فضائل امام على نقي عليه السلام
فضائل امام على نقي عليه السلام
ہمارے تمام آئمہ علیہم السلام صرف امت کے رہنما اور احکام قرآنی کے بیان کرنے والے نہیں تھے بلکہ شیعہ معارف کے مطابق امام علیہ السلام زمین پر اللہ کا نور، مخلوقات عالم پر اللہ کی حجت کاملہ، حیات کائنات کا محور، خالق اور مخلوق کے درمیان واسطہ فیض، روحانی کمالات کا آئنیہ نور، انسانی فضائل کا اعلٰی نمونہ، تمام اچھائیوں اور نیکیوں کا مجموعہ، علم اور قدرت خدا کا مظہر، بندگان خدا رسیدہ کا اعلٰی شاہکار، ہر طرح کے سہو و نسیاں سے پاک و صاف، رموز زمین، اسرار غیب، اور فرشتگان الٰہی کے راز دان، جن کی ولایت رسول خدا(ص) كے علاوه انبیاء و مرسلین سے بالا تر، جن کی حقیقت ان کے علاوہ کسی اور کے لئے قابل درک نہیں ہے، یہ پروردگار عالم کا خاص عطیہ ہے۔جس سے صرف حضرت محمد و آل محمد علیہم السلام سے مخصوص رکھا، طمع کرنے والے کا یہاں گزارا نہیں ہے۔ آسمان امامت کے دسویں آفتاب، ہمارے مولی، ہمارے ولی و سرپرست حضرت امام ابو الحسن علی نقی علیہ السلام نے ہم شیعوں پر یہ احسان غظیم فرمایا کہ، زیارت جامعہ کبیرہ کی شکل میں معرفت امام علیہ السلام کا لامحدود اور پیش قیمت خزانہ ہمیں عطاء فرمایا۔ (1)معارف خداوندی کے چمن کھلائے، اور علم و دانش کے گوہر روشن کئے اور اپنے دوستوں کو ان کی عقل و فہم کے مطابق رموز امامت سے روشناس کرایا ہے۔ حکمت الٰہی کے ایک گوشہ کی نقاب کشائی کی ہے۔ ہماری جانیں قربان ہوں اس خاک پاک پر جہاں امام علیہ السلام مدفون ہیں کہ ہمیں عظمت الٰہی سے آگاہ کیا اور تشنگان معرفت کو آب کوثر سے سیراب فرمایا۔ حضرت امام علی نقی علیہ السلام نے اپنے ایک دوست کی درخواست پر زیارت جامعہ کبیرہ اسے تعلیم دی تھی کہ اس طرح آئمہ علیہم السلام کی زیارت کیا کرو۔
حضرت ابوالحسن امام علی نقی علیہ السلام ہمارے دسویں امام ہیں ، آپؑ پانچ رجب المرجب (دوسری روایت کے مطابق 15ذی الحجہ) سن 212 ہجری کو مدینہ منورہ کے قریب صریا نامی قریہ میں پیدا ہوئے، یہ وہی قریہ ہے جسے امام موسیٰ کاظم علیہ السلام نے آباد کیا تھا۔ اور 3 رجب المرجب 254 ہجری کو سامرا میں معتز عباسی کے زہر دغا سے شہید ہوئے۔
آپؑ کے والد ماجد ہمارے نویں امام حضرت جواد الائمہ امام محمد تقی علیہ السلام ہیں اور والدہ ماجدہ جناب سمانہ سلام اللہ علیہا تھیں ۔ خود امام علی نقی علیہ السلام نے اپنی والدہ ماجدہ جناب سمانہ سلام اللہ علیہا کے سلسلہ میں فرمایا : أُمِّي عَارِفَةٌ بِحَقِّي، وَ هِيَ مِنْ أَهْلِ الْجَنَّةِ، لَا يَقْرَبُهَا شَيْطَانٌ مَارِدٌ، وَ لَا يَنَالُهَا كَيْدُ جَبَّارٍ عَنِيدٍ، وَ هِيَ مَكْلُوءَةٌ بِعَيْنِ اللهِ الَّتِي لَا تَنَامُ، وَ لَا تَتَخَلَّفُ عَنْ أُمَّهَاتِ الصِّدِّيقِينَ وَ الصَّالِحِينَ.میری والدہ ماجدہ کو میرے حق (حق امامت) کی معرفت ہے، وہ جنّتی خاتون ہیں، سرکش شیطان ان سے قریب نہیں ہو سکتا اور نہ ہی کسی مکار کی مکاری کی ان تک رسائی ممکن ہے، وہ چشم خدا کے زیر نظر ہیں جو کبھی غفلت کا شکار نہیں ہوتی۔ صدیقین اور صالحین کی ماؤوں اور ان میں کوئی فرق نہیں ہے۔
امام کا کلام ، کلاموں کا امام ہوتا ہے کیوں کہ وہ وہی کہتے ہیں جو اللہ و رسول ؐ کہتے ہیں ۔ امام علی نقی علیہ السلام کے مذکورہ فقرات سے جناب سمانہ سلام اللہ علیہا کی فضیلتوں اور عظمتوں کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
ہمارے دسویں امام ؑ کا نام نامی اسم گرامی علیؑ، کنیت ابوالحسن ثالث اور القاب نقی، ہادی، طیب ، امین ، ناصح اور مرتضیٰ ہے۔ ماہ ذی القعدہ کے آخری دن سن 220 ہجری کو جب آپؑ کے والد ماجد حضرت امام محمد تقی علیہ السلام کی بغداد میں ام الفضل کے ذریعہ معتصم عباسی کے زہر دغا سے شہادت ہو ئی تو منصب امامت کی ذمہ داری آپؑ پر آئی ۔ اس وقت آپ ؑ کی عمر مبارک محض سات سے آٹھ برس تھی۔ آپ ؑ کے دورہ امامت میں چھ عباسی حکمرانوں نے حکومت کی ۔ معتصم، واثق، متوکل، منتصر، مستعین اور معتز نے یکے بعد دیگرے تخت حکومت پر بیٹھے۔ اگرچہ سب کے سب ظالم و جابر اور سنگ دل تھے لیکن متوکل ان سب میں سب سے زیادہ ظالم وجابر اور دشمن اہلبیتؑ تھا۔ دوسرے عباسی حکمرانوں کے بہ نسبت متوکل کے دور حکومت میں شیعہ زیادہ سختی میں تھے۔ حکومت کی جانب سے ملنے والی تمام سہولتیں شیعوں کے لئے بند کر دی گئیں، اسے اگر معلوم ہوتا کہ فلاں شخص شیعہ ہے تو وہ اسے قتل کرا دیتا اور مال کو ضبط کر لیتا ، یہاں تک کہ متوکل نے مصر کے گورنر کو حکم دیا کہ اگر ایک شیعہ اور غیر شیعہ میں اختلاف ہو تو غیر شیعہ کی ہی بات سنی جائے اور اسی کے حق میں فیصلہ دیا جائے۔ متوکل ملعون امیرالمومنین علیہ السلام کا اس قدر شدید مخالف اور دشمن تھا کہ اس کے دربار میں درباری مسخرے امیرالمومنین علیہ السلام کی نقل اتارتے اور مذاق اڑاتے تو وہ انہیں انعامات سے نوازتا ، اسی طرح اس ملعون متوکل نے مظلوم کربلا امام حسین علیہ السلام کی قبر مبارک پرحملہ کرتے ہوئے وہاں موجود تمام عمارتوں کو منہدم کرا دیا اور زیارت پر پابندی عائد کر دی۔ روایت میں ہے کہ ایسے پر آٓشوب دور میں جب امام علی نقی علیہ السلام بیمار ہوئے تو باوجود اس کے کہ آپؑ حجت خدا ہیں ، ولایت تکوینی رکھتے ہیں کہ اگر صرف ارادہ کر لیتے تو رو بہ صحت ہو جاتے لیکن آپؑ نے ایک شخص کو زاد راہ دی اور فرمایا: کربلا جاؤ ، زیارت کرو اور وہاں میری صحت یابی کی دعا کرو۔ تا کہ لوگ زیارت امام مظلوم ؑ سے کبھی غافل نہ ہوسکیں ۔
امام علی نقی علیہ السلام کا دور امامت 34 برس رہا ، 220 ہجری سے 233 ہجری اور بعض دیگر روایات کے مطابق 243 ہجری تک آپ ؑ مدینہ منورہ میں رہے اور باقی عمر سامرہ میں بسر کی۔ آخر کے اماموں کی زندگی کا مطالعہ کرنے سے پہلے یہ نکتہ ہمارے ذہن نشین رہے کہ جیسے جیسے منجی عالم بشریت حضرت ولی عصر امام مہدی عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف کی ولادت با سعادت کے ایام نزدیک آ رہے تھے ویسے ویسے ہمارے اماموں پر حکومت کی جانب سے سختیاں بھی بڑھ رہی تھیں ، کیوں کہ ہر ظالم حاکم جانتا تھا کہ جس مولود کی بشارت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور ائمہ ہدیٰ علیہم السلام نے دی ہے وہ فخر ابراہیمؑ و موسیٰؑ ہے وہ نہ صرف ایک نمرود و فرعون بلکہ دنیا کے تمام نمرودوں اور فرعونوں کا تختہ الٹ دے گا۔ لہذا متوکل نے امام علی نقی علیہ السلام کو مدینہ منورہ سے بلا کر سامرہ میں فوجی چھاؤنی میں رکھا تا کہ نزدیک سے مکمل آگاہی رہے۔ سامرہ میں لوگوں سے ملاقات پر پابندی تھی کہ کوئی آپؑ سے ملاقات نہ کر سکے۔ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ جب سختیاں اس قدر شدید ہوں تو کار ہدایت کتنا مشکل ہو گا۔ دوسری جانب طرح طرح کے فرقے اور نظریات بھی وجود میں آ رہے تھے خصوصاً لوگوں کو اہلبیت اطہار علیہم السلام سے دور رکھنے کی ہر ممکن کی کوشش کی جا رہی تھی اور ائمہ ہدیٰ علیہم السلام کے عظمتوں کو کم کرنے کی ناکام کوششیں جاری تھیں ۔ امام علی نقی علیہ السلام نے ایسے عالم میں زیارت جامعہ کبیرہ تعلیم کر کے رہتی تک لوگوں کو ائمہ ہدیٰ علیہم السلام کی فضیلتوں اور عظمتوں سے واقف کرایا ۔ نیز جب آپؑ مدینہ سے سامرہ تشریف لا رہے تھے تو راستے میں نجف اشرف میں اپنے جد امیرالمومنین علیہ السلام کی زیارت کے لئے بھی تشریف لے گئے۔ آپؑ نے جس دن امیرالمومنین علیہ السلام کی زیارت کی وہ روز غدیر 18 ذی الحجہ تھا۔ یہ زیارت غدیر آپؑ ہی کی تعلیم کردہ زیارت ہے جسمیں آپؑ نے امیرالمومنین علیہ السلام کی 150 فضیلتوں کو بیان کیا ہے۔ ان بیان فضائل سے جہاں مقصرین کی سازشیں ناکام ہوتی ہیں وہیں غالیوں کی گمراہی بھی واضح ہوتی ہے۔
اس پر آشوب ماحول میں جب لوگوں کے لئے حجت خدا سے ملاقات ممکن نہیں تھی تو آپؑ نے مختلف علاقوں میں اپنے نمائندے اور وکیل معین کئے اور مومنین کو حکم دیا کہ شرعی رقومات ان کو دیں اور اپنے دینی سوالات بھی انہیں سے پوچھیں کیوں کہ وہ جو بھی بتائیں گے وہ میری ہی بات ہوگی۔ اس طرح نمائندگی اور وکالت جہاں وقت کی ضرورت تھی وہیں شیعوں کی عصر غیبت میں حصول رہنمائی کی تربیت بھی تھی کہ جب بارہویں امام ؑ غیبت اختیار کر لیں تو امت اپنے کو بغیر سرپرست کے نہ سمجھے بلکہ فقہاء اور مراجع کرام کی جانب رجوع کرے۔
امام علی نقی علیہ السلام کے معجزات و کرامات
آپؑ کے صحابی ابو ہاشم جعفری کا بیان ہے کہ ایک بار میں امامؑ کے ساتھ جا رہا تھا۔ قرض اور فقر سے دل ملول تھا کہ امام علی نقی علیہ السلام نے زمین پر تلوار ماری اور مجھے حکم دیا کہ اٹھا لو ، میں نے اٹھا یا تو وہ سونا تھا ، دل مطمئن ہو گیا کہ قرض ادا ہو جائے گا لیکن خرچ کی فکر پھر بھی دامن گیر تھی کہ امامؑ نے دوبارہ زمین پر تلوار ماری اور حکم دیا کہ اٹھا لو، اٹھایا تو چاندی تھی۔ آپؑ نے فرمایا ابوہاشم اب اطمینان حاصل ہوا۔ انہیں ابوہاشم سے روایت ہے کہ ایک سندھ کا رہنے والا امام نقی ؑ کی خدمت میں آیا اور اس نے عربی زبان میں سوال کیا تو آپ ؑ نے اسے سندھی زبان میں جواب دیا ۔ مجھے بہت تعجب ہوا ، جب وہ چلا گیا تو میں نے تعجب کا اظہار کیا ۔امام ؑ نے زمین پر پڑی کنکری کی جانب اشارہ کرتے ہوئے اٹھانے کا حکم دیا، امام ؑ نے اس کنکری پر تھوڑا سا لعاب دہن لگا کر فرمایا کہ اسے اپنے دہن میں رکھ لو ۔ میں نے جیسے ہی دہن میں رکھا تو میں بھی 73 زبانوں کا عالم ہو گیا۔ ایسا نہیں کہ ہمارے ائمہ علیہم السلام کا لطف و کرم صرف اپنے شیعوں کے شامل حال تھا بلکہ اگر غیر بھی متمسک ہوئے تو وہ بھی سرفراز ہوئے۔ یوسف بن یعقوب نصرانی کو آپؑ سے توسل کے سبب متوکل کے شر سے نجات ملی اور خود متوکل کی ماں نے جب آپؑ سے توسل کیا تو متوکل کو لا علاج بیماری سے نجات ملی۔
1- جود و کرم
امام محمد نقی علیہ السلام کی ایک خصوصیت یہ تھی کہ آپ لوگوں میں سب سے زیادہ سخی اورسب سے نیکی و احسان کرنے والے تھے۔آپ کے جودوکرم کے بعض واقعات ذیل میں درج کئے جاتے ہیں:
۱۔اسحاق جلّاب سے روایت ہے:میں نے یوم الترویہ (۸ ذی الحجہ)امام علی نقی علیہ السلام کے لئے بہت زیادہ گوسفندخریدے جن کوآپ نے تمام دوستوں واحباب (2) میں تقسیم فرمادیا۔شیعوں کے بزرگ افراد کی جماعت کاایک وفدآپ ؑ کے پاس پہنچاجس میں ابوعمروعثمان بن سعید، احمد بن اسحاق اشعری اور علی بن جعفر ہمدانی تھے ،احمد بن اسحق نے آپ سے اپنے مقروض ہونے کے متعلق عرض کیا توآپ ؑ نے اپنے وکیل عمروسے فرمایا:"ان کواورعلی بن جعفر کوتین تین ہزاردیناردیدو"،آپ کے وکیل نے یہ مبلغ ان دونوں کوعطاکردی۔
ابن شہرآشوب نے اس علوی کرامت بیان پر یہ حاشیہ لگایا: یہ وہ معجزہ ہے جس پر بادشاہوں کے علاوہ اور کوئی قادر نہیں ہوسکتا اور ہم نے اس طرح کی عطا وبخشش کے مثل کسی سے نہیں سنا ہے ۔(3)
امام ؑ نے ان بزرگ افراد پر اس طرح کی بہت زیادہ جودوبخشش کی اور انہیں عیش وعشرت میں رکھااور یہ فطری بات ہے کہ بہترین بخشش کسی نعمت کا باقی رکھناہے ۔
۲۔ابوہاشم نے امام ؑ سے اپنی روزی کی تنگی کا شکوہ کیا اور امام ؑ نے آپ پر گذرنے والے فاقوں کا مشاہدہ فرمایاتوآپ نے اس کے رنج وغم کودورکرنے کیلئے اس سے فرمایا!"اے ابوہاشم! تم خودپر خدا کی کس نعمت کاشکریہ اداکرناچاہتے ہو؟اللہ نے تجھے ایمان کارزق دیااوراس کے ذریعہ تیرے بدن کوجہنم کی آگ پرحرام قراردیا،اس نے تجھے عافیت کارزق عطاکیاجس نے اللہ کی اطاعت کرنے پرتیری مددکی اور تجھے قناعت کارزق عطاکیاجس نے تجھے اسراف سے بچایا۔"
پھر آپ ؑ نے اس کو سو درہم دینے کا حکم صادر فرمایا۔(4)
امام علی نقی ؑ نے لوگوں کو جو نعمتیں دی ہیں یہ وہ بہت بڑی نعمتیں ہیں جو اللہ نے اپنے بندوں کوعطا کی ہیں ۔
امام ؑ کا اپنے مزرعہ (كھيت )میں کام کرنا
امام ؑ اپنے اہل و عیال کی معیشت کیلئے مزرعہ میں کام کر تے تھے ،علی بن حمزہ سے روایت ہے :
میں نے امام علی نقی ؑ کو مزرعہ میں کام کرتے دیکھا جبکہ آپ ؑ کے قدموں پر پسینہ آرہا تھا ۔میں نے آپ ؑ کی خدمت با برکت میں عرض کیا :میری جان آپ ؑ پر فدا ہو! کام کرنے والے کہاں ہیں ؟
امام ؑ نے بڑے ہی فخر سے اس کے اعتراض کی تنقید کر تے ہوئے یوں فرمایا: "زمین پربیلچہ سے کام ان لوگوں نے بھی کیاجو مجھ سے اور میرے باپ سے بہتر تھے ؟"
وہ کون تھے ؟
"رسول اللہ(ص) ،امیر المو منین اور میرے آباء سب نے اپنے ہاتھوں سے کام کیا ،یہ انبیاء مرسلین ،اوصیاء اور صالحین کا عمل ہے ۔"(5)
2- زہد
حضرت امام علی نقی ؑ نے اپنی پوری زند گی میں زہد اختیار کیا ،اور دنیا کی کسی چیز کو کو ئی اہمیت نہیں دی مگر یہ کہ اس چیز کا حق سے رابطہ ہو ، آپ ؑ نے ہر چیز پر اللہ کی اطاعت کو ترجیح دی۔ راویوں کا کہنا ہے کہ مدینہ اور سامراء میں آپ ؑ کے مکان میں کو ئی چیز نہیں تھی ،متوکل کی پولس نے آپ ؑ کے مکان پر چھاپا مارا اور بہت ہی دقیق طور پر تلاشی لی لیکن ان کو دنیا کی زند گی کی طرف ما ئل کر نے والی کو ئی چیز نہیں ملی ،امام ؑ ایک کھلے ہوئے گھر میں بالوں کی ایک ردا پہنے ہوئے تھے ،اور آپ ؑ زمین پر بغیر فرش کے ریت اور کنکریوں پر تشریف فرما تھے ۔
سبط احمد جوزی کا کہنا ہے : بیشک امام علی نقی ؑ دنیا کی کسی چیز سے بھی رغبت نہیں رکھتے تھے ، آپ ؑ مسجد سے اس طرح وابستہ تھے جیسے اس کالازمہ ہوں ،جب آپ ؑ کے گھر کی تلاشی لی تو اس میں مصاحف ، دعاؤں اور علمی کتابوں کے علاوہ اور کچھ نہیں پایا ۔
حضرت امام علی نقی ؑ اپنے جد امیرالمو منین ؑ کی طرح زندگی بسر کر تے تھے جو دنیا میں سب سے زیادہ زاہد تھے ،انھوں نے دنیا کو تین مرتبہ طلاق دی تھی جس کے بعد رجوع نہیں کیا جاتا ہے ،اپنی خلافت کے دوران انھوں نے مال غنیمت میں سے کبھی اپنے حصہ سے زیادہ نہیں لیا ،آپ ؑ کبھی کبھی بھوک کی وجہ سے اپنے شکم پر پتھر باندھتے تھے، وہ اپنے ہاتھ سے لیف خرما کی بنا ئی ہو ئی نعلین پہنتے تھے، اسی طرح آپ ؑ کا حزام "تسمہ" بھی لیف خرما کاتھا ،اسی طریقہ پر امام علی نقی ؑ اور دوسرے ائمہ علیہم السلام گامزن رہے انھوں نے غریبوں کے ساتھ زندگی کی سختی اور سخت لباس پہننے میں مواسات فرما ئی ۔
3- علم
حضرت امام علی نقی ؑ علمی میدان میں دنیا کے تمام علماء سے زیادہ علم رکھتے تھے ،آپ ؑ تمام قسم کے علوم و معارف سے آگاہ تھے ،آپ ؑ نے حقائق کے اسرار اور مخفی امور کو واضح کیا ،تمام علماء و فقہاء شریعت اسلامیہ کے پیچیدہ اور پوشیدہ مسا ئل میں آپ ؑ ہی کے روشن و منور نظریے کی طرف رجوع کرتے تھے ،آپ ؑ اور آپ ؑ کے آباء و اجداد کا سخت دشمن متوکل بھی جس مسئلہ میں فقہا میں اختلاف پاتا تھا اس میں آپ ؑ ہی کی طرف رجوع کر تا تھا اور سب کے نظریات پر آپ ؑ کے نظریہ کو مقدم رکھتا تھاہم ذیل میں وہ مسائل پیش کررہے ہیں جن میں متوکل نے امام ؑ کی طرف رجوع کیا ہے :
۱۔متوکل کا ایک نصرا نی کاتب تھا جس کی بات کو وہ بہت زیادہ مانتا تھا ،اس سے خالص محبت کرتا تھا ،اس کا نام لیکر نہیں پکارتا تھا بلکہ اس کو ابو نوح کی کنیت سے آواز دیا کر تاتھا، فقہا ء کی ایک جماعت نے اس کو ابو نوح کی کنیت دینے سے منع کرتے ہوئے کہا :کسی کافر کومسلمان کی کنیت دینا جا ئز نہیں ہے ، دوسرے ایک گروہ نے اس کو کنیت دینا جا ئز قرار دیدیا،تو اس سلسلہ میں متوکل نے امام ؑ سے استفتا کیا۔امام ؑ نے اس کے جواب میں بسم اللہ الرحمن الرحیم کے بعدیہ آیت تحریر فرما ئی : (تَبَّتْ يَدَا أَبِي لَهَبٍ وَتَبَّ) ،(6)"ابولہب کے ہاتھ ٹوٹ جا ئیں اور وہ ہلاک ہو جا ئے ۔"امام علی نقی ؑ نے آیت کے ذریعہ کافرکی کنیت کے جواز پردلیل پیش فرما ئی اور متوکل نے امام ؑ کی رائے تسلیم کر لی ۔(7)
۲۔متوکل نے بیماری کی حالت میں اللہ تبارک و تعالیٰ سے نذر کی کہ اگر میں اچھا ہو گیا تو درہم کثیرصدقہ دونگا ،جب وہ اچھا ہو گیا تو اُس نے فقہا ء کو جمع کر کے اُ ن سے صدقہ کی مقدار کے سلسلہ میں سوال کیا فقہاء میں صدقہ دینے کی مقدار کے متعلق اختلاف ہو گیا ،متوکل نے اس سلسلہ میں امام ؑ سے فتویٰ طلب کیا تو امام ؑ نے جواب میں ۸۳دینار صدقہ دینے کے لئے فرمایا ،فقہا ء نے اس فتوے سے تعجب کا اظہار کیا ، انھوں نے متوکل سے کہا کہ وہ امام ؑ سے اس فتوے کا مدرک معلوم کرے تو امام ؑ نے اُن کے جواب میں فرمایا : خداوند عالم فرماتا ہے :( لَقَدْ نَصَرَکُمْ اﷲُ فِی مَوَاطِنَ کَثِيرَۃٍ )، (8)"بیشک اللہ نے کثیر مقامات پر تمہاری مدد کی ہے ،"اور ہمارے سب راویوں نے روایت کی ہے کہ سرایا کی تعداد ۸۳ تھی ۔(9)
امام ؑ نے جواب کے آخر میں مزید فرمایا :"جب کبھی امیر المو منین ؑ اچھے نیک کام میں اضافہ فرماتے تھے تو وہ اُن سب کے لئے دنیا و آخرت میں سب سے زیادہ منفعت آور ہوتا تھا ۔"(10)
۳۔ متوکل کے پاس ایک ایسے نصرانی شخص کو لایا گیا جس نے مسلمان عورت سے زنا کیا تھا ،جب متوکل نے اُس پر حد جاری کرنے کا ارادہ کیا تو وہ مسلمان ہو گیا ،یحییٰ بن اکثم نے کہا :اس کے ایمان کے ذریعہ اُ س کا شرک اور فعل نابودہو گیا ،بعض فقہا ء نے اُس پر تین طرح کی حد جاری کرنے کا فتویٰ دیا ،بعض فقہا ء نے اس کے خلاف فتویٰ دیا ،تو متوکل نے یہ مسئلہ امام علی نقی ؑ کی خدمت میں پیش کیا،آپ ؑ نے جواب میں فرمایا کہ اس کو اتنا مارا جائے کہ وہ مرجائے ،یحییٰ اور بقیہ فقہاء نے اس کا انکار کرتے ہوئے کہا :ایسا کتاب و سنت میں نہیں آیا ہے ۔ متوکل نے ایک خط امام ؑ کی خدمت میں تحریر کیا جس میں لکھا : مسلمان فقہا اس کا انکار کر رہے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ یہ کتاب خدا اور سنتِ رسول میں نہیں آیا ہے۔ لہٰذا آپ ؑ ہمارے لئے یہ بیان فرما دیجئے کہ آپ ؑ نے یہ فتویٰ کیوں دیا ہے کہ اس کو اتنا مارا جائے جس سے وہ مرجائے ؟ امام ؑ نے جواب میں بسم اللہ الرحمن الرحیم کے بعد یہ آیت تحریر فر ما ئی :(فَلَمَّا جَاءَتْهُمْ رُسُلُهُمْ بِالْبَيِّنَاتِ فَرِحُوا بِمَا عِنْدَهُمْ مِنَ الْعِلْمِ وَحَاقَ بِهِمْ مَا كَانُوا بِهِ يَسْتَهْزِئُونَ)۔(11)"پھر جب اُن کے پاس رسول معجزات لیکر آئے تواپنے علم پر ناز کرنے لگے ،اور نتیجہ میں جس بات کا مذاق اڑارہے تھے اسی نے اپنے گھیرے میں لے لیا ہے ۔پھر جب انھوں نے ہمارے عذاب کو دیکھا تو کہنے لگے کہ ہم خدائے یکتا پر ایمان لائے ہیں اور جن باتوں کا شرک کیا کرتے تھے سب کا انکار کررہے ہیں ۔" اور متوکل نے امام ؑ کا نظریہ تسلیم کر لیا۔(۱2)
امام ؑ کے امتحان کے لئے متوکل کا ابن سکیت کو بلانا
متوکل نے ایک بہت بڑے عالم دین یعقوب بن اسحاق جو ابن سکیت کے نام سے مشہور تھے کو امام علی نقی ؑ سے ایسے مشکل مسائل پوچھنے کی غرض سے بلایا جن کو امام ؑ حل نہ کر سکیں اور اُ ن کے ذریعہ سے امام ؑ کی تشہیر کی جا سکے ۔ابن سکیت امام علی نقی ؑ کا امتحان لینے کیلئے مشکل سے مشکل مسائل تلاش کرنے لگا کچھ مدت کے بعد وہ امام ؑ سے سوالات کرنے کیلئے تیار ہو گیا تو متوکل نے اپنے قصر (محل )میں ایک اجلاس بلایاتو ابن سکیت نے امام علی نقی ؑ سے یوں سوال کیا :
اللہ نے حضرت موسیٰ ؑ کو عصا اور ید بیضا دے کر کیوں مبعوث کیا ،حضرت عیسیٰ کو اندھوں ، برص کے مریض اور مردوں کو زندہ کرنے کے لئے کیوں مبعوث کیا، اور حضرت محمد مصطفےٰ ﷺ کو قرآن اور تلوار دے کر کیوں مبعوث کیا ؟
حضرت امام علی نقی علیہ السلام نے جواب میں یوں فرمایا :"اللہ نے حضرت مو سیٰ ؑ کو عصا اور ید بیضا دے کر اس لئے بھیجا کہ ان کے زمانہ میں جادو گروں کا بہت زیادہ غلبہ تھا ،جن کے ذریعہ ان کے جادو کومغلوب کردے، وہ حیرا ن رہ جا ئیں اور ان کے لئے حجت ثابت ہو جا ئے ،حضرت عیسیٰ ؑ کواندھوں اور مبروص کوصحیح کرنے اور اللہ کے اذن سے مردوں کو زندہ کرنے کیلئے مبعوث کیا کیونکہ ان کے زمانہ میں طبابت اور حکمت کا زور تھا، خدا وند عالم نے آپ ؑ کو یہ چیزیں اس لئے عطا کیں تاکہ ان کے ذریعہ اُن کو مغلوب کردیں اور وہ حیران رہ جا ئیں ،اور حضرت محمد ؐ کوقرآن اور تلوار دے کر اس لئے مبعوث کیا کیونکہ آپ ؐ کے زمانہ میں تلوار اور شعر کا بہت زیادہ زور تھااور وہ نورانی قرآن کے ذریعہ ان کے اشعار پر غالب آگئے اور زبردست تلوار کے ذریعہ ان کی تلواروں کو چکا چوندکردیا اور ان پر حجت تمام فرما دی ۔"
بہر حال ابن سکیت نے امام ؑ سے سوال کیا کہ حجت کسے کہتے ہیں ؟آپ ؑ نے فرمایا :''العقل یُعرفُ به الکاذبَ علی الله فیُکذَّبُ۔"
ابن سکیت امام ؑ کے ساتھ مناظرہ کرنے سے عاجز رہ گیایحییٰ بن اکثم نے اس کو پکارا تو اس نے جواب دیا:ابن سکیت اور اس کے مناظروں کو کیا ہو گیا ہے یہ صاحبِ نحو ،شعر اور لغت تھا۔(۱3)
4-عبادت
ائمہ ہدی علیہم السلام کی ایک صفت خدا وند عالم سے تو بہ کرنا ہے کیونکہ خدا سے محبت ان کے اعضا و جوارح میں مجذوب ہوگئی ہے ،وہ اکثر ایام میں روزہ رکھتے ہیں راتوں میں نمازیں پڑھتے ہیں،اللہ سے مناجات کرتے ہیں اور اس کی کتاب قرآن مجید کی تلاوت فرماتے تھے ۔
درندوں کا تسلیم ہونا
شیخ سلیمان بلخی کا شمار اہل سنت کے بڑے علماء میں ہوتا ہے۔ اپنی کتاب "ینابیع" میں لکھتے ہیں کہ متوکل کے حکم پر تین بھوكے درندے متوکل کے محل میں لائے گئے، اسی وقت متوکل نے امام علی نقی علیہ السلام کو اپنے ہاں بلایا، جب آپ محل میں داخل ہوئے اس نے محل کا دروازہ بند کر دیا، درندے امام علیہ السلام کے گرد گھومنے لگے، امام علیہ السلام اپنی آستین سے درندوں کو پیار کر رہے تھے۔ اس کے بعد امام علیہ السلام اوپر متوکل کے پاس تشریف لے گئے۔ کچھ دیر گفتگو کرتے رہے جب نیچے پہنچے تو پھر درندے آپ کے گرد گھومنے لگے یہاں تک کہ امام علیہ السلام محل سے باہر تشریف لے گئے متوکل نے امام علیہ السلام کو قیمتی تحفہ بھیجا۔ لوگوں نے متوکل سے کہا، تم نے دیکھا یہ درندے امام علیہ السلام کے ساتھ کیسے پیش آئے، تم بھی اسی طرح کرو، متوکل نے کہا تم لوگ مجھے قتل کرانا چاہتے ہو اور فورا حکم دیا کہ اس واقعہ کی خبر کسی اور کو نہ ہونے پائے۔ (14)
امام ؑ پراقتصادی پا بندی
متوکل نے امام ؑ پر بہت سخت اقتصا دی پا بندی عائد کی ،شیعوں میں سے جو شخص بھی امام ؑ کو حقوق شرعیہ یا دوسری رقومات ادا کرے گا اس کو بے انتہاسخت سزا دینا معین کر دیا ،امام ؑ اور تمام علوی افراد متوکل کے دور میں اقتصادی لحاظ سے تنگ رہے ،مو منین حکومت کے خوف سے آپ ؑ تک حقوق نہیں پہنچا پاتے تھے ، مومنین اپنے حقوق شرعیہ ایک روغن فروش کے پاس پہنچا دیتے تھے اور وہ اُن کو آپ ؑ کے لئے بھیج دیا کرتا تھا اور حکومت کو اس کی کو ئی خبر نہیں تھی ،اسی وجہ سے امام ؑ کے بعض اصحاب کو دہا نین(روغن فروش ) کے لقب سے یاد کیاگیا ہے ۔(۱5)
امام ؑ کو نظر بند کرنا
متوکل نے امام ؑ کو نظر بند کرنے اور قید خانہ میں ڈالنے کا حکم دیدیا ،جب آپ ؑ کچھ مدت قید خانہ میں رہے تو صقر بن ابی دلف آپ ؑ سے ملاقات کیلئے قید خانہ میں آیا ،نگہبان نے اُس کا استقبال کیا اور تعظیم کی ، دربان جانتا تھا کہ یہ شیعہ ہے تو اُ س نے کہا :آپ ؑ کا کیا حال ہے اور آپ ؑ یہاں کیوں آئے ہیں ؟
خیر کی نیت سے آیاہوں ۔
شاید آپ ؑ اپنے مولا کی خبر گیری کے لئے آئے ہیں ؟
میرے مو لا امیر المو منین ،یعنی متوکل ۔
دربان نے مسکراتے ہوئے کہا :خا موش رہئے ،آپ ؑ کے حقیقی اور حق دار مو لا (یعنی امام علی نقی ؑ )، مت گھبراؤ میں بھی شیعہ ہی ہوں ۔
الحمد للّٰہ ۔
کیا آپ امام ؑ کا دیدار کرنا چا ہتے ہیں ؟
ہاں ۔
ڈاکیہ کے چلے جانے تک تشریف رکھئے ۔
جب ڈاکیہ چلا گیا تو دربان نے اپنے غلام سے کہا :صقر کا ہاتھ پکڑ کر اُ س کمرہ میں لے جاؤ جہاں پر علوی قید ہیں اور اِن دونوں کو تنہا چھوڑ دینا ،غلام اُن کا ہاتھ پکڑ کر امام ؑ کے پاس لے گیا ،امام ؑ ایک چٹا ئی پر بیٹھے ہوئے تھے اور وہیں پر آپ ؑ کے پاس قبر کھدی ہو ئی تھی متوکل نے اس سے امام ؑ کوڈرانے کا حکم دیا، امام ؑ نے صقر سے فرمایا:اے صقر کیسے آنا ہوا ؟
صقر :میں آپ ؑ کی خبر گیری کے لئے آیا ہوں ۔
صقر امام ؑ کے خوف سے گریہ کرنے لگے تو امام ؑ نے ان سے فرمایا :''اے صقر مت گھبراؤ وہ ہم کو کو ئی گزند نہیں پہنچا سکتا۔"
صقر نے ہمت با ندھی ،خدا کی حمد و ثنا کی ،اس کے بعد امام ؑ سے کچھ شرعی مسا ئل دریافت کئے اور امام ؑ نے ان کے جوابات بیان فرمائے اور صقر امام ؑ کو خدا حافظ کرکے چلے آئے ۔(۱6)
امام ؑ کا متوکل کے لئے بد دعا کرنا
امام ؑ علی نقی ؑ متوکل کی سختیوں سے تنگ آگئے ، اُس نے اپنی سنگد لی کی بنا پر امام ؑ پر ہر طرح سے سختیاں کیں اُ س وقت امام ؑ نے اللہ کی پناہ ما نگی اور ائمہ اہل بیت ؑ کی سب سے اجلّ و اشرف دعا کی جس کو مظلوم کی ظالم پر بد دعا کے نام سے یاد کیا جاتا ہے وہ دعاؤں کے خزانہ میں سے ايك دعا ہے .
امام ؑ کا متوکل کے ہلاک ہونے کی خبر دینا
متوکل نے مجمع عام میں امام علی نقی ؑ کی شان و منزلت کم کرنے کیلئے ہر طرح کے ہتھکنڈے اپنائے ، اُ س نے اپنی رعایا کے تمام افراد کو امام ؑ کے پاس چلنے کا حکم دیا ،انھوں نے ایسا ہی کیا ،گر می کا وقت تھا ،گر می کی شدت کی وجہ سے امام ؑ اُن کے سامنے پسینہ میں شرابور ہوگئے ،متوکل کے دربان نے جب امام ؑ کو دیکھا تو فوراً آپ ؑ کو دہلیز میں لا کر بٹھایا رومال سے امام ؑ کا پسینہ صاف کر نے لگا اور یہ کہہ کر حزن و غم دور کرنے لگا:ابن عمک لم یقصدک بهذا دون غیرک۔تیرے چچا زاد بھائی کا اس سے تیرے علاوہ اور کو ئی ارادہ نہیں ہے ۔امام ؑ نے اس سے فرمایا :''ايها عنک "،اُس کے بعد قرآن کریم کی اس آیت کی تلاوت فرما ئی : (تَمَتَّعُوا فِی دَارِکُمْ ثَلَاثَةَ أَيَّامٍ ذَلِکَ وَعْدٌ غَيرُ مَکْذُوب)(۱7) "اپنے گھروں میں تین دن تک اور آرام کرو کہ یہ وعدۂ الٰہی ہے جو غلط نہیں ہو سکتا ہے ۔"
زراقہ کا کہنا ہے کہ میرا ایک شیعہ دوست تھا جس سے بہت زیادہ ہنسی مذاق کیا کرتا تھا، جب میں اپنے گھر پہنچا تو میں نے اس کو بلا بھیجا جب وہ آیا تو میں نے امام ؑ سے سنی ہو ئی خبر اس تک پہنچا ئی تو اس کے چہرے کا رنگ متغیر ہو گیا اور اس نے مجھ سے کہا :دیکھو جو کچھ تمہارا خزانہ ہے اس کو اپنے قبضہ میں لے لو ،چونکہ متوکل کو تین دن کے بعد موت آجا ئے گی یا وہ قتل ہو جا ئے گا ، اور امام ؑ نے شہادت کے طور پر قرآن کریم کی یہ آیت پیش کی ہے ،معلم کی بات زراقہ کی سمجھ میں آگئی اور اُس نے کہا : میرے لئے اس بات پر یقین کرنے میں کو ئی ضرر نہیں ہے، اگر یہ بات صحیح ہے تو میں نے یقین کر ہی لیا ہے اور اگر ایسا نہیں ہے تو اس میں میرا کوئی نقصان نہیں ہے ۔میں متوکل کے گھر پہنچا ،اور وہاں سے اپنا سارا مال لے کر اپنے جاننے والے ایک شخص کے پاس رکھ دیا ،اور تین دن نہیں گذرے تھے کہ متوکل ہلاک ہوگیا ،یہ سبقت زراقہ کی رہنما ئی اور اس سے امامت سے سخت لگاؤ کا سبب بن گئی ۔(18)
امام پر قاتلانہ حملہ
امام ؑ ،معتمد عباسی پر بہت گراں گذر رہے تھے ،امام اسلامی معاشرہ میں عظیم مرتبہ پر فائز تھے جب امام ؑ کے فضائل شائع ہوئے تو اس کو امام ؑ سے حسد ہو گیا اور جب مختلف مکاتب فکر کے افراد اُن کی علمی صلاحیتوں اور دین سے اُن کی والہانہ محبت کے سلسلہ میں گفتگو کرتے تو وہ اور جلتا اُس نے امام ؑ کو زہر ہلاہل دیدیا ، جب امام ؑ نے زہر پیا تو آپ ؑ کا پورا بدن مسموم ہو گیا اور آپ ؑ مریض ہو گئے . آپ ؑ کی عیادت کے لئے لوگوں کی بھیڑ اُمڈ پڑی ،منجملہ اُن میں سے ابوہاشم جعفری نے آپ ؑ کی عیادت کی جب اُنھوں نے امام ؑ کو زہر کے درد میں مبتلا دیکھا تو پھوٹ پھوٹ کر رونے لگے . آپ کی روح پاک ملائکۂ رحمن کے سایہ میں خدا کی بارگاہ میں پہنچ گئی ،آپ ؑ کی آمد سے آخرت روشن و منور ہو گئی ،اور آپ ؑ کے فقدان سے دنیا میں اندھیرا چھا گیا ،کمزوروں اور محروموں کے حقوق سے دفاع کرنے والے قائد ور ہبر نے انتقال کیا ۔
تجہیز و تکفین
آپ ؑ کے فرزند ارجمند امام حسن عسکری ؑ نے آپ ؑ کی تجہیز و تکفین کی ،آپ ؑ کے جسد طاہر کو غسل دیا،کفن پہنایا،نماز میت ادا فر ما ئی ،جبکہ آپ کی نکھوں سے آنسو رواں تھے آپ ؑ کا جگر اپنے والد بزرگوار کی وفات حسرت آیات پر ٹکڑے ٹکڑے ہوا جا رہا تھا ۔
تشییع جنازہ
سامرا ء میں ہر طبقہ کے افراد آپ ؑ کی تشییع جنازہ کیلئے دوڑ کر آئے ،آپ کی تشییع جنازہ میں آگے آگے وزراء ،علماء ،قضات اور سر براہان لشکر تھے ، وہ مصیبت کا احسا س کر رہے تھے اور وہ اس خسارہ کے سلسلہ میں گفتگو کر رہے تھے جس سے عالم اسلام دو چار ہوا اور اس کا کو ئی عوض نہیں تھا ، سامراء میں ایسا اجتماع بے نظیر تھا ،یہ ایسا بے نظیر اجتماع تھا جس میں حکومتی پیمانہ پر ادارے اور تجارت گاہیں وغیرہ بند کر دی گئی تھیں ۔
ابدی آرام گاہ
امام علی نقی ؑ کا جسم اقدس تکبیر اور تعظیم کے ساتھ آپ ؑ کی ابدی آرامگاہ تک لایا گیاآپ ؑ کوخود آپ ؑ کے گھرمیں دفن کیا گیاجو آپ ؑ کے خاندان والوں کے لئے مقبرہ شمار کیا جاتا تھا ،انھوں نے انسانی اقدار اور مُثُل علیا کو زمین میں چھپا دیا ۔
آپ ؑ کی عمر چا لیس سال تھی آپ ؑ نے ۲۵ جما دی الثانی ۲۵۴ ھ میں پیر کے دن وفات پا ئی ۔(19)
حوالہ جات
1۔ رھبران معصوم علیہم السلام،ص 252
2۔حیاۃالامام علی نقی ؑ ،ص ۲۴۳
3۔المناقب، ج۴، ص۴۴۱
4۔امالی صدوق ،ص ۴۹۸، بحارالانوار، ج 50، ص 136
5۔حیاۃالامام علی نقي، ص243
6۔سورۂ مسد: 1
7۔حیاۃ الامام علی نقی ؑ ، ص ۲۳۹۔468
8۔سورۂ توبہ: ۲۵
9۔تاریخ اسلامِ ذہبی ،چھبیسویں طبقہ کے رجال ، تذکرۃ الخواص ،ص ۳۶۰
10۔المنتظم، ج ۱۲، ص ۲۶
۱1۔سورۂ غافر: ۸۳۔۸۴
۱2۔شرح شافیہ ، ابو فراس ،ج ۲،ص ۱۶۷
۱3۔حیاۃالامام علی نقی ؑ ، ص ۲۴۲۔۲۴۳
14۔ احقاق الحق، ج 12 ، ص 451
۱5۔حیاۃ الامام علی نقی ؑ ، ص ۲۶۲ ۔۲۶۴
۱6۔حیاۃ الامام علی نقی ؑ ، ص ۲۶۳۔۲۶۴
۱7۔سورۂ ہود: ۶۵
18۔تاریخ ابن اثیر، ج ۵،ص ۳۱۱
19۔اعلام الوریٰ ،ص ۳۴۸