امام رضا عليه السلام کو غریب الغرباء کیوں کها جاتا ہے؟

بہت سے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ امام رضا علیہ السلام کو "امام غریب" یا "غریب الغرباء" اس لیے کہا جاتا ہے کیونکہ آپ اپنے وطن اصلی یعنی مدینہ منورہ سے دور تھے۔ لیکن اگر اس معنی کو دیکھا جائے تو پھر امیر المؤمنین علی علیہ السلام بھی کوفہ میں غریب تھے، اسی طرح امام حسین علیہ السلام، امام موسیٰ بن جعفر علیہ السلام، امام جواد علیہ السلام اور امام عسکریین علیہما السلام بھی غریب تھے۔ لیکن امام رضا علیہ السلام کی غربت ایک خاص قسم کی تھی، اسی لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان "بضعة مني" صرف حضرت فاطمہ الزہرا سلام اللہ علیہا اور امام رضا علیہ السلام کے لیے آیا ہے۔ اگر ایک مخلص شیعہ امام رضا علیہ السلام کی غربت کو سمجھ لے تو اس کا دل ٹکڑے ٹکڑے ہو جائے گا!

آپ کی غربت کئی پہلوؤں سے تھی:

1- وطن سے دوری کی غربت

2- اپنے ہی خاندان میں غربت، کیونکہ بعض نے آپ کو شدید تکلیف پہنچائی۔

3- اپنے والد کے اصحاب میں غربت، کیونکہ بہت سے لوگوں نے آپ کے ساتھ خیانت کی۔

4- مأمون کے محل میں غربت، جو ظاہر میں محل تھا لیکن باطن میں ایک جیل تھی اور جبری قیام گاہ۔

5- اپنی قوم میں غربت، کیونکہ انہوں نے آپ کو تکلیف دی اور آپ پر بہتان لگایا۔

6- مأمون کی فتنہ انگیزیوں میں غربت۔

7- اپنے خاندان کو تباہ ہوتے دیکھنے کی غربت، جیسے حضرت فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیہا اور دیگر، لیکن آپ انہیں خبردار نہ کر سکتے تھے۔

# ایک واقعہ:

جب حرم رضوی میں ابھی دیواریں اور دروازے نہیں لگے تھے۔ ایک ایرانی انجینئر کام کی نگرانی کر رہا تھا کہ شیخ بہائی نے اس سے کہا: "جب تم دیواریں بنا لو تو دروازے نہ لگانا، جب تک میں تمہیں حکم نہ دوں۔" انجینئر نے کہا: "جی مولانا!" لیکن پہلی رات ہی اس نے خواب میں امام رضا علیہ السلام کو دیکھا، جو فرما رہے تھے: "دروازے لگا دو۔" جب وہ بیدار ہوا تو اس نے سوچا کہ یہ صرف ایک خواب ہے، کیونکہ شیخ نے انتظار کرنے کو کہا تھا۔ دوسری رات پھر یہی خواب دیکھا، لیکن امام علیہ السلام نے سختی سے فرمایا۔ تیسری رات امام نے اور بھی سختی سے حکم دیا، تو اس نے سوچا کہ یہ صرف خواب نہیں بلکہ حکم ہے۔ چنانچہ اس نے دروازے لگوا دیے۔

کچھ دن بعد شیخ بہائی آئے اور غصے سے پوچھا: "کیا میں نے تمہیں دروازے نہ لگانے کو نہیں کہا تھا؟" انجینئر نے بتایا کہ امام علیہ السلام نے تین بار خواب میں حکم دیا، تو مجھے یقین ہو گیا کہ یہ آپ کا حکم ہے۔ یہ سن کر شیخ بہائی رونے لگے۔ انجینئر نے پوچھا: "مولانا، آپ کیوں رو رہے ہیں؟" شیخ نے جواب دیا: "یہ واقعی رحمت کے دروازے ہیں اور امت کی نجات کا ذریعہ۔ میں نے سوچا تھا کہ ہر دروازے پر ایسی حفاظتی علامتیں لگاؤں کہ جو شخص بھی گناہگار ہو، وہ اندر نہ جا سکے۔ لیکن امام علیہ السلام نے فرمایا: 'یہ لوگ بے بس ہو کر ہماری پناہ میں آتے ہیں، اگر ہم انہیں واپس کر دیں گے تو پھر وہ کہاں جائیں گے؟"

السلام علیک یا ضامن الجنان یا علی بن موسی الرضا!

اللہ تعالیٰ ہمیں اور آپ کو دنیا میں آپ عليه السلام کی زیارت اور آخرت میں آپ کی شفاعت نصیب فرمائے۔ الهي آمين.

حواله: https://forums.alkafeel.net/node/95266