اقبال کی شاعری میں کربلا اور امام حسینؑ

اقبال کی شاعری میں کربلا اور امام حسینؑ

تحرير: نا معلوم

   نواسہ رسول امام حسینؑ کی لازوال قربانی اور کربلاکا حق و  باطل کا معرکہ تاریخ انسانی کا وہ ناقابل فراموش واقعہ ہے جسے کوئی بھی صاحب شعور انسان نظرانداز نہیں کرسکتا بعض اہل علم کے مطابق شعر اور شاعر کا لفظ بھی شعور سے مشتق ہوا ہے لہذا جو جتنا باشعور ہوگا اس کے اشعار میں اتنی ہی گہرائی اور وسعت ہوگی شاعر مشرق علامہ اقبال بھی عصرحاضر کے وہ عظیم شاعر ہیں جن کی شاعری عقل و شعور اور بلندی افکار و تخیل سے مزین ہے لہذا یہ ناممکن ہے کہ علامہ اقبال جیسی حساس شخصیت واقعہ کربلا کو نظرانداز کر ے

یوں بھی شاعر حسینیت قیصربار ہوئی کے بقول:

وہ مشرقی پکار ہو یا مغربی صدا

مظلومیت کے ساز پہ دونوں ہیں ہم نوا

محور بنا ہے ایک جنوب و شمال کا

تفریق رنگ و نسل پہ غالب ہے کربلا

تسکین روح، سایہ آہ و بکا میں ہے

ہر صاحب شعور کا دل کربلا میں ہے

شاعر کسی خیال کا ہو یا کوئی ادیب

واعظ کسی دیار کا ہو یا کوئی خطیب

تاریخ تولتا ہے جہاں کوئی خوش نصیب

اس طرح بات کرتا ہے احساس کا نقیب

دیکھو تو سلسلہ ادب مشرقین کا

دنیا کی ہر زبان پہ ہے قبضہ حسین کا

علامہ اقبال کی اردو اور فارسی شاعری میں امام حسینؑ اور کربلا ایک ایسا استعارہ ہے جو ظلم و ستم کے خلاف استقامت اور اسلام کے حقیقی رہبر کی نشاندہی کرتا ہے۔ وہ کربلا اور امام عالی مقام کو حق و وحدت کا دبستان اور حق و باطل کا میزان قرار دیتے ہیں ان کی حق شناس آنکھ کربلا کے واقعہ کو ایک تاریخی واقعہ کے طور پر نہیں دیکھتی بلکہ وہ امام حسینؑ کی صدا کے احتجاج اور ان کی لازوال قربانی کو اسلام کی بقا اور حیات قرار دیتے ہیں۔

آپ بال جبرئیل میں اپنے عقیدے کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں؛

غریب و سادہ و رنگین ہے داستان حرم

نہایت اس کی حسینؑ ابتدا ہے اسماعیل

بعض اقبال شناسوں کے مطابق علامہ اقبال نے خدا کی رضا و اجازت کے بغیر ایک ہی لفظ زبان پر نہ لانے والے پیغمبر گرامی حضرت محمدؐکی اس معروف حدیث کی تشریح کی ہے جس میں آپ نے ارشاد فرمایا تھا "حسین منی و انا من الحسین" "یعنی حسین مجھ سے ہے اور میں حسین سے ہوں"

اس حدیث کے سامنے آنے کے بعد بیت سے لوگوں نے یہ سوال اٹھایا تھا کہ رسول خدا کی ذات سے امام حسینؑ کا وجود تو ممکن ہے کیونکہ وہ آپ کے نواسے ہیں لیکن رسول خدا کا امام حسین سے ہونا کیامعنى رکھتا ہے

اس حدیث کی تفسیر میں آیا ہے کہ چونکہ رسول آخر زمان حضرت اسماعیل کی اولاد میں سے ہیں اور اگر حضرت اسماعیلؑ، حضرت ابراہیمؑ کے ہاتھوں قربان ہوجاتے تو رسول اکرم کا وجود مبارک بھی نہ ہوتا۔جب اللہ تعالی نے  حضرت اسماعیل کی قربانی کو ذبح عظیم کے بدلے ایک دنبے کی قربانی میں تبدیل کردیا تو جس ذبح عظیم کا ذکر آیا وہ امام حسینؑ کی قربانی ہے لہذا امام حسینؑ نے حضرت اسماعیل کی جگہ پر اپنی قربانی پیش کی اور یوں حضرت اسماعیل قربانی ہونے سے محفوظ رہے اور آپ کی نسل رسول خدا تک پہنچی۔ علامہ اقبال ایک اور مقام پر اسی موضوع کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتے ہیں:

آں امام عاشقاں پوربتولؑ                          سرو آزادی زبستان رسولؐ

اللہ اللہ بای بسم اللہ پدر                             معنی ذبح عظیم آمد پسر

اقبال ایک اور مقام پر امام حسینؑ کو مخاطب کرکے کہتے ہیں :

"سر ابراہیم و اسماعیل بود                      یعنی آن اجمال را تفصیل بود"

علامہ اقبال معرکہ کربلا کو حق و باطل کا ایک بے مثل واقعہ قراردیتے ہوئے کہتے ہیں:

"حقیقت ابدی ہے مقام شبیری           بدلتےرہتے ہیں انداز کوفی و شامی"

گویا اقبال کی نظر میں امام حسینؑ حق و صداقت کا وہ میزان ہیں جو ہر دور میں حق و باطل کی کسوٹی ہیں تاریخ میں ملتا ہے کہ جب یزید نے مدینہ منورہ کے والی ولید اور مروان کے ذریعے امام حسینؑ سے بیعت کا مطالبہ کیا تو آپ نے ایک ایسا جملہ ارشاد فرمایا جو حریت پسندی کے لیے ہمیشہ نصب العین بنارہے گا آپ نے فرمایا تھا :"مجھ جیسا یزید جیسے کی بیعت نہیں کرسکتا"

علامہ اقبال نے اسی مفہوم کو ایک اور شعر میں یوں اداکیا ہے

موسی و فرعون و شبیر و یزید         این دو قوت از حیات آمد پدید

علامہ اقبال واقعہ کربلا کو اسلام کی بقا کا ضامن قرار دیتے ہیں اور بے ساختہ بول اٹھتے ہیں

زندہ حق از قوت شبیری است          باطل آخر داغ حسرت میری است

علامہ اقبال امام حسینؑ کو ظلم و استبداد کے خلاف ایک مثالی کردار بناکر پیش کرتے ہوئے کہتے ہیں:

بر زمین کربلا بارید و رفت                     لاله در ویرانه ها بارید و رفت

تا قیامت قطع استبداد کرد                        موج خون او چنین ایجاد کرد

رمز قران از حسین آموختم                      ز آتش او شعله ها اندوختم

علامہ اقبال واقعہ کربلا اور امام حسینؑ کی شخصیت کو اسلامی اور انسانی بیداری کا لازوال کردار گردانتے ہیں"رموز بیخودی" میں کہتے ہیں:

عزم او چون کوہساران استوار         پایدار و تند سیرو کامکار

آگے چل کر مزید کہتے ہیں:

خون او تفسیر این اسرار کرد           ملت خوابیده را بیدار کرد

نقش الا الله بر صحرا نوشت                     عنوان نجات ما نوشت

علامہ اقبال سیدالشہداء کی ذات میں گم ہوکر کہہ اٹھتے ہیں:

بهر حق در خاک و خون گردیده است                بس بناء لا اله گردیده است

حکیم الامت  علامہ اقبال جہاں واقعہ کربلا کے حماسی اور انقلابی پہلو کو انتہائی خوبصورت انداز میں بیان کرتے ہیں وہاں کربلا کے لق و دق صحرا میں نواسہ رسول کی مظلومیت آپ کو بے تاب کردیتی ہے۔ آپ غم و اندوہ سے کہتے ہیں:

دشمنان چو ریگ صحرا لاتعد          دوستان او به یزدان هم عدد

غم حسینؑ میں اپنے گریے اور آہ و زاری کی طرف اشارے کرتے ہوئے کہتے ہیں

رونے والا ہوں شہید کربلا کے غم میں              کیا در مقصد نہ دیں گے ساقی کوثر مجھے

http://www.tvshia.com/ur/content/

🌿عزاداري اور آغا ماشا الله🌻

🌿عزادارى اور آغا ماشا الله🌻

تحرير: نامعلوم

🌿ایران کے شھر، کرمان کے ایک علاقے میں ایک ستر سالہ شخص آغا ماشااللہ کی داستان جس نے حالت بیداری میں امام حسین علیہ السلام کا دیدار کیا اور آپ (ع) سے شفا پائی 🌿🌻🌿

🍃🍁آغا ماشااللہ کے بارے میں مشھور ہے کہ وہ اول محرم سے اٹھارہ محرم تک اپنے گھر میں طرح طرح کے کھانوں سے عزاداروں کی پذیرائی کرتے ہیں.

جب آغا ماشااللہ سے معلوم کیا گیا کہ آپ کہاں سے اتنے بڑے پیمانے عزاداروں کی پذیرائی کا انتظام کرتے ہیں؟ تو آغا ماشااللہ نے اپنی داستان اسطرح بیان کی......

🍃جوانی میں مجھے حصبہ جیسی مہلک بیماری نے اپنی لپیٹ میں لے لیا ، مجھے ایران کے بڑے بڑے شھروں میں علاج کے لیے لے جایا گیا، لیکن کوی فائدہ نہیں ہوا اور میری بیماری بڑھتی گی.

ڈاکٹروں نے کہہ دیا کہ اب علاج کا کوی فائدہ نہیں بلکہ جو بھی اس کے نزدیک آیا وہ بھی اس بیماری میں مبتلا ہو جاے گا. یہ کچھ دن کا مہمان ہے آپ اسے گھر لے جا یں اور اسے جو چیز بھی کھانے کا دل چاہے وہ دیں.

ماں مجھے گھر لے آئیں اور صحن میں چار پای پر لٹا دیا  - میری ماں کے پاس ہمیشہ ایک سیاہ رومال ہوتا تھا وہ جب امام حسین علیہ السلام پر گریہ کرتیں تو اس رومال سے اپنے آنسو پونچھتیں. میں نے اپنی ماں کو بچپن سے صرف امام حسین علیہ السلام پر گریہ کرتے دیکھا تھا. وہ کبھی اپنی مشکلات پر نہیں روتیں تھیں. اس روز بھی میری ماں کا دل بھرا ہوا تھا، سب نے ہمارا ساتھ چھوڑ دیا تھا، ڈاکٹروں نے بھی جواب دے دیا تھا، انہوں نے مجھے چارپای پر لٹایا اپنا رومال نکالا اور اسے صحن میں بنے حوض کے پانی سے دھونا شروع کیا....

ساتھ ہی رو رو کے کہتی جارہی تھیں : اے میرے مولا !  محرم میں صرف دو دن رہ گئے ہیں، مجھے آپ کی عزاداری کرنی ہے آپ میرے بچے کو یا تو اچھا کردیں کہ وہ خود اپنے ہاتھوں سے آپ کے عزاداروں کی خدمت کرے، یا اسے اپنے ساتھ لے جایں، ایسا نہ ہو کہ !  میں اسکی تیمارداری میں لگی رہوں اور آپ کی فرش عزا نہ بچھا سکوں. میری ماں روٹی جارہی تھی اور آہیں بھرتی جارہی تھی.

ماں کی بےقراری دیکھ کر میں بھی منقلب ہوگیا،  میں نے بھی رونا شروع کیا اور آواز دی،  اے میرے مظلوم امام،  کہاں ہیں آپ جو ہماری فریاد رسی کریں. آپ کی فرش عزا بچھانی ہے مجھے ٹھیک کردیئے، میرا آپ سے وعدہ ہے اگر میں صحت یاب ہوگیا تو یکم محرم سے روز عاشورہ تک آپ کے عزاداروں کے لیئے کھانے کا انتظام کروں گا. آپ کے کسی بھی عزادار کو بھوکا پیاسا نہیں جانے دوں گا.

حالانکہ میں جانتا تھا کہ اسوقت ہمارے پاس کچھہ بھی نہیں، جتنا پیسہ اور جو کچھ بھی تھا سب میری بیماری پر خرچ ہو چکا تھا.

میری ماں جب تھوڑی بھتر ہوی تو حوض کے کنارے سے اٹھی اور مجھے لے جاکر نیچے سرداب میں لٹا دیا، میری دونوں ٹانگیں فلج ہوچکی تھیں.

آدھی رات کے قریب اچانک تیز روشنی سے میری آنکھ کھل گئ، میں نے کسی کو سرداب کی سیڑھیوں سے نیچے آتے دیکھا. اس آنے والے کے وجود سے پورے سرداب میں روشنی پھیل گئ، 🌅 وہ میرے پاس آکر بیٹھ گئے اور میرے چہرے اور سر پر انتہای محبت سے ہاتھ پھیرنا شروع کیا، میں نے خوفزدہ ہوکر کہا : آپ کون ہیں؟  خدا کے لیئے میرے قریب نہ آئیں؛ میری بیماری آپ کو لگ جاے گی. آنے والے نے کہا آغا ماشااللہ تمہاری بیماری سے ہمیں کوی نقصان نہیں پہنچے گا. اٹھو محرم نزدیک ہے تمہیں عزاداری کا اہتمام نہیں کرنا؟ میں نے کہا : میں تو اپنی جگہ سے ہل بھی نہیں سکتا. آنے والے نے کہا : یا حسین کہو اور اٹھو؛  میں نے یا حسین کہا آور اپنی جگہ سے اٹھنے کی کوشش کی، دیکھا میرے پاوں حرکت میں آگئے ہیں. اور میں اٹھ کر کھڑا ہو گیا ہوں. میں سمجھ گیا کہ یہ میرے آقا حسین ہیں. 😭 میں انکے پیروں پر گر گیا پھر انکے گرد گھومنا شروع کیا،  میں روتا جاتا تھا اور کہتا جاتا تھا : کہ اے میرے مظلوم امام،  ماشااللہ آپ کے قربان! آپ مجھ گناہکار کے گھر تشریف لاے، آقا کیسے آپ کی میزبانی کروں!  میں اسی طرح امام (ع)کے گرد گھومتا جارہا تھا اور روتا جارہا تھا - کہ امام نے فرمایا : آغا ماشااللہ تمہیں اپنا وعدہ یاد ہے... تم نے کہا تھا کہ ٹھیک ہو گیئے تو دس دن تک میرے عزاداروں کو کھانا کھلاوگے.؟

میں نے کہا : ہاں آقا یاد ہے. یہ سن کر امام نے فرمایا  : تم دس دن نہیں بلکہ اٹھارہ دن عزاداری کا اہتمام کرنا، میں نے کہا آقا میں آپ کے قربان،  اٹھارہ دن،؟ امام (ع )نے جواب میں فرمایا : میری فاطمہ زھرا کی عمر کے مطابق اٹھارہ دن عزاداری کرنا. یہ آٹھ دن میری ماں کے لیے عزاداری کرنا،. اچانک میں نے دیکھا کہ امام وہاں نہیں ہیں.

کرمان میں سب کو میرے شفا یاب ہونے کی اطلاع مل چکی تھی. لوگ جوق در جوق مجھ سے ملنےآرہے تھے.

محرم سے ایک دن پہلے، میں اس فکر میں تھا کہ کل پہلی محرم ہے، اٹھارہ دن عزاداروں کے لیے کھانے کا انتظام کیسے کیا جاے؟ اچانک دروازے پر کھٹکا ہوا، میں نے دروازہ کھولا، دیکھا، ایک پک اپ چاول کی بوریوں سے بھری دروازے پر کھڑی ہے. آنے والے شخص نے کہا کہ : ہمارے صاحب نے یہ چاول بھیجے ہیں اور کہا ہے کہ جب تک تمہارے گھر میں عزاداری ہوتی رہے گی،  نذر کے لیے چاول میری طرف سے ہونگے. ھرگز پریشان نہ ہونا. 🍃🍀

🌹 سالوں گزر گئے ہیں ہر سال محرم سے پہلے لوگ میرے گھر میں ضرورت کا سامان پہنچا دیتے ہیں.

نذر کا سامان آنا شروع ہوجاتا ہے. گوشت، چاول،  تیل، دہی، حتی دیگیں، چولہے، میں ان تمام سامان بھیجنے والوں کو ہرگز نہیں جانتا، میں صرف عزاداروں کی پذیرای کرتا ہوں. 🍁🌷

آغا ماشااللہ نے ایک اور واقعہ بیان کرتے ہوے کہا کہ : جس سال مجھے شفا ہوی ہے . تیسری محرم تھی، میں بےحد تھکا ہوا تھا. سوچا تھوڑی دیر آرام کرلوں پھر صحن میں سے صفائی شروع کروں گا، یہ کام میں خود انجام دیتا تھا. ( ایران میں جن لوگوں کے ہاں بڑے صحن ہوتے ہیں، یا گلی کے کونے پر شامیانہ اور سیاہ پرچم لگا کر امام بارگاہ بناے جاتے ہیں. )))

آغا ماشااللہ کا کہنا ہے کہ میں وہیں صحن میں تخت پر لیٹ گیا، میں نے دیکھا، وہی نورانی چہرے والے آغا تشریف لاے ہیں اور فرماتے ہیں : ماشااللہ کیا تمہارے گھر میں عزاداری نہیں، اٹھو..... اور صحن کی صفای شروع کرو ؛ ماشااللہ کا کہنا ہے کہ اسکے بعد انہوں نے جھاڑو اٹھای اور صحن سے لگانی شروع کی.؛ یہ دیکھ کر میں لرز گیا،  ایک دم اٹھا اور دوڑ کر امام کے قدموں پر گر پڑا اور کہا : مولا یہ کیا کرتے ہیں اے فرزند رسول مجھے شرمندہ نہ کیجئے.

آغا ماشااللہ کا کہنا ہے کہ : امام نے فرمایا : ماشااللہ، میں اپنی ماں زھرا پر رونے کے لیئے آنے والوں کے لئیے خود فرش عزا کو صاف کرنا چاہتا ہوں. 😢😢😔آخر میں آغا ماشااللہ نے کہا کہ : شھزادی فاطمہ زھرا کے لیے جتنی بار فرش عزا بچھای جاے کم ہے. افسوس کہ ہم صرف بی بی کی شھادت کے ایام میں ہی ان کی مجالس کرتے ہیں. ہمیں اپنی مظلوم بی بی کے ذکر کو اور ان پر گزرنے والے واقعات کو زندہ رکھنا چاہیے.

😭😭😭😭😭😭😭😭

امام حسين عليه السلام كى كربلا ميں زيارت كے دنيوى و اخروى فوائد

امام حسين عليه السلام كى كربلا ميں زيارت كے دنيوى و اخروى فوائد

تحریر: سید غیور الحسنین

 

   زيارت امام حسين عليه السلام كو روايات ميں بهت اهميت دي گئى هے اور اس كے بهت زياده دنيوى اور اخروى فوائد ذكر كيے گئے هيں.يه فوائد ايك جگه ذكر نهيں هوئے لهذا ان فوائد كو روايات سے استقراء كركے آپ كى خدمت ميں بيان كيا جا رها هے.

 

دنيوى فوائد:

1- رزق ميں اضافه هوتا هے.

2- عمر طولانى هوتى هے.

3- انسان زندگى ميں فقر و فاقه سے محفوظ رهتا هے.

4- انسان پرمستقبل ميں آنے والى پريشانياں دفع هوتى هيں.

 

اخروى فوائد:

1- زيارت كے ايام زائر امام حسين(ع) كى زندگى ميں شمار نهيں هوں گے.

2-زيارت امام حسين (ع) عرش پر الله كى زيارت كے برابر هے.

3- زيارت امام حسين (ع) الله كى راه ميں هزار غلام آزاد كرنے كےمانند هے.

4- زيارت امام حسين (ع) راه خدا ميں جهاد كے ليے ايك هزارگهو‎‎ڑے دينے كے برابر هے.

5- امام حسين (ع) كى زيارت سے 200حج و عمره (جو صحيح اور مقبول هوں) كا ثواب ملتا هے.

6- زائر امام حسين(ع) كے گذشته گناه معاف هو جاتے هيں.

7- اگر زائر عيد فطر يا عيد قربان كى رات  يا 15 شعبان كى رات امام حسين(ع) كى قبر مطهر كى زيارت كرے تو اس كے گذشته اور آئنده كے گناه بهى معاف هو جاتے هيں.

8- اگر كوئى شخص عاشور كے دن امام حسين(ع) كى كربلا ميں زيارت كرے بهشت اس پر واجب هو جاتى هے.

 

حواله:

مناقب اهل بيت، (فارسى)، تحرير: سيد محمد نجفى  يزدى، كوثر كوير، قم، 1392، ج2، ص290-298 .   

 

 

حبل اللہ سے کیا مراد ہے؟

حبل اللہ سے کیا مراد ہے؟

آیت

وَاعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللہِ جَمِيْعًا وَّلَا تَفَرَّقُوْا (آل عمران)

ترجمہ

اور تم سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو اور تفرقہ نہ ڈالو

 

تشریح

 

1⃣ ترجمہ روایت

امام زین العابدین علیہ السلام سے منقول ہے کہ حَبْل اللہ سے مراد قرآن ہے۔(المیزان ۳: ۳۷۸)

 

2⃣ روایت

آلُ مْحَمَّدٍ ُھْم حَبْلُ اللہِ الَّذِیْ اَمَرَ بِالْاِعْتِصَامِ بِہِ ۔

ترجمہ

آل محمدؐ ہی وہ حَبْل اللہ ہیں جن سے متمسک ہونے کا حکم قرآن میں آیا ہے۔

(بحار الانوار ۲۴: ۸۵۔ تفسیر العیاشی ۱: ۱۰۴)

 

3⃣ روایت

حضرت امام جعفر صادق (ع) سے ابان بن تغلب اور ابو حفص الصائغ روایت کرتے ہیں کہ آپ (ع) نے فرمایا:

نَحْنُ حَبْلُ اللہِ ۔

حبل اللہ ہم ہیں۔

بحوالہ (شواہد التنزیل ۱: ۱۶۹۔ تفسیر ثعلبی بنقل الصراط المستقیم ۱:۲۸۶)

 

4⃣ روایت

ابن جبیر نے اپنی کتاب نخب میں عبدی سے روایت کی ہے اور محمد بن علی عنیری نے بھی اپنی سند سے روایت کی ہے کہ ایک اعرابی نے رسول اللہ (ص) سے اس آیت کے بارے میں سوال کیا تو آپ (ص) نے حضرت علی علیہ السلام کا ہاتھ پکڑ کر فرمایا:

ہَذَا حَبْلُ اللّٰہِ فَاعْتَصِمُوْا بِہِ

یہ حبل اللہ ہیں ان سے متمسک رہو۔

بحوالہ

 (الصراط المستقیم ۱: ۲۸۶۔ المناقب لابن شہر آشوب ۳: ۷۶)

 

توضیح

دونوں روایتوں میں کوئی تضاد نہیں ہے، کیونکہ حدیث ثقلین سے ثابت ہوتا ہے کہ قرآن و اہل البیت (ع) دونوں حَبْل اللہ ہیں اور یہ اس بات کے بھی منافی نہیں ہے کہ قرآن اور سنت رسول (ص) حَبْل اللہ ہیں۔ کیونکہ اہل بیت رسول (ص) ہی سنت رسول (ص)کے محافظ، امت رسول (ص) کے امام اور جانشین رسول (ص) ہیں۔