كيا مزارات كو تعمير كرنا جائز هے؟
كيا مزارات كو تعمير كرنا جائز هے؟
تحرير: سيد غيور الحسنين
قبور پرعمارت بنانا ایک اصطلاح ہے جس میں قبر پر کی جانے والی ہر طرح کی تعمیر شامل ہے ۔ اہل سنت اور شیعوں کے درمیان حکم شرعی کے لحاظ سے قبور پر عمارت بنانے کا اختلاف ایک طرف اور وہابیوں سے ان کا اختلاف ایک اور جہت سے ہے۔ مذاہب اسلامی خاص طور پر شیعہ حضرات طول تاریخ میں بزرگوں، پیشوا اور علما کی قبور پر عمارتیں بناتے چلیں آ رہے ہیں۔ تاریخی لحاظ سے اس امر کی بازگشت صدر اسلام کی طرف ہے نیز تاریخی شواہد کے مطابق صحابہ اور تابعین کی جانب سے کبھی ان تعمیرات کو تنقید کا سامنا نہیں رہا اگرچہ وہابیت کے نزدیک اس کے مفہوم میں وسعت پائی جاتی ہے۔ وہابی معتقد ہیں کہ مردوں کی قبور پر عمارت کی تعمیر ایک طرح سے ان قبور کی عبادت کے مقدمات فراہم کرتی ہے اور عبادت میں شرک کی مانند ہے، جبكه عبادت کسی کو اوصاف الہی سے متصف کرتے ہوئے اس کے سامنے اظہارِ خضوع کرنا ہے۔ اس اشكال كا جواب هم " كيا توسل و شفاعت حرام ہے اور غیر خدا كى هر قسم کی تعظیم شرک ہے؟" کے عنوان سے بيان كر چکے هيں۔ اور يهاں پر مزارات كي تعمير پر دليل بيان كرنا مقصود هے۔
پهلی دلیل: قرآن مجید اصحاب کہف کے واقعہ میں فرماتا ہے کہ جب وہ تقریباً تین سو برس کی طویل نیند سے بیدار ہوئے اور ان کے بارے میں شہر کے لوگوں کو پتہ چلا تو شہر سے لوگ غار کی طرف دوڑے اور جیسے ہی وہاں پہنچے، تو انہوں نے اصحاب کہف کو پھر مردہ پایا۔ قرآن مجید اس کی منظر کشی کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ جب لوگوں نے یہ ماجرا دیکھا تو وہ دو گروہوں میں تقسیم ہو گئے :﴿فَقَالُوا ابْنُوا عَلَيْهِم بُنْيَانًا ۖ رَّبُّهُمْ أَعْلَمُ بِهِمْ ۚ قَالَ الَّذِينَ غَلَبُوا عَلَىٰ أَمْرِهِمْ لَنَتَّخِذَنَّ عَلَيْهِم مَّسْجِدًا﴾[الكهف: 21]
"تو کچھ نے کہا کہ ان (کے غار) پر ایک (یادگاری) عمارت بنا دو۔ ان کا رب ہی ان کا حال بہتر جانتا ہے۔ (آخرکار) جنهوں نے ان كے بارے ميں غلبه حاصل كيا وہ كهنے لگے: ہم ان کے غار پر ضرور ایک مسجد ( یعنی عبادت گاہ) بناتے هيں۔"
جیسا کہ اس آیت سے سمجھ میں آتا ہے کہ ان دونوں گروہوں میں سے کوئی بھی قبروں کو تعمیر کرنے کا مخالف نہیں تھا۔ بس فرق یہ تھا کہ مؤمنین وہاں ایک مسجد بنانا چاہتے تھے جبکہ دوسرے لوگ ان کی نشانی اور یادگار کے طور پر وہاں ایک عالی شان عمارت تعمیر کرنا چاہتے تھے۔
یہ امر بھی ذہن نشین رہے کہ قرآن مجید نے اس ماجرے کو مدح و تعریف کی زبان میں نقل کیا ہے اور اس پر کسی قسم کی تنقید بھی نہیں کی ہے۔ لہذا اس نکتہ سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ یہ کام شرعی ممانعت نہیں رکھتا۔ اور خاص طور پر جبکہ اس آیت میں موجود ’’ لَنَتَّخِذَنَّ عَلَيْهِم مَّسْجِدًا ‘‘ کی تعبیر سے پتہ چلتا ہے کہ انہوں نے اس درخواست کو ایک حکم شرعی کے طور پر لیا تھا۔ بہر کیف! اس تعبیر سے یہ واضح ہو جاتا ہے - وہابیوں کے تصور کے برخلاف - کہ قبروں پر بارگاہ اور گنبد وغیرہ تعمیر کرنا ایک شرعی اور دینی عمل ہے۔
اسی طرح اس واقعہ سے یہ بھی استفادہ ہوتا ہے کہ غیر معمولی لوگوں کی قبروں پر روضے تعمیر کرنا ، سابقہ اقوام اور امتوں کے آداب و سنتوں میں سے بھی رہا ہے ۔ اور وہ لوگ اس کام کو اپنے بزرگوں اور عظیم ہستیوں کے احترام و تجلیل میں انجام دیا کرتے تھے۔
دوسری دلیل: بزرگوں کی قبور پر مزارات تعمیر کرنا ’’ ترفیع بیوت ‘‘ کا ایک مصداق ہے ۔ وہ گھر جن کے لیے اللہ تعالیٰ کی مرضی یہ ہے کہ ان کی رفعت و منزلت بلند و بالا رہے ۔ اور اس کی وضاحت یہ ہے کہ قرآن مجید سورہ نور میں اللہ تعالیٰ کو منور چراغ سے تشبیہ دیتا ہے جو آسمان میں چمکتے ہوئے ستاروں کی طرح روشن ہے پھر اس آیت کے بعد والی آیت میں ان چراغوں کے رکھے جانے کی جگہ ان گھروں کو بتلاتا ہے جن کے لیے خدا کی منشأ یہ ہے کہ ان کا احترام کیا جاتا رہے اور وہ ارفع و اعلیٰ رہیں۔ چنانچہ قرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہے:﴿ فِي بُيُوتٍ أَذِنَ اللَّـهُ أَن تُرْفَعَ وَيُذْكَرَ فِيهَا اسْمُهُ يُسَبِّحُ لَهُ فِيهَا بِالْغُدُوِّ وَالْآصَالِ﴾ [النور: 36]
"(هدايت پانے والے) ایسے گھروں میں ہیں جن کى تعظيم كا اللہ نے اذن دیا ہے اور ان میں اس کا نام لینے كا بهى، وه ان گھروں میں صبح و شام الله کی تسبیح کرتے ہیں۔"
واضح سی بات ہے کہ اس آیت میں ’’ بیوت ‘‘ سے مراد مساجد نہیں ہوسکتیں، چونکہ بیوت لفظ بیت کی جمع ہے اور بیت عربی لغت میں ایسی جگہ کو کہتے ہیں کہ جس میں انسان رات بسر کرتا ہے اور مسجد رات گذارنے کی جگہ نہیں ہوتی۔ اسی وجہ سے اسے ’’ بیت ‘‘ نہیں کہا جاتا، بلکہ اس آیت میں ’’ بیوت ‘‘ سے مراد، اولیائے الہی اور ایسے پاک لوگوں کے گھر ہیں کہ جن میں صبح و شام اللہ کی تسبیح ہوتی ہے اور اس کا ذکر کیا جاتا ہے۔
اس آیت میں موجود رفعت و بلندی سے مراد کیا چیز ہے؟ اس کے سلسلہ میں دو احتمال پائے جاتے ہیں :
۱۔ رفعت ظاہری
۲ ۔ رفعت معنوی
اگر اس آیت میں رفعت ظاہری مراد لی جائے تو اس کے معنیٰ یہ ہیں کہ اس گھر کے در و دیوار اور چھت وغیرہ کو بلند کرکے بنایا جائے اور ان کی بلندی کو مزید بڑھایا جائے۔ لیکن چونکہ یہ معنی اس مقام کے شایان شان نہیں ہیں اور اس آیت میں ذکر اور تسبیح الہی کا تذکرہ ہے۔ چنانچہ موضوع اور حکم میں مناسبت کا خیال رکھتے ہوئے۔ تو معنی کا تقاضہ یہ ہے کہ اس سے مراد رفعت معنوی ہونی چاہیے۔ اور کسی گھر کی معنوی رفعت کا تقاضہ یہ ہے کہ اسے تکریم و تعظیم کی نگاہ سے دیکھا جائے اور ان مکانوں کا احترام کیا جائے۔ اور یہ بھی واضح ہے کہ ان گھروں کے احترام کا ایک مصداق، اس مکان کو تعمیرکرنا، اسے منہدم اور مسمار ہونے سے بچانا اور اس کی حفاظت کی کوشش کرنا ہے۔
کئی روایات کے مطابق جب یہ آیت: ’’ فِي بُيُوتٍ أَذِنَ اللَّـهُ أَن تُرْفَعَ ‘‘ نازل ہوئی اور پیغمبر اکرمﷺ نے اسے مسجد میں اصحاب کے سامنے تلاوت کیا تو ایک صحابی نے حضرتﷺ سے سوال کیا: یا رسول اللہ! اس’’ بیوت ‘‘ سے مراد کیا ہے؟ آنحضرتﷺ نے فرمایا : انبیاء(عليهم السلام) کے گھر۔ اسی وقت حضرت ابوبکر اٹھے اور علی و فاطمہ سلام اللہ علیہما کے گھر کی طرف اشارہ کر کے پوچھا: یا رسول اللہ ﷺ! کیا یہ (علی وفاطمہ کا) گھر بھی انہیں گھروں میں سے ہے جنہیں اللہ نے بلند رکھنے کی اجازت دی ہے تاکہ ان کی منزلت، رفیع و اعلیٰ رہے؟ پیغمبرﷺ نے فرمایا : ’’ نعم، من أفضلھا‘‘ ہاں! یہ گھر ان سب میں با فضیلت ہے۔[1]
اس بیان کی روشنی میں اب سوال یہ ہے کہ وہ گھر جو اللہ کے حکم کے موجب سب سے افضل و برتر ہو اور جس کی تکریم و تعظیم ہونی چاہیئے، کس بنیاد پر اس گھر کو جس میں فاطمہ (س) کو دفنایا گیا ہو ویران کرنا جائز ہوگا ؟ کیا اس حکم کو منسوخ کرنے والا کوئی جدید حکم، اللہ کی جانب سے نازل ہوا تھا؟
تيسرى دليل: صالحین اور اولاد رسول اللہ ﷺ کی قبروں کو تعمیر کرنا، ان کی نسبت مسلمانوں کے ادب اور احترام کے ساتھ ساتھ ان سے مودت و محبت کی بھی نشانی ہے اور یہ وہی اجر رسالت ہے جس کی ادائیگی کا انہیں حکم ملا ہے جیسا کہ قرآن مجید کا ارشاد ہے :
﴿قُل لَّا أَسْأَلُكُمْ عَلَيْهِ أَجْرًا إِلَّا الْمَوَدَّةَ فِي الْقُرْبَىٰ﴾ [الشورى: 23]
"اے پیغمبر! آپ(ص) کہ دیجيے! میں اس(تبلیغ رسالت) پر تم سے کوئی اجرت نہیں مانگتا سوائے قريب ترين رشته داروں کی محبت کے۔"
بے شک اولیاء الہی کے معنوی مقام كے احترام و تعظیم کا اظہار اور ان سے محبت و مودت کا شرک سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
[1] - تفسیر آلوسی ، ج۱۸ ، ص ۱۷۴ ؛ الکشف و البیان عن تفسیر القرآن، ج۷ ، ص ۱۰۷ ؛ الدر المنثور، ج ۵ ، ص ۵۰ ۔’’ أخرج ابن مرویۃ عن أنس بن مالک و بریدۃ قال : قرأ رسول اللہ ھذہ الآیۃ ( فی بیوت ۔۔۔۔) فقام إلیہ علیہ السلام رجل، فقال: أیّ بیوت ھذہ یا رسول اللہ ؟ فقال (ص) : بیوت الأنبیاء علیھم السلام ، فقام إلیہ أبوبکر، فقال: یا رسول اللہ ! ھذا البیت منھا لبیت علی و فاطمة ؟ قال : نعم ، من أفضلھا ۔‘‘