شُہدائے بنی ہاشم علیہم السلام

کارزارِ کربلا میں امام علیہ السلام کے اصحاب باصفاء اور موالیانِ باوفا کی شہادت کے بعد اِمام علیہ السلام کے اعزاء و اقرباء ، برادران  اور اولاد نے راہِ اسلام میں عظیم اور لازوال قربانیاں دیں اور اسلام کو سدا بہار بنا دیا ۔

اسلام کے دامن میں بس اس کے سواء کیا ہے ۔

ایک ضرب ید اللہ ،  ایک سجدہ شبیری

 

1-  عبداللہ بن مُسلم بن عقيل

آپ حضرت مُسلم بن عقيل علیہ السلام کے فرزند اور امام علیہ السلام کے بھانجے  اور امیر المومین علی علیہ السلام کے نواسے تھے۔ آپ کی والدہ ماجدہ رقیہ بنت علی علیہ السلام اور نانی کا نام صہباء بنتِ عباد تھا ۔ آپ کی والدہ قبیلہ بنی ثعلبة کی فرد اور کنیت ام حبیبہ تھی۔ آپ اٹھارہ بنی ہاشم کے سب سے پہلے شہید ہیں۔ آپ نے 90 دشمنوں کو واصلِ نار کیا اور دوران جنگ عمر بن صبیح صیداوی نے آپ کی پیشانی پر تیر مارا جس کو روکتے ہوئے  آپ کا ہاتھ پیشانی میں پیوست ہو گیا ۔  اس نے دوسرا تیر آپ کے سینے پر مارا جس سے آپ نے شہادت پائی۔

2-  محمد بن مسلم بن عقيل

آپ بھائی کو زخمی دیکھ کر امام علیہ السلام سے اِذنِ شہادت طلب کر کے میدان میں گئے اور گھمسان کی جنگ کی۔ آپ کو ابوجرہم ازدی اور لقیط  نے شہید کیا ۔

3-  جعفر بن عقیل

آپ عقیل ابن ابی طالب کے فرزند اور آپ کی والدہ "حوصا" بنت عمرہ بن عام بن حسان بن کعب بن عبد بن ابی بکر ابن کلاب عامری اور آپ کی نانی ریطة بنت عبداللہ بن ابی بکر تھیں۔ میدان جنگ میں 15 دشمنوں کو قتل کر کے بشر بن خوط کے ہاتھوں شہید ہوئے ۔۔

4- عبد الرحمان بن عقیل

آپ عقیل ابن ابی طالب کے فرزند اورمیدان کربلا میں 17 دشمنوں کو قتل کر کے عثمان بن خالد ابن اثیم اور بشر بن خوط کے ہاتھوں شہید ہوئے ۔

5-  عبداللہ بن عقیل

آپ عقیل ابن ابی طالب کے فرزند اورمیدان کربلا میں بہت سے  دشمنوں کو قتل کر کے عثمان بن خالد کے ہاتھوں شہید ہوئے۔

6- موسی بن عقیل

آپ عقیل ابنِ ابی طالب کے فرزند اورمیدانِ کربلا میں 70 دشمنون کو قتل کر کے سرورِ کائنات کی بارگاہ میں پہنچے ۔

7-   عون بن عبداللہ بن جعفر طیار(فرزند حضرت زينب عليها السلام)

آپ جناب عبداللہ کے فرزند اور حضرت جعفر طیار کے پوتے تھے ۔ امیر المومنین علیہ السلام  کے نواسے آپ کی والدہ زینب کُبریٰ علیہ السلام اور نانی جناب خاتونِ جنت حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہ تھیں ۔

جناب عبداللہ ابنِ جعفر نے علالت کی وجہ سے اپنے بیٹوں کو امام علیہ السلام کی بارگاہ میں  دے دیا تھا  اور امام علیہ السلام پر جانثاری کی ہدایت کر کے چلے گئے تھے۔

جناب عون کے رجز کے اشعار نےدشمنوں  کے دل دہلا دِیے تھے ۔ آپ نے 30  سوار اور 18 پیادے قتل کئے اور عبد بن قطنہ نبھانی کے ہاتھوں  شہید ہوئے ۔

8- محمد بن عبداللہ بن جعفر طیار(فرزند حضرت زينب عليها السلام)

آپ جناب عون کے بھائی تھے۔ 10 دشمنوں کو قتل کرنے کے بعد عامر بن نہشل کے ہاتھوں شہید ہوئے ۔

9- عبداللہ الاکبر عرف عمرو بن الحسن ابن علی ابن ابی طالب

آپ امام حسن علیہ السلام کے بڑے بیٹے اور آپ کی کنیت ابو بکر تھی  آپ کی والدہ گرامی کا نام  جناب "رملہ " اور کچھ روایات کے مطابق" نفیلہ" تھا۔ میدان کربلا میں 80 آدمیوں کو قتل کرنے کے بعد عبداللہ بن عقبی غنوی کے ہاتھوں شہید ہوئے ۔

10-   قاسم بن حسن بن علی ابن ابی طالب

آپ امام حسن علیہ السلام  اور جناب ام فروه کے فرزند تھے آپ نہایت جری تھے ارزق شامی جیسے نامی گرامی پہلوان کو میدان کربلا میں قتل کیا ۔ اور جب دشمنوں سے زیر نہ ہوئے تو سب نے اچانک چاروں طرف سے گھیر کر حملہ کیا  اور عمیر بن نفیل ازدی کے وار سے گھائل ہوئے ۔ گھوڑے سے گرنے کے بعد زندہ ہی پامال سُم اسپاں ہو گئے ۔

11- عبداللہ بن حسن ابن علی ابن ابی طالب

آپ اِمام حسن علیہ السلام کے فرزند اور والدہ بنت شکیل بن عبداللہ بجلی تھیں ۔ آپ کے نانا صحابی رسول تھے ۔  کربلا میں سنِ بلوغ تک نہ پہنچے تھے مگر شجاعت  بے مثال کے مالک تھے ۔  14 دشمنوں کو قتل کر کے بدست ہانی بن  شیت خضرمی شہید ہوئے ۔

12- عبداللہ بن علی ابن ابی طالب

آپ علمدارِ کربلا کے حقیقی بھائی اور فرزند جناب اُم البنین اور امیر المومنین علیہ السلام تھے ۔کربلا میں ہانی بن ثبیث حضرمی کے ہاتھوں شہید ہوئے ۔

13-   عثمان بن علی ابن ابی طالب

آپ بھی علمدارِ کربلا کے بھائی  تھے۔ آپ کی عمر 23 برس تھی اور میدان کربلا میں خولی شقی کے تیر سے گھائل ہوکر زخمی ہوئے اور قبیلہ ابان بن وارم کے ایک شخص کی تلوار سے شہید ہوئے ۔

14- جعفر بن علی ابن ابی طالب

آپ کی عمر 21 برس اور میدانِ کربلا میں  ہانی ابن ثبیث کے ہاتھوں شہید ہوئے ۔

15- علمدارِ کربلا عباس بن علی ابن ابی طالب

ان بہادران بنی ہاشم کی شہادت کے بعد علمدارِ کربلا نے اِذن شہادت طلب کیا مگر امام علیہ السلام نے اذنِ جنگ نہ دیا اور فرمایا کہ اطفال کے لیے پانی کا بندوبست کرو ۔

آپ مشکیزہ اور علم لے کے میدان میں گئے، جنگ کی اجازت نہ ملنےکے باوجود آپ کی ہیبت سے لشکر میں ہلچل مچ گئی تھی ۔ آپ نے پانی پر قبضہ کیا مشک بھری اور  واپس راه خیام ہوئے ۔ جب لشکر نے دیکھا کہ آپ بغیر تلوار کے ہیں تو آپ پر حملہ کیا اور پانی کی مشک بچاتے ہوئے آپ کا داہنا ہاتھ زیند بن ورقا کی تلوار سے قلم ہوا ۔ بایاں ہاتھ حکیم ابن طفیل نے قلم کیا مشکیزے پر تیر لگنے سے سارا پانی بہہ گیا  اور ایک تیر آپ کی سینے پر لگا۔ آپ کی شہادت پر امام علیہ السلام نے فرمایا ۔

" ہائے میری کمر ٹوٹ گئی" آپ کو کمال حُسن کی وجہ سے قمر بنی ہاشم بھی کہا جاتا تھا۔ مشہور القاب " سقہ " ، ابو قریہ ہیں شہادت کے وقت آپ کی عمر 34 برس تھی۔

16- علی اکبر بن الحسین الشہید ابن علی ابن ابی طالب

آپ امام علیہ السلام کے بیٹے تھے ۔ امیر المومنین علی علیہ السلام  اور جناب خاتونِ جنت سلام اللہ علیہا کے پوتے تھے ۔ آپ کی والدہ کا نام " اُمِ لیلٰی"  تھا۔  آپ صورت اور سیرت میں پیغمبر اسلام صلى الله عليه و آله وسلم کے مشابہ تھے ۔ آپ کا نام علی ابن حسین ۔ کنیت ابو الحسن اور لقب اکبر تھا۔ آپ نے میدان کربلا میں120 دشمنوں کو قتل کیا اور منقذ ابن مرہ عبدی نے آپ کے گلوئے مبارک پر تیر مار اور ابن نمیر نے سینہ اقدس پر نیزے کا وار کیا ۔ شہادت کے وقت آپ کی عمر 18 برس تھی ۔

17- محمد بن ابی سعید بن عقیل

آپ جناب عقیل کے فرزند اور نہایت کم سن تھے ۔  جناب علی اکبر کی شہادت کے بعد آپ چوب خیمہ  لے کر باہر نکلے  اور امام علیہ السلام کی طرف رُخ کیا ابھی آپ امام علیہ السلام کے نزدیک بھی نہیں پہنچے تھے کہ نفیظ ابن یاسی  نے آپ پر تلوار کی ضرب لگائی اور آپ شہید ہو گئے ۔

18-  علی اصغر بن الحسین الشہید ابن علی ابن ابی طالب

آپ امام علیہ السلام کے کمسن ترین فرزند تھے۔ آپ 10 رجب سن 60 ہجری کو پیدا ہوئے ۔ آپ کی والدہ  کا نام رباب بنت امرہ القیس بن عدی بن اوس تھا۔ یوم عاشور کو جب امام علیہ السلام نے آواز استغاثہ بلند کی تو آپ نے خود کو جھولے سے گرا دیا ۔ امام علیہ السلام جب6 ماہ کے شہزادے کو لے کر اُس کے لئے پانی مانگنے  کے لئے میدان میں گئے تو لشکر میں ہلچل مچ گئی اور لشکر بے قابو ہونے لگا ۔  ابن سعد  نے حرملہ کو حکم دیا کہ تیر سہ شعبہ استعمال کرو۔  اس لعین نے گلوئے صغیر کو تاکا اور تیر کمان سے چھوڑ دیا تیر کا لگنا تھا کہ 6 ماہ کا معصوم بچہ امام علیہ السلام کے ہاتھوں میں دم توڑ گیا۔ امام علیہ السلام نے خون علی اصغر علیہ السلام آسمان کی طرف پھر زمین کی طرف پھینکنا چاہا مگر دونوں نے اس خون نا حق کو قبول کرنے سے انکار کر دیا ۔ بالآخر آپ علیہ السلام نے اس لہو کو اپنے چہرہ مبارک پر مل لیا ، اور فرمایا کہ " اسی حالت میں اپنے نانا کی بارگاہ میں جاوں گا " ۔

انکار آسمان کو ہے ، راضی زمیں نہیں

اصغر تمہارے خون کا ٹھکانا کہیں نہیں ۔

 

تاجدار انسانیت سید الشُہداء  امام حسین علیہ السلام کی شہادت

جب آپ علیہ السلام کا کوئی معین اور مددگار باقی نہ رہا تو آپ خود میدان کارزار میں آئے ۔

آپ علیہ السلام کے جسم مبارک پر 1951 زخم آئےاور آپ زمین پر اس طرح تشریف لائے که آپ علیہ السلام نہ تو زین پر تھے اور نہ زمین پر ۔ نماز عصر کا وقت آ چکا تھا۔ آپ سجدہ خالق میں گئے تو شِمر ملعون نے کُند خنجر سے آپ کا سر مبارک جسمِ اقدس  سے جدا کر دیا ۔

یہ المناک واقعہ  10 محرم س61 ہجری بمطابق 10 اکتوبر 680 عیسوی بروز جمعہ اس دنیا میں وقوع پزیر ہوا اور دین اسلام کی لازوال تاریخ رقم کر گیا ۔