اسلام اور عيسائي مذهب ميں شادي

اس بنا پر عیسائیت کا یہ نظریہ کہ شادی نہ کرنا فضیلت کی بات ھے قرآن اور اسلام کی نظر میں کوئی اھمیت نھیں رکھتا.


کیتھولک فرقے میں ایک ایسا ” دینی گروہ “ ھے جو بخیال خود تقویٰ اور پاکیزگی کی منزلوں تک پھونچنے کے لئے جنسی لذت سے کنارہ کش رھتا ھے ۔


مغربی گرجاگھروں میں پادری مرد و عورت کنوارے رھنے کی نذر کرتے ھیں۔ مغربی گر جا گھر وں میں تقریباً انھیں لوگوں کو پادری منتخب کیا جاتا ھے جو کنوارے ھوں اور اس منصب پر پھونچنے کے بعد انھیں یہ حق نھيںھے کہ وہ شادی کر لیں اور اگر پھلے سے شادی شدہ ھیں تو زوجہ کے انتقال کے بعد دوسری شادی نھیں کر سکتے ۔یہ افراد کس حد تک کنوارے رھتے ھیں اور تقویٰ و پرھیزگاری کی کس منزل پر فائز ھیں اور اس گروہ نے کیا کیا تباھی اور گندگی پھیلائی ھے یہ وہ موضوع ھے جس کو بیان کرنے کی ضرورت نھیں ھے اور اس وقت ھماری بحث سے خارج بھی ھے ۔


ھم تو اتنا کھنا چاھتے ھیں کہ دین اسلام خدا ترسی اور تقویٰ و پرھیز گاری کی عظیم منزل پر فائز ھونے کے لئے با شرائط، شادی کو رکاوٹ نھیں تصور کرتا بلکہ اسلام یہ چاھتا ھے کہ مسلمان شادی کے سلسلے میں پیش آنے والی مشکلات کا سامنا کرتے ھوئے روحانی اور معنوی فضیلتوں کو حاصل کرے ۔

تسکین خواھشات اور شدت پسند افراد
فرایڈ اور اس کے ھم فکروں نے اس سلسلے میں افراط کا راستہ اختیار کیا ھے اور اس سلسلے میں سماج کے لئے مکمل آزادی جس میں کوئی قید و شرط نہ ھو کو تجویز کیا ھے ۔ یہ لوگ یا تو اس حقیقت سے ناواقف ھیں کہ افراط کی صورت میں یہ جنسی کشش کیا کیا بر بادی اور تباھی پھیلاتی ھے یا یہ لوگ جان بوجہ کر قوموں کو زھردلوانے اور جوانوں کو تباہ و برباد کرنے کا منصوبہ بنا رھے ھیں ۔


صیھونی رھبروں نے عالمی یھودی سیاست کی تفصیل کے سلسلے میں یہ تصریح کی ھے :
” ھم پرلازم ھے کہ جھاں تک ھو سکے اخلاقیات کو برباد کیا جائے تاکہ زیادہ سے زیادہ قدرت حاصل کی جا سکے ۔ فرایڈھم میں سے ھے وہ برابر جنسی مطالب کی نشر و اشاعت کر رھا ھے تاکہ جوانوں کی نظر میں کسی چیز کا تقدس باقی نہ رہ جائے ان کو بس ایک ھی فکر ھو کہ کسی طرح اپنی جنسی خواھش کو پورا کیا جائے اور آخر کار اپنی انسانیت سے ھاتہ دھو بیٹھیں “ (۳)
جو لوگ فرایڈ کی پیروی کرتے ھیں ان کا یہ خیال درست نھیں ھے کہ جنسی کشش کو کھلی آزادی دینے سے اس کشش کو قابو میں رکھا جا سکتا ھے ۔ ان لوگوں نے صرف اتنا دیکھا ھے کہ اس کشش پر بے جا پابندیوں سے خراب نتائج بر آمد ھوتے ھیں لھذا اس سلسلے میں اس بات کے قائل ھیں کہ جنسی کشش کے سلسلے میں عورت اور مرد کو کھلی چھوٹ دے دینا چاھئے لیکن یہ لوگ اس حقیقت کی طرف متوجہ نھیں ھیں کہ جس طرح بے جا پابندیوں سے خراب نتائج بر آمد ھوتے ھیں اسی طرح کھلی چھوٹ خطرناک نتائج کا پیش خیمہ بن سکتی ھے اور یہ ایسی حقیقت ھے جس کو اس وقت کے مغربی و مشرقی ممالک کے معاشرہ میں باقاعدہ دیکھا جا سکتا ھے ۔


کبھی ایسا بھی ھوتا ھے کہ وہ افراد جو بے قید و شرط آزادی کے خواھاں ھیں جب ان کی ساری خواھشیں پوری نھیں ھوتی ھیں تو ان پر اس کا الٹا اثر ھوتا ھے اور ان کے دل کینہ و کدورت سے بھر جاتے ھیں اگر اس فطری تقاضے کو قابو میں رکھنا چاھتے ھیں اور اسے صحیح طور سے حاصل کرنا چاھتے ھیں تو ضروری ھے کہ اس کو کھلی آزادی نہ دی جائے اور اس کو افراط کی حدود سے محفوظ رکھا جائے ۔

تسکین خواھشات اور اسلام
دین اسلام نے واقعی ، فطری ، انفرادی ، اجتماعی ․․․․․․․تمام ضرورتوں اور مصلحتوں کو پیش نظر رکھتے ھوئے جنسی تسکین کے لئے راستہ معین کیا ھے جس میں بے جا پابندیوں کے نہ خراب اثرات ھیں اور نہ بے قید و شرط آزادی کے تباہ کن نتائج ۔
اسلام نے ایک طرف غیر شادی شدہ رھنے اور معاشرہ سے کنارہ کش رھنے سے منع کیا ھے اور دوسری طرف جنسی تسکین کے لئے شادی کی ترغیب دلائی ھے اور جھاں جنسی کشش کی سر کشی کا خطرہ ھو وھاں شادی کو واجب قرار دیا ھے ۔
غیر شادی شدہ رھنا
اسلام نے تنھا اور غیر شادی شدہ رھنے کو اچھا نھیں سمجھا ھے بلکہ اس کی سخت مذمت کی ھے حضرت رسول (ص) خدا کا ارشاد ھے :
” میری امت کے بھترین لوگ شادی شدہ ھیں اور وہ لوگ برے ھیں جو شادی شدہ نھیں ھیں “ (۴)
عبد اللہ ابن مسعود کا بیان ھے کہ ایک جنگ میں ھم لوگ حضرت رسول خدا(ص) کے ھمرکاب تھے چونکہ ھماری بیویاں ھمارے ساتھ نھیں تھیں ، ھم لوگ سختی سے دن گزار رھے تھے ۔ ھم لوگوں نے آنحضرت سے دریافت کیا ، کیا جائز ھے کہ ھم لوگ اپنی جنسی خواھشات کو بالکل نابود کردیں ؟ حضرت نے ایسا کرنے سے منع فرمایا ۔(۵)

 

اسلام اور رھبانیت
رھبانیت ( دنیا اور اس کی لذتوں کو ترک کر دینا ) کی اسلام میں مذمت کی گئی ھے مسلمانوں کو اس سے دور رھنا چاھئے ۔ پیغمبر اسلام نے ارشاد فرمایا :
” لیس فی امتی رهبانیة “ ” میری امت میں رھبانیت نھیں ھے “(۶)


آنحضرت کو جب یہ معلوم ھوا کہ آپ کے ایک صحابی ” عثمان بن مظعون “ نے دنیا سے منہ پھیر لیا ھے بیوی بچوں سے کنارہ کش ھو گئے ھیں ، دن روزے میں رات عبادت میں بسر کرتے ھیں ، آنحضرت کو ناگوار گزرا۔ناگواری کے عالم میں گھر سے باھر تشریف لائے اور عثمان بن مظعون کے پاس گئے اور فرمایا :
” خدا وند عالم نے مجھے رھبانیت کے لئے نھیں بھیجا ھے بلکہ مجھے ایسے دین کے ساتھ مبعوث کیا ھے جو معتدل ھے، آسان ھے جس میں دشواریاں نھیں ھیں ۔ میںبھی روزہ رکھتا ھوں ، نمازیں پڑھتا ھوں اور اپنی ازواج سے نزدیکی کرتا ھوں جو شخص میرے فطری دین کو دوست رکھتا ھے اس کو چاھئے کہ وہ میری سنت اور روش کی پیروی کرے اور شادی کرنا میری سنتوں میں سے ایک ھے “(۷)


اسلام اور شادی
اسلامی روایات میں شادی کی بھت ترغیب دلائی گئی ھے ۔
” خدا وند عالم کی منجملہ نشانیوں میں ایک نشانی یہ ھے کہ اس نے تم ھی سے تمھارا ھمسفر قرار دیا تاکہ تم اس کے ذریعہ سکون دل حاصل کرو اور تمھارے درمیان مھر ومحبت قرار دی “ (۸)


قرآن کریم کی نظر میں شادی کوئی کثافت اور آلودگی نھیں ھے بلکہ شادی سکون دل کا ذریعہ ھے مھر و محبت کا سبب ھے شادی کی تسکین کو وہ لوگ زیادہ محسوس کر سکتے ھیں جنھوں نے تنھائی کی سختیاں برداشت کی ھوں اور کنواری زندگی کے تلاطم کو محسوس کیا ھو ۔


پیغمبر اسلام نے ارشاد فرمایا :
” اے جوانو ! اگر شادی کرنے کی صلاحیت رکھتے ھو تو ضرور شادی کرو کیونکہ شادی آنکہ کو نا محرموں سے زیادہ محفوظ رکھتی ھے اور پاکدامنی و پرھیز گاری عطا کرتی ھے“(۹)


آنحضرت نے یہ بھی ارشاد فرمایا :
” جس نے شادی کی اس نے اپنا نصف دین محفوظ کر لیا “(۱۰)


اگر شادی کے ذریعہ جنسی کشش کو رام کر لیا گیا تو متلاطم روح کو سکون مل جائے گا اور زندگی کے حقائق بھتر طریقے سے درک کئے جا سکیں گے ۔ دین اور اپنی سعادت کی طرف قدم بڑہ سکیںگے ۔ اس مقصد کے حصول کےلئے ھرایک پر لازم ھے کہ وہ شادی کے شرائط اور وسائل فراھم کرے تاکہ جوانی کے طرب و نشاط سے لطف اندوز ھو کے کامیابیوں کی آغوش میں مھر و محبت کے پھول سونگہ سکے تاکہ جوانی کی بھاروں میں ابر رحمت ٹوٹ کر برسے اور اس کے دامن کردار کو گناہ کی کثافتیں آلودہ نہ کر سکیں اور اس کی زندگی رنج وغم کی تاریکیوں میں بھٹکنے نہ پائے ۔ آنکھیں آوارگی کی کثافتوں میں ملوث نہ ھونے پائیں ۔ اس کی پاکیزگی مجروح نہ ھو اور نیکیاں برائیوں میں تبدیل نہ ھوں ۔

۳۔کتاب آسمانی کدام است ص۲
۴۔بحار الانوار ج ۱۰۳ ص ۲۲۱
۵۔صحیح مسلم جزء ۴ ص ۱۳۰
۶۔بحار ج ۷۰ ص ۱۱۵
۷۔وسائل ج ۱۴ ص ۷۴
۸۔سورہ روم آیت ۲۱
۹۔مستدرک الوسائل ج۲ ص ۵۳۱ حدیث ۲۱
۱۰۔ وسائل الشیعہ ج۱۴ ص ۵