علم جفر کیا ہے؟

علم جفر یا علم الحروف وہ علم ہے جس کے ذریعے تمام حوادث عالم کو قیامت تک معلوم کیا جا سکتا ہے، اور اس علم کی مکمل اور درست صورت صرف ائمہ معصومینؑ کے پاس موجود ہے۔

شیخ الطریحی نے مجمع البحرین میں لکھا ہے کہ علم جفر اور علم جامعہ دو کتابیں ہیں، جنہیں حضرت علیؑ نے رسول اکرمﷺ کے املا (بول کر لکھوانے) کے ذریعے تحریر فرمایا۔ ان کتابوں میں تمام علوم اور قیامت تک کے تمام واقعات درج ہیں۔ تمام ائمہ معصومینؑ علم جفر سے واقف ہیں، اسے دیکھ کر اس کے ذریعے فیصلے کرتے ہیں۔

ائمہ علیہم السلام سے منقول روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ علم جفر الٰہی معارف کا ایک مجموعہ ہے، جو رسول اللہﷺ کے ذریعے حضرت علیؑ کو منتقل ہوا، اور پھر ان کے بعد یہ علم باقی ائمہ کو عطا ہوا۔ اس علم کا ایک حصہ قیامت تک کے تمام واقعات پر مشتمل ہے، جسے علم منایا و بلایا (یعنی موت اور مصیبتوں کا علم) بھی کہا جاتا ہے۔

جفر کا اجمالی مفہوم

تفصیلی وضاحت بعد میں کی جائے گی، لیکن یہاں ذہنی تیاری کے لیے اجمالاً بیان کیا جا رہا ہے کہ جفر کا مطلب ہے جنگلی مینڈھے (قوچ) کی کھال، جس میں تمام انبیاء کی کتابیں اور وہ کتب محفوظ ہیں جو رسول اللہﷺ کے املا سے حضرت علیؑ کے دستِ مبارک سے لکھی گئی تھیں۔ فارسی میں جفر کو "انبان" اور آذری زبان میں "تغارچہ" کہا جاتا ہے۔ جب کہا جاتا ہے کہ حضرت علیؑ علم جفر کے عالم تھے، تو اس کا مطلب یہ ہے کہ حضرت علیؑ اور ان کی معصوم اولاد کو اس "انبان" میں موجود کتابوں کے تمام علوم کا علم حاصل تھا۔

اب تک 12 کتابیں ایسی منظر عام پر آ چکی ہیں، جنہیں جفر کے عنوان سے پہچانا جاتا ہے۔ ان میں سے بیشتر انتہائی پیچیدہ جداول (چارٹ) پر مشتمل ہیں اور ہر ایک کو جفر سمجھا جاتا ہے۔ تاہم، یہ بات یقینی ہے کہ ان کتابوں کا جفر علیؑ سے کوئی تعلق نہیں۔ اگرچہ کچھ جداول میں ایسے راز پوشیدہ ہو سکتے ہیں جو جفر کے اصل علوم سے متعلق ہوں، لیکن ان کتابوں کا جفر ہونا یقینی نہیں ہے۔ اصل جفر اس وقت امام زمانہ (عج) کے پاس موجود ہے۔

یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ علم الحروف اور علم الاعداد دو اور علوم ہیں، جن سے بعض لوگ واقف ہیں۔ ان علوم کے ذریعے وہ یہاں تک معلوم کر لیتے ہیں کہ کسی شخص کا فون نمبر کیا ہے، مگر یہ علوم علم جفر نہیں ہیں۔

اہل بیت (علیہم السلام) کے نزدیک جفر کی حیثیت

امام صادق (علیہ السلام) نے فرمایا: "ہمارے گھر میں ایک ایسا مجموعہ موجود ہے کہ جس کی موجودگی میں ہم اہل بیت (علیہم السلام) کو کسی بھی انسان کی ضرورت نہیں ہے۔ یہ دنیا والے ہی ہیں جو اس مجموعے کی بنا پر ہم اہل بیت (علیہم السلام) کے سخت محتاج ہیں۔ اس مجموعے میں ایک ایسی کتاب بھی ہے جو خود حضرت محمد مصطفیٰ (صلی اللہ علیہ وآلہ) کے املا سے اور حضرت علی (علیہ السلام) کے دستِ مبارک کے خط سے لکھی گئی ہے۔ اس کتاب میں ایک صحیفہ موجود ہے، جس میں تمام حلال و حرام کے مسائل بیان کیے گئے ہیں اور ان امور کو اس قدر واضح کر دیا گیا ہے کہ جب تم اصحاب ہمارے گھر میں داخل ہوتے ہو تو بغیر اس کے کہ کچھ کہو، ہم اہل بیت (علیہم السلام) جان لیتے ہیں کہ تم نے اس کے کس حکم پر عمل کیا ہے اور کس پر نہیں!"

جفر؛ ایک حفاظتی کتاب

امام صادق (علیہ السلام) نے ایک اور روایت میں فرمایا:

"اگر تم نے پہلے ہی کچھ باتوں کو فاش نہ کیا ہوتا، تو ہم تمہیں ایک ایسی کتاب دیتے کہ اس کی برکت سے تم قیامِ امامِ عصر (علیہ السلام) تک کسی کے بھی محتاج نہ ہوتے اور کسی سے کسی مسئلے کے بارے میں سوال نہ کرتے۔"

روایات کا خلاصہ

اہل بیت (علیہم السلام) کی روایات میں علمِ جفر کے متعلق بہت زیادہ بیانات ملتے ہیں اور ان کا مفہوم ایک دوسرے کے قریب ہے۔ درج بالا روایات ان میں سے چند نمونے ہیں۔ ان روایات سے درج ذیل نکات اخذ کیے جا سکتے ہیں:

جفر کی دو اقسام ہیں:

جفرِ احمر: اس سے مراد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ) کے اسلحہ جات ہیں جو امام کی نشانیوں میں شامل ہیں اور اس وقت حضرت مہدی (عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف) کے پاس محفوظ ہیں۔ بعض روایات میں آیا ہے کہ آخر الزمان میں اس اسلحے سے معجزہ نما امور ظاہر ہوں گے۔

جفرِ ابیض: یہ چمڑے پر تحریر کردہ ایک صحیفہ ہے جو امامت کی نشانیوں میں سے ہے۔

روایات سے واضح ہوتا ہے کہ علمِ جفر نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت علی (علیہ السلام) کو سکھایا اور یہ علم صرف اہل بیت (علیہم السلام) کی میراث ہے۔ تحقیق سے معلوم ہوتا ہے کہ کسی روایت میں یہ ذکر نہیں ملتا کہ اہل بیت (علیہم السلام) نے یہ علم کسی غیر معصوم کو سکھایا ہو، بلکہ بعض مقامات پر اس بات کی صراحت کی گئی ہے کہ یہ علم صرف انبیاء اور اوصیاء کے لیے مخصوص ہے۔ اس کے علاوہ، اہل بیت (علیہم السلام) نے بعض مواقع پر اپنے پاس علمِ جفر ہونے کو اپنی امامت کی دلیل بھی قرار دیا ہے۔ لہٰذا، جو لوگ علمِ جفر کے دعوے دار ہیں، ان کے پاس یا تو جفر کا حقیقی علم نہیں یا اگر کچھ ہے تو وہ ناقص ہے۔ بعض عرفا نے بھی اس حقیقت کا اعتراف کیا ہے۔

روایات کے مطابق، علمِ جفر میں سابقہ تمام آسمانی کتابوں کے معارف، اسلامی احکام اور قیامت تک پیش آنے والے تمام واقعات پوشیدہ ہیں، لیکن اس میں کوئی قرآنی آیت نہیں ہے۔ چونکہ قرآن کریم خود ہر چیز کو واضح کرنے والا ہے، جیسا کہ فرمایا: "اور ہم نے تم پر کتاب نازل کی جو ہر چیز کو واضح کرنے والی ہے..." (النحل: 89)

اس سے یہ نتیجہ نکالا جا سکتا ہے کہ علمِ جفر درحقیقت قرآن کریم کی تاویل کا علم ہے۔ بعض عرفا نے بھی اس نکتے کی طرف اشارہ کیا ہے، جس کی تفصیل اپنی جگہ پر بیان کی جائے گی۔ اور چونکہ قرآن کی مکمل تاویل کا علم صرف امام معصوم (علیہ السلام) کے پاس ہوتا ہے، جو کہ علم میں راسخ ہیں، اس لیے فرمایا گیا:

"اور اس (قرآن) کی تاویل کو اللہ اور وہ لوگ جانتے ہیں جو علم میں راسخ ہیں..." (آل عمران: 7)