کیا امام حسینؑ کو شیعہ نے قتل کیا؟

سوال: کیا امام حسینؑ کو شیعہ نے قتل کیا؟

مختصر جواب:

نہیں، امام حسین علیہ السلام کو شیعہ نے قتل نہیں کیا۔ امام حسینؑ کو یزید بن معاویہ کی حکومت کے حکم پر اموی فوج نے شہید کیا، جن کی قیادت عمر بن سعد، شمر بن ذی الجوشن، اور دیگر اموی کمانڈرز کر رہے تھے۔ ان میں سے اکثر نہ عقیدتاً شیعہ تھے، نہ اہل بیتؑ کے وفادار، بلکہ دنیاوی مفادات، خوف یا حکومت کی اطاعت میں شریک تھے۔

تفصیلی وضاحت:

📌 شیعہ کی تعریف:

لغوی معنی: "شیعہ" کا مطلب ہے کسی کے پیروکار۔ قرآن میں بھی لفظ "شیعه" آیا ہے: سورۃ الصافات 83: ﴿وَإِنَّ مِن شِيعَتِهِ لَإِبْرَاهِيمَ﴾ یعنی "ابراہیمؑ بھی اس (نوحؑ) کے پیروکاروں میں سے تھے۔"

خلافتِ راشدہ کے بعد "شیعه علیؑ" وہ کہلاتے تھے جو علیؑ کو خلافت کے لیے سب سے زیادہ حقدار مانتے تھے اور ان سے محبت رکھتے تھے۔ لهذا اس وقت "شیعہ" کا مطلب تھا: اہل بیت علیہم السلام کے ماننے والے اور ان کے سیاسی و روحانی حامی۔

📌 اہل کوفہ کون تھے؟

کوفہ حضرت علیؑ کا دارالخلافہ رہا، اس لیے وہاں بہت سے لوگ "شیعہ علیؑ" کہلاتے تھے۔ مگر وقت کے ساتھ ان میں منافقت، بزدلی، اور دنیا پرستی گھر کر گئی تھی۔ یزید کے گورنر ابن زیاد نےعوام کو خریدا یا ڈرایا۔ امام حسینؑ کی حمایت کرنے والوں کو قتل یا قید کیا۔حتیٰ کہ مسلم بن عقیلؑ کو بھی شہید کر دیا۔

کوفہ میں بہت سے ایسے لوگ موجود تھے جنہوں نے امام حسینؑ کو خطوط لکھے اور دعوت دی، مگر جب یزید کی طرف سے سختی، دھمکی اور قتل کا خطرہ آیا، تو بہت سے لوگ ڈر گئے یا خاموش ہو گئے۔ انہیں "شیعہ" کہنا آج کے معنوں میں درست نہیں۔

کیا خط لکھنے والے بعد میں کربلا میں امام کے خلاف تھے؟ نہیں۔ تاریخ گواہ ہے کہ کوفہ کے شیعہ جیسے سلیمان بن صرد خزاعی نے بعد میں "تَوّابین" کی تحریک چلائی تاکہ اپنے گناہ کا کفارہ ادا کر سکیں۔

اصل شیعہ، جیسے حبیب بن مظاہر، مسلم بن عقیل، زہیر بن قین، جون(حبشی غلام)، وہب اور ان کی ماں و بیوی اور جوانان بني هاشم۔ یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے اپنی جانیں قربان کیں لیکن امامؑ کا ساتھ نہ چھوڑا۔

📌 امام حسینؑ کے قاتل کون تھے؟

1- یزید بن معاویہ: ظالم حکمران، جس نے بیعت نہ کرنے پر قتل کا حکم دیا۔

2- عبید اللہ بن زیاد: کوفہ کا گورنر، جس نے امام حسینؑ کے خلاف لشکر تیار کیا۔

3- عمر بن سعد بن ابي وقاص: یزیدی لشکر کا سربراہ۔

4- شمر بن ذی الجوشن: امام حسینؑ کے قتل میں براہ راست شریک۔

ان میں سے کوئی بھی شیعہ علیؑ نہیں تھا۔ یہ لوگ دنیا طلب، حکومت کے وفادار، اور اہل بیتؑ کے دشمن تھے۔ ان کا تعلق مختلف قبیلوں سے تھا جنہوں نے کبھی علیؑ اور اہل بیتؑ کو قبول نہیں کیا۔

یہ کہنا کہ "امام حسینؑ کو شیعوں نے قتل کیا" ایک تاریخی مسخ (Distortion) ہے۔ اس کا مقصد اہل بیتؑ سے محبت کرنے والے طبقے کو بدنام کرنا ہے۔ امام حسینؑ کے قاتل وہ لوگ تھے جنہوں نے یزید کے لیے کام کیا، اور حقیقی شیعہ اس واقعے سے یا تو بےدخل تھے، خاموش کر دیے گئے، یا شہید کر دیے گئے۔

🔹 مستند حوالہ جات:

1- طبری (تاریخ الامم والملوک)

2- بلاذری (انساب الاشراف)

3- شیخ مفید (الارشاد)

4- ابن اثیر (الکامل فی التاریخ)

5- رضی الدین ابن طاؤس (اللهوف فی قتلی الطفوف)

محبت كا اظهار كرو

بسم اللہ الرحمن الرحیم

💠 حدیث_روز 💠

🔻 امام صادق عليه‌السلام:

اِذا اَحْبَبْتَ رَجُلاً فَاَخْبِرْهُ بِذلِكَ فَاِنَّـهُ اَثْبَتُ لِلْمَـوَدَّةِ بَيْنَكُما۔

اردو ترجمہ:

"جب تم کسی سے محبت کرو تو اسے ضرور بتاؤ، کیونکہ ایسا کرنے سے تمہاری باہمی دوستی زیادہ پائیدار ہو جاتی ہے۔"

📚 اصول کافی، ج ۲، ص ۶۴۴

وضاحت

1- محبت کا اظہار کیوں ضروری ہے؟ جب آپ کسی کی خوبیوں، اخلاق یا کردار سے متاثر ہو کر اسے دل سے چاہیں، تو اس احساس کو چھپانے کے بجائے کھل کر بیان کرنا دونوں کے درمیان اعتماد اور خلوص کو گہرا کرتا ہے۔ مثال: جیسے کوئی دوست آپ کی مشکل وقت میں مدد کرے، اور آپ اسے بتائیں: "تمہاری دوستی میرے لیے بہت قیمتی ہے"۔

2- پائیداری کا راز: امام صادقؑ فرماتے ہیں کہ یہ عمل مودت (گہری دوستی) کو "اَثْبَتُ" (مضبوط/پائیدار) بناتا ہے، كيونكه محبت چھپانے سے شک یا دوری پیدا ہو سکتی ہے، جبکہ اظہار رشتے کو حقیقی بنیاد فراہم کرتا ہے۔

3- عملی اطلاق: یہ حکم صرف مردوں تک محدود نہیں؛ بلکہ ہر رشتے (ماں باپ، بہن بھائی، دوست، استاد) میں لاگو ہوتا ہے۔ لهذا جب بھی آپ کسی کی صلاحیت، نیکی یا حسنِ سلوک سے متاثر ہوں، اسے الفاظ یا عمل سے ضرور بتائیں۔

☑️آج کی مشق:

آج کسی ایک شخص کو بتائیں کہ "آپ کی موجودگی میری زندگی کے لیے اہم ہے"۔

•┈┈••🌷••┈┈•

*الفاظِ محبت انسان کے دل کا راستہ ہیں، جو دوسروں تک پہنچ کر گھر بنا لیتے ہیں۔*

الحرية الليبرالية في ميزان النقد

الحرية الليبرالية في ميزان النقد

الخلاصة
يتناول هذا البحث مفهوم الحرّية في الفكر الليبرالي باعتبارها ركيزةً أساسيةً له، ويستعرض الأبعاد المختلفة للحرّية، مثل الحرّية الفكرية والعقدية والاجتماعية والسياسية، ويحلّل المبادئ الأساسية الّتي تقوم عليها الليبرالية، كالإنسانوية والفردية وأصالة اللذّة وأصالة الحسّ والعقل الأداتي. كما يناقش الإسهامات الفكرية لروّاد الليبرالية مثل جون لوك وجون ستيوارت مل. يركّز البحث على الانتقادات الموجّهة للحرّية الليبرالية، خاصّةً من المنظور الإسلامي، الذي يرى الحرّية كقيمة متوازنة بين حقوق الفرد وواجباته تجاه المجتمع. يوضّح أنّ الحرّية التي تدعو إليها الليبرالية تتعارض مع القيم النظرية والعملية. في الختام، يبرز البحث أهمّية التوازن بين حرّية الفرد والمصالح العامّة، مع نقد التصوّرات الليبرالية للحرّية من حيث تعريفها ومبادئها وأنواعها. هذا و قد اعتُمِد على المنهج الوصفي والتحليلي النقدي في بيان الآراء المختلفة للّيبرالية والمتعلّقة بالحرّية وتقييمها.

الحرية الليبرالية في ميزان النقد

الله تعالى کے دیدار کے تصور پر ایک تنقیدی مطالعه

اللہ تعالى کے دیدار کے تصور پر ایک تنقیدی مطالعہ

یہ مقالہ ابن تیمیہ کے تصورِ رؤیتِ الٰہی (اللہ کے دیدار) کا تفصیلی اور تنقیدی مطالعہ پیش کرتا ہے۔ ابن تیمیہ، جو سلفی مکتب فکر کے بڑے مشهور عالم ہیں، نے رؤیتِ باری تعالیٰ کو ایک مسلم عقیدہ قرار دیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کا دیدار نہ صرف آخرت میں ممکن ہے بلکہ دنیا میں بھی— اگرچہ غیرمعمولی حالات میں—ممکن ہو سکتا ہے۔ ان کے مطابق اللہ تعالیٰ کو خواب میں دیکھنا بھی ممکن ہے اور یہ بعض صالحین کو نصیب ہوا ہے۔

ابن تیمیہ کی آراء قرآن و سنت کی روشنی میں ہیں، لیکن ان کی تعبیرات میں ظاہریت غالب ہے۔ وہ نصوصِ شرعیہ کی تاویل یا مجاز سے گریز کرتے ہیں اور اس بات پر زور دیتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کو آخرت میں مومن اپنی آنکھوں سے دیکھیں گے، جیسا کہ بعض احادیث میں صراحت موجود ہے۔ وہ انکارِ رؤیت کو گمراہی قرار دیتے ہیں اور معتزلہ جیسے مکاتب فکر پر تنقید کرتے ہیں جو اللہ کے دیدار کے قائل نہیں۔

مقالہ نگار نے اس تصور پر تنقیدی نظر ڈالتے ہوئے مختلف پہلوؤں کو اجاگر کیا ہے۔ پہلا پہلو تو یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کو مخلوقات کے خواص سے متصف کرنا یا اسے مکان و جہت کا پابند سمجھنا توحید کے منافی ہو سکتا ہے۔ اگرچہ ابن تیمیہ خود تجسیم (anthropomorphism) کے قائل نہیں، لیکن ان کے بعض بیانات ایسے فہم کو جنم دیتے ہیں۔ وہ اللہ کے چہرے، ہاتھ، اور آنے جانے جیسے افعال کو بغیر کسی تاویل کے قبول کرتے ہیں، جو کہ بعض اوقات اللہ تعالیٰ کی صفات کو انسانی صفات کے مشابہ بنا دیتا ہے۔

مقالہ میں یہ نکتہ بھی اٹھایا گیا ہے کہ دنیا میں رؤیتِ الٰہی کی جو مثالیں دی گئی ہیں، وہ خواب یا غیر معمولی روحانی کیفیات پر مبنی ہیں جنہیں عام شرعی اصولوں پر پرکھنا مشکل ہے۔ نیز، دنیا میں دیدار کا امکان اس دنیا کی محدوديت اور اللہ تعالیٰ کے لامحدود ہونے میں تضاد پیدا کرتا ہے۔

ایک اور اہم پہلو مختلف مکاتبِ فکر کا تقابلی جائزہ ہے۔ معتزلہ رؤیتِ الٰہی کے سخت مخالف ہیں، کیونکہ ان کے نزدیک یہ بات اللہ کی ذات کے تنزیہی تصور کے خلاف ہے۔ اشاعرہ نے ایک درمیانی راستہ اختیار کیا ہے؛ وہ آخرت میں رؤیت کے قائل ہیں مگر دنیا میں نہیں۔ صوفیہ کی آراء متنوع ہیں، کچھ اسے روحانی مشاہدہ قرار دیتے ہیں تو کچھ حقیقی دیدار کے بھی قائل ہیں۔

تحقیق کے آخر میں مقالہ نگار اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ ابن تیمیہ کا تصورِ رؤیت اگرچہ سلفی مکتب کے مطابق ہے، لیکن اس میں بعض ایسے پہلو موجود ہیں جو متنازع اور مزید تحقیق کے متقاضی ہیں۔ ان کے دلائل اگرچہ نصوص پر مبنی ہیں، لیکن تعبیرات میں جمود اور تاویل سے انکار بعض اوقات توحید کے اساسی اصولوں سے متصادم ہو جاتا ہے۔

امام رضا عليه السلام کو غریب الغرباء کیوں کها جاتا ہے؟

امام رضا عليه السلام کو غریب الغرباء کیوں کها جاتا ہے؟

بہت سے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ امام رضا علیہ السلام کو "امام غریب" یا "غریب الغرباء" اس لیے کہا جاتا ہے کیونکہ آپ اپنے وطن اصلی یعنی مدینہ منورہ سے دور تھے۔ لیکن اگر اس معنی کو دیکھا جائے تو پھر امیر المؤمنین علی علیہ السلام بھی کوفہ میں غریب تھے، اسی طرح امام حسین علیہ السلام، امام موسیٰ بن جعفر علیہ السلام، امام جواد علیہ السلام اور امام عسکریین علیہما السلام بھی غریب تھے۔ لیکن امام رضا علیہ السلام کی غربت ایک خاص قسم کی تھی، اسی لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان "بضعة مني" صرف حضرت فاطمہ الزہرا سلام اللہ علیہا اور امام رضا علیہ السلام کے لیے آیا ہے۔ اگر ایک مخلص شیعہ امام رضا علیہ السلام کی غربت کو سمجھ لے تو اس کا دل ٹکڑے ٹکڑے ہو جائے گا!

آپ کی غربت کئی پہلوؤں سے تھی:

1- وطن سے دوری کی غربت

2- اپنے ہی خاندان میں غربت، کیونکہ بعض نے آپ کو شدید تکلیف پہنچائی۔

3- اپنے والد کے اصحاب میں غربت، کیونکہ بہت سے لوگوں نے آپ کے ساتھ خیانت کی۔

4- مأمون کے محل میں غربت، جو ظاہر میں محل تھا لیکن باطن میں ایک جیل تھی اور جبری قیام گاہ۔

5- اپنی قوم میں غربت، کیونکہ انہوں نے آپ کو تکلیف دی اور آپ پر بہتان لگایا۔

6- مأمون کی فتنہ انگیزیوں میں غربت۔

7- اپنے خاندان کو تباہ ہوتے دیکھنے کی غربت، جیسے حضرت فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیہا اور دیگر، لیکن آپ انہیں خبردار نہ کر سکتے تھے۔

# ایک واقعہ:

جب حرم رضوی میں ابھی دیواریں اور دروازے نہیں لگے تھے۔ ایک ایرانی انجینئر کام کی نگرانی کر رہا تھا کہ شیخ بہائی نے اس سے کہا: "جب تم دیواریں بنا لو تو دروازے نہ لگانا، جب تک میں تمہیں حکم نہ دوں۔" انجینئر نے کہا: "جی مولانا!" لیکن پہلی رات ہی اس نے خواب میں امام رضا علیہ السلام کو دیکھا، جو فرما رہے تھے: "دروازے لگا دو۔" جب وہ بیدار ہوا تو اس نے سوچا کہ یہ صرف ایک خواب ہے، کیونکہ شیخ نے انتظار کرنے کو کہا تھا۔ دوسری رات پھر یہی خواب دیکھا، لیکن امام علیہ السلام نے سختی سے فرمایا۔ تیسری رات امام نے اور بھی سختی سے حکم دیا، تو اس نے سوچا کہ یہ صرف خواب نہیں بلکہ حکم ہے۔ چنانچہ اس نے دروازے لگوا دیے۔

کچھ دن بعد شیخ بہائی آئے اور غصے سے پوچھا: "کیا میں نے تمہیں دروازے نہ لگانے کو نہیں کہا تھا؟" انجینئر نے بتایا کہ امام علیہ السلام نے تین بار خواب میں حکم دیا، تو مجھے یقین ہو گیا کہ یہ آپ کا حکم ہے۔ یہ سن کر شیخ بہائی رونے لگے۔ انجینئر نے پوچھا: "مولانا، آپ کیوں رو رہے ہیں؟" شیخ نے جواب دیا: "یہ واقعی رحمت کے دروازے ہیں اور امت کی نجات کا ذریعہ۔ میں نے سوچا تھا کہ ہر دروازے پر ایسی حفاظتی علامتیں لگاؤں کہ جو شخص بھی گناہگار ہو، وہ اندر نہ جا سکے۔ لیکن امام علیہ السلام نے فرمایا: 'یہ لوگ بے بس ہو کر ہماری پناہ میں آتے ہیں، اگر ہم انہیں واپس کر دیں گے تو پھر وہ کہاں جائیں گے؟"

السلام علیک یا ضامن الجنان یا علی بن موسی الرضا!

اللہ تعالیٰ ہمیں اور آپ کو دنیا میں آپ عليه السلام کی زیارت اور آخرت میں آپ کی شفاعت نصیب فرمائے۔ الهي آمين.

حواله: https://forums.alkafeel.net/node/95266

بگ بینگ تھیوری كيا ہے اور اس كا رد

بگ بینگ تھیوری كيا ہے اور اس كا رد

بگ بینگ تھیوری (Big Bang Theory) ایک سائنسی نظریہ ہے جو کائنات کی ابتدا کی وضاحت کرتا ہے۔ اس نظریے کے مطابق، کائنات تقریباً 13.8 ارب سال پہلے ایک بہت ہی چھوٹے، گرم اور کثیف نقطے (Singularity) سے وجود میں آئی۔ پھر ایک بڑے دھماکے (Big Bang) کے نتیجے میں یہ تیزی سے پھیلنا شروع ہوئی اور آج بھی پھیل رہی ہے۔

یہ نظریہ کئی سائنسی مشاہدات پر مبنی ہے، جن میں شامل ہیں:

1- کائنات کا پھیلاؤ: ایڈون ہبل کی دریافت کے مطابق کہکشائیں ایک دوسرے سے دور ہو رہی ہیں، جو ظاہر کرتا ہے کہ کائنات کسی وقت ایک نقطے پر مرکوز تھی۔

2- کاسمولوجیکل مائیکرو ویو بیک گراؤنڈ ریڈی ایشن: (CMB) یہ ابتدائی دھماکے کی باقیات سمجھی جاتی ہیں جو پوری کائنات میں موجود ہیں۔

3- ہلکے عناصر کی ترکیب: ہائیڈروجن اور ہیلیم جیسے عناصر کی مقدار اسی ماڈل کے مطابق بنتی ہے۔

بگ بینگ تھیوری کا رد

1- سنگولیرٹی (Singularity) کا مسئلہ: بگ بینگ سے پہلے کیا تھا؟ اس کا کوئی مکمل سائنسی جواب نہیں۔ سائنس خود یہ تسلیم کرتی ہے کہ بگ بینگ سے پہلے کی حالت کا کوئی واضح جواب نہیں۔ اگر بگ بینگ سے پہلے کچھ نہیں تھا تو یہ کیسے ممکن ہے کہ کچھ بھی وجود میں آیا؟ کیا بگ بینگ کے بعد جو کچھ ہوا، وہ ایک بے مقصد اتفاقی عمل تھا یا کسی عقل کل (اللہ) کی نگرانی میں تھا؟

2- ڈارک میٹر اور ڈارک انرجی: بگ بینگ تھیوری کو درست ثابت کرنے کے لیے فرضی چیزوں جیسے ڈارک میٹر اور ڈارک انرجی کی ضرورت پڑتی ہے، جن کی نوعیت ابھی تک واضح نہیں۔

دوسرے الفاظ ميں بگ بینگ ماڈل میں بہت سی چیزیں ابھی تک مفروضہ ہیں، جیسے کہ کائنات کا 95% حصہ ڈارک میٹر اور ڈارک انرجی پر مشتمل ہونے کا نظریہ، جس کا کوئی مشاہداتی ثبوت نہیں۔

3- ہورائزن مسئلہ: اگر کائنات بہت تیزی سے پھیلی تو مختلف حصے ایک جیسے کیوں نظر آتے ہیں؟ اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے "کاسمک انفلیشن" کا نظریہ پیش کیا گیا، لیکن یہ بھی مکمل طور پر ثابت نہیں ہوا۔

نتیجہ

بگ بینگ تھیوری ایک سائنسی ماڈل ہے جو کائنات کی ابتدا کی وضاحت کرتا ہے اور کئی مشاہداتی شواہد جیسے کائنات کے پھیلاؤ، کاسمولوجیکل مائیکرو ویو بیک گراؤنڈ ریڈی ایشن، اور ہلکے عناصر کی ترکیب سے مطابقت رکھتا ہے۔ تاہم، اس میں کچھ نامعلوم پہلو بھی ہیں، جیسے کہ سنگولیرٹی کا مسئلہ، ڈارک میٹر اور ڈارک انرجی کی نوعیت، اور ہورائزن مسئلہ۔ کائنات کے وجود اور اس کے مقصد پر سائنسی اور فلسفیانہ دونوں زاویوں سے بحث کی جا سکتی ہے۔ کچھ لوگ اسے محض ایک طبیعیاتی عمل سمجھتے ہیں، جبکہ دیگر اسے اعلیٰ ہستی (اللہ) کی تخلیق کا نتیجہ مانتے ہیں۔ اس لیے، بگ بینگ تھیوری سائنسی لحاظ سے مضبوط تو ہے، مگر اس کے کچھ بنيادى پہلو فلسفي تحقیق اور غور و فکر کے متقاضی ہیں۔

خدا اور کائنات کی خلقت

خدا اور کائنات کی خلقت

اگر خدا خود غیر مادی ہے اور مادہ (میٹر) موجود نہیں تھا، تو خدا نے مادی جہان کو کیسے تخلیق کیا؟ یہ ایک گہرا فلسفیانہ اور کلامی سوال ہے جس پر صدیوں سے مفکرین، فلاسفہ، اور علمائے کرام بحث کرتے آئے ہیں۔ اس کا جواب مختلف نظریاتی اور مذہبی نقطہ نظر سے دیا جا سکتا ہے۔

1-تخلیق (ex nihilo ) لاشیء سے تخلیق

اسلام، مسيحيت اور یہودیت میں عمومی طور پر یہ عقیدہ پایا جاتا ہے کہ خدا نے کائنات کو "عدم سے پیدا کیا" (ex nihilo) یعنی بغیر کسی پہلے سے موجود مواد کے۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: "إِنَّمَا أَمْرُهُ إِذَا أَرَادَ شَيْئًا أَنْ يَقُولَ لَهُ كُنْ فَيَكُونُ"(سورۃ یٰسین: 82) "بے شک اس کا حکم یہی ہوتا ہے کہ جب وہ کسی چیز کا ارادہ کرتا ہے تو اسے کہتا ہے: ’ہو جا‘، تو وہ ہو جاتی ہے۔"

یہ تصور یہ واضح کرتا ہے کہ خدا کسی مادی وسیلے کا محتاج نہیں، بلکہ اس کی قدرت محض اس کے حکم اور ارادے سے چیزوں کو وجود میں لے آتی ہے۔

2- خدا کی صفتِ تخلیق اور علت و معلول کا قانون

فلسفہ میں ایک بحث "علت و معلول" (Cause and Effect) کی ہے، جس کے مطابق ہر چیز کی کوئی نہ کوئی وجہ ہوتی ہے۔ خدا خود واجب الوجود ہے، یعنی اس کا وجود اپنی ذات سے ہے اور وہ کسی اور چیز کا محتاج نہیں۔ چونکہ وہ لامحدود قدرت کا حامل ہے، اس لیے وہ بغیر کسی پہلے سے موجود مواد کے کسی بھی چیز کو پیدا کر سکتا ہے۔

3- جدید سائنسی زاویہ: بگ بینگ اور خلا (Quantum Fluctuations)

سائنس میں بگ بینگ تھیوری کے مطابق، کائنات ایک انتہائی چھوٹے نقطے (Singularity) سے وجود میں آئی، جس سے وقت، جگہ اور مادہ سب نے جنم لیا۔ کوانٹم فزکس میں ایک نظریہ یہ بھی ہے کہ خالی خلا میں بھی Quantum Fluctuations کے ذریعے ذرات خودبخود پیدا ہو سکتے ہیں اور ختم ہو سکتے ہیں۔

اگر طبیعیاتی قوانین خلا سے ذرات پیدا کر سکتے ہیں، تو خدا کی قدرت اس سے کہیں عظیم تر ہے، اور وہ عدم سے بھی تخلیق کر سکتا ہے۔

4- خدا مادی نہیں، مگر وہ مادے کو پیدا کر سکتا ہے

یہ ضروری نہیں کہ جو چیز مادی نہ ہو، وہ مادی چیزوں کو پیدا نہ کر سکے۔ مثال: ہمارا "ارادہ" اور "سوچ" غیر مادی ہیں، مگر وہ مادی اثرات ڈال سکتے ہیں، جیسے انسان کا ایک خیال کسی عمارت یا مشین کے بننے کی بنیاد بن سکتا ہے۔ اسی طرح، خدا کی قدرت، جو غیر مادی ہے، مادی چیزوں کو پیدا کر سکتی ہے۔

نتیجہ

خدا چونکہ لامحدود قدرت اور علم کا مالک ہے، اس لیے وہ بغیر کسی پہلے سے موجود مواد کے بھی کائنات کو وجود میں لا سکتا ہے۔ تخلیق ex nihilo کا تصور فلسفیانہ اور سائنسی دونوں زاویوں سے قابل فہم ہے، اور قرآن میں بھی اس کی تصدیق ہوتی ہے۔

انسانى ترقى اسلام كے آئينه ميں

انسانى ترقى اسلام كے آئينه ميں

اسلام ميں ترقی کا فلسفہ ایک ایسا تصور ہے جو انسانی ترقی کو اسلامی اصولوں اور تعلیمات کے مطابق تشکیل دیتا ہے۔ یہ فلسفہ معاشی، سماجی، سیاسی، اور روحانی ترقی کو ایک متوازن انداز میں پیش کرتا ہے، جس میں انسانی فلاح و بہبود، عدل، مساوات، اور اخلاقی اقدار کو مرکزی حیثیت حاصل ہے۔ اسلامی ترقی کا فلسفہ درج ذیل بنیادی اصولوں پر استوار ہے:

1- توحید اور عبادت کا مرکزی کردار

اسلامی ترقی کا فلسفہ یہ مانتا ہے کہ تمام ترقی کا مقصد اللہ کی رضا حاصل کرنا اور اس کی عبادت کرنا ہے۔ انسان کی تمام ترقی اور کوششیں اللہ کے احکامات کے تابع ہونی چاہئیں۔ ترقی کا مقصد صرف مادی فوائد حاصل کرنا نہیں، بلکہ روحانی اور اخلاقی بلندی بھی ہے۔

2- عدل اور مساوات

اسلامی ترقی کا فلسفہ معاشرے میں عدل اور مساوات کو فروغ دیتا ہے۔ اس میں معاشی عدم مساوات کو کم کرنے، غریبوں اور محتاجوں کی مدد کرنے، اور ہر فرد کو بنیادی حقوق فراہم کرنے پر زور دیا جاتا ہے۔ زکوٰۃ، خمس، صدقات، اور دیگر اسلامی مالیاتی نظام کا مقصد معاشرتی توازن قائم کرنا ہے۔

3- معاشی توازن

اسلامی معاشیات میں سود (ربا) کی ممانعت، منصفانہ تجارت، اور وسائل کی منصفانہ تقسیم پر زور دیا جاتا ہے۔ ترقی کا مقصد صرف دولت کمانا نہیں، بلکہ اس دولت کو معاشرے کی بہتری کے لیے استعمال کرنا ہے۔

4- علم اور تعلیم کی اہمیت

اسلام علم حاصل کرنے کو فرض قرار دیتا ہے۔ اسلامی ترقی کا فلسفہ علم اور تحقیق کو فروغ دیتا ہے، تاکہ معاشرہ ترقی کر سکے۔ علم صرف مادی ترقی کے لیے نہیں، بلکہ روحانی اور اخلاقی ترقی کے لیے بھی ضروری ہے۔

5- انسانی حقوق اور آزادی

اسلامی ترقی کا فلسفہ انسانی حقوق کا احترام کرتا ہے، جس میں جان، مال، عزت، اور آزادی کی حفاظت شامل ہے۔ ہر فرد کو اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لانے کا موقع دیا جانا چاہیے۔

6- ماحولیاتی تحفظ

اسلام فطرت اور ماحول کے تحفظ پر زور دیتا ہے۔ اسلامی ترقی کا فلسفہ یہ ہے کہ زمین اور اس کے وسائل اللہ کی امانت ہیں، اور انہیں محفوظ اور مستحکم رکھنا انسان کی ذمہ داری ہے۔

7- اجتماعی فلاح و بہبود

اسلامی ترقی کا مقصد صرف فرد کی ترقی نہیں، بلکہ پورے معاشرے کی فلاح و بہبود ہے۔ اس میں تعاون، ہمدردی، اور اجتماعی ذمہ داری کو اہمیت دی جاتی ہے۔

8- اخلاقیات اور روحانیت

اسلامی ترقی کا فلسفہ مادی ترقی کے ساتھ ساتھ اخلاقی اور روحانی ترقی پر بھی زور دیتا ہے۔ انسان کو صرف مادی خواہشات تک محدود نہیں رہنا چاہیے، بلکہ اپنے اندر اخلاقی اور روحانی خوبیاں بھی پیدا کرنی چاہئیں۔

9- استخلاف (امام ہونے کا تصور)

اسلام کے مطابق انسان زمین پر اللہ کا خلیفہ ہے، یعنی اسے زمین اور اس کے وسائل کو درست طریقے سے استعمال کرنا ہے۔ اس تصور کے تحت ترقی کا مقصد صرف ذاتی مفاد نہیں، بلکہ اللہ کی امانت کو بہتر طریقے سے استعمال کرنا ہے۔

خلاصہ

اسلامی ترقی کا فلسفہ ایک جامع اور متوازن تصور ہے، جو مادی ترقی کے ساتھ ساتھ روحانی، اخلاقی، اور سماجی ترقی کو بھی اہمیت دیتا ہے۔ یہ فلسفہ انسانی زندگی کے تمام پہلوؤں کو اسلام کے بنیادی اصولوں کے مطابق تشکیل دیتا ہے، تاکہ معاشرہ عدل، مساوات، اور فلاح و بہبود کی بنیاد پر ترقی کر سکے۔

دینداری کی علت کیا ہے؟

دینداری کی علت کیا ہے؟

دینداری اور خدا پرستی کے محرکات کے بارے میں مختلف نظریات پیش کیے گئے ہیں:

فریڈرک اینگلز (ایک مادہ پرست فلسفی) کا کہنا ہے کہ دین انسان کی محدود اور ناقص عقل کی پیداوار ہے۔

اگست کومٹ، جنہیں عمرانیات (سوشیالوجی) کے بانی کے طور پر جانا جاتا ہے، کا نظریہ ہے کہ مذہب کی جڑ اور محرک انسان کی قدرتی اسباب سے لاعلمی ہے۔


جواب:

خدا پرست یہ نہیں مانتے کہ قدیم زمانے میں انسان قدرتی اسباب سے بے خبر نہیں تھا، اور یہ بھی تسلیم کرتے ہیں کہ علم اور سائنس کی ترقی نے بہت سے رازوں سے پردہ اٹھایا ہے۔
تاہم، خدا پرستوں کا یہ مؤقف ہے کہ نہ تو سابقہ جہالت دینداری کی وجہ تھی اور نہ ہی موجودہ علم دینداری کے لیے رکاوٹ بن سکتا ہے۔

خدا پرستوں کا یقین ہے کہ تمام مادی اور محسوس عوامل کے پیچھے ایک مطلق اور قادر ہستی ہے، جو ہر چیز کا سرچشمہ ہے اور تمام اسباب اور عوامل اسی سے وجود پاتے ہیں۔

مزید تفصیلات کے لیے:

آیت اللہ بروجردی کی کتاب درس‌هایی از توحید کے دوسرے اور تیسرے مباحث کا مطالعہ کریں۔

انسان کى حقيقت كيا ہے؟

انسان کى حقيقت كيا ہے؟

تحرير: سيد غيور الحسنين

اسلامی فلسفہ میں انسان کی تعریف ایک جامع اور متوازن تصور پر مبنی ہے، جو انسان کو ایک مادی اور روحانی مخلوق کے طور پر پیش کرتا ہے۔ انسان کی تعریف کے مختلف پہلو قرآن، حدیث، اور اسلامی فلسفیوں کی تحریروں میں پائے جاتے ہیں.

اسلامی فلسفہ میں انسان کو دو بنیادی عناصر کا مجموعہ سمجھا جاتا ہے:

1- جسم (مادہ)

انسان کا مادی جسم اسے زمین سے جوڑتا ہے اور اسے دنیاوی معاملات میں حصہ لینے کے قابل بناتا ہے۔ الله تعالى قرآن ميں فرماتا ہے: "ہم نے انسان کو مٹی کے خلاصے سے پیدا کیا"۔ [سورہ المؤمنون: 12]

2- روح (غیر مادی)

روح انسان کی حقیقت اور اس کی اعلیٰ ترین پہچان ہے، جو اسے فرشتوں اور دیگر مخلوقات سے ممتاز کرتی ہے۔ الله تعالى قرآن ميں فرماتا ہے: "اور میں نے اس میں اپنی روح پھونکی"۔ [سورہ الحجر: 29]

انسان کی صفات

اسلامی فلسفہ میں انسان کی درج ذیل خصوصیات کو نمایاں کیا گیا ہے:

الف- عقل و شعور: عقل انسان کو دیگر مخلوقات سے ممتاز کرتی ہے اور اسے اچھے اور برے کی پہچان کے قابل بناتی ہے۔ امام علیؑ: "عقل انسان کا سب سے بڑا سرمایہ ہے"۔ [نہج البلاغہ، حکمت 4]

ب- اختیار و آزادی: انسان کو اعمال کے انتخاب میں آزادی دی گئی ہے، اور یہی اس کے امتحان کی بنیاد ہے۔ الله تعالى قرآن ميں فرماتا ہے: "ہم نے انسان کو راستہ دکھایا، چاہے وہ شکر گزار بنے یا ناشکرا"۔ [سورہ الدھر: 3]

ج- خلیفۂ خدا ہونا: انسان کو زمین پر اللہ کا نائب اور خلیفہ بنایا گیا ہے، جو اس کی عظمت اور ذمہ داری کو ظاہر کرتا ہے۔ الله تعالى قرآن ميں فرماتا ہے: "میں زمین میں اپنا خلیفہ بنانے والا ہوں"۔ [سورہ البقرہ: 30]

د- اخلاقی و روحانی ترقی: انسان کی زندگی کا مقصد روحانی اور اخلاقی کمال حاصل کرنا ہے۔ امام جعفر صادقؑ: "انسان کی حقیقت اس کے اخلاق میں ہے"۔

انسان کے مقاصد

اسلامی فلسفہ میں انسان کی تخلیق کا مقصد صرف دنیاوی زندگی نہیں، بلکہ وہ روحانی کمال ہے جو اسے اللہ تعالى کے قریب کر سکے:

1- عبادت و بندگی: الله تعالى قرآن ميں فرماتا ہے: "میں نے جنات اور انسانوں کو صرف اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا" [سورہ الذاریات: 56]۔

2- علم و معرفت کا حصول: انسان کو علم کی طلب اور جستجو کی صفت دی گئی ہے۔ حدیث نبویؐ: "علم حاصل کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے"۔

3- سماجی ذمہ داری: اسلامی فلسفہ میں انسان کو ایک اجتماعی مخلوق قرار دیا گیا ہے جو عدل، محبت، اور تعاون کے اصولوں پر معاشرہ تشکیل دیتا ہے۔ الله تعالى قرآن ميں فرماتا ہے: "تم بہترین امت ہو جو لوگوں کے لیے بھیجی گئی ہے"۔ [سورہ آل عمران: 110]

انسان اور کمال کا فلسفہ

اسلامی فلسفی، جیسے ابن سینا انسان کو "ناطق حیوان" (عقل رکھنے والا جاندار) کہتے ہیں، جو علم اور عمل کے ذریعے کمال حاصل کرتا ہے۔

ملا صدرا (صدر الدین شیرازى) کے مطابق انسان کی حقیقت اس کی روحانی ترقی ہے، جو حرکتِ جوہری کے ذریعے اپنی معراج تک پہنچتی ہے۔ وہ کہتے ہیں: "انسان ایک ممکن الوجود ہے جو اپنی قابلیتوں کے ذریعے اللہ تعالى کے نور کے قریب ہو سکتا ہے"۔

فارابی کے مطابق انسان ایک سماجی مخلوق ہے، اور اس کی تکمیل معاشرے میں رہ کر حاصل ہوتی ہے۔

لهذا انسان اسلامى فلسفه کے مطابق ایک مادی و روحانی مخلوق ہے۔ علم، عقل، اور اختیار رکھتا ہے۔ خدا کا خلیفہ ہے اور عبادت و کمال کا طلب گار ہے۔ سماجی ذمہ داری اور روحانی ترقی کی طرف متوجہ ہے۔ یہ جامع تصور انسان کو زندگی کے ہر پہلو میں ایک متوازن کردار ادا کرنے کا درس دیتا ہے، جو نہ صرف دنیاوی بلکہ اخروی کامیابی کے لیے ضروری ہے۔

الاتّجاه النصّي والاتّجاه العقلي

الاتّجاه النصّي والاتّجاه العقلي

سيد غيور الحسنين

تفسير النصوص الدِّينيّة والأدبيّة يمثّل نقطة تقاطع بين عدّة توجّهات منهجيّة، يتباين فيها الفكر والتطبيق. ويعتبر الاتّجاه النصّي والاتّجاه العقلي من أبرز المناهج المستخدمة لفهم النصوص وتحليلها. ولكل اتّجاه منهما مبادئه الخاصّة، الّتي تعكس أولوياته وأهدافه.

الاتّجاه النصّي: تعريفه ومبادئه

يعتمد الاتّجاه النصّي على التركيز الحصري على النص بوصفه المصدر الأساسي والوحيد للمعرفة والفهم. في هذا المنهج، يتمّ التّعامل مع النص ككيان مستقلّ، لا يتأثّر بالسياقات الخارجيّة أو الظروف التاريخيّة والاجتماعيّة المحيطة به.

المبادئ الأساسيّة للاتّجاه النصّي

1. النص كمرجع أساسي:

يتم تفسير النصوص بناءً على ألفاظها ومعانيها المباشرة. التركيز يكون على اللّغة، القواعد، والأساليب الأدبيّة المستخدمة.

2. تجنّب التأويل المفرط:

يُنظر بعين الريبة إلى التأويلات الّتي تبتعد عن المعاني الظاهرة للنص، حيث يُعتبر ذلك خرقًا لسلامة النص واستقلاليّته. بعبارة أخرى: ينكر العقل من حيث المصدر والمنهج.

3. استقلاليّة النص:

النص يُعامل على أنّه كيان مكتمل بذاته، وليس مجرّد انعكاس لسياقات اجتماعيّة أو تاريخيّة.

4. رفض التّدخُّل الذّاتي:

يتمّ السعي إلى تقليل أثر المفسر أو القارئ على النص، والتركيز على الموضوعيّة في التحليل.

5. استخدام أدوات لغويّة وأدبيّة:

يستعين الاتّجاه النصّي بأدوات مثل تحليل المفردات، البناء النحوي، ودراسة الإيقاع والأسلوب لفهم النص.

الاتّجاه العقلي: تعريفه ومبادئه

في المقابل، يعتمد الاتجاه العقلي على إعمال العقل والمنطق في تفسير النصوص، ويهدف إلى فهم أعمق يعكس الظروف والسياقات الّتي أُنتج فيها النص. يرى هذا الاتّجاه أنّ النصوص لا يمكن فصلها عن تطوّر الفكر الإنساني والتحدّيّات الّتي يواجهها المجتمع.

المبادئ الأساسيّة للاتّجاه العقلي

1. إعمال العقل والمنطق:

يعتمد هذا الاتّجاه على التحليل العقلي لفهم النصوص، وتجاوز المعاني الحرفيّة إذا تعارضت مع المبادئ العقليّة أو القيم الإنسانيّة

2. السياق التاريخي والاجتماعي:

يتم تفسير النصوص بناءً على الظروف التاريخيّة والاجتماعيّة الّتي أُنتجت فيها، ممّا يساعد على فهم الخلفيّات الّتي أثّرت في تكوينها.

3. البحث عن المقاصد:

يُركّز الاتّجاه العقلي على مقاصد النصوص وأهدافها الأساسيّة، وليس فقط على المعاني الحرفيّة.

4. التأويل المفتوح:

يُشجّع هذا الاتّجاه التأويل الّذي يتناسب مع تطوّر الزمن وظروف العصر، ويُعتبر أنّ النصوص يجب أن تكون مرنة لتلائم السياقات المختلفة. يقبل العقل من حيث المصدر والمنهج.

5. الاستفادة من العلوم المختلفة:

يستخدم هذا الاتّجاه معارف متعدّدة مثل الفلسفة، علم الاجتماع، والتاريخ لفهم النصوص بشكل أشمل.

المقارنة بين الاتّجاهين

بينما يُعطي الاتّجاه النصي الأولويّة للنص ذاته ويُركّز على ألفاظه ودلالاته المباشرة، يتوسّع الاتّجاه العقلي ليشمل السياقات الخارجيّة والعقلانيّة. النص في الاتّجاه النصّي يُعتبر نهائيًا ومطلقًا، بينما في الاتّجاه العقلي، يُعتبر نقطة انطلاق لفهم أعمق. يُفضّل الاتّجاه النصّي البساطة والموضوعيّة، بينما يُركّز الاتّجاه العقلي على التّأويل الإبداعي والمرونة.

الخاتمة

إنّ الاختلاف بين الاتّجاه النصّي والاتّجاه العقلي في تفسير النصوص يعكس تنوّع الفهم الإنساني وثراء المناهج التّحليليّة. كل من الاتّجاهين يُقدّم أدوات فعالة لفهم النصوص، إلّا أنّ الجمع بينهما قد يوفّر رؤية متوازنة تجمع بين احترام النص وإعمال العقل لفهمه في سياقاته المتعددة.

قدرت الهی از منظر امامیه

قدرت الهی از منظر امامیه

استاد راهنما: دکتر سید غیور الحسنین

تأليف: مستفید حسین

چکیده

برای اثبات قدرت خداوند بسیار دلایل عقلی و نقلی وجود دارند. سؤال اين است که آیا خداوند می‌تواند سنگی را خلق کند که خود توان برداشتن آن ندارد ؟ اگر پاسخ این سوال مثبت بدهیم لازم می‌آید که خداوند قدرت برداشتن آن ندارد و اگر پاسخ منفی دهیم لازم می‌ آید که خداوند قدرت خلق آن ندارد. یا اینکه آیا خداوند متعال می‌تواند مثل خود یک خدای خلق کند ؟این سوال از هر دو طرف منافی عقاید بنیادی است چون اگر پاسخ آن مثبت بدهیم تعدد آلِه لازم می ‌آید و اگر پاسخ منفی دهیم همان ناتوانی خلق لازم می‌آید. وقتی این سوال‌ها را با دقت مطالعه کردیم، پی بردیم که این سوال‌ها یا محال ذاتی است یعنی فی حد نفسه محال هستند یا محال وقوعی است یعنی فی حد نفسه نیستند ولی لازمه‌اش محال ذاتی می‌شود.

کلید واژه: معطی، نا متناهی، ملحد، واجب الوجود، ممکن الوجود، محال، مؤید

ادامه نوشته

جبر و اختيار

جبر و اختيار

استاد مشرف: سيد غيور الحسنين

تحرير: سيد خورشيد حيدر شيرازي

خداوند متعال خالق حقیقی انسان ، انسان کو خلق کرنے کے بعد فرماتا ہے: "لَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنْسَانَ فِي أَحْسَنِ تَقْوِيمٍ".(1) اللّٰہ تعالیٰ نے انجیر،زیتون،طور سینا اور شہر مکہ کی قسم ذکر کر کے ارشاد فرمایا کہ بیشک ہم نے انسان کو سب سے اچھی شکل وصورت میں پیدا کیا ،اس کے اَعضاء میں مناسبت رکھی، اسے جانوروں کی طرح جھکا ہوا نہیں بلکہ سیدھی قامت والا بنایا، اسے جانوروں کی طرح منہ سے پکڑ کر نہیں بلکہ اپنے ہاتھ سے پکڑ کر کھانے والا بنایا اوراسے علم، فہم، عقل، تمیز اور باتیں کرنے کی صلاحیت سے مُزَیّن کیا۔اور مخلوقات میں دوسري موجودات پر فضیلت بخشتے ہوئے أشرف المخلوقات قرار دیا کیونکہ انسان تفکر کے ذریعے قرب الہی کی خاطر کمالات کی طرف سفر کرتا ہے۔ پھر اسی أشرف مخلوق پر لطف و کرم کرتے ہوئے اس کی هدایت کی خاطر أنبیاء ،آئمه ،کتب آسمانی کے ذریعے اپنی حجت اس پر تمام کی اور فرمایا: "إِنَّا هَدَيْنَاهُ السَّبِيلَ إِمَّا شَاكِرًا وَ إِمَّا كَفُورًا ".(2) یقینا ہم نے اسے راستہ دکھا دیا ہے۔ چاہے وہ شکر گذار ہو جائے یا کفران نعمت کرنے والا بن جائے۔

هدایت کے بعد شکر گزار بننا اور کفران نعمت کرنے والا ہونا اس کا اختیار انسان کے ہاتھ میں دیا گیا، مگر کیا حقیقت یہی ہے یا نہیں؟ آیا انسان بااختیار ہے یا مجبور؟ اگر بااختیار ہے تو اُس اختیار کا کوئی مخصوص دائرہ ہے؟!!! اور اس طرح کے دسیوں سوالات زمانہ قدیم سے "جبر و اختیار انسان " کے عنوان سے ہونے والی بحثوں میں مختلف مکاتب فکر کے ہاں مطرح ہوتے رہے ہیں اور اس پر مختلف نظریات قائم کیے گیے ہیں۔ اور عرصہ دراز سے اس مسئلہ نے عقل بشری کو مشکلات میں مبتلا کیا ہوا ہے۔ کیونکہ " جبر و اختیار انسان" ایک دقیق، مهم اور حساس بحث ہے اس لیے اس پر بہت زیادہ تحقیق کی جا چکی ہے مگر اس حوالے سے یہ موضوع تشنگی کا شکار رہا کہ انسان کا مجبور و مختار ہونا اسکی زندگی پر کیا اثر رکھتا ہے۔اس تشنگی کو مد نظر رکھتے ہوتے اس مختصر مقالہ میں چند عرائض پیش کی گئي ہیں۔

جبر و اختیار کے لغوی اور ا صطلاحی معنی:

اختیار:

لغت میں لفظ اختیار سے مراد یہ ہے کہ کوئی حکم چلانے کی اہلیت، کسی بات یا معاملے پر پورا پورا تصرف حاصل ہونے کی حیثیت، اپنی مرضی کے مطابق کام کرنے کی قدرت رکھتا ہو۔

جبر:

لغت میں لفظ جبر سے مراد یہ ہے کہ کسی پر دباؤ ،زور، زبردستی، اکراہ، ظلم کے ساتھ کوئی حکم مسلط کیا جائے یہ اختیار کی ضد ہے۔

ا صطلاح میں اس سے مراد انسان کا اپنے افعال کو انجام دینے میں آزاد یا قید ہونا ہے یعنی انسان کے اعمال اس کے اپنے ارادہ کے تحت ہیں یا اس کی مرضی کے بغیر کروائے جاتے ہیں۔(3)

مجبور و مختار یعنی یہ کہ انسان صاحب اختیار ہے یا نہیں، یہ مسئلہ ہمیشہ سے فلسفیوں میں زیر بحث رہا ہے، اور مختلف گروہ اس پر اپنی رائے قائم کر چکے ہیں۔ ایک گروہ معتقد ہے کہ انسان اپنی مرضی کا مالک نہیں ہے بلکہ اس کی مرضی اس کی تعلیم و تربیت اور دوسرے امور اس کے ارادہ سے وقوع پذیر نہیں ہوتے یعنی اس گروہ کے مطابق انسان مجبور مطلق ہے جو کہ قدیم یونانی فلسفیوں کا نظریہ تھا۔ آغاز میں مسلمانوں نے بھی اس امر کی طرف رجحان رکھا۔ ان کا عقیدہ تھا کہ انسان کے اعمال و افعال کی تفصیل لوح محفوظ پر رقم ہو چکی ہے اور کوئی شخص صاحب قدرت نہیں ہے جو کہ اس لکھے ہوئے کو تبدیل کر سکے۔ مگر معتزلہ نے اس نظریے کی مخالفت کی۔ وہ انسان کی آزادی کے قائل تھے اور اسے مختار مطلق کہتے تھے ۔ پہلے گروہ کو جبریہ دوسرے کو قدریہ کہتے ہیں۔مگر ایک تیسرا نظریہ بھی اس فہرست میں شامل ہے جو پہلے دونوں نظریوں سے الگ ہے۔ وہ نہ تو انسان کے مطلق اختیار کا قائل ہے اور نہ ہی اس کے مطلق مجبور ہونے کا بلکہ وہ انسان کی حالت کو درمیانہ کہتا ہے کہ ایک ایسی حالت جیسے نہ تو اختیار کہا جا سکتا ہے نہ ہی مجبور، یعنی وہ نہ مختار مطلق ہے اور نہ مجبور مطلق ہے۔ شیعہ امامیہ کے علاوہ بھی چند گروہ اس نظریہ کے قائل ہیں۔

مجبور مطلق:

عقیدۂ خلق قرآن کا بانی جعد بن درهم جس نے ایک قدیمی بحث(کلام خدا قدیم ہے یا حادث) پر اپنی رائے کو قائم کرتے ہوئے ایک نئے نظریے کو قائم کیا اس کے شاگردوں میں سے ایک شاگرد جس کا نام جہم بن صفوان تھا اس نے عقیدہ جبر کی بنیاد رکھی۔جو اصلا کوفی نسل میں سے تھا یہ خلافت بنو امیہ کے دور میں نہر جیحون کے کنارے واقع شہر ترمذ میں پیدا ہوا ۔اس نے تشبیہ بالله کے موضوع میں اتنی شدت اختیار کی کہ تعطیل کا قائل ہو گیا۔اور اس کے علاوہ بھی بہت سے جاهلانہ عقائد کی بنیاد رکھی۔ جہمیہ کا کہنا ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ کی تمام صفات مخلوق ہیں، وہ ایک ایسے خیالی خدا پر ایمان رکھتے ہیں جس کا تصور کرنا ذہن ہی میں ممکن ہے کیونکہ حقیقت میں جو بھی چیز وجود رکھتی ہے اُس کی صفات ہوتی ہے۔ صفات سے علیحدہ کسی ذات کا حقیقت میں وجود نہیں ہے۔جہمیہ اس بات کے قائل ہیں کہ بندہ مُسَيَّر ہے (یعنی اسے چلایا جاتا ہے) نہ کہ مُخير۔ (یعنی اس کے پاس کوئی اختیار نہیں ہے)۔گناہوں کے ارتکاب پر تقدیر کو حجت بناتے ہیں کیوں کہ کائنات میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ اللہ کے ارادے اور مشیئت سے ہورہا ہے۔ جبریہ کی دو قسمیں ہیں: خالص جبریہ (یعنی غلوکرنے والے): یہ وہ لوگ ہیں جو بندے کے لیے سِرے سے نہ تو کسی فعل کا اثبات کرتے ہیں اور نہ ہی فعل کی قدرت کا، جیسے جہمیہ وغیرہ۔ دوسری قس متوسط جبریہ: جو بندے کے لیے قدرت کا اثبات تو کرتے ہیں لیکن ان کے نزدیک یہ قدرت غیرمؤثر ہوتی ہے۔ ، جیسے اشعریہ؛ ان کے نزدیک انسان کو قدرت و مشیئت تو حاصل ہے لیکن اس قدرت و مشیئت کی وجہ سے فعل واقع نہیں ہوتا۔اپنے گناہوں کی پردہ پوشی کی خاطر اس کفریہ عقیدہ کے قائل حضرات نے اس عقیدہ کو ترویج دی ہے اور سب گناہوں کا مصدر ارادہ الہی کو قرار دیا ہے کہ انسان جب مجبور محض ہے تو وہ گناہ کا مرتکب ہی نہیں ہو سکتا۔ اس عقیدہ پر ان کے ہاں ایک دلیل عقلی پیش کی جاتی ہے جو باطل ہے اور رد شدہ ہے۔ہرممکن، وجود میں آنے کیلئے علت کی طرف محتاج ہیں اور اسی طرح تمام علل معدّہ بھی علت تامہ کی طرف محتاج ہیں۔اور علت العلل وہی ذات پاک ہے ۔پس جیسے معلول کا علت سے جدا ہونا محال ہے۔ اسی طرح افعال انسان بھی مخلوقات خدا میں سے ہے اور خدا سے جدائی ممکن نہیں ہے، کیونکہ یہ ایک قاعدۂ فلسفی ہے کہ جہاں علت تامہ ہو وہاں اس کا معلول ہونا ضروری ہے۔ پس اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ افعال انسان بھی خدا سے وجود میں آئے ہیں نہ کہ خود انسان سے، جس میں انسان کا کوئی اختیار نہیں۔ اس دلیل پر کئی اشکالات ہیں؛ اولا ً توجو شبہات جبریوں کے ذھنوں میں آیات سے پیدا ہوئے ہیں یہ ہے کہ مشیئت و ارادہ اور قضا و قدر الہی کے مقابلے میں انسان کو کسی چیز پر اختیار حاصل نہیں، صحیح نہیں، کیونکہ ارادۂ خدا اور ارادۂ انسان ایک دوسرے کے طول میں ہے ۔ یہی وجہ ہے ارادۂ الہی جانشین ارادۂ انسان نہیں ہوسکتا۔ثانیا انسان کا ارادہ علل معدّہ ہے اور فعل انسان بھی اس کا معلول ہے۔ انسان جب ارادہ کرتا ہے تو فعل انجام پاتا ہے ۔ اگر ارادہ نہ کرے توانجام بھی نہیں پاتا ۔ لیکن یہی علت معدّہ (ارادہ) اور معلول (فعل) اور اس کے مبادی سب ارادۂ الہی سے متعلق ہے ۔ اس فعل کی نسبت علت معدّہ(ارادہ) مباشراور ملی ہوئی علت ہے ، اور ارادۂ خداوند علت بعیدہ ہے، لیکن اگر یہی علت بعیدہ نہ ہو تو نہ مرید (ہم) ہونگے نہ کوئی ارادہ ہوگا اور نہ ہی کوئی مراد(فعل) ۔ پس معلوم ہوا ارادۂ انسان تو اس کے اپنے اختیار میں ہے اور جو بھی کام انجام دیتا ہے اپنے ارادے سے انجام دیتا ہے۔ اور یہ سلسلۂ نظام ، ارادۂ الہی سے متعلق ہے ۔ یہی اس مشکل کا حل کی چابی ہے ۔ مگر اس باطل عقیدہ کو رد کیا گیا ہے۔(4)

دلیل اول:

اگر ہم جبر کے قائل ہوجائیں تو بہت سی صفات خدا (جو کہ عین ذات ہیں)کا انکار کرنا پڑے گا۔ خداوندعالم هر انسان کو اسکے اعمال کے مطابق جزا و سزا دے گا اور عدل الہی کا تقاضا ہے کہ نیک انسان کو اسکی نیکی کا اجر ملے اور گناہ گار کو اس کے گناہ کی سزا ،مگر جب اس عقیدہ پر ایمان رکھ لیا کہ انسان مجبور محض ہے تو نہ ہی جزا ہے اور نہ ہی سزا جب انسان سے کوئی فعل اسکے ارادہ و اختیار سے صادر ہی نہیں ہوا تو اسے جزا یا سزا دینا قبیح ہو گا۔پس جب خدا وندعالم حکیم مطلق ہے اور قبیح کام ذات حکیم سے محال ہے اس لیے یہ بھی محال ہے کہ خداوند عالم سزا و جزا دے۔ مگر ہم جانتے ہیں کہ خدا وند عالم عادل ہے اور عدل کا تقاضا ہے کہ نیکی کرنے والے کو اسکی نیکی کا اجر اور بدی کرنے والے کو اسکی بدی کی سزا دی جائے گی،پس پھر انسان مجبور محض نہیں ہو سکتا۔(5)

دلیل دوم:

اگر اہل حق اور اہل باطل کے درمیان مناظرہ اور مباحثہ ہو جائے تو قول مجبرہ کے مطابق یہ لازم آتا ہے کہ خدا نے خود مناظرہ کیا ہے کیونکہ مناظرہ فعل ہے اور خدا فاعل پس خدا ایک ہی وقت میں محق بھی ہے مبطل بھی۔کیونکہ ایک حق پر ہوتا ہے اور دوسرا باطل پر،اس کا لازمہ یہ ہے کہ خدا عالم بھی ہے اور جاهل بھی، جو کہ محال ہے، کیونکہ ذات خدا جو کہ کمالات مطلق رکھتی ہے محال ہے کہ وہ جاهل ہو کیونکہ جهل فقدان کمال ہے ۔(6)

مختار مطلق:

اس عقیدہ کی بنیاد جسے" اختیار مطلق انسان" ، "قدریہ" اور" منکر تقدیر" کے نام سے بھی جانا جاتا ہے،معبد جہنی اور غیلان دمشقی نے رکھی۔معبد جہنی نے عراق اور غیلان دمشقی نے دمشق میں اس باطل عقیدہ کی بنیادوں کو قوی کرنے کی کوشش شروع کی تھی۔ان کا نقطہ نظر یہ ہے کہ ہر چیز انسان کے ارادہ و قدرت کے تابع ہے، گویا انسان اپنی تقدیر خود بناتا ہے۔اور اس میں الله کا کوئی ارادہ شامل نہیں ہے اور هر عمل کا مطلق اختیار صرف انسان کی قدرت میں ہے حکمت خدا اس میں کوئی عمل دخل نہیں رکھتی،اور انسان اپنے فعل کا خود خالق ہے۔یہ لوگ اس حد تک تجاوز کر گئے ہیں کہ خدا سے ان صفات کی نفی کرتے ہوئے یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ انسان جن اعمال کا خالق ہے خدا ان کے وجود میں آنے سے پہلے ان کے بارے میں علم نہیں رکھتا ،جب انسان ان اعمال کو خلق کرے گا پھر جانے گا کہ اس کی مخلوق نے یہ عمل انجام دیا ہے۔اس عقیدہ کو بھی مستند دلائل سے رد کیا گیا ہے۔(7)

دلیل اول:

علم صفات کمالیہ میں سے ہے یعنی علم کا ہونا کمال ہے اور عدم علم فقدان کمال ہے۔خدا کی ذات جو کمالات مطلق رکھتی ہے،پس محال ہے کہ اس ذات سے کسی کمال کی نفی ہو،کیونکہ جس ذات میں فقدان کمال ہو وہ خدا نہیں، پس علم کا ہونا ذات خدا کے لیے لازم ہے اور جب خدا عالم ہے تو اس کا علم مخلوقات کے متعلق ابدی و ازلی ہے۔ یہی وہ مقام ہے جہاں کم فہمی سے گمراہی کے راستے پر قدم رکھا جاتا ہے ،تقدیرِ انسان کا علم خداوند عالم کی ذات کو ہے اور روزِ ازل سے لوحِ تقدیر پر رقم کر دیا گیا ہے مگر اس سے مراد یہ نہیں ہے کہ اب انسان مجبور ہے کہ اسی کے تحت عمل انجام دے بلکہ خدا عالم ہے کہ اس کی مخلوق کیا عمل انجام دے گی ۔(8)

دلیل دوم:

قدریہ اپنے عقیدے میں اس قدر غلو کر گئے ہیں کہ انسان کے اختیار کو مستقل قرار دیتے ہیں کہ انسان خدا کے مقابلے میں ایک موجود مختار ہے جو اپنے افعال کا خالق ہے ،پس ان کے عقیدہ کے مطابق متعدد انسان متعدد خالق ہیں جو اپنے افعال میں مستقل ہیں، یعنی یہ لوگ انسان کو خدا کے مقابلے میں موجود مستقل قرار دیتے ہیں جو قدرت میں کسی کا محتاج نہیں، لیکن اس پر متعدد دلائل مطرح ہو چکے ہیں کہ اگر اس جہان میں متعدد خدا ہوتے تو تباہی اور فساد لازم آتا ،کیونکہ متعدد خداؤں کی تدبیر بھی متعدد ہوتی،مگر کہ جب اس عالم کو دیکھتے ہیں تو اس کا نظم برقرار ہے ہر موجود اپنے ایک خاص نظم کے مطابق ہے ،تو متعدد خداؤں کی نفی ہوتی ہے پس اس عالم کی تدبیر ایک ہی خدا کر رہا ہے۔اور وہ الله سبحانه تعالیٰ کی ذات ہے۔پس محال ہے کہ کوئی اور مستقل مخلوق اس کے مقابلے میں ہو۔

امر بین الاَمرَین(درمیانی راستہ):

جیسا کہ مقدمہ میں بیان ہو چکا ہے اس مسئلہ میں تین نظریہ ہیں اور کوئی چھوتھا راستہ نظر نہیں آتا۔تیسرا نظریہ جو اس بات کا قائل ہے کہ نہ ہی جبر مطلق ہے نہ اختیار مطلق بلکہ ایک درمیانہ راستہ ہے جسے احادیث میں اس تعبیر سے بیان کیا گیا ہے "امر بین الاَمرَین" ۔اس عقیدہ کو شیعہ امامیہ اور دوسرے مکاتب میں سے "ما تریدیہ" جو کہ افعال انسان میں کسب کے قائل ہیں،طحاویہ اور اشاعرہ کے بعض علماء اس راستہ کو قبول کرتے ہیں اپنی خاص قیود کے ساتھ۔کیونکہ یہ بحث قدیم ہے اس لیے آئمہ علیہم السلام کے ادوار میں بھی اس پر ابحاث موجود ہیں جسکی تائید مختلف روایات کرتی ہیں۔اور روایات کے مطابق یہ تعبیر "امر بین الاَمرَین" امام علی علیہ السلام سے منسوب ہے کہ جب ایک شخص ان سے اختیار و جبر کے بارے میں سوال کرنے آیا تو امام ع نے اس تعبیر کو ارشاد فرمایا۔اور اس کے بعد دیگر آئمہ سے بھی یہ تعبیر اس طرح نقل ہوئی"المنزلة بين المنزلتين"یعنی ایک درمیانی منزل ہے۔ان روایات میں "امرین" یا "منزلتین" سے مراد ایک طرف جبر اور دوسری طرف اختیار ہے۔یہ موضوع بہت سے مختلف پہلو رکھتا ہے اسی وجہ سے علم کلام کے اہم مسائل میں شمار ہوتا ہے اور عقائد کے باب میں اہم باب ہے اور دینی مسائل کا ایک مشکل مسئلہ ہے۔اس لیے شیعہ علماء نے اس پر قرآن و سنت اور عقلی حوالے سے گفتگو کی ہے ۔اس نظریہ کی نظر کے مطابق "جبر و اختیار" آپس میں تضاد کی نسبت نہیں رکھتے کہ ان کا جمع ہونا محال ہو بلکہ یہ اکٹھے ہو سکتے ہیں۔اس کو سمجھنے کے لیے گہری فکر کی ضرورت ہے کہ انسان عدالت خداوند کو بھی مد نظر رکھے اور آزادی انسان اور وظیفہ عملیہ انسان کیا ہے اسکو بھی مد نظر رکھے۔کہ افراط و تفریط سے بچ کر درمیانی راستہ کو درک کرے جو کہ احادیث میں بیان ہوا ہے۔ایک مثال کے ذریعے سے اس مسئلہ کو واضح کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ مثلا:فرض کیجئے آپ بجلی سے چلنے والی ایک ریل گاڑی میں سفر کر رہے ہیں اور اس ٹرین کے ڈرائیور بھی آپ ہی ہیں ۔ٹرین کے پورے راستہ پر بجلی کا ایک قوی تارکھینچا گیا ہے اور ٹرین کی چھت پر لگا ہوا ایک مخصوص دائرہ بجلی کے اس تار سے ملا ہوا ہے اور حر کت کر رہا ہے اور لمحہ بہ لمحہ بجلی کو ایک قوی مر کز سے ٹرین کے انجن میں اس طرح منتقل کر رہا ہے کہ اگر ایک لمحہ کے لئے بھی اس قوی مرکز سے ٹرین تک بجلی نہ پہنچے تو ٹرین فوراً رک جائے گی۔اس ٹرین کے ڈرائیورکی حیثیت سے بیشک آپ آزاد ہیں کہ راستے میں جہاں پر بھی چاہیں ٹرین کو روک سکتے ہیں ،اسے آہستہ یا تیز چلا سکتے ہیں لیکن اس تمام آزادی کے باوجود بجلی کے مرکز یعنی بجلی گھر میں بیٹھا ہوا شخص جب چاہے بجلی کو منقطع کر کے آپ کی ٹرین کو روک سکتا ہے ۔کیونکہ آپ کی ٹرین کی حر کت بجلی کی مر ہون منت ہے اور اس کی چابی مرکز برق میں بیٹھے ہوئے شخص کے ہاتھ میں ہے۔اس مثال میں غور کر نے کے بعد واضح ہو جاتا ہے کہ ٹرین کا ڈرائیور تمام تر آزادی ،اختیار اور ذمہ داری کے باوجود کسی اور کے کنٹرول میں ہے اور یہ دونوں امر ایک دوسرے کے منافی نہیں ہیں۔پس اگر وہ ڈرائیور کوئی خطا کرتا ہے تو اس خطا پر اس سے سوال کیا جائے گا اور اگر وہ قصور وار ہوا تو تو جزاء و سزاء بھی ہوگی۔اسی طرح انسان بھی اپنے اعمال کو انجام دینے میں چلنے پھرنے،اٹھنے بیٹھنے ،کھانے پینے حتی دیگر اعمال شرعی وغیرہ میں ارادہ و اختیار رکھتا ہے مگر اس اختیار کی قدرت اسے خداوند عالم کی ذات سے لمحہ بہ لمحہ عطا ہو رہی ہے۔یعنی فیض الہی تمام ھستی سے لمحہ بہ لمحہ متصل ہے اور اگر یہ فیض ایک پلک جھپکنے کی مقدار یا جتنی بھی کم تر مقدار تصور کی جا سکتی ہے اس مقدار کے مطابق ہی منقطع ہو جائے تو یہ عالم ھستی ما سواء الله سب اسی لمحہ فناء ہو جائے۔پس انسان آزادی کے باوجود محتاج فیض الہی ہے انسان چاہ کر بھی خدا کی حکمت سے، اس کے علم سے، اس کی قدرت سے، اس کی حکومت سے ،خارج نہیں ہو سکتا۔اور یہی معنی سازگار ہوگا تعبیر "الامر بین الامرین"کا۔جیسے کہ پہلے ذکر ہو چکا ہے کہ اس بحث میں مذکورہ تین راستوں کے علاوہ کوئی چوتھا راستہ قابل تصور نہیں ہے اور نظریہ اشاعرہ (جبریہ) اور نظریہ معتزلہ(تفویض) دونوں کے عقیدہ کو محکم دلائل کے ساتھ باطل قرار دے چکے ہیں تو تیسرا راستہ ہی بچتا ہے۔اگر صرف ایک ارادہ دخیل ہو تو تفویض لازم آتی ہے اور اگر دو ارادہ دخیل ہوں تو الامر و بین الامین کی اصطلاح روشن ہوتی ہے۔

دلیل حکماء

حکماء کا استدلال کچھ یوں ہے: خدا ہر چیز پر قادر ہے لیکن اشیاء وجود کو قبول کرنے(یعنی موجود ہونے اور نہ ہونے) کے حوالے سے مختلف ہیں۔ خدا بعض اشیاء کو بغیر کسی واسطے کے خلق فرماتا ہے اور بعض کو واسطوں کے ذریعے خلق فرماتا ہے۔ یہ واسطہ کبھی ایک ہوتا ہے اور کبھی ایک سے زیادہ۔ اب جب بعض اشیاء کی خلقت میں واسطہ لازم ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ خدا اس واسطے کا محتاج ہو بلکہ یہ چیز اس مخلوق اور قابل میں موجود نقص کی وجہ سے ہے کیونکہ خدا مسبب الاسباب ہے اور تمام اسباب کو خدا نے ہی ایجاد کیا ہے اس لئے خدا کسی چیز کا محتاج نہیں ہے۔ انسان کے اختیاری افعال بھی انہی اشیاء میں سے ہیں جو بغیر واسطہ خدا سے خلق نہیں ہو سکتے اور انسان کا ارادہ ان واسطوں میں سے ایک ہے جس کے توسط سے یہ افعال وجود میں آتے ہیں پس جبر باطل ہے۔ اور دوسری طرف سے چونکہ تمام اسباب علل کو بھی خدا ہی خلق کرتا ہے اور اس کے ارادے سے خلق ہوتے ہیں پس تفویض بھی باطل ہے۔تو پس تیسرا عقیدہ ہی بچتا ہے جو کہ مطلوب ہے۔(9)

نتیجہ:

عقیدہ ایسا اثر معنوی ہے جو انسان کے افعال پر اثر رکھتا ہے۔اگر عقیدہ کی بنیاد ہی کمزور ہو گی تو اس پر اعمال کی عمارت برقرار نہیں رہ پائے گی۔جس طرح "جبر و اختیار "کے مسئلہ میں شیعہ امامیہ کے علاوہ دوسرے مکاتب فکر اس پر کوئی عقلی یا نقلی ایسی دلیل قائم نہیں کر سکے جو عقل قبول کرے۔اگر انسان فقط "جبر کا قائل ہو جائے تو بھی توحید سے ہاتھ دھو بیٹھے گا اور اگر فقط اختیار مطلق کو مانے وہ بھی توحید کے ساتھ سازگار نہیں ہے۔مگر یہ امتیاز ہے مكتب امامیہ کا کہ انہوں نے اگر توحید کی جس حد تک بھی معرفت حاصل کی ہے حجت خدا ، محمد و آل محمد (ص) کے دامن کو تھام کر ان کے علم کے نور کی روشنی میں ان حقائق کو درک کیا ہے اور جو توحید آئمه علیھم السلام نے بیان کی ہے اسی پر عقیدہ کی بنیاد رکھی ہے ۔جبر کے نظریے سے پیش آنے والی مشکلات انسان کی اخلاقی اور دینی مسئولیت کا بے معنی ہونا، برائیوں اور گناہوں کا خدا کی طرف سے خلق ہونا۔تفویض کے نظریے سے خدا کی قدرت محدود اور توحید افعالی کا نظریہ باطل ہو جاتا ہے۔اور اس طرح دیگر مسائل اور جنم لیں گے ۔جب انسان اس بات کا معتقد ہوتا ہے کہ خود مختار ہے اور اپنی طبیعت میں کچھ نہ کچھ تبدیلی لا سکتا ہے، تو اپنے اندر اخلاقی فضائل ایجاد کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ اور یہ خود مختاری کہاں تک ہے یہ بیان ہو چکا ہے کہ انسان مشیت الہی سے وابستہ رہ کر ا پنے ارادہ سے افعال کو انجام دیتا ہے اور هر لمحہ فیض خدا کا محتاج ہے کہ اگر یہ فیض خدا ایک لمحہ کے لیے بھی منقطع ہو جائے تو ہر شئ فنا ہو جائے۔

مصادر و مراجع:

۱- سورۃ التین ، آیت4

۲- سورۃ انسان، آیت 3

۳- Rekhta.com

۴-عبد الرحمن ، تفسیر تیسیر القرآن، ص2178، سورۃ الکہف،آیت22.

۵- محمد سعیدی مہر، کلام اسلامی، کتاب طہ؛ چاپ 39 ، 1402ش، ج1، ص339.

۶- مصدر سابق، ص93

۷- ابن کثیر، البدایہ والنہایہ (تاریخ ابن کثیر)، مطبوعہ لاہور، ج 9، ص54

۸- محمد سعیدی مہر، کلام اسلامی، کتاب، ج1، ص90-91.

۹- makarem.ir

كيا مزارات كو تعمير كرنا  جائز هے؟

كيا مزارات كو تعمير كرنا جائز هے؟

تحرير: سيد غيور الحسنين

قبور پرعمارت بنانا ایک اصطلاح ہے جس میں قبر پر کی جانے والی ہر طرح کی تعمیر شامل ہے ۔ اہل سنت اور شیعوں کے درمیان حکم شرعی کے لحاظ سے قبور پر عمارت بنانے کا اختلاف ایک طرف اور وہابیوں سے ان کا اختلاف ایک اور جہت سے ہے۔ مذاہب اسلامی خاص طور پر شیعہ حضرات طول تاریخ میں بزرگوں، پیشوا اور علما کی قبور پر عمارتیں بناتے چلیں آ رہے ہیں۔ تاریخی لحاظ سے اس امر کی بازگشت صدر اسلام کی طرف ہے نیز تاریخی شواہد کے مطابق صحابہ اور تابعین کی جانب سے کبھی ان تعمیرات کو تنقید کا سامنا نہیں رہا اگرچہ وہابیت کے نزدیک اس کے مفہوم میں وسعت پائی جاتی ہے۔ وہابی معتقد ہیں کہ مردوں کی قبور پر عمارت کی تعمیر ایک طرح سے ان قبور کی عبادت کے مقدمات فراہم کرتی ہے اور عبادت میں شرک کی مانند ہے، جبكه عبادت کسی کو اوصاف الہی سے متصف کرتے ہوئے اس کے سامنے اظہارِ خضوع کرنا ہے۔ اس اشكال كا جواب هم " كيا توسل و شفاعت حرام ہے اور غیر خدا كى هر قسم کی تعظیم شرک ہے؟" کے عنوان سے بيان كر چکے هيں۔ اور يهاں پر مزارات كي تعمير پر دليل بيان كرنا مقصود هے۔

پهلی دلیل: قرآن مجید اصحاب کہف کے واقعہ میں فرماتا ہے کہ جب وہ تقریباً تین سو برس کی طویل نیند سے بیدار ہوئے اور ان کے بارے میں شہر کے لوگوں کو پتہ چلا تو شہر سے لوگ غار کی طرف دوڑے اور جیسے ہی وہاں پہنچے، تو انہوں نے اصحاب کہف کو پھر مردہ پایا۔ قرآن مجید اس کی منظر کشی کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ جب لوگوں نے یہ ماجرا دیکھا تو وہ دو گروہوں میں تقسیم ہو گئے :﴿فَقَالُوا ابْنُوا عَلَيْهِم بُنْيَانًا ۖ رَّبُّهُمْ أَعْلَمُ بِهِمْ ۚ قَالَ الَّذِينَ غَلَبُوا عَلَىٰ أَمْرِهِمْ لَنَتَّخِذَنَّ عَلَيْهِم مَّسْجِدًا[الكهف: 21]

"تو کچھ نے کہا کہ ان (کے غار) پر ایک (یادگاری) عمارت بنا دو۔ ان کا رب ہی ان کا حال بہتر جانتا ہے۔ (آخرکار) جنهوں نے ان كے بارے ميں غلبه حاصل كيا وہ كهنے لگے: ہم ان کے غار پر ضرور ایک مسجد ( یعنی عبادت گاہ) بناتے هيں۔"

جیسا کہ اس آیت سے سمجھ میں آتا ہے کہ ان دونوں گروہوں میں سے کوئی بھی قبروں کو تعمیر کرنے کا مخالف نہیں تھا۔ بس فرق یہ تھا کہ مؤمنین وہاں ایک مسجد بنانا چاہتے تھے جبکہ دوسرے لوگ ان کی نشانی اور یادگار کے طور پر وہاں ایک عالی شان عمارت تعمیر کرنا چاہتے تھے۔

یہ امر بھی ذہن نشین رہے کہ قرآن مجید نے اس ماجرے کو مدح و تعریف کی زبان میں نقل کیا ہے اور اس پر کسی قسم کی تنقید بھی نہیں کی ہے۔ لہذا اس نکتہ سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ یہ کام شرعی ممانعت نہیں رکھتا۔ اور خاص طور پر جبکہ اس آیت میں موجود ’’ لَنَتَّخِذَنَّ عَلَيْهِم مَّسْجِدًا ‘‘ کی تعبیر سے پتہ چلتا ہے کہ انہوں نے اس درخواست کو ایک حکم شرعی کے طور پر لیا تھا۔ بہر کیف! اس تعبیر سے یہ واضح ہو جاتا ہے - وہابیوں کے تصور کے برخلاف - کہ قبروں پر بارگاہ اور گنبد وغیرہ تعمیر کرنا ایک شرعی اور دینی عمل ہے۔

اسی طرح اس واقعہ سے یہ بھی استفادہ ہوتا ہے کہ غیر معمولی لوگوں کی قبروں پر روضے تعمیر کرنا ، سابقہ اقوام اور امتوں کے آداب و سنتوں میں سے بھی رہا ہے ۔ اور وہ لوگ اس کام کو اپنے بزرگوں اور عظیم ہستیوں کے احترام و تجلیل میں انجام دیا کرتے تھے۔

دوسری دلیل: بزرگوں کی قبور پر مزارات تعمیر کرنا ’’ ترفیع بیوت ‘‘ کا ایک مصداق ہے ۔ وہ گھر جن کے لیے اللہ تعالیٰ کی مرضی یہ ہے کہ ان کی رفعت و منزلت بلند و بالا رہے ۔ اور اس کی وضاحت یہ ہے کہ قرآن مجید سورہ نور میں اللہ تعالیٰ کو منور چراغ سے تشبیہ دیتا ہے جو آسمان میں چمکتے ہوئے ستاروں کی طرح روشن ہے پھر اس آیت کے بعد والی آیت میں ان چراغوں کے رکھے جانے کی جگہ ان گھروں کو بتلاتا ہے جن کے لیے خدا کی منشأ یہ ہے کہ ان کا احترام کیا جاتا رہے اور وہ ارفع و اعلیٰ رہیں۔ چنانچہ قرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہے:﴿ فِي بُيُوتٍ أَذِنَ اللَّـهُ أَن تُرْفَعَ وَيُذْكَرَ فِيهَا اسْمُهُ يُسَبِّحُ لَهُ فِيهَا بِالْغُدُوِّ وَالْآصَالِ[النور: 36]

"(هدايت پانے والے) ایسے گھروں میں ہیں جن کى تعظيم كا اللہ نے اذن دیا ہے اور ان میں اس کا نام لینے كا بهى، وه ان گھروں میں صبح و شام الله کی تسبیح کرتے ہیں۔"

واضح سی بات ہے کہ اس آیت میں ’’ بیوت ‘‘ سے مراد مساجد نہیں ہوسکتیں، چونکہ بیوت لفظ بیت کی جمع ہے اور بیت عربی لغت میں ایسی جگہ کو کہتے ہیں کہ جس میں انسان رات بسر کرتا ہے اور مسجد رات گذارنے کی جگہ نہیں ہوتی۔ اسی وجہ سے اسے ’’ بیت ‘‘ نہیں کہا جاتا، بلکہ اس آیت میں ’’ بیوت ‘‘ سے مراد، اولیائے الہی اور ایسے پاک لوگوں کے گھر ہیں کہ جن میں صبح و شام اللہ کی تسبیح ہوتی ہے اور اس کا ذکر کیا جاتا ہے۔

اس آیت میں موجود رفعت و بلندی سے مراد کیا چیز ہے؟ اس کے سلسلہ میں دو احتمال پائے جاتے ہیں :

۱۔ رفعت ظاہری

۲ ۔ رفعت معنوی

اگر اس آیت میں رفعت ظاہری مراد لی جائے تو اس کے معنیٰ یہ ہیں کہ اس گھر کے در و دیوار اور چھت وغیرہ کو بلند کرکے بنایا جائے اور ان کی بلندی کو مزید بڑھایا جائے۔ لیکن چونکہ یہ معنی اس مقام کے شایان شان نہیں ہیں اور اس آیت میں ذکر اور تسبیح الہی کا تذکرہ ہے۔ چنانچہ موضوع اور حکم میں مناسبت کا خیال رکھتے ہوئے۔ تو معنی کا تقاضہ یہ ہے کہ اس سے مراد رفعت معنوی ہونی چاہیے۔ اور کسی گھر کی معنوی رفعت کا تقاضہ یہ ہے کہ اسے تکریم و تعظیم کی نگاہ سے دیکھا جائے اور ان مکانوں کا احترام کیا جائے۔ اور یہ بھی واضح ہے کہ ان گھروں کے احترام کا ایک مصداق، اس مکان کو تعمیرکرنا، اسے منہدم اور مسمار ہونے سے بچانا اور اس کی حفاظت کی کوشش کرنا ہے۔

کئی روایات کے مطابق جب یہ آیت: ’’ فِي بُيُوتٍ أَذِنَ اللَّـهُ أَن تُرْفَعَ ‘‘ نازل ہوئی اور پیغمبر اکرمﷺ نے اسے مسجد میں اصحاب کے سامنے تلاوت کیا تو ایک صحابی نے حضرتﷺ سے سوال کیا: یا رسول اللہ! اس’’ بیوت ‘‘ سے مراد کیا ہے؟ آنحضرتﷺ نے فرمایا : انبیاء(عليهم السلام) کے گھر۔ اسی وقت حضرت ابوبکر اٹھے اور علی و فاطمہ سلام اللہ علیہما کے گھر کی طرف اشارہ کر کے پوچھا: یا رسول اللہ ﷺ! کیا یہ (علی وفاطمہ کا) گھر بھی انہیں گھروں میں سے ہے جنہیں اللہ نے بلند رکھنے کی اجازت دی ہے تاکہ ان کی منزلت، رفیع و اعلیٰ رہے؟ پیغمبرﷺ نے فرمایا : ’’ نعم، من أفضلھا‘‘ ہاں! یہ گھر ان سب میں با فضیلت ہے۔[1]

اس بیان کی روشنی میں اب سوال یہ ہے کہ وہ گھر جو اللہ کے حکم کے موجب سب سے افضل و برتر ہو اور جس کی تکریم و تعظیم ہونی چاہیئے، کس بنیاد پر اس گھر کو جس میں فاطمہ (س) کو دفنایا گیا ہو ویران کرنا جائز ہوگا ؟ کیا اس حکم کو منسوخ کرنے والا کوئی جدید حکم، اللہ کی جانب سے نازل ہوا تھا؟

تيسرى دليل: صالحین اور اولاد رسول اللہ ﷺ کی قبروں کو تعمیر کرنا، ان کی نسبت مسلمانوں کے ادب اور احترام کے ساتھ ساتھ ان سے مودت و محبت کی بھی نشانی ہے اور یہ وہی اجر رسالت ہے جس کی ادائیگی کا انہیں حکم ملا ہے جیسا کہ قرآن مجید کا ارشاد ہے :

﴿قُل لَّا أَسْأَلُكُمْ عَلَيْهِ أَجْرًا إِلَّا الْمَوَدَّةَ فِي الْقُرْبَىٰ[الشورى: 23]

"اے پیغمبر! آپ(ص) کہ دیجيے! میں اس(تبلیغ رسالت) پر تم سے کوئی اجرت نہیں مانگتا سوائے قريب ترين رشته داروں کی محبت کے۔"

بے شک اولیاء الہی کے معنوی مقام كے احترام و تعظیم کا اظہار اور ان سے محبت و مودت کا شرک سے کوئی تعلق نہیں ہے۔


[1] - تفسیر آلوسی ، ج۱۸ ، ص ۱۷۴ ؛ الکشف و البیان عن تفسیر القرآن، ج۷ ، ص ۱۰۷ ؛ الدر المنثور، ج ۵ ، ص ۵۰ ۔’’ أخرج ابن مرویۃ عن أنس بن مالک و بریدۃ قال : قرأ رسول اللہ ھذہ الآیۃ ( فی بیوت ۔۔۔۔) فقام إلیہ علیہ السلام رجل، فقال: أیّ بیوت ھذہ یا رسول اللہ ؟ فقال (ص) : بیوت الأنبیاء علیھم السلام ، فقام إلیہ أبوبکر، فقال: یا رسول اللہ ! ھذا البیت منھا لبیت علی و فاطمة ؟ قال : نعم ، من أفضلھا ۔‘‘

كيا توسل و شفاعت حرام ہے اور غیر خدا كى هر قسم کی تعظیم شرک ہے؟

اشكال: كيا توسل و شفاعت حرام ہے اور غیر خدا كى هر قسم کی تعظیم شرک ہے؟

جواب: وھابی و سلفى اپنی نادرست فہم کی بنا پر لفظ عبادت کو ایک وسیع ترین معنی پر حمل کرتے ہیں اور اس بنیاد پر بہت سارے اعمال جو مسلمانوں کی نظر میں جائز ہیں، کو حرام اور شرک سمجھتے ہیں۔ اس سوال کے جواب کے لیے معنى عبادت کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔

عبادت کا لغوى معنى كسى کے سامنے خضوع اور اظهار ذلت كرنا ہے، ليكن حقیقی اصطلاحى معنی خاص ہے اور وه يه ہے کہ کسی کو اوصاف الہی سے متصف کرتے ہوئے اس کے سامنے اظہارِ خضوع کرنا۔ اور اگر غیر خدا کے لیے هو تو يه اظهار ذلت شرک ہے۔

اگر اس حقیقت کو مد نظر رکھا جائے تو یہ بات واضح ہے کہ انبیاء سے توسل اور اولیاء الہی سے مدد طلب کرنا ممکن ہے اور یہ کسی قسم کا شرک قرار نہیں پاتا۔

لهذا اگر کوئی شخص انبیاء سے اور اولیاء الہی سے مدد طلب کرے یا ان سے توسل کرے اور ان كو شفيع قرار دے، تو ان جیسے افعال کی دو صورتیں ہيں:

پہلی صورت یہ ہے کہ وہ شخص اس اعتقاد کے ساتھ کہ وہ جس سے مدد طلب کر رہا ہے یا توسل کر رہا ہے، وہ مستقل طور پر ان کاموں کو انجام دے سکتا ہے اور خدا کے عرض میں ربوبیت کا مقام رکھتا ہے تو یہ شرک کہلائے گا۔

اور دوسری صورت یہ ہے کہ وہ شخص اس اعتقاد کے ساتھ کہ وہ جس سے مدد طلب کر رہا ہے یا توسل کر رہا ہے وہ مستقل نهيں، بلكه خدا سے وابستہ اور اس کا محتاج ہے اور اذن خدا سے یہ کام انجام دیتا ہے، تو یہ عین عبادت ہے اور کسی قسم کا شرک نہیں۔

لهذا اگر توسل، شفاعت اور غير خدا كى تعظيم کو شرک قرار دیا جائے تو فرشتوں کا آدم عليه السلام کو سجدہ کرنا، یعقوب عليه السلام کا اپنے بیٹے(يوسف عليه السلام) کے سامنے سجدہ کرنا اور مسلمانوں کا پیغمبر اسلام صلى الله عليه وآله وسلم سے توسل کرنا، یہ سب کام شرک کہلائیں گے جبکہ ایسا عقیدہ درست نہیں ہے، کیونکہ انبیاء شرک نہیں کرتے۔

مسئله شر اور اس كا حل

مسئله شر اور اس كا حل

تحرير: سید شهباز حیدر

انسان کو خداوند متعال نے فطرتاً اس طرح بنایا ہے کہ وہ تجسس کرتا ہے کسی بھی چیز کی گہرائي تک جانا چاہتا ہے چونکہ خالق كائنات کا وجود مخفی ہے انسان اس پر ایمان تو لے آتا ہے لیکن اس کا تجسس ختم نہیں ہوتا یہ سوال کرتا ہے. کبھی خالق کے وجود پر سوال کرتا ہے، کبھی اطمینان قلب کے واسطے اس کو دیکھنے کا تقاضہ کرتا ہے، کبھی اس کے وجود کی حدود کو ماپتا ہے تو کبھی اس کی صفات پہ سوال اٹھاتا ہے. اسی طرح کے ہزاروں سوالات میں سے ایک سوال یہ ہے کہ خدا جو اس کائنات کا خالق ہے اس کی صفات میں عالم مطلق،قادرمطلق اور خیر محض ہونا ہے اگر وہ خیر محض ہے تو اس نے کائنات کی ساخت تشکیل دیتے ہوئے یہ رعایت کیوں نا کی کہ اس کائنات میں کسی کے لئے ضرر اور نقصان نا ہوتا ؟

اس كائنات ميں شر كا وجود خدا كي صفات: عالم مطلق،قادر مطلق اور خیر محض سے متناقض هے. اس تناقض كو ختم كرنے كے لیے ضروري هے كه حقيقت شر كو بيان كريں۔

1- تعریف شر

شر ایک بدیهی مفهوم ہے جس کی تعریف کی احتیاج نہیں البتہ مختصرا یوں کہا جا سکتا ہے کہ فقدان کمال یا درد و رنج جو خدا کی مخلوق یعنی انسان کو پہنچے اسے یہ انسان شر تصور کرتا ہے. (جعفر سبحاني، محمد رضاعي، انديشه اسلامي(1)، ص121)

2- اقسام شر

شر کی دو اقسام ہیں ایک شر طبیعی ہے اور ایک شر اخلاقی۔

1- شر اخلاقی: جس شر کا عامل خود ذات انسان ہے جیسے چوری ، قتل و غارت ، جنگ و جدال وغیرہ.

2- شر طبیعی: جس میں انسان کا عمل دخل نہیں ہوتا جیسے قدرتی آفات، زلزلہ ، سیلاب ، طوفان اور وہ امراض جو لا علاج ہیں شر طبیعی میں آتے ہیں۔(جعفر سبحاني، محمد رضاعي، انديشه اسلامي(1)، ص121-122)

مسئله شر كا حل

1- بعض فیلسوف یہ کہتے ہیں کہ شر اصلا موجود ہی نہیں ہے ملا صدرا اس پر دلیل بیان کرتے ہیں کہ "أنّ الوجود فی نفسه خیر و بهاء کما أنّ العدم فی نفسه شرٌّ علی ما حکم به الفطرة."وجود اپنے آپ میں خیر محض ہے( یعنی جس چیز پر لفظ وجود کا اطلاق ہے وہ خیر ہے). اسی طرح عدم اپنے آپ میں شر ہے (یعنی جس چیز پر عدم كا اطلاق ہو گا وہی شر ہے )یہ حکم فطرت انسان لگاتی ہے (اگر کوئي آوازِ فطرت تک رسائي رکھتا ہو تو اس کے لئے یہ بات واضح ہے)"(ملاصدرا، الحکمه المتعالیه، ج4، ص 121).

دوسری دلیل شر کے معدوم ہونے پر قاعدہ سنخیت ہے ۔ یعنی خدا قادر مطلق ہے عالِمِ کل ہے اور خیرخواهِ مطلق ہے یا یوں کہيں کہ خیر محض ہے ۔لہذا علت و معلول کے درمیان خیر محض سے خیر کے سوا کچھ ایجاد نہیں ہو سکتا ۔

2- اس سوال کا جواب یوں دیا جا سکتا ہے کہ خداوند متعال کا مقصد مخلوق خلق کرنا نہیں بلکہ ایک نظام خلق کرنا تھا۔ خلقِ بشر کی بات آئے تو یہ زاویہ الگ ہے مگر جب خلق نظام کی بات آئے تو آئینہ فکر تبدیل کرنا پڑے گا. پھر مد نظر صرف انسان نہیں بلکہ کائنات میں بسر کرنے والی ہر مخلوق ہے. عالم میں صرف بشر نہیں بلکہ کئي مخلوقات ایسی ہیں جو انسان کی نظر سے اوجھل ہیں اور وہ اپنے ہونے کا احساس بھی کرواتی ہیں فیلسوف حضرات عوالم کو تین حصوں میں تقسیم کرتے ہیں: (جعفر سبحاني، محمد رضاعي، انديشه اسلامي(1)، ص122-124)

1- عالم عقل

2- عالم مثال

3- عالم ماده

1- عالم عقل: ایک ایسا عالم ہے کہ جس کی مخلوقات مجرد تام ہیں ۔اس کا مادی اور جسمانی مخلوقات سے کوئي تعلق نہیں، نا ہی یہ زمان یا مکان میں محدود ہے اور نه هي اس کی کسی جہت کا تعین ہو سکتا ہے ۔ عالم عقل تخلیق کی دنیا کا سب سے اعلی درجہ ہے اور ادنیٰ عوامل کا موثر سبب ہے۔ مشائین کا خیال تھا کہ اس عالم میں کل دس عقلیں ہیں جن کا ایک دوسرے سے قوی تعلق ہے اور ہر مرتبے میں عقل صرف ایک ہے اس سے زیادہ ممکن نہیں، لیکن ملا صدرا اور شیخ اشراق نے افلاطون کے نظریات کو قبول کیا ہے اور افقی کثرت کے قائل تھے. (ملا صدرا، الحكمة المتعاليه، ج۲، ص۸۲ – ۴۶)

2- عالم مثال:تخلیق کا دوسرے درجے کا مرحلہ ہے. یہ عالم عقل اور عالم مادہ کے درمیان میں قرار پایا ہے. یہ عالم مادہ سے مجرد ہے لیکن اسکی جہت زمانی و مکانی مشخص ہے اس کی شکل بھی ہے، رنگ بھی ہے ،ليكن جسم مادي نهيں ہے. اسے تجرد مثالی یا تجرد برزخی سے بھی تعبیر کیا گیا ہے۔

3- عالم مادہ: يه عالم محسوس ہے کہ جسے عالم طبیعت اور عالم شھادت سے تعبیر کیا جاتا ہے یعنی جسے ہم محسوس کر سکتے ہیں دیکھ سکتے ہیں۔ عالم عقل و مثال کے بر عکس حواس خمسه اس عالم کا ادراک کرنے سے قاصر نہیں ہيں۔

دوسرا جواب يه هے كه شر اس جہان مادی کا لازمہ ہے،تجرد محض ہونا، خیر محض ہونا اس عالم مادی کے لئے محال ہے خداوند متعال اگر چاہتا تو اس عالم کو بھی خیر محض بنا سکتا تھا لیکن اس کا مقصد مخلوق نہیں نظام خلق کرنا تھا جیسا کہ وہ قرآن کریم میں ارشاد فرماتا ہے: ﴿الَّذِي خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ وَمَا بَيْنَهُمَا فِي سِتَّةِ أَيَّامٍ ثُمَّ اسْتَوَىٰ عَلَى الْعَرْشِ ۚ الرَّحْمَٰنُ فَاسْأَلْ بِهِ خَبِيرًا( فرقان 59)

زمین و آسمان کی خلقت 6 دن میں ہوئی حالانکہ وہ یہ بھی فرماتا ہے:﴿إِنَّمَا أَمْرُهُ إِذَا أَرَادَ شَيْئًا أَنْ يَقُولَ لَهُ كُنْ فَيَكُونُ( يس 82)"وہ جب کسی چیز کا ارادہ کرتا ہے تو اسے کہتا ہے ہو جا تو وہ ہو جاتی ہے"۔ اگر حقیقت امر یونہی ہے تو پھر یہ چھ دن کا دورانیہ کیوں ؟ کیونکہ اس حکیم ذات کا مقصد اس نِظام کو ایک خاص پیراہے میں چلانا تھا اگر مقصد فقط مخلوق بنانا ہوتا تو وہ ایسے بنا دیتا کہ جیسے انسان تقاضہ کرتا ہے مگر اس کا مقصد نظام بنانا تھا نظام میں مینیجمٹ ہوتی ہے اور نظام کے خاص تقاضے ہوتے ہیں یہ عالم عالمِ عقل و مثال نہیں کہ جس میں تزاحم و تنازع نا پایا جائے یہ عالمْ تزاحم و تنازع اپنے اندر سموئے ہوئے ہے اس لئے اس عالم کا لازمہ شر قرار پایا ہے.

فارابی عالم اسلام کا ایک مایہ ناز فلسفی یہ کہتا ہوا نظر آتا ہے:

"الأول تام القدرة والحکمة والعلم، کامل فی جمیعه أفعاله لا یدخل فی جمیع أفعاله خللٌ البتةً ولا یلحقه عجز ولا قصور والآفات والعاهات التی تدخل علی الأشیاء الطبیعية، إنّما هی للضّرورات ویعجز المادة عن قبول النّظام التّام"

"خداوند متعال اپنی قدرت اپنے علم اور اپنی حکمت میں کمال مطلق ہے اس کے کسی کام میں نقص کا تصور ممکن نہیں آفات و شرور تو بس طبیعت کا تقاضہ ہیں یہ عالم طبیعت پہ عارض ہونے والی چیزیں ہیں عالم طبیعت و عالم مادہ میں اتنی ظرفیت نہیں کہ یہ خیر محض کو قبول کر سکے "( فارابی ،تعلیقات ، ص 46)

اب اگر کوئي اشکال کرے کہ خدا نے اس عالم کو ایسا کیوں نہیں بنایا کہ اس میں خیر محض ہو. آگ کو ایسا کیوں نہیں بنایا کہ وہ کسی بے گناہ یا معصوم کو نا جلائے ؟ وہ لباس کو نا جلائے ؟

المختصر! که طبیعت کے قوانین کو ایسا کیوں نہیں بنایا کہ ان میں کسی کو تکلیف پہنچانے کی صلاحیت ہی نا ہوتی ؟

ان اشکالات کا مختصر جواب یہ ہے کہ اعطاء المعطی کے ساتھ قابلية القابل شرط ہے عطا کرنے والے کی عطا میں کمی نہیں ہے قبول کرنے والے کی ظرفیت میں کمی ہے اس نے ہر مخلوق کو اتنا عطا کیا ہے جتنی اس میں تحمل کی طاقت ہے:﴿وَلَا نُكَلِّفُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا﴾ ( المؤمنون 62) کسی نفس پر ظلم کرنا اس خالق کے شایان شان نہیں وہ صرف اتنا بوجھ ڈالتا ہے جتنا کوئي برداشت کر سکے ۔

ابن سینا اپنی کتاب الھیات کے باب شرّيتِ عالم میں کہتا ہے کہ: "اگر وہ کہیں کہ خدا نے عالم کو اس طرح خلق کیوں نا کیا کہ یہ خیر محض ہو اس میں مانع شرور پیدا کیوں نا کئے ؟ تو ان کے جواب میں یہ کہا جائے گا کہ اگر عالم مادی کہ جس کا لازمہ ہی یہ هے کہ اس میں شر قرار پائے اگر اس طرح خلق ہوتا کہ اس میں کوئي شر نا ہوتا تو یہ عالم مادی ہی نا رہتا یہ کوئي اور عالم ہوتا کہ جو خیر محض ہو اگر مادیت ہے تو شر الزامی ہے "۔

اور اگر یه کها جا ئے که کائنات شرور سے بھری پڑی ہے اس میں خیر کم ہے اور شر زیادہ ہے اس سے تو بہتر تھا کہ یہ کائنات خلق نا ہوتی۔

اس كا جواب یہ ہے يه کہنا بیوقوفی کے سوا کچھ بھی نہیں کیونکہ یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ اس کائنات میں اگر دس فیصد شر ہے تو نوّے فیصد خیر ہے. اب اتنے قلیل سے شر کی موجودگی کی وجہ سے کائنات کے عدم کا تقاضہ خود ایک شر کبیر ہے ۔

اور دوسری بات یہ کہ انسان ہر چیز میں خود کو مد نظر رکھتا ہے اپنی ذات کو محور و مرکز قرارداد دیتا ہے اگر خود کو محور قراردینا چھوڑ دے اور اس کائنات کی وسعتوں کو مد نظر رکھے تو انسان یہ درک کر سکتا ہے کہ یہ کائنات ہر لحاظ سے خیر ہے. اگر آگ کو جلانے کی قوت دی ہے تو انسان کو عقل کی طاقت دی ہے تا کہ وہ اس کو اپنے فائدے کے لئے استعمال کر سکے اور اس کے نقصان سے بچ سکے. (جعفر سبحاني، محمد رضاعي، انديشه اسلامي(1)، ص124-125)

3- اللہ نے انسان کو آزاد پیدا کیا۔ وہ ارتقاء کی راہ پر چل سکتا ہے اور اپنی مرضی سے سعادت حاصل کر سکتا ہے، گمراہی کے راستے پر چل سکتا ہے اور گمراہ ہو سکتا ہے اور ایسے برے کاموں میں مشغول ہو سکتا ہے، جس کی وجہ سے دوسروں کے لئے تکلیف کا باعث بنتا ہے ۔ لہٰذا دنیا میں برائی انسان کی آزادی کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے۔ خدا انسان کو دو طریقوں سے تخلیق کر سکتا تها:

1- خدا انسان کو مجبور پیدا كرتا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ خدا انسان کو اس طرح پیدا کرتا کہ اس سے صرف نیکیاں ہی صادر ہوتیں۔ اس صورت ميں انسان كے اعمال كي كوئي اهميت نه هوتي اور كمال كى طرف سفر بے معنى هو جاتا.

2- خدا انسان كو آزاد پیدا کرتا، جس کا تقاضا ہے کہ کچھ لوگ برے کام کریں۔ تا کہ پھر اس آزادی کا انسان سے حساب لیا جائے کہ ہم نے تمھیں با اختیار بنایا تھا تم نے عمل خیر کیا تو اپنے اختیار سے اور موجب شر بنے تو اپنے ارادے اور اختیار سے ۔ اس ميں انسان كے اعمال كي اهميت هے اور كمال كا حصول معنى ركهتا هے. (جعفر سبحاني، محمد رضاعي، انديشه اسلامي(1)، ص125-127)جیسا کہ قرآن مجید میں خداوند متعال نے اس طرف اشارہ کیا ہے:

﴿ظَهَرَ الْفَسَادُ فِی الْبَرِّ وَالْبَحْرِ بِمَا كَسَبَتْ اَيدِی النَّاسِ لِيذِيقَهُمْ بَعْضَ الَّذِیْ عَمِلُوْا لَعَلَّهُمْ يرْجِعُوْنَ﴾ (الروم41)

"لوگوں کے اعمال كے باعث خشکی اور سمندر میں فساد برپا ہوگیا تاکہ انہیں ان کے بعض اعمال کا ذائقه چکھايا جائے شايد يه لوگ باز آجائیں"۔

4- مسئلہ شر کو حل کرنے کے لیے بعض مفکرین یہ نظر رکھتے ہیں کہ جسے کچھ لوگ برائی سمجھتے ہیں وہ لوگوں کی جهالت يا سطحی اور جزوی قضاوتوں کا نتیجہ ہے۔ اگر لوگوں کے پاس وسیع اور جامع علم ہوتا تو وہ کبھی بھی کچھ چیزوں کی برائی کا اتنی آسانی سے فیصلہ نہ کرتے۔ اپنے مطلق کمالات کی وجہ سے، خدا نے بہترین ممکنہ دنیا بنائی ہے جہاں ہر چیز اپنی جگہ پر خیر ہے۔ لیکن کچھ لوگ تنگ نظری کی وجہ سے چیزوں کے بارے میں صحیح فیصلہ نہیں کر سکتے۔(جعفر سبحاني، محمد رضاعي، انديشه اسلامي(1)، ص127-129) یہ نقصِ علمی اور نظر کی تنگی باعث بنتی ہے کہ انسان ہر چیز کو شر تصور کرتا ہے جیسا کہ پروردگار عالم قرآن مجید میں اشارہ فرماتا ہے:

﴿وَعَسَىٰ أَن تَكْرَهُوا شَيْئًا وَهُوَ خَيْرٌ لَّكُمْ ۖ وَعَسَىٰ أَن تُحِبُّوا شَيْئًا وَهُوَ شَرٌّ لَّكُمْ ۗ وَاللَّهُ يَعْلَمُ وَأَنتُمْ لَا تَعْلَمُونَ ( البقرہ 216)

"اورممکن ہے تمهیں ایک چیز ناگوار گزر ے مگر وہی تمھارے لئے بهتر ہو(جيسا كه) ممکن ہے تمهیں ایک چیز پسند هو مگر وہ تمھارے لئے بری ہو، (ان باتوں كو) خدا بهتر جانتا ہے اور تم نہیں جانتے"۔

المختصر: یہ کائنات اور اس کی وسعتیں اس خالق نے کہ جو عقل انسان سے ماورا ہے ہر طرح سے کامل اور منظم بنائي ہیں اور انسان کو اختیار دیا ہے کہ وہ چاہے تو اپنے اختیار سے اشرف المخلوقات بن جائے اور چاہے تو اپنے اختیار سے وہ کسب کرے جو اسے اسفل السافلین تک پہنچا دے۔

شر كے فوائد:

1- شر عالم مادہ کا لازمہ ہے اور فطری تقاضہ ہے.

کشمکش اور تصادم مادی دنیا کی ذاتی خصوصیات ہیں۔ اگر یہ خصوصیات نہ ہوتیں تو مادی دنیا جیسی کوئی چیز نہ ہوتی۔ یا تو یہ خصوصیات مادے کی دنیا میں موجود ہونی چاہئیں یا ایسی دنیا کا کوئی وجود ہی نہیں۔ دوسری طرف، خدا کی حکمت اور فضل کا تقاضا ہے کہ مادی دنیا کی تخلیق کی ہو کیونکہ اس کی اچھائی اس کے عیبوں اور برائیوں سے زیادہ ہے اور تھوڑی سی برائی کی خاطر بڑی بھلائی کو ترک کرنا خدا کی حکمت اور فضل کے خلاف ہے.

2- شر استعداد انسان کے پھلنے پھولنے کا سبب ہے .

انسان کی ساخت ایسی ہے کہ اس کی بہت سی صلاحیتیں مشکلات اور مسائل کا سامنا کرنے کے سائے میں پروان چڑھتی ہیں۔ بہت سی ایجادات اور اختراعات مسائل اور مشکلات سے نمٹ کر حاصل کی جاتی ہیں۔ اس لیے برائی کا وجود انسان کی روحانی اور سائنسی ترقی کے لیے مفید ہے۔ قرآن اس بارے میں سورہ الشرح کی آیات 5 اور 6 میں کہتا ہے: ﴿ اِنَّ مَعَ العُسْرِ يُسْراً " يقينا مشکل کے ساتھ آسانی ہے".

3- شر غفلت سے بیداری کا سبب ہے.

برائیوں اور مشقتوں کا ایک فائدہ یہ ہے کہ یہ انسان کے لئے غفلت سے بیداری کا زینہ فراہم کرتی ہیں. آئیے ایک ایسے ڈرائیور کی مثال لے لیں جو ڈرائیونگ تو جانتا ہے مگر ڈرائیونگ کے اصول و ضوابط کو مد نظر نہیں رکھتا اور گاڑی چلانے میں غفلت برتتا ہے اگر وہ اسی طرح غفلت برتتا رہے تو خود بھی نقصان اٹھائے گا اور دوسروں کے بھی نقصان کا باعث بنے گا لیکن ایک انتباہ کے طور پر، پولیس اسے جرمانہ کرتی ہے اور اس لا پرواہی کو جاری رکھنے سے روکتی ہے۔ یہ دشواری اور تکلیف اس کے حق میں ہے اور اسے ناخوشگوار نتائج سے دور رہنے کے لیے بیدار اور چوکنا بناتی ہے۔ قرآن میں اللہ تعالیٰ نے غفلت سے بیدار ہونے کے لیے مشکلات اور پریشانیوں کا بھی ذکر کیا ہے اور سورہ سجدہ کی آیت نمبر 21 میں فرمایا ہے: "اور یقیناً آخرت کے بڑے عذاب کے علاوہ ہم قریب کے عذاب کا مزہ چکھائیں گے۔ دنیا کے عذاب سے، امید ہے کہ وہ خدا کی طرف لوٹ آئیں۔"

4- یہ خدا کے خاص بندوں کے لئے تحفہ ہے.

بعض روایات کے مطابق جب بندے پر خداوند منان کا خاص کرم ہوتا ہے تو خدا سے مشکلات میں مبتلا کرتا ہے ۔

امام صادق علیہ السلام اس بارے میں فرماتے ہیں:

جب خدا کسی بندے سے محبت کرتا ہے تو اسے مشکلات کے سمندر میں غرق کر دیتا ہے۔

ایک اور جگہ امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں: انبیاء دوسرے لوگوں کے مقابلے میں زیادہ مصیبتوں میں مبتلا ہوتے ہیں اور پھر جو لوگ ان سے مشابہ ہوتے ہیں، جتنے زیادہ خدا کے منتخب بندوں (انبیاء و اولیا) کے مشابہ ہونگے اتنے ہی مشکلات میں مبتلا ہونگے ۔

5- شر امتحانِ الہی ہے .

خدا بعض اوقات اپنے بندوں کو مصیبت اور مشکل سے آزماتا ہے تاکہ ان کی پہچان ہو سکے جو سچے اور کھرے ہیں جس طرح سے ناپاک سونے کو گرمی سے پاک کرتے ہیں اور اسے مزید خوبصورتی اور قدر عطا کرتے ہیں۔ اسی طرح الله بعض بندوں کو مصائب، آفات اور پریشانیوں میں آزماتا ہے تاکہ وہ پاکیزہ اور قیمتی بن جائیں۔(جعفر سبحاني، محمد رضاعي، اندیشہ اسلامی، ص130-131)

﴿أَحَسِبَ النَّاسُ أَنْ يُتْرَكُوا أَنْ يَقُولُوا آمَنَّا وَهُمْ لَا يُفْتَنُونَ.وَلَقَدْ فَتَنَّا الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ ۖ فَلَيَعْلَمَنََّ الله الَّذِينَ صَدَقُوا وَلَيَعْلَمَنَّ الْكَاذِبِينَ(العنكبوت: 2-3)

"کیا لوگوں نے یہ خیال کر رکھا ہے کہ وہ صرف اتنا کہنے سے چھوڑ دیے جائیں گے کہ ہم ایمان لائے اور یہ کہ وہ آزمائے نہیں جائیں گے؟ اور بتحقیق ہم ان سے پہلوں کو بھی آزما چکے ہیں کیونکہ اللہ کو بہرحال یہ واضح کرنا ہے کہ کون سچے ہیں اور یہ بھی ضرور واضح کرنا ہے کہ کون جھوٹے ہیں۔ "

منابع

1- قرآن كريم.

2- ملاصدرا، الحکمة المتعالیه فی الاسفار العقلیة الاربعه، چاپ: بیروت ، اعلمی.

3- فارابي، التعليقات، چاپ: حیدرآباد دکن، ۱۳۰۶ ش.

4- جعفر سبحاني، محمد رضاعي، انديشه اسلامي(1)، نشر معارف، قم، چاپ: 100، سال1400ش.

دراسة نقدية لمصادر المعرفة عند ابن تيمية


دراسة نقدية لمصادر المعرفة عند ابن تيمية

جب عقل ہے تو دین کی کیا ضرورت؟

جب عقل ہے تو دین کی کیا ضرورت؟

تحرير: سيد غيور الحسنين

عقل کلیات کا ادراک کرتی ہے جزئیات کو درک نہیں کر سکتی. لہذا اللہ پاک نے ہمیں دین دیا تاکہ جزئیات کے ادراک کی جگہ پر ہو سکے. جیسے وجود خدا کا اثبات عقل کرتی ہے لیکن وہ کیسا ہے؟ اس کی صفات کیا ہیں؟ عقل کی مدد کے لیے دستورات خدا کی ضرورت ہے جو آج قرآن کریم اور اھل بیت علیھم السلام کے فرامین کی صورت ميں موجود ہیں. لہذا عقل اور دین میں کوئی تصادم نهيں.

اگر کوئی عقل و دین کے درمیان جدائی کا قائل ہے تو شاید اس نے عقل کو نہیں سمجھا یا دین صحيح راستے سے نہیں لیا یا جان بوجھ لوگوں کو گمراہ کر رہا ہے۔

دراسة نقدية لرؤية الله عند ابن تيمية

دراسة نقدية لرؤية الله عند ابن تيمية

سيد غور الحسنين

مجلة الدليل

شبهات كرونا و شرور  و ردود آنها


شبهات كرونا و شرور  و ردود آنها

 مدرس: شيخ دكتر برنجكار 

نگارش سيد غيور الحسنين

کرونا ابعاد مختلف سیاسی، اقتصادی، مذهبی وغیره داشته است... چالش هایی را ایجاد کرده است. این بیماری از یک جهت زیست مومنانه و اعتقاد دینی را هم هدف گرفته است. سوال­هایی در این مورد مطرح شده است. چه از طرف مومنین و چه از طرف ملحدین.

به طور کلی بیماری­ها، طاعون­ها وغیره به عنوان شرور بحث می­شوند. یک تقریر واحد از شرور ارائه کردن اشتباه از طرف اکثر محققین است. با دقت در همه شبهات مسئله شر یک مسئله نیست بلکه چندین مسئله است و هر کدام شاید جواب مستقلی داشته باشد.

ادامه نوشته

شفاعت امام حسین علیہ السلام

شفاعت امام حسین علیہ السلام

 

زندگی کا سب سے خوفناک ترین وقت وہ لمحہ ہے جب اس کو قبر میں ڈالا جائے گا.

 

ایک شخص امام صادق علیہ السلام کے پاس جاتا ہے اور کہتا ہے کہ میں اس لمحے سے بھت ڈرتا ہوں کیا کروں؟

امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا: زیارت عاشورا زیادہ پڑھو

اس مرد نے کہا: کیسے زیارت عاشورا کے پڑھنے کے ساتھ اس وقت کے خوف سے محفوظ رہیں گے.؟

امام صادق علیہ السلام نے فرمایا: مگر زیارت عاشورا کے آخر میں نہیں پڑھتے ہیں.

اَللّهُمَّ ارْزُقْنی شَفاعَهَ الْحُسَیْنِ یَوْمَ الْوُرُودِ

یعنی خدایا قبر میں داخل ہونے کے وقت  امام حسین علیہ السلام کی شفاعت نصیب فر ما.

 

زیارت عاشورا پڑھیں تاکہ امام حسین علیہ السلام اس لمحے ہماری فریاد کو پہنچ جائیں.

 

وہ صحابہ جو لشکر یزید میں تھے اور امام حسین علیہ السلام کے قتل میں شریک ہوئے

وہ صحابہ جو لشکر یزید میں تھے اور امام حسین علیہ السلام کے قتل میں شریک ہوئے:

تحرير: نامعلوم

 

حیران کن انکشاف

اب کھاں گئ ان کی صحابیت

یا پھر خطاے اجتھادی کا فائدہ دیا جاے گا؟؟؟؟

 

چند صحابہ کربلاء میں لشکر یزید میں حاضر ہوئے اور فرزند رسول کے قتل میں شریک ہوئے۔

ان میں سے 8 صحابہ کے نام ذکر ہو رہے ہیں:

 

   1 . كثير بن شهاب الحارثي:

اس کے صحابی ہونے کے بارے میں:

قال أبو نعيم الأصبهاني المتوفی  : 430:

كثير بن شهاب البجلي رأى النبي(ص).

    کثیر بن شھاب نے نبیّ (ص) کو دیکھا تھا۔

 تاريخ أصبهان  ج 2   ص 136 ،    ، دار النشر : دار الكتب العلمية – بيروت - 1410 هـ-1990م ، الطبعة : الأولى ، تحقيق : سيد كسروي حسن

 

قال ابن حجر:

يقال ان له صحبة ... قلت ومما يقوي ان له صحبة ما تقدم انهم ما كانوا يؤمرون الا الصحابة وكتاب عمر اليه بهذا يدل على انه كان أميرا.

اس کے صحابی ہونا کا قوی احتمال ہے اس لیے کہ وہ فقط صحابہ ہی کو جنگ کی سپہ سالاری دیتے تھے۔

الإصابة في تمييز الصحابة  ج 5   ص 571 نشر : دار الجيل – بيروت.

 

2 . حجار بن أبجر العجلي:

ابن حجر عسقلانی نے اسے صحابی کہا ہے اور بلاذری نے اس کے خط کو جو اس نے امام حسین(ع) کو لکھا ہے، کو نقل کیا ہے:

حجار بن أبجر بن جابر العجلي له إدراك.

اس نے نبی(ع) کے زمانے کو درک کیا ہے۔

الإصابة في تمييز الصحابة  ج 2   ص 167 رقم 1957 ، دار النشر : دار الجيل – بيروت

 

قالوا: وكتب إليه أشراف أهل الكوفة ... وحجار بن أبجر العجلي... .

امام حسین(ع) کو بزرگان کوفہ نے خط لکھے ہیں ان میں سے ایک حجار ابن ابجر ہے۔

أنساب الأشراف  ج 1   ص 411

 

وہ ایک ہزار کے لشکر کی سالاری کرتا ہوا کربلاء پہنچا:

قال أحمد بن يحيى بن جابر البلاذری:

وسرح ابن زياد أيضاً حصين بن تميم في الأربعة الآلاف الذين كانوا معه إلى الحسين بعد شخوص عمر بن سعد بيوم أو يومين، ووجه أيضاً إلى الحسين حجار بن أبجر العجلي في ألف.

وہ کربلاء میں ہزار سپاہیوں کے ہمراہ شریک ہوا۔

أنساب الأشراف  ج 1   ص 416

 

3. عبد الله بن حصن الأزدی:

اس کے صحابی ہونے کے بارے میں:

 قال ابن حجر أبو الفضل العسقلاني الشافعي  المتوفي:  852: عبد الله بن حصن بن سهل ذكره الطبراني في الصحابة۔

 

طبرانی نے اسے صحابہ میں ذکر کیا ہے۔

الإصابة في تمييز الصحابة  ج 4   ص 61  رقم 4630،  ، دار النشر : دار الجيل – بيروت

 

کربلاء میں اس کا امام حسین(ع) کی توھین کرنا:

وناداه عبد الله بن حصن الأزدي: يا حسين ألا تنظر إلى الماء كأنه كبد السماء، والله لا تذوق منه قطرة حتى تموت عطشاً.

عبد اللہ ازدی نے کہا: اے حسین کیا تم پانی کی طرف نہیں دیکھ رہے لیکن خدا کی قسم اس میں سے ایک قطرہ بھی تم کو نہیں ملے گا حتی تم پیاسے ہی مرو گے۔

أنساب الأشراف  ج 1   ص 417

 

4. عبدالرحمن بن أبي سبرة الجعفی:

اس کے صحابی ہونے کے بارے میں:

 قال ابن عبد البر المتوفي 463: عبد الرحمن بن أبى سبرة الجعفى واسم أبى سبرة زيد بن مالك معدود فى الكوفيين وكان اسمه عزيرا فسماه رسول الله صلى الله عليه وسلم عبد الرحمن ...

اس کا نام عزیز تھا پھر رسول خدا(ص) نے اس کا نام عبد الرحمن رکھا۔

الاستيعاب  ج 2   ص 834  رقم 1419، نشر : دار الجيل – بيروت.

 

اس کا قبیلہ اسد کی سربراہی کرنا اور امام حسین(ع) کے قتل میں شریک ہونا:

قال ابن الأثير المتوفي:  630هـ : وجعل عمر بن سعد علي ربع أهل المدينة عبد الله بن زهير الأزدي وعلي ربع ربيعة وكندة قيس بن الأشعث بن قيس وعلي ربع مذحج وأسد عبد الرحمن بن أبي سبرة الجعفي وعلي ربع تميم وهمدان الحر بن يزيد الرياحي فشهد هؤلاء كلهم مقتل الحسين.

وہ قبیلہ مذحج اور اسد کا سالار تھا اور کربلاء میں حاضر ہوا۔

الكامل في التاريخ  ج 3   ص 417 ،  دار النشر : دار الكتب العلمية – بيروت

 

5. عزرة بن قيس الأحمسی:

اس کے صحابی ہونے کے بارے میں:

 قال ابن حجر أبو الفضل العسقلاني الشافعي  المتوفي:  852:  عزرة بن قيس بن غزية الأحمسي البجلي ... وذكره بن سعد في الطبقة الأولى۔

اس کو ابن سعد نے پہلے طبقے میں ذکر کیا ہے۔( یعنی صحابی تھا)

الإصابة في تمييز الصحابة  ج 5   ص 125  رقم 6431، نشر : دار الجيل – بيروت.

 

اس نے امام حسين (ع) کو خط لکھا تھا:

قالوا: وكتب إليه أشراف أهل الكوفة ... وعزرة بن قيس الأحمسی۔

اس نے امام حسین(ع) کو خط لکھا تھا۔

 أنساب الأشراف  ج 1   ص 411

 

گھوڑے سواروں کا سالار:

وجعل عمر بن سعد ... وعلى الخيل عزرة بن قيس الأحمسی۔

أنساب الأشراف  ج 1   ص419

وہ گھوڑے سوار لشکر کا سالار تھا۔

شھداء کے سر لے کر ابن زیاد کے پاس گیا:

واحتزت رؤوس القتلى فحمل إلى ابن زياد اثنان وسبعون رأساً مع شمر... وعزرة بن قيس الأحمسي من بجيلة، فقدموا بالرؤوس على ابن زياد۔

أنساب الأشراف  ج 1   ص 424

 

6 - عبد الرحمن بن أَبْزى:

له صحبة وقال أبو حاتم أدرك النبي صلى الله عليه وسلم وصلى خلفه۔

وہ صحابی ہے۔ ابو حاتم نے کہا ہے کہ اس نے نبی(ص) کے پیچھے نماز پڑھی ہے۔

الإصابة - ابن حجر - ج 4 ص 239

 

قال المزّي: «سكن الكوفة واستُعمل عليها»، وكان ممّن حضر قتال الإمام عليه السلام بكربلاء۔

مزّی کہتا ہے کہ وہ کوفے میں رہتا تھا۔ وہ امام حسین(ع) سے جنگ کرنے کربلاء حاضر ہوا تھا۔

تهذيب الكمال 11 / 90 رقم 3731.

 

7 - عمرو بن حريث:

يكنى أبا سعيد رأى النبي صلى الله عليه وسلم۔

اس نے نبی(ص) کو دیکھا تھا۔

أسد الغابة - ابن الأثير - ج 4 ص 97

سپہ سالاروں میں سے تھا:

             ومن القادة: «عمرو بن حريث وهو الذي عقد له ابن زياد رايةً في الكوفة وأمّره على الناس.

ابن زیاد نے اسے کوفہ میں علم جنگ دیا اور لوگوں پر امیر بنایا تھا۔

بحار الأنوار 44 / 352.

وبقي على ولائه لبني أُميّة حتّى كان خليفة ابن زياد على الكوفة.

بنی امیّہ کے لیے والی رہا یہاں تک کہ ابن زیاد کوفہ کا خلیفہ تھا۔

 أنساب الأشراف 6 / 376.

 

8 - أسماء بن خارجة الفزاری:

اس کے صحابی ہونے کے بارے میں:

 وقد ذكروا أباه وعمه الحر في الصحابة وهو على شرط بن عبد البر۔

اس کو صحابہ میں سے شمار کیا گیا ہے۔

 الإصابة في تمييز الصحابة  ج 1   ص 195 ، دار النشر : دار الجيل – بيروت

 

امام حسين(ع) کے قتل کرنے میں اس کا شریک ہونا:

دعا ابن زياد ... وأسماء بن خارجة الفزاري، ... وقال: طوفوا في الناس فمروهم بالطاعة ... وحثوهم على العسكرة. فخرجوا فعذروا وداروا بالكوفة ثم لحقوا به۔

اسماء بن خارجہ یہ لوگوں کو بنی امیہ کی اطاعت اور امام حسین سے جنگ کا حکم دیتا تھا۔

أنساب الأشراف  ج 1   ص 416.

 

ب: یزید کی طرف سے امام حسين(ع) کو شھید کرنے کا حکم صادر ہونا:

یزید کے قاتل ہونے کے لیے ضروری نہیں کہ خود کربلاء جا کر امام حسین(ع) کو قتل کرے بلکہ جب ایک حاکم کے نیچے کام کرنے والے اس کے وزراء وغیرہ جب ہر کام کے انجام دینے میں حاکم کے تابع ہوتے ہیں تو ان سب کے کام اور سب کی کامیابی اور ناکامی اس حاکم کی طرف منسوب ہوتی ہے۔ یزید کے  امام حسین(ع کے قاتل ہونے میں بھی ایسے ہی ہے۔

ایک دوسری عبارت کے ساتھ کہ: يزيد بن معاوية قاتل امام حسين (ع) ہے لیکن ابن زياد، و شمر و عمر بن سعد. کی تلوار کے ساتھ۔ یعنی تلوار وہ چلا رہے تھےلیکن حکم یزید کا تھا۔

ذهبی لکھتا ہے کہ:

خرج الحسين إلي الكوفة، فكتب يزيد إلي واليه بالعراق عبيد الله بن زياد: إن حسينا صائر إلي الكوفة، وقد ابتلي به زمانك من بين الأزمان، وبلدك من بين البلدان، وأنت من بين العمال، وعندها تعتق أو تعود عبدا. فقتله ابن زياد وبعث برأسه إليه.

امام حسین(ع) نے جب کوفے کی طرف حرکت کی تو یزید نے عراق کے والی عراق عبيد الله بن زياد کو لکھا کہ حسین کوفے کی طرف جا رہا ہے اس نے دوسرے شہروں کی بجائے آنے کے لیے تمہارے شہر کو انتخاب کیا ہے تم میرے قابل اعتماد ہو پس تم خود فیصلہ کرو کہ تم نے آزاد رہ کر زندگی گزارنی ہے یا غلام بن کر۔ اس پر ابن زیاد نے حسین کو قتل کیا اور اس کے سر کو یزید کے لیے بیجھا۔

شمس الدين محمد بن أحمد بن عثمان الذهبي الوفاة: 748هـ ، تاريخ الإسلام  ج 5   ص 10 دار النشر : دار الكتاب العربي - الطبعة : الأولى ، تحقيق : د. عمر عبد السلام تدمرى

محمد بن أحمد بن عثمان بن قايماز الذهبي أبو عبد الله الوفاة: 748 ، سير أعلام النبلاء  ج 3   ص 305 دار النشر : مؤسسة الرسالة - بيروت - التاسعة ، تحقيق : شعيب الأرناؤوط , محمد نعيم العرقسوسي

یہی مطلب ابن عساکر سے بھی نقل ہوا ہے:

تاريخ دمشق، ج 14، ص 213 ـ و در حاشيه بغية الطالب، ج 6، رقم 2614.تاريخ دمشق، ج 14، ص 213 ـ و در حاشيه بغية الطالب، ج 6، رقم 2614.

 

 جلال الدین سيوطی نے بھی لکھا ہے کہ:

فكتب يزيد إلي واليه بالعراق، عبيد الله بن زياد بقتاله.

يزيد نے  عبيد الله بن زيادکہ جو  والی عراق تھا اس کو امام حسین(ع) کے ساتھ جنگ کرنے کا حکم دیا۔

تاريخ الخلفاء، ص 193، چاپ دار الفكر سال 1394 هـ. بيروت.

 

ابن زياد نے مسافر بن شريح يشكری کو لکھا کہ:

أما قتلي الحسين، فإنه أشار علي يزيد بقتله أو قتلي، فاخترت قتله.

میں نے حسین کو اس لیے قتل کیا ہے کہ مجھے حسین کے قتل کرنے یا خود مجھے قتل ہونے کے درمیان اختیار کیا گیا تھا اور میں ان دونوں میں سے حسین کو قتل کرنے کو انتخاب کیا۔

الكامل في التاريخ، ج 3، ص 324.

 

ابن زياد نے امام حسين(ع) کو خط لکھا کہ:

قد بلغني نزولك كربلاء، وقد كتب إلي أمير المؤمنين يزيد: أن لا أتوسد الوثير، ولا أشبع من الخمير، أو ألحقك باللطيف الخبير، أو تنزل علي حكمي، وحكم يزيد، والسلام.

مجھے خبر ملی ہے کہ تم کربلاء میں پہنچ گئے ہو اور یزید نے مجھے کہا ہے کہ بستر پر آرام سے نہ سوؤں اور پیٹ بھر کر کھانا نہ کھاؤں مگر یہ کہ یا تم کو خدا کے پاس روانہ کر دوں یا تم کو یزید کی بیعت کرنے پر راضی کروں۔

شیعہ ماتم کیوں کرتے ہیں۔؟

شیعہ ماتم کیوں کرتے ہیں۔؟

تحرير: نامعلوم

 

ایک بار ضرور پڑھیں

ہمارے مسلمان بھائی اکثر ہم سے الجھتے رہتے ہیں کہ شیعہ ماتم کیوں کرتے ہیں حالانکہ نبی پاک (ص) نے ماتم کرنے سے منع کیا ہے

 

 پھر شیعہ ماتم کیوں کرتے ہیں۔۔۔؟؟؟

اس مسلے کے حل کے لیے انتہائی ضروری ہے کہ لفظ ماتم کا مطلب جان لیا جاے

تاکہ پتہ چلے کہ نبی پاک (ص) نے ماتم سے کیوں منع کیا ہے؟

ماتم کا مطلب ہے احتجاج کرنا یعنی جو ہوا غلط ہوا ایسا نہیں ہونا چاہیے تھا

اور جب کوئی اپنی طبعی موت مر جاتا ہے اس میں خدا کی مرضی شامل ہوتی ہے تو خدا کی مرضی کے خلاف کوئی احتجاج یعنی ماتم نہیں کر سکتا

 

اور اسی لیے نبی پاک (ص) نے مردوں کے ماتم سے منع فرمایا ہے

اور ملت تشیع میں بھی مردوں کا ماتم سختی سے منع ہے اور حرام ہے

 

اب رہا سوال کہ پھر شیعہ ماتم کیوں کرتے ہیں۔۔؟؟؟

تو ایک بات ہمیشہ یاد رکھیے کہ شیعہ شہید کا ماتم کرتے ہیں کسی مردے کا نہیں۔؟

اسکی وجہ یہ ہے کہ جب کوئی شہید ہوتا ہے تو ضروری ہے پہلے وہ قتل ہو اور جب کوئی قتل ہوتا ہے تو اس میں خدا کی مرضی شامل نہیں ہوتی جس کام میں خدا کی مرضی شامل نہ ہو اس کے خلاف احتجاج یعنی ماتم کر سکتے ہیں

اب یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا کوئی کام اللہ کی مرضی کے بغیر ہوتا ہے؟

تو اسکا جواب یہ ہے کہ اللہ ہر چیز پر قادر ہے جو چاہے کر سکتا ہے یعنی اگر وہ چاہے تو ایک منٹ سے پہلے زمین سے تمام برائیوں کو ختم کر دے لیکن وہ ایسا کرتا نہیں

کیونکہ اس نے دنیا میں ایک نظام بنایا ہے اور نیکی اور بدی کے دو  راستے رکھے ہیں جو نیکی کا راستہ ہے اس میں اسکی مرضی ہوتی ہے اور جو بدی کا راستہ ہے اس میں اسکی مرضی نہیں ہوتی تاکہ قیامت میں حساب لے سکے کہ دنیا میں میری مرضی والے کام کیے ہیں یا وہ کام کیے ہیں جن میں میری مرضی نہیں تھی،

لہذا جو بے گناہ قتل کر کے شہید کر دیا جاتا ہے اس میں اللہ کی مرضی شامل نہیں ہوتی اور کسی شہید کو ظلم جبر کر کے قتل کیا گیا ہو تو احتجاج کے طور پر دنیا کو بتانے کے لیے ماتم کی اجازت ہے

 

جسکی اجازت قرآن پاک چھٹے پارے کی پہلی آیت میں موجود ہے

(لا يحب الله الجهر بالسوء من القول إلا من ظلم)

ترجمہ:

اللہ پسند نہیں کرتا اونچی اونچی آواز میں رونا پیٹنا مگر سواے مظلوم کے

اور کچھ نہیں تو علامہ شبلی نعمانی کی کتاب سیرت البنیؐ اٹھا کر پڑھیں آپکو پتہ چلے گا کہ نبی پاک (ص) نے اپنی حیات طیبہ میں اپنے شہید چچا امیر حمزہ کا ماتم کروایا تھا جسکا انکار کوئی مسلمان نہیں کر سکتا

کیونکہ ان پر ظلم ہی ایسا کیا گیا تھا

تو میرے بھائیوں ہم بھی چودہ سو سال سے یہی تو کہ رہے ہیں ہم اپنے کسی مردے کا ماتم نہیں کرتے بلکہ ہم تو مظلوم کربلا امام حسین (ع) کا ماتم کرتے ہیں

 

اور ہر سال دنیا والوں کو بتاتے ہیں کہ کربلا میں جنگ نہیں بلکہ ظلم ہوا تھا

اب ہمارا سوال یہ ہے ایسے مسلمانوں سے جو ماتم کی مخالفت کرتے ہیں وہ یہ بتائیں کہ:

امام حسین (ع) کے ماتم سے روک کر ظلم کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں ۔؟

 

          یا

 

ظالم کے ظلم پے پردہ ڈال کے ظالم کا ساتھ دے کر اسکے ظلم میں شریک ہو رہے ہیں۔۔؟؟

 

👈 اب فیصلہ آپکے ہاتھ میں ہے۔۔۔

👈 ان باتوں کا مطلب کسی مکتبئہ فکر کی حمایت نہیں بلکہ امام حسین (ع) کی حمایت ہے

حق بات کی نشانی یہ ہے کہ جو بات حق ہوتی ہے وہ دل کو ضرور چھوتی ہے

بررسى نقدى افكار جاوید احمد غامدی در علم و دين وآثار آن بر آينده نگرى

بررسى نقدى افكار جاوید احمد غامدی در علم و دين وآثار آن بر آينده نگرى

نويسنده: سيد غيور الحسنين

چکیده

جاوید احمد غامدی یکی از علمای برجسته تجدد گرایان اسلامی در پاکستان است. از منظر غامدى "علم" موضوع خود علم است.  و علم بدیهی اصل است و بدیهیات را فطری هم می داند، و نظری فرع است، و این نتیجه بحث را در اقسام استدلال پیاده می کند، و معیار صدق استدلال را علم بدیهی فطری الهامی قرار می دهد. و تعارض بین عقل و نقل از منظر وی محال است. و هرگز بین آنها اختلاف نمی شود. اگر جایی اختلاف دیده شد باید در مورد آن تفکر و تدبر نمود تا معنی اصلی حدیث روشن شود، و نباید عقل و نقل را بدون تفکر رها کرد. از نظر وی هدف دين اسلام حکومت نیست بلکه تزکیه ی نفوس است. و امکان دستیابی به توسعه به وسیلة علوم مذهبی و سکولار است، و بدون  این دو تا نمی تواند کشور توسعه پیدا کند.

كليد واژه

غامدى، علم ومعرفت، دين، تمدن، دموكراسى، جهاد، توسعه

مقدمه

     مسئله تجددگرایی اسلامی از دغدغه های اصلی 150 سال اخیر مردم جهان اسلام است. تجدد گرایان اسلامی با نگاهی تجزیه نگر و خرد به استقبال وجوه مثبت این پدیده رفته و در صدد جمع بین اسلام و تجدد بوده اند. و در بعضی از حوزه های علوم، اسلامی سازی و در بعضی دیگر بومی سازی را در دستور کار خود قرار داده اند.

جاوید احمد غامدی یکی از علمای برجسته تجدد گرایان اسلامی در پاکستان است. او فوق ليسانس خود را در ادبیات و فلسفه انگلیسی از کالج دولتی لاهور در سال  1972م گرفت. و رشته های اسلامی را از شیوه سنتی از معلّمان و دانشمندان مختلف در طول سال های اول تحصیل کرد. در سال 1973م، او تحت سرپرستی امین احسان اصلاحی (وفات 1997) قرار گرفت، و تأثیر عمیقی بر او داشت. استادش اصلاحى یکی از اعضای بنیانگذار حزب جماعت اسلامی بود، یک حزب مذهبی که توسط دانشمند معروف ابوالعلا مودودى در سال 1941 تأسیس شد. در هفتاد سال اقامتش در جامه، وی این حزب را از عنصر فکری و یکی از اعضای بدن حکومت مرکزی (مجلس شورى) باقی ماند. غامدى همچنین برای چندین سال با دانشمند برجسته و معروف ابوالعلا مودودی (وفات 1979) منسلك بود.  او نوشته ها بسيار و سخنرانی هاى زيادى درباره ى قرآن، قانون اسلامی و سایر جنبه های دیگر اسلام را پرداخت، كه بيشتر آن به زبان اردو است. وی مؤسس موسسه علوم اسلامی"المورد" است. وی علاوه بر زبانهای اردو و پنجابی- که زبان خودش هستند-  بر زبانهای دیگر مانند عربی، فارسی، و انگلیسی تسلط کامل دارد. و از لحاظ روش مؤثر ترين فرد در دانشگاه های کشور است.

وی معتقد است که دين چهارچوب ها را معين کرده، و جزئيات لازم را بيان كرده است، و چیزهاى كه حرمتش يا حليتش بيان نكرده، حلال است، و ميدان وسيعى براى انسانها خدا آزاد گذاشته است.  از این جهت نویسنده این موضوع را انتخاب کرده و مورد بررسی قرار داده است. و خصوصيت اين مقاله اين است كه موضوع جديد است و در زبان فارسى بر اين موضوع كار نشده و مباشرتاً از كتابهاى غامدى به زبان اردو استفاده شده است. این مقاله مشتمل بر بررسى افكار غامدى در معرفت شناسی، دین شناسی و تاثير آن بر آينده نگرى است، و روش نويسنده توصيفى تحليلى و نقدى خواهد بود. 

1- معرفت شناسى

1-1- موضوع علم(معرفت شناسى)

بدیهی است قبل از ورود به هر علمی، باید موضوع، اجزای موضوع و عوارض ذاتی موضوع شناسایی، و حد و رسم آنها مشخص شود تا تصور دقیقی از امور یاد شده برای انسان حاصل آید، آن‌گاه درباره آنها بحث کند.  غامدى براى اثبات موضوع علم استدلال اقامه مى كند، و آن عبارت است از:

موضوع  علم خود علم است، چون غیر از این دو صورت است:

1- موضوع  علم وجود باشد. چون علم از من جمله موجودات است. اما اشکال این است که قبل از بحث به وجود اول، وجود معلوم باشد. و این برگشت به خود علم است. پس نمی تواند وجود موضوع علم باشد.

2- نفس موضوع علم باشد. و این هم ممکن نیست به سبب اشکال قبلی که خود علم از احوال نفس است. قبل از بحث به نفس، اول نفس معلوم باشد و این همان برگشت به علم است. پس نفس نمی تواند موضوع علم باشد.

پس ثابت شد که علم موضوع خود علم است.( غامدی، مجله اشراق، علم کی بنیاد، 3مارس 2012م، ص12)

2-1-  تقسيم علم به جزرى و فطرى

غامدى به حميد الدين فراهى نسبت مى دهد مى گوید: او علم را اول به جزرى و فطرى تقسيم كرده، و بعد به بديهى و نظرى تقسيم كرد. اين علم جزرى و فطرى را علم اضطرارى مى نامد. و خصوصيت آن  اين است كه خداوند علم اضطرارى را در نفس انسانى الهام كرده است. و در ادامه مطلب غامدى او را تأييد مى كند. (غامدى، مجله اشراق، اضطراری علم ،1مى 2011م، ص23-24، نقل با تصرف)

بررسى و نقد

مراد غامدى از علم جزرى و فطرى چیست؟ از عبارات وى فهميده نمى شود.

3- 1- تقسيم علم به بديهي و نظرى

می گوید: "علمی که به دون فکر و تدبر حاصل شود این علم بدیهی است. و علمی که با فکر و تدبر به واسطه ی بدیهی حاصل شود آن علم نظری است."  (همان، اضطراری علم،1مى 2011م،  ص25)

و مى گوید: بدیهی اصل و نظری فرع است. و همه علوم نظرى راجع به  بدیهیات فطری هستند. چون نبود بديهيات موجب تسلسل يا دور خواهد شد كه هردو باطل است. حاصل آنكه در صورت نبود بديهيات هيچ معلوم نظري هم وجود نخواهد داشت و حال آنكه دارد پس معلوم بديهي فطرى هم هست. و این نتیجه بحث را در اقسام استدلال پیاده می کند. و معیار صدق استدلال را علم بدیهی فطری الهامی قرار می دهد. ( همان، اضطراری علم، 1مى 2011م، ص26 نقل با تصرف)

بررسى و نقد

غامدی مثل علماى ديگر علم را تقسیم به بدیهی و نظری می کند. و از منظر وى علم بديهى فطرى اصل است و علم نظرى فرع. اينجا غامدى بديهي را فطرى مى داند درحاليكه بديهى يا اولى است يا وجدانى. اگر مراد او  اصطلاح فطريات در كتابهاي منطق در بخش مواد يا مبادي قياس بكار مي رود و مقصود از آن قضايايي است كه قياسات آنها همراه آنهاست، نظير قضيه �شش زوج است� و قضية �چهار نصف هشت است�. اين قضايا، قضايايي هستند كه هرچند همچون اوليات بديهي نيستند يعني از صرف تصور طرفين قضيه و نسبت بين آن دو نمي توان حكم بدانها كرد و باصطلاح تصديق بدانها محتاج حد وسط است، ولي چون حد وسط آنها همراه آنهاست، ذهن بمحض تصور آنها بدانها حكم مي كند. شايد مقصود جاويد احمد غامدى از فطري و فطريات چنين چيزي نيست، زيرا:

 اولاً: اين قضايا بديهي نيستند بدان معني كه بيّن بالذات بوده تصديق بدانها محتاج استدلال يعني حد وسط نباشد.

 ثانياً:  فطري به اين معني مشتمل بر مثلاً اوليات نيست.

به اين ترتيب بايد گفت: مراد غامدى از فطري همان بديهي است يعني علمي كه محتاج علمي پيشين نيست، خواه آن علم تصور باشد خواه تصديق.

4-1- تقسيم علم از لحاظ درجات

 غامدی علم را از لحاظ درجات به دو قسم تقسیم می کند:

1- علم اضطراری: و این علم به ذات باری تعالی و علم به نفس خود انسان و علم به خارج از آن است.

2- علم استدلالی: و این علم به صفات باری تعالی  و صفات نفس و صفات خارج است.

و استدلال در قسم دوم ممکن است از الهامات فطری باشد یا از علم نظری که با فکر و تدبر حاصل می شود.( همان، علم کی بنیاد۳،  1 مى 2012م،  ص28) 

بررسى و نقد

علم اضطرارى اينجا با علم اضطرارى كه در باب علم بديهى و نظرى ذكر كرده تناقض دارد. در آنجا علم اضطرارى را به علم جزرى و علم فطرى تقسيم مى كند و اينجا علم اضطرارى را در مقابل علم استدلالى قرار مى دهد.

5-1- اقسام استدلال

در اقسام استدلال اقسام قیاس فقهی را پیاده می کند. و می گوید: که استدلال سه قسم است:

1- استدلال از فرع بر اصل که اگر فرع باشد اصل هم وجود دارد.

2- استدلال از اصل بر فرع که اصل فرع را بر می گیرد. لذا اصل بر همه فروعاتی که متضمن است دلالت می کند.

3- استدلال از یک فرع بر فرع دیگر بواسطه ی ثبوت اصل.( همان، علم کی بنیاد۳،1 مى2012م، ص29)

6-1- امكان خطأ در استدلال

می گوید: انسان در تمام افکار و اعمال خودش همین سه اقسام استدلال را استخدام می کند. و امکان خطا آن وقت است که درباره ی نسبت بین اصل و فرع از فکر و تدبر اعراض کند.( همان، علم کی بنیاد۳،  1 مى2012م ص131، نقل با تصرف)

7-1- علوم بنیادی

علوم بنیادی از منظر غامدی دو تا هستند: قرآن، و سائنس. و جاى ديگر علوم را دو قسم كرد: علوم مذهبی، و علوم غیر مذهبی یا سکولار.  علوم مذهبى مانند: زبان، صرف، نحو، بلاغه، تفسیر، حدیث، فقه، و غیره. و علوم غير مذهبى مانند: سائنس، پزشکی، ریاضیات، و غیره. و بعضی از این علوم و هنر بین علوم مذهبی و سکولار مشترک هستند، مانند فلسفه.( al-mawrid.org)

بررسى و نقد

از این تقسیم فهمیده می شود که علوم اسلامی و غیر اسلامی هستند. و خودش يك جا اقرار مى كند و مي گوید:

 "علوم را مي توان با چندین روش تقسیم کرد. از نظر عرف علوم اسلامی علومی هستند که در فهم اسلام کار کلیدی انجام می دهند مثل زبان، صرف، نحو، تفسیر، حدیث، فقه، و غیره."( همان)

 از منظر غامدی کلمه علوم غیر اسلامی مناسب نیست.

2- دين شناسى

1-2-  تعريف دين                                                                                                               دين از منظر جاويد احمد غامدى مجموعه ى عبادات، معاملات، خوردن، آشاميدن، و رسوم و آداب (اخلاق) است.

1- عبادات:

نماز، زكاه و فطره، روزه، و اعتكاف، حج و عمره، قربانى و تكابير ايام تشريق.

2- معاملات:

نكاح و طلاق و متعلقات آن، مسائل حيض و نفاس و مسائل زناشوى.

3- خوردن و آشاميدن:

خوك، خون، مردار و حيوانى كه با نام غير خدا ذبح شده حرام است. حليت حيوانى كه با نام خدا ذبح شده باشد.

4- رسوم و آداب:

با نام خدا خوردن با دست راست، گفتن السلام عليكم وقت ملاقات و جواب آن، كوتاه كردن سبل، بريدن موهاى بغل، تراشيدن ناخن، ختنه كردن پسرها، نظافت بينى و دهان و دندان، طهارت، غسل حيض و نفاس، غسل جنابت، غسل ميت، تجهيز و تكفين، تدفين، عيد فطر، عيد اضحى. ( غامدى، ميزان، 2009م، ص14)

وي درباره دين در جايي ديگر مي گوید:

دين هدايت خداوندى است كه آن را در فطرت انسان الهام نمود. و بعد از اين با تمام تفاصيل لازم به واسطه ى انبياى براي انسان بيان كرد. آخرين پیامبر محمد رسول الله صلى الله عليه وسلم است. و دين از او در شكل قرآن و سنت نقل شده است. پس الآن تنها ماخذ قرآن و سنت است، كه با اجماع صحابه رسول(ص) و با قول و فعل متواتر آنها به ما رسيده است.( همان،2009م، ص14، و  غامدى، الاسلام، 2013م، ص9، ترجمه و نقل با تصرف)

قرآن از منظر غامدى قطعى الدلاله است.( غامدى، مقامات، 2014م،  ص131)

 اما علاوه بر قرآن رسول(ص) سه تا چیز ديگر به ما داده است:

1- احکام مستقل بالذات که ابتدای آن از قرآن نیست.

2- احکام مستقل بالذات که شرح آن در قرآن باشد یا خارج آن.

3- نمونه عملی بر این احکام.

از منظر وی اول سنت است و دوم تفهیم و تبیین است. و سوم اسوه حسنه است. (همان، 2014م، ص149-150)

بررسى و نقد

تعريف اول دين كه غامدى با تفصيل ذكر كرده است شامل فقط مناسك است و عقائد از آن خارج مى شود. لذا تعريف اول جامع نيست.

از منظر وی اول سنت است و دوم تفهیم و تبیین است. و سوم اسوه حسنه است. (همان، 2014م، ص149-150) و این بر خلاف علمای اهل سنت است. چون آنها همه اقسام را سنت می گویند.

در یک مصاحبه می گوید:

"دين در فطرت انسان موجود است، و مثل هوا و آب است كه بدان انسان احتياج دارد. تعريف دين اسلام عبارت است از: ايمان به خداوند، ايمان به قيامت و ملاقات با او، و عمل صالح براى رسيدن به بهشت. و دين اسلام در قرآن و حديث محصور است و شامل زندگی انفرادى انسان است." ( al-mawrid.org)

 اشكال اين است كه دين اسلام فقط دين انفرادى نيست بلكه اكثر شؤوناتش اجتماعى هستند مانند: نماز جمعه، صلاة عيدين، و غيره.

قرآن از منظر غامدى قطعى الدلاله است. اين فقط ادعاء است و دليلى بر قطعى الدلاله بودن قرآن ذكر نكرده. و اختلاف بين امت اسلامى در تفسير و تأويل آيات قرآن دليل بر ظنى بودن قرآن است.

مى گوید: " اما قرآن فقط پنج چیز را حرام قرار داده است: فواحش، خوردن حق ديگران، رساندن زيان به ديگر بدون حق، شرک، و بدعت. و  غير از آن درباره ى موسيقي، حجاب، ريش داشتن، نظام تعليم مخلوط، و جلو گیری از باردارى هيچ حكمى را بيان نكرده است، چون اين اشياء متعلق به دين نيستند بلكه متعلق به رسوم و آداب هستند. " (غامدى، مقامات، 2010م، ص141)

از كتابهاى وي فهميده مي شود كه دين چهارچوب ها را معين مي كند، و جزئيات لازم را بيان كرده است. و چیزهاى كه حرمتش يا حليتش بيان نكرده، حلال است، و ميدان وسيع براى انسانها خدا آزاد گذاشته است.  

اشكال بر عبارت فوق اين است:

اولا: قرآن کریم تصریح به حرمت موسيقى نکرده است اما آیاتی هستند که معصومین علیهم السلام در تفسیر آن آیات به این نکته اشاره کرده اند، مثلا:

(وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَشْتَرِي لَهْوَ الْحَدِيثِ لِيُضِلَّ عَنْ سَبِيلِ اللَّهِ بِغَيْرِ عِلْمٍ وَيَتَّخِذَهَا هُزُوًا ۚ أُولئِكَ لَهُمْ عَذَابٌ مُهِينٌ)(لقمان، آيه6)

"و بعضی از مردم سخنان بیهوده را می‌خرند تا مردم را از روی نادانی، از راه خدا گمراه سازند و آیات الهی را به استهزا گیرند؛ برای آنان عذابی خوارکننده است!"

�لَهْوَ الْحَدیثِ�: سخنانی که انسان را غافل از چیزهای سودمند دنیوی و اخروی کند. مانند: خرافات، افسانه‌های بی فایده، حرفهای مضحک، و آوازهای جلف. در ضمن تحریم مطلق موسیقی و آواز، تنها مربوط به تعدادی از فقهاء اسلام است و موسیقی و آواز در صورتی حرام است که تهییج کننده شهوات جنسی بوده یا طرب انگیز باشد و موجب سبکی و بی حرمتی انسان شود.

ثانيا: سه آیه از آیات قرآن به آیات حجاب مشهورند که در این میان آیه ۳۱ سوره نور مشهورتر است:

(وَ قُل لِّلْمُؤْمِنَاتِ یغْضُضْنَ مِنْ أَبْصَارِ‌هِنَّ وَ یحْفَظْنَ فُرُ‌وجَهُنَّ وَ لَایبْدِینَ زِینَتَهُنَّ إِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَ لْیضْرِبْنَ بِخُمُرِ‌هِنَّ عَلَیٰ جُیوبِهِنَّ وَ لَایبْدِینَ زِینَتَهُنَّ إِلَّا لِبُعُولَتِهِنَّ أَوْ آبَائِهِنَّ... وَ لَایضْرِ‌بْنَ بِأَرْ‌جُلِهِنَّ لِیعْلَمَ مَا یخْفِینَ مِن زِینَتِهِنَّ وَ تُوبُوا إِلَی اللهِ جَمِیعًا أَیهَ الْمُؤْمِنُونَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ)(نور، آيه31)

"و به زنان با ایمان بگو: �دیدگان خود را فرو بندند و پاكدامنی ورزند و زیورهای خود را آشكار نگردانند مگر آنچه كه طبعاً از آن پیداست. و باید روسری خود را بر گردن خویش اندازند، و زیورهایشان را جز برای شوهرانشان یا پدرانشان... آشكار نكنند؛ و پاهای خود را نكوبند تا آنچه از زینتشان نهفته می‌دارند معلوم گردد. ای مؤمنان، همگی به درگاه خدا توبه كنید، امید كه رستگار شوید."

2-2- ویژگیهای جاوید احمد غامدى در مورد دين

غامدی ویژگیهای خاصى دارد که عبارت است از:

1- وی بر خبر واحد اعتماد نمی کند.( غامدی، میزان، 2009م، ص60)

2- قرآن را محور قرار می دهد، و احادیثی را که مخاف قرآن باشد رد می کند. و می گوید: باید احادیث را در نور قرآن دید و نه بالعکس.(غامدى، مقامات، 2010م، ص201-203، Ghamidi، Principles of Understanding Islam، p33)

3- مي گوید: اسلام را خداوند بعد از وفات رسول به علماء واگذار نکرده است و هر کس عربی را بلد است می تواند مباشرتا از قرآن احکام را استنباط کند. و حتى می گوید: آئمه ی اهل سنت: ابو حنیفه، مالک، شافعی، و حنبل معصوم نبودند، و ممکن است اشتباه کنند. من می توانم خودم از قرآن احکام را اخذ کنم.( javedahmadghamidi.com)

4- می گوید: خدا به ما اجازه نداده است که کسی را مسلمان بگوییم و کسی را کافر بگوییم.

5- تعارض بین عقل و نقل از منظر وی محال است. و هرگز بین آنها اختلاف نمی شود. اگر جایی اختلاف دیده شد باید در مورد آن تفکر و تدبر نمود تا معنی اصلی حدیث روشن شود، و نباید عقل و نقل را بدون تفکر رها کرد.( غامدی، میزان، 2009م، ص65)

3- آرمان و آینده نگری

  1-3-  تمدن

تمدن یکی از لوازم فطرت انسان است که خدا انسان را بر آن خلق کرده است. و سیاست وسیله ای برای رسیدن به تمدن است. (غامدی، الاسلام، 2013م، ص147، و غامدی، میزان، 2009، ص481)

2-3-  اقامه حکومت

اقامه ی حکومت نیز از فطرت انسان است که می خواهد به واسطه ی آن اجتماعی زندگی کند. و این اقامه ی حکومت از انتخاب روسای قبایل شروع شد تا به پادشاهی خانوادگی رسید، و این ادامه دارد تا الآن.( غامدی، مقامات، 2014م، ص179)  پس از نظر وی هدف اسلام حکومت نیست بلکه تزکیه ی نفوس است.( همان، 2014م،  ص182)

غامدی اسلام را مخالف پادشاهت عربستان و پاپائیت ایران می داند. و قائل است که نظام اجتماعی را از اصل منبع اسلام که قرآن است اخذ کنیم.( همان، 2014م، ص184)

3-3-  نظام حكومت

و می گوید: حکومت نه حق خدا است - که اگر بود در قرآن می گفت اما ما هیچ نصی بر خلافت کسی نداریم- و نه حق علماء اسلام است. بلکه این حق مردم است که هر کسی را می خواهند رئیس خود قرار بدهند. لذا این جا نظریه جمهوریت(دموكراسى) را مطرح می کند.

4-3-  جمهوریت(دموكراسى)

 مراد از جمهوریت(دموكراسى) از منظر غامدى حکومت مردم بر مردم با مشاورت با مردم اما به شرطی که

 چیزی مخالف حکم خدا نباشد.( همان، 2014م،  ص187- 188)

 غامدى از آن با شدت دفاع می کند، حتی از قرآن استدلال می کند، و دلیلش آیه ی سوره شوری است:

(وَالَّذِينَ اسْتَجَابُوا لِرَبِّهِمْ وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ وَأَمْرُهُمْ شُورَى بَيْنَهُمْ وَمِمَّا رَزَقْنَاهُمْ يُنفِقُونَ) (شورى، آيه38)

"و آنان که دعوت پروردگارشان را پاسخ می گویند و نماز می گزارند و کارشان بر پایه مشورت با یکدیگر است و از آنچه به آنها روزی داده ایم انفاق می کنند."

امر حكومت از امور مردم است و بايد با مشورت با مردم باشد، و در صورت نزاع رأى اكثريت را بپزيريم.  كسى حق ندارد كه بدون مشورت با مردم حكومت كند. (غامدى، برهان،2009م،  ص149-150، 300)

بررسى و نقد

پس نظام اسلامی را در جمهودیت منحصر می کند. اما قائل به این است که دولت نباید در زندگی خصوصی مردم دخالت داشته باشد. اما در صورت نزاع می تواند قانون سازی کند. دولت از منظر وی نمی تواند غیر از زکات، ماليات از مردم بگیرد. اما ارسطو پدر علم سياست دموكراسى را به عنوان شكل فاسد و گمراه حكومت، نوعى از حكمرانى مردم جاهل محكوم كرد. افلاطون معلم او آن را حكمرانى جهالت ناميد.(عالم، بنيادهاى علم سياست، 1392ش، ص304) و مفاسد ديگر مانند: مخالفت آزادى انفرادى، ضديت با تكامل انسان به خداوند و غيره هم دارد.

و استدلال با آيه بر اثبات دموكراسى تام نيست چون امر حكومت از امور مردم نيست بلكه امر خداوند است كه اين عالم را خلق كرده و اداره مى كند.

5-3- جهاد بالسيف

غامدی قائل به تزکیه فرد است که با تدریج آن تزکیه اجتماعی شکل می گیرد و دولت خود با خود قائم می شود و به احتیاج جهاد بالسیف نيست، چون جهاد امر حکومتی است که با حکم او واجب می شود. و  فقط وظیفه ی ما  کار تبلیغی است که آن را با طریق احسن انجام بدهیم.( غامدى، مقامات، 2014م،  ص181-182)

 

بررسى و نقد

لازمه حرف غامدى اين است كه اسلام دين انفرادى است، نه اجتماعى و با جهانى بودنش تضاد دارد. و در وجوب جهاد بالسيف با اهل سنت مخالفت كرده است.(محمد رفيق، غامدى مذهب كيا ھے، ص185)

6-3- توسعه كشور

غامدى درباره ی علوم غربی می گوید: همه ی علوم نافع و ضروری را باید یاد بگیریم. امکان دستیابی به توسعه به وسیله علوم مذهبی و سکولار است. بدون این دو تا نمی تواند کشور توسعه پیدا کند. برای امور جهانی و معاملات دنیوی ما احتیاج به برخی از علوم و هنر داریم و دین از حصول آنها مانع نیست. مذهب و دین از لحاظ جنبه های اخلاقی آنها بحث می کند. و اگر مانع بود باید در آیات و روایات ذکر مى كرد. چون ذکر نشده، لذا از عدم منع شارع نتیجه حاصل می شود که اسلام از حصول علوم غربی مانع نیست.( javedahmadghamidi.com)

بررسى و نقد

لازمه نظريه غامدى حد اقلى بودن دين است كه با جهانى بودن اسلام و خاتميتش سازگارى ندارد.

نتيجه گیری

1- بدیهی از منظر جاويد احمد غامدى اصل است و بدیهیات را فطری هم می داند. و نظری فرع است.  و این نتیجه بحث را در اقسام استدلال پیاده می کند. و معیار صدق استدلال را علم بدیهی فطری الهامی قرار می دهد.

2- علوم دو قسم اند:

1- علوم مذهبی

2- علوم غیر مذهبی یا سکولار.

علوم و هنر مانند: سائنس، پزشکی، فلسفه، ریاضیات، و غیره. و بعضی از این علوم و هنر بین علوم مذهبی و سکولار مشترک هستند، مانند فلسفه.

3- دين در فطرت انسان موجود است، و مثل هوا و آب است كه به آن انسان احتياج دارد.

4- دين چهارچوب ها را معين مي كند، و جزئيات لازم را بيان كرده است. و چیزهاى كه حرمتش يا حليتش بيان نكرده، حلال است، و ميدان وسيعى براى انسانها خدا آزاد گذاشته است. 

5-  از نظر وی هدف اسلام حکومت نیست بلکه تزکیه ی نفوس است.

6- حکومت نه حق خدا است - که اگر بود در قرآن می گفت اما ما هیچ نصی بر خلافت کسی نداریم- و نه حق علماء اسلام است. بلکه این حق مردم است که هر کسی را می خواهند رئیس خود قرار بدهند. لذا این جا نظریه جمهوریت را مطرح می کند. و مراد از جمهوریت از منظر غامدى حکومت مردم بر مردم با مشاورت با مردم اما به شرطی که چیزی مخالف حکم خدا نباشد.

7- امکان دستیابی به توسعه به وسیله علوم مذهبی و سکولار است، و بدون این دو تا نمی تواند کشور توسعه پیدا کند.

منابع

1- القرآن

2- عالم، عبد الرحمن، بنيادهاى علم سياست، نوبت چاپ:25، تهران: نشرنى، 1392ش.

2- غامدى، جاويد احمد، الاسلام، نوبت چاپ:5،  لاهور: المورد، ادراه علم و تحقيق، 2013م.

3- غامدى، جاويد احمد، برهان، نوبت چاپ:7،  لاهور: المورد، ادراه علم و تحقيق، 2009م.

4- غامدی، جاويد احمد، مقامات، نوبت چاپ:3،  لاهور: المورد، ادراه علم و تحقيق، 2014م.

5- غامدی، جاويد احمد، مقامات، نوبت چاپ:2،  لاهور: المورد، ادراه علم و تحقيق، 2010م

6- غامدى، جاويد احمد، ميزان، نوبت چاپ:5،  لاهور: المورد، ادراه علم و تحقيق،  2009م.

7- غامدى، جاويد احمد، مجله اشراق، اضطراری علم، لاهور، 1 مى 2011م، ص23-26.

8- غامدی، جاويد احمد، مجله اشراق، علم کی بنیاد،  لاهور، 3 مارس 2012م، ص12.

9- غامدی، جاويد احمد، مجله اشراق، علم کی بنیاد۳، لاهور، 1 مى 2012م،  ص28-29.

10- محمد رفيق، غامدى مذهب كيا ھے، پاکستان.

11-  Ghamidi Javed ahmad, Principles of Understanding Islam,   translater: Shehzad Saleem,  Al-Mawrid Institute of Islamic Sciences, 55-K Model Town Lahore, Pakistan

12- javedahmadghamidi.com

al-mawrid.org13-

 

دراسة نقدية لنظرية المعرفة عند ابن تيمية

دراسة نقدية لنظرية المعرفة عند ابن تيمية 

http://uplod.ir/m9aep6ea0tvo/IMG-20191210-WA0021.jpg.htm

كيا خدا كا بھی كوئی خالق ہے؟ کیا یہ سوال کرنا درست ہے؟

ناظرین کی خدمت میں بہت ہی مختصر دلیل کے ساتھ اس سوال کا جواب دیاگیا ہے کہ كيا خدا كا بھی كوئی خالق ہے؟ مولانا سید غیور الحسنین

https://www.shiatv.net/video/1105060940

دراسة نقدية لنظرية ابن تيمية حول حديث "مدينة العلم"

دراسة نقدية لنظرية ابن تيمية حول حديث "مدينة العلم"

الأستاذ المشرف: الشيخ الدكتور عبد المجيد زهادت

الطالب: سيد غيور الحسنين

المرحلة: الدكتوراه

خلاصة البحث

مسألة الأعلميّة والمرجعيّة العلميّة للإمام على عليه السلام بعد وفاة الرسول صلى الله عليه و آله وسلّم من المسائل المطروحة بين المسلمين بشكل خاص. وتوجّه كثير من المحدّثين، والمفسّرين، والمتكلّمين، والفقهاء، وعلماء التاريخ حول هذه المسألة، وبذلوا جهودا كثيرا في إثبات نظرية الأعلميّة والمرجعيّة العلميّة لعلى بن أبى طالب عليه السلام بالآيات والروايات. ومنها حديث "مدينة العلم" الذي صرّح بعض كبار علماء السنّة بحسنه، ومنهم من صحّحه كالطبري، والحاكم، والسيوطي. فدعوى ابن تيمية أنّ حدیث "مدینة العلم" أضعف وأوهى، إفکٌ فضیح. من هذا المنطلق اختار الباحث البحث، وهدفه هو الحصول على معيار صدق الحديث عند ابن تيمية، و نقد آرائه في حديث "مدينة العلم"، والمنهج الذى يعتمد عليه الباحث خلال دراسته هو المنهج الوصفى التحليلى.

 يفكّر ابن تيمية أنّ النبي صلى الله عليه وآله و سلّم إذا كان مدينة العلم لم يكن لهذه المدينة إلا باب واحد و لا يجوز أن يكون المبلِّغ عنه واحد، بل يجب أن يكون المبلِّغ عنه أهل التواتر. يرد عليه بأنّ کما لا یضرّ توحّد النبی صلّى الله علیه وآله وسلّم فی إبلاغه، بعد ثبوت حقّیّته، کذلک لا یضرّ توحّد الإمام فی تبلیغه عن النبی صلى الله عليه و آله و سلّم، بعد ثبوت حقّیّته بالأدلة الکثیرة ومنها حدیث مدینة العلم. إذن نظرية ابن تيمية حول حديث "مدينة العلم" - سنداً و متناً- غير قابل للقبول.  

الكلمات المفتاحية

حديث مدينة العلم، ابن تيمية، السند، المتن، النقد.

مقدمة                                       

        الحمد لله ربّ العالمين، الصّلاة والسّلام على أشرف الأنبياء والمرسلين، و على آله الطيّبين الطّاهرين. أمّا بعد، فإنّ الأحاديث الصحيحة الواردة في فضل أمير المؤمنين علي بن أبي طالب عليه السلام عديدة متكاثرة، وشهيرة متواترة. و منها حديث"مدينة العلم" أو حديث "الباب" الذي يدل على أعلميّة علي بن أبي طالب عليه السلام و عصمته.

أجمعت الشيعة على تواتر حديث "مدينة العلم"، وصرّح بعض كبار علماء السنّة بحسنه، ومنهم من صحّحه كمحمد بن جرير الطبري والحاكم النيسابوري والخطيب البغدادي والسيوطي، وقد أدرج صاحب الغدير قائمة تضم إحدى وعشرين محدثاً من محدثي أهل السنة بين محسّن للحديث ومصحّح له. ولكن ابن تيمية ينكر هذا الحديث من الأصل، و يشكل على متنه بإشكالات واهية و شنيعة، و جميعها قابلة للنقد. من هذا المنطلق اختار الباحث البحث و جعله موضع الدراسة و النقد.

يشتمل هذا البحث على ثلاثة فصول: الأول يحتوى على الكليات، والثاني يتعلق بتبيين سند حديث "مدينة العلم" عند ابن تيمية وإبطال نظريته، والثالث يبحث عن متن الحديث عنده و نقد أفكاره فيه. و في الأخير ذكر النتائج التي توصّل إليها من خلال البحث.     

الفصل الأول: الكليات

1- تبيين المسألة

حديث "الباب" أو روايت "مدينة العلم" الذي جعل فيه رسول الله - صلى الله عليه و آله و سلم- نفسه مدينة العلم، و عرّف الإمام على عليه السلام بابها. و ابن تيمية ينكر هذا الحديث سندا و بعد ذلك يشكل على متنه، و جميع الإشكالات قابلة للنقد.

2- السؤال الأصلى و الأسئلة الفرعية

1-2- السؤال الأصلى

ما هو نظرية ابن تيمية حول حديث "مدينة العلم" و ما هو نقدها؟

2-2- الأسئلة الفرعية

1- ما هو إشكال ابن تيمية على سند رواية "مدينة العلم" و ما هو جوابه؟

2- ما هى نظرية ابن تيمية فى متن حديث " الباب" و ما هو نقدها؟

3- سابقة البحث

1-3- تاريخية البحث

حديث "مدينة العلم" من زمن الرسول صلى الله عليه و آله و سلم كان مطروحا بين المسلمين. و ذكره الترمزي و الحاكم في كتبهم الحديثية، و كان موضعا للجدل بين علماء المسلمين. بعض منهم من صحّح هذا الحديث سندا و متنا، و بعض منهم من ضعّفه كابن تيمية. ولكن لم يكتب كتابا مستقلا حول هذا الحديث الأهم إلى زمن متأخر. فكتب السيد مير حامد حسين هندى - من علماء الشيعة- مجلدا كاملا حول هذا الحديث بالتفصيل، و طرحه أحمد المغربى - من علماء السنة- في كتاب مستقل تبيانا لأصحّ  سند له.      

2-3- المنابع

1-2-3- المنابع المستقيمة

1- کنتوری، میرحامد حسین، خلاصه عبقات الأنوار

2- الشوکانی، محمدعلی، جواب علی معنی حدیث أنا مدینة العلم و علی بابها

3-  المغربی، أحمد بن محمد بن الصدیق، فتح الملک العلی بصحة حدیث باب مدینة العلم.

4- صا‌ئغ‌، بدرالدین‌، أنا مدینة العلم و علی بابها

5- رفيعى، محسن، و شريفى، معصومه، باز خوانى نظريه ابن تيميه درباره حديث باب و نقد آن با تكيه بر منابع اهل سنت، علوم قرآن و حدیث :: سفینه :: پاییز 1391 ، سال 9 - شماره 36 ، از 29 تا 44.

2-2-3- المنابع غير المستقية

1- أمينى، الغدير، ج11، تحت شرح أشعار شمس الدين مالكى.

2- طبسى، محمد محسن، جايگاه روايي ابا صلت هروى از ديدگاه فریقین. ادیان، مذاهب و عرفان :: پژوهشنامه حکمت و فلسفه اسلامی :: زمستان 1388، شماره 30، از 91 تا 112.

4- أهداف البحث

1- الحصول على معيار صدق الحديث عند ابن تيمية

2- نقد آراء ابن تيمية في حديث "مدينة العلم"

5- منهج البحث

المنهج الذى يعتمد عليه الباحث خلال دراسته هو المنهج الوصفى التحليلى.

6- الجديد في البحث

حتى الآن لم تُكتب مقالة شاملة و لا كتابٌ يستوعب جميع جوانب آراء ابن تيمية حول حديث "مدينة العلم".

7- ثمرة البحث

إذا ثبت سند حديث "مدينة العلم" و متنه بأنه صحيح و قابل للاستدلال  فيثبت بذلك المرجعيّة العلميّة لعلى بن أبى طالب عليه السلام، و إحاطته لعلم النبى صلى الله عليه و آله وسلّم، و عصمته. و مع عدم صحّة الحديث لا يثبت به الأمور المذكورة، بل نحتاج في إثباتها إلى حديث آخر. 

الفصل الثانى:  دراسة سند حديث "مدينة العلم" عند ابن تيمية

1- كلمات حديث "مدينة العلم" فى الكتب الحديثية

 ورد  حديث "مدينة العلم" أو حديث "الباب" بثلاث عبارات في كتب حديثية:[1]

1- أنا مدينة العلم و علي بابها.[2]

2- أنا مدينة الحكمة و علي بابها.[3]

3- أنا دار الحكمة و علي بابها.[4]

2- تكذيب سند الحديث

قال ابن تيمية: "وأما حَدِيثُ  ((أَنَا مَدِينَةُ الْعِلْمِ)) فَأَضْعَفُ وَأَوْهَى وَلِهَذَا إنَّمَا يُعَدُّ فِي الْمَوْضُوعَاتِ الْمَكْذُوبَاتِ وَإِنْ كَانَ التِّرْمِذِيُّ قَدْ رَوَاهُ، وَلِهَذَا ذَكَرَهُ ابْنُ الْجَوْزِيِّ فِي الْمَوْضُوعَاتِ وَبَيَّنَ أَنَّهُ مَوْضُوعٌ مِنْ سَائِرِ طُرُقِهِ." [5]

و يكرّس في مكان آخر بعبارة تالية:

" وَمِمَّا يَرْوُونَهُ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَالَ: ((أَنَا مَدِينَةُ الْعِلْمِ وَعَلِيٌّ بَابُهَا)) فَأَجَابَ: هَذَا حَدِيثٌ ضَعِيفٌ بَلْ مَوْضُوعٌ عِنْدَ أَهْلِ الْمَعْرِفَةِ بِالْحَدِيثِ لَكِنْ قَدْ رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَغَيْرُهُ وَمَعَ هَذَا فَهُوَ كَذِبٌ." [6]

النقد

1- ذكر مير حامد حسين هندى 16 طرقا لهذا الحديث و يذكر أنه نُقل عن عشرة أصحاب و هم: الإمام على، والحسن، والحسين عليهم السلام، و ابن عباس، و جابر بن عبد الله الأنصارى، و ابن مسعود، و حذيفة بن يمان، و عبد الله بن عمر، و أنس بن مالك، و عمرو بن العاص.[7]   فكيف يكون هذا الحديث موضوعا؟

2- صرّح بعض كبار علماء السنّة بحسنه، ومنهم من صححه كيحيى بن معين، و محمد بن جرير الطبري وأبو عبد الله الحاكم النيسابوري والخطيب البغدادي والسيوطي، و منهم من ذكره مرسلا مسلّما، و منهم من وصف أمير المؤمنين بباب مدينة العلم، و منهم من يصفه في الأشعار بهذه الصفة.[8] مع هذه الأوصاف هل يمكن أن يكون هذا الحديث موضوعا؟ و مع ذلك يقبل ابن تيمية مكانة علماء الحديث المذكور، و يقول عنهم:

"وَلَيْسَ لِأَحَدِهِمْ مِنَ الْخِبْرَةِ بِالْأَسَانِيدِ مَا لِأَئِمَّةِ الْحَدِيثِ، كَشُعْبَةَ، وَيَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ الْقَطَّانِ، وَعَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ مَهْدِيٍّ، وَأَحْمَدِ بْنِ حَنْبَلٍ، وَعَلِيِّ بْنِ الْمَدِينِيِّ، وَيَحْيَى بْنِ مَعِينٍ، وَإِسْحَاقَ، وَمُحَمَّدِ بْنِ يَحْيَى الذُّهْلِيِّ، وَالْبُخَارِيِّ، وَمُسْلِمٍ، وَأَبِي دَاوُدَ، وَالنَّسَائِيِّ، وَأَبِي حَاتِمٍ وَأَبِي زُرْعَةَ الرَّازِيَّيْنِ، وَأَبِي عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَنْدَهْ، وَالدَّارَقُطْنِيِّ، وَأَمْثَالِ هَؤُلَاءِ مِنْ أَئِمَّةِ الْحَدِيثِ وَنُقَّادِهِ وَحُكَّامِهِ وَحُفَّاظِهِ الَّذِينَ لَهُمْ خِبْرَةٌ وَمَعْرِفَةٌ تَامَّةٌ بِأَحْوَالِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَأَحْوَالِ مَنْ نَقَلَ الْعِلْمَ وَالْحَدِيثَ عَنِ النَّبِيِّ مِنَ الصَّحَابَةِ وَالتَّابِعِينَ (وَتَابِعِيهِمْ) ، وَمَنْ بَعْدَهُمْ مِنْ نَقَلَةِ الْعِلْمِ. وَقَدْ صَنَّفُوا الْكُتُبَ الْكَثِيرَةَ فِي مَعْرِفَةِ الرِّجَالِ الَّذِينَ نَقَلُوا الْآثَارَ، وَأَسْمَاءَهُمْ، وَذَكَرُوا أَخْبَارَهُمْ، وَأَخْبَارَ مَنْ أَخَذُوا عَنْهُ، وَمَنْ أَخَذَ عَنْهُمْ مِثْلَ  كِتَابِ الْعِلَلِ وَأَسْمَاءِ الرِّجَالِ  عَنْ يَحْيَى الْقَطَّانِ، وَابْنِ الْمَدِينِيِّ، وَأَحْمَدَ، وَابْنِ مَعِينٍ، وَالْبُخَارِيِّ، وَمُسْلِمٍ، وَأَبِي زُرْعَةَ، وَأَبِي حَاتِمٍ، وَالنَّسَائِيِّ، وَالتِّرْمِذِيِّ، وَأَحْمَدَ بْنِ عَدِيٍّ، وَابْنِ حِبَّانَ، وَأَبِي الْفَتْحِ الْأَزْدِيِّ، وَالدَّارَقُطْنِيِّ، وَغَيْرِهِمْ." [9]

فلماذا ابن تيمية لم يذكر رواية أحمد بن حنبل و يحيى بن معين[10] وهما صحّحا حديث "مدينة العلم"؟

3- قال جلال الدين السيوطى عن هذا الحديث: قلت: حديث علي أخرجه الترمزى و الحاكم، و حديث ابن عباس أخرجه الحاكم و الطبرانى، و حديث جابر أخرجه الحاكم.... والحاصل أنه ينتهي بطرقه إلى درجة الحسن المحتج به، و لا يكون ضعيفا فضلا عن أن يكون موضوعا...[11]

4- ابن حجر يقول عن هذا الحديث:  "و هذا الحديث له طرق كثيرة فى مستدرك الحاكم أقلّ أحوالها أن يكون للحديث أصل، فلا ينبغى أن يطلق القول عليه بالوضع."[12]

5- ذكر ابن تيمية أن الترمزى نقل حديث "مدينة العلم" و مع ذلك جعله موضوعا. فهذا دليل على أنّ الترمزى كتب الأحاديث الموضوعة في كتابه، ولكن جميع أهل السنة و ابن تيمية نفسه قائلون بمكانة عالية للترمزى. فدعوى أن حدیث مدینة العلم أضعف وأوهى، ولهذا إنما یعدّ فی الموضوعات، إفک فضیح، لما عرفت سابقاً من صحّة هذا الحدیث واستفاضته وشهرته بل و تواتره، حتى تجلّى ذلک کالشمس المنجلی عنها الغمام على رغم آناف المنکرین الطّغام، فمن العجیب تعامی ابن تیمیّه عن جمیع تلک النصوص والتصریحات من کبار المحقّقین، ومشاهیر نقده الأخبار والحدیث المعتمدین!![13] 

الفصل الثالث: دراسة متن حديث "مدينة العلم" عند ابن تيمية

1- تكذيب متن الحديث

قال ابن تيمية: "وَالْكَذِبُ يُعْرَفُ مِنْ نَفْسِ مَتْنِهِ؛ لَا يَحْتَاجُ إلَى النَّظَرِ فِي إسْنَادِهِ: فَإِنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إذَا كَانَ  ((مَدِينَةَ الْعِلْمِ)) لَمْ يَكُنْ لِهَذِهِ الْمَدِينَةِ إلَّا بَابٌ وَاحِدٌ وَلَا يَجُوزُ أَنْ يَكُونَ الْمُبَلِّغُ عَنْهُ وَاحِدًا؛ بَلْ يَجِبُ أَنْ يَكُونَ الْمُبَلِّغُ عَنْهُ أَهْلَ التَّوَاتُرِ الَّذِينَ يَحْصُلُ الْعِلْمُ بِخَبَرِهِمْ لِلْغَائِبِ وَرِوَايَةُ الْوَاحِدِ لَا تُفِيدُ الْعِلْمَ إلَّا مَعَ قَرَائِنَ وَتِلْكَ الْقَرَائِنُ إمَّا أَنْ تَكُونَ مُنْتَفِيَةً؛ وَإِمَّا أَنْ تَكُونَ خَفِيَّةً عَنْ كَثِيرٍ مِنْ النَّاسِ أَوْ أَكْثَرِهِمْ فَلَا يَحْصُلُ لَهُمْ الْعِلْمُ بِالْقُرْآنِ وَالسُّنَّةِ الْمُتَوَاتِرَةِ؛ بِخِلَافِ النَّقْلِ الْمُتَوَاتِرِ: الَّذِي يَحْصُلُ بِهِ الْعِلْمُ لِلْخَاصِّ وَالْعَامِّ. وَهَذَا الْحَدِيثُ إنَّمَا افْتَرَاهُ زِنْدِيقٌ أَوْ جَاهِلٌ: ظَنَّهُ مَدْحًا؛ وَهُوَ مُطْرِقُ الزَّنَادِقَةِ إلَى الْقَدْحِ فِي عِلْمِ الدِّينِ - إذْ لَمْ يُبَلِّغْهُ إلَّا وَاحِدٌ مِنْ الصَّحَابَةِ."[14]

النقد

1-  کما أنّ نبیّ صلّى الله علیه وآله وسلّم بوحده کاف للإبلاغ عن الله عزّ وجلّ، وأنّه لثبوت حقّیّته غیرمحتاج إلى أن یشارکه فی الإخبار عن الله غیره، کذلک یکفی فی الإبلاغ عن النبی صلّى الله علیه وآله وسلّم وجود  أمیر المؤمنین علیه السلام، و لا حاجة إلى أن یشارکه أحد فی الإبلاغ کائناً من کان، للقطع بحقّیّه ما یبلّغه عن النبی صلّى الله علیه وآله وسلّم. وإنّ حدیث مدینة العلم ـ بالإضافة إلى غیره من الأدلة ـ شاهد صدق على ذلک. ومن هنا جعل أهل العلم والیقین حدیث مدینة العلم من أدلّة عصمة أمیر المؤمنین، وقد وقع التصریح بذلک من نصوص أعاظم المخالفین.

والحاصل: کما لا یضرّ توحّد النبی صلّى الله علیه وآله وسلّم فی إبلاغه، بعد ثبوت حقّیّته، کذلک لا یضرّ توحّد الإمام فی تبلیغه عن النبی صلى الله عليه و آله و سلّم، بعد ثبوت حقّیّته بالأدلة الکثیرة ومنها حدیث مدینة العلم.[15]

2- وأمّا قول ابن تیمیه: "ولهذا اتفق المسلمون على أنّه لا یجوز أن یکون المبلّغ عنه العلم واحدا، بل یجب أن یکون المبلّغون أهل التواتر، الذین یحصل العلم بخبرهم"[16] فظاهر السقوط جدّاً، لمنافاته لتصریحات أئمة علم أصول الفقه وعلوم الحدیث، کما لا یخفى على المتتبّع لها، فإنّ قاطبة أهل السنّة یوجبون العمل بخبر الواحد، ولم یخالف فی هذا الحکم إلاّ شاذ لا یعبأ به، وإلیک نص عبارة أبی الحسن البزدوی فی هذا المطلب، لیتّضح بطلان دعوى ابن تیمیّه بوجوه عدیدة:

قال البزدوی: "باب خبر الواحد، وهو الفصل الثالث من القسم الأول، وهو کلّ خبر یرویه الواحد أو الإثنان فصاعداً، لا عبرة للعدد فیه، بعد أن یکون دون المشهور والمتواتر، وهذا یوجب العمل ولا یوجب العلم یقیناً عندنا، وقال بعض الناس: لا یوجب العمل، لأنه لا یوجب العلم، ولا عمل إلاّ عن علم. قال الله تعالى: (وَلا تَقْفُ ما لَیْسَ لَکَ بِهِ عِلْمٌ)[17] وهذا لأنّ صاحب الشرع موصوف بکمال القدرة، فلا ضرورة له فی التجاوز عن دلیل یوجب علم الیقین، بخلاف المعاملات لأنها من ضروراتنا، و کذلک الرأی من ضروراتنا، فاستقام أن یثبت غیر موجب علم الیقین. وقال بعض أهل الحدیث: یوجب علم الیقین، لما ذکرنا أنه أوجب العمل، ولا عمل من غیر علم، وقد ورد الآحاد فی أحکام الآخره مثل: عذاب القبر، و رؤیة الله تعالى بالأبصار، و لا حظّ لذلک إلاّ العلم. قالوا: و هذا العلم یحصل کرامة من الله تعالى، فثبت على الخصوص للبعض دون البعض، کالوطء تعلّق من بعض دون بعض، ودلیلنا فی أنّ خبر الواحد یوجب العمل واضح، من الکتاب والسنة والإجماع والدلیل المعقول........" [18]

ولقد أکثر العلماء من الأدلة المختلفة فی هذه المسألة، وبلغ القول بحجیّة خبر الواحد حدّاً من الخطورة، حتّى ألّف الکثیرون من علماء أهل السنّة فی هذه المسألة مصنّفات مستقلاّت، نصّ على ذلک الحافظ النووی حیث قال: "وقد تظاهرت دلائل النصوص الشرعیّة والحجج العقلیّة، على وجوب العمل بخبر الواحد، وقد قرّر العلماء فی کتب الفقه والأصول ذلک بدلائله، وأوضحوه إیضاحا، وصنّف جماعات من أهل الحدیث وغیرهم مصنّفات مستکثرات مستقلات فی خبر الواحد ووجوب العمل به. والله أعلم"[19]

إذن أهل السنة والجماعة يعتمدون على الخبر الواحد كما لاحظت من النصوص الماضية و كلام ابن تيمية يخالفهم. 

3- قول ابن تيمية: "خبر الواحد لا یفید العلم الا بقرائن و تلک قد تکون منتفیة أو خفیّة عن أکثر الناس، فلا یحصل لهم العلم بالقرآن والسنن المتواترة"[20]  يرد عليه:

أولا:  لکنّ الحق الحقیق بالقبول هو: أنّه لا بدّ للمنصوب من قبل النبی صلّى الله علیه وآله وسلّم لأجل الإخبار والتبلیغ عنه إلى الأمّة، من حجة ـ من نص أو دلیل ـ تثبت حقیّته، کی تقبل منه الأمّة ما یبلّغه إلیها، ومع وجود النّص أو الدلیل لا حاجة إلى احتفاف خبره بقرینة، حتى یقال بأنها: "قد تکون منتفیة أو خفیة عن أکثر الناس، فلا یحصل لهم العلم بالقرآن والسنن المتواترة"، بل إنّ خبره یکون ـ بسبب النص علیه ـ مفیداً للعلم. وهذا المعنى ثابت فیما نحن فیه، لإفادة حدیث مدینة العلم نصب علی علیه السلام لهذا المنصب، فخبره علیه السلام مفید للعلم والیقین. ومن هنا یظهر أنّ قیاس خبره علیه السلام على خبر غیره من آحاد المخبرین، کقیاس الماء على السّراب، وهو یخالف الحق والصواب.[21]

ثانيا: ثم إنّ التخصیص بالقرآن والسنة لا وجه له، لأنه بناء على ما توهّمه ابن تیمیّة لا یثبت بخبر هذا المخبر علم مطلقاً، سواء کان قرآناً أو سنة متواترة، أو سنة غیر متواترة، فقصر نفی العلم على القرآن والسنّة المتواترة لا وجه له، بل کان مقتضى القاعدة أن یقول: "بالقرآن والسنة غیر المتواترة، بل السنّة المتواترة" کما لا یخفى على البصیر بأسالیب الکلام.[22]

2- نفى عصمة الإمام علي عليه السلام

يقول ابن تيمية: "وَإِذَا قَالُوا ذَلِكَ الْوَاحِدُ الْمَعْصُومُ يَحْصُلُ الْعِلْمُ بِخَبَرِهِ. قِيلَ لَهُمْ: فَلَا بُدَّ مِنَ الْعِلْمِ بِعِصْمَتِهِ أَوَّلًا، وَعِصْمَتُهُ لَا تَثْبُتُ بِمُجَرَّدِ خَبَرِهِ قَبْلَ أَنْ يُعْلَمَ  عِصْمَتُهُ، فَإِنَّهُ دَوْرٌ، وَلَا تَثْبُتُ  بِالْإِجْمَاعِ، فَإِنَّهُ لَا إِجْمَاعَ فِيهَا، وَعِنْدَ الْإِمَامِيَّةِ إِنَّمَا يَكُونُ الْإِجْمَاعُ حُجَّةً، لِأَنَّ فِيهِمُ الْإِمَامَ الْمَعْصُومَ، فَيَعُودُ الْأَمْرُ إِلَى إِثْبَاتِ عِصْمَتِهِ بِمُجَرَّدِ دَعْوَاهُ، فَعُلِمَ أَنَّ عِصْمَتَهُ لَوْ كَانَتْ حَقًّا لَا بُدَّ أَنْ تُعْلَمَ بِطَرِيقٍ آخَرَ غَيْرِ خَبَرِهِ. فَلَوْ لَمْ يَكُنْ لِمَدِينَةِ الْعِلْمِ بَابٌ إِلَّا هُوَ، لَمْ يَثْبُتْ لَا عِصْمَتُهُ وَلَا غَيْرُ ذَلِكَ مِنْ أُمُورِ الدِّينِ، فَعُلِمَ أَنَّ هَذَا الْحَدِيثَ إِنَّمَا افْتَرَاهُ زِنْدِيقٌ جَاهِلٌ ظَنَّهُ مَدْحًا، وَهُوَ مَطْرَقُ  الزَّنَادِقَةِ إِلَى الْقَدْحِ فِي دِينِ الْإِسْلَامِ إِذْ لَمْ يُبَلِّغْهُ إِلَّا وَاحِدٌ."[23]

النقد

1- أمّا قول ابن تيمية: "وإذا قالوا: ذلک الواحد معصوم یحصل العلم بخبره. قیل لهم: فلا بدّ من العلم بعصمته أولا" فالکلام علیه بوجوه:

أولا: کأنّ ابن تیمیّة لا یعلم بأنّ مقتضى مذهب الإمامیة هو القول بعصمة هذا المبلّغ المنصوب للتبلیغ!!

ثانيا: إنّ عصمة هذا المبلّغ الواحد ثابتة من حدیث مدینة العلم، وقد اعترف به بعض المنصفین من أهل السنّة، فیکون حدیث مدینة العلم دالاًّ على مبلّغیة أمیر المؤمنین علیه السلام وعصمته معاً. فبطل قوله: "فلا بدّ من العلم بعصمته أوّلا"

ثالثا: إنّ عصمة أمیر المؤمنین علیه السلام ثابتة من آیات من الکتاب، وأحادیث کثیرة عن النبی صلّى الله علیه وآله وسلّم في كتب السنة والشيعة معا.

رابعا: إنّ نصب هذا المبلّغ من قبل النبی صلّى الله علیه وآله وسلّم هو ـ عند التأمل ـ عین النصب للإمامة والخلافة، فیکون مجرّد النصب دلیل العصمة.

خامسا: لقد دلّت الآیة المبارکة: (وَما یَنْطِقُ عَنِ الْهَوى * إِنْ هُوَ إِلاّ وَحْیٌ یُوحى)[24] على أن جملة أفعال النبی صلّى الله علیه وآله وسلّم هی من جانب الله عزّ وجلّ، وعلى هذا یمکن أن یقال بکون الناصب للتبلیغ هو الله عزّ وجلّ نفسه، ولمّا کان هذا النصب عین النصب للإمامة والخلافة عن النبی صلّى الله علیه وآله وسلّم، وهی لا تثبت إلاّ للمعصوم، فالنصب الإلهی للتبلیغ کاشف عن اتّصاف المنصوب له بالعصمة.

وبما ذکرنا یظهر الجواب عن قوله: "وعصمته لا تثبت بمجرّد خبره، قبل أن یعلم عصمته، فإنّه دور" إذ لا توقُّف لثبوت عصمته على خبره، لکن یمکن إثبات عصمته بخبره أیضاً، لأنّ خبره لیس مجرداً، بل مقرون بالمعجزات الباهرة المتواترة الموجبة للعلم بالعصمة، فلا دور کذلک. [25]

2- وأمّا قول ابن تيمية: "ولا تثبت بالإجماع، فإنه لا إجماع فیها عند الإمامیة، وإنما یکون الإجماع حجة لأن فیهم الإمام المعصوم، فیعود الأمر إلى إثبات عصمته بمجرّد دعواه" فجوابه:

أولا: أنّه إن أراد نفی الإجماع من أصحاب الضلال فهذا لا یضرّنا أبداً، إذ لا حجّیة لإجماع هؤلاء أصلا، وإن أراد نفی إجماع الإمامیة، فهذا إنکار للبداهة، لأنّ الإمامیة أجمعین قائلون بعصمة هذا الواحد المبلّغ عن الرسول صلّى الله علیه وآله وسلّم.

ثانيا: ثم إنّ المراد من هذا المبلّغ هو أمیر المؤمنین علیه السلام، والنبىّ صلّى الله علیه وآله وسلّم داخل فی الإجماع المتحقّق على عصمته، وعصمة النبی صلّى الله علیه وآله وسلّم لا یرتاب فیها مؤمن، وإن کان لأهل السنة فیها کلام .

ثالثا: فإنّ الحسنین علیهما السلام داخلان فی المجمعین، وعصمتهما ثابتة بالدلائل القطعیة الأخرى غیر الإجماع.

رابعاً: فی المجمعین سائر أئمة أهل البیت، المعصومون بالأدلة من الکتاب والسنّة. فظهر بطلان دعواه بعود الأمر إلى إثبات عصمته بمجرّد دعواه، وظهر جواز الاستدلال بالإجماع لإثبات عصمة کلّ واحد من الأئمة الأطهار، لأنه لیس من قبیل إثبات عصمة ذاک الإمام بقول نفسه لیلزم الدور، وأمّا عصمة کلّهم، فقد ثبتت بالأدلة القطعیّة الأخرى غیر الإجماع، کما ثبت عصمة کلّ واحد منهم بها. وظهر أیضاً بطلان قوله بعد ذلک: "فعلم أنّ عصمته لو کانت حقّاً، لا بدّ أن تعلم بطریق آخر غیر خبره." لما عرفت من إمکان ثبوت عصمته بخبره، لاقترانه بما یوجب العلم والیقین، فضلا عن ثبوتها بالأدلّة والطرق الأخرى.

وإذ ظهر بطلان کلماته، فقد ظهر بطلان ما قاله کنتیجة لتلک الکلمات، وهو قوله: "فلو لم یکن لمدینة العلم باب إلاّ هو، لم یثبت لا عصمته ولا غیر ذلک من أمور الدّین."

وتحصّل: أنّ أمیر المؤمنین علیه السلام هو الباب لمدینة العلم، وهو المبلّغ الوحید عن النبی الکریم صلّى الله علیه وآله وسلّم، وإذا ثبت ذلک ثبتت عصمته وغیرذلک من أمور الدین.[26]

3-  وأمّا ما تفوّه به ابن تیمیّه لشدة عناده وحقده: "فعلم أنّ هذا الحدیث إنما افتراه زندیق جاهل، ظنّه مدحاً وهو یطرق الزنادقة إلى القدح فی دین الإسلام، إذ لم یبلّغه إلاّ واحد." فمن الکفریّات الشنیعة، والله سبحانه وتعالى حسیبه والمنتقم منه یوم القیامة.

لقد علمتَ أنّ حدیث مدینة العلم حدیث رواه أکابر العلماء الثقات عند أهل السنّة، طبقة بعد طبقة، و جیلا بعد جیل، و فیهم من حکم بصحّته، وجعله جماعة من أجلّى فضائل ومناقب النبی والوصی علیهما وآلهما الصلاة والسّلام… وقد وقفت على عبارات هؤلاء الکبار، وإفادات أولئک الأحبار، فیلزم من تقوّل ابن تیمیّه هذا أنّ یکون أولئک الأئمة الکبار والمشایخ العظام: عبد الله بن عثمان القارئ، وسفیان بن سعید الثوری، وعبدالرزاق الصنعانی، ویحیى بن معین، وسوید بن سعید الحدثانی شیخ مسلم، وأحمد بن حنبل، وعباد بن یعقوب الرواجنی شیخ البخاری، وأبو عیسى الترمذی، والحسین بن فهم البغدادی، وأبو بکر البزّار، ومحمد بن جریر الطبری، وأبو بکر الباغندی، وأبو العباس الأصم، وأبو الحسن القنطری، وأبو بکر الجعابی، وأبو القاسم الطبرانی، وأبو بکر القفّال، وأبو الشیخ الأصبهانی، وابن السقاء الواسطی، وأبو اللیث السمرقندی، ومحمد بن المظفر البغدادی، وابن شاهین البغدادی، وأبو الحسن السکری الحربی، وابن بطه العکبری، والحاکم النیسابوری، وابن مردویه الأصبهانی، وأبو نعیم الأصبهانی، وأبو الحسن العطّار، وأبو الحسن الماوردی، وأبو بکر البیهقی، وابن بشران، والخطیب البغدادی، وابن عبد البر، وأبو محمد الغندجانی، وابن المغازلی، وابو المظفر السمعانی، وأبو علی البیهقی، وشیرویه الدیلمی، وعبد الکریم السمعانی، وأخطب خوارزم، وابن عساکر، وأبو الحجاج الأندلسی، ومجد الدین ابن الأثیر، وعز الدین ابن الأثیر،....أن یکون کلّ واحد من هؤلاء زندیقاً جاهلاً!! وإذا کان هؤلاء زنادقة جهالا، فهل تبقى لمذهب أهل السنة من باقیة؟! بل عرفت أنّ هذا الحدیث الشریف قد رواه التابعون العظام، عن صحابة النبی علیه وآله السلام، فاعترفوا به وجعلوه فضیلة لمولانا أمیر المؤمنین، لا سیّما أصحاب الشورى، الذین تلقّوه بالتسلیم، وقد صرّح بثبوته عبد الرحمن ابن عوف منهم تصریحاً تامّاً.

ولقد عرفت سابقا أنّ النبی صلّى الله علیه وآله وسلّم لم یکتف بمجرّد قوله: "أنا مدینة العلم وعلی بابها"، بل إنّه بذل غایة الاهتمام فی إبلاغ ذلک إلى الأمة، إذ قاله فی یوم الحدیبیّة، مادّاً صوته، وآخذاً بعضد أمیر المؤمنین… إلى غیر ذلک من الأمور الدالّة على اهتمامه بإبلاغ هذا المعنى إلى الأمّة.

وبما ذکرنا یظهر أنّ ما قاله ابن تیمیّه لا یقول به إلاّ "زندیق جاهل، وهو یطرق الزنادقه إلى القدح فی دین الإسلام."[27]

نتيجة البحث

بعد دراسة حديث "مدينة العلم" – سنداً و متناً-  وصل الباحث إلى النتائج التالية:

1- منهج ابن تيمية في مقابل الأحاديث في مدح أهل البيت عليهم السلام منهج خاص الذي يشير إلى بغضه و عناده من آل البيت عليهم السلام. فمعيار صدق الحديث عنده غير مشخص.

2- صرّح بعض كبار علماء السنّة بحسنه، ومنهم من صححه كيحيى بن معين، و محمد بن جرير الطبري وأبو عبد الله الحاكم النيسابوري والخطيب البغدادي والسيوطي، و منهم من ذكره مرسلا مسلّما، و منهم من وصف أمير المؤمنين بباب مدينة العلم، و منهم من يصفه في الأشعار بهذه الصفة. فلماذا ابن تيمية لم يذكر روايتهم في كتبه؟

3-  کما لا یضرّ توحّد النبی صلّى الله علیه وآله وسلّم فی إبلاغه، بعد ثبوت حقّیّته، کذلک لا یضرّ توحّد الإمام فی تبلیغه عن النبی صلى الله عليه و آله و سلّم، بعد ثبوت حقّیّته بالأدلة الکثیرة ومنها حدیث مدینة العلم.

4-  أنّ أمیر المؤمنین علیه السلام هو الباب لمدینة العلم، وهو المبلّغ الوحید عن النبی الکریم صلّى الله علیه وآله وسلّم، وإذا ثبت ذلک ثبتت عصمته وغیرذلک من أمور الدین.

إذن نظرية ابن تيمية حول حديث "مدينة العلم" غير قابل للقبول.

المصادر و المراجع  

1- القرآن الكريم.          

2- ابن تيمية، أحمد، تقى الدين، الفتاوى الكبرى، تح: محمد عبد القادر عطا، ومصطفى عبد القادر عطا، دار الكتب العلمية، بيروت، ط 1، 1408هـ .ق.

3- ابن تيمية، أحمد، تقي الدين، أحاديث القصاص، تح: د. محمد بن لطفي الصباغ، الناشر: المكتب الإسلامي، بيروت،  ط 2، 1405هـ - 1985م.

4- ابن تيمية، أحمد، تقي الدين، مجموع الفتاوى، تح: عبد الرحمن بن محمد بن قاسم و ابنه محمّد،  الناشر: مجمع الملك فهد لطباعة المصحف الشريف، المدينة المنوّرة، المملكة العربية السعودية، ط بلا، 1425هـ-2004م.

5- ابن تيمية، أحمد، تقي الدين، منهاج السنة النبوية في نقض كلام الشيعة القدرية، تح: محمد رشاد سالم، الناشر: جامعة الإمام محمد بن سعود الإسلامية، ط 1، 1406 هـ - 1986 م.

6- البخاري، علاء الدين، عبد العزيز بن أحمد،  كشف الأسرار شرح أصول البزدوي، دار الكتاب الإسلامي ، ط بلا، بلا.

7- الترمزي، أبي عيسى محمد بن عيسى بن سورة، جامع الترمزى، بيت الأفكار الدولة، أردن، ط بلا، بلا.

8- الحاكم النيسابورى، محمد بن عبد الله، المستدرك على الصحيحين، تح: مصطفى عبد القادر عطا، دار الكتب العلمية، بيروت، ط بلا، بلا.

9- رضوانى، على أصغر، سلفى گرى(وهابيت) و پاسخ به شبهات، انتشارات مسجد مقدس جمكران، قم، ط 9، 1393ش.

10- رفيعى، محسن، و شريفى، معصومه، باز خوانى نظريه ابن تيميه درباره حديث باب و نقد آن با تكيه بر منابع اهل سنت، علوم قرآن و حدیث :: سفینه :: پاییز 1391 ، سال 9 - شماره 36 ، از 29 تا 44.

11- السيوطي، جلال الدين، عبد الرحمن، الللآلى المصنوعة فى الأحاديث الموضوعة، دار المعرفة، بيروت، لبنان،  ط بلا، بلا.

12-  الطبرانى، سليمان بن أحمد، تح: أحمدى عبد المجيد السلخى، ط بلا، بلا.

13- العسقلاني، أحمد بن علي بن حجر، لسان الميزان، تخريج: سلمان عبد الفتاح، أبو غدّة، مكتب المطبوعات الإسلامية، بيروت، ط 1، 1423هـ - 2002م.

14- كنتورى، مير حامد حسين، خلاصه عبقات الأنوار، حديث أنا مدينة العلم، تلخيص: سيد على ميلانى، ترجمه: محمد باقر محبوب القلوب، انتشارات نبأ، تهران، ط 1، 1387ش.

15- المزي، يوسف، جمال الدين أبي الحجاج، تهذيب الكمال في أسماء الرجال، تح: د. بشّار عوّاد معروف، مؤسسة الرسالة، بيروت، ط 1، 1413هـ - 1992م.

16- المغربي، أحمد بن محمد بن الصديق، فتح الملك العلي بصحّة حديث باب مدينة العلم علي، تح: محمد هادي أميني، إصفهان، مكتبة أمير المؤمنين، ط بلا، بلا.

17- النووي، محيي الدين، يحيى بن شرف،  أبو زكريا، المنهاج شرح صحيح مسلم بن الحجاج، دار إحياء التراث العربي، بيروت، ط 2، 1392ش.     

 

 

 


[1] - رفيعى، محسن، و شريفى، معصومه، باز خوانى نظريه ابن تيميه درباره حديث باب و نقد آن با تكيه بر منابع اهل سنت، ص33- 35.

[2] - الحاكم النيسابورى، محمد بن عبد الله، المستدرك على الصحيحين، ج3، ص138، حديث4639.  

[3] - المغربي، أحمد بن محمد بن الصديق، فتح الملك العلي بصحّة حديث باب مدينة العلم علي،ص43.

[4] - الترمزي، أبي عيسى محمد بن عيسى بن سورة، جامع الترمزى، بيت الأفكار الدولة، أردن، ط بلا، بلا، ص582، ح3723.

[5] - ابن تيمية، أحمد، تقي الدين، مجموع الفتاوى، ج4، ص410، و راجع: ابن تيمية، أحمد، تقي الدين، منهاج السنة النبوية في نقض كلام الشيعة القدرية، ج7، ص515.

[6] - ابن تيمية، أحمد، تقي الدين، أحاديث القصاص، ص62، و ابن تيمية، أحمد، تقي الدين، مجموع الفتاوى ، ج18، ص123-124، وص377،  ابن تيمية، أحمد، تقى الدين، الفتاوى الكبرى، ج5، ص89.

[7] - انظر: كنتورى، مير حامد حسين، خلاصه عبقات الأنوار، حديث أنا مدينة العلم، ص40.

[8] - راجع: المصدر السابق، ص34- 40.

[9] - ابن تيمية، أحمد، تقى الدين، منهاج السنة، ج7، ص310-311.

[10] - المزي، يوسف، جمال الدين أبي الحجاج، تهذيب الكمال في أسماء الرجال، ج18، ص77.

[11] - انظر: السيوطي، جلال الدين، عبد الرحمن، الللآلى المصنوعة فى الأحاديث الموضوعة ، ج1، ص334، و راجع: الطبرانى، سليمان بن أحمد، ج11، ص66، باب الظاء، حديث11061.

[12] - السيوطي، جلال الدين، عبد الرحمن، الللآلى المصنوعة فى الأحاديث الموضوعة ، ج1، ص334، و العسقلاني، أحمد بن علي بن حجر، لسان الميزان، ج2، ص465، و راجع: رضوانى، على أصغر، سلفى گرى(وهابيت) و پاسخ به شبهات،ص96-97، و الحاكم النيسابورى، محمد بن عبد الله، المستدرك على الصحيحين، ج3، ص138، حديث4639.   

[13] -انظر: كنتورى، مير حامد حسين، خلاصه عبقات الأنوار، حديث أنا مدينة العلم، ص693-695.

[14] -  ابن تيمية، أحمد، تقي الدين، مجموع الفتاوى، ج4، ص410، و راجع:  ابن تيمية، أحمد، تقي الدين، منهاج السنة النبوية، ج7، ص515-516.

[15] - انظر: كنتورى، مير حامد حسين، خلاصه عبقات الأنوار، حديث أنا مدينة العلم، ص701.

[16] - ابن تيمية، أحمد، تقى الدين، منهاج السنة، ج7، ص515. 

[17] - الإسراء، 36.

[18] - البخاري، علاء الدين، عبد العزيز بن أحمد،  كشف الأسرار شرح أصول البزدوي، ج2، ص370.

[19] - النووي، محيي الدين، يحيى بن شرف،  أبو زكريا، المنهاج شرح صحيح مسلم بن الحجاج، ج1، ص62. 

[20] - ابن تيمية، أحمد، تقى الدين، منهاج السنة، ج7، ص515.

[21] - راجع: كنتورى، مير حامد حسين، خلاصه عبقات الأنوار، حديث أنا مدينة العلم، ص726.

[22] - المصدر السابق، ص726.

[23] - ابن تيمية، أحمد، تقى الدين، منهاج السنة، ج7، ص516.

[24] - النجم، 3-4.

[25] -انظر: كنتورى، مير حامد حسين، خلاصه عبقات الأنوار، حديث أنا مدينة العلم، ص727-728.

[26] - راجع: المصدر السابق، ص728-729.

[27] - راجع: المصدر السابق، ص729-731.

ولايت فقيه از منظر آيات و روايات

ولايت فقيه از منظر آيات و روايات

     یکی از مسائل بسیار مهمی که واقعا مهجور مانده و کمتر به آن پرداخته می شود ، بحث پیرامون اثبات ولایت فقیه می باشد .دشمنان اسلام و ایران ، اهمیت ولایت مداری و پایندی به ارزش هایی مانند شهادت طلبی ، مهدویت و اصل ولایت فقیه را به طور کامل متوجه شده اند و تمام تلاش خود را جهت ضربه زدن به این ارزش های مهم انجام می دهند . ولایت فقیه ، همان ولایت رسول الله هست .

1- اثبات ولایت فقیه از طریق قرآن

ابتدا توجه به این نکته لازم است که گاه گمان می شود که تنها مدرک اسلامی بودن یک مسائله مطرح شدن آن به صورت صریح در قرآن کریم است و هر آنچه با قطع نظر از این که عقل و سنت نیز هر یک دلیل و مدرک معتبری در کنار قرآن است و اسلام را می توان و بلکه باید از مجموع هر سه منبع (قرآن , سنت و عقل ) شناخت به توضیح این مسائله می پردازیم که قرآن کریم که روشن گر راه هدایت است برخی از امور را خود به طور مستقیم و بدون واسطه بیان کرده است مانند کلیات بسیاری از احکام و برخی از امور را به طور غیر مستقیم و با واسطه پیامبران بیان کرده است ولی خودش به این واسطه تصریح کرده است . قرآن کریم تبیین هدایت خود را بر عهده پیامبر می گذارد ((و انزلنا الیک الذکر لتبین للناس ما نزل الیهم)) ; و این قرآن را به سوی تو فرو فرستادیم تا برای مردم آنچه را به سوی ایشان نازل شده است توضیح دهی, (نحل , آیه 44) و نیز فرمود ((ما آتاکم الرسول فخذوه و مانهاکم عنه فانتهوا)); آنچه را رسول خدا برای شما آورد بگیرید و آنچه را نهی کرد خودداری کنید, (حشر, آیه 7). از این آیات به دست می آید که خداوند متعال فرامین رسول خود را نازل منزل و قائم مقام خود کرده است پس هر چه را پیامبر خداگفت می توان با استناد به این آیات سخن غیر مستقیم قرآن دانست درست مانند این که مالک خانه از دو طریق می تواند کلید همه اتاقهای خانه را به شخصی بدهد یکی این که مستقیما" همه کلیدها را به او بدهد و دیگر این که کلید یک اتاق را بدهد و کلید اتاقهای دیگر را در آن اتاق بگذارد و محل آن را نیز به آن شخص بگوید در هر دو طریق می توان گفت آن شخص کلید همه اتاقها را از مالک خانه گرفته است . بااین سخن می توان عمل به همه روایات معصومین (ع ) را عمل به قرآن و سخن آنان را سخن قرآن دانست پس ادله روایی مسائله ولایت مطلقه فقیه که در همه کتب مربوط به ولایت فقیه آمده است بیگانه از استناد به قرآن نیست . به هر روی قبل از پاسخ , ذکر دو مقدمه لازم است :

مقدمه اول : ولایت مطلقه از سه طریق قابل اثبات است :

 الف ) دلیل عقلی محض : یعنی بدون استناد به هیچ آیه و روایتی .

ب ) دلیل نقلی محض : یعنی فقط از آیه و روایت و بدون مدد از دلیل عقلی .

ج ) دلیل تلفیقی : یعنی از مجموع دلیل عقلی و نقلی .

هر یک از این سه طریق به تفصیل در کتب مربوطه مطرح شده است ولی در این پاسخ فقط بخش قرآنی آن (یعنی استناد ولایت فقیه به قرآن ) مطرح می شود.

مقدمه دوم : در ولایت مطلقه فقیه ولایت به معنی زعامت ، رهبری و حکومت اسلامی و اطلاق آن بدین معنا است که دایره اختیارات در ولایت فقیه اختصاص به یک حوزه خاص از مسائل اجتماعی ندارد بلکه هر حوزه ای را که دخالت حکومت در آن لازم است شامل می شود پس فقیه می تواند در تمامی این حوزه ها با رعایت ضوابط و قوانینی که اسلام تعیین کرده تصمیم گیری و اجرا کند. ولایت مطلقه فقیه هرگز بدین معنا نیست که فقیه در تصمیم گیری و اجرا هیچ قید و شرطی ندارد و رعایت هیچ ضابطه ای بر او لازم نیست این معنای باطل از ولایت مطلقه توسط هیچ فقیهی ابراز نشده فقط توسط ناآگاهان یا غرض ورزان شده است پس اطلاق در ولایت به معنای گستره ولایت بر همه حوزه هایی است که دخالت حکومت در آن لازم است بدین معنا اختیارات همه حکومت های متعارف در سطح جهان امروز مطلقه است زیرا بقای هیچ حکومتی بدون اجازه و دخالت در همه حوزه های حکومتی امکان پذیر نیست البته هر حکومتی در جهان برای تصمیم گیری و اجرا رعایت ضوابطی را بر خود لازم می داند در حکومت ولایت فقیه نیز این ضوابط از سوی دین تعیین شده است . پس از ذکر این دو مقدمه به اصل پاسخ می پردازیم : برای اثبات ولایت مطلقه فقیه از قرآن باید مسائل زیر را از قرآن به دست آورد:

1- اصل حکومت و ولایت در اسلام .

 2- اطلاق ولایت .

3- شرایط حاکم یعنی اسلام و ایمان، عدالت آگاهی به اسلام (فقاهت )، کفایت.

 مسائله اول: اصل حکومت در اسلام : لزوم حکومت در هر جامعه ای از بدیهیات و نیازی به دلیل ندارد در اینجا فقط به آیاتی که ولایت پیامبر اکرم (ص ) و امامان معصوم (ع ) را ثابت می کند اشاره می کنیم . ((النبی اولی بالموئمنین من انفسهم )) (احزاب آیه 6) پیامبر نسبت به مردم از خود آنان سزاوارتر است پس اگر تصمیمی درباره آنان گرفت اطاعت از آن بر مردم لازم است ((و ماکان لموئمن و لا موئمنه اذ اقضی الله و رسوله امرا ان یکون لهم الخیره من امرهم )) (احزاب آیه 36) هیچ مرد و زن با ایمانی حق ندارند هنگامی که خدا و پیامبرش مطلبی را لازم بدانند اختیاری از خود در برابر خدا داشته باشند و مجموع آیاتی که امر به اطاعت از پیامبرکرده است (آل عمران آیه 32 و132) (مائده آیه 92) (انفال آیه 20) (نور آیه 54 و 56) (محمد آیه 33) (مجادله آیه 13) (تغابن آیه 12) و درباره ولایت امامان معصوم (ع ) نیز فرمود: ((انما ولیکم الله و رسوله والذین آمنوا الذین یقیمون الصلوه و یوئتون الزکاه و هم راکعون )) (مائده آیه 55) همانا ولی شما خداوند است و پیامبر او و موئمنانی که نماز را بر پا می دارند و در حال رکوع زکات می دهند این آیه به اتفاق همه مفسرانی که (شیعه و سنی ) برای آن شائن نزول ذکر کرده اند در حق علی بن ابیطالب (ع ) نازل شده است ((اطیعوا الله و اطیعوا الرسول و اولی الامر منکم )) (نسائ آیه 59) از خداوند و پیامبر و اولو الامرتان اطاعت کنید مسائله دوم : اطلاق ولایت : آیاتی که در مسائله قبل ذکر شد هیچ یک اطاعت از پیامبر و اولواالامر را مقید به مورد خاص یا موضوع خاص نکرده است و آن را به صورت مطلق بیان فرموده است . در آیه دوم اطاعت هر حکمی که خدا و رسول کردند بر مردم لازم شمرده شده است . در آیاتی که امر به اطاعت از پیامبر و اولواالامر شده است نیز هیچ قیدی برای آن ذکر نشده است پس از این آیات اطلاق در ولایت ثابت می شود. از آن جا که حکومت در جامعه اسلامی از ضروریات است و اختصاص به زمان رسول الله یا زمان حضور معصوم ندارد از این آیات می توان اطلاق ولایت را برای حاکم اسلامی در هر دوره ای ثابت کرد. مسائله سوم شرایط حاکم و ولی : شرط اول : اسلام و ایمان . خداوند می فرماید: ((لن یجعل الله للکافرین علی الموئمنین سبیلا"; خداوند هرگز کافران را بر موئمنان سلطه نمی دهد)), (نسائ آیه 141) و ((لایتخذ الموئمنون الکافرین اولیائ من دون الموئمنین و من یفعل ذالک فلیس من الله فی شی ئ; موئمنان نباید کافران را به جای موئمنان دوست و ولی خود بگیرند و هر کس چنین کند از لطف و ولایت خدا بی بهره است )), (آل عمران آیه 28). شرط دوم : عدالت در مقابل ظلم است . خداوند حکومت و ولایت ظالمین را نمی پذیرد پس حاکم و ولی باید عادل باشد. فرمود: ((ولاترکنوا الی الذین ظلموا فتمسکم النار; به ستم پیشگان گرایش نیابید که آتش دوزخ به شما خواهد رسید)), (هود آیه 113) و این رکون در روایات به رکون دوستی و اطاعت تفسیر شده است , (تفسیر علی بن ابراهیم ج , 1 ص , 338) و در شرط امامت به حضرت ابراهیم فرمود: ((قال انی جاعلک للناس اماما" قال و من ذریتی قال لاینال عهدی الظالمین )) (بقره آیه 124) خدا فرمود: من تو را پیشوای مردم گماردم گفت : و از فرزندان من ؟ فرمود: عهد من به ستمکاران نمی رسد شرط سوم : فقاهت . حاکم اسلامی باید عالم به احکام اسلام باشد تا بتواند آنها را اجرا کند در زمان پیامبر(ص ) و امام معصوم (ع ) این علم از سوی خداوند به آنان داده شده است و در زمان غیبت امام معصوم (ع ) داناترین مردم به احکام یعنی فقها این علم را دارند قرآن درباره شرط علم می فرماید: ((افمن یهدی الی الحق احق ان یتبع امن لایهدی الا ان یهدی فمالکم کیف تحکمون ; آیا کسی که به راه حق هدایت می کند سزاوارتر است ک از او پیروی شود یا کسی که راه نمی یابد مگر آن که راه برده شود شما را چه می شود؟ چگونه داوری می کنید؟)), (یونس , آیه 35). فقیه کسی است که با تخصصی که سالها در تحصیل آن کوشش کرده خودش می توان احکام اسلام را از قرآن و سنت و عقل و اجماع به دست آورد و غیر فقیه کسی است که این تخصص را ندارد و باید احکام اسلام را از فقیه بیاموزد. اشکال : غیر فقیه می تواند احکام اسلام را از فقیه بگیرد و حکومت کند پس لازم نیست خودش فقیه باشد. پاسخ : اولا", آگاهی های لازم از اسلام برای حکومت اختصاص به فتوا ندارد تا گفته شود غیر فقیه از فقیه تقلید می کند بلکه در بسیاری از موارد فقیه باید با توجه به ملاک های ترجیح در تزاحم احکام و یا تشخیص موارد مصلحت به حکم حکومتی صادر کند و حکم حکومتی خارج از دایره فتوا و تقلید است . صدور حکم حکومتی در تخصص فقیه است . ثانیا" آیا غیر فقیه اطاعت از فقیه را در همه موارد بر خود لازم می داند؟ یا فقط در مواردی که خود تشخیص می دهد از فقیه اطاعت می کند در صورت دوم هیچ ضمانت بر اطاعت از فقیه وجود ندارد و در صورت اول در واقع آن فقیه ولایت دارد و این شخص مجری از سوی او به شمار می آید این با ولایت فقیه منافاتی ندارد. اشکال : در این آیه اطاعت از ((من یهدی الی الحق )) سزاوارتر از ((من لایهدی الایهدی )) معرفی شده است و در تطبیق آن بر مورد ما اطاعت از فقیه را سزاواتر از اطاعت غیر فقیه می داند. این است که پس اطاعت غیر فقیه نیز با وجود فقیه مقبول است گرچه اطاعت از فقیه بهتر است (مانند این سخن را ابن ابن الحدید در شرح خود بر نهج البلاغه ج , 9 ص , 328 نسبت به مقایسه امام علی (ع و خلفای پیش از او می گوید) پاسخ : این سزاواتر بودن سزاواری در حد الزام است یعنی فقط باید از او پیروی کرد به قرینه اینکه در ذیل آیه مردم را توبیخ می کند که چرا از ((من یهدی الی الحق )) پیروی نمی کنید ((فما لکم کیف تحکمون )) این سزاواری در حد الزام در واقع معنای صفت تفصیلی را ساقط می کند مانند آیه ((واولوا الارحام بعضهم اولی ببعض )) (احزاب آیه 6) که در بحث ارث است و وجود هر طبقه مانع از ارث طبقه دوم می شود. آیات بیشمار دیگری نیز وجود دارد که فضیلت عالمان را بر غیر عالمان بیان کرده است , (زمر, آیه 9). شرط چهارم : کفایت : یعنی توانایی شایستگی در اداره امور جامعه که از آن به مدیر و مدبر بودن نیز تعبیر می شود. حضرت یوسف فرمود: ((قال اجعلنی علی خزائن الارض انی حفیظ علیم ; گفت مرا بر خزائن این سرزمین بگمار که من نگهبان امین و کاردانم )), (یوسف , آیه 55). درباره داستان حضرت موسی و دختر شعیب نیز فرمود: ((ان خیر من استئجرت القوی الامین ; بهترین کسی که می تواند به کارگیری (اوست که ) توانای دستکار است )), (قصص , آیه 26). در داستان عفریت جنی و حضرت سلیمان (ع ) نیز از قول آن عفریت فرمود: ((و انی علیه لقوی امین ; من بر این کار توانای درستکارم )), (نمل آیه 39). از مجموع این آیات به دست می آید اگر کسی کاری و پستی را به عهده می گیرد باید توانایی و صلاحیت لازم برای آن را داشته باشد. از مجموع آیاتی که در این موضوعات ذکر شد می توان تصویری کلی از سیمای حاکم از دیدگاه قرآن به دست آورد در منطق قرآن حکومت و زمامداری تنها شایسته کسانی است که از صلاحیتهای علمی و اخلاقی و توانمندی های لازم برخودار باشند. به دست آوردن این تصویر در زمان غیبت امام معصوم (ع ) بر ولایت مطلقه فقیه تطبیق می کند. از طرف دیگر حکومت اسلامی حکومت قانون خداست ((و من لم یحکم بما انزل الله فاولئک هم الکافرون ; و آن بدون حاکمیت دین شناسی و متخصص مستعد در اجرای احکام الهی ( فقیه عادل و جامع الشرایط) امکان پذیر نیست )), (مائده , آیه 44). برای مطالعه بیشتر مستندات قرآنی ولایت مطلقه فقیه و حکومت اسلامی به منابع زیر رجوع کنید: 1- نگاهی به مبانی قرآن ولایت فقیه علی ذوعلم موئسسه فرهنگی دانش و اندیشه معاصر پاییز 79. 2- پیام قرآن ج 10 قرآن مجید و حکومت اسلامی آیت الله مکارم شیرازی مدرسه امام علی بن ابی طالب قم 1374. ((اظهار نظر دقیق شما ]با ذکر شماره نامه قبلی [ درباره ی پاسخ ها, موجب تکامل و پویایی کار ماست ))

1- آیه مبارکه ۵۹ سوره نساء : یَا أَیُّهَا الَّذِینَ آمَنُوا أَطِیعُوا اللَّـهَ وَأَطِیعُوا الرَّسُولَ وَأُولِی الْأَمْرِ مِنکُمْ – اى کسانى که ایمان آورده‌اید ، خدا را اطاعت کنید و پیامبر و اولیاى امر خود را [ نیز ] اطاعت کنید .

از ظاهر آیه برمی آید که در هر زمان یا رسول و یا اولی الأمر وجود دارد که مردم بتوانند از آنها اطاعت کنند و دین خدا را از آنها دریافت نمایند . حال سوال اینجاست که اکنون ولی ظاهر ما چه کسی است ؟ به هر حال باید اولی الأمر در زمان ما نیز حضور داشته باشند تا ولایت خدا را دریافت کنیم . واضح است وقتی ما در غیبت امام معصوم هستیم باید دینمان را از دین شناس بگیریم و او را اولی الأمر خود قرار دهیم . چون باید در هر زمان اولی الأمر ظهور داشته باشد تا امکان اطاعت و عملی کردن این آیه برای همگان فراهم گردد .

2- آیه ۲۵۷ سوره مبارکه بقره : اللَّـهُ وَلِیُّ الَّذِینَ آمَنُوا یُخْرِجُهُم مِّنَ الظُّلُمَاتِ إِلَى النُّورِ ۖ وَالَّذِینَ کَفَرُوا أَوْلِیَاؤُهُمُ الطَّاغُوتُ یُخْرِجُونَهُم مِّنَ النُّورِ إِلَى الظُّلُمَاتِ ۗ أُولَـٰئِکَ أَصْحَابُ النَّارِ ۖ هُمْ فِیهَا خَالِدُونَ – خداوند سرور کسانى است که ایمان آورده‌اند . آنان را از تاریکی ها به سوى روشنایى به در مى‌برد . و[لى‌] کسانى که کفر ورزیده‌اند ، سرورانشان [همان عصیانگران =] طاغوتند ، که آنان را از روشنایى به سوى تاریکی ها به در مى‌برند . آنان اهل آتشند که خود ، در آن جاودانند .

در اینجا خداوند ولایت و حکومت را فقط به دو دسته تقسیم می کند : ۱) ولایت الله ۲) ولایت طاغوت . که اگر فرد حاکم و هدایت کننده مردم و حکومت غیر از احکام خدا را در جامعه و حکومت عملی کند قطعا طاغوت خواهد بود . پس برای قرار گرفتن در لوای ولایت الله باید فردی دین شناس و آگاه به دین را در راس حکومت داشته باشیم تا مردم و حکومت تحت ولایت خدا قرار بگیرند و اِلّا حاکم غیر دینی ، مردم و حکومت را در مسیر غیر از احکام خدا هدایت می کند و این همان طاغوت است که در آیه وعده آتش به پیروان آن داده شده است .

اثبات ولایت فقیه از طریق نقلی یا روائی

۱- آیه ۱۲۲ سوره مبارکه توبه : وَمَا کَانَ الْمُؤْمِنُونَ لِیَنفِرُوا کَافَّهً ۚ فَلَوْلَا نَفَرَ مِن کُلِّ فِرْقَهٍ مِّنْهُمْ طَائِفَهٌ لِّیَتَفَقَّهُوا فِی الدِّینِ وَلِیُنذِرُوا قَوْمَهُمْ إِذَا رَجَعُوا إِلَیْهِمْ لَعَلَّهُمْ یَحْذَرُونَ – شایسته نیست مؤمنان همگى [ براى جهاد ] کوچ کنند . پس چرا از هر فرقه‌اى از آنان ، دسته‌اى کوچ نمى‌کنند تا [ دسته‌اى بمانند و ] در دین آگاهى پیدا کنند و قوم خود را – وقتى به سوى آنان بازگشتند بیم دهند – باشد که آنان [ از کیفر الهى ] بترسند ؟

همان طور که از آیه بالا نیز بر می آید ؛ ائمه اطهار در عصر خود افرادی فقیه و آگاه به احکام و معارف دین را تربیت می کردند و به مناطقی که به امام دسترسی نداشتند می فرستادند تا پاسخگوی سوالات دینی مردم باشند و احکام دین را برای آنان بیان نمایند . و ما نیز هم اکنون به امام دسترسی نداریم پس بنا به سنت ائمه اطهار باید به آگاهان و فقهای دین مراجعه کنیم .

2-  امام عصر در پاسخ یکی از یاران خود به نام اسحاق ابن یعقوب که درباره ی رویداد های جدید عصر غیبت سوال می کند و راه چاره جست و جو می کند ، می فرماید :

« و اما الحوادث الواقعه فارجعوا فیها إلی رواه حدیثنا فانهم حجتی علیکم و انا حجه الله علیهم » (۳) – اما وقایعی که رخ خواهد داد و مسائل مستحدثه ، پس در مورد آنها به راویان احادیث ما رجوع کنید که آنان حجت من بر شما و من حجت خداوند بر آنان هستم .

و با این بیان ، حضرت مهدی (عج) فقهاء را به عنوان نوّاب عام خود بر مسلمانان قرار داده اند . (۴)

۳-  امام صادق علیه السلام در بیان ویژگی های مرجع می فرمایند :

« فاما من کان من الفقهاء: صائناً لنفسه ، حافظاً لدینه ، مخالفاً علی هواه ، مطیع لامر مولاه ، فللعوام این یقلدوه ،و ذلک لا یکون الا لبعض فقهاء الشیعه لا کلهم » – هر کس از فقها که نگهدارنده ی نفس خود ، نگهبان دین خود ، مخالفت کننده با هوی و هوس خود ، فرمانبردار فرمان خداوند خود باشد ، پس بر مردم است که از او پیروی کنند . این ویژگی ها وجود ندارد مگر در برخی از فقیهان شیعه ، نه در همه آن ها . (۵)

۴- قال رَسُولُ اللَّهِ (ص) : الفُقَهاءُ أُمَناءُ الرّسُل . . . (۶) – رسول اکرم (ص) می فرماید : « فقها امین و مورد اعتماد پیامبرانند . . . »

یکی از وظایف مهم فقیهان ، امانت داری انبیا بیان شده است .

 بی تردید، امانت انبیا رسالت و وظایف آنان می باشد . انبیا وظیفه داشتند که مرجعیت دینی و سیاسی مردم را بر عهده گرفته و آنها را به عبودیت و بندگی خدا و معنویت گرایی فرا خوانده ، به هدایت و ارشاد آنان بپردازد . از سوی دیگر انبیا وظیفه داشتند با تشکیل حکومت ، احکام الهی را اجرا نمایند . فقیهان نیز به عنوان وارثان انبیا امانت داران پیامبران هستند ، از این رو وظیفه دارند مردم را به خدا محوری ، فرا خوانده و به هدایت و ارشاد آنان بپردازند ، از این رو فقیهان در طول تاریخ به بیان احکام الهی پرداخته و مرجعیت دینی را بر عهده داشتند . دو مقوله اجتهاد و تقلید ریشه در این حدیث و احادیث دیگر دارد .

برخی از فقیهان مانند امام راحل (ره) یکی از وظایف و امانت انبیا را تشکیل حکومت دانسته و باور دارند که فقیهان وظیفه دارند حکومت تشکیل داده و عملاً رهبری دینی و سیاسی مردم را بر عهده گرفته و به اجرای احکام الهی بپردازند ، از این رو امام راحل (ره) یکی از دلایل ولایت فقیه را همین حدیث دانسته است . (۷)

منابع

1- http://deldadegan.ir/%D8%A7%D8%AB%D8%A8%D8%A7%D8%AA-%D9%88%D9%84%D8%A7%DB%8C%D8%AA-%D9%81%D9%82%DB%8C%D9%87-%D8%A7%D8%B2-%D8%B7%D8%B1%DB%8C%D9%82-%D9%82%D8%B1%D8%A2%D9%86-%D8%B1%D9%88%D8%A7%DB%8C%D8%AA-%D8%B9%D9%82%D9%84/

2- https://hawzah.net/fa/Question/View/62628

کیا خدا ایسا پھتر پیدا کر سکتا ہے جسے خود اپنی طاقت و قدرت سے نہ اٹھا سکے؟

منکرین خدا کا اعتراض

 

سوال

کیا خدا ایسا پھتر پیدا کر سکتا ہے جسے خود اپنی طاقت و قدرت سے نہ اٹھا سکے؟

 

جواب۔۔۔۔۔۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ پروردگار عالم کی قدرت لا محدود ہے اور وہ جو چاہے کر سکتا ہے یہ چیز عقلی اور فلسفی اعتبار سے ثابت اور قرآن و احادیث کے ذریعے تائید شدہ ہے لیکن پروردگار عالم کی قدرت کے زیر سایہ کون سی چیزیں وجود پا سکتی ہيں اس بارے میں ذرا تفصیل سے جاننے کی ضرورت ہے۔

 

دنیا میں کچھ ایسی چیزیں ہیں جن کا تحقق پانا اور موجود ہونا محال ہے۔

محالات کی دو قسمیں ہیں:

۱: محال عقلی

۲: محال عادی

محال عقلی کی بھی دو قسمیں ہیں: محال ذاتی اور محال وقوعی

۱:  محال ذاتی: وہ امور ہیں جن کا ذاتی اور عقلی طور پر وقوع پانا محال ہے جیسے دونقیض چیزوں کا جمع ہونا عقلی اور ذاتی طور پر محال ہے. خداوند عالم کی قدرت محال عقلی و ذاتی کو وجود نہیں دے سکتی۔ چونکہ عقلا اس چیز کا وجود پانا محال اور ناممکن ہے مثلا ایک چیز ایک ہی وقت اور ایک جگہ پر موجود ہو بھی، اور موجود نہ بھی ہو، یہ محال ہے اور اجتماع نقیضین ہے۔

۲: محال وقوعی: وہ امور ہیں جن کا تحقق ذاتی طور پر محال نہیں ہے لیکن عقلی طور پر وقوعا محال ہے چونکہ اس کا لازمہ تناقض ہے جیسے معلول کا بغیر علت کے وجود پانا یا مثلا سمندر کو کوزے میں بند کرنا کہ سمندر سمندر رہے اور کوزہ کوزہ رہے یہ چیز عقلا اور وقوعا محال ہے۔

آپ کا سوال بھی اسی زمرے میں آتا ہے کہ خدا اتنا بڑا پتھر بنائے جس کو خود ہی نہ اٹھا سکے یا مثلا خدا کچھ ایسا کرے کہ دو جمع دو پانچ ہو جائیں یا جیسا کہ امیر المومنین (ع) سے کسی نے سوال کیا کہ:

 کیا آپ کا خدا اس بات پر قادر ہے کہ دنیا کو مرغی کے انڈے میں سمو دے بغیر اس کے کہ انڈا بڑا ہو اور دنیا چھوٹی ہو۔

تو آپ نے فرمایا کہ:

( میرا خدا تو قادر ہے لیکن یہ کام ناممکن ہے۔ یعنی محال وقوعی ہے لہذا وہ امور جو عقلی اور ذاتی طور پر محال ہیں قدرت الہی ان سے تعلق نہیں پاتی۔)

۳: محال عادی: وہ امور ہیں جو عام طور پر محال اور ناممکن نظر آتے ہیں لیکن ان کے وقوع پانے سے نہ محال ذاتی لازم آتا ہے اور نہ محال وقوعی جیسے عصا کا اژدھا میں بدل جانا، دوا کے بغیر مریض کا ٹھیک ہو جانا، سورج کا پلٹ جانا، مردے کا زندہ ہوجانا، وغیرہ وغیرہ جنہیں ہم دینی اصطلاح میں معجزہ کہتے ہیں۔ یہ امور عام طور پر انسان کو ناممکن نظر آتے ہیں اس کہ وجہ یہ ہوتی ہے کہ عام انسان اس کی صرف ظاہری علتوں سے آشنا ہوتا ہے جبکہ اس کی دوسری علتیں بھی ہو سکتی ہیں مثلا ہم یہ دیکھتے ہیں مریض صرف دوا سے ہی ٹھیک ہو سکتا ہے لیکن محال نہیں ہے کہ کسی دوسرے طریقے سے بھی ٹھیک ہو جائے۔

لہذا اللہ کی قدرت کاملہ و مطلقہ ان امور سے تعلق پاتی ہے جو عقلی اور ذاتی طور پر محال نہ ہوں یعنی اس کی قدرت کے زیر سایہ وہی امور انجام پا سکتے ہیں جن کا وقوع پذیر ہونا عقلا محال نہ ہو۔ جن کا واقع ہونا ذاتا اورعقلا محال ہو وہ خودبخود اس بحث سے خارج ہیں۔

میرے مطابق ::۔۔حق و باطل، مظلوم و ظالم

 میرے مطابق ::۔۔حق و باطل، مظلوم و ظالم

تحرير: سيد غيور الحسنين

 

حق و باطل جیسے كلمات همارى روزمره زندگى ميں بهت استعمال هوتے هيں  لیکن بہت کم لوگ ان کے معانی ٹھیک طرح سے سمجھتے ہیں یا ان پر غوروفکر کرتے ہیں۔

 

یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ حضرت آدم عليه السلام سے لےكر آج تك حق و باطل كے درميان جنگ جارى هے اور تا قيامت جارى رهے گي. باطل کھل كر حق كا مقابله نهي كر سكتا لهذا اپنے آپ كو حق كے ساتھ مخلوط كر ليتا هے.  اور دور حاضر ميں خصوصا هر كوئي حق پر هونے كا  مدعی هے. مثلا : ايران حقيقي اسلام كي نمائندگي كا دعوی كرتا هے جب كه سعودى عرب کا بھی یہی دعویٰ ہے تو  اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ  كون ان ميں سے حق پر هے؟؟؟

 

میں اپنے انداز و  بيان میں اس حقیقت کو واضح  كرنے كي كوشش كروں گا  ۔میرے مطابق حق نہ ہی تو ظلم کرتا ہے اور نہ ہی ظالم کا ساتھ دیتا ہے. یعنی حق اس لئے حق ہوتا ہے کہ وہ ظالم کے خلاف ہوتا ہے۔ اور قرآن كا فيصله هے كه جب حق آ جاتا هےتو باطل مٹ جاتا هے اور باطل مٹ جانے والا هے.

 

اب ديكھيں  کہ سعودى عرب  اور ایران میں سے کون حق پر ہے اور کون باطل پر؟؟ صرف يمن كى مثال لے ليں كه جس پر سعودى عرب 3 سال سے بمبارى كر رها هے اور وهاں بے گناه خواتين اور بچے مار ے جا رهےهيں  اور دوسرى طرف يهود و نصارى جن كے بارے میں قرآن كا واضح فيصله هے كه ان كو دوست مت بناؤ اور وه سعودى عرب كے ساته كھڑے هیں.پس اسلام كے دشمنوں  كا سعودى عرب كي مدد كرنا اور ايك مسلمان ملك پر حمله كرنا اس بات پر دلالت كرتا هے كه سعودى عرب ظالم هےپس حق پر نهيں اور اس كے مقابله ميں يمن كي مظلوم عوام حق پر هے.

 

اگر دوسرى طرف ايران كى روش كو ديكھيں كه وه هر اس ملك كى مدد كر رها هے جو يهود و نصارى(امريكه، اسرائيل، برطانيه، فرانس) اور ان كے حواريوں(سعودى عرب اور خليجى عرب رياستيں) سے ٹکرا رها هے اور مقاومت كر رها هے. ايران ان مقاومتى ممالك كى مالى اور معنوى مدد بھى كرتا هے حتى كه فلسطين كے مسئلے كو صرف ايران هى زنده ركھے هوئے هے. سعودى عرب كے برعكس امريكه نے  ايران پر اقتصادى پابندياں عائد كر ركهى هيں. يه تمام باتيں اس بات پر دلالت كرتى هيں كه خود ايرانى عوام مظلوم هےاور مظلوموں كي مدد بھى كرتى هے، اور يهى حق پر ہونے کی نشانی ہے۔