ذیمقراطیس کے نظریہ اتم کا رد

اگرچہ ذیمقراطیس کا نظریہ اتم ایک ابتدائی اور انقلابی تصور تھا، لیکن اس میں کئی کمزوریاں اور سائنسی خامیاں تھیں، جن کے باعث اسے کئی فلاسفہ اور بعد میں سائنسدانوں نے رد کیا۔ اس نظریے پر تنقید درج ذیل وجوہات کی بنیاد پر کی گئی:

1- نظریہ تجرباتی شواہد کے بغیر تھا

ذیمقراطیس نے اپنا نظریہ محض فلسفیانہ بنیادوں پر قائم کیا، جبکہ اس کے پاس کوئی سائنسی تجربات یا مشاہدات نہیں تھے جو اس کے دعووں کی تصدیق کرتے۔ اس وجہ سے، اس کے ہم عصر فلاسفہ، خاص طور پر ارسطو نے اس نظریے کو رد کر دیا اور کہا کہ مادہ تسلسل (Continuous) رکھتا ہے، نہ کہ الگ الگ ناقابل تقسیم ذرات پر مشتمل ہے۔

2- اتم کی ناقابل تقسیم ہونے کا نظریہ غلط ثابت ہوا

ذیمقراطیس کا ماننا تھا کہ اتم ناقابل تقسیم (Indivisible) ہیں، جبکہ جدید سائنس نے یہ ثابت کر دیا کہ اتم مزید چھوٹے ذرات (الیکٹران، پروٹون، اور نیوٹرون) پر مشتمل ہوتے ہیں۔ یہاں تک کہ پروٹون اور نیوٹرون بھی کوارکس (Quarks) سے بنے ہوتے ہیں، جس سے واضح ہوتا ہے کہ اتم سب سے بنیادی ذرہ نہیں ہے۔

3- تمام اتموں کی مختلف اشکال اور سائز کا تصور غلط تھا

ذیمقراطیس کا دعویٰ تھا کہ مختلف قسم کے مادے، اتموں کی شکل اور سائز میں فرق کی وجہ سے وجود میں آتے ہیں، جیسے کہ پانی کے اتم ہموار ہوتے ہیں اور آگ کے اتم نوک دار ہوتے ہیں۔ تاہم، جدید کیمیا اور طبیعیات نے یہ ثابت کیا کہ اتم مخصوص عناصر پر مشتمل ہوتے ہیں اور ان کی خصوصیات الیکٹرانک اسٹرکچر سے طے ہوتی ہیں، نہ کہ محض شکل اور سائز سے۔

4- نظریہ کیمیائی تعاملات کی وضاحت کرنے میں ناکام تھا

ذیمقراطیس کا نظریہ صرف یہ بیان کرتا تھا کہ اتم خلا میں حرکت کرتے ہیں اور مختلف اشیاء کی تشکیل کرتے ہیں، لیکن یہ وضاحت نہیں کرتا تھا کہ کیمیائی تعاملات (Chemical Reactions) کس طرح ہوتے ہیں۔ جدید سائنس نے دکھایا کہ کیمیائی تعاملات ایٹمز کے الیکٹرانز کے درمیان تعامل سے ہوتے ہیں، جو کہ ذیمقراطیس کے نظریے میں شامل نہیں تھا۔

5-طبیعی قوانین اور قوتوں کا کوئی ذکر نہیں تھا

ذیمقراطیس کے نظریے میں یہ وضاحت نہیں کی گئی کہ اتم کس طرح ایک دوسرے کے ساتھ جڑتے ہیں یا کیوں وہ مخصوص پیٹرن میں ترتیب پاتے ہیں۔ جدید طبیعیات نے ثابت کیا کہ مادہ بنیادی طور پر چار بنیادی قوتوں (ثقل، برقی مقناطیسیت، کمزور اور مضبوط جوہری قوت) کے تحت کام کرتا ہے، جن کا ذیمقراطیس کے نظریے میں کوئی ذکر نہیں تھا۔

نتیجہ

اگرچہ ذیمقراطیس کا نظریہ اتم ایک جدید سائنسی فکر کی بنیاد تھا، لیکن اس کی کئی خامیوں اور سائنسی شواہد کی کمی کی وجہ سے یہ مکمل طور پر درست ثابت نہ ہو سکا۔ بعد میں جان ڈالٹن، آئن سٹائن اور دیگر سائنسدانوں نے اس نظریے کو بہتر بنایا اور تجرباتی شواہد کی مدد سے ایٹمی ساخت کا حقیقی ماڈل پیش کیا۔ اس لیے، ذیمقراطیس کا نظریہ ایک ابتدائی تصور تو تھا، لیکن جدید سائنسی اصولوں کے مطابق اسے مکمل طور پر درست نہیں مانا جا سکتا۔