اللہ تعالى کے دیدار کے تصور پر ایک تنقیدی مطالعہ

یہ مقالہ ابن تیمیہ کے تصورِ رؤیتِ الٰہی (اللہ کے دیدار) کا تفصیلی اور تنقیدی مطالعہ پیش کرتا ہے۔ ابن تیمیہ، جو سلفی مکتب فکر کے بڑے مشهور عالم ہیں، نے رؤیتِ باری تعالیٰ کو ایک مسلم عقیدہ قرار دیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کا دیدار نہ صرف آخرت میں ممکن ہے بلکہ دنیا میں بھی— اگرچہ غیرمعمولی حالات میں—ممکن ہو سکتا ہے۔ ان کے مطابق اللہ تعالیٰ کو خواب میں دیکھنا بھی ممکن ہے اور یہ بعض صالحین کو نصیب ہوا ہے۔

ابن تیمیہ کی آراء قرآن و سنت کی روشنی میں ہیں، لیکن ان کی تعبیرات میں ظاہریت غالب ہے۔ وہ نصوصِ شرعیہ کی تاویل یا مجاز سے گریز کرتے ہیں اور اس بات پر زور دیتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کو آخرت میں مومن اپنی آنکھوں سے دیکھیں گے، جیسا کہ بعض احادیث میں صراحت موجود ہے۔ وہ انکارِ رؤیت کو گمراہی قرار دیتے ہیں اور معتزلہ جیسے مکاتب فکر پر تنقید کرتے ہیں جو اللہ کے دیدار کے قائل نہیں۔

مقالہ نگار نے اس تصور پر تنقیدی نظر ڈالتے ہوئے مختلف پہلوؤں کو اجاگر کیا ہے۔ پہلا پہلو تو یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کو مخلوقات کے خواص سے متصف کرنا یا اسے مکان و جہت کا پابند سمجھنا توحید کے منافی ہو سکتا ہے۔ اگرچہ ابن تیمیہ خود تجسیم (anthropomorphism) کے قائل نہیں، لیکن ان کے بعض بیانات ایسے فہم کو جنم دیتے ہیں۔ وہ اللہ کے چہرے، ہاتھ، اور آنے جانے جیسے افعال کو بغیر کسی تاویل کے قبول کرتے ہیں، جو کہ بعض اوقات اللہ تعالیٰ کی صفات کو انسانی صفات کے مشابہ بنا دیتا ہے۔

مقالہ میں یہ نکتہ بھی اٹھایا گیا ہے کہ دنیا میں رؤیتِ الٰہی کی جو مثالیں دی گئی ہیں، وہ خواب یا غیر معمولی روحانی کیفیات پر مبنی ہیں جنہیں عام شرعی اصولوں پر پرکھنا مشکل ہے۔ نیز، دنیا میں دیدار کا امکان اس دنیا کی محدوديت اور اللہ تعالیٰ کے لامحدود ہونے میں تضاد پیدا کرتا ہے۔

ایک اور اہم پہلو مختلف مکاتبِ فکر کا تقابلی جائزہ ہے۔ معتزلہ رؤیتِ الٰہی کے سخت مخالف ہیں، کیونکہ ان کے نزدیک یہ بات اللہ کی ذات کے تنزیہی تصور کے خلاف ہے۔ اشاعرہ نے ایک درمیانی راستہ اختیار کیا ہے؛ وہ آخرت میں رؤیت کے قائل ہیں مگر دنیا میں نہیں۔ صوفیہ کی آراء متنوع ہیں، کچھ اسے روحانی مشاہدہ قرار دیتے ہیں تو کچھ حقیقی دیدار کے بھی قائل ہیں۔

تحقیق کے آخر میں مقالہ نگار اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ ابن تیمیہ کا تصورِ رؤیت اگرچہ سلفی مکتب کے مطابق ہے، لیکن اس میں بعض ایسے پہلو موجود ہیں جو متنازع اور مزید تحقیق کے متقاضی ہیں۔ ان کے دلائل اگرچہ نصوص پر مبنی ہیں، لیکن تعبیرات میں جمود اور تاویل سے انکار بعض اوقات توحید کے اساسی اصولوں سے متصادم ہو جاتا ہے۔