حضرت اُمُّ البنین سلام اللہ علیہا

تحرير: سيد غيور الحسنين

حضرت ام البنین سلام اللہ علیہا تاریخ اسلام کی ان عظیم خواتین میں سے ہیں جن کے چار فرزندوں نے واقعہ کربلا میں اسلام پر اپنی جانیں نچھاور کیں۔ ام البنین یعنی بیٹوں کی ماں، آپ کے چار شجاع و بہادر بیٹے عباس، جعفر، عبد اللہ اور عثمان تھے حضرت علی بن ابی طالب عليه السلام کے شجاع و بہادر بچے امام حسین علیہ السلام کی نصرت و مدد کرتے ہوئے کربلا میں شہادت کے درجے پر فائز ہوگئے۔

حضرت اُمُّ البنین سلام اللہ علیہا، جن کا اصل نام فاطمہ بنت حزام بن خالد تھا، اسلامی تاریخ میں ایک عظیم المرتبت شخصیت کے طور پر معروف ہیں۔ آپ حضرت علی علیہ السلام کی زوجہ محترمہ اور حضرت عباس علیہ السلام سمیت چار جری بیٹوں کی والدہ ہیں، جو کربلا کے واقعہ میں اپنی وفاداری اور قربانیوں کی وجہ سے مشہور ہیں۔

جناب عقیل نے حضرت ام البنین کے گھرانے(بنو کلاب قبیلے) کے بارے میں بتایا کہ پورے عرب میں ان کے آباؤ و اجداد سے زيادہ بہادر کوئی نہ تھا اور شجاعت، اور ادبی خوبیوں میں معروف تھا۔ امام علی علیہ السلام نے اس تجویز کو قبول کرلیا اور عقیل کو رشتہ لے کر جناب ام البنین کے والد "حزام بن خالد" کے پاس بھیجا ان کے والد اس مبارک رشتے سے بہت زيادہ خوش ہوئے اور فورا ہی اپنی بیٹی کے پاس گئے اور اس سلسلے میں ان کی مرضی معلوم کرنا چاہی، ام البنین نے اس رشتے کو سربلندی و افتخار سمجھ کر قبول کرلیا اور پھر اس طرح جناب ام البنین اور حضرت علی علیہ السلام رشتہ ازدواج سے منسلک ہوگئے-

حضرت اُمُّ البنین نے اپنے چار بیٹے (حضرت عباس، عبداللہ، جعفر، اور عثمان) امام حسین علیہ السلام کی مدد کے لیے کربلا روانہ کیے۔ ان کا بیٹا، حضرت عباس علمدار علیہ السلام، کربلا میں وفاداری اور شجاعت کی اعلیٰ مثال بنے۔ حضرت اُمُّ البنین نے اپنی تمام اولاد کو امام حسین علیہ السلام پر قربان کردیا اور خود کربلا کے بعد مدینہ میں لوگوں کو امام حسین علیہ السلام کی مظلومیت سے آگاہ کرتی رہیں اور بنی امیہ کے ظلم و ستم کو بيان کرتی رہیں اور مجالس عزا منعقد کیا کرتی تھیں تاکہ کربلا کے شہیدوں کا ذکر ہمیشہ زندہ رہے اور ان مجلسوں میں خاندان عصمت و طہارت کی عورتیں شریک ہو کر کربلا کے شہیدوں پر آنسو بہاتی تھیں آپ اپنی تقریروں، مرثیوں اور اشعار کے ذریعے شہیدان کربلا کی مظلومیت کو کائنات کے ہر فرد تک پہنچانا چاہتی تھیں۔

بالآخر ایثار و قربانی اور کمال اخلاص و ایمان کی دولت سے سرشار عظیم خاتون ام البنین سلام الله عليها کا ستر ہجری میں انتقال ہوگیا - بعض مورخین نے آپ کی وفات کی تاریخ تیرہ جمادی الثانی سن چونسٹھ ہجری تحریر کیا ہے۔

آپ کی قبرمبارک جنت البقیع میں حضرت امام حسن علیہ السلام کی قبر کے پاس موجود ہے جو آج بھی نجدیوں کے ظلم کی داستان چیخ چیخ کر ان کے ظلم و بربریت کا اعلان کررہی ہے۔

حضرت اُمُّ البنین کی زندگی وفاداری، شجاعت اور ایثار کا ایک مثالی نمونہ ہے جو اہل بیت سے محبت کرنے والوں کے لیے مشعل راہ ہے۔

مصادر

1- ابن شہر آشوب، المناقب۔

2- شیخ عباس قمی، نفس المهموم۔

3- علامہ مجلسی، بحار الانوار: جلد 45 ۔

4- ابن اثیر، اسد الغابہ۔