بس ایک بار اور... پھر توبہ!

تحریر: سید غیور الحسنین نقوی

سوال: اگر ہمیں معلوم ہو کہ کوئی کام گناہ (حرام) ہے، اور ہم یہ سوچ کر کریں کہ "بس یہ آخری بار ہے، پھر توبہ کر لیں گے" تو کیا ہمارا گناہ اور بڑا ہو جائے گا؟

✅ جواب: جی ہاں، اگر کوئی گناہ جان بوجھ کر اور پہلے سے سوچ کر کیا جائے، تو وہ اور بھی بڑا گناہ بن جاتا ہے۔ یہ سوچنا کہ "ابھی گناہ کر لیں، بعد میں توبہ کر لیں گے" یہ شیطان کا دھوکہ ہے۔ کیا پتہ کہ ہمیں دوبارہ توبہ کا موقع ہی نہ ملے؟

جب کوئی شخص گناہ کرنے کا پلان بناتا ہے، تو اس کا مطلب ہے کہ وہ گناہ کو برا نہیں سمجھ رہا بلکہ اس سے خوش ہو رہا ہے۔ اور جو شخص دل سے گناہ کو برا نہ سمجھے، اس کی توبہ سچی نہیں ہوتی۔

🔸 مثال:

فرض کریں ایک بچہ جانتا ہے کہ جھوٹ بولنا غلط بات ہے۔ لیکن وہ سوچتا ہے: "میں صرف ایک آخری بار جھوٹ بولتا ہوں، بس اس کے بعد کبھی نہیں بولوں گا۔" اب وہ جھوٹ بولتا ہے، اور دل میں پہلے ہی یہ پلان بنایا ہوتا ہے کہ بعد میں توبہ کر لے گا۔ یہ بلکل ایسا ہے جیسے کوئی جان بوجھ کر آگ میں ہاتھ ڈالے اور کہے: "میں بعد میں پٹی باندھ لوں گا، ابھی تو ہاتھ جلنے دو!" ایسا سوچنا نہ عقلمندی ہے، نہ توبہ کی نشانی۔ کیونکہ: پہلے سے گناہ کا ارادہ کرنا، یہ دل کی سختی اور اللہ کی نافرمانی ہے۔ گناہ کرتے ہوئے "توبہ کا ارادہ" کرنا، یہ اصل توبہ نہیں، بلکہ ایک بہانہ ہے۔ زندگی کا کوئی بھروسہ نہیں، شاید توبہ کا موقع ہی نہ ملے۔

📌 نتیجہ:

سچی توبہ یہ ہے کہ انسان گناہ کو برائی سمجھے، اس پر شرمندہ ہو، اور دل سے ارادہ کرے کہ دوبارہ نہیں کرے گا۔ "آخری بار" کا بہانہ بنانا، دراصل گناہ کو چھوٹا سمجھنے کی علامت ہے جو خود ایک بڑا گناہ ہے۔