حضرت فاطمه معصومه(س) كى ولادت اور كمالات

حضرت سیدہ فاطمہ بنت موسیٰ بن جعفر بن محمد بن علی بن الحسین بن علی بن ابی طالب علیہم السلام خدا کے ولی کی بیٹی، خدا کے ولی کی بہن اور خدا کے ولی کی پھوپھی ہیں جیسا کہ ان کی زیارت میں آیا ہے۔

والدہ: فاطمہ علیہا السلام امام رضا علیہ السلام کی حقیقی بہن ہیں، دونوں کی ماں ایک ہی ہے۔ ان کی والدہ ایک كنيز تھیں جنہیں "ام البنین" کے کنیت سے جانا جاتا تھا۔ ان کے متعدد نام ذکر کیے گئے ہیں جیسے نجمہ، ارویٰ، سکن، سمان، اور تکتم۔ امام موسیٰ کاظم علیہ السلام کی ملکیت میں آنے کے بعد ان کا نام "تکتم" مستحکم ہوا۔

وہ عقل اور دین میں بہترین خواتین میں سے تھیں۔ سیدہ حمیدہ مصفّٰی نے اپنے بیٹے امام کاظم علیہ السلام سے کہا: "اے میرے بیٹے! تکتم ایک كنيز ہے، میں نے اس سے بہتر كنيز نہیں دیکھی۔ مجھے یقین ہے کہ اگر اس کی اولاد ہوئی تو خدا ضرور اس کی نسل کو پاک رکھے گا۔ میں نے اسے تمہیں بخش دیا ہے، اس کے ساتھ اچھا سلوک کرنا۔"

جب فاطمہ علیہا السلام کی ولادت ہوئی تو امام کاظم علیہ السلام نے ان کا نام "طاہرہ" رکھا۔ وہ عبادت گزار اور خدا کے حضور گڑگڑانے والی تھیں۔

سیدہ فاطمہ معصومہ(س) کی زندگی:

سیدہ فاطمہ معصومہ علیہا السلام نے اپنے بھائی امام رضا علیہ السلام کے ساتھ کم از کم 20 سال گزارے۔ اگر ہم یہ مان لیں کہ ان کی ولادت 173 ہجری میں ہوئی (جیسا کہ بعض مورخین نے ترجیح دی ہے) تو امام رضا علیہ السلام کے مدینہ سے مرو (خراسان) جانے (200 ہجری) تک ان کی عمر 27 سال تھی۔ اگر ولادت 179 ہجری مان لی جائے تو عمر 21 سال تھی۔ بہر حال، انہوں نے اپنے بھائی کے سایہ میں تربیت پائی اور علم و فضیلت سیکھا۔ امام رضا علیہ السلام نے انہیں تعلیم دی، جس کی وجہ سے وہ علم و معرفت کے اعلیٰ مقام پر فائز ہوئیں۔

امام رضا علیہ السلام کے دور کی مشکلات:

اگرچہ یہ دور امام علیہ السلام کے لیے آسان نہیں تھا، خاندانی تنازعات (بعض بھائیوں اور رشتہ داروں کی ناراضی)، "واقفیہ" فرقے کی فتنہ انگیزی (جو امام موسیٰ کاظم علیہ السلام کی غیبت کے عقیدے پر یقین رکھتے تھے)، اور حکومتی جبر،لیکن امام نے اپنی بہن کی تربیت میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔

سیدہ فاطمہ معصومہ (س)کا مقام:

امام رضا علیہ السلام نے فرمایا: "جو شخص قم میں معصومہ کی زیارت کرے، گویا اس نے میری زیارت کی۔" یہ بات ان کے بلند علمی و روحانی مقام کی دلیل ہے۔ ان کی عصمت (معصومیت) کا تصور بھی ان کے علم کی گہرائی کو ظاہر کرتا ہے، کیونکہ عصمت علم و معرفت کے بغیر ممکن نہیں۔ ان کے جدّ امام جعفر صادق علیہ السلام نے بھی فرمایا کہ ان کی شفاعت تمام شیعوں کو جنت میں داخل کرے گی۔

اگرچہ تاریخی مصادر میں ان کی تعلیمات کے تفصیلی واقعات کم ملتے ہیں، لیکن ان کے مقام کے لیے یہی کافی ہے کہ امام معصوم نے انہیں "معصومہ" کا لقب دیا اور ان کی زیارت کو اپنی زیارت کے برابر قرار دیا۔

اور اس کی تائید میں علامہ شیخ علی اکبر مہدی پور نے ابن العرندس حلی کی کتاب "کشف اللئالی" سے ایک واقعہ نقل کیا ہے جو سید احمد مستنبط کے حوالے سے ایک فضلاء سے منسوب ہے۔ خلاصہ یہ کہ کچھ شیعہ امام موسیٰ کاظم علیہ السلام کے گھر ان سے ملنے اور سلام کرنے آئے، لیکن معلوم ہوا کہ امام سفر پر ہیں۔ ان کے پاس کچھ سوالات تھے جنہیں انہوں نے لکھ کر سیدہ فاطمہ معصومہ علیہا السلام کے حوالے کر دیا اور واپس چلے گئے۔

اگلے دن جب وہ اپنے گھر لوٹنے لگے تو امام کے گھر سے گزرے۔ دیکھا کہ امام ابھی واپس نہیں آئے۔ چونکہ انہیں جانا ضروری تھا، انہوں نے سیدہ سے اپنے سوالات واپس مانگے تاکہ کسی اور موقع پر امام کو پیش کریں۔ سیدہ فاطمہ علیہا السلام نے ان سوالات کے جوابات لکھ کر واپس کیے۔ جب لوگوں نے یہ دیکھا تو خوش ہو کر مدینہ سے نکل گئے۔ راستے میں انہیں امام کاظم علیہ السلام ملے جو مدینہ واپس آرہے تھے۔ انہوں نے واقعہ سنایا تو امام نے سوالات اور جوابات دیکھنے چاہے۔ جب امام نے جوابات پڑھے تو تین بار فرمایا: "فداها أبوها"(ان کے بابا ان پر قربان هو!)۔

یہ واقعہ سیدہ کے بلند علمی مرتبے کو ظاہر کرتا ہے۔ شیخ مہدی پور کے مطابق، یہ اس بات کی دلیل ہے کہ وہ "عالمہ غیر معلّمہ" تھیں، یعنی بغیر رسمی تعلیم کے ہی علم رکھتی تھیں۔ حالانکہ وہ اس وقت کم عمر تھیں، لیکن تاریخ نے ان سے منسوب چند روایات محفوظ کی ہیں جو ان کے علمی مقام کو ثابت کرتی ہیں۔

حدیث اور علم رجال کا تعلق:

حدیث کا علم تفسیر، فقہ، اخلاقیات، اور کلام جیسے علوم کا مجموعہ ہے۔ شیعہ علماء نے ائمہ علیہم السلام کی احادیث کو محفوظ کرنے، انہیں مرتب کرنے، اور ان کی تنقیدی تحقیق کر کے "کتب اربعہ" جیسی عظیم کتابیں تیار کیں۔ ساتھ ہی، انہوں نے "علم رجال" (راویوں کے حالات کا علم) کو فروغ دیا جس میں روایات کی سندوں اور راویوں کے حالات کو پرکھا جاتا ہے۔ اگرچہ اس علم کو "رجال" کا نام دیا گیا، لیکن یہ صرف مردوں تک محدود نہیں۔ کئی خواتین راویہ بھی تھیں جن کا ذکر معتبر کتب میں ملتا ہے، اور سیدہ فاطمہ معصومہ علیہا السلام ان میں سرفہرست ہیں۔ ان سے بڑے بڑے علماء نے روایات نقل کی ہیں، جو ان کے علمی مقام کی واضح دلیل ہے۔

سیدہ فاطمہ معصومہ علیہا السلام کا علمی مقام صرف روایات تک محدود نہیں، بلکہ ان کی شخصیت اماموں کے گھرانے کی تربیت، عصمت، اور خدا کی خاص عنایت کی عکاس ہے۔ امام رضا علیہ السلام کا ان کی زیارت کو اپنی زیارت کے برابر قرار دینا ان کے روحانی عظمت کو مزید اجاگر کرتا ہے۔لیکن یہ بات تعجب خیز ہے کہ ہمیں اس جلیل القدر اور عظیم محدثہ خاتون کا ترجمہ ان معاجم میں نہیں ملتا جو راویوں کے ناموں کو ضبط کرنے کے لیے مشہور ہیں۔ اسی لیے شیخ النمازی نے اپنی کتاب "مستدرکات" میں ان کا ذکر کرتے ہوئے صرف ان مقامات کی طرف اشارہ کیا ہے جہاں ان کا تذکرہ کتاب "بحار الانوار" میں آیا ہے۔ حالانکہ ان معاجم کے مصنفین نے ان سے کم شہرت اور کم روایت کرنے والی خواتین کا ذکر کیا ہے۔ ہم سمجھ نہیں پاتے کہ اس کی کیا وجہ ہو سکتی ہے! بہرحال، یہ جلیل القدر خاتون محدثات میں سے تھیں، اور ان کا ذکر شیعہ کے علاوہ اہل سنت کے اسناد میں بھی آیا ہے۔ مثال کے طور پر، امام جعفر بن احمد القمی کی کتاب "المسلسلات" میں ایک روایت ان الفاظ کے ساتھ نقل ہوئی ہے:

"ہمیں محمد بن علی بن الحسین نے حدیث بیان کی، انہوں نے کہا کہ مجھے احمد بن زیاد نے حدیث سنائی، انہوں نے کہا کہ مجھے ابو القاسم جعفر بن محمد العلوی العریضی نے حدیث سنائی، انہوں نے کہا کہ ابو عبد اللہ احمد بن محمد بن خلیل نے کہا کہ مجھے علی بن محمد بن جعفر الاہوازی نے خبر دی، انہوں نے کہا کہ مجھے بکیر بن احنف نے حدیث سنائی، انہوں نے کہا کہ ہمیں فاطمہ بنت علی بن موسی الرضا علیہ السلام نے حدیث سنائی، انہوں نے کہا کہ مجھے فاطمہ، زینب اور ام کلثوم (موسی بن جعفر علیہما السلام کی بیٹیوں) نے حدیث سنائی، انہوں نے کہا کہ ہمیں فاطمہ بنت جعفر بن محمد علیہ السلام نے حدیث سنائی، انہوں نے کہا کہ مجھے فاطمہ بنت محمد بن علی علیہ السلام نے حدیث سنائی، انہوں نے کہا کہ مجھے فاطمہ بنت علی بن الحسین علیہ السلام نے حدیث سنائی، انہوں نے کہا کہ مجھے فاطمہ اور سکینہ (حسین بن علی علیہ السلام کی بیٹیوں) نے حدیث سنائی، انہوں نے ام کلثوم بنت علی علیہ السلام سے روایت کی، انہوں نے فاطمہ بنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کی کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا:

"جب مجھے معراج ہوئی اور میں جنت میں داخل ہوا تو میں نے ایک سفید موتی کا محفوظ محل دیکھا، جس کے دروازے پر یاقوت اور موتی جڑے ہوئے تھے اور دروازے پر ایک پردہ تھا۔ میں نے سر اٹھایا تو دروازے پر لکھا ہوا دیکھا: 'لا الہ الا اللہ، محمد رسول اللہ، علی ولی الله'، اور پردے پر لکھا تھا: 'بخ بخ، شیعہ علی علیہ السلام جیسے لوگوں کے لیے!' پھر میں اس میں داخل ہوا تو ایک سرخ عقیق کا محل دیکھا، جس پر چاندی کا دروازہ تھا جس پر زبرجد جڑا ہوا تھا، اور دروازے پر ایک پردہ تھا۔ میں نے سر اٹھایا تو دروازے پر لکھا ہوا تھا: 'محمد رسول اللہ، علی وصی المصطفی'، اور پردے پر لکھا تھا: 'شیعہ علی کو خوشخبری ہو، ان کی پیدائش پاکیزہ ہے۔' پھر میں اس میں داخل ہوا تو ایک سبز زمرد کا محل دیکھا، جو نہایت خوبصورت تھا، اس پر سرخ یاقوت کا دروازہ تھا جس پر موتی جڑے ہوئے تھے، اور دروازے پر ایک پردہ تھا۔ میں نے سر اٹھایا تو پردے پر لکھا ہوا تھا: 'شیعہ علی ہی فلاح پانے والے ہیں۔' میں نے پوچھا: 'اے میرے محبوب جبرائیل! یہ کس کے لیے ہے؟' تو انہوں نے کہا: 'اے محمد! یہ آپ کے چچا زاد اور وصی علی بن ابی طالب (علیہ السلام) کے لیے ہے۔ قیامت کے دن تمام لوگ ننگے پاؤں اور ننگے بدن اٹھائے جائیں گے، سوائے شیعيان علی (علیہ السلام) کے۔ اور تمام لوگوں کو ان کی ماؤں کے نام سے پکارا جائے گا، سوائے شیعہ علی (علیہ السلام) کے، جنہیں ان کے باپوں کے نام سے پکارا جائے گا۔' میں نے پوچھا: 'اے جبرائیل! یہ کیسے ہوگا؟' تو انہوں نے کہا: 'کیونکہ انہوں نے علی (علیہ السلام) سے محبت کی، اس لیے ان کی پیدائش پاکیزہ ہوئی۔'"

اسی طرح محمد جزری نے اپنی کتاب "اسنی المطالب" میں علی بن محمد بن جعفر الاہوازی کے طریقے سے بکر بن احمد القصری کے ذریعے "الفواطم" (فاطمی خواتین) سے روایت کی ہے کہ فاطمہ بنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

"کیا تم لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ فرمان بھول گئے جو آپ نے غدیر خم کے دن فرمایا تھا: 'جس کا میں مولا ہوں، اس کا علی مولا ہے'؟ اور آپ کا یہ فرمان: 'تم میرے لیے وہی مقام رکھتے ہو جو ہارون (علیہ السلام) کا موسیٰ (علیہ السلام) کے لیے تھا'؟"

اس قسم کے اسناد کو "مسلسل" کہا جاتا ہے، جو حدیث کی حفاظت کا ایک خاص طریقہ ہے۔ اس میں راویوں کے تسلسل پر خصوصی توجہ دی جاتی ہے، جیسے ہر راوی کہتا ہے: "میں نے فلاں سے سنا، وہ کہہ رہا تھا کہ میں نے فلاں سے سنا..." یا "ہمیں فلاں نے اللہ کی قسم دے کر بیان کیا..." وغیرہ۔ محقق داماد نے اس کی تعریف کرتے ہوئے اس کی 15 سے زیادہ اقسام بیان کی ہیں۔ مذکورہ بالا دو اسناد میں ایک اضافی خصوصیت یہ بھی ہے کہ ہر فاطمہ اپنی پھوپھی سے روایت کر رہی ہے، یعنی یہ پانچ بہنیں ایک دوسرے سے روایت کرتی ہیں۔

مختصر یہ کہ یہ جلیل القدر خاتون (فاطمہ معصومہ علیہا السلام) نے علم و معرفت کا بڑا حصہ حاصل کیا، جو انہیں خالص سرچشموں سے ملا، یہاں تک کہ وہ بلند مقام تک پہنچ گئیں، اگرچہ ہم تک ان کی بہت سی روایات نہیں پہنچی ہیں۔

ماخذ:شبکہ المعارف الاسلامیہ