جبر و اختيار
جبر و اختيار
استاد مشرف: سيد غيور الحسنين
تحرير: سيد خورشيد حيدر شيرازي
خداوند متعال خالق حقیقی انسان ، انسان کو خلق کرنے کے بعد فرماتا ہے: "لَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنْسَانَ فِي أَحْسَنِ تَقْوِيمٍ".(1) اللّٰہ تعالیٰ نے انجیر،زیتون،طور سینا اور شہر مکہ کی قسم ذکر کر کے ارشاد فرمایا کہ بیشک ہم نے انسان کو سب سے اچھی شکل وصورت میں پیدا کیا ،اس کے اَعضاء میں مناسبت رکھی، اسے جانوروں کی طرح جھکا ہوا نہیں بلکہ سیدھی قامت والا بنایا، اسے جانوروں کی طرح منہ سے پکڑ کر نہیں بلکہ اپنے ہاتھ سے پکڑ کر کھانے والا بنایا اوراسے علم، فہم، عقل، تمیز اور باتیں کرنے کی صلاحیت سے مُزَیّن کیا۔اور مخلوقات میں دوسري موجودات پر فضیلت بخشتے ہوئے أشرف المخلوقات قرار دیا کیونکہ انسان تفکر کے ذریعے قرب الہی کی خاطر کمالات کی طرف سفر کرتا ہے۔ پھر اسی أشرف مخلوق پر لطف و کرم کرتے ہوئے اس کی هدایت کی خاطر أنبیاء ،آئمه ،کتب آسمانی کے ذریعے اپنی حجت اس پر تمام کی اور فرمایا: "إِنَّا هَدَيْنَاهُ السَّبِيلَ إِمَّا شَاكِرًا وَ إِمَّا كَفُورًا ".(2) یقینا ہم نے اسے راستہ دکھا دیا ہے۔ چاہے وہ شکر گذار ہو جائے یا کفران نعمت کرنے والا بن جائے۔
هدایت کے بعد شکر گزار بننا اور کفران نعمت کرنے والا ہونا اس کا اختیار انسان کے ہاتھ میں دیا گیا، مگر کیا حقیقت یہی ہے یا نہیں؟ آیا انسان بااختیار ہے یا مجبور؟ اگر بااختیار ہے تو اُس اختیار کا کوئی مخصوص دائرہ ہے؟!!! اور اس طرح کے دسیوں سوالات زمانہ قدیم سے "جبر و اختیار انسان " کے عنوان سے ہونے والی بحثوں میں مختلف مکاتب فکر کے ہاں مطرح ہوتے رہے ہیں اور اس پر مختلف نظریات قائم کیے گیے ہیں۔ اور عرصہ دراز سے اس مسئلہ نے عقل بشری کو مشکلات میں مبتلا کیا ہوا ہے۔ کیونکہ " جبر و اختیار انسان" ایک دقیق، مهم اور حساس بحث ہے اس لیے اس پر بہت زیادہ تحقیق کی جا چکی ہے مگر اس حوالے سے یہ موضوع تشنگی کا شکار رہا کہ انسان کا مجبور و مختار ہونا اسکی زندگی پر کیا اثر رکھتا ہے۔اس تشنگی کو مد نظر رکھتے ہوتے اس مختصر مقالہ میں چند عرائض پیش کی گئي ہیں۔
جبر و اختیار کے لغوی اور ا صطلاحی معنی:
اختیار:
لغت میں لفظ اختیار سے مراد یہ ہے کہ کوئی حکم چلانے کی اہلیت، کسی بات یا معاملے پر پورا پورا تصرف حاصل ہونے کی حیثیت، اپنی مرضی کے مطابق کام کرنے کی قدرت رکھتا ہو۔
جبر:
لغت میں لفظ جبر سے مراد یہ ہے کہ کسی پر دباؤ ،زور، زبردستی، اکراہ، ظلم کے ساتھ کوئی حکم مسلط کیا جائے یہ اختیار کی ضد ہے۔
ا صطلاح میں اس سے مراد انسان کا اپنے افعال کو انجام دینے میں آزاد یا قید ہونا ہے یعنی انسان کے اعمال اس کے اپنے ارادہ کے تحت ہیں یا اس کی مرضی کے بغیر کروائے جاتے ہیں۔(3)
مجبور و مختار یعنی یہ کہ انسان صاحب اختیار ہے یا نہیں، یہ مسئلہ ہمیشہ سے فلسفیوں میں زیر بحث رہا ہے، اور مختلف گروہ اس پر اپنی رائے قائم کر چکے ہیں۔ ایک گروہ معتقد ہے کہ انسان اپنی مرضی کا مالک نہیں ہے بلکہ اس کی مرضی اس کی تعلیم و تربیت اور دوسرے امور اس کے ارادہ سے وقوع پذیر نہیں ہوتے یعنی اس گروہ کے مطابق انسان مجبور مطلق ہے جو کہ قدیم یونانی فلسفیوں کا نظریہ تھا۔ آغاز میں مسلمانوں نے بھی اس امر کی طرف رجحان رکھا۔ ان کا عقیدہ تھا کہ انسان کے اعمال و افعال کی تفصیل لوح محفوظ پر رقم ہو چکی ہے اور کوئی شخص صاحب قدرت نہیں ہے جو کہ اس لکھے ہوئے کو تبدیل کر سکے۔ مگر معتزلہ نے اس نظریے کی مخالفت کی۔ وہ انسان کی آزادی کے قائل تھے اور اسے مختار مطلق کہتے تھے ۔ پہلے گروہ کو جبریہ دوسرے کو قدریہ کہتے ہیں۔مگر ایک تیسرا نظریہ بھی اس فہرست میں شامل ہے جو پہلے دونوں نظریوں سے الگ ہے۔ وہ نہ تو انسان کے مطلق اختیار کا قائل ہے اور نہ ہی اس کے مطلق مجبور ہونے کا بلکہ وہ انسان کی حالت کو درمیانہ کہتا ہے کہ ایک ایسی حالت جیسے نہ تو اختیار کہا جا سکتا ہے نہ ہی مجبور، یعنی وہ نہ مختار مطلق ہے اور نہ مجبور مطلق ہے۔ شیعہ امامیہ کے علاوہ بھی چند گروہ اس نظریہ کے قائل ہیں۔
مجبور مطلق:
عقیدۂ خلق قرآن کا بانی جعد بن درهم جس نے ایک قدیمی بحث(کلام خدا قدیم ہے یا حادث) پر اپنی رائے کو قائم کرتے ہوئے ایک نئے نظریے کو قائم کیا اس کے شاگردوں میں سے ایک شاگرد جس کا نام جہم بن صفوان تھا اس نے عقیدہ جبر کی بنیاد رکھی۔جو اصلا کوفی نسل میں سے تھا یہ خلافت بنو امیہ کے دور میں نہر جیحون کے کنارے واقع شہر ترمذ میں پیدا ہوا ۔اس نے تشبیہ بالله کے موضوع میں اتنی شدت اختیار کی کہ تعطیل کا قائل ہو گیا۔اور اس کے علاوہ بھی بہت سے جاهلانہ عقائد کی بنیاد رکھی۔ جہمیہ کا کہنا ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ کی تمام صفات مخلوق ہیں، وہ ایک ایسے خیالی خدا پر ایمان رکھتے ہیں جس کا تصور کرنا ذہن ہی میں ممکن ہے کیونکہ حقیقت میں جو بھی چیز وجود رکھتی ہے اُس کی صفات ہوتی ہے۔ صفات سے علیحدہ کسی ذات کا حقیقت میں وجود نہیں ہے۔جہمیہ اس بات کے قائل ہیں کہ بندہ مُسَيَّر ہے (یعنی اسے چلایا جاتا ہے) نہ کہ مُخير۔ (یعنی اس کے پاس کوئی اختیار نہیں ہے)۔گناہوں کے ارتکاب پر تقدیر کو حجت بناتے ہیں کیوں کہ کائنات میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ اللہ کے ارادے اور مشیئت سے ہورہا ہے۔ جبریہ کی دو قسمیں ہیں: خالص جبریہ (یعنی غلوکرنے والے): یہ وہ لوگ ہیں جو بندے کے لیے سِرے سے نہ تو کسی فعل کا اثبات کرتے ہیں اور نہ ہی فعل کی قدرت کا، جیسے جہمیہ وغیرہ۔ دوسری قس متوسط جبریہ: جو بندے کے لیے قدرت کا اثبات تو کرتے ہیں لیکن ان کے نزدیک یہ قدرت غیرمؤثر ہوتی ہے۔ ، جیسے اشعریہ؛ ان کے نزدیک انسان کو قدرت و مشیئت تو حاصل ہے لیکن اس قدرت و مشیئت کی وجہ سے فعل واقع نہیں ہوتا۔اپنے گناہوں کی پردہ پوشی کی خاطر اس کفریہ عقیدہ کے قائل حضرات نے اس عقیدہ کو ترویج دی ہے اور سب گناہوں کا مصدر ارادہ الہی کو قرار دیا ہے کہ انسان جب مجبور محض ہے تو وہ گناہ کا مرتکب ہی نہیں ہو سکتا۔ اس عقیدہ پر ان کے ہاں ایک دلیل عقلی پیش کی جاتی ہے جو باطل ہے اور رد شدہ ہے۔ہرممکن، وجود میں آنے کیلئے علت کی طرف محتاج ہیں اور اسی طرح تمام علل معدّہ بھی علت تامہ کی طرف محتاج ہیں۔اور علت العلل وہی ذات پاک ہے ۔پس جیسے معلول کا علت سے جدا ہونا محال ہے۔ اسی طرح افعال انسان بھی مخلوقات خدا میں سے ہے اور خدا سے جدائی ممکن نہیں ہے، کیونکہ یہ ایک قاعدۂ فلسفی ہے کہ جہاں علت تامہ ہو وہاں اس کا معلول ہونا ضروری ہے۔ پس اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ افعال انسان بھی خدا سے وجود میں آئے ہیں نہ کہ خود انسان سے، جس میں انسان کا کوئی اختیار نہیں۔ اس دلیل پر کئی اشکالات ہیں؛ اولا ً توجو شبہات جبریوں کے ذھنوں میں آیات سے پیدا ہوئے ہیں یہ ہے کہ مشیئت و ارادہ اور قضا و قدر الہی کے مقابلے میں انسان کو کسی چیز پر اختیار حاصل نہیں، صحیح نہیں، کیونکہ ارادۂ خدا اور ارادۂ انسان ایک دوسرے کے طول میں ہے ۔ یہی وجہ ہے ارادۂ الہی جانشین ارادۂ انسان نہیں ہوسکتا۔ثانیا انسان کا ارادہ علل معدّہ ہے اور فعل انسان بھی اس کا معلول ہے۔ انسان جب ارادہ کرتا ہے تو فعل انجام پاتا ہے ۔ اگر ارادہ نہ کرے توانجام بھی نہیں پاتا ۔ لیکن یہی علت معدّہ (ارادہ) اور معلول (فعل) اور اس کے مبادی سب ارادۂ الہی سے متعلق ہے ۔ اس فعل کی نسبت علت معدّہ(ارادہ) مباشراور ملی ہوئی علت ہے ، اور ارادۂ خداوند علت بعیدہ ہے، لیکن اگر یہی علت بعیدہ نہ ہو تو نہ مرید (ہم) ہونگے نہ کوئی ارادہ ہوگا اور نہ ہی کوئی مراد(فعل) ۔ پس معلوم ہوا ارادۂ انسان تو اس کے اپنے اختیار میں ہے اور جو بھی کام انجام دیتا ہے اپنے ارادے سے انجام دیتا ہے۔ اور یہ سلسلۂ نظام ، ارادۂ الہی سے متعلق ہے ۔ یہی اس مشکل کا حل کی چابی ہے ۔ مگر اس باطل عقیدہ کو رد کیا گیا ہے۔(4)
دلیل اول:
اگر ہم جبر کے قائل ہوجائیں تو بہت سی صفات خدا (جو کہ عین ذات ہیں)کا انکار کرنا پڑے گا۔ خداوندعالم هر انسان کو اسکے اعمال کے مطابق جزا و سزا دے گا اور عدل الہی کا تقاضا ہے کہ نیک انسان کو اسکی نیکی کا اجر ملے اور گناہ گار کو اس کے گناہ کی سزا ،مگر جب اس عقیدہ پر ایمان رکھ لیا کہ انسان مجبور محض ہے تو نہ ہی جزا ہے اور نہ ہی سزا جب انسان سے کوئی فعل اسکے ارادہ و اختیار سے صادر ہی نہیں ہوا تو اسے جزا یا سزا دینا قبیح ہو گا۔پس جب خدا وندعالم حکیم مطلق ہے اور قبیح کام ذات حکیم سے محال ہے اس لیے یہ بھی محال ہے کہ خداوند عالم سزا و جزا دے۔ مگر ہم جانتے ہیں کہ خدا وند عالم عادل ہے اور عدل کا تقاضا ہے کہ نیکی کرنے والے کو اسکی نیکی کا اجر اور بدی کرنے والے کو اسکی بدی کی سزا دی جائے گی،پس پھر انسان مجبور محض نہیں ہو سکتا۔(5)
دلیل دوم:
اگر اہل حق اور اہل باطل کے درمیان مناظرہ اور مباحثہ ہو جائے تو قول مجبرہ کے مطابق یہ لازم آتا ہے کہ خدا نے خود مناظرہ کیا ہے کیونکہ مناظرہ فعل ہے اور خدا فاعل پس خدا ایک ہی وقت میں محق بھی ہے مبطل بھی۔کیونکہ ایک حق پر ہوتا ہے اور دوسرا باطل پر،اس کا لازمہ یہ ہے کہ خدا عالم بھی ہے اور جاهل بھی، جو کہ محال ہے، کیونکہ ذات خدا جو کہ کمالات مطلق رکھتی ہے محال ہے کہ وہ جاهل ہو کیونکہ جهل فقدان کمال ہے ۔(6)
مختار مطلق:
اس عقیدہ کی بنیاد جسے" اختیار مطلق انسان" ، "قدریہ" اور" منکر تقدیر" کے نام سے بھی جانا جاتا ہے،معبد جہنی اور غیلان دمشقی نے رکھی۔معبد جہنی نے عراق اور غیلان دمشقی نے دمشق میں اس باطل عقیدہ کی بنیادوں کو قوی کرنے کی کوشش شروع کی تھی۔ان کا نقطہ نظر یہ ہے کہ ہر چیز انسان کے ارادہ و قدرت کے تابع ہے، گویا انسان اپنی تقدیر خود بناتا ہے۔اور اس میں الله کا کوئی ارادہ شامل نہیں ہے اور هر عمل کا مطلق اختیار صرف انسان کی قدرت میں ہے حکمت خدا اس میں کوئی عمل دخل نہیں رکھتی،اور انسان اپنے فعل کا خود خالق ہے۔یہ لوگ اس حد تک تجاوز کر گئے ہیں کہ خدا سے ان صفات کی نفی کرتے ہوئے یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ انسان جن اعمال کا خالق ہے خدا ان کے وجود میں آنے سے پہلے ان کے بارے میں علم نہیں رکھتا ،جب انسان ان اعمال کو خلق کرے گا پھر جانے گا کہ اس کی مخلوق نے یہ عمل انجام دیا ہے۔اس عقیدہ کو بھی مستند دلائل سے رد کیا گیا ہے۔(7)
دلیل اول:
علم صفات کمالیہ میں سے ہے یعنی علم کا ہونا کمال ہے اور عدم علم فقدان کمال ہے۔خدا کی ذات جو کمالات مطلق رکھتی ہے،پس محال ہے کہ اس ذات سے کسی کمال کی نفی ہو،کیونکہ جس ذات میں فقدان کمال ہو وہ خدا نہیں، پس علم کا ہونا ذات خدا کے لیے لازم ہے اور جب خدا عالم ہے تو اس کا علم مخلوقات کے متعلق ابدی و ازلی ہے۔ یہی وہ مقام ہے جہاں کم فہمی سے گمراہی کے راستے پر قدم رکھا جاتا ہے ،تقدیرِ انسان کا علم خداوند عالم کی ذات کو ہے اور روزِ ازل سے لوحِ تقدیر پر رقم کر دیا گیا ہے مگر اس سے مراد یہ نہیں ہے کہ اب انسان مجبور ہے کہ اسی کے تحت عمل انجام دے بلکہ خدا عالم ہے کہ اس کی مخلوق کیا عمل انجام دے گی ۔(8)
دلیل دوم:
قدریہ اپنے عقیدے میں اس قدر غلو کر گئے ہیں کہ انسان کے اختیار کو مستقل قرار دیتے ہیں کہ انسان خدا کے مقابلے میں ایک موجود مختار ہے جو اپنے افعال کا خالق ہے ،پس ان کے عقیدہ کے مطابق متعدد انسان متعدد خالق ہیں جو اپنے افعال میں مستقل ہیں، یعنی یہ لوگ انسان کو خدا کے مقابلے میں موجود مستقل قرار دیتے ہیں جو قدرت میں کسی کا محتاج نہیں، لیکن اس پر متعدد دلائل مطرح ہو چکے ہیں کہ اگر اس جہان میں متعدد خدا ہوتے تو تباہی اور فساد لازم آتا ،کیونکہ متعدد خداؤں کی تدبیر بھی متعدد ہوتی،مگر کہ جب اس عالم کو دیکھتے ہیں تو اس کا نظم برقرار ہے ہر موجود اپنے ایک خاص نظم کے مطابق ہے ،تو متعدد خداؤں کی نفی ہوتی ہے پس اس عالم کی تدبیر ایک ہی خدا کر رہا ہے۔اور وہ الله سبحانه تعالیٰ کی ذات ہے۔پس محال ہے کہ کوئی اور مستقل مخلوق اس کے مقابلے میں ہو۔
امر بین الاَمرَین(درمیانی راستہ):
جیسا کہ مقدمہ میں بیان ہو چکا ہے اس مسئلہ میں تین نظریہ ہیں اور کوئی چھوتھا راستہ نظر نہیں آتا۔تیسرا نظریہ جو اس بات کا قائل ہے کہ نہ ہی جبر مطلق ہے نہ اختیار مطلق بلکہ ایک درمیانہ راستہ ہے جسے احادیث میں اس تعبیر سے بیان کیا گیا ہے "امر بین الاَمرَین" ۔اس عقیدہ کو شیعہ امامیہ اور دوسرے مکاتب میں سے "ما تریدیہ" جو کہ افعال انسان میں کسب کے قائل ہیں،طحاویہ اور اشاعرہ کے بعض علماء اس راستہ کو قبول کرتے ہیں اپنی خاص قیود کے ساتھ۔کیونکہ یہ بحث قدیم ہے اس لیے آئمہ علیہم السلام کے ادوار میں بھی اس پر ابحاث موجود ہیں جسکی تائید مختلف روایات کرتی ہیں۔اور روایات کے مطابق یہ تعبیر "امر بین الاَمرَین" امام علی علیہ السلام سے منسوب ہے کہ جب ایک شخص ان سے اختیار و جبر کے بارے میں سوال کرنے آیا تو امام ع نے اس تعبیر کو ارشاد فرمایا۔اور اس کے بعد دیگر آئمہ سے بھی یہ تعبیر اس طرح نقل ہوئی"المنزلة بين المنزلتين"یعنی ایک درمیانی منزل ہے۔ان روایات میں "امرین" یا "منزلتین" سے مراد ایک طرف جبر اور دوسری طرف اختیار ہے۔یہ موضوع بہت سے مختلف پہلو رکھتا ہے اسی وجہ سے علم کلام کے اہم مسائل میں شمار ہوتا ہے اور عقائد کے باب میں اہم باب ہے اور دینی مسائل کا ایک مشکل مسئلہ ہے۔اس لیے شیعہ علماء نے اس پر قرآن و سنت اور عقلی حوالے سے گفتگو کی ہے ۔اس نظریہ کی نظر کے مطابق "جبر و اختیار" آپس میں تضاد کی نسبت نہیں رکھتے کہ ان کا جمع ہونا محال ہو بلکہ یہ اکٹھے ہو سکتے ہیں۔اس کو سمجھنے کے لیے گہری فکر کی ضرورت ہے کہ انسان عدالت خداوند کو بھی مد نظر رکھے اور آزادی انسان اور وظیفہ عملیہ انسان کیا ہے اسکو بھی مد نظر رکھے۔کہ افراط و تفریط سے بچ کر درمیانی راستہ کو درک کرے جو کہ احادیث میں بیان ہوا ہے۔ایک مثال کے ذریعے سے اس مسئلہ کو واضح کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ مثلا:فرض کیجئے آپ بجلی سے چلنے والی ایک ریل گاڑی میں سفر کر رہے ہیں اور اس ٹرین کے ڈرائیور بھی آپ ہی ہیں ۔ٹرین کے پورے راستہ پر بجلی کا ایک قوی تارکھینچا گیا ہے اور ٹرین کی چھت پر لگا ہوا ایک مخصوص دائرہ بجلی کے اس تار سے ملا ہوا ہے اور حر کت کر رہا ہے اور لمحہ بہ لمحہ بجلی کو ایک قوی مر کز سے ٹرین کے انجن میں اس طرح منتقل کر رہا ہے کہ اگر ایک لمحہ کے لئے بھی اس قوی مرکز سے ٹرین تک بجلی نہ پہنچے تو ٹرین فوراً رک جائے گی۔اس ٹرین کے ڈرائیورکی حیثیت سے بیشک آپ آزاد ہیں کہ راستے میں جہاں پر بھی چاہیں ٹرین کو روک سکتے ہیں ،اسے آہستہ یا تیز چلا سکتے ہیں لیکن اس تمام آزادی کے باوجود بجلی کے مرکز یعنی بجلی گھر میں بیٹھا ہوا شخص جب چاہے بجلی کو منقطع کر کے آپ کی ٹرین کو روک سکتا ہے ۔کیونکہ آپ کی ٹرین کی حر کت بجلی کی مر ہون منت ہے اور اس کی چابی مرکز برق میں بیٹھے ہوئے شخص کے ہاتھ میں ہے۔اس مثال میں غور کر نے کے بعد واضح ہو جاتا ہے کہ ٹرین کا ڈرائیور تمام تر آزادی ،اختیار اور ذمہ داری کے باوجود کسی اور کے کنٹرول میں ہے اور یہ دونوں امر ایک دوسرے کے منافی نہیں ہیں۔پس اگر وہ ڈرائیور کوئی خطا کرتا ہے تو اس خطا پر اس سے سوال کیا جائے گا اور اگر وہ قصور وار ہوا تو تو جزاء و سزاء بھی ہوگی۔اسی طرح انسان بھی اپنے اعمال کو انجام دینے میں چلنے پھرنے،اٹھنے بیٹھنے ،کھانے پینے حتی دیگر اعمال شرعی وغیرہ میں ارادہ و اختیار رکھتا ہے مگر اس اختیار کی قدرت اسے خداوند عالم کی ذات سے لمحہ بہ لمحہ عطا ہو رہی ہے۔یعنی فیض الہی تمام ھستی سے لمحہ بہ لمحہ متصل ہے اور اگر یہ فیض ایک پلک جھپکنے کی مقدار یا جتنی بھی کم تر مقدار تصور کی جا سکتی ہے اس مقدار کے مطابق ہی منقطع ہو جائے تو یہ عالم ھستی ما سواء الله سب اسی لمحہ فناء ہو جائے۔پس انسان آزادی کے باوجود محتاج فیض الہی ہے انسان چاہ کر بھی خدا کی حکمت سے، اس کے علم سے، اس کی قدرت سے، اس کی حکومت سے ،خارج نہیں ہو سکتا۔اور یہی معنی سازگار ہوگا تعبیر "الامر بین الامرین"کا۔جیسے کہ پہلے ذکر ہو چکا ہے کہ اس بحث میں مذکورہ تین راستوں کے علاوہ کوئی چوتھا راستہ قابل تصور نہیں ہے اور نظریہ اشاعرہ (جبریہ) اور نظریہ معتزلہ(تفویض) دونوں کے عقیدہ کو محکم دلائل کے ساتھ باطل قرار دے چکے ہیں تو تیسرا راستہ ہی بچتا ہے۔اگر صرف ایک ارادہ دخیل ہو تو تفویض لازم آتی ہے اور اگر دو ارادہ دخیل ہوں تو الامر و بین الامین کی اصطلاح روشن ہوتی ہے۔
دلیل حکماء
حکماء کا استدلال کچھ یوں ہے: خدا ہر چیز پر قادر ہے لیکن اشیاء وجود کو قبول کرنے(یعنی موجود ہونے اور نہ ہونے) کے حوالے سے مختلف ہیں۔ خدا بعض اشیاء کو بغیر کسی واسطے کے خلق فرماتا ہے اور بعض کو واسطوں کے ذریعے خلق فرماتا ہے۔ یہ واسطہ کبھی ایک ہوتا ہے اور کبھی ایک سے زیادہ۔ اب جب بعض اشیاء کی خلقت میں واسطہ لازم ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ خدا اس واسطے کا محتاج ہو بلکہ یہ چیز اس مخلوق اور قابل میں موجود نقص کی وجہ سے ہے کیونکہ خدا مسبب الاسباب ہے اور تمام اسباب کو خدا نے ہی ایجاد کیا ہے اس لئے خدا کسی چیز کا محتاج نہیں ہے۔ انسان کے اختیاری افعال بھی انہی اشیاء میں سے ہیں جو بغیر واسطہ خدا سے خلق نہیں ہو سکتے اور انسان کا ارادہ ان واسطوں میں سے ایک ہے جس کے توسط سے یہ افعال وجود میں آتے ہیں پس جبر باطل ہے۔ اور دوسری طرف سے چونکہ تمام اسباب علل کو بھی خدا ہی خلق کرتا ہے اور اس کے ارادے سے خلق ہوتے ہیں پس تفویض بھی باطل ہے۔تو پس تیسرا عقیدہ ہی بچتا ہے جو کہ مطلوب ہے۔(9)
نتیجہ:
عقیدہ ایسا اثر معنوی ہے جو انسان کے افعال پر اثر رکھتا ہے۔اگر عقیدہ کی بنیاد ہی کمزور ہو گی تو اس پر اعمال کی عمارت برقرار نہیں رہ پائے گی۔جس طرح "جبر و اختیار "کے مسئلہ میں شیعہ امامیہ کے علاوہ دوسرے مکاتب فکر اس پر کوئی عقلی یا نقلی ایسی دلیل قائم نہیں کر سکے جو عقل قبول کرے۔اگر انسان فقط "جبر کا قائل ہو جائے تو بھی توحید سے ہاتھ دھو بیٹھے گا اور اگر فقط اختیار مطلق کو مانے وہ بھی توحید کے ساتھ سازگار نہیں ہے۔مگر یہ امتیاز ہے مكتب امامیہ کا کہ انہوں نے اگر توحید کی جس حد تک بھی معرفت حاصل کی ہے حجت خدا ، محمد و آل محمد (ص) کے دامن کو تھام کر ان کے علم کے نور کی روشنی میں ان حقائق کو درک کیا ہے اور جو توحید آئمه علیھم السلام نے بیان کی ہے اسی پر عقیدہ کی بنیاد رکھی ہے ۔جبر کے نظریے سے پیش آنے والی مشکلات انسان کی اخلاقی اور دینی مسئولیت کا بے معنی ہونا، برائیوں اور گناہوں کا خدا کی طرف سے خلق ہونا۔تفویض کے نظریے سے خدا کی قدرت محدود اور توحید افعالی کا نظریہ باطل ہو جاتا ہے۔اور اس طرح دیگر مسائل اور جنم لیں گے ۔جب انسان اس بات کا معتقد ہوتا ہے کہ خود مختار ہے اور اپنی طبیعت میں کچھ نہ کچھ تبدیلی لا سکتا ہے، تو اپنے اندر اخلاقی فضائل ایجاد کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ اور یہ خود مختاری کہاں تک ہے یہ بیان ہو چکا ہے کہ انسان مشیت الہی سے وابستہ رہ کر ا پنے ارادہ سے افعال کو انجام دیتا ہے اور هر لمحہ فیض خدا کا محتاج ہے کہ اگر یہ فیض خدا ایک لمحہ کے لیے بھی منقطع ہو جائے تو ہر شئ فنا ہو جائے۔
مصادر و مراجع:
۱- سورۃ التین ، آیت4
۲- سورۃ انسان، آیت 3
۳- Rekhta.com
۴-عبد الرحمن ، تفسیر تیسیر القرآن، ص2178، سورۃ الکہف،آیت22.
۵- محمد سعیدی مہر، کلام اسلامی، کتاب طہ؛ چاپ 39 ، 1402ش، ج1، ص339.
۶- مصدر سابق، ص93
۷- ابن کثیر، البدایہ والنہایہ (تاریخ ابن کثیر)، مطبوعہ لاہور، ج 9، ص54
۸- محمد سعیدی مہر، کلام اسلامی، کتاب، ج1، ص90-91.
۹- makarem.ir