفویض بھی باطل ہے۔تو پس تیسرا عقیدہ ہی بچتا ہے جو کہ مطلوب ہے۔(9)

نتیجہ:

عقیدہ ایسا اثر معنوی ہے جو انسان کے افعال پر اثر رکھتا ہے۔اگر عقیدہ کی بنیاد ہی کمزور ہو گی تو اس پر اعمال کی عمارت برقرار نہیں رہ پائے گی۔جس طرح "جبر و اختیار "کے مسئلہ میں شیعہ امامیہ کے علاوہ دوسرے مکاتب فکر اس پر کوئی عقلی یا نقلی ایسی دلیل قائم نہیں کر سکے جو عقل قبول کرے۔اگر انسان فقط "جبر کا قائل ہو جائے تو بھی توحید سے ہاتھ دھو بیٹھے گا اور اگر فقط اختیار مطلق کو مانے وہ بھی توحید کے ساتھ سازگار نہیں ہے۔مگر یہ امتیاز ہے مكتب امامیہ کا کہ انہوں نے اگر توحید کی جس حد تک بھی معرفت حاصل کی ہے حجت خدا ، محمد و آل محمد (ص) کے دامن کو تھام کر ان کے علم کے نور کی روشنی میں ان حقائق کو درک کیا ہے اور جو توحید آئمه علیھم السلام نے بیان کی ہے اسی پر عقیدہ کی بنیاد رکھی ہے ۔جبر کے نظریے سے پیش آنے والی مشکلات انسان کی اخلاقی اور دینی مسئولیت کا بے معنی ہونا، برائیوں اور گناہوں کا خدا کی طرف سے خلق ہونا۔تفویض کے نظریے سے خدا کی قدرت محدود اور توحید افعالی کا نظریہ باطل ہو جاتا ہے۔اور اس طرح دیگر مسائل اور جنم لیں گے ۔جب انسان اس بات کا معتقد ہوتا ہے کہ خود مختار ہے اور اپنی طبیعت میں کچھ نہ کچھ تبدیلی لا سکتا ہے، تو اپنے اندر اخلاقی فضائل ایجاد کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ اور یہ خود مختاری کہاں تک ہے یہ بیان ہو چکا ہے کہ انسان مشیت الہی سے وابستہ رہ کر ا پنے ارادہ سے افعال کو انجام دیتا ہے اور هر لمحہ فیض خدا کا محتاج ہے کہ اگر یہ فیض خدا ایک لمحہ کے لیے بھی منقطع ہو جائے تو ہر شئ فنا ہو جائے۔

مصادر و مراجع:

۱- سورۃ التین ، آیت4

۲- سورۃ انسان، آیت 3

۳- Rekhta.com

۴-عبد الرحمن ، تفسیر تیسیر القرآن، ص2178، سورۃ الکہف،آیت22.

۵- محمد سعیدی مہر، کلام اسلامی، کتاب طہ؛ چاپ 39 ، 1402ش، ج1، ص339.

۶- مصدر سابق، ص93

۷- ابن کثیر، البدایہ والنہایہ (تاریخ ابن کثیر)، مطبوعہ لاہور، ج 9، ص54

۸- محمد سعیدی مہر، کلام اسلامی، کتاب، ج1، ص90-91.

۹- makarem.ir

كيا توسل و شفاعت حرام ہے اور غیر خدا كى هر قسم کی تعظیم شرک ہے؟

اشكال: كيا توسل و شفاعت حرام ہے اور غیر خدا كى هر قسم کی تعظیم شرک ہے؟

جواب: وھابی و سلفى اپنی نادرست فہم کی بنا پر لفظ عبادت کو ایک وسیع ترین معنی پر حمل کرتے ہیں اور اس بنیاد پر بہت سارے اعمال جو مسلمانوں کی نظر میں جائز ہیں، کو حرام اور شرک سمجھتے ہیں۔ اس سوال کے جواب کے لیے معنى عبادت کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔

عبادت کا لغوى معنى كسى کے سامنے خضوع اور اظهار ذلت كرنا ہے، ليكن حقیقی اصطلاحى معنی خاص ہے اور وه يه ہے کہ کسی کو اوصاف الہی سے متصف کرتے ہوئے اس کے سامنے اظہارِ خضوع کرنا۔ اور اگر غیر خدا کے لیے هو تو يه اظهار ذلت شرک ہے۔

اگر اس حقیقت کو مد نظر رکھا جائے تو یہ بات واضح ہے کہ انبیاء سے توسل اور اولیاء الہی سے مدد طلب کرنا ممکن ہے اور یہ کسی قسم کا شرک قرار نہیں پاتا۔

لهذا اگر کوئی شخص انبیاء سے اور اولیاء الہی سے مدد طلب کرے یا ان سے توسل کرے اور ان كو شفيع قرار دے، تو ان جیسے افعال کی دو صورتیں ہيں:

پہلی صورت یہ ہے کہ وہ شخص اس اعتقاد کے ساتھ کہ وہ جس سے مدد طلب کر رہا ہے یا توسل کر رہا ہے، وہ مستقل طور پر ان کاموں کو انجام دے سکتا ہے اور خدا کے عرض میں ربوبیت کا مقام رکھتا ہے تو یہ شرک کہلائے گا۔

اور دوسری صورت یہ ہے کہ وہ شخص اس اعتقاد کے ساتھ کہ وہ جس سے مدد طلب کر رہا ہے یا توسل کر رہا ہے وہ مستقل نهيں، بلكه خدا سے وابستہ اور اس کا محتاج ہے اور اذن خدا سے یہ کام انجام دیتا ہے، تو یہ عین عبادت ہے اور کسی قسم کا شرک نہیں۔

لهذا اگر توسل، شفاعت اور غير خدا كى تعظيم کو شرک قرار دیا جائے تو فرشتوں کا آدم عليه السلام کو سجدہ کرنا، یعقوب عليه السلام کا اپنے بیٹے(يوسف عليه السلام) کے سامنے سجدہ کرنا اور مسلمانوں کا پیغمبر اسلام صلى الله عليه وآله وسلم سے توسل کرنا، یہ سب کام شرک کہلائیں گے جبکہ ایسا عقیدہ درست نہیں ہے، کیونکہ انبیاء شرک نہیں کرتے۔

مسئله شر اور اس كا حل

مسئله شر اور اس كا حل

تحرير: سید شهباز حیدر

انسان کو خداوند متعال نے فطرتاً اس طرح بنایا ہے کہ وہ تجسس کرتا ہے کسی بھی چیز کی گہرائي تک جانا چاہتا ہے چونکہ خالق كائنات کا وجود مخفی ہے انسان اس پر ایمان تو لے آتا ہے لیکن اس کا تجسس ختم نہیں ہوتا یہ سوال کرتا ہے. کبھی خالق کے وجود پر سوال کرتا ہے، کبھی اطمینان قلب کے واسطے اس کو دیکھنے کا تقاضہ کرتا ہے، کبھی اس کے وجود کی حدود کو ماپتا ہے تو کبھی اس کی صفات پہ سوال اٹھاتا ہے. اسی طرح کے ہزاروں سوالات میں سے ایک سوال یہ ہے کہ خدا جو اس کائنات کا خالق ہے اس کی صفات میں عالم مطلق،قادرمطلق اور خیر محض ہونا ہے اگر وہ خیر محض ہے تو اس نے کائنات کی ساخت تشکیل دیتے ہوئے یہ رعایت کیوں نا کی کہ اس کائنات میں کسی کے لئے ضرر اور نقصان نا ہوتا ؟

اس كائنات ميں شر كا وجود خدا كي صفات: عالم مطلق،قادر مطلق اور خیر محض سے متناقض هے. اس تناقض كو ختم كرنے كے لیے ضروري هے كه حقيقت شر كو بيان كريں۔

1- تعریف شر

شر ایک بدیهی مفهوم ہے جس کی تعریف کی احتیاج نہیں البتہ مختصرا یوں کہا جا سکتا ہے کہ فقدان کمال یا درد و رنج جو خدا کی مخلوق یعنی انسان کو پہنچے اسے یہ انسان شر تصور کرتا ہے. (جعفر سبحاني، محمد رضاعي، انديشه اسلامي(1)، ص121)

2- اقسام شر

شر کی دو اقسام ہیں ایک شر طبیعی ہے اور ایک شر اخلاقی۔

1- شر اخلاقی: جس شر کا عامل خود ذات انسان ہے جیسے چوری ، قتل و غارت ، جنگ و جدال وغیرہ.

2- شر طبیعی: جس میں انسان کا عمل دخل نہیں ہوتا جیسے قدرتی آفات، زلزلہ ، سیلاب ، طوفان اور وہ امراض جو لا علاج ہیں شر طبیعی میں آتے ہیں۔(جعفر سبحاني، محمد رضاعي، انديشه اسلامي(1)، ص121-122)

مسئله شر كا حل

1- بعض فیلسوف یہ کہتے ہیں کہ شر اصلا موجود ہی نہیں ہے ملا صدرا اس پر دلیل بیان کرتے ہیں کہ "أنّ الوجود فی نفسه خیر و بهاء کما أنّ العدم فی نفسه شرٌّ علی ما حکم به الفطرة."وجود اپنے آپ میں خیر محض ہے( یعنی جس چیز پر لفظ وجود کا اطلاق ہے وہ خیر ہے). اسی طرح عدم اپنے آپ میں شر ہے (یعنی جس چیز پر عدم كا اطلاق ہو گا وہی شر ہے )یہ حکم فطرت انسان لگاتی ہے (اگر کوئي آوازِ فطرت تک رسائي رکھتا ہو تو اس کے لئے یہ بات واضح ہے)"(ملاصدرا، الحکمه المتعالیه، ج4، ص 121).

دوسری دلیل شر کے معدوم ہونے پر قاعدہ سنخیت ہے ۔ یعنی خدا قادر مطلق ہے عالِمِ کل ہے اور خیرخواهِ مطلق ہے یا یوں کہيں کہ خیر محض ہے ۔لہذا علت و معلول کے درمیان خیر محض سے خیر کے سوا کچھ ایجاد نہیں ہو سکتا ۔

2- اس سوال کا جواب یوں دیا جا سکتا ہے کہ خداوند متعال کا مقصد مخلوق خلق کرنا نہیں بلکہ ایک نظام خلق کرنا تھا۔ خلقِ بشر کی بات آئے تو یہ زاویہ الگ ہے مگر جب خلق نظام کی بات آئے تو آئینہ فکر تبدیل کرنا پڑے گا. پھر مد نظر صرف انسان نہیں بلکہ کائنات میں بسر کرنے والی ہر مخلوق ہے. عالم میں صرف بشر نہیں بلکہ کئي مخلوقات ایسی ہیں جو انسان کی نظر سے اوجھل ہیں اور وہ اپنے ہونے کا احساس بھی کرواتی ہیں فیلسوف حضرات عوالم کو تین حصوں میں تقسیم کرتے ہیں: (جعفر سبحاني، محمد رضاعي، انديشه اسلامي(1)، ص122-124)

1- عالم عقل

2- عالم مثال

3- عالم ماده

1- عالم عقل: ایک ایسا عالم ہے کہ جس کی مخلوقات مجرد تام ہیں ۔اس کا مادی اور جسمانی مخلوقات سے کوئي تعلق نہیں، نا ہی یہ زمان یا مکان میں محدود ہے اور نه هي اس کی کسی جہت کا تعین ہو سکتا ہے ۔ عالم عقل تخلیق کی دنیا کا سب سے اعلی درجہ ہے اور ادنیٰ عوامل کا موثر سبب ہے۔ مشائین کا خیال تھا کہ اس عالم میں کل دس عقلیں ہیں جن کا ایک دوسرے سے قوی تعلق ہے اور ہر مرتبے میں عقل صرف ایک ہے اس سے زیادہ ممکن نہیں، لیکن ملا صدرا اور شیخ اشراق نے افلاطون کے نظریات کو قبول کیا ہے اور افقی کثرت کے قائل تھے. (ملا صدرا، الحكمة المتعاليه، ج۲، ص۸۲ – ۴۶)

2- عالم مثال:تخلیق کا دوسرے درجے کا مرحلہ ہے. یہ عالم عقل اور عالم مادہ کے درمیان میں قرار پایا ہے. یہ عالم مادہ سے مجرد ہے لیکن اسکی جہت زمانی و مکانی مشخص ہے اس کی شکل بھی ہے، رنگ بھی ہے ،ليكن جسم مادي نهيں ہے. اسے تجرد مثالی یا تجرد برزخی سے بھی تعبیر کیا گیا ہے۔

3- عالم مادہ: يه عالم محسوس ہے کہ جسے عالم طبیعت اور عالم شھادت سے تعبیر کیا جاتا ہے یعنی جسے ہم محسوس کر سکتے ہیں دیکھ سکتے ہیں۔ عالم عقل و مثال کے بر عکس حواس خمسه اس عالم کا ادراک کرنے سے قاصر نہیں ہيں۔

دوسرا جواب يه هے كه شر اس جہان مادی کا لازمہ ہے،تجرد محض ہونا، خیر محض ہونا اس عالم مادی کے لئے محال ہے خداوند متعال اگر چاہتا تو اس عالم کو بھی خیر محض بنا سکتا تھا لیکن اس کا مقصد مخلوق نہیں نظام خلق کرنا تھا جیسا کہ وہ قرآن کریم میں ارشاد فرماتا ہے: ﴿الَّذِي خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ وَمَا بَيْنَهُمَا فِي سِتَّةِ أَيَّامٍ ثُمَّ اسْتَوَىٰ عَلَى الْعَرْشِ ۚ الرَّحْمَٰنُ فَاسْأَلْ بِهِ خَبِيرًا( فرقان 59)

زمین و آسمان کی خلقت 6 دن میں ہوئی حالانکہ وہ یہ بھی فرماتا ہے:﴿إِنَّمَا أَمْرُهُ إِذَا أَرَادَ شَيْئًا أَنْ يَقُولَ لَهُ كُنْ فَيَكُونُ( يس 82)"وہ جب کسی چیز کا ارادہ کرتا ہے تو اسے کہتا ہے ہو جا تو وہ ہو جاتی ہے"۔ اگر حقیقت امر یونہی ہے تو پھر یہ چھ دن کا دورانیہ کیوں ؟ کیونکہ اس حکیم ذات کا مقصد اس نِظام کو ایک خاص پیراہے میں چلانا تھا اگر مقصد فقط مخلوق بنانا ہوتا تو وہ ایسے بنا دیتا کہ جیسے انسان تقاضہ کرتا ہے مگر اس کا مقصد نظام بنانا تھا نظام میں مینیجمٹ ہوتی ہے اور نظام کے خاص تقاضے ہوتے ہیں یہ عالم عالمِ عقل و مثال نہیں کہ جس میں تزاحم و تنازع نا پایا جائے یہ عالمْ تزاحم و تنازع اپنے اندر سموئے ہوئے ہے اس لئے اس عالم کا لازمہ شر قرار پایا ہے.

فارابی عالم اسلام کا ایک مایہ ناز فلسفی یہ کہتا ہوا نظر آتا ہے:

"الأول تام القدرة والحکمة والعلم، کامل فی جمیعه أفعاله لا یدخل فی جمیع أفعاله خللٌ البتةً ولا یلحقه عجز ولا قصور والآفات والعاهات التی تدخل علی الأشیاء الطبیعية، إنّما هی للضّرورات ویعجز المادة عن قبول النّظام التّام"

"خداوند متعال اپنی قدرت اپنے علم اور اپنی حکمت میں کمال مطلق ہے اس کے کسی کام میں نقص کا تصور ممکن نہیں آفات و شرور تو بس طبیعت کا تقاضہ ہیں یہ عالم طبیعت پہ عارض ہونے والی چیزیں ہیں عالم طبیعت و عالم مادہ میں اتنی ظرفیت نہیں کہ یہ خیر محض کو قبول کر سکے "( فارابی ،تعلیقات ، ص 46)

اب اگر کوئي اشکال کرے کہ خدا نے اس عالم کو ایسا کیوں نہیں بنایا کہ اس میں خیر محض ہو. آگ کو ایسا کیوں نہیں بنایا کہ وہ کسی بے گناہ یا معصوم کو نا جلائے ؟ وہ لباس کو نا جلائے ؟

المختصر! که طبیعت کے قوانین کو ایسا کیوں نہیں بنایا کہ ان میں کسی کو تکلیف پہنچانے کی صلاحیت ہی نا ہوتی ؟

ان اشکالات کا مختصر جواب یہ ہے کہ اعطاء المعطی کے ساتھ قابلية القابل شرط ہے عطا کرنے والے کی عطا میں کمی نہیں ہے قبول کرنے والے کی ظرفیت میں کمی ہے اس نے ہر مخلوق کو اتنا عطا کیا ہے جتنی اس میں تحمل کی طاقت ہے:﴿وَلَا نُكَلِّفُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا﴾ ( المؤمنون 62) کسی نفس پر ظلم کرنا اس خالق کے شایان شان نہیں وہ صرف اتنا بوجھ ڈالتا ہے جتنا کوئي برداشت کر سکے ۔

ابن سینا اپنی کتاب الھیات کے باب شرّيتِ عالم میں کہتا ہے کہ: "اگر وہ کہیں کہ خدا نے عالم کو اس طرح خلق کیوں نا کیا کہ یہ خیر محض ہو اس میں مانع شرور پیدا کیوں نا کئے ؟ تو ان کے جواب میں یہ کہا جائے گا کہ اگر عالم مادی کہ جس کا لازمہ ہی یہ هے کہ اس میں شر قرار پائے اگر اس طرح خلق ہوتا کہ اس میں کوئي شر نا ہوتا تو یہ عالم مادی ہی نا رہتا یہ کوئي اور عالم ہوتا کہ جو خیر محض ہو اگر مادیت ہے تو شر الزامی ہے "۔

اور اگر یه کها جا ئے که کائنات شرور سے بھری پڑی ہے اس میں خیر کم ہے اور شر زیادہ ہے اس سے تو بہتر تھا کہ یہ کائنات خلق نا ہوتی۔

اس كا جواب یہ ہے يه کہنا بیوقوفی کے سوا کچھ بھی نہیں کیونکہ یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ اس کائنات میں اگر دس فیصد شر ہے تو نوّے فیصد خیر ہے. اب اتنے قلیل سے شر کی موجودگی کی وجہ سے کائنات کے عدم کا تقاضہ خود ایک شر کبیر ہے ۔

اور دوسری بات یہ کہ انسان ہر چیز میں خود کو مد نظر رکھتا ہے اپنی ذات کو محور و مرکز قرارداد دیتا ہے اگر خود کو محور قراردینا چھوڑ دے اور اس کائنات کی وسعتوں کو مد نظر رکھے تو انسان یہ درک کر سکتا ہے کہ یہ کائنات ہر لحاظ سے خیر ہے. اگر آگ کو جلانے کی قوت دی ہے تو انسان کو عقل کی طاقت دی ہے تا کہ وہ اس کو اپنے فائدے کے لئے استعمال کر سکے اور اس کے نقصان سے بچ سکے. (جعفر سبحاني، محمد رضاعي، انديشه اسلامي(1)، ص124-125)

3- اللہ نے انسان کو آزاد پیدا کیا۔ وہ ارتقاء کی راہ پر چل سکتا ہے اور اپنی مرضی سے سعادت حاصل کر سکتا ہے، گمراہی کے راستے پر چل سکتا ہے اور گمراہ ہو سکتا ہے اور ایسے برے کاموں میں مشغول ہو سکتا ہے، جس کی وجہ سے دوسروں کے لئے تکلیف کا باعث بنتا ہے ۔ لہٰذا دنیا میں برائی انسان کی آزادی کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے۔ خدا انسان کو دو طریقوں سے تخلیق کر سکتا تها:

1- خدا انسان کو مجبور پیدا كرتا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ خدا انسان کو اس طرح پیدا کرتا کہ اس سے صرف نیکیاں ہی صادر ہوتیں۔ اس صورت ميں انسان كے اعمال كي كوئي اهميت نه هوتي اور كمال كى طرف سفر بے معنى هو جاتا.

2- خدا انسان كو آزاد پیدا کرتا، جس کا تقاضا ہے کہ کچھ لوگ برے کام کریں۔ تا کہ پھر اس آزادی کا انسان سے حساب لیا جائے کہ ہم نے تمھیں با اختیار بنایا تھا تم نے عمل خیر کیا تو اپنے اختیار سے اور موجب شر بنے تو اپنے ارادے اور اختیار سے ۔ اس ميں انسان كے اعمال كي اهميت هے اور كمال كا حصول معنى ركهتا هے. (جعفر سبحاني، محمد رضاعي، انديشه اسلامي(1)، ص125-127)جیسا کہ قرآن مجید میں خداوند متعال نے اس طرف اشارہ کیا ہے:

﴿ظَهَرَ الْفَسَادُ فِی الْبَرِّ وَالْبَحْرِ بِمَا كَسَبَتْ اَيدِی النَّاسِ لِيذِيقَهُمْ بَعْضَ الَّذِیْ عَمِلُوْا لَعَلَّهُمْ يرْجِعُوْنَ﴾ (الروم41)

"لوگوں کے اعمال كے باعث خشکی اور سمندر میں فساد برپا ہوگیا تاکہ انہیں ان کے بعض اعمال کا ذائقه چکھايا جائے شايد يه لوگ باز آجائیں"۔

4- مسئلہ شر کو حل کرنے کے لیے بعض مفکرین یہ نظر رکھتے ہیں کہ جسے کچھ لوگ برائی سمجھتے ہیں وہ لوگوں کی جهالت يا سطحی اور جزوی قضاوتوں کا نتیجہ ہے۔ اگر لوگوں کے پاس وسیع اور جامع علم ہوتا تو وہ کبھی بھی کچھ چیزوں کی برائی کا اتنی آسانی سے فیصلہ نہ کرتے۔ اپنے مطلق کمالات کی وجہ سے، خدا نے بہترین ممکنہ دنیا بنائی ہے جہاں ہر چیز اپنی جگہ پر خیر ہے۔ لیکن کچھ لوگ تنگ نظری کی وجہ سے چیزوں کے بارے میں صحیح فیصلہ نہیں کر سکتے۔(جعفر سبحاني، محمد رضاعي، انديشه اسلامي(1)، ص127-129) یہ نقصِ علمی اور نظر کی تنگی باعث بنتی ہے کہ انسان ہر چیز کو شر تصور کرتا ہے جیسا کہ پروردگار عالم قرآن مجید میں اشارہ فرماتا ہے:

﴿وَعَسَىٰ أَن تَكْرَهُوا شَيْئًا وَهُوَ خَيْرٌ لَّكُمْ ۖ وَعَسَىٰ أَن تُحِبُّوا شَيْئًا وَهُوَ شَرٌّ لَّكُمْ ۗ وَاللَّهُ يَعْلَمُ وَأَنتُمْ لَا تَعْلَمُونَ ( البقرہ 216)

"اورممکن ہے تمهیں ایک چیز ناگوار گزر ے مگر وہی تمھارے لئے بهتر ہو(جيسا كه) ممکن ہے تمهیں ایک چیز پسند هو مگر وہ تمھارے لئے بری ہو، (ان باتوں كو) خدا بهتر جانتا ہے اور تم نہیں جانتے"۔

المختصر: یہ کائنات اور اس کی وسعتیں اس خالق نے کہ جو عقل انسان سے ماورا ہے ہر طرح سے کامل اور منظم بنائي ہیں اور انسان کو اختیار دیا ہے کہ وہ چاہے تو اپنے اختیار سے اشرف المخلوقات بن جائے اور چاہے تو اپنے اختیار سے وہ کسب کرے جو اسے اسفل السافلین تک پہنچا دے۔

شر كے فوائد:

1- شر عالم مادہ کا لازمہ ہے اور فطری تقاضہ ہے.

کشمکش اور تصادم مادی دنیا کی ذاتی خصوصیات ہیں۔ اگر یہ خصوصیات نہ ہوتیں تو مادی دنیا جیسی کوئی چیز نہ ہوتی۔ یا تو یہ خصوصیات مادے کی دنیا میں موجود ہونی چاہئیں یا ایسی دنیا کا کوئی وجود ہی نہیں۔ دوسری طرف، خدا کی حکمت اور فضل کا تقاضا ہے کہ مادی دنیا کی تخلیق کی ہو کیونکہ اس کی اچھائی اس کے عیبوں اور برائیوں سے زیادہ ہے اور تھوڑی سی برائی کی خاطر بڑی بھلائی کو ترک کرنا خدا کی حکمت اور فضل کے خلاف ہے.

2- شر استعداد انسان کے پھلنے پھولنے کا سبب ہے .

انسان کی ساخت ایسی ہے کہ اس کی بہت سی صلاحیتیں مشکلات اور مسائل کا سامنا کرنے کے سائے میں پروان چڑھتی ہیں۔ بہت سی ایجادات اور اختراعات مسائل اور مشکلات سے نمٹ کر حاصل کی جاتی ہیں۔ اس لیے برائی کا وجود انسان کی روحانی اور سائنسی ترقی کے لیے مفید ہے۔ قرآن اس بارے میں سورہ الشرح کی آیات 5 اور 6 میں کہتا ہے: ﴿ اِنَّ مَعَ العُسْرِ يُسْراً " يقينا مشکل کے ساتھ آسانی ہے".

3- شر غفلت سے بیداری کا سبب ہے.

برائیوں اور مشقتوں کا ایک فائدہ یہ ہے کہ یہ انسان کے لئے غفلت سے بیداری کا زینہ فراہم کرتی ہیں. آئیے ایک ایسے ڈرائیور کی مثال لے لیں جو ڈرائیونگ تو جانتا ہے مگر ڈرائیونگ کے اصول و ضوابط کو مد نظر نہیں رکھتا اور گاڑی چلانے میں غفلت برتتا ہے اگر وہ اسی طرح غفلت برتتا رہے تو خود بھی نقصان اٹھائے گا اور دوسروں کے بھی نقصان کا باعث بنے گا لیکن ایک انتباہ کے طور پر، پولیس اسے جرمانہ کرتی ہے اور اس لا پرواہی کو جاری رکھنے سے روکتی ہے۔ یہ دشواری اور تکلیف اس کے حق میں ہے اور اسے ناخوشگوار نتائج سے دور رہنے کے لیے بیدار اور چوکنا بناتی ہے۔ قرآن میں اللہ تعالیٰ نے غفلت سے بیدار ہونے کے لیے مشکلات اور پریشانیوں کا بھی ذکر کیا ہے اور سورہ سجدہ کی آیت نمبر 21 میں فرمایا ہے: "اور یقیناً آخرت کے بڑے عذاب کے علاوہ ہم قریب کے عذاب کا مزہ چکھائیں گے۔ دنیا کے عذاب سے، امید ہے کہ وہ خدا کی طرف لوٹ آئیں۔"

4- یہ خدا کے خاص بندوں کے لئے تحفہ ہے.

بعض روایات کے مطابق جب بندے پر خداوند منان کا خاص کرم ہوتا ہے تو خدا سے مشکلات میں مبتلا کرتا ہے ۔

امام صادق علیہ السلام اس بارے میں فرماتے ہیں:

جب خدا کسی بندے سے محبت کرتا ہے تو اسے مشکلات کے سمندر میں غرق کر دیتا ہے۔

ایک اور جگہ امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں: انبیاء دوسرے لوگوں کے مقابلے میں زیادہ مصیبتوں میں مبتلا ہوتے ہیں اور پھر جو لوگ ان سے مشابہ ہوتے ہیں، جتنے زیادہ خدا کے منتخب بندوں (انبیاء و اولیا) کے مشابہ ہونگے اتنے ہی مشکلات میں مبتلا ہونگے ۔

5- شر امتحانِ الہی ہے .

خدا بعض اوقات اپنے بندوں کو مصیبت اور مشکل سے آزماتا ہے تاکہ ان کی پہچان ہو سکے جو سچے اور کھرے ہیں جس طرح سے ناپاک سونے کو گرمی سے پاک کرتے ہیں اور اسے مزید خوبصورتی اور قدر عطا کرتے ہیں۔ اسی طرح الله بعض بندوں کو مصائب، آفات اور پریشانیوں میں آزماتا ہے تاکہ وہ پاکیزہ اور قیمتی بن جائیں۔(جعفر سبحاني، محمد رضاعي، اندیشہ اسلامی، ص130-131)

﴿أَحَسِبَ النَّاسُ أَنْ يُتْرَكُوا أَنْ يَقُولُوا آمَنَّا وَهُمْ لَا يُفْتَنُونَ.وَلَقَدْ فَتَنَّا الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ ۖ فَلَيَعْلَمَنََّ الله الَّذِينَ صَدَقُوا وَلَيَعْلَمَنَّ الْكَاذِبِينَ(العنكبوت: 2-3)

"کیا لوگوں نے یہ خیال کر رکھا ہے کہ وہ صرف اتنا کہنے سے چھوڑ دیے جائیں گے کہ ہم ایمان لائے اور یہ کہ وہ آزمائے نہیں جائیں گے؟ اور بتحقیق ہم ان سے پہلوں کو بھی آزما چکے ہیں کیونکہ اللہ کو بہرحال یہ واضح کرنا ہے کہ کون سچے ہیں اور یہ بھی ضرور واضح کرنا ہے کہ کون جھوٹے ہیں۔ "

منابع

1- قرآن كريم.

2- ملاصدرا، الحکمة المتعالیه فی الاسفار العقلیة الاربعه، چاپ: بیروت ، اعلمی.

3- فارابي، التعليقات، چاپ: حیدرآباد دکن، ۱۳۰۶ ش.

4- جعفر سبحاني، محمد رضاعي، انديشه اسلامي(1)، نشر معارف، قم، چاپ: 100، سال1400ش.

دراسة نقدية لمصادر المعرفة عند ابن تيمية


دراسة نقدية لمصادر المعرفة عند ابن تيمية

دراسة نقدية لرؤية الله عند ابن تيمية

دراسة نقدية لرؤية الله عند ابن تيمية

سيد غور الحسنين

مجلة الدليل

شبهات كرونا و شرور  و ردود آنها


شبهات كرونا و شرور  و ردود آنها

 مدرس: شيخ دكتر برنجكار 

نگارش سيد غيور الحسنين

کرونا ابعاد مختلف سیاسی، اقتصادی، مذهبی وغیره داشته است... چالش هایی را ایجاد کرده است. این بیماری از یک جهت زیست مومنانه و اعتقاد دینی را هم هدف گرفته است. سوال­هایی در این مورد مطرح شده است. چه از طرف مومنین و چه از طرف ملحدین.

به طور کلی بیماری­ها، طاعون­ها وغیره به عنوان شرور بحث می­شوند. یک تقریر واحد از شرور ارائه کردن اشتباه از طرف اکثر محققین است. با دقت در همه شبهات مسئله شر یک مسئله نیست بلکه چندین مسئله است و هر کدام شاید جواب مستقلی داشته باشد.

ادامه نوشته

الحركة في المجردات

الحركة في المجرّدات

 سيد غيور الحسنين

خلاصة البحث

يعتقد معظم الفلاسفة أنّ المجرّدات ثابتة وينفون الحركة فيها عن طريق البساطة وفقدان مزيج من القوّة والفعل. ولمّا كانت الحركة خروج الشيء من القوة إلى الفعل، ولا يتمكّن الموجود البسيط الذي هو لا يتركّب من القوة والفعل من الحركة، فيُثبت عدم إمكانية الحركة في المجرّدات التي تحظى بوجود بسيط لاينفعل. ولكن يجدر هنا الانتباه إلى أنّ قيد "القوّة" في الحركة لا يعني ضرورةً الأمر الذي يمتدّ جذوره في "الهيولى" المشائي وإن جاءت القوّة في تعريف الحركة عند منكري الهيولى المشائي، بل تنسجم "القوّة" أو كون الأمر "بالقوّة" مع بساطة المتحرّك وموضوع الحركة. وعليه فإنّه لا يمكن نفي كون المجرّدات موضوعاً للحركة، وذلك بسبب كونها بسيطة وفاقدة للمادّة. ونحن نسعي في هذا المبحث أن نعرض أهمّ الأدلة والطرق التي يمكننا من خلالها إثبات هذه المسألة المهمة المتعلّقة بمستقبلنا.

الكلمات المفتاحية

 الحركة، المجرّدات، الماديّات، القوة، الفعل، التكامل.

 

 

ادامه نوشته

دراسة نقدية لنظرية المعرفة عند ابن تيمية

آپلود عکس

براى خريد اينجا كليك كنيد

دراسة نقدية لنظرية المعرفة عند ابن تيمية

دراسة نقدية لنظرية المعرفة عند ابن تيمية 

http://uplod.ir/m9aep6ea0tvo/IMG-20191210-WA0021.jpg.htm

كيا خدا كا بھی كوئی خالق ہے؟ کیا یہ سوال کرنا درست ہے؟

ناظرین کی خدمت میں بہت ہی مختصر دلیل کے ساتھ اس سوال کا جواب دیاگیا ہے کہ كيا خدا كا بھی كوئی خالق ہے؟ مولانا سید غیور الحسنین

https://www.shiatv.net/video/1105060940

کیا خدا ایسا پھتر پیدا کر سکتا ہے جسے خود اپنی طاقت و قدرت سے نہ اٹھا سکے؟

منکرین خدا کا اعتراض

 

سوال

کیا خدا ایسا پھتر پیدا کر سکتا ہے جسے خود اپنی طاقت و قدرت سے نہ اٹھا سکے؟

 

جواب۔۔۔۔۔۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ پروردگار عالم کی قدرت لا محدود ہے اور وہ جو چاہے کر سکتا ہے یہ چیز عقلی اور فلسفی اعتبار سے ثابت اور قرآن و احادیث کے ذریعے تائید شدہ ہے لیکن پروردگار عالم کی قدرت کے زیر سایہ کون سی چیزیں وجود پا سکتی ہيں اس بارے میں ذرا تفصیل سے جاننے کی ضرورت ہے۔

 

دنیا میں کچھ ایسی چیزیں ہیں جن کا تحقق پانا اور موجود ہونا محال ہے۔

محالات کی دو قسمیں ہیں:

۱: محال عقلی

۲: محال عادی

محال عقلی کی بھی دو قسمیں ہیں: محال ذاتی اور محال وقوعی

۱:  محال ذاتی: وہ امور ہیں جن کا ذاتی اور عقلی طور پر وقوع پانا محال ہے جیسے دونقیض چیزوں کا جمع ہونا عقلی اور ذاتی طور پر محال ہے. خداوند عالم کی قدرت محال عقلی و ذاتی کو وجود نہیں دے سکتی۔ چونکہ عقلا اس چیز کا وجود پانا محال اور ناممکن ہے مثلا ایک چیز ایک ہی وقت اور ایک جگہ پر موجود ہو بھی، اور موجود نہ بھی ہو، یہ محال ہے اور اجتماع نقیضین ہے۔

۲: محال وقوعی: وہ امور ہیں جن کا تحقق ذاتی طور پر محال نہیں ہے لیکن عقلی طور پر وقوعا محال ہے چونکہ اس کا لازمہ تناقض ہے جیسے معلول کا بغیر علت کے وجود پانا یا مثلا سمندر کو کوزے میں بند کرنا کہ سمندر سمندر رہے اور کوزہ کوزہ رہے یہ چیز عقلا اور وقوعا محال ہے۔

آپ کا سوال بھی اسی زمرے میں آتا ہے کہ خدا اتنا بڑا پتھر بنائے جس کو خود ہی نہ اٹھا سکے یا مثلا خدا کچھ ایسا کرے کہ دو جمع دو پانچ ہو جائیں یا جیسا کہ امیر المومنین (ع) سے کسی نے سوال کیا کہ:

 کیا آپ کا خدا اس بات پر قادر ہے کہ دنیا کو مرغی کے انڈے میں سمو دے بغیر اس کے کہ انڈا بڑا ہو اور دنیا چھوٹی ہو۔

تو آپ نے فرمایا کہ:

( میرا خدا تو قادر ہے لیکن یہ کام ناممکن ہے۔ یعنی محال وقوعی ہے لہذا وہ امور جو عقلی اور ذاتی طور پر محال ہیں قدرت الہی ان سے تعلق نہیں پاتی۔)

۳: محال عادی: وہ امور ہیں جو عام طور پر محال اور ناممکن نظر آتے ہیں لیکن ان کے وقوع پانے سے نہ محال ذاتی لازم آتا ہے اور نہ محال وقوعی جیسے عصا کا اژدھا میں بدل جانا، دوا کے بغیر مریض کا ٹھیک ہو جانا، سورج کا پلٹ جانا، مردے کا زندہ ہوجانا، وغیرہ وغیرہ جنہیں ہم دینی اصطلاح میں معجزہ کہتے ہیں۔ یہ امور عام طور پر انسان کو ناممکن نظر آتے ہیں اس کہ وجہ یہ ہوتی ہے کہ عام انسان اس کی صرف ظاہری علتوں سے آشنا ہوتا ہے جبکہ اس کی دوسری علتیں بھی ہو سکتی ہیں مثلا ہم یہ دیکھتے ہیں مریض صرف دوا سے ہی ٹھیک ہو سکتا ہے لیکن محال نہیں ہے کہ کسی دوسرے طریقے سے بھی ٹھیک ہو جائے۔

لہذا اللہ کی قدرت کاملہ و مطلقہ ان امور سے تعلق پاتی ہے جو عقلی اور ذاتی طور پر محال نہ ہوں یعنی اس کی قدرت کے زیر سایہ وہی امور انجام پا سکتے ہیں جن کا وقوع پذیر ہونا عقلا محال نہ ہو۔ جن کا واقع ہونا ذاتا اورعقلا محال ہو وہ خودبخود اس بحث سے خارج ہیں۔

سیکولرزم کے دنیا پر اثرات

سیکولرزم نے سب سے زیادہ نقصان عالم اسلام کو پہنچایا، اس لیے کہ سیکولر فکرکے حاملین نے، جس میں کمال اتاترک جیسے لوگ شامل ہیں، خلافتِ اسلامیہ کے سقوط کے سبب بنے، اور عظیم دولت عثمانیہ اسلامیہ کو تقسیم در تقسیم سے دوچار کیا، یہاں تک کہ وہ پچاس حصوں میں تقسیم ہوگئی، اسرائیل کا ناپاک وجود اسلامی ریاستوں کے بیچ عمل میں آیا۔ دنیا میں فحاشی، بدکاری، اور ہر برائی کو پھیلانے کے راہیں ہموار ہوگئیں، اور پوری دنیا کو جمہوریت اور عالمگیریت کے نام پر جہنم کدہ بنا دیا گیا۔

سیکولرزم کا ہدف

سیکولرزم کا اصل ہدف امتِ مسلمہ کو موجودہ دورمیں اسلام سے بے زارکر کے، مادیت سے وابستہ کرناہے، تاکہ مغرب کی بالادستی، برابراس پر باقی رہے، اس لیے کہ اسلامی فکر، اسلامی روحانیت اوراسلام سے وابستگی یہی مسلمانوں کی کامیابی اوربالادستی کی شاہِ کلید ہے، لہٰذامسلمانوں کو اپنی پوری توجہ، ایمان اور اس کے تقاضوں پرمرکوزکرناچاہیے، نہ کہ مادیت کے مکروفریب کے جال میں پھنسنا۔ اللہم انانسئلک العفو والعافیة فی الدین و الدنیا و الاخرة۔ 

مشرق و مغرب میں سیکولرزم کے علمبردار

 مشرق و مغرب میں سیکولرزم کے علمبردار

  سیکولرزم کو پھیلانے میں جن بدباطن اور کج فکر، لوگوں نے اہم رول اور کردار ادا کیا، ان میں سے، مغرب میں ڈارون جس نے تحقیق کے نام پر ”نظریہٴ ارتقاء“ کی بنیاد ڈالی، جو دنیا کا سب سے بڑا فریب شمار کیا جاتا ہے، اسی طرح فرائیڈ نے”نظریہٴ جنسیت“ پیش کیا، اسی طرح ڈارکا یم نے ”نظریہٴ عقلیت “پیش کیا، جان پول سارترنے ”نظریہٴ وجودیت “کی تحدیدکی، پھرآدم اسمٹھ نے ”کیپٹل ازم“سرمایہ دارانہ نظام کی بنیادڈالی، کارل مارکس نے ”کمیونزم“کی بنیادڈالی، جوپچھلے تمام مادی افکار کا نچوڑاورخلاصہ تھا اور مشرق میں کمال اتاترک، طہٰ حسین، جمال عبدالناصر، انور سادات، علی پاشا، سرسید، چراغ علی، عنایت اللہ مشرقی، غلام پرویز، غلام قادیانی وغیرہ نے انہیں افکار کو مشرق میں عام کرنے کا بیڑا اٹھایا، اوراب اسی کو گلوبلائیزیشن یعنی”عالمگیریت“کانام دیدیاگیاہے، دیکھنااب کیاہوتاہے، اللہ ہماری حفاظت فرمائے۔ آمین یارب العالمین!

سیکولرزم کیا ہے اور اس کا آغاز کہاں اور کیسے هوا؟

سیکولرزم کیا ہے؟

سیکولرزم، اصل میں لاطینی زبان کالفظ ہے، جسس کا عربی میں ”علمانیة“ اور اردو میں ”لادینیت“ ترجمہ ہوتاہے۔  سیکولرزم در اصل ایک ماسونی یہودی تحریک ہے، جس کا مقصد حقوقِ انسانی، مساوات، آزادی، تحقیق و ریسرچ، قانون دولی (International Law) اور تعلیم کے نام پر، دین کو زندگی کے تمام شعبہ جات حیات سے نکال دینا، اور مادیت کا گرویدہ بنا کر، روحانیت سے بے زار کر دینا ہے، یہ کہہ کر کہ دین کی پیروی انسانی آزادی کے منافی ہے، لہٰذا سیاست اور دین، معیشت اور دین، و معاشرت اور دین یہ سب الگ الگ ہیں ۔ دین، طبیعت اور فطرت کے خلاف ہے، لہٰذا کسی بھی دین کی پیروی درست نہیں.

 سیکولرزم کا آغاز کہاں اور کیسے؟

سیکولرزم دراصل یورپ کی پیداوار ہے، اس کی وجہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ جب اسلام نے آکر علم کے دروازے کھولے اور اسلام کا  اثر و رسوخ مشرق سے نکل کر مغرب میں غرناطہ اور بوسنیا تک پہنچا، تو اہل مغرب کی آنکھیں کھلیں، اس لیے کہ سولہویں صدی عیسوی تک یورپ میں کنیسا اور چرچ کو مکمل اثر و رسوخ حاصل تھا، جب سترھویں صدی میں اہلِ یورپ نے مسلمانوں کی علمی آزادی اور ترقی کو دیکھا اور عیسائی پادریوں اور بادشاہوں کی تنگ نظری اور تعصب کو دیکھا اور اس کے نتیجہ میں علمی تحقیقات پر پابندی اور کوئی رائے پیش کرنے والے کو ظلم کا شکار ہوتے دیکھا تو انہیں ایسا محسوس ہوا کہ عیسائیت ہی دراصل ہماری ترقی کے لیے روڑا اور رکاوٹ ہے، لہٰذا  سترھویں صدی میں اہلِ مغرب نے مذہب سے بے زاری کا اعلان کردیا، اور یہ پسِ پردہ دنیا کی خفیہ ترین تخریبی تحریک ماسونیت کی کارستانیوں اور سازشوں کا نتیجہ تھا، اس طرح جب ان سیکولرزم کے حاملین کو کامیابی ملی، تو انہوں نے اعلان کیا کہ ”اب عقل کو آزادی ہوگی اور مذہب کے قید وبند سے انسان آزاد ہوگا اور طبیعت اور نیچریت کا بول بالا ہوگا“۔

جب یورپ میں سیکولرزم کو غلبہ حاصل ہوا، تو اب وہ دنیا پر راج اور سلطنت کے خواب دیکھنے لگے، اس طرح انہوں نے مشرق کا رُخ کیا اور ۱۷۸۹ء میں مصر پر حملہ کیا اور انیسویں صدی کے آنے تک پورے مشرق کو اپنی لپیٹ میں لے لیا، کچھ ناعاقبت اندیش، مادہ پرست مسلمانوں کو بھی اپنے چنگل میں لے لیا۔

التشكيك عند الحكمة المتعالية

 

 

 

 

 

 

التشكيك عند الحكمة المتعالية

 

 

 

 

الطالب: سيد غيور الحسنين

آذر 1396

 

 

 

 

ادامه نوشته

البنية الذهنية انطلاقا من البنية الوجودية

البنية الذهنية انطلاقا من البنية الوجودية

إعداد الطالب: سيد غيور الحسنين

 

المقدمة

     الحمد لله ربّ العالمين، الصّلاة والسّلام على أشرف الأنبياء والمرسلين، وعلى آله الطيّبين الطّاهرين. أمّا بعد، فإنّ "البنية الذهنية انطلاقا من البنية الوجودية" من أروع الموضوعات الفلسفيّة في زمان الحاضر، يمكن من خلاله يحلّل أكثر المشاكل الفلسفية، لاسيّما مشكلة الأصالة والاعتبارية تحل دون أي مشقّة، وهكذا مشكلة الكثرة والوحدة، ومسألة العلّية والمعلولية وكثير من مسائل الفلسفية الأخرى تحل. من هذا المنطلق، اختار الباحث البحث، وجعله موضع الدراسة والتحليل.

 يشتمل هذا البحث على ثلاثة فصول، الأوّل يتحدّث عن البنية الوجوديّة والبنية الذهنيّة، والثاني عن العلاقة بينهما، والثالث عن كيفية ترشح المباني. وذكر خلاصة البحث والنّتيجة في الأخير.

ويشكر الباحث الأستاذ المشرف الشيخ فضيل ريال الّذي أشرف عليه وقدّم نصائح مفيدة في مجال الدّراسة.

 

الفصل الأول: البنية الوجوديّة والبنية الذهنيّة

  إنّ البحث عن البنية الوجوديّة والبنية الذهنيّة بحث أساسي في الفلسفة. وأساسه يرجع إلى تشخيص الأصالة والاعتبارية. يأتي هذا البحث ليميّز هل الأصالة للوجود أو للماهية؟ بمعنى يميّز أيّهما متن بالذات وأيّهما يكون بالعرض؟

إذا كان الفلسفي ينطلق في بحثه من خلال البنية الذهنيّة والمعرفيّة ستكون نتيجته هي أصالة الماهية. وأمّا إذا انطلق بحثه من البنية الوجوديّة ستكون نتيجته هي أصالة الوجود ولا غير.

من هنا ينبغي لنا أن نعرف ما المقصود بالبنية الذهنية، وكيف تنشقّ من الواقعيّة؟

أوّلا وبالذات علينا أن نعلم أنّ مبدأ الوجود(الواقعية) بمعنى هو الوجود العام ويسمّى أيضا ب"الوجود الساري". من خلال هذا المبدأ تنشقّ المبدأ المعرفي، ثمّ تتجلّى هذا المبدأ المعرفي إلى ثلاث تجلّيات:

1- الواقعية في دائرة ذاتها.

 هذا القسم ينقسم إلى قسمين أيضا، وهي:

 1- الواقعية في دائرة ذاتها فقط. مثل: إذا قلنا: الإنسان إنسان، هو بمعنى أن الإنسان في دائرته فقط ولا غير. هذا يسمّى ب"مبدأ الهويّة".

 2- الواقعية في دائرتها المتّصفة. هنا الواقعية خارجة عن دائرة ذاتها فتكون مع الصفة. مثل: الإنسان عالم، بمعنى أنّ الإنسان مع هذه الصفة يسمّى ب"مبدأ الجوهرية". هذا القسم له ركنان، وهما:

     1- أنّ المحمول ليس له هوية استقلالية، بمعني إذا حذف الموضوع لا يستطيع أن يبقى بنفسه كما إذا حذفنا الإنسان في المثال لا يمكن أن يبقى عالم بنفسه.

     2- أنّ المحمول يحتاج إلى ملاك ليرتبط بموضوعه، وملاكه هنا هو الإنسان.

 

2- الواقعية في دائرة نقيضها.

 هذا القسم ينقسم إلى قسمين أيضا، وهي:

 1- الجمع في آن واحد. مثل: "إنسان ولا إنسان" هذا يسمّى ب"مبدأ التناقض".

 2- الرفع في آن واحد. مثل: "لا إنسان ولا لا إنسان" هذا يسمّى ب"مبدأ الثالث المرفوع".

3- دائرة الوصول إلى نتيجة نهائية التي تسمّى ب"مبدأ السبب الكافي". هنا النتيجة إمّا أن تكون مطابقة للواقع أو غير مطابقة، لأنّ كلّ ما بالعرض يرجع إلى ما بالذات، والذات لا يعلّل.

1- المعايير الذهنية(البنية الذهنية):

 يظهر لنا من التقسيم السابق خمسة معايير ذهنية وهي:

  1- مبدأ الهوية.

  2- مبدأ الجوهرية.

  3- مبدأ التناقض.

  4- مبدأ الثالث المرفوع.

  5- مبدأ السبب الكافي.

 إذا انسجم القضية مع البنية الذهنية أو المعايير الخمسة ستكون القضية مطابقة للواقع أو للبنية الوجودية. وإذا خالف القضية ولو معيارا واحدا يستحيل أن تكون القضية مطابقة للواقع. وهناك تدرّج منطقي بين هذه المعايير الخمسة، لذلك ينبغي لنا أن نعرف ما هي العلاقة بين بعضهم بعضا.

 

 

2- العلاقة بين مبدأ الهوية ومبدأ التناقض: 

 يقول الغربيّون: لا فرق بين مبدأ الهوية وبين مبدأ التناقض. يعني أن مبدأ التناقض نفسه هو مبدأ الهوية لكن في دائرة السلب. وبيان ذلك هو أنت إذا رشحت القضية "الإنسان عالم"، ففي نفس الوقت رشحت القضية "الإنسان ليس بعالم". فمبدأ التناقض يرفض الإثنينيّة، وسبب ذلك إنّ الإنسان إذا تعيّن بالعلم فالعلم من شؤوناته. وإذا تعيّن بعدم العلم(رفع شأن علم من الإنسان) بمعنى أنّ الهوية غير متعيّنة في دائرتها(إنسان ولا إنسان)، يعني رفع الإنسان من متن الواقع، وهذا يعني أن مبدأ التناقض هو نفس مبدأ الهوية في بعد سلبي، أي أنّ مبدأ التناقض هو نفس مبدأ الهوية إذا طرد ما لا يناسبه.

تعقيب على ذلك: إذا قلت: "لا إنسان عالم" يستحيل أنّ تقول: "الإنسان ليس بحيّ"، لأنّه لا يمكن أن يتحيّث الإنسان بعلم دون حياة. لذلك يشترط الفلاسفة في عالم المسلمين  بأنّ المواصفات  يجب أن تكون أعراضا ذاتيّة.

إذا شئنا أن نأسّس نسقا معرفيا ما، وتمضى مبدأ التناقض فيجب أن تكون محمولات متناسبة(يعني أعراض ذاتية للموضوعات) حتى تنسجم مع مبدأ التناقض.

إذن مبدأ التناقض يحمي مبدأ الهوية ويحفظها.

3- العلاقة بين مبدأ التناقض ومبدأ السبب الكافي:

 يحيل مبدأ السبب الكافي القضايا إلى مبدأ التناقض، وإذا انسجمت مع مبدأ التناقض تكون حاكية وصادقة، وإذا لم تنسجم تكون كاذبة.

 

الفصل الثاني: العلاقة بين البنية الوجودية والبنية الذهنية

1- انطلاق المباني المختلفة:

  الفلاسفة الذين بنو مبناهم على أساس البنية الفاهمية والذهنية كأمثال ابن سينا لا يعتبرون بالقضية "الوجود أصيل" هذا التركيب عندهم لا معنى لها، لأنّها لا تطرح في نسق الشيخ الرئيس أصلا، لأنّه انطلق من المعايير الذهنية وسلّطه على الواقع، و وصل إلى الهوية في دائرة بعيدا عن الوجود والعدم، ثمّ يسلّطها على الواقعية، ويقول: الواقعية هي الماهية فقط.

وأمّا الفلاسفة الذين بنو مبناهم على أساس البنية الوجودية كأمثال صدر المتألهين، بنى فلسفته على أساس أصالة الوجود، حينما أدرك صدر المتألهين الوجود، فجعل أصالة للوجود.

من هنا يمكن أن نفهم فرقا بين الشيخ الرئيس وصدر المتألهين من حيث انطلق ابن سينا من البنية الذهنية، وصدر المتألهين من البنية الوجودية، لذلك يحتاج إلى المعايير الوجودية لا المعايير الفاهمية.

إذن الماهية هي متن الواقع عند ابن سينا، وأمّا عند صدر المتألهين الماهية تكون في الحاشية، ولا يمكن أن تكون متنا بل إنّما هي اعتبارية، وبالتالي الأصالة تكون للوجود.

والنتيجة: الشيخ الرئيس يقول بأنّ الإنسان هو متن الواقع بمعنى الأصالة للماهية بقوله: "الإنسان موجود"، ولكن سوف يأتي بأنّ الإنسان هو متن الواقع بالعرض لا بالذات في قول ملا صدرا: "وجود الإنسان وجود".

2- البنية الوجودية والبنية الذهنية ومسألة الأصالة:

 لا شكّ في أنّ معنى الوجود في دائرة الفهم هو البنية الذهنية، والبنية الذهنية في دائرة الوجود هي البنية الوجودية. من هنا يمكن أن نقول بأنّهما حقيقة واحدة التي لها مرتبتين،وكلّ مرتبة لها آثار الذي يختصّ بها، ومن خلالهما تترشح المباني الفلسفية المختلفة.

 

الفصل الثالث: كيف تترشح المباني؟

    نبحث في هذا الفصل حول لماذا قال ابن سينا بأصالة الماهية ومن أين انطلق وما هو الدليل؟ ثمّ لماذا قال صدر المتألهين بأصالة الوجود؟

إذن هذا الفصل يشتمل على نقطتين، وهما:

1- مبنى ابن سينا

2- مبنى صدر المتألّهين

1- مبنى ابن سينا:

 السؤال الأساسي هنا هو لماذا قال ابن سينا بأصالة الماهية ومن أين انطلق؟

الجواب هو أنّه انطلق من خلال البنية الذهنية كمعرفة ليس كبنية، ولهذا وقع ابن سينا في خطأ بحيث جعل البنية الذهنية معرفة.

السؤال الفرعي هو كيف عرفنا أن ابن سينا انطلق من البنية الذهنية؟

الجواب هو أنّ البنية الوجودية إذا أرادت أن تصنع البنية الذهنية تصنعها لغاية ما، وهذه الغاية هي الفهم يعني البنية الوجودية هي التي تصنع البنية الذهنية للفهم. والمعرفة تترشح من خلال البنية الذهنية.

إذن النتيجة هي أن الوجود إذا أراد أن يترشح المعرفة من خلال البنية الذهنية يترشحها من بعده الماهوي والحيثي، لا من بعده الوجودي.

تعقيب على ذلك: عندنا حيثيات وعندنا تعيّنات ماهوية، وهذه التعيّنات بالحقيقة هي تعيّنات صنعية ليست واقعية، بمعنى يريد الفهم أن يفصل الشجرة أو الحجر أو الإنسان، فيصنع لها الماهية، وهذه الماهية ليس لها واقعية في الخارج، وبالحقيقة ليس عندنا الماهية في الخارج، بل عندنا وجودات رابطية، والماهية ليست إلا حيثية التي تتميز الأشياء فقط، وفي الواقع لا يوجد الماهية إلا لتمييز الوجود ونسمّيها "حيثية تقييدية نفادية".

  1- لماذا الماهية والحيثيات ليست لها واقعية؟

 الماهية والحيثيات ليست واقعيات، بل إنّما وجودات ربطية فقط. وسرّ ذلك أنّها يمكن أن تتمظهر في البنية الذهنية معرفيا، لأنّ المفاهيم الماهوية هي تتجلّى في البنية الذهنية لكونها تتمثل حيثيات وليس المتن، ثم إذا تعيّنت البنية الذهنية لا تتعامل مع المتن، بل إنّما تتعامل مع ظلال المتن، بمعنى تتعامل مع حيثيات المتن(إمّا حيثية تقييدية اندماجية أو حيثية تقييدية نفادية)، لأنّها في دائرة الفهم.

  2- ما هو محكي مفهوم الوجود؟

المدرسة المشائية ذهنية، وتتعامل مع الواقع بالذهن. فمفهوم الوجود عندهم في الذهن. وإذا خرجناه إلى الخارج يختفي الوجود في الماهيات، لأنّه عام وبديهي. لذلك مفهوم الوجود يحكي الماهية نفسها، بحيث إذا طبّق مفهوم الوجود على الإنسان يحكي "الحيوان الناطق" ولهذا يقول أصحاب أصالة الماهية: الإنسان واقعية موجود، بمعنى أنّ المتن هي الماهية.

وأمّا على أساس مبنى أصالة الوجود، مفهوم الوجود يحكي حيثية طاردية العدم، لأنّ الفلاسفة بالإجماع يقولون بأن الوجود المتني لا يأتي إلى الذهن أصلا.

خلاصة الكلام: هي أنّه انطلق من خلال البنية الذهنية كمعرفة ليس كبنية، ولهذا وقع ابن سينا في خطأ بحيث جعل البنية الذهنية معرفة. وأنّ الوجود إذا أراد أن يترشح المعرفة من خلال البنية الذهنية يترشحها من بعده الماهوي والحيثي، لا من بعده الوجودي، لأنّ الوجود مختفي في الماهيات.    

2- مبنى صدر المتألّهين:

  يرى صدر المتألهين كلّ ما قال به الشيخ الرئيس ابن سينا وفقا للبنية الذهنية صحيحا، ولكنه يعترض عليه من جهة البنية الوجودية بأنّه إذا جئنا إلى البنية الوجودية، من قال بأنّ الماهية هناك بالذات؟ قد تكون في المتن بالعرض. نحن لا ننفي بأنّ الماهية تجدها في البنية الوجودية، لأنّ وظيفة الذهن الحكاية فلا معنى للماهية في البنية الذهنية، وكذلك البنية الذهنية مندكّ في البنية الوجودية، وبالتالي تجد الماهية هناك بالقطع واليقين، لكن ماهية الإنسان ليست بأصيلة، بل إنّما وجود الإنسان هو الأصيل.

إذا قلنا: "الإنسان موجود" هنا ابن سينا يقول إنّ هذا التركيب قضية معرفية، ولكن عند صدر المتألهين هذا التركيب ليس بقضية، لأنّ ملاك حمل الوجود على الإنسان ليس بإنسان، بل إنّما هو الوجود المتني، ومبدأ السبب الكافي يقبل ذلك. لذلك التركيب الصحيح هو: "وجود الإنسان وجود".

  1- خصائص مفهوم الوجود:

  هي ثلاثة:

1- البداهة الفهمية: يعني الوجود المتني له معقولية ذاتية.

2- العموم.

3- التشكيك الوجودي.

  2- ضوابط صدر المتألهين في أصالة الوجود:

أهم منها:

1- حيثية الاشتراك والافتراق واحدة في النوذج الوجودي، والمفهومان(الموضوع والمحمول) في حمل الحقيقة على الرقيقة(الإنسان الله) تعيّن خارجي ولا ذهني.

2- أكثر عبارات صدر المتألهين مستعارة. مثلا: "الوجود أصيل" معناه متحقّق بالذات، والوجود لا يأتي إلى الذهن.

هذا هو طرح أصالة الوجود عند صدر المتألهين، وعلى أساس هذا التحليل، ذهب إلى قول بأصالة الوجود واعتبارية الماهية.

 

  3- تعقيب

 عندما تعيّن الإنسان في الذهن، يضعنا في الخارج في بعد تعقّلي. والبعد التعقّلي لا معنى للتحقّق وعدم التحقّق فيه. إذن لا نحتاج إلى الوجود المحمولي، لأنّ البعد التعقلي متّكي على المتن وهو الوجود. فالإنسان متحقّق من دون احتياج إلى الوجود المحمولي.

بعبارة أخرى: نحن إذا أخذنا هذه التركيبات:

1- الإنسان موجود.

2- الشجر موجود.

3- البقر موجود.

4- الحجر موجود.

هذه التركيبات تدلّ على تعيّن البنية الذهنية للإنسان، والشجر، والبقر، والحجر، بمعنى نحن فهمنا إنسانا، شجرا، بقرا، وحجرا. ثمّ هذا الفهم هو الذي يرسلنا إلى المتن(الوجود) بمعنى البنية الوجودية. هذه البنية الوجودية  لا تأتي إلى الذهن وهي أصيلة.

إذن نحن أيضا نعتقد بأصالة الوجود إلا أنّنا نختلف مع صدر المتألهين فيما أنّه بنى على أنّ الوجود المحمولي يحكي طاردية العدم. وفي الحقيقة، الحكاية لمفهوم الوجود لا معنى لها، بل إنّما مفهوم الوجود لا معنى له، لأنّ مفهوم الوجود ليس إلا مبدأ تعيّن البنية الذهنية، والبنية الذهنية هي ظلّ البنية الوجودية. فالبنية الذهنية والبنية الوجودية هما حقيقة واحدة في مرتبتين.

 

خلاصة البحث

 1- إنّ البحث عن البنية الوجوديّة والبنية الذهنيّة بحث أساسي في الفلسفة. وأساسه يرجع إلى تشخيص الأصالة والاعتبارية.

2- عندنا أربع أفق في الفلسفة، وهي:

  1- البنية الوجودية.

  2- التعيّن المثالي.

  3- التعيّن المعرفي.

  4- البنية الذهنية.

3- البنية الذهنية في مقابل البنية الوجودية عند ابن سينا، وصدر المتألهين، وأمّا عندنا هما حقيقة واحدة في مرتبتين.

4- التعيّن المثالي والتعيّن المعرفي واسطة وبرزخ بين البنية الوجودية والبنية الذهنية. التعيّن المعرفي بالنسبة إلى البنية الوجودية هو التعيّن المثالي، والتعيّن المثالي بالنسبة إلى البنية الذهنية هو التعيّن المعرفي، ويسمّى أيضا بالقيمة المعرفية.

5- التعيّن المثالي لا علاقة له بالتحقق، ولا بالتعقّل. وهذا المبدأ المثالي تعيّن إلهي ولا يخطأ.

6- البحث عن الأفق الأربعة غير موجود في الكتب الفلسفية بالتفصيل، لذلك نجد أخطا كثيرا في فهم عبارات العلماء في الفلاسفة.

7- البنية الذهنية تشتمل على خمسة معايير، وهي:

  1- مبدأ الهوية.

  2- مبدأ الجوهرية.

  3- مبدأ التناقض.

  4- مبدأ الثالث المرفوع.

  5- مبدأ السبب الكافي.

8- ابن سينا انطلق من خلال البنية الذهنية كمعرفة ليس كبنية، ولهذا وقع ابن سينا في خطأ بحيث جعل البنية الذهنية معرفة. وأنّ الوجود إذا أراد أن يترشح المعرفة من خلال البنية الذهنية يترشحها من بعده الماهوي والحيثي، لا من بعده الوجودي، لأنّ الوجود مختفي في الماهيات.

9- إذا قلنا: "الإنسان موجود" هنا ابن سينا يقول إنّ هذا التركيب قضية معرفية، ولكن عند صدر المتألهين هذا التركيب ليس بقضية، لأنّ ملاك حمل الوجود على الإنسان ليس بإنسان، بل إنّما هو الوجود المتني، ومبدأ السبب الكافي يقبل ذلك. لذلك التركيب الصحيح هو: "وجود الإنسان وجود".

10- عندما تعيّن الإنسان في الذهن، يضعنا في الخارج في بعد تعقّلي. والبعد التعقّلي لا معنى للتحقّق وعدم التحقّق فيه. إذن لا نحتاج إلى الوجود المحمولي، لأنّ البعد التعقّلي متّكي على المتن وهو الوجود. فالإنسان متحقق من دون احتياج إلى الوجود المحمولي.

 

المصادر والمراجع

1- دروس الأستاذ الشيخ فضيل ريال، سنة93-94.

 

فهرس الموضوعات

1- مقدمة........................................................................1

2- الفصل الأول: البنية الوجودية والبنية الذهنية.....................................2

-       المعايير الذهنية...............................................................3

-       العلاقة بين مبدأ الهوية ومبدأ التناقض..........................................4

-       العلاقة بين مبدأ التناقض ومبدأ سبب الكافي...................................4

3- الفصل الثاني: العلاقة بين البنية الوجودية والبنية الذهنية..........................5

-       انطلاق المباني المختلفة.......................................................5

-       البنية الوجودية والبنية الذهنية ومسألة الأصالة.................................5

4- الفصل الثالث: كيف تترشح المباني؟...........................................6

 1- مبنى ابن سينا...............................................................6

-       لماذا الماهية والحيثيات ليست لها واقعية؟.......................................7

-       ما هو محكي مفهوم الوجود؟................................................7

 2- مبنى صدر المتألهين...........................................................7

-       خصائص مفهوم الوجود.....................................................8

-       ضوابط صدر المتألهين في أصالة الوجود........................................8

-       تعقيب.....................................................................9

5- خلاصة البحث..............................................................10

6- المصادر والمراجع.............................................................12