وجہہ اللہ ، لسان اللہ اور یداللہ کا کیا مطلب ہے؟؟؟
وجہہ اللہ ، لسان اللہ اور یداللہ کا کیا مطلب ہے؟؟؟
⭕القابات امیر المؤمنين علیہ السلام لسان اللہ یداللہ عین اللہ کی وضاحت شیخ صدوق کی کتاب التوحید سے ملاحظہ فرمائیں.
القابات امیرالمؤمنين عليه السلام " یداللہ ، عین اللہ ، لسان اللہ ، جنب اللہ " کی وضاحت کتاب "التوحید " سے :-
♻ حدثنا علي بن أحمد بن محمد بن عمران الدقاق رحمه الله: قال: حدثنا محمد بن جعفر الكوفي، قال: حدثنا موسى بن عمران النخعي الكوفي، عن عمه الحسين بن يزيد، عن علي بن الحسين، عمن حدثه، عن عبد الرحمن بن كثير، عن أبي عبد الله الصادق عليه السلام، قال: إن أمير المؤمنين عليه السلام قال: أنا علم الله، وأنا قلب الله الواعي، ولسان الله الناطق، وعين الله، وجنب الله، وأنا يد الله.
قال مصنف هذا الكتاب رضي الله عنه: معنى قوله عليه السلام: وأنا قلب الله الواعي أي أنا القلب الذي جعله الله وعاء لعلمه، وقلبه إلى طاعته، وهو قلب مخلوق الله عز وجل كما هو عبد الله عز وجل، ويقال: قلب الله كما يقال: عبد الله وبيت الله وجنة الله ونار الله. وأما قوله: عين الله، فإنه يعني به: الحافظ لدين الله، وقد قال الله عز وجل: " تجري بأعيننا "(سورة القمر : ١٤ ) أي بحفظنا، وكذلك قوله عز وجل: "و لتصنع على عيني" (سورة طه : ٣٩ ) معناه على حفظي.
ترجمہ :- ہم سے علی بن احمد بن محمد بن عمران دقاق رحمة الله عليه نے بیان کیا ، انہوں نے کہا کہ ہم سے محمد بن جعفر کوفی نے بیان کیا ، انہوں نے کہا کہ ہم سے موسی بن عمران نخعی کوفی نے اپنے چچا حسین بن یزید سے ،انہوں نے علی بن حسین سے اس شخص نے اس سے جس نے حدیث بیان کی ، انہوں نے عبدالرحمن بن کثیر سے ، انہوں نے ابو عبداللہ (امام جعفر صادق علیہ السلام ) سے ، انہوں نے فرمایا کہ ،
امیر المؤمنين عليه السلام نے فرمایا کہ میں اللہ کا علم ہوں، اور میں اللہ کا زیادہ یاد کرنے والا قلب ہوں، اوراللہ کی بولنے والی زبان ، اللہ کی آنکھ، اللہ کا پہلو اوراللہ کا ہاتھ ہوں ۔
اس کتاب کے مصنف رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ آپ (ع) کے قول " و أنا قلب اللہ الواعي " کے معنی یہ ہیں کہ میں (ع) وہ قلب ہوں جس کو اللہ نے اپنے علم کا ظرف بنایا ہے اور اس قلب کو اس کی اطاعت کےلیے راغب کیا ہے اور وہ اللہ عزوجل کی طرف سے پیدا کردہ قلب ہے جس طرح وہ اللہ کا بندہ ہے اور وہ " قلب اللہ " ہے جس طرح عبداللہ ، بیت اللہ ، جنة الله اور نار اللہ کہا جاتا ہے ۔ لیکن آپ (ع) کا عین اللہ کا قول تو اس سے مراد دین اللہ کی حفاظت کرنے والا ہے ۔ اللہ عزوجل نے فرمایا: "تجري بأعيننا" (سورة القمر : ١٤ ) (وہ کشتی ہماری نگرانی میں چلتی ہے) یعنی وہ کشتی ہماری حفاظت میں چلتی ہے ۔
اور اسی طرح اللہ عزوجل کا قول:
" و لتصنع على عيني" (سورة طه : ٣٩ ) (اور تاکہ تم میری نگرانی میں پرورش کيے جاو ) اس کے معنی بھی میری حفاظت کے ہیں ۔
حوالہ: التوحید، تالیف : الشیخ الجلیل الاقدم الصدوق ابی جعفر محمد بن علی بن الحسین بابویہ القمی، باب # ٢٢ ، اللہ عزوجل کے پہلو کے معنی، حدیث # ١، صفحہ # ١٣١ (اردو ترجمہ )۔