دربار یزید ملعون میں حضرت زینب کبری سلام اللہ علیہا كا خطبه

دربار یزید ملعون میں حضرت زینب کبری سلام اللہ علیہا كا خطبه

دربار یزید ملعون میں حضرت زینب کبری سلام اللہ علیہا كا خطبه  بنت علی بن ابی طالب و بنت سیدہ زھراء کا تاریخی خطبہ اردو ترجمہ کے ساتھ جس نے دنیا کو ہلا کر رکھ دیا-

بسم اللہ الرحمن الرحیم

أَلْحَمْدُللهِِ رَبِّ الْعالَمينَ، وَصَلَّى اللهُ عَلى رَسُولِهِ وَآلِهِ أجْمَعينَ، صَدَقَ اللهُ كَذلِكَ يَقُولُ: (ثُمَّ كَانَ عَاقِبَةَ الَّذِينَ أَسَاءُوا السُّوأَى أَنْ كَذَّبُوا بِآيَاتِ اللهِ وَكَانُوا بِهَا يَسْتَهْزِئُون)

أَظَنَنْتَ يا يَزِيدُ حَيْثُ أَخَذْتَ عَلَيْنا أَقْطارَ الاَْرْضِ وَآفاقَ السَّماءِ، فَأَصْبَحْنا نُساقُ كَما تسُاقُ الأُسارى أَنَّ بِنا عَلَى اللهِ هَواناً، وَبِكَ عَلَيْهِ كَرامَةً وَأَنَّ ذلِكَ لِعِظَمِ خَطَرِكَ عِنْدَهُ، فَشَمَخْتَ بِأَنْفِكَ، وَنَظَرْتَ فِي عِطْفِكَ جَذْلانَ مَسْرُوراً حِينَ رَأَيْتَ الدُّنْيا لَكَ مُسْتَوْثِقَةٌ وَالاُْمُورَ مُتَّسِقَةٌ وَحِينَ صَفا لَكَ مُلْكُنا وَسُلْطانُنا، فَمَهْلاً مَهْلاً، أَنَسِيتَ قَوْلَ اللهِ عَزَّوَجَلَّ: (وَ لاَ يَحْسَبَنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا أَنَّمَا نُمْلِى لَهُمْ خَيْرٌ لاَِّنْفُسِهِمْ إِنَّمَا نُمْلِي لَهُمْ لِيَزْدَادُوا إِثْماً وَ لَهُمْ عَذَابٌ مُهِينٌ)

سب تعریفیں اس خدا کے لئے ہیں جو کائنات کا پروردگار ہے ۔ اور خدا کی رحمتیں نازل ہوں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر اور ان کی پاکیزہ عترت و اہل بیت(علیهم السلام) پر۔ اما بعد ! بالاخر ان لوگوں کا انجام برا ہے جنہوں نے اپنے دامن حیات کو برائیوں کی سیاہی سے داغدار کر کے اپنے خدا کی آیات کی تکذیب کی اور آیات پروردگار کا مذاق اڑایا ۔ اے یزید! کیا تو سمجھتا ہے کہ تو نے ہم پر زمین کے گوشے اور آسمان کے کنارے[مختلف طرح سے] تنگ کر دئیے ہیں اور آلِ رسول کو رسیوں اور زنجیروں میں جکڑ کر دربدر پھرانے سے تو خدا کی بارگاہ میں سرفراز هوا اور ہم رسوا ہوئے ہیں؟۔ کیا تیرے خیال میں ہم مظلوم ہو کر ذلیل ہو گئے اور تو ظالم بن کر سر بلند ہوا ہے؟۔ کیا تو سمجھتا ہے کہ ہم پر ظلم کر کے خدا کی بارگاہ میں تجھے شان و مقام حاصل ہو گیا ہے؟۔ آج تو اپنی ظاہری فتح کی خوشی میں سرمست ہے ، مسرت و شادمانی سے سرشار ہو کر اپنے غالب ہونے پر اترا رہا ہے ۔ اور زمامداری[خلافت] کے ہمارے مسلمہ حقوق کو غصب کر کے خوشی و سرور کا جشن منانے میں مشغول ہے ۔ اپنی غلط سوچ پر مغرور نہ ہو اور هوش کی سانس لے ۔ کیا تو نے خدا کا یہ فرمان بھلا دیا ہے کہ حق کا انکار کرنے والے یہ خیال نہ کریں کہ ہم نے انہیں جو مہلت دی ہے وہ ان کے لئے بہتر ہے ۔ بلکہ ہم نے انہیں اس لئے ڈھیل دے رکھی ہے کہ جی بھر کر اپنے گناہوں میں اضافہ کر لیں ۔ اور ان کے لئے خوفناک عذاب معین کیا جا چکا ہے ۔

اس کے بعد فرمایا :

أَ مِنَ الْعَدْلِ يَابْنَ الطُّلَقاءِ! تَخْدِيرُكَ حَرائِرَكَ وَ إِمائَكَ، وَ سَوْقُكَ بَناتِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَ سَلَّم سَبايا، قَدْ هَتَكْتَ سُتُورَهُنَّ، وَ أَبْدَيْتَ وُجُوهَهُنَّ، تَحْدُو بِهِنَّ الاَْعداءُ مِنْ بَلد اِلى بَلد، يَسْتَشْرِفُهُنَّ أَهْلُ الْمَناهِلِ وَ الْمَناقِلِ، وَ يَتَصَفَّحُ وُجُوهَهُنَّ الْقَرِيبُ وَ الْبَعِيدُ، وَ الدَّنِيُّ وَ الشَّرِيفُ، لَيْسَ مَعَهُنَّ مِنْ رِجالِهِنَّ وَلِيُّ، وَ لا مِنْ حُماتِهِنَّ حَمِيٌّ، وَ كَيْفَ يُرْتَجى مُراقَبَةُ مَنْ لَفَظَ فُوهُ أَكْبادَ الاَْزْكِياءِ، وَ نَبَتَ لَحْمُهُ مِنْ دِماءِ الشُّهَداءِ، وَ كَيْفَ يَسْتَبْطِأُ فِي بُغْضِنا أَهْلَ الْبَيْتِ مَنْ نَظَرَ إِلَيْنا بِالشَّنَفِ وَ الشَّنَآنِ وَ الاِْحَنِ وَ الاَْضْغانِ، ثُمَّ تَقُولُ غَيْرَ مُتَّأَثِّم وَ لا مُسْتَعْظِم:

لاََهَلُّوا و اسْتَهَلُّوا فَرَحاً * ثُمَّ قالُوا يا يَزيدُ لا تَشَلْ مُنْتَحِياً عَلى ثَنايا أَبِي عَبْدِاللهِ سَيِّدِ شَبابِ أَهْلِ الجَنَّةِ، تَنْكُتُها بِمِخْصَرَتِكَ، وَ كَيْفَ لا تَقُولُ ذلِكَ وَ قَدْ نَكَأْتَ الْقَرْحَةَ، وَ اسْتَأْصَلْتَ الشَّأْفَةَ بِإِراقَتِكَ دِماءَ ذُرّيَةِ مُحَمَّد صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ، وَ نُجُومِ الاَْرْضِ مِنْ آلِ عَبْدِالمُطَّلِبِ، وَ تَهْتِفُ بِأَشْياخِكَ، زَعَمْتَ أَنَّكَ تُنادِيهِمْ، فَلَتَرِدَنَّ وَ شِيكاً مَوْرِدَهُمْ وَ لَتَوَدَّنَّ أَنَّكَ شَلَلْتَ وَ بَكِمْتَ، وَ لَمْ تَكُنْ قُلْتَ ما قُلْتَ وَ فَعَلْتَ ما فَعَلْتَ.

اے طلقاءکے بیٹے (آزاد کردہ غلاموں کی اولاد) کیا یہ تیرا انصاف ہے کہ تو نے اپنی مستورات اور لونڈیوں کو چادر اور چار دیواری کا تحفظ فراہم کر کے پردے میں بٹها رکھا ہوا ہے جبکہ رسول زادیوں کو سر برہنہ در بدر پھرا رہا ہے ۔ تو نے مخدرات عصمت کی چادریں لوٹ لیں اور ان کی بے حرمتی کا مرتکب ہوا ۔ تیرے حکم پر اشقیاءنے رسول زادیوں کو بے نقاب کر کے شہر بہ شہر پھرایا ۔ تیرے حکم پر دشمنان خدا، اہل بیت رسولکی پاکدامن مستورات کو ننگے سر لوگوں کے ہجوم میں لے آئے ۔ اورلوگ رسول زادیوں کے کھلے سر دیکھ کر ان کا مذاق اڑا رہے ہیں اور دور و نزدیک کے رہنے والے سب لوگ ان کی طرف نظریں اٹھا اٹھا کر دیکھ رہے ہیں ۔ ہر شریف و کمینے کی نگاہیں ان پاک بی بیوں کے ننگے سروں پر جمی ہیں ۔آج رسول زادیوں کے ساتھ ہمدردی کرنے والا کوئی نہیں ہے ۔ آج ان قیدی مستورات کے ساتھ ان کے مرد موجود نہیں ہیں جو اِن کی سرپرستی کریں ۔ آج آلِ محمد کا معین و مددگار کوئی نہیں ہے ۔

اس شخص سے بھلائی کی کیا توقع ہو سکتی ہے جس کی ماں (یزید کی دادی) نے پاکیزہ لوگوں کے جگر کو چبایا هو ۔ اور اس شخص سے انصاف کی کیا امید ہو سکتی ہے جس نے شہیدوں کا خون پی رکها ہو۔ وہ شخص کس طرح ہم اہل بیت(علیهم اسلام) پر مظالم ڈھانے میں کمی کر سکتا ہے جو بغض و عداوت اور کینے سے بھرے ہوئے دل کے ساتھ ہمیں دیکھتا ہے ۔

اے یزید ! کیا تجھے شرم نہیں آتی کہ تو اتنے بڑے جرم کا ارتکاب کرنے اور اتنے بڑے گناہ کو انجام دینے کے باوجود فخر و مباہات کرتا ہوا یہ کہہ رہا ہے کہ آج اگر میرے اجداد موجود ہوتے تو ان کے دل باغ باغ ہو جاتے اور مجھے دعائیں دیتے ہوئے کہتے کہ اے یزید تیرے ہاتھ شل نہ ہوں ۔

اے یزید ! کیا تجھے حیا نہیں آتی کہ تو جوانانِ جنت کے سردار حسین ابن علی (علیه السلم) کے دندان مبارک پر چھڑی مار کر ان کی بے ادبی کر رہا ہے ۔

اے یزید، تو کیوں خوش نہ ہو اور فخر و مباہات کے قصیدے نہ پڑھے کیونکہ تو نے اپنے ظلم و استبداد کے ذریعے فرزند رسول خدا اور عبدالمطلب کے خاندانی ستاروں کا خون بها کر ہمارے دلوں کے زخموں کو گہرا کر دیا ہے اور شجرہ طیبہ کی جڑیں کاٹنے کے گھناونے جرم کا مرتکب ہوا ہے ۔تو نے اولاد رسول کے خون میں اپنے ہاتھ رنگین کئے ہیں ۔

تو نے عبدالمطلب کے خاندان کے ان نوجوانوں کو تہہ تیغ کیا ہے جن کی عظمت و کردار کے درخشندہ ستارے زمین کے گوشے گوشے کو منور کیے ہوئے ہیں ۔

آج تو آلِ رسول کو قتل کر کے اپنے بد نہاد[برے] اسلاف کو پکار کر انہیں اپنی فتح کے گیت سنانے میں منہمک ہے ۔ تو سمجهتا هے که وه تیری آواز سن رهے هیں؟ ! (جلدی نه کر) عنقریب تو بهی اپنے ان کافر بزرگوں کے ساتھ جا ملے گا اور اس وقت اپنی گفتار و کردار پر پشیمان ہو کر یہ آرزو کرے گا کہ کاش میرے ہاتھ شل ہو جاتے اور میری زبان بولنے سے عاجز ہوتی اور میں نے جو کچھ کیا اور کہا اس سے باز رہتا ۔

اس کے بعد حضرت زینب نے آسمان کی طرف منہ کر بارگاہِ الٰہی میں عرض کیا !

أَللّهُمَّ خُذْ بِحَقِّنا، وَ انْتَقِمْ مِنْ ظالِمِنا، وَ أَحْلِلْ غَضَبَكَ بِمَنْ سَفَكَ دِماءَنا، وَ قَتَلَ حُماتَنا، فَوَاللهِ ما فَرَيْتَ إِلاّ جِلْدَكَ، وَلا حَزَزْتَ إِلاّ لَحْمَكَ، وَ لَتَرِدَنَّ عَلى رَسُولِ اللهِ بِما تَحَمَّلْتَ مِنْ سَفْكِ دِماءِ ذُرِّيَّتِهِ، وَ انْتَهَكْتَ مِنْ حُرْمَتِهِ فِي عَتْرَتِهِ وَ لُحْمَتِهِ، حَيْثُ يَجْمَعُ اللهُ شَمْلَهُمْ، وَ يَلُمُّ شَعْثَهُمْ، وَ يَأْخُذُ بِحَقِّهِمْ (وَ لاَ تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِى سَبِيلِ اللهِ أَمْوَاتاً بَلْ أَحْيَاءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ يُرْزَقُونَ). وَ حَسْبُكَ بِاللهِ حاكِماً، وَ بِمُحَمَّد صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَ سَلَّمَ خَصِيماً، وَ بِجَبْرَئِيلَ ظَهِيراً، وَ سَيَعْلَمُ مَنْ سَوّى لَكَ وَ مَكَّنَكَ مِنْ رِقابِ المُسْلِمِينَ، بِئْسَ لِلظّالِمِينَ بَدَلاً، وَ أَيُّكُمْ شَرٌّ مَكاناً، وَ أَضْعَفُ جُنْداً.

اے ہمارے پروردگار، تو ہمارا حق ان ظالموں سے ہمیں دلا دے اور تو ہمارے حق کا بدلہ ان سے لے ۔ اے پردگار تو ہی ان ستمگروں سے ہمارا انتقام لے ۔ اور اے خدا تو ہی ان پر اپنا غضب نازل فرما جس نے ہمارے عزیزوں کو خون میں نہلایا اور ہمارے مددگاروں کو تہہ تیغ کر دیا ۔ اے یزید ! (خدا کی قسم ) تو نے جو ظلم کیا ہے یه اپنے ساتھ ظلم کیا ہے ۔ تو نے کسی کی نہیں بلکہ اپنی ہی کھال چاک کی ہے ۔ اور تو نے کسی کا نہیں بلکہ اپنا ہی گوشت کاٹا ہے ۔ تو رسولِ خدا کے سامنے ایک مجرم کی صورت میں لایا جائے گا اور تجھ سے تیرے اس گھناونے جرم کی باز پرس ہو گی کہ تو نے اولادِ رسول کا خونِ ناحق کیوں بہایا اور رسول زادیوں کو کیوں دربدر پھرایا ۔ نیز رسول کے جگر پاروں کے ساتھ ظلم کیوں روا رکھا ۔

اے یزید ! یاد رکھ کہ خدا، آلِ رسول کا تجھ سے انتقام لے کر ان مظلوموں کا حق انہیں دلائے گا ۔ اور انہیں امن و سکون کی نعمت سے مالامال کر دے گا ۔ خدا کا فرمان ہے کہ تم گمان نہ کرو کہ جو لوگ راہِ خدا میں مارے گئے وہ مر چکے ہیں ۔ بلکہ وہ ہمیشہ کی زندگی پا گئے اور بارگاہِ الٰہی سے روزی پا رہے ہیں ۔

اے یزید ! یاد رکھ کہ تو نے جو ظلم آلِ محمد پر ڈھائے ہیں اس پر رسول خدا ، عدالتِ الٰہی میں تیرے خلاف شکایت کریں گے ۔ اور جبرائیلِ امین آلِ رسول کی گواہی دیں گے ۔ پھر خدا اپنے عدل و انصاف کے ذریعه تجھے سخت عذاب میں مبتلا کر دے گا ۔ اور یہی بات تیرے برے انجام کے لئے کافی ہے ۔

عنقریب وہ لوگ بھی اپنے انجام کو پہنچ جائیں گے جنہوں نے تیرے لئے ظلم و استبداد کی بنیادیں مضبوط کیں اور تیری آمرانہ سلطنت کی بساط بچھا کر تجھے اہل اسلام پر مسلط کر دیا ۔ ان لوگوں کو بہت جلد معلوم ہو جائے گا کہ ستمگروں کا انجام برا ہوتا ہے اور کس کے ساتھی ناتوانی کا شکار ہیں ۔

اس کے بعد فرمایا :

وَ لَئِنْ جَرَّتْ عَلَيَّ الدَّواهِي مُخاطَبَتَكَ، إِنِّي لاََسْتَصْغِرُ قَدْرَكَ، وَ أَسْتَعْظِمُ تَقْرِيعَكَ، وَ أَسْتَكْثِرُ تَوْبِيخَكَ، لكِنَّ العُيُونَ عَبْرى، وَ الصُّدُورَ حَرّى، أَلا فَالْعَجَبُ كُلُّ الْعَجَبِ لِقَتْلِ حِزْبِ اللهِ النُّجَباءِ بِحِزْبِ الشَّيْطانِ الطُّلَقاءِ، فَهذِهِ الاَْيْدِي تَنْطِفُ مِنْ دِمائِنا، وَ الأَفْواهُ تَتَحَلَّبُ مِنْ لُحُومِنا، وَ تِلْكَ الجُثَثُ الطَّواهِرُ الزَّواكِي تَنْتابُها العَواسِلُ، وَ تُعَفِّرُها اُمَّهاتُ الْفَراعِلِ.

وَ لَئِنِ اتَّخَذْتَنا مَغْنَماً لَتَجِدَ بِنا وَ شِيكاً مَغْرَماً حِيْنَ لا تَجِدُ إلاّ ما قَدَّمَتْ يَداكَ، وَ ما رَبُّكَ بِظَلاَّم لِلْعَبِيدِ، وَ إِلَى اللهِ الْمُشْتَكى، وَ عَلَيْهِ الْمُعَوَّلُ، فَكِدْ كَيْدَكَ، وَ اسْعَ سَعْيَكَ، وَ ناصِبْ جُهْدَكَ، فَوَاللهِ لا تَمْحُو ذِكْرَنا، وَ لا تُمِيتُ وَحْيَنا، وَ لا تُدْرِكُ أَمَدَنا، وَ لا تَرْحَضُ عَنْكَ عارَها، وَ هَلْ رَأيُكَ إِلاّ فَنَدٌ، وَ أَيّامُكَ إِلاّ عَدَدٌ، وَ جَمْعُكَ إِلاّ بَدَدٌ؟ يَوْمَ يُنادِي الْمُنادِي: أَلا لَعْنَةُ اللهِ عَلَى الظّالِمِينَ.

وَ الْحَمْدُ للهِ رَبِّ الْعالَمِينَ، أَلَّذِي خَتَمَ لاَِوَّلِنا بِالسَّعادَةِ وَ الْمَغْفِرَةِ، وَ لاِخِرِنا بِالشَّهادَةِ وَ الرَّحْمَةِ. وَ نَسْأَلُ اللهَ أَنْ يُكْمِلَ لَهُمُ الثَّوابَ، وَ يُوجِبَ لَهُمُ الْمَزيدَ، وَ يُحْسِنَ عَلَيْنَا الْخِلافَةَ، إِنَّهُ رَحيمٌ وَدُودٌ، وَ حَسْبُنَا اللهُ وَ نِعْمَ الْوَكيلُ.

اے یزید ! یہ گردش ایام اور حوادث روزگار کا اثر ہے کہ مجھے تجھ جیسے بدنہاد [برے انسان] سے ہمکلام ہونا پڑا ہے اور میں تجھ جیسے ظالم و ستمگر سے گفتگو کر رہی ہوں ۔ لیکن یاد رکھ میری نظر میں تو ایک نہایت پست اور گھٹیا شخص ہے جس سے کلام کرنا بھی شریفوں کی توہین ہے ۔ میری اس جرائت سخن پر تو مجھے اپنے ستم کا نشانہ ہی کیوں نہ بنا دے لیکن میں اسے ایک عظیم امتحان اور آزمائش سمجھتے ہوئے صبر و استقامت اختیار کروں گی اور تیری بد کلامی و بدسلوکی میرے عزم و استقامت پر اثر انداز نہیں ہو سکتی۔اے یزید ! آج ہماری آنکھیں اشکبار ہیں اور سینوں میں آتش غم کے شعلے بھڑک رہے ہیں ۔

افسوس تو اس بات پر ہے کہ شیطان کے ہمنوا اور بدنام لوگوں نے رحمان کے سپاہیوں اور پاکباز لوگوں کو تہہ تیغ کرڈالا ہے ۔ اور ابھی تک اس شیطانی ٹولے کے ہاتھوں سے ہمارے پاک خون کے قطرے ٹپک رہے ہیں ۔ ان کے ناپاک دہن ہمارا گوشت چبانے میں مصروف ہیں اور صحرا کے بھیڑیئے ان پاکباز شہیدوں کی مظلوم لاشوں کے ارد گرد گھوم رہے ہیں اور جنگل کے نجس درندے ان پاکیزہ جسموں کی بے حرمتی کر رہے ہیں ۔

اے یزید ! اگر آج تو ہماری مظلومیت پر خوش ہو رہا ہے اور اسے اپنے دل کی تسکین کا باعث سمجھ رہا ہے تو یاد رکھ کہ جب قیامت کے دن اپنی بد کرداری کی سزا پائے گا تو اس کا برداشت کرنا تیرے بس سے باہر ہو گا ۔ خدا عادل ہے اور وہ اپنے بندوں پر ظلم نہیں کرتا ۔ ہم اپنی مظلومیت اپنے خدا کے سامنے پیش کرتے ہیں ۔ اور ہر حال میں اسی کی عنایات اور عدل و انصاف پر ہمارا بھروسہ ہے ۔

اے یزید ! تو جتنا چاہے مکر و فریب کر لے اور بھر پور کوشش کر کے دیکھ لے مگر تجهے معلوم ہونا چاہیئے کہ تو نہ تو ہماری یاد لوگوں کے دلوں سے مٹا سکتا ہے اور نہ ہی وحی الٰہی کے پاکیزہ آثار محو کر سکتا ہے ۔تو یہ خیال خام اپنے دل سے نکال دے کہ ظاہر سازی کے ذریعے ہماری شان و منزلت کو پا لے گا ۔تو نے جس گھناونے جرم کا ارتکاب کیا ہے اس کا بد نما داغ اپنے دامن سے نہیں دھو پائے گا ۔ تیرا نظریہ نہایت کمزور اور گھٹیا ہے ۔تری حکومت میں گنتی کے چند دن باقی ہیں ۔ تیرے سب ساتھی تیرا ساتھ چھوڑ جائیں گے ۔ تیرے پاس اس دن کی حسرت و پریشانی کے سوا کچھ بھی نہیں بچے گا ۔ جب منادی ندا کرے گا کہ ظالم و ستمگر لوگوں کے لئے خدا کی لعنت ہے ۔

ہم خدائے قدوس کی بارگاہ میں سپاس گزار ہیں کہ ہمارے خاندان کے پہلے فرد حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو سعادت و مغفرت سے بہرہ مند فرمایا اور امام حسین علیہ السلام کو شہادت و رحمت کی نعمتوں سے نوازا ۔ ہم بارگاہِ ایزدی میں دعا کرتے ہیں کہ وہ ہمارے شہیدوں کے ثواب و اجر میں اضافہ و تکمیل فرمائے اور ہم باقی سب افراد کو اپنی عنایتوں سے نوازے، بے شک خدا ہی رحم و رحمت کرنے والا اور حقیقی معنوں میں مہربان ہے ۔ خدا کی عنایتوں کے سوا ہمیں کچھ مطلوب نہیں اور ہمیں صرف اور صرف اسی کی ذات پر بھروسہ ہے اس لئے کہ اس سے بہتر کوئی سہارا نہیں ہے”

کم سن بچوں کو پڑھائی کی طرف کیسے راغب کیا جائے؟

کم سن بچوں کو پڑھائی کی طرف کیسے راغب کیا جائے؟

➿➿🏵💧🏵➿➿

 

✍ والدین کا مثال بننا

 

 ہمارے ہاں والدین کو معلوم نہیں ہوتا کہ بچوں کو پڑھائی کی عادت ڈالنے کا درست طریقہ کیا ہے۔ ‼

 

 بچوں کا سکول، کتابوں اور سکول کے کام سے متعلق ابتدائی تاثر بہت اہم ہوتا ہے جس کے بعد فیصلہ ہوتا ہے کہ بچے کی لکھنے پڑھنے سے دوستی ہوگی یا دشمنی، وہ اس سے مسرت پائے گا یا اسے جبری مشقت سمجھے گا۔

 

 بہرحال بات یہ تھی کہ ایسے ماحول میں بچوں کو لکھنے پڑھنے پر لگانا والدین کی خصوصی مگر سمجھ دار توجہ مانگتا ہے۔❗

 

🏪 میں نے جب اپنے پہلے بچے کو سکول داخل کرایا تو گھر میں سختی سے تاکید کی کہ

 اسے کتابیں کھولنے اور پڑھنے کا کبھی نہ کہا جائے۔‼

 

 اسے یہ احساس نہ ہو کہ یہ کوئی کام ہے جسے مشقت سمجھ کر کرنا ہوتا ہے، یا کوئی

 ڈیوٹی ہے جسے انجام دینا اس عمر میں اس پر لاگو کر دیا گیا ہے۔

 

چنانچہ جس وقت ہم چاہتے کہ

✍ بچہ سکول کا کام کرنے بیٹھے ہم اس اس کی کتابیں خود لے کر بیٹھ جاتے۔ اس کی پنسل اور کلرز لے کر خود کچھ بنانے اور رنگ بھرنے لگتے۔

 

🎨 بچہ فورا ہی متوجہ ہو کر چلا آتا۔ ہم سے کتابیں لے کر سبق دہرانے لگتا، قرطاس کار (ورک شیٹ) نکال کر کام شروع کر دیتا اور ہم فقط رہنمائی کرتے رہتے۔

 یہ سلسلہ تقریباً دو سال چلتا رہا یہاں تک کہ اسے پڑھائی کی عادت ہو گئی۔

 

🏏 بچے کی پسندیدہ سرگرمی کے وقت پڑھائی کی ہدایت کرنا

 

 دوسری ہدایت میں نے یہ دے رکھی تھی کہ

📺 بچہ جب ٹی وی دیکھ رہا ہوں، اپنا من پسند کوئی کھیل کھیل رہا ہوں یا دوسرے بچوں کے ساتھ انجوائے کر رہا ہو، اس وقت اسے سکول کا کام کرنے کا ہرگز نہ کہا جائے، ورنہ اسے یہ تاثر ملے گا کہ سکول کا کام لطف اندوزی کے مقابل کوئی ناگوار کام ہے۔

 

 ہمارے ہاں والدین کا خاص وتیرہ ہے کہ جیسے ہی بچہ اپنا من پسند کام، مشغلہ کھیل یا کوئی پروگرام دیکھنا شروع کرتا ہے، عین اسی لمحے والد اور والدہ کو ان کے سکول کا کام یاد آ جاتا ہے۔ لطف کے لمحات زبردستی چھڑائے جاتے ہیں اور پڑھنے بٹھا دیا جاتا ہے۔

 

 اس وقت بچے کو کتابیں زہر لگتی ہیں، رقیب محسوس ہوتی ہیں۔ ہم اسے اپنی کامیابی سمجھتے ہیں کہ بچے کو پڑھنے بٹھا دیا اور بچہ کتاب سے مستقل دشمنی پال لیتا ہے۔ ‼

 

 والدین اگر بچے کی ابتدائی سکول کی عمر میں یہ نا مناسب حرکتیں نہ کریں تو کتاب اور سکول کے کام سے بچے دوستی ہو سکتی ہے، جو اگلے مراحل میں کہ جب پڑھائی مشکل ہو جاتی ہے اور تقریباً ہر بچے کی پڑھائی میں دلچسپی میں کمی آنے لگتی ہے تو بھی اس سے وحشت پیدا نہیں ہوتی۔ کتاب اور کام سے لطف کا پہلا تاثر کبھی ختم نہیں ہوتا اپنا کام کرتا رہتا ہے۔ 👍

 

🌺 سہولتوں کی فراہمی

 

📚گھر میں اگر کتابیں موجود ہوں، گھر والوں کے زیر مطالعہ آتی ہوں تو یہی محرک کافی ہوتا ہے بچوں کو پڑھائی پر لگانے کے لیے۔ والد صاحب اگر کاروبار یا ملازمت کے مسائل کے علاوہ کوئی بات کرنے کے قابل نہ ہوں، اور والدہ دن بھر کی روٹین کے تذکرے کے علاوہ کوئی علم و عقل کی بات کرنے کے لائق نہ ہو، تو بچوں کو ہر طرح کی سہولتیں فراہم کرنے سے بھی وہ پڑھائی کی طرف مائل نہیں ہو جایا کرتے۔

 بلکہ............

 زیادہ سہولیات بچوں کو پڑھائی سے دور کرنے کا سبب بنتی ہیں۔ ‼

 

 لیکن نا سمجھ والدین، اپنی کمی کوتاہیوں کو پیسے کے ذریعے سے سہولیات دے کر پورا کرنے کی کوشش کرتے ہیں تاکہ بعد میں بچوں کا الزام دے سکیں کہ ہم نے تو کوئی کمی نہ چھوڑی تھی، ہر خواہش پوری کی لیکن اس نے پڑھنے لکھنے کی ہماری خواہش پوری نہیں کی۔

 

یاد رکھیے،...    .

 

 پڑھائی لکھائی ایسی چیز نہیں جو دوسری کی خواہش پر کی جا سکے۔ یہ فرد اپنی ہی خواہش سے کر پاتا ہے۔ ‼

 

🌱 والدین کی تربیت

 

حقیقت یہ  ہے کہ بچوں سے پہلے والدین کی تربیت ضروری ہے‼

 

 ورنہ ہمارے نا تربیت یافتہ والدین کی اکثریت کی وجہ سے اسی قسم کے افراد اس سماج میں سامنے آتے رہیں گے جیسا کہ آج ہمارے درمیان موجود ہیں، جن کا تعلیم سے جبری تعلق ہے، کتاب سے دوستی نہیں اور یوں سطحی ذہانتیں ہمارے سماج میں پھیلتی چلی جا رہی ہیں۔ انہیں پڑھائی سے زیادہ اچھے گریڈز لینے کی فکر ہے، جنہی ں تعلیم سے شعور نہیں ڈگری کا حصول مقصود ہے، جو امتحان دیتے ہی کتابیں ردی والے کو دے کر گھر کی صفائی کرتے ہیں۔

 

⚖ بچوں کا اپس میں موازنہ ( مقابلہ ) کرنا

 

اکثریت کے لحاظ سے ہمارے سماج نیم پڑھے لکھوں کا سماج ہے۔ کئی گھرانوں میں جدید تعلیم کی طرف توجہ موجودہ نسل میں ہوئی ہے۔ ایسے نیم پڑھے لکھے والدین کے لیے اپنے بچوں کا ان کے کزنز سے ہر کام ہر چیز میں موازنہ ایک مستقل مسئلہ ہے۔

 

 ہر بچے کا اپنا انداز ہوتا ہے، اپنا ہنر ہوتا ہے، اپنا رجحان ہوتا ہے۔

 یہاں حالت یہ ہے کہ خاندان میں کوئی ایک شخص تعلیم کے کسی میدان میں کامیاب ہو جائے تو پورے خاندان کے لیے واحد نمونہ عمل بن جاتا ہے۔ اب سب کے لیے وہی میدان علم چننا گویا لام قرار دے دی جاتا ہے۔

 

 بچوں کی صلاحیت اور رجحان جانچنے کا کوئی تصور ہی نہیں پایا جاتا۔

 ضروری نہیں کہ خالہ کا بیٹا اگر ریاضی میں ماہر ہے تو اپنا بیٹا بھی اس میں ماہر ہونا چائے۔ معلوم کیجیے شاید وہ پولٹری میں مہارت حاصل کرنے کے لیے پیدا ہوا ہو۔

 

غرض یہ کہ

 

 بچوں کی ابتدائی عمر میں ان کے رجحانات کو درست سمت دینا والدین کی ذمہ داری ہے۔‼

 

 اس کے لیے بڑی سمجھ داری کی ضرورت ہے۔ جتنا شوق والدین بننے کا ہوتا ہے اس سے زیادہ بچوں کی درست تربیت کی فکر مندی ہونی چاہیے۔ ‼

 

🌺🏪📚🌼📚🏪🌺