وہ صحابہ جو لشکر یزید میں تھے اور امام حسین علیہ السلام کے قتل میں شریک ہوئے:

تحرير: نامعلوم

 

حیران کن انکشاف

اب کھاں گئ ان کی صحابیت

یا پھر خطاے اجتھادی کا فائدہ دیا جاے گا؟؟؟؟

 

چند صحابہ کربلاء میں لشکر یزید میں حاضر ہوئے اور فرزند رسول کے قتل میں شریک ہوئے۔

ان میں سے 8 صحابہ کے نام ذکر ہو رہے ہیں:

 

   1 . كثير بن شهاب الحارثي:

اس کے صحابی ہونے کے بارے میں:

قال أبو نعيم الأصبهاني المتوفی  : 430:

كثير بن شهاب البجلي رأى النبي(ص).

    کثیر بن شھاب نے نبیّ (ص) کو دیکھا تھا۔

 تاريخ أصبهان  ج 2   ص 136 ،    ، دار النشر : دار الكتب العلمية – بيروت - 1410 هـ-1990م ، الطبعة : الأولى ، تحقيق : سيد كسروي حسن

 

قال ابن حجر:

يقال ان له صحبة ... قلت ومما يقوي ان له صحبة ما تقدم انهم ما كانوا يؤمرون الا الصحابة وكتاب عمر اليه بهذا يدل على انه كان أميرا.

اس کے صحابی ہونا کا قوی احتمال ہے اس لیے کہ وہ فقط صحابہ ہی کو جنگ کی سپہ سالاری دیتے تھے۔

الإصابة في تمييز الصحابة  ج 5   ص 571 نشر : دار الجيل – بيروت.

 

2 . حجار بن أبجر العجلي:

ابن حجر عسقلانی نے اسے صحابی کہا ہے اور بلاذری نے اس کے خط کو جو اس نے امام حسین(ع) کو لکھا ہے، کو نقل کیا ہے:

حجار بن أبجر بن جابر العجلي له إدراك.

اس نے نبی(ع) کے زمانے کو درک کیا ہے۔

الإصابة في تمييز الصحابة  ج 2   ص 167 رقم 1957 ، دار النشر : دار الجيل – بيروت

 

قالوا: وكتب إليه أشراف أهل الكوفة ... وحجار بن أبجر العجلي... .

امام حسین(ع) کو بزرگان کوفہ نے خط لکھے ہیں ان میں سے ایک حجار ابن ابجر ہے۔

أنساب الأشراف  ج 1   ص 411

 

وہ ایک ہزار کے لشکر کی سالاری کرتا ہوا کربلاء پہنچا:

قال أحمد بن يحيى بن جابر البلاذری:

وسرح ابن زياد أيضاً حصين بن تميم في الأربعة الآلاف الذين كانوا معه إلى الحسين بعد شخوص عمر بن سعد بيوم أو يومين، ووجه أيضاً إلى الحسين حجار بن أبجر العجلي في ألف.

وہ کربلاء میں ہزار سپاہیوں کے ہمراہ شریک ہوا۔

أنساب الأشراف  ج 1   ص 416

 

3. عبد الله بن حصن الأزدی:

اس کے صحابی ہونے کے بارے میں:

 قال ابن حجر أبو الفضل العسقلاني الشافعي  المتوفي:  852: عبد الله بن حصن بن سهل ذكره الطبراني في الصحابة۔

 

طبرانی نے اسے صحابہ میں ذکر کیا ہے۔

الإصابة في تمييز الصحابة  ج 4   ص 61  رقم 4630،  ، دار النشر : دار الجيل – بيروت

 

کربلاء میں اس کا امام حسین(ع) کی توھین کرنا:

وناداه عبد الله بن حصن الأزدي: يا حسين ألا تنظر إلى الماء كأنه كبد السماء، والله لا تذوق منه قطرة حتى تموت عطشاً.

عبد اللہ ازدی نے کہا: اے حسین کیا تم پانی کی طرف نہیں دیکھ رہے لیکن خدا کی قسم اس میں سے ایک قطرہ بھی تم کو نہیں ملے گا حتی تم پیاسے ہی مرو گے۔

أنساب الأشراف  ج 1   ص 417

 

4. عبدالرحمن بن أبي سبرة الجعفی:

اس کے صحابی ہونے کے بارے میں:

 قال ابن عبد البر المتوفي 463: عبد الرحمن بن أبى سبرة الجعفى واسم أبى سبرة زيد بن مالك معدود فى الكوفيين وكان اسمه عزيرا فسماه رسول الله صلى الله عليه وسلم عبد الرحمن ...

اس کا نام عزیز تھا پھر رسول خدا(ص) نے اس کا نام عبد الرحمن رکھا۔

الاستيعاب  ج 2   ص 834  رقم 1419، نشر : دار الجيل – بيروت.

 

اس کا قبیلہ اسد کی سربراہی کرنا اور امام حسین(ع) کے قتل میں شریک ہونا:

قال ابن الأثير المتوفي:  630هـ : وجعل عمر بن سعد علي ربع أهل المدينة عبد الله بن زهير الأزدي وعلي ربع ربيعة وكندة قيس بن الأشعث بن قيس وعلي ربع مذحج وأسد عبد الرحمن بن أبي سبرة الجعفي وعلي ربع تميم وهمدان الحر بن يزيد الرياحي فشهد هؤلاء كلهم مقتل الحسين.

وہ قبیلہ مذحج اور اسد کا سالار تھا اور کربلاء میں حاضر ہوا۔

الكامل في التاريخ  ج 3   ص 417 ،  دار النشر : دار الكتب العلمية – بيروت

 

5. عزرة بن قيس الأحمسی:

اس کے صحابی ہونے کے بارے میں:

 قال ابن حجر أبو الفضل العسقلاني الشافعي  المتوفي:  852:  عزرة بن قيس بن غزية الأحمسي البجلي ... وذكره بن سعد في الطبقة الأولى۔

اس کو ابن سعد نے پہلے طبقے میں ذکر کیا ہے۔( یعنی صحابی تھا)

الإصابة في تمييز الصحابة  ج 5   ص 125  رقم 6431، نشر : دار الجيل – بيروت.

 

اس نے امام حسين (ع) کو خط لکھا تھا:

قالوا: وكتب إليه أشراف أهل الكوفة ... وعزرة بن قيس الأحمسی۔

اس نے امام حسین(ع) کو خط لکھا تھا۔

 أنساب الأشراف  ج 1   ص 411

 

گھوڑے سواروں کا سالار:

وجعل عمر بن سعد ... وعلى الخيل عزرة بن قيس الأحمسی۔

أنساب الأشراف  ج 1   ص419

وہ گھوڑے سوار لشکر کا سالار تھا۔

شھداء کے سر لے کر ابن زیاد کے پاس گیا:

واحتزت رؤوس القتلى فحمل إلى ابن زياد اثنان وسبعون رأساً مع شمر... وعزرة بن قيس الأحمسي من بجيلة، فقدموا بالرؤوس على ابن زياد۔

أنساب الأشراف  ج 1   ص 424

 

6 - عبد الرحمن بن أَبْزى:

له صحبة وقال أبو حاتم أدرك النبي صلى الله عليه وسلم وصلى خلفه۔

وہ صحابی ہے۔ ابو حاتم نے کہا ہے کہ اس نے نبی(ص) کے پیچھے نماز پڑھی ہے۔

الإصابة - ابن حجر - ج 4 ص 239

 

قال المزّي: «سكن الكوفة واستُعمل عليها»، وكان ممّن حضر قتال الإمام عليه السلام بكربلاء۔

مزّی کہتا ہے کہ وہ کوفے میں رہتا تھا۔ وہ امام حسین(ع) سے جنگ کرنے کربلاء حاضر ہوا تھا۔

تهذيب الكمال 11 / 90 رقم 3731.

 

7 - عمرو بن حريث:

يكنى أبا سعيد رأى النبي صلى الله عليه وسلم۔

اس نے نبی(ص) کو دیکھا تھا۔

أسد الغابة - ابن الأثير - ج 4 ص 97

سپہ سالاروں میں سے تھا:

             ومن القادة: «عمرو بن حريث وهو الذي عقد له ابن زياد رايةً في الكوفة وأمّره على الناس.

ابن زیاد نے اسے کوفہ میں علم جنگ دیا اور لوگوں پر امیر بنایا تھا۔

بحار الأنوار 44 / 352.

وبقي على ولائه لبني أُميّة حتّى كان خليفة ابن زياد على الكوفة.

بنی امیّہ کے لیے والی رہا یہاں تک کہ ابن زیاد کوفہ کا خلیفہ تھا۔

 أنساب الأشراف 6 / 376.

 

8 - أسماء بن خارجة الفزاری:

اس کے صحابی ہونے کے بارے میں:

 وقد ذكروا أباه وعمه الحر في الصحابة وهو على شرط بن عبد البر۔

اس کو صحابہ میں سے شمار کیا گیا ہے۔

 الإصابة في تمييز الصحابة  ج 1   ص 195 ، دار النشر : دار الجيل – بيروت

 

امام حسين(ع) کے قتل کرنے میں اس کا شریک ہونا:

دعا ابن زياد ... وأسماء بن خارجة الفزاري، ... وقال: طوفوا في الناس فمروهم بالطاعة ... وحثوهم على العسكرة. فخرجوا فعذروا وداروا بالكوفة ثم لحقوا به۔

اسماء بن خارجہ یہ لوگوں کو بنی امیہ کی اطاعت اور امام حسین سے جنگ کا حکم دیتا تھا۔

أنساب الأشراف  ج 1   ص 416.

 

ب: یزید کی طرف سے امام حسين(ع) کو شھید کرنے کا حکم صادر ہونا:

یزید کے قاتل ہونے کے لیے ضروری نہیں کہ خود کربلاء جا کر امام حسین(ع) کو قتل کرے بلکہ جب ایک حاکم کے نیچے کام کرنے والے اس کے وزراء وغیرہ جب ہر کام کے انجام دینے میں حاکم کے تابع ہوتے ہیں تو ان سب کے کام اور سب کی کامیابی اور ناکامی اس حاکم کی طرف منسوب ہوتی ہے۔ یزید کے  امام حسین(ع کے قاتل ہونے میں بھی ایسے ہی ہے۔

ایک دوسری عبارت کے ساتھ کہ: يزيد بن معاوية قاتل امام حسين (ع) ہے لیکن ابن زياد، و شمر و عمر بن سعد. کی تلوار کے ساتھ۔ یعنی تلوار وہ چلا رہے تھےلیکن حکم یزید کا تھا۔

ذهبی لکھتا ہے کہ:

خرج الحسين إلي الكوفة، فكتب يزيد إلي واليه بالعراق عبيد الله بن زياد: إن حسينا صائر إلي الكوفة، وقد ابتلي به زمانك من بين الأزمان، وبلدك من بين البلدان، وأنت من بين العمال، وعندها تعتق أو تعود عبدا. فقتله ابن زياد وبعث برأسه إليه.

امام حسین(ع) نے جب کوفے کی طرف حرکت کی تو یزید نے عراق کے والی عراق عبيد الله بن زياد کو لکھا کہ حسین کوفے کی طرف جا رہا ہے اس نے دوسرے شہروں کی بجائے آنے کے لیے تمہارے شہر کو انتخاب کیا ہے تم میرے قابل اعتماد ہو پس تم خود فیصلہ کرو کہ تم نے آزاد رہ کر زندگی گزارنی ہے یا غلام بن کر۔ اس پر ابن زیاد نے حسین کو قتل کیا اور اس کے سر کو یزید کے لیے بیجھا۔

شمس الدين محمد بن أحمد بن عثمان الذهبي الوفاة: 748هـ ، تاريخ الإسلام  ج 5   ص 10 دار النشر : دار الكتاب العربي - الطبعة : الأولى ، تحقيق : د. عمر عبد السلام تدمرى

محمد بن أحمد بن عثمان بن قايماز الذهبي أبو عبد الله الوفاة: 748 ، سير أعلام النبلاء  ج 3   ص 305 دار النشر : مؤسسة الرسالة - بيروت - التاسعة ، تحقيق : شعيب الأرناؤوط , محمد نعيم العرقسوسي

یہی مطلب ابن عساکر سے بھی نقل ہوا ہے:

تاريخ دمشق، ج 14، ص 213 ـ و در حاشيه بغية الطالب، ج 6، رقم 2614.تاريخ دمشق، ج 14، ص 213 ـ و در حاشيه بغية الطالب، ج 6، رقم 2614.

 

 جلال الدین سيوطی نے بھی لکھا ہے کہ:

فكتب يزيد إلي واليه بالعراق، عبيد الله بن زياد بقتاله.

يزيد نے  عبيد الله بن زيادکہ جو  والی عراق تھا اس کو امام حسین(ع) کے ساتھ جنگ کرنے کا حکم دیا۔

تاريخ الخلفاء، ص 193، چاپ دار الفكر سال 1394 هـ. بيروت.

 

ابن زياد نے مسافر بن شريح يشكری کو لکھا کہ:

أما قتلي الحسين، فإنه أشار علي يزيد بقتله أو قتلي، فاخترت قتله.

میں نے حسین کو اس لیے قتل کیا ہے کہ مجھے حسین کے قتل کرنے یا خود مجھے قتل ہونے کے درمیان اختیار کیا گیا تھا اور میں ان دونوں میں سے حسین کو قتل کرنے کو انتخاب کیا۔

الكامل في التاريخ، ج 3، ص 324.

 

ابن زياد نے امام حسين(ع) کو خط لکھا کہ:

قد بلغني نزولك كربلاء، وقد كتب إلي أمير المؤمنين يزيد: أن لا أتوسد الوثير، ولا أشبع من الخمير، أو ألحقك باللطيف الخبير، أو تنزل علي حكمي، وحكم يزيد، والسلام.

مجھے خبر ملی ہے کہ تم کربلاء میں پہنچ گئے ہو اور یزید نے مجھے کہا ہے کہ بستر پر آرام سے نہ سوؤں اور پیٹ بھر کر کھانا نہ کھاؤں مگر یہ کہ یا تم کو خدا کے پاس روانہ کر دوں یا تم کو یزید کی بیعت کرنے پر راضی کروں۔