ذیمقراطیس کا نظریہ اتم
ذیمقراطیس کا نظریہ اتم
ذیمقراطیس (Democritus)، جو کہ ایک یونانی فلسفی تھا اور پانچویں اور چوتھی صدی قبل مسیح میں زندگی گزار رہا تھا، ان اولین مفکرین میں سے تھا جنہوں نے مادے کی ساخت کے بارے میں نظریہ پیش کیا۔ اس نے اپنے استاد لیوکیپوس (Leucippus) کے ساتھ مل کر ایک نظریہ پیش کیا، جو بعد میں نظریہ اتم کے نام سے مشہور ہوا۔
ذیمقراطیس کے نظریہ کے بنیادی اصول:
ہر چیز اتموں اور خالی خلا پر مشتمل ہے: اس کا ماننا تھا کہ تمام اشیاء بہت چھوٹے ذرات سے بنی ہیں جو مزید تقسیم نہیں کیے جا سکتے، اور انہیں اتم (ἄτομος – atomos، یعنی "ناقابل تقسیم") کہا جاتا ہے۔
اتم مقدار، شکل اور حرکت میں مختلف ہوتے ہیں: اس کے مطابق، مختلف مادوں میں فرق ان کے اتموں کی شکل، حجم اور حرکت کی وجہ سے ہوتا ہے۔ مثلاً، پانی کے اتم ہموار اور گول ہوتے ہیں، جبکہ آگ کے اتم نوک دار اور تیز ہوتے ہیں۔
اتم خلا میں حرکت کرتے ہیں: ذیمقراطیس کے مطابق، اتموں کے درمیان خالی جگہ موجود ہوتی ہے، جو انہیں آزادانہ حرکت کرنے کی اجازت دیتی ہے۔ یہ خیال اس وقت کے کچھ دیگر فلاسفہ، جیسے پارمیندس، کے نظریے کے خلاف تھا، جو خلا کے وجود کو مسترد کرتے تھے۔
کائنات فطری قوانین کے مطابق چلتی ہے: اس کا عقیدہ تھا کہ دنیا میں ہر چیز ایک قدرتی اصول کے مطابق وقوع پذیر ہوتی ہے، اور دیوتاؤں کا ان میں کوئی عمل دخل نہیں ہوتا۔
ذیمقراطیس کے نظریہ کا اثر:
ذیمقراطیس کا نظریہ کئی صدیوں تک زیادہ مقبول نہ ہو سکا کیونکہ ارسطو جیسے مشہور فلاسفہ نے اس کو رد کر دیا اور اس کے بجائے چار عناصر (مٹی، پانی، ہوا، آگ) کے نظریے کو ترجیح دی۔ تاہم، انیسویں صدی میں جان ڈالٹن جیسے سائنسدانوں نے اتمی نظریہ کو دوبارہ زندہ کیا اور یہ جدید کیمیائی سائنس کی بنیاد بن گیا۔
مختصراً، ذیمقراطیس کو مادے کے ایٹمی نظریے کا بانی کہا جا سکتا ہے، اگرچہ اس کا نظریہ فلسفیانہ بنیادوں پر تھا، نہ کہ سائنسی تجربات پر۔