عزاداري امام رضا عليه السلام كى نظر ميں

عزاداري امام رضا عليه السلام كى نظر ميں

قال الرضا علیہ السلام:

يَا ابْنَ شَبِيبٍ إِنْ كُنْتَ بَاكِياً لِشَيْ‏ءٍ فَابْكِ لِلْحُسَيْنِ بْنِ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ

اے فرزند شبیب! اگر تمہیں کسی چیز پر رونا آئے تو فرزند رسولؐ حسینؑ ابن علیؑ پر گریہ کرو۔

امام علی ابن موسی الرضا علیہ السلام کا ایک لقب غریب الغرباہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ آپؑ کو بادشاہ وقت نے اپنے وطن مدینے سے بہت دور ایران میں رکھا جہاں آپ اپنے اہل و عیال اور احباب سے دور یکہ و تنہا ہوگئے۔ آپؑ کو بنی عباس جو اہلبیت کے دشمن تھے، کے درمیان زندگی گزارنی پڑی۔ ایسے پرآشوب حالات میں آپؑ نے دین اہلبیتؑ کی تبلیغ فرمائ اور بنی عباس کے کچھ نیک و صالح افراد آپؑ کے شیعہ بن گئے۔ انھیں افراد میں ایک مشہور نام جناب ریان بن شبیب کا ہے جو ایک قول کے مطابق خلیفہ مامون رشید کے ماموں تھے۔ حضرت نے ان کو بہت سے رموز اہل بیت سکھائے جن کو ابن شبیب نے روایت بھی کیا ہے۔ ان احادیث میں ایک بہت ہی مشہور روایت یہ ہے کہ فرزند رسولؐ نے ابن شبیب سے اپنے جد مظلوم، شہید کربلا کے مصائب بیان کیے اور ان کا غم منانے کی نصیحت فرمائ ہے۔ اس روایت کو شیعوں کے جیّد علماء نے اپنی اپنی کتابوں میں نقل کیا ہے۔ اس روایت میں امام نے ایک مومن کو ‘حسینی’ بننے کا سلیقہ بتایا ہے۔ پیش ہیں اس روایت کے کچھ اہم فقرے-

يَا ابْنَ شَبِيبٍ إِنْ كُنْتَ بَاكِياً لِشَيْ‏ءٍ فَابْكِ لِلْحُسَيْنِ بْنِ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ ع فَإِنَّهُ ذُبِحَ كَمَا يُذْبَحُ الْكَبْشُ

اے فرزند شبیب! اگر تم کسی پر رونا چاہو (اور اس کا غم تم کو رلائے تو پہلے) فرزند رسولؐ حسینؑ ابن علیؑ پر گریہ کرو۔ اس لیے کہ ان کو مظلومی کی حالت میں اس طرح ذبح کیا گیا جیسے کسی بھیڑ کو ذبح کیا جاتا ہے۔

وَ قُتِلَ مَعَهُ مِنْ أَهْلِ بَيْتِهِ ثَمَانِيَةَ عَشَرَ رَجُلًا مَا لَهُمْ فِي الْأَرْضِ شَبِيهُونَ

(اتنا ہی نہیں بلکہ) ان کے ساتھ ان کے خاندان کے ایسے اٹھارہ افراد کو بھی شہید کیا گیا جن کی دنیا میں کوئ مثال نہیں ہے۔

وَ لَقَدْ بَكَتِ السَّمَاوَاتُ السَّبْعُ وَ الْأَرَضُونَ لِقَتْلِهِ

ان کی شہادت پر ساتوں آسمان اور زمینوں نے گریہ کیا

وَ لَقَدْ نَزَلَ إِلَى الْأَرْضِ مِنَ الْمَلَائِكَةِ أَرْبَعَةُ آلَافٍ لِنَصْرِهِ

سید الشہداء کی نصرت کے لیے چار ہزار ملائکہ آسمان سے زمین کی طرف نازل ہوے

فَوَجَدُوهُ قَدْ قُتِلَ فَهُمْ عِنْدَ قَبْرِهِ شُعْثٌ غُبْرٌ إِلَى أَنْ يَقُومَ الْقَائِمُ فَيَكُونُونَ مِنْ أَنْصَارِهِ وَ شِعَارُهُمْ يَا لَثَارَاتِ الْحُسَيْنِ

مگر جب وہ کربلا پہنچے تو فرزند زہراء قتل کیا جاچکا تھا۔ تب سے یہ ملائکہ ان کی قبر مطہر کی مجاوری کررہے ہیں اور گریہ و زاری میں مصروف ہیں۔ یہ اس دن کا انتظار کر رہے ہیں جب ہمارا قائم قیام کرےگا۔ یہ ان کے لشکر میں شامل ہوں گے۔ ان کا نعرہ ہوگا ‘يَا لَثَارَاتِ الْحُسَيْنِ’

يَا ابْنَ شَبِيبٍ لَقَدْ حَدَّثَنِي أَبِي عَنْ أَبِيهِ عَنْ جَدِّهِ أَنَّهُ لَمَّا قُتِلَ جَدِّيَ الْحُسَيْنُ أَمْطَرَتِ السَّمَاءُ دَماً وَ تُرَاباًأَحْمَرَ

اے فرزند شبیب! میرے والد نے اپنے جد سے یہ روایت کی ہے کہ جب امام حسینؑ کی شہادت واقع ہوئ تو آسمان سے خون برسا اور سرخ مٹی برسی ۔

يَا ابْنَ شَبِيبٍ إِنْ بَكَيْتَ عَلَى الْحُسَيْنِ حَتَّى تَصِيرَ دُمُوعُكَ عَلَى خَدَّيْكَ غَفَرَ اللَّهُ لَكَ كُلَّ ذَنْبٍ أَذْنَبْتَهُ صَغِيراً كَانَ أَوْ كَبِيراً قَلِيلًا كَانَ أَوْ كَثِيراً

اے فرزند شبیب! اگر تم حسینِ مظلوم پر اس قدر گریہ کرو کہ تمھارے رخسار آنسوءوں سے تر ہوجائیں تو خدا تمھارے تمام گناہ بخش دے گا خواہ وہ چھوٹے ہوں یا بڑے کم ہوں یا زیادہ۔

يَا ابْنَ شَبِيبٍ إِنْ سَرَّكَ أَنْ تَلْقَى اللَّهَ عَزَّ وَ جَلَّ وَ لَا ذَنْبَ عَلَيْكَ فَزُرِ الْحُسَيْنَ ع

اے فرزند شبیب! اگر تم چاہتے ہو کہ خدا سے اس حال میں ملاقات کرو کہ تمھارے ذمہ کوئ گناہ نہ ہو تو میرے جد حسین(علیہ السلام) کی زیارت کو جاءو۔

يَا ابْنَ شَبِيبٍ إِنْ سَرَّكَ أَنْ تَسْكُنَ الْغُرَفَ الْمَبْنِيَّةَ فِي الْجَنَّةِ مَعَ النَّبِيِّ ص فَالْعَنْ قَتَلَةَ الْحُسَيْنِ

اے فرزند شبیب! اگر تم چاہتے ہو کہ جنت کے اس اعلی درجے کے مکان میں رہو، جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے جوار میں ہے تو حسینؑ کے قاتلوں پر لعنت کیا کرو۔

يَا ابْنَ شَبِيبٍ إِنْ سَرَّكَ أَنْ يَكُونَ لَكَ مِنَ الثَّوَابِ مِثْلَ مَا لِمَنِ اسْتُشْهِدَ مَعَ الْحُسَيْنِ فَقُلْ مَتَى مَا ذَكَرْتَهُ- يا لَيْتَنِي كُنْتُ مَعَهُمْ فَأَفُوزَ فَوْزاً عَظِيماً

اے فرزند شبیب! اگر وہ ثواب حاصل کرنا چاہتے ہو، جو شہداء کربلا کو ملا ہے تو جب بھی ان شہیدوں کی یاد آے تو یہ کہا کرو “يا لَيْتَنِي كُنْتُ مَعَهُمْ فَأَفُوزَ فَوْزاً عَظِيماً” اے کاش میں ان کے ہمراہ (شہید) ہوتا تو عظیم کامیابی حاصل کرلیتا۔

يَا ابْنَ شَبِيبٍ إِنْ سَرَّكَ أَنْ تَكُونَ مَعَنَا فِي الدَّرَجَاتِ الْعُلَى مِنَ الْجِنَانِ فَاحْزَنْ لِحُزْنِنَا وَ افْرَحْ لِفَرَحِنَا

اے فرزند شبیب! اگر تم چاہتے ہو کہ جنت کے اعلی مقام پر ہمارے جوار میں رہو تو ہمارے غم میں غمزدہ ہوجایا کرو اور ہماری خوشی میں خوش ہوا کرو۔

وَ عَلَيْكَ بِوَلَايَتِنَا فَلَوْ أَنَّ رَجُلًا تَوَلَّى حَجَراً لَحَشَرَهُ اللَّهُ مَعَهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ

ہماری ولایت سے وابستہ رہو کیونکہ کوئ شخص اگر کسی پتھر سے بھی محبت کرے تو اللہ اس کو روز قیامت اس پتھر کے ساتھ محشور کرے گا۔

(أمالي الصدوق المجلس 27- الرقم 5، عيون أخبار الرضا ج 1 ص 299.)

ان بیش بہا جملوں میں امام علی رضا علیہ السلام نے امام حسین علیہ السلام کی عزاداری اور ان کی زیارت کا ثواب بیان کیا ہے۔

محبت اور عشق کیا ہیں؟

كيا نكاح سے پهلے دو نامحرموں كا عشق جائز هے؟

كيا صرف نماز اور روزه هي عبادت هے؟

كيا صرف نماز اور روزه هي عبادت هے؟

https://www.youtube.com/watch?v=DOrkZyH_czg

ماہ رمضان  اور قرآن كا رابطه

ماہ رمضان  اور قرآن كا رابطه

    تحرير: سيد غيور الحسين

ماہ رمضان برکتوں  والا مہينہ ہے -  اس ماہ کي عظمت کا اندازہ اس بات سے لگايا جا سکتا ہے کہ قرآن مقدس کا نزول اسى پاک مہينے ميں ہوا  اور يہ وہ کتاب ہے جو قيامت تک کے انسانوں کے ليۓ ہدايت کا ذريعہ ہے -

رمضان کے مہينہ کي فضيلت کي وجہ اس مہينہ ميں قرآن کا نازل ہونا ہے. الله تعالى فرماتا هے: ) شھر رمضان الذي انزل فيہ القرآن ھديً للنّاس( (سورہ بقرہ 185)

ترجمه:ماه رمضان وه هے جس ميں لوگوں كى هدايت كے ليےقرآن نازل هوا.

اسي وجہ سے قرآن اور ماہ مبارک رمضان ميں ايک خاص رابطہ پايا جاتا ہے- جيسے موسم بھار (بسنت) ميں انسان کا مزاج شاداب رہتا ہے اور گل و گياہ سر سبز و شاداب رہتے ہيں- اسي طرح قرآن بھي دلوں کيلۓ موسم بھار کے مانند ہے کہ جس کے پڑھنے حفظ کرنے اور اسکے مطلب کو سمجھنے ميں انسان کا دل ہميشہ ايک خاص شادابي کا احساس کرتا ہے-

جيسا کہ امام علي (ع) فرماتے ہيں:(تعلموا کتاب اللہ تبارک و تعالي فانہ احسن الحديث و ابلغ الموعظہ و تفقھوا فيہ فانہ ربيع القلوب)

کتاب خداوند کو پڑھو کيونکہ اس کا کلام بہت لطيف و خوبصورت ہے اور اس کي نصيحت کامل ہے اور اسےسمجھو کيونکہ وہ دلوں کيلۓ بہار ہے- اسي بناء پر قرآن اور رمضان کے مہينہ کا رابطہ آپس ميں بہت گہرا ہے -

قرآن کو پڑھنے اور اس ميں غور و فکر کر نے کے بعد انسان اس بات پر قدرت رکھتا ہے کہ وہ حيات طيبہ تک پہنچ جاۓ اور شب قدر کو درک کر سکے-

رسول اکرم (ص) خطبہ شعبانيہ ميں فرماتے ہيں : رمضان کے مہينہ ميں قرآن کي ايک آيت کي تلاوت کا ثواب اس ثواب کے برابر ہے جو دوسرے مہينوں ميں قرآن ختم کرنے سے حاصل ہوتا ہے-

(يا أيّھا الّذين آمنوا کتب عليکم الصّيام کما کتب علي الّذين من قبلکم لعلّکم تتّقون)(البقرة183)

ترجمہ:اے صاحبان ايمان تمہارے اوپر روزے اسي طرح لکھ ديئے گئے ہيں جس طرح تمہارے پہلے والوں پر لکھے گئے تھے شايد تم اس طرح متّقي بن جاۆ. 

رمضان کا مہينہ ايک مبارک اور باعظمت مہينہ هے. يہ وہ مہينہ هے جس ميں مسلسل رحمت پروردگار نازل هوتي رہتي هے. اس مہينہ ميں پروردگار نے اپنے بندوں کو يہ وعدہ ديا هے کہ وہ ان کي دعا کو قبول کرے گا .  يہي وہ مہينہ هے جس ميں انسان دنيا و آخرت کي نيکياں حاصل کرتے هوئے کمال کي منزل تک پہنچ سکتا هے.اور پچاس سال کا معنوي سفر ايک دن يا ايک گھنٹہ ميں طے کر سکتا هے. اپني اصلاح اور نفس امارہ پر کنٹرول کي ايک فرصت هے جو خدا وند متعال نے انسان کو دي هے . خوش نصيب ہيں وہ لوگ جنہيں ايک بار پھر ماہ مبارک رمضان نصيب هوا اور يہ خود ايک طرح سے توفيق الھي هے تا کہ انسان خدا کي بارگاہ ميں آکراپنے گناهوں کي بخشش کا سامان کر سکے ، ورنہ کتنے ايسے لوگ ہيں جو  پچھلے سال ہمارے اور آپ کے ساتھ تھے ليکن آج وہ اس دار فنا سے دار بقاء کي طرف منتقل هو چکے ہيں .

آخر مين دعا هے كه خداوند عالم بحق محمد و آل محمد اس ماه مبارك  سے هميں صحيح معنى ميں استفاده كرنے كى توفيق عطا فرمائے.(آمين)

حواله: Tebyan.net

محرم الحرام 1441

http://uplod.ir/ju8skjenw7kn/muharram_1441.jpg.htm

باید ما محرم و صفر را زنده نگه داریم

امام خمینی ره: باید ماها وشماها در گفتاری که داریم و خصوصا در این ماه محرم و صفر،‌که ماه برکات اسلامی است و ماه زنده ماندن اسلام است، باید ما محرم و صفر را زنده نگه داریم به ذکر مصائب اهل بیت(ع) که با ذکر مصائب اهل بیت (ع) زنده مانده است این مذهب تا حالا؛ با همان وضع سنتی، با همان وضع مرثیه‌سرایی و روضه خوانی.

صحیفه امام؛ ج 15؛ ص 330- جماران؛ 4 آبان 1360

نبذة عن حياة السيدة فاطمة المعصومة عليها السلام

نبذة عن حياة السيدة فاطمة المعصومة عليها السلام

توبہ کے مراحل کونسے ہیں؟

اخلاقی دروس کا سلسلہ ناظرین کی خدمت میں پیش کیا جا رہا ہے۔ اس درس میں علمائے اخلاق کے بیان کی روشنی میں توبہ کے مراحل بیان ہوئے ہیں۔ مولانا سید غیور الحسنین

https://www.shiatv.net/view_video.php?viewkey=1577760633

توبہ قبول ہونے کی شرائط کیا ہیں؟

اخلاقی دروس کا سلسلہ ناظرین کی خدمت میں پیش کیا جا رہا ہے۔ اس درس میں توبہ کا معنی بیان کرتے ہوئے روایات کی روشنی میں توبہ کے مراحل اور اس کی قبولیت کی شرائط بیان کی گئی ہیں۔ مولانا سید غیور الحسنین

https://www.shiatv.net/video/553789937

كيا خدا كا بھی كوئی خالق ہے؟ کیا یہ سوال کرنا درست ہے؟

ناظرین کی خدمت میں بہت ہی مختصر دلیل کے ساتھ اس سوال کا جواب دیاگیا ہے کہ كيا خدا كا بھی كوئی خالق ہے؟ مولانا سید غیور الحسنین

https://www.shiatv.net/video/1105060940

دربار یزید ملعون میں حضرت زینب کبری سلام اللہ علیہا كا خطبه

دربار یزید ملعون میں حضرت زینب کبری سلام اللہ علیہا كا خطبه

دربار یزید ملعون میں حضرت زینب کبری سلام اللہ علیہا كا خطبه  بنت علی بن ابی طالب و بنت سیدہ زھراء کا تاریخی خطبہ اردو ترجمہ کے ساتھ جس نے دنیا کو ہلا کر رکھ دیا-

بسم اللہ الرحمن الرحیم

أَلْحَمْدُللهِِ رَبِّ الْعالَمينَ، وَصَلَّى اللهُ عَلى رَسُولِهِ وَآلِهِ أجْمَعينَ، صَدَقَ اللهُ كَذلِكَ يَقُولُ: (ثُمَّ كَانَ عَاقِبَةَ الَّذِينَ أَسَاءُوا السُّوأَى أَنْ كَذَّبُوا بِآيَاتِ اللهِ وَكَانُوا بِهَا يَسْتَهْزِئُون)

أَظَنَنْتَ يا يَزِيدُ حَيْثُ أَخَذْتَ عَلَيْنا أَقْطارَ الاَْرْضِ وَآفاقَ السَّماءِ، فَأَصْبَحْنا نُساقُ كَما تسُاقُ الأُسارى أَنَّ بِنا عَلَى اللهِ هَواناً، وَبِكَ عَلَيْهِ كَرامَةً وَأَنَّ ذلِكَ لِعِظَمِ خَطَرِكَ عِنْدَهُ، فَشَمَخْتَ بِأَنْفِكَ، وَنَظَرْتَ فِي عِطْفِكَ جَذْلانَ مَسْرُوراً حِينَ رَأَيْتَ الدُّنْيا لَكَ مُسْتَوْثِقَةٌ وَالاُْمُورَ مُتَّسِقَةٌ وَحِينَ صَفا لَكَ مُلْكُنا وَسُلْطانُنا، فَمَهْلاً مَهْلاً، أَنَسِيتَ قَوْلَ اللهِ عَزَّوَجَلَّ: (وَ لاَ يَحْسَبَنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا أَنَّمَا نُمْلِى لَهُمْ خَيْرٌ لاَِّنْفُسِهِمْ إِنَّمَا نُمْلِي لَهُمْ لِيَزْدَادُوا إِثْماً وَ لَهُمْ عَذَابٌ مُهِينٌ)

سب تعریفیں اس خدا کے لئے ہیں جو کائنات کا پروردگار ہے ۔ اور خدا کی رحمتیں نازل ہوں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر اور ان کی پاکیزہ عترت و اہل بیت(علیهم السلام) پر۔ اما بعد ! بالاخر ان لوگوں کا انجام برا ہے جنہوں نے اپنے دامن حیات کو برائیوں کی سیاہی سے داغدار کر کے اپنے خدا کی آیات کی تکذیب کی اور آیات پروردگار کا مذاق اڑایا ۔ اے یزید! کیا تو سمجھتا ہے کہ تو نے ہم پر زمین کے گوشے اور آسمان کے کنارے[مختلف طرح سے] تنگ کر دئیے ہیں اور آلِ رسول کو رسیوں اور زنجیروں میں جکڑ کر دربدر پھرانے سے تو خدا کی بارگاہ میں سرفراز هوا اور ہم رسوا ہوئے ہیں؟۔ کیا تیرے خیال میں ہم مظلوم ہو کر ذلیل ہو گئے اور تو ظالم بن کر سر بلند ہوا ہے؟۔ کیا تو سمجھتا ہے کہ ہم پر ظلم کر کے خدا کی بارگاہ میں تجھے شان و مقام حاصل ہو گیا ہے؟۔ آج تو اپنی ظاہری فتح کی خوشی میں سرمست ہے ، مسرت و شادمانی سے سرشار ہو کر اپنے غالب ہونے پر اترا رہا ہے ۔ اور زمامداری[خلافت] کے ہمارے مسلمہ حقوق کو غصب کر کے خوشی و سرور کا جشن منانے میں مشغول ہے ۔ اپنی غلط سوچ پر مغرور نہ ہو اور هوش کی سانس لے ۔ کیا تو نے خدا کا یہ فرمان بھلا دیا ہے کہ حق کا انکار کرنے والے یہ خیال نہ کریں کہ ہم نے انہیں جو مہلت دی ہے وہ ان کے لئے بہتر ہے ۔ بلکہ ہم نے انہیں اس لئے ڈھیل دے رکھی ہے کہ جی بھر کر اپنے گناہوں میں اضافہ کر لیں ۔ اور ان کے لئے خوفناک عذاب معین کیا جا چکا ہے ۔

اس کے بعد فرمایا :

أَ مِنَ الْعَدْلِ يَابْنَ الطُّلَقاءِ! تَخْدِيرُكَ حَرائِرَكَ وَ إِمائَكَ، وَ سَوْقُكَ بَناتِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَ سَلَّم سَبايا، قَدْ هَتَكْتَ سُتُورَهُنَّ، وَ أَبْدَيْتَ وُجُوهَهُنَّ، تَحْدُو بِهِنَّ الاَْعداءُ مِنْ بَلد اِلى بَلد، يَسْتَشْرِفُهُنَّ أَهْلُ الْمَناهِلِ وَ الْمَناقِلِ، وَ يَتَصَفَّحُ وُجُوهَهُنَّ الْقَرِيبُ وَ الْبَعِيدُ، وَ الدَّنِيُّ وَ الشَّرِيفُ، لَيْسَ مَعَهُنَّ مِنْ رِجالِهِنَّ وَلِيُّ، وَ لا مِنْ حُماتِهِنَّ حَمِيٌّ، وَ كَيْفَ يُرْتَجى مُراقَبَةُ مَنْ لَفَظَ فُوهُ أَكْبادَ الاَْزْكِياءِ، وَ نَبَتَ لَحْمُهُ مِنْ دِماءِ الشُّهَداءِ، وَ كَيْفَ يَسْتَبْطِأُ فِي بُغْضِنا أَهْلَ الْبَيْتِ مَنْ نَظَرَ إِلَيْنا بِالشَّنَفِ وَ الشَّنَآنِ وَ الاِْحَنِ وَ الاَْضْغانِ، ثُمَّ تَقُولُ غَيْرَ مُتَّأَثِّم وَ لا مُسْتَعْظِم:

لاََهَلُّوا و اسْتَهَلُّوا فَرَحاً * ثُمَّ قالُوا يا يَزيدُ لا تَشَلْ مُنْتَحِياً عَلى ثَنايا أَبِي عَبْدِاللهِ سَيِّدِ شَبابِ أَهْلِ الجَنَّةِ، تَنْكُتُها بِمِخْصَرَتِكَ، وَ كَيْفَ لا تَقُولُ ذلِكَ وَ قَدْ نَكَأْتَ الْقَرْحَةَ، وَ اسْتَأْصَلْتَ الشَّأْفَةَ بِإِراقَتِكَ دِماءَ ذُرّيَةِ مُحَمَّد صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ، وَ نُجُومِ الاَْرْضِ مِنْ آلِ عَبْدِالمُطَّلِبِ، وَ تَهْتِفُ بِأَشْياخِكَ، زَعَمْتَ أَنَّكَ تُنادِيهِمْ، فَلَتَرِدَنَّ وَ شِيكاً مَوْرِدَهُمْ وَ لَتَوَدَّنَّ أَنَّكَ شَلَلْتَ وَ بَكِمْتَ، وَ لَمْ تَكُنْ قُلْتَ ما قُلْتَ وَ فَعَلْتَ ما فَعَلْتَ.

اے طلقاءکے بیٹے (آزاد کردہ غلاموں کی اولاد) کیا یہ تیرا انصاف ہے کہ تو نے اپنی مستورات اور لونڈیوں کو چادر اور چار دیواری کا تحفظ فراہم کر کے پردے میں بٹها رکھا ہوا ہے جبکہ رسول زادیوں کو سر برہنہ در بدر پھرا رہا ہے ۔ تو نے مخدرات عصمت کی چادریں لوٹ لیں اور ان کی بے حرمتی کا مرتکب ہوا ۔ تیرے حکم پر اشقیاءنے رسول زادیوں کو بے نقاب کر کے شہر بہ شہر پھرایا ۔ تیرے حکم پر دشمنان خدا، اہل بیت رسولکی پاکدامن مستورات کو ننگے سر لوگوں کے ہجوم میں لے آئے ۔ اورلوگ رسول زادیوں کے کھلے سر دیکھ کر ان کا مذاق اڑا رہے ہیں اور دور و نزدیک کے رہنے والے سب لوگ ان کی طرف نظریں اٹھا اٹھا کر دیکھ رہے ہیں ۔ ہر شریف و کمینے کی نگاہیں ان پاک بی بیوں کے ننگے سروں پر جمی ہیں ۔آج رسول زادیوں کے ساتھ ہمدردی کرنے والا کوئی نہیں ہے ۔ آج ان قیدی مستورات کے ساتھ ان کے مرد موجود نہیں ہیں جو اِن کی سرپرستی کریں ۔ آج آلِ محمد کا معین و مددگار کوئی نہیں ہے ۔

اس شخص سے بھلائی کی کیا توقع ہو سکتی ہے جس کی ماں (یزید کی دادی) نے پاکیزہ لوگوں کے جگر کو چبایا هو ۔ اور اس شخص سے انصاف کی کیا امید ہو سکتی ہے جس نے شہیدوں کا خون پی رکها ہو۔ وہ شخص کس طرح ہم اہل بیت(علیهم اسلام) پر مظالم ڈھانے میں کمی کر سکتا ہے جو بغض و عداوت اور کینے سے بھرے ہوئے دل کے ساتھ ہمیں دیکھتا ہے ۔

اے یزید ! کیا تجھے شرم نہیں آتی کہ تو اتنے بڑے جرم کا ارتکاب کرنے اور اتنے بڑے گناہ کو انجام دینے کے باوجود فخر و مباہات کرتا ہوا یہ کہہ رہا ہے کہ آج اگر میرے اجداد موجود ہوتے تو ان کے دل باغ باغ ہو جاتے اور مجھے دعائیں دیتے ہوئے کہتے کہ اے یزید تیرے ہاتھ شل نہ ہوں ۔

اے یزید ! کیا تجھے حیا نہیں آتی کہ تو جوانانِ جنت کے سردار حسین ابن علی (علیه السلم) کے دندان مبارک پر چھڑی مار کر ان کی بے ادبی کر رہا ہے ۔

اے یزید، تو کیوں خوش نہ ہو اور فخر و مباہات کے قصیدے نہ پڑھے کیونکہ تو نے اپنے ظلم و استبداد کے ذریعے فرزند رسول خدا اور عبدالمطلب کے خاندانی ستاروں کا خون بها کر ہمارے دلوں کے زخموں کو گہرا کر دیا ہے اور شجرہ طیبہ کی جڑیں کاٹنے کے گھناونے جرم کا مرتکب ہوا ہے ۔تو نے اولاد رسول کے خون میں اپنے ہاتھ رنگین کئے ہیں ۔

تو نے عبدالمطلب کے خاندان کے ان نوجوانوں کو تہہ تیغ کیا ہے جن کی عظمت و کردار کے درخشندہ ستارے زمین کے گوشے گوشے کو منور کیے ہوئے ہیں ۔

آج تو آلِ رسول کو قتل کر کے اپنے بد نہاد[برے] اسلاف کو پکار کر انہیں اپنی فتح کے گیت سنانے میں منہمک ہے ۔ تو سمجهتا هے که وه تیری آواز سن رهے هیں؟ ! (جلدی نه کر) عنقریب تو بهی اپنے ان کافر بزرگوں کے ساتھ جا ملے گا اور اس وقت اپنی گفتار و کردار پر پشیمان ہو کر یہ آرزو کرے گا کہ کاش میرے ہاتھ شل ہو جاتے اور میری زبان بولنے سے عاجز ہوتی اور میں نے جو کچھ کیا اور کہا اس سے باز رہتا ۔

اس کے بعد حضرت زینب نے آسمان کی طرف منہ کر بارگاہِ الٰہی میں عرض کیا !

أَللّهُمَّ خُذْ بِحَقِّنا، وَ انْتَقِمْ مِنْ ظالِمِنا، وَ أَحْلِلْ غَضَبَكَ بِمَنْ سَفَكَ دِماءَنا، وَ قَتَلَ حُماتَنا، فَوَاللهِ ما فَرَيْتَ إِلاّ جِلْدَكَ، وَلا حَزَزْتَ إِلاّ لَحْمَكَ، وَ لَتَرِدَنَّ عَلى رَسُولِ اللهِ بِما تَحَمَّلْتَ مِنْ سَفْكِ دِماءِ ذُرِّيَّتِهِ، وَ انْتَهَكْتَ مِنْ حُرْمَتِهِ فِي عَتْرَتِهِ وَ لُحْمَتِهِ، حَيْثُ يَجْمَعُ اللهُ شَمْلَهُمْ، وَ يَلُمُّ شَعْثَهُمْ، وَ يَأْخُذُ بِحَقِّهِمْ (وَ لاَ تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِى سَبِيلِ اللهِ أَمْوَاتاً بَلْ أَحْيَاءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ يُرْزَقُونَ). وَ حَسْبُكَ بِاللهِ حاكِماً، وَ بِمُحَمَّد صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَ سَلَّمَ خَصِيماً، وَ بِجَبْرَئِيلَ ظَهِيراً، وَ سَيَعْلَمُ مَنْ سَوّى لَكَ وَ مَكَّنَكَ مِنْ رِقابِ المُسْلِمِينَ، بِئْسَ لِلظّالِمِينَ بَدَلاً، وَ أَيُّكُمْ شَرٌّ مَكاناً، وَ أَضْعَفُ جُنْداً.

اے ہمارے پروردگار، تو ہمارا حق ان ظالموں سے ہمیں دلا دے اور تو ہمارے حق کا بدلہ ان سے لے ۔ اے پردگار تو ہی ان ستمگروں سے ہمارا انتقام لے ۔ اور اے خدا تو ہی ان پر اپنا غضب نازل فرما جس نے ہمارے عزیزوں کو خون میں نہلایا اور ہمارے مددگاروں کو تہہ تیغ کر دیا ۔ اے یزید ! (خدا کی قسم ) تو نے جو ظلم کیا ہے یه اپنے ساتھ ظلم کیا ہے ۔ تو نے کسی کی نہیں بلکہ اپنی ہی کھال چاک کی ہے ۔ اور تو نے کسی کا نہیں بلکہ اپنا ہی گوشت کاٹا ہے ۔ تو رسولِ خدا کے سامنے ایک مجرم کی صورت میں لایا جائے گا اور تجھ سے تیرے اس گھناونے جرم کی باز پرس ہو گی کہ تو نے اولادِ رسول کا خونِ ناحق کیوں بہایا اور رسول زادیوں کو کیوں دربدر پھرایا ۔ نیز رسول کے جگر پاروں کے ساتھ ظلم کیوں روا رکھا ۔

اے یزید ! یاد رکھ کہ خدا، آلِ رسول کا تجھ سے انتقام لے کر ان مظلوموں کا حق انہیں دلائے گا ۔ اور انہیں امن و سکون کی نعمت سے مالامال کر دے گا ۔ خدا کا فرمان ہے کہ تم گمان نہ کرو کہ جو لوگ راہِ خدا میں مارے گئے وہ مر چکے ہیں ۔ بلکہ وہ ہمیشہ کی زندگی پا گئے اور بارگاہِ الٰہی سے روزی پا رہے ہیں ۔

اے یزید ! یاد رکھ کہ تو نے جو ظلم آلِ محمد پر ڈھائے ہیں اس پر رسول خدا ، عدالتِ الٰہی میں تیرے خلاف شکایت کریں گے ۔ اور جبرائیلِ امین آلِ رسول کی گواہی دیں گے ۔ پھر خدا اپنے عدل و انصاف کے ذریعه تجھے سخت عذاب میں مبتلا کر دے گا ۔ اور یہی بات تیرے برے انجام کے لئے کافی ہے ۔

عنقریب وہ لوگ بھی اپنے انجام کو پہنچ جائیں گے جنہوں نے تیرے لئے ظلم و استبداد کی بنیادیں مضبوط کیں اور تیری آمرانہ سلطنت کی بساط بچھا کر تجھے اہل اسلام پر مسلط کر دیا ۔ ان لوگوں کو بہت جلد معلوم ہو جائے گا کہ ستمگروں کا انجام برا ہوتا ہے اور کس کے ساتھی ناتوانی کا شکار ہیں ۔

اس کے بعد فرمایا :

وَ لَئِنْ جَرَّتْ عَلَيَّ الدَّواهِي مُخاطَبَتَكَ، إِنِّي لاََسْتَصْغِرُ قَدْرَكَ، وَ أَسْتَعْظِمُ تَقْرِيعَكَ، وَ أَسْتَكْثِرُ تَوْبِيخَكَ، لكِنَّ العُيُونَ عَبْرى، وَ الصُّدُورَ حَرّى، أَلا فَالْعَجَبُ كُلُّ الْعَجَبِ لِقَتْلِ حِزْبِ اللهِ النُّجَباءِ بِحِزْبِ الشَّيْطانِ الطُّلَقاءِ، فَهذِهِ الاَْيْدِي تَنْطِفُ مِنْ دِمائِنا، وَ الأَفْواهُ تَتَحَلَّبُ مِنْ لُحُومِنا، وَ تِلْكَ الجُثَثُ الطَّواهِرُ الزَّواكِي تَنْتابُها العَواسِلُ، وَ تُعَفِّرُها اُمَّهاتُ الْفَراعِلِ.

وَ لَئِنِ اتَّخَذْتَنا مَغْنَماً لَتَجِدَ بِنا وَ شِيكاً مَغْرَماً حِيْنَ لا تَجِدُ إلاّ ما قَدَّمَتْ يَداكَ، وَ ما رَبُّكَ بِظَلاَّم لِلْعَبِيدِ، وَ إِلَى اللهِ الْمُشْتَكى، وَ عَلَيْهِ الْمُعَوَّلُ، فَكِدْ كَيْدَكَ، وَ اسْعَ سَعْيَكَ، وَ ناصِبْ جُهْدَكَ، فَوَاللهِ لا تَمْحُو ذِكْرَنا، وَ لا تُمِيتُ وَحْيَنا، وَ لا تُدْرِكُ أَمَدَنا، وَ لا تَرْحَضُ عَنْكَ عارَها، وَ هَلْ رَأيُكَ إِلاّ فَنَدٌ، وَ أَيّامُكَ إِلاّ عَدَدٌ، وَ جَمْعُكَ إِلاّ بَدَدٌ؟ يَوْمَ يُنادِي الْمُنادِي: أَلا لَعْنَةُ اللهِ عَلَى الظّالِمِينَ.

وَ الْحَمْدُ للهِ رَبِّ الْعالَمِينَ، أَلَّذِي خَتَمَ لاَِوَّلِنا بِالسَّعادَةِ وَ الْمَغْفِرَةِ، وَ لاِخِرِنا بِالشَّهادَةِ وَ الرَّحْمَةِ. وَ نَسْأَلُ اللهَ أَنْ يُكْمِلَ لَهُمُ الثَّوابَ، وَ يُوجِبَ لَهُمُ الْمَزيدَ، وَ يُحْسِنَ عَلَيْنَا الْخِلافَةَ، إِنَّهُ رَحيمٌ وَدُودٌ، وَ حَسْبُنَا اللهُ وَ نِعْمَ الْوَكيلُ.

اے یزید ! یہ گردش ایام اور حوادث روزگار کا اثر ہے کہ مجھے تجھ جیسے بدنہاد [برے انسان] سے ہمکلام ہونا پڑا ہے اور میں تجھ جیسے ظالم و ستمگر سے گفتگو کر رہی ہوں ۔ لیکن یاد رکھ میری نظر میں تو ایک نہایت پست اور گھٹیا شخص ہے جس سے کلام کرنا بھی شریفوں کی توہین ہے ۔ میری اس جرائت سخن پر تو مجھے اپنے ستم کا نشانہ ہی کیوں نہ بنا دے لیکن میں اسے ایک عظیم امتحان اور آزمائش سمجھتے ہوئے صبر و استقامت اختیار کروں گی اور تیری بد کلامی و بدسلوکی میرے عزم و استقامت پر اثر انداز نہیں ہو سکتی۔اے یزید ! آج ہماری آنکھیں اشکبار ہیں اور سینوں میں آتش غم کے شعلے بھڑک رہے ہیں ۔

افسوس تو اس بات پر ہے کہ شیطان کے ہمنوا اور بدنام لوگوں نے رحمان کے سپاہیوں اور پاکباز لوگوں کو تہہ تیغ کرڈالا ہے ۔ اور ابھی تک اس شیطانی ٹولے کے ہاتھوں سے ہمارے پاک خون کے قطرے ٹپک رہے ہیں ۔ ان کے ناپاک دہن ہمارا گوشت چبانے میں مصروف ہیں اور صحرا کے بھیڑیئے ان پاکباز شہیدوں کی مظلوم لاشوں کے ارد گرد گھوم رہے ہیں اور جنگل کے نجس درندے ان پاکیزہ جسموں کی بے حرمتی کر رہے ہیں ۔

اے یزید ! اگر آج تو ہماری مظلومیت پر خوش ہو رہا ہے اور اسے اپنے دل کی تسکین کا باعث سمجھ رہا ہے تو یاد رکھ کہ جب قیامت کے دن اپنی بد کرداری کی سزا پائے گا تو اس کا برداشت کرنا تیرے بس سے باہر ہو گا ۔ خدا عادل ہے اور وہ اپنے بندوں پر ظلم نہیں کرتا ۔ ہم اپنی مظلومیت اپنے خدا کے سامنے پیش کرتے ہیں ۔ اور ہر حال میں اسی کی عنایات اور عدل و انصاف پر ہمارا بھروسہ ہے ۔

اے یزید ! تو جتنا چاہے مکر و فریب کر لے اور بھر پور کوشش کر کے دیکھ لے مگر تجهے معلوم ہونا چاہیئے کہ تو نہ تو ہماری یاد لوگوں کے دلوں سے مٹا سکتا ہے اور نہ ہی وحی الٰہی کے پاکیزہ آثار محو کر سکتا ہے ۔تو یہ خیال خام اپنے دل سے نکال دے کہ ظاہر سازی کے ذریعے ہماری شان و منزلت کو پا لے گا ۔تو نے جس گھناونے جرم کا ارتکاب کیا ہے اس کا بد نما داغ اپنے دامن سے نہیں دھو پائے گا ۔ تیرا نظریہ نہایت کمزور اور گھٹیا ہے ۔تری حکومت میں گنتی کے چند دن باقی ہیں ۔ تیرے سب ساتھی تیرا ساتھ چھوڑ جائیں گے ۔ تیرے پاس اس دن کی حسرت و پریشانی کے سوا کچھ بھی نہیں بچے گا ۔ جب منادی ندا کرے گا کہ ظالم و ستمگر لوگوں کے لئے خدا کی لعنت ہے ۔

ہم خدائے قدوس کی بارگاہ میں سپاس گزار ہیں کہ ہمارے خاندان کے پہلے فرد حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو سعادت و مغفرت سے بہرہ مند فرمایا اور امام حسین علیہ السلام کو شہادت و رحمت کی نعمتوں سے نوازا ۔ ہم بارگاہِ ایزدی میں دعا کرتے ہیں کہ وہ ہمارے شہیدوں کے ثواب و اجر میں اضافہ و تکمیل فرمائے اور ہم باقی سب افراد کو اپنی عنایتوں سے نوازے، بے شک خدا ہی رحم و رحمت کرنے والا اور حقیقی معنوں میں مہربان ہے ۔ خدا کی عنایتوں کے سوا ہمیں کچھ مطلوب نہیں اور ہمیں صرف اور صرف اسی کی ذات پر بھروسہ ہے اس لئے کہ اس سے بہتر کوئی سہارا نہیں ہے”

کم سن بچوں کو پڑھائی کی طرف کیسے راغب کیا جائے؟

کم سن بچوں کو پڑھائی کی طرف کیسے راغب کیا جائے؟

➿➿🏵💧🏵➿➿

 

✍ والدین کا مثال بننا

 

 ہمارے ہاں والدین کو معلوم نہیں ہوتا کہ بچوں کو پڑھائی کی عادت ڈالنے کا درست طریقہ کیا ہے۔ ‼

 

 بچوں کا سکول، کتابوں اور سکول کے کام سے متعلق ابتدائی تاثر بہت اہم ہوتا ہے جس کے بعد فیصلہ ہوتا ہے کہ بچے کی لکھنے پڑھنے سے دوستی ہوگی یا دشمنی، وہ اس سے مسرت پائے گا یا اسے جبری مشقت سمجھے گا۔

 

 بہرحال بات یہ تھی کہ ایسے ماحول میں بچوں کو لکھنے پڑھنے پر لگانا والدین کی خصوصی مگر سمجھ دار توجہ مانگتا ہے۔❗

 

🏪 میں نے جب اپنے پہلے بچے کو سکول داخل کرایا تو گھر میں سختی سے تاکید کی کہ

 اسے کتابیں کھولنے اور پڑھنے کا کبھی نہ کہا جائے۔‼

 

 اسے یہ احساس نہ ہو کہ یہ کوئی کام ہے جسے مشقت سمجھ کر کرنا ہوتا ہے، یا کوئی

 ڈیوٹی ہے جسے انجام دینا اس عمر میں اس پر لاگو کر دیا گیا ہے۔

 

چنانچہ جس وقت ہم چاہتے کہ

✍ بچہ سکول کا کام کرنے بیٹھے ہم اس اس کی کتابیں خود لے کر بیٹھ جاتے۔ اس کی پنسل اور کلرز لے کر خود کچھ بنانے اور رنگ بھرنے لگتے۔

 

🎨 بچہ فورا ہی متوجہ ہو کر چلا آتا۔ ہم سے کتابیں لے کر سبق دہرانے لگتا، قرطاس کار (ورک شیٹ) نکال کر کام شروع کر دیتا اور ہم فقط رہنمائی کرتے رہتے۔

 یہ سلسلہ تقریباً دو سال چلتا رہا یہاں تک کہ اسے پڑھائی کی عادت ہو گئی۔

 

🏏 بچے کی پسندیدہ سرگرمی کے وقت پڑھائی کی ہدایت کرنا

 

 دوسری ہدایت میں نے یہ دے رکھی تھی کہ

📺 بچہ جب ٹی وی دیکھ رہا ہوں، اپنا من پسند کوئی کھیل کھیل رہا ہوں یا دوسرے بچوں کے ساتھ انجوائے کر رہا ہو، اس وقت اسے سکول کا کام کرنے کا ہرگز نہ کہا جائے، ورنہ اسے یہ تاثر ملے گا کہ سکول کا کام لطف اندوزی کے مقابل کوئی ناگوار کام ہے۔

 

 ہمارے ہاں والدین کا خاص وتیرہ ہے کہ جیسے ہی بچہ اپنا من پسند کام، مشغلہ کھیل یا کوئی پروگرام دیکھنا شروع کرتا ہے، عین اسی لمحے والد اور والدہ کو ان کے سکول کا کام یاد آ جاتا ہے۔ لطف کے لمحات زبردستی چھڑائے جاتے ہیں اور پڑھنے بٹھا دیا جاتا ہے۔

 

 اس وقت بچے کو کتابیں زہر لگتی ہیں، رقیب محسوس ہوتی ہیں۔ ہم اسے اپنی کامیابی سمجھتے ہیں کہ بچے کو پڑھنے بٹھا دیا اور بچہ کتاب سے مستقل دشمنی پال لیتا ہے۔ ‼

 

 والدین اگر بچے کی ابتدائی سکول کی عمر میں یہ نا مناسب حرکتیں نہ کریں تو کتاب اور سکول کے کام سے بچے دوستی ہو سکتی ہے، جو اگلے مراحل میں کہ جب پڑھائی مشکل ہو جاتی ہے اور تقریباً ہر بچے کی پڑھائی میں دلچسپی میں کمی آنے لگتی ہے تو بھی اس سے وحشت پیدا نہیں ہوتی۔ کتاب اور کام سے لطف کا پہلا تاثر کبھی ختم نہیں ہوتا اپنا کام کرتا رہتا ہے۔ 👍

 

🌺 سہولتوں کی فراہمی

 

📚گھر میں اگر کتابیں موجود ہوں، گھر والوں کے زیر مطالعہ آتی ہوں تو یہی محرک کافی ہوتا ہے بچوں کو پڑھائی پر لگانے کے لیے۔ والد صاحب اگر کاروبار یا ملازمت کے مسائل کے علاوہ کوئی بات کرنے کے قابل نہ ہوں، اور والدہ دن بھر کی روٹین کے تذکرے کے علاوہ کوئی علم و عقل کی بات کرنے کے لائق نہ ہو، تو بچوں کو ہر طرح کی سہولتیں فراہم کرنے سے بھی وہ پڑھائی کی طرف مائل نہیں ہو جایا کرتے۔

 بلکہ............

 زیادہ سہولیات بچوں کو پڑھائی سے دور کرنے کا سبب بنتی ہیں۔ ‼

 

 لیکن نا سمجھ والدین، اپنی کمی کوتاہیوں کو پیسے کے ذریعے سے سہولیات دے کر پورا کرنے کی کوشش کرتے ہیں تاکہ بعد میں بچوں کا الزام دے سکیں کہ ہم نے تو کوئی کمی نہ چھوڑی تھی، ہر خواہش پوری کی لیکن اس نے پڑھنے لکھنے کی ہماری خواہش پوری نہیں کی۔

 

یاد رکھیے،...    .

 

 پڑھائی لکھائی ایسی چیز نہیں جو دوسری کی خواہش پر کی جا سکے۔ یہ فرد اپنی ہی خواہش سے کر پاتا ہے۔ ‼

 

🌱 والدین کی تربیت

 

حقیقت یہ  ہے کہ بچوں سے پہلے والدین کی تربیت ضروری ہے‼

 

 ورنہ ہمارے نا تربیت یافتہ والدین کی اکثریت کی وجہ سے اسی قسم کے افراد اس سماج میں سامنے آتے رہیں گے جیسا کہ آج ہمارے درمیان موجود ہیں، جن کا تعلیم سے جبری تعلق ہے، کتاب سے دوستی نہیں اور یوں سطحی ذہانتیں ہمارے سماج میں پھیلتی چلی جا رہی ہیں۔ انہیں پڑھائی سے زیادہ اچھے گریڈز لینے کی فکر ہے، جنہی ں تعلیم سے شعور نہیں ڈگری کا حصول مقصود ہے، جو امتحان دیتے ہی کتابیں ردی والے کو دے کر گھر کی صفائی کرتے ہیں۔

 

⚖ بچوں کا اپس میں موازنہ ( مقابلہ ) کرنا

 

اکثریت کے لحاظ سے ہمارے سماج نیم پڑھے لکھوں کا سماج ہے۔ کئی گھرانوں میں جدید تعلیم کی طرف توجہ موجودہ نسل میں ہوئی ہے۔ ایسے نیم پڑھے لکھے والدین کے لیے اپنے بچوں کا ان کے کزنز سے ہر کام ہر چیز میں موازنہ ایک مستقل مسئلہ ہے۔

 

 ہر بچے کا اپنا انداز ہوتا ہے، اپنا ہنر ہوتا ہے، اپنا رجحان ہوتا ہے۔

 یہاں حالت یہ ہے کہ خاندان میں کوئی ایک شخص تعلیم کے کسی میدان میں کامیاب ہو جائے تو پورے خاندان کے لیے واحد نمونہ عمل بن جاتا ہے۔ اب سب کے لیے وہی میدان علم چننا گویا لام قرار دے دی جاتا ہے۔

 

 بچوں کی صلاحیت اور رجحان جانچنے کا کوئی تصور ہی نہیں پایا جاتا۔

 ضروری نہیں کہ خالہ کا بیٹا اگر ریاضی میں ماہر ہے تو اپنا بیٹا بھی اس میں ماہر ہونا چائے۔ معلوم کیجیے شاید وہ پولٹری میں مہارت حاصل کرنے کے لیے پیدا ہوا ہو۔

 

غرض یہ کہ

 

 بچوں کی ابتدائی عمر میں ان کے رجحانات کو درست سمت دینا والدین کی ذمہ داری ہے۔‼

 

 اس کے لیے بڑی سمجھ داری کی ضرورت ہے۔ جتنا شوق والدین بننے کا ہوتا ہے اس سے زیادہ بچوں کی درست تربیت کی فکر مندی ہونی چاہیے۔ ‼

 

🌺🏪📚🌼📚🏪🌺

میدانِ کربلا میں شہید ھونے والے امام حسین کے رُفقاء کا مختصر تعارف( قسمت8)

شُہدائے بنی ہاشم علیہم السلام

کارزارِ کربلا میں امام علیہ السلام کے اصحاب باصفاء اور موالیانِ باوفا کی شہادت کے بعد اِمام علیہ السلام کے اعزاء و اقرباء ، برادران  اور اولاد نے راہِ اسلام میں عظیم اور لازوال قربانیاں دیں اور اسلام کو سدا بہار بنا دیا ۔

اسلام کے دامن میں بس اس کے سواء کیا ہے ۔

ایک ضرب ید اللہ ،  ایک سجدہ شبیری

 

1-  عبداللہ بن مُسلم بن عقيل

آپ حضرت مُسلم بن عقيل علیہ السلام کے فرزند اور امام علیہ السلام کے بھانجے  اور امیر المومین علی علیہ السلام کے نواسے تھے۔ آپ کی والدہ ماجدہ رقیہ بنت علی علیہ السلام اور نانی کا نام صہباء بنتِ عباد تھا ۔ آپ کی والدہ قبیلہ بنی ثعلبة کی فرد اور کنیت ام حبیبہ تھی۔ آپ اٹھارہ بنی ہاشم کے سب سے پہلے شہید ہیں۔ آپ نے 90 دشمنوں کو واصلِ نار کیا اور دوران جنگ عمر بن صبیح صیداوی نے آپ کی پیشانی پر تیر مارا جس کو روکتے ہوئے  آپ کا ہاتھ پیشانی میں پیوست ہو گیا ۔  اس نے دوسرا تیر آپ کے سینے پر مارا جس سے آپ نے شہادت پائی۔

2-  محمد بن مسلم بن عقيل

آپ بھائی کو زخمی دیکھ کر امام علیہ السلام سے اِذنِ شہادت طلب کر کے میدان میں گئے اور گھمسان کی جنگ کی۔ آپ کو ابوجرہم ازدی اور لقیط  نے شہید کیا ۔

3-  جعفر بن عقیل

آپ عقیل ابن ابی طالب کے فرزند اور آپ کی والدہ "حوصا" بنت عمرہ بن عام بن حسان بن کعب بن عبد بن ابی بکر ابن کلاب عامری اور آپ کی نانی ریطة بنت عبداللہ بن ابی بکر تھیں۔ میدان جنگ میں 15 دشمنوں کو قتل کر کے بشر بن خوط کے ہاتھوں شہید ہوئے ۔۔

4- عبد الرحمان بن عقیل

آپ عقیل ابن ابی طالب کے فرزند اورمیدان کربلا میں 17 دشمنوں کو قتل کر کے عثمان بن خالد ابن اثیم اور بشر بن خوط کے ہاتھوں شہید ہوئے ۔

5-  عبداللہ بن عقیل

آپ عقیل ابن ابی طالب کے فرزند اورمیدان کربلا میں بہت سے  دشمنوں کو قتل کر کے عثمان بن خالد کے ہاتھوں شہید ہوئے۔

6- موسی بن عقیل

آپ عقیل ابنِ ابی طالب کے فرزند اورمیدانِ کربلا میں 70 دشمنون کو قتل کر کے سرورِ کائنات کی بارگاہ میں پہنچے ۔

7-   عون بن عبداللہ بن جعفر طیار(فرزند حضرت زينب عليها السلام)

آپ جناب عبداللہ کے فرزند اور حضرت جعفر طیار کے پوتے تھے ۔ امیر المومنین علیہ السلام  کے نواسے آپ کی والدہ زینب کُبریٰ علیہ السلام اور نانی جناب خاتونِ جنت حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہ تھیں ۔

جناب عبداللہ ابنِ جعفر نے علالت کی وجہ سے اپنے بیٹوں کو امام علیہ السلام کی بارگاہ میں  دے دیا تھا  اور امام علیہ السلام پر جانثاری کی ہدایت کر کے چلے گئے تھے۔

جناب عون کے رجز کے اشعار نےدشمنوں  کے دل دہلا دِیے تھے ۔ آپ نے 30  سوار اور 18 پیادے قتل کئے اور عبد بن قطنہ نبھانی کے ہاتھوں  شہید ہوئے ۔

8- محمد بن عبداللہ بن جعفر طیار(فرزند حضرت زينب عليها السلام)

آپ جناب عون کے بھائی تھے۔ 10 دشمنوں کو قتل کرنے کے بعد عامر بن نہشل کے ہاتھوں شہید ہوئے ۔

9- عبداللہ الاکبر عرف عمرو بن الحسن ابن علی ابن ابی طالب

آپ امام حسن علیہ السلام کے بڑے بیٹے اور آپ کی کنیت ابو بکر تھی  آپ کی والدہ گرامی کا نام  جناب "رملہ " اور کچھ روایات کے مطابق" نفیلہ" تھا۔ میدان کربلا میں 80 آدمیوں کو قتل کرنے کے بعد عبداللہ بن عقبی غنوی کے ہاتھوں شہید ہوئے ۔

10-   قاسم بن حسن بن علی ابن ابی طالب

آپ امام حسن علیہ السلام  اور جناب ام فروه کے فرزند تھے آپ نہایت جری تھے ارزق شامی جیسے نامی گرامی پہلوان کو میدان کربلا میں قتل کیا ۔ اور جب دشمنوں سے زیر نہ ہوئے تو سب نے اچانک چاروں طرف سے گھیر کر حملہ کیا  اور عمیر بن نفیل ازدی کے وار سے گھائل ہوئے ۔ گھوڑے سے گرنے کے بعد زندہ ہی پامال سُم اسپاں ہو گئے ۔

11- عبداللہ بن حسن ابن علی ابن ابی طالب

آپ اِمام حسن علیہ السلام کے فرزند اور والدہ بنت شکیل بن عبداللہ بجلی تھیں ۔ آپ کے نانا صحابی رسول تھے ۔  کربلا میں سنِ بلوغ تک نہ پہنچے تھے مگر شجاعت  بے مثال کے مالک تھے ۔  14 دشمنوں کو قتل کر کے بدست ہانی بن  شیت خضرمی شہید ہوئے ۔

12- عبداللہ بن علی ابن ابی طالب

آپ علمدارِ کربلا کے حقیقی بھائی اور فرزند جناب اُم البنین اور امیر المومنین علیہ السلام تھے ۔کربلا میں ہانی بن ثبیث حضرمی کے ہاتھوں شہید ہوئے ۔

13-   عثمان بن علی ابن ابی طالب

آپ بھی علمدارِ کربلا کے بھائی  تھے۔ آپ کی عمر 23 برس تھی اور میدان کربلا میں خولی شقی کے تیر سے گھائل ہوکر زخمی ہوئے اور قبیلہ ابان بن وارم کے ایک شخص کی تلوار سے شہید ہوئے ۔

14- جعفر بن علی ابن ابی طالب

آپ کی عمر 21 برس اور میدانِ کربلا میں  ہانی ابن ثبیث کے ہاتھوں شہید ہوئے ۔

15- علمدارِ کربلا عباس بن علی ابن ابی طالب

ان بہادران بنی ہاشم کی شہادت کے بعد علمدارِ کربلا نے اِذن شہادت طلب کیا مگر امام علیہ السلام نے اذنِ جنگ نہ دیا اور فرمایا کہ اطفال کے لیے پانی کا بندوبست کرو ۔

آپ مشکیزہ اور علم لے کے میدان میں گئے، جنگ کی اجازت نہ ملنےکے باوجود آپ کی ہیبت سے لشکر میں ہلچل مچ گئی تھی ۔ آپ نے پانی پر قبضہ کیا مشک بھری اور  واپس راه خیام ہوئے ۔ جب لشکر نے دیکھا کہ آپ بغیر تلوار کے ہیں تو آپ پر حملہ کیا اور پانی کی مشک بچاتے ہوئے آپ کا داہنا ہاتھ زیند بن ورقا کی تلوار سے قلم ہوا ۔ بایاں ہاتھ حکیم ابن طفیل نے قلم کیا مشکیزے پر تیر لگنے سے سارا پانی بہہ گیا  اور ایک تیر آپ کی سینے پر لگا۔ آپ کی شہادت پر امام علیہ السلام نے فرمایا ۔

" ہائے میری کمر ٹوٹ گئی" آپ کو کمال حُسن کی وجہ سے قمر بنی ہاشم بھی کہا جاتا تھا۔ مشہور القاب " سقہ " ، ابو قریہ ہیں شہادت کے وقت آپ کی عمر 34 برس تھی۔

16- علی اکبر بن الحسین الشہید ابن علی ابن ابی طالب

آپ امام علیہ السلام کے بیٹے تھے ۔ امیر المومنین علی علیہ السلام  اور جناب خاتونِ جنت سلام اللہ علیہا کے پوتے تھے ۔ آپ کی والدہ کا نام " اُمِ لیلٰی"  تھا۔  آپ صورت اور سیرت میں پیغمبر اسلام صلى الله عليه و آله وسلم کے مشابہ تھے ۔ آپ کا نام علی ابن حسین ۔ کنیت ابو الحسن اور لقب اکبر تھا۔ آپ نے میدان کربلا میں120 دشمنوں کو قتل کیا اور منقذ ابن مرہ عبدی نے آپ کے گلوئے مبارک پر تیر مار اور ابن نمیر نے سینہ اقدس پر نیزے کا وار کیا ۔ شہادت کے وقت آپ کی عمر 18 برس تھی ۔

17- محمد بن ابی سعید بن عقیل

آپ جناب عقیل کے فرزند اور نہایت کم سن تھے ۔  جناب علی اکبر کی شہادت کے بعد آپ چوب خیمہ  لے کر باہر نکلے  اور امام علیہ السلام کی طرف رُخ کیا ابھی آپ امام علیہ السلام کے نزدیک بھی نہیں پہنچے تھے کہ نفیظ ابن یاسی  نے آپ پر تلوار کی ضرب لگائی اور آپ شہید ہو گئے ۔

18-  علی اصغر بن الحسین الشہید ابن علی ابن ابی طالب

آپ امام علیہ السلام کے کمسن ترین فرزند تھے۔ آپ 10 رجب سن 60 ہجری کو پیدا ہوئے ۔ آپ کی والدہ  کا نام رباب بنت امرہ القیس بن عدی بن اوس تھا۔ یوم عاشور کو جب امام علیہ السلام نے آواز استغاثہ بلند کی تو آپ نے خود کو جھولے سے گرا دیا ۔ امام علیہ السلام جب6 ماہ کے شہزادے کو لے کر اُس کے لئے پانی مانگنے  کے لئے میدان میں گئے تو لشکر میں ہلچل مچ گئی اور لشکر بے قابو ہونے لگا ۔  ابن سعد  نے حرملہ کو حکم دیا کہ تیر سہ شعبہ استعمال کرو۔  اس لعین نے گلوئے صغیر کو تاکا اور تیر کمان سے چھوڑ دیا تیر کا لگنا تھا کہ 6 ماہ کا معصوم بچہ امام علیہ السلام کے ہاتھوں میں دم توڑ گیا۔ امام علیہ السلام نے خون علی اصغر علیہ السلام آسمان کی طرف پھر زمین کی طرف پھینکنا چاہا مگر دونوں نے اس خون نا حق کو قبول کرنے سے انکار کر دیا ۔ بالآخر آپ علیہ السلام نے اس لہو کو اپنے چہرہ مبارک پر مل لیا ، اور فرمایا کہ " اسی حالت میں اپنے نانا کی بارگاہ میں جاوں گا " ۔

انکار آسمان کو ہے ، راضی زمیں نہیں

اصغر تمہارے خون کا ٹھکانا کہیں نہیں ۔

 

تاجدار انسانیت سید الشُہداء  امام حسین علیہ السلام کی شہادت

جب آپ علیہ السلام کا کوئی معین اور مددگار باقی نہ رہا تو آپ خود میدان کارزار میں آئے ۔

آپ علیہ السلام کے جسم مبارک پر 1951 زخم آئےاور آپ زمین پر اس طرح تشریف لائے که آپ علیہ السلام نہ تو زین پر تھے اور نہ زمین پر ۔ نماز عصر کا وقت آ چکا تھا۔ آپ سجدہ خالق میں گئے تو شِمر ملعون نے کُند خنجر سے آپ کا سر مبارک جسمِ اقدس  سے جدا کر دیا ۔

یہ المناک واقعہ  10 محرم س61 ہجری بمطابق 10 اکتوبر 680 عیسوی بروز جمعہ اس دنیا میں وقوع پزیر ہوا اور دین اسلام کی لازوال تاریخ رقم کر گیا ۔

 

 

 

میدانِ کربلا میں شہید ھونے والے امام حسین کے رُفقاء کا مختصر تعارف( قسمت7)

61-  جنادہ بن کعب الخزرجی

آپ قبیلہ خزرج کی یادگار تھے اور مکہ میں امام علیہ السلام کے ساتھ شامل ہوئے۔ 18 دشمنوں کو قتل کر کے شہید ہوئے ۔

62- عمر بن جنادۃ انصاری

آپ جنادہ بن کعب کے فرزند اور کم عمر تھے باپ کی شہادت کے بعد والدہ نے آپ کو تیار کر کے امام علیہ السلام کی بارگاہ میں پیش کیا امام نے کہا " ابھی تمہارا باپ شہید ہوا ہے، میں تم کو اجازت نہیں دے سکتا"

 یہ سن کر آپ کی والدہ نے امام علیہ السلام کی قدم بوسی کی اور اجازت طلب کی ۔ امام علیہ السلام سے اجازت لے کر میدان میں گئے اور شہید ہوئے ۔ روایت ہے کہ قاتل نے سر کاٹ کر خیام کی طرف پھینکا تو آپ کی والدہ نے واپس میدان میں پھینک دیا۔

63-   جنادہ بن الحرث سلمانی

اپ کوفہ کے رہائشی تھے اور امام علیہ السلام سے راستے میں ملاقات کر کے آپ کے رفقاء میں شامل ہوئے ۔ میدانِ کربلا میں ظہر سے قبل شہید ہوئے ۔

64- عابس بن شبیب شاکری

آپ قبیلہ بنو شاکر کی یادگار تھے اور  یہ وہی قبیلہ ہے جس کی بابت امیر المومنین علیہ السلام  نے جنگ صفین میں فرمایا تھا " اگر بنو شاکر کے 1000 افراد موجود ہوں تو دنيا میں اسلام کے علاوہ کوئی اور مذہب نہ ہو۔ " یوم عاشور پر جب میدان میں آ کر مبازر طلب کیا تو کوئی بھی سامنے نہیں آیا ۔ بالآخر آپ پر اجتماعی پتھراو کیا گیا اور سب نے مل کر حملہ کیا جس سے آپ شہید ہوگئے ۔

65-  شوذب بن عبداللہ ہمدانی

آپ عابس الشاکری کے غلام تھے اور بلا کے جری تھے ۔ آپ بھی اپنے مالک کے ہمراہ میدانِ کربلا میں شہید ہوئے ۔

66- عبد الرحمان بن عروة الغفاری

آپ کوفہ کے رہائشی تھے اور میدان کربلا میں امام علیہ السلام کے نصرت اور تائید میں شہید ہوئے ۔

67-  حارث بن امرو القیس الکندی

آپ صبحِ عاشور لشکر ابن سعد سے نکل کر امام علیہ السلام کے لشکر میں شامل ہوئے اور جامِ شہادت نوش کیا ۔

68- یزید بن زیاد كندى

آپ کی کنیت ابو الشعشاء تھی ۔ آپ اپنی قوم کے سردار اور فنون جنگ میں طاق تھے ۔آپ میدان کربلا میں بے جگری سے لڑے تو دشمنوں نے آپ کے گھوڑے کے پیر کاٹ دیے اس وقت آپ کے ترکش میں 100 تیر تھے آپ نے ہر تیر سے ایک فرد کو واصلِ نار کیا ۔ تیر ختم ہونے کے بعد تلوار بازی کی اور  نیزہ لگنے سے گھائل ہوئے  اور درجہ شہادت حاصل کیا ۔

69- ابو عمرہ النہثلی

آپ میدانِ کربلا کی انفرادی  جنگ میں شہید ہوئے آپ کا قاتل عامر بن نہشل تھا

70- جندب بن حجر خولانی کندی

آپ انصار امیر المومنین علیہ السلام تھے اور کوفہ سے نکل کر لشکر حُر کی آمد سے پهلے امام علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوئے ۔ یومِ عاشورہ کو حمایتِ فرزندِ رسول علیہ السلام میں جنت کے حقدار ہوئے ۔

71- سلمان بن مضارب بجلى

آپ زہیر ابن قین کے چچا زاد بھائی تھے ۔ مکہ سے امام علیہ السلام کے ہم رکاب ہوئے اور یومِ عاشور بعد نمازِ ظُہر شہادت سے سرفراز ہوئے ۔

72- مالک بن عبداللہ همدانى

آپ یومِ عاشور سے چند روز پہلے امام علیہ السلام کی بارگاہ میں حاضر ہوئے تھے ۔ آپ کی شہادت پر اِمام نے وہ ایک جملہ کہا جو تاریخ میں محفوظ ہے ۔

" اے میرے وفادار بہادرو ۔ تم میرے نانا کی خدمت میں چلو میں تمہارے پیچھے آ رہا ہوں " ۔

میدانِ کربلا میں شہید ھونے والے امام حسین کے رُفقاء کا مختصر تعارف( قسمت6)

51-  انس بن حارث کاهلی

آپ کا نام انس بن حارث بن کاہل بن عمر بن صعب بن اسد بن حزیمہ اسدی کاہلی تھا ۔ آپ رسول اللہ صلی علیہ و آلہ وسلم کے صحابی  اور راوی حدیث بھی ہیں ۔ آپ کوفہ سے نکل کے امام علیہ السلام کی بارگاہ میں کربلا میں حاضر ہوئے ۔ آپ نہایت کبیر السن تھے ۔ یوم عاشور ظہر کی نماز سے کچھ پہلے شہید ہوئے۔

52- زیاد بن عریب الصائدی

آپ کی کنیت ابو عمرۃ تھی ۔ آپ بنی ہمدان کی شاخ بنی حائد کے چشم و چراغ تھے۔ امام علیہ السلام سے کربلا میں ملاقات کی اور درجہ شہادت حاصل کیا ۔ آپ کا قاتل عامر بن نہشل تھا۔

53-  عمر بن مطاع الجعفی

امام علیہ السلام سے کربلا میں ملاقات کی اور درجہ شہادت حاصل کیا ۔

54- حجاج بن مسروق المذحجی

آپ کا شمار انصار امیر المومنین علیہ السلام میں ہوتا تھا ۔ امام علیہ السلام کی مکہ سے روانگی کا سن کر آپ بھی کوفہ سے عازم سفر ہوئے اور منزل قصر بنی مقاتل میں شرف ملاقات حاصل کیا اور 15 دشمنوں کو واصل جہنم کرنے کے بعد واپس امام کی بارگاہ میں حاضر ہوئے واپسی پر آپ کا غلام " مبارک " بھی ہمراہ ہو گیا دونوں نے کمال کی جنگ کی اور 150 دشمنوں کو قتل کر کے شہید ہوئے

55-   زہیر بن قین بجلی

آپ کوفہ کے رہائشی تھے پہلے عثمانی بعد میں حسینی علوی ہو گئے ۔  حج سے  اپنے اہل خانہ کے ہمراہ واپسی پر امام علیہ السلام سے ملاقات ہوئی اور امام علیہ السلام کے ہمراہ ہو گئے ۔ امام کے لشکر میں شامل ہونے کے بعد اپنی زوجہ کو طلاق دے کر واپس بھیج دیا اور خود شهيد ہو گئے۔ روایت ہے کہ شب عاشور جب ایک رات کی مہلت لینے کے لیے علمدار کربلا گئے تھے تو آپ بھی ان کے ہمراہ گئے تھے ۔ مؤرخین کا اتفاق ہے کہ امام علیہ السلام کے لشکر کے میمنہ کی سربراہی بھی جناب کو ہی عطا کی گئی تھی۔ آپ نے 120 افراد کو قتل کر کے جام شہادت نوش کیا ۔

56- حبیب بن مظاہر الاسدی

آپ صحابی رسول صلی علیہ و آلہ وسلم تھے  اور امام علیہ السلام کے بچپن کے دوست تھے ۔ آپ کا ایک اعزاز یہ بھی ہے کہ آپ نے ۳ اماموں علیہم السلام  کی صحبت کا شرف حاصل کیا ۔  امام عليه السلام نے خط لكه كر كوفه سے بلوايا اور اس خط ميں آپ كو رجل فقيه كا لقب عطا كيا. كربلا ميں میسرہ کی کمان آپ کے سپرد کی ۔ یوم عاشور آپ نے 62 دشمن واصل نار کیے اور بدیل بن حریم عفقائی کی تلوار کی ضرب سے گھائل ہوئے اور حصین بن نمیر نے تلوار کا وار کیا جو آپ کے سر مبارک پر لگی اور شہید ہوگئے ۔ روایت ہے کہ آپ کا قاتل ابن زیاد سے 100 درہم کا انعام لينے كے ليے آپ کا سر مبارک گھوڑے کی گردن میں لٹکا کر كوفه پہنچا جہان حبیب کے ایک فرزند نے اس کو قتل کر کے آپ کا سر مبارک لے ليا ۔

57- ابو ثمامہ عمرو بن عبداللہ صائدى

ابوثمامہ صائدی شہدائے کربلا اور حضرت امام علی عليه السلام کے اصحاب میں سے ہیں۔ انہوں نے حضرت علی کے ساتھ تمام جنگوں میں شرکت کی ۔ وہ دلاوران عرب اور کوفہ کے مشہور شیعہ تابعین میں سے شمار ہوتے ہیں. مسلم بن عقیل کو کوفہ آنے پر ان سے مل گئے اور مسلم کی شہادت کے بعد کوفہ چھوڑ کر چلے گئے۔ مکہ سے کربلا آتے ہوئے حضرت امام حسین عليه السلام  کے کاروان میں شامل ہوئے. آپ نماز ظہر کے لیے عین ہنگامہ کارزار میں، جب امام علیہ السلام  امامت فرما رہے تھے ۔ آپ نے امام علیہ السلام کی حفاظت کرتے ہوئے  کمال دلیری سے شمشیر زنی کی اور اپنے چچا زاد بھائی قیس بن عبداللہ انصاری کے ہاتھوں شہید ہوئے ۔

58- انیس بن معقل الاصبحی

آپ آلِ محمد علیہ السلام کے جانثاروں میں سے تھے ۔ یوم عاشور ظہر کی نماز سے کچھ پہلے 10 دشمنوں کو قتل کرنے کے بعد شہید ہوئے ۔

59- جابر بن عروة الغفاری

کتاب’’شہدائے کربلا‘‘ میں بیان ہوا ہے کہ متأخرین کے نزدیک یہ صحابی رسول خد(ص) تھے جوکربلا میں شہید ہوئے جنگ بدر اوردیگر غزوات میں رسول اکرم(ص) کے ہمراہ شریک ہوئے یہ بوڑھے صحابی روز عاشورا رومال باندھ کراپنے آبروؤں کوآنکھوں سے ہٹاتے ہیں اورعازم میدان جنگ ہوتے ہیں جب امام علیہ السلام کی نظر پڑی توفرمایا: اے پیرمرد! خدا تجھے اجردے۔ غضب کا معرکہ لڑا اور 60 افراد کو قتل کر کے شہید ہوئے۔

60-  سالم مولی عامر العبدی

آپ بصرہ کے رہنے والے تھے اور مکہ میں امام علیہ السلام کے ساتھ شامل ہوئے ۔ اور کربلا میں شہید ہوئے ۔

میدانِ کربلا میں شہید ھونے والے امام حسین کے رُفقاء کا مختصر تعارف( قسمت5)

41- سعید بن عبداللہ الحنفی

آپ کوفے کی نامی گرامی اشخاص میں سے تھے ۔ اور میدان کربلا میں بوقت نماز ظہر جب دوران جماعت دشمنوں نے تیر اندازی شروع کی تو آپ امام علیہ السلام کے سامنے کھڑے ہو گئے اور ایک بھی تیر امام کی طرف آنے نہ دیا حتیٰ کہ زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے شہید ہو گئے ۔

42- عبد الرحمن بن عبد المزنی

آپ نہایت سعید اور مُحب آل محمد تھے۔ یوم عاشور اذنِ جنگ حاصل کر کے میدان میں آئے اور شجاعت سے لڑ کر شہید ہوئے ۔

43-  نافع بن ہلال الجملی

آپ امیر المومنین علیہ السلام کے اصحاب میں شامل تھے. جمل، نہروان ، اور صفین میں شر کت کی ۔ کربلا میں سعی آب کی کوششوں میں علمدارِ کربلا کے ساتھ شریک ہوئے ۔ 12 دشمنوں کو قتل کر کے شہید ہوئے۔

44- عمر بن قرظة الانصاری

آپ مدینہ سے آ کر کوفہ میں مقیم ہو گئے تھے اصحاب امیر المومنین میں شامل تھے ۔ میدان کربلا میں امام علیہ السلام کے پیغامات عمر بن سعد تک پہنچایا کرتے تھے ۔ آپ نے بہت شجاعت سے جنگ لڑی اور با لآ خر شہید ہو کر راہ حق میں امر ہوگئے ۔

45- جون بن حوی غلام الغفاری

آپ جناب ابوذر غفاری کے غلام تھے ۔ جون پہلے امام حسن علیہ السلام کی خدمت  کرتے تھے اور اس کے بعد امام علیہ السلام کے خدمت میں مصروف ہو گئے۔ آپ امام علیہ السلام کے ہمراہ مکہ سے مدینہ اور کربلا آئے، عاشورہ کے دن آپ پہلے فرد ہیں جن کو امام علیہ السلام نے کئی بار اِذنِ شہادت طلب کرنے کا باوجود منع فرمایا اور کہا " جون مجھے پسند نہیں کہ میں تم کو قتل ہوتا دیکھوں " پھر جون کا وہ جملہ جو تاریخ میں مرقوم ہے " "مولا  میرا پسینہ بدبودار، حسب خراب اور رنگ کالا ہی سہی لیکن عزم شہادت میں کوئی خامی نہیں ہے۔ مولا خدارا اجازت عطا کریں تا کہ سرخ رُو ہو سکوں۔"  اِذن ملنے کے بعد جب آپ شہید ہو گئے تو امام علیہ السلام نے دعا فرمائی کہ " پروردگار ان کے پسینے کو مشکبار، رنگ کو سفید اور حسب کو آل محمد کے انتساب سے ممتاز کر دے " روایت ہے کہ دعا ختم ہوتے ہی جون مثل گلاب اور پسینہ انتہائی معطر ہو گیا تھا۔

46- عمر بن خال الصیداوی

آپ کوفہ سے نکل کر مقام عذیب پر امام علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوئے اور یوم عاشورہ کو عروسِ شہادت سے ہم کنار ہوئے ۔

47- حنظلہ بن اسعد شبامی

آپ امام علیہ السلام کے پاس کربلا میں پہنچے تھے اور بہت جواں مردی کے ساتھ جنگ کر کے شہید ہوئے ۔

48-  سوید بن عمار الخثعمى

آپ بڑے شجاع اور آزمودہ کار زار تھے آپ کو میدان کربلا میں عروہ بن بکار اور یزید بن ورقا نے شہید کیا۔

49- یحیی بن سلیم مازنی

آپ شب عاشور بریر ہمدانی کے ساتھ پانی کے لیے کی جانے والی کوشش میں شریک تھے اور یوم عاشور کو امام علیہ السلام کے انصاروں کے ساتھ میدان کربلا میں شہید ہوئے ۔

50-  قرة بن ابی قرة الغفاری

آپ نہایت شریف اور جانباز تھے ۔ یوم عاشور امام علیہ السلام سے اجازت حاصل کرنے کے بعد دشمن پر اتنی شجاعت سے حملے کیے کہ ان کے دانت کھٹے کر ديے ۔ آپ رجز پڑھتے اور حملے کرتے،  یہاں تک کے شہید ہو گئے۔

میدانِ کربلا میں شہید ھونے والے امام حسین کے رُفقاء کا مختصر تعارف( قسمت4)

31-   بشر بن عمر الکندی 

آپ حضر موت کے رہنے والے تھے اور قبیلہ کندہ کے فرد تھے آپ بھی جنگ اولین میں شہید ہوئے ۔

32-   عبداللہ بن عروہ الغفاری

آپ کربلا میں امام علیہ السلام سے آ کر ملے اور جنگ مغلوبہ میں شہادت پائی ۔

33- بریر بن خضیر الہمدانی

آپ قبیلہ بنو ہمدان کی شاخ بنو مشرق کی عظیم شخصیت تھے ۔ انصار امیر المومنین علیہ السلام تھے اور مکہ سے امام علیہ السلام کے ہم رکاب ہوئے ۔ شب عاشور پانی کی جدوجہد میں جو کارنامہ سرانجام دیا وہ  تاریخ میں سونے کے حروف سے لکھنے کے قابل ہے.  یوم عاشور سب سے پہلا گریہ جو امام علیہ السلام نے فرمایا وہ آپ ہی کے جسد خاکی پر کیا تھا "إن بریر من عباد اللہ الصالحین "  ہاے بریر ہم سے جدا ہو گئے جو خدا کے بہترین بندوں میں سے ایک تھے.

34- وہب بن عبداللہ الکلبی

یہ حسینی بہادر نصرانی (عیسائی) تھا اور کسی سفر میں اپنی بیوی اور والدہ کے ہمراہ جا رہا تھا امام علیہ السلام کی نُصرت کے لیے رکا اور اسلام قبول کیا ۔ کتاب ذکر العباس میں تفصیل سے موجود ہے ۔ آپ نے 24 پیادے  قتل کیے اور آپ کی شہادت کے بعد آپ کی زوجہ آپ کی لاش پر گئیں اور اسی دوران شمر کے حکم پر اس کے غلام رُستم نے آپ کو بھی شہید کر دیا ۔ بعض مورخین نے آپ کی زوجہ کو پہلی خاتون شہید لکھا ہے ۔ روایت ہے کے آپ کا سر کاٹ کے خیام حسینی کی طرف پھینکا گیا تو آپ کی والدہ نے واپس میدان کی طرف پھینک دیا اور فرمایا " ہم راہ خدا میں جو چیز دے دیتے ہیں اسے واپس نہیں لیتے ۔"

روایت ہے کہ آپ کی والدہ نے بھی 2 دشمنوں کو واصل جہنم کیا تھا ۔ دمعہ ساکبہ ص 331 ، طوفان بکا ص13.

35- ادہم بن امیة العبدی

آپ بصرہ کے رہنے والے تھے اور کوفہ میں سکونت اختیار کی تھی ۔ ماریہ کے مکان پر ہونے والے تمام اجلاسوں میں شریک ہوئے ۔ ایک دن یزید بن ثبیط نے کہا کے میں امام علیہ السلام کی امداد کے لیے مکہ جا رہا ہوں ۔ آپ نے کہا کے میں بھی ساتھ چلوں گا ۔ آپ مکہ پہنچے اور یوم عاشور اپنی جان عزیز امام علیہ السلام پر قربان کر کے امر ہو گئے ۔

36- امیہ بن سعد الطائی

آپ کوفے میں رہتے تھے جب آپ کو علم ہوا کے امام حسین علیہ السلام کربلا پہنچ گئے ہیں تو آپ فی الفور کوفے سے نکل کر امام علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہو کر امام علیہ السلام کے لشکر میں شامل ہو گئےاور یوم عاشور کمال جذبہ قربانی کے پیش نظر امام علیہ السلام اور اسلام پر قربان ہو گئے ۔

 37- سعد بن حنظلہ التمیمی

آپ کے بیشتر حالات تاریخ میں موجود نہیں ہیں مگر ایک جملہ  موجود ہے کہ آپ نہایت جگری سے لڑے اور بہت سے دشمنوں کو فنا كر کے گھاٹ اتار کر میدان کارزار میں جام شہادت نوش کیا۔

38- عمیر ابن عبداللہ المذحجی

جناب سعد ابن حنظلہ کی شہادت کے بعد آپ میدان میں آئے اور کمال شجاعت سے لڑ کر بالاخر مُسلم صبانی اور عبداللہ بجلی نے آپ کو شہید کیا ۔

39-  مسلم بن عوسجہ الاسدی

آپ کو صحابی رسول ہونے کا شرف حاصل ہے ۔ 24 ہجری میں فتح آذربائیجان  میں حذیفہ یمان کے ہمراہ جو کارنامے سرانجام دئیے تھے وہ تاریخ میں موجود ہیں ۔

9 محرم کی شام کو امام علیہ السلام کا وہ خطبہ جس میں امام علیہ السلام نے جب انصار اور احباب سے واپس جانے کو کہا تھا تو رُفقاء کی جانب سے حضرت عباس علمدار علیہ السلام اور انصار کی جانب سے جناب مسلم بن عوسجہ نے کہا تھا: " کہ یہ ہو ہی نہیں سکتا ۔ اگر ہم ساری عمر مارے جائیں اور جلا بھی دئے جائیں تب بھی آپ کی معرفت اور ساتھ نہیں چھوڑیں گے ۔ آپ علیہ السلام کی خدمت میں شہادت ، شہادتِ عظیم ہے۔"

شب عاشور جب خندق کے گرد آگ جلانے پر لشکر کفار سے لڑائی ہوئی تھی تو آپ نے ہی اس کا منہ توڑ جواب دیا تھا۔

جب آپ مسلم بن عبداللہ اور عبداللہ بن خشکارہ بلخی کے ہاتھوں شہید ہوئے تو شبت ابن ربعی اگر چہ دشمن تھا بولا " افسوس تم ایسے شخص کے مرنے پر خوشی منا رہے ہو جس کے اسلام پر احسانات ہیں ۔ جس نے جنگ آذربائیجان میں مُشرکوں کی کمر توڑ دی تھی "

آپ کی شہادت کے بعد آپ کے فرزند میدان میں آئے اور 30 دشمنوں کو قتل کر کے شہید ہوئے ۔

40-   ہلال بن نافع البجلی

آپ کی پرورش امیر المومنین علیہ السلام نے کی تھی ۔ تیر اندازی میں ثانی نہیں رکھتے تھے ۔ اور عادت تھی که تیروں پر اپنا نام کندہ کر کے استعمال کرتے تھے ۔ شب عاشور امام علیہ السلام کے ہمراہ تھے اور موقعہ جنگ کا معائنہ کیا ۔ ترکش میں موجود 80 تیروں سے 75 دشمنوں کو قتل کیا اور اسکے بعد تلوار سے 13 کو واصل جہنم کیا ۔ اور پھر کفار کی طرف سے اجتماعی حملے میں شہید ہوئے ۔

میدانِ کربلا میں شہید ھونے والے امام حسین کے رُفقاء کا مختصر تعارف( قسمت3)

21-   زاہر بن عمر الکندی

آپ امیر المومنین علیہ السلام کے ایک صحابی عمرو بن الحمق کے ساتھ ہر وقت ہمراہ رہتے تھے آپ نہایت زبردست پہلوان مشہور تھے اور عرب کے لوگ آپ سے متاثرتھے آپ حج کے لیے مکہ پہنچے اور پھر امام علیہ السلام کے ہمراہ ہو گئے۔ آپ مکہ سے کربلا امام علیہ السلام کے ہمراہ آئے اور جنگ مغلوبہ میں شہید ہوئے ۔  آپ کے پوتوں میں محمد بن سنان  امام رضا علیہ السلام اور امام محمد تقی علیہ السلام کے راویوں میں شامل ہیں محمد ابن سنان کی وفات 220 ہجری میں ہوئی ۔

22- جبلہ بن علی الشیبانی

آپ جناب مسلم علیہ السلام کی شہادت کے بعد کوفے سے نکل کر امام علیہ السلام کے ساتھ شامل ہو گئے اور جنگ مغلوبہ میں شہید ہوئے ۔

23-   مسعود بن حجاج التیمی

آپ امیر المومنین علیہ السلام کے اصحاب میں سے ایک تھے۔ آپ ابن سعد کے لشکر کے ہمراہ کربلا پہنچے اور پھرامام علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہو کر جبگ مغلوبہ میں شہید ہو کر حیات ابدی کے مالک بن گئے ۔ علماء نے لکھا ہے کہ آپ کے ہمراہ آپ کے فرزند عبد الرحمن ابن مسعود بھی شہید ہوئے تھے ۔

24-  حجاح بن بدر التیمیمی السعدی

آپ بصرہ کے رہنے والے تھے اور آپ کا تعلق بنی سعد سے تھا ۔ آپ رئیس بصرہ مسعود بن عمر کا خط لے کر امام علیہ السلام کی بارگاہ میں حاضر ہوئے اور پھر واپس نہیں گئے ۔ اور یوم عاشور جنگ مغلوبہ میں امام علیہ السلام پر قربان ہو گئے ۔

25- عبداللہ بن بشر الخثعمی

آپ ابنِ سعد کے لشکر  کے ہمراہ کوفہ سے کربلا آئے تھے اور صبحِ عاشور امام علیہ السلام کی بارگاہ میں حاضر ہو کر جنگ مغلوبہ میں شہید ہو کر عظیم شہداء میں شامل ہوگئے ۔

26- عمار بن حسان الطائی

آپ امام عالی مقام علیہ السلام کے ساتھ مکہ سے کربلا آئے اور صبح عاشور جنگ مغلوبہ میں  شہید ہوئے

27- عبداللہ بن عمیر الکلبى

آپ قبیلہ علیم کے چراغ تھے آپ پہلوانی میں بہت ماہر تھے اور کوفہ کے محلہ ہمدان  کے قریب چاہ جعد میں رہتے تھے ۔ کوفہ سے اپنی زوجہ کے ہمراہ نکل کر امام کی لشکر میں شامل ہوئے اور جنگ مغلوبہ میں شہید ہوئے ۔ آپ کی زوجہ اُم وہب جب آپ کی لاش پر پہنچی تو شِمر کے ایک غلام رُستم نے اس مومنہ کے سر پر گرز کا وار کر کے ان کو بھی شہید کر دیا ۔ آپ کی زوجہ کو کربلا کی پہلی خاتون شہید کہا جاتا ہے ۔

28- مسلم بن کشیر الازدی:

آپ امام علیہ السلام کے کربلا پہنچنے سے قبل کسی مقام پر امام علیہ السلام کے ہمراہ شامل ہو گئے تھے  اور صبح عاشور شہید ہوئے ۔ کچھ مورخین نے لکھا ہے کہ آپ کے  ہمراہ آپ کے ایک غلام رافع بن عبد اللہ  بھی شامل تھے جو کربلا میں نماز ظہر کے بعد  شہید ہوئے ۔

29- زہیر بن سیلم الازدی

آپ قبیلہ ازد کے نمایاں فرد تھے اور شب عاشور امام علیہ السلام کی بارگاہ میں پہنچ کو شامل لشکر ہوئے اور صبح عاشور جنگ مغلوبہ میں شہید ہوئے ۔

30- عبداللہ بن یزید العبدی

آپ اپنی قوم کے سردار اور کوفے میں ماریہ کےگھر جو اجلاس ہوتا تھا اس میں شرکت کرتے تھے آپ مکہ میں امام علیہ السلام کے ساتھ شامل ہوئے اور کربلا میں اولین جنگ میں شہادت کا رتبہ حاصل کیا ۔ کچھ مؤرخین کا خیال ہے کہ آپ کے بھائی عبید اللہ اور والد گرامی یزید ابن ثبیط بھی مکہ سے ہم رکاب ہوئے اور عبید اللہ نے نماز سے پہلے اور والد نے نماز کے بعد ھونے والی جنگ میں شہادت پائی ۔

میدانِ کربلا میں شہید ھونے والے امام حسین کے رُفقاء کا مختصر تعارف( قسمت2)

11- غامر بن مسلم العبدی.

آپ امیرالمومنین علیہ السلام کے چاہنے والے اور بصرہ کے رہنے والے تھے ۔ آپ کا پورا نام غامر بن مسلم عبدی المطری تھا ۔  آپ مکہ معظمہ میں ہی امام علیہ السلام کے ساتھ ہو گئے تھے  اور تا دم آخر ساتھ ہی رہے ۔ آپ کے ہمراہ آپ کا غلام سالم بھی تھا ۔ زیارت ناحیہ کی بناء پر آپ کا غلام بھی آپ کے ہمراہ ہی شہید ہوا۔

 

12-  سیف بن مالک العبدی

آپ امیر المومنین علیہ السلام کے خاص اصحاب میں سے تھے ۔امام علیہ السلام کی نصرت کے لیے  ماریہ کے مکان پر جو خفیہ اجتماع ہوا کرتا تھا آپ اس میں شامل ہوا کرتے تھے۔ آپ نے مکہ میں امام علیہ السلام کی معیت اختیار کی اور جنگ مغلوبہ میں یوم عاشور کو  شہید ہوئے ۔

 

13-  عبد الرحمان الارجبی

آپ قبیلہ بنو ہمدان کى شاخ بنو ارجب کے چشم و چراغ تھے۔ آپ کا پورا نام عبد الرحمن بن عبداللہ الکذن بن ارجب بن دعام بن مالک بن معاویہ بن صعب بن رومان بن بکیر الھمدانی الارجبی تھا۔ آپ اس دوسرے وفد کے ایک  رکن تھے جو کوفے سے خطوط لے کے مکہ گئے تھے۔  جبکہ آپ کے ہمراہ قیس  اور 50 خطوط تھے ۔ یہ وفد12 رمضان کو امام علیہ السلام کی بارگاہ میں پہنچا تھا ۔ کچھ مورخین کا کہنا ہے کے جناب مسلم علیہ السلام کے ہمراہ یہی عبد الرحمن ، قیس اور عمارہ شامل تھے ۔ عبد الرحمن جناب مسلم کو کوفے پہنچا کر واپس امام علیہ السلام کی خدمت میں مستقل شامل ہو گئے تھے اور عاشور کو امام علیہ السلام کے ساتھیوں کے ہمراہ شہید ہوئے ۔

 

14-   مجمع بن عبداللہ العامذی

آپ قبیلہ مذحج کے نمایاں فرد تھے ۔ آپ کو امیر المومنین علیہ السلام کے صحابی ہونے کا شرف بھی حاصل ہے ۔  یہ وہی ہیں جنہوں نے امام علیہ السلام مقام عذیب میں کوفے کے تمام حالات سے آگاہ کیا تھا اور کوفہ جانے والے امام کے آخری قاصد قیس بن مسہر کی گرفتاری اور انکی شہادت  سے امام علیہ السلام کو آگاہ کیا تھا۔ آپ بھی جنگ مغلوبہ میں شہید ہوئے ۔ کچھ روایات نے آپ کے ہمراہ آپ کے فرزند عائذ بن مجمع کی شہادت بھی کربلا میں لکھی ہے ۔

 

15-  حیان بن حارث السلمانی

آپ قبیلہ ازو کے چشم و چراغ تھے ۔ مدینے سے کربلا جاتے ہوئے امام علیہ السلام کے ہمراہ ہوئے اور صبح عاشور جنگ مغلوبہ میں امام علیہ السلام کی نصرت کرتے ہوئے شہید ہوئے ۔

 

16- عمرو بن عبداللہ الجندعی

جندع قبائل ہمدان کی ایک شاخ کا نام تھا ، آپ کربلا میں شاملِ لشکر ہوئے  اور جنگ مغلوبہ میں شہید ہوئے ۔ علامہ مجلسی ، فاضل اربلی اور سپہر کاشانی نے اپنی کتابوں میں جنگ مغلوبہ کےبجائے میدان کارزار میں شہادت بیان کی ہے ۔ زیارت ناحیہ میں ورد آگین الفاظ کے ساتھ آپ پر  سلام کیا گیا ہے ۔

 

17- حلاس بن عمر الراسبی

آپ کوفہ کے رہائشی اور قبیلہ ازو کی شاخ راسب کی یادگار تھے  اصحاب امیر المومنین علیہ السلام میں شمار ہوتے تھے ۔ کوفہ سے عمر سعد کے لشکر  کے ہمراہ آئے تھے اور جب آپ کو یقین ہو گیا کے صلح نہ ہو سکے گی تو شب عاشور امام علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوئے اور جنگ مغلوبہ میں شہید ہوئے ۔

 

18- نعمان بن عمر الراسبی

آپ بھی قبیلہ ازو کے چشم و چراغ تھے آپ حلاس ازدی کے سگے بھائی تھے ۔ لشکر ابن سعد  سے بغاوت کر کے شب عاشور امام علیہ السلام کی بارگاہ میں حاضر ہوئے اور جنگ مغلوبہ میں شہید ہو کر حیات ابدی کے مالک بن گئے ۔

 

19- سوار ابن ابی عمیر الہمدانی

آپ ھمدان کے رہنے والے تھے اور  محرم کے مہینے میں امام علیہ السلام کے پاس پہنچے تھے ۔  اور جنگ مغلوبہ میں شہید ہوئے ۔

 

20- عمار ابن سلامة الدالانی

آپ قبائل ہمدان کی ایک شاخ بنی دالان کے ایک معزز فرد تھے اورآپ کو  صحابی رسول صلی علیہ و آل وسلم  اور صحابی امیر المومنین علیہ السلام ہونے کا شرف حاصل ہے ۔ جنگ جمل ، صفین و نہروان میں حضرت امیر المومنین کے ساتھ رہے ۔ آپ بھی جنگ مغلوبہ میں شہید ہوئے ۔

میدانِ  کربلا میں شہید ھونے والے امام حسین  کے رُفقاء کا مختصر تعارف( قسمت1)

میدانِ  کربلا میں شہید ھونے والے امام حسین عليه السلام کے رُفقاء کا مختصر تعارف

 

1-   حُر بن یزید الریاحی

آپ کا نام گرامی حُر بن یزید بن ناجیہ بن قعنب بن عتاب بن حرمی بن ایاح بن یربوع بن خنظلہ بن مالک بن زید مناۃ ابن تمیم الیرنوعی الریاحی تھا۔ آپ کا شمار کوفے کے روساء میں ہوتا تھا ۔ واقعہ کربلا میں آپ کی امام علیہ السلام سے پہلی ملاقات مقام شراف پر ہوئی تھی جب حُر کا لشکر پانی کی تلاش میں بے حال اور پریشان تھا ۔ امام عالی مقام ساقی کوثر نے لشکر کو سیراب کرنے کا حکم دیا اور اس کے بعد حُر نے نماز امام کی اقتداء میں پڑھی اور بعد از نماز  راستہ روکنے اور محاصرہ کرنےکا عندیہ دیا ۔

امام نے فرمایا کہ حق پر جان دینا ہماری عبادت ہے ۔  راستے میں مقام عذیب  پر طرماح ابن عدی اپنے 4 ساتھیوں سمیت امام سے آ ملے ۔  قصر بنی مقاتل پر مالک بن نصر حکم نامہ حاکم لے کے آیا ، جس میں مرقوم تھا کہ جہاں یہ حکم ملے امام علیہ السلام کو وہیں ٹھہرا دینا  اور اس امر کا خاص خیال رکھا جائے کے آس پاس پانی اور کوئی بھی جزوی انتظام نہ ہو ۔ قصہ مختصر شب عاشور حُر ساری رات پریشان اور متفکر رہے کہ جنت اور دوزخ میں سے کس کا انتخاب کریں ۔ صبحِ عاشور امام کی بارگاہ میں حاظر ہوئے اور اِذن معافی اور اِذن جہاد طلب کیا ، جو مل گیا ۔

امام کے اس غلام نے پچاس دشمنوں کو واصلِ جہنم کیا۔  بالآخر  ایوب ابن مشرح کے تیر سے گھائل ہو کر گھوڑے سے نیچے گرے اور قسور ابن کنانہ کے تیر سے جو آپ کے سینے پر لگا شہید ہو گئے۔

ریاض الشہادة میں روایت ہے کہ بنی اسد نے امام حسین علیہ السلام  سے ایک فرسخ کے فاصلے پر غربی جانب آپ علیہ السلام   کو دفن کیا  اور وہیں آپ علیہ السلام   کا روضہ بنا ہوا ہے ۔

 

2-  علی بن حُر الریاحی

آپ حُر بن یزید الریاحی کے بیٹے تھے ۔ نام علی تھا  حُر علیہ السلام  کی شہادت کے بعد  حُر شہید کے قدموں سے اپنی آنکھوں کو ملایا اور امام علیہ السلام  کی قدم بوسی  کر کے اذن شہادت طلب کیا  اور امام کی غلامی میں شہید ہوئے ۔

 

3-  نعیم بن العجلان الانصاری

آپ قبیلہ خزرج کے چشم و چراخ تھے اور آپ کے 2 بھائی  نضر اور نعمان اصحاب امیر المومنین علیہ السلام میں سے تھے اور آپ واقعہ کربلا میں عاشور کے اولین شُہداء میں شامل ہوئے ۔ یہ وہ جنگ تھی جو صبح عاشور بوقت نماز فجر ہوئی تھی ۔ تاریخ میں جنگ مغلوبہ کے نام سے مشہور ہے ۔

 

4-  عمران بن کعب الاشجعی

آپ کا پورا نام عمران بن کعب ابن حارث الاشجعی تھا ۔ آپ نے امام عالی مقام علیہ السلام کا جس وقت سے ساتھ دیا آخر دم تک اسی پر قائم رہے آپ بھی جنگ مغلوبہ میں شہید ہوئے ۔

 

5-  حنظلہ بن عمر الشیبانی

آپ بھی امام علیہ السلام کے وفاداروں میں تھے اور  جنگ مغلوبہ میں شہید ہوئے ۔

 

6- قاسط بن زہیر التغلبی

جناب امیر المومنین علیہ السلام کے اصحاب میں سے تھے جمل، نہروان، صفین میں جانبازی سے شریک ہوئے تھے اور بہت جری تھے ۔ آپ کوفہ سے امام علیہ السلام  کی نصرت کے لیے آئے تھے  اور صبحِ عاشور جنگ مغلوبہ میں شہید ہوئے ۔

 

7- کردوس بن زہیر التغلبی

آپ کا نام کردوس بن زہیر حرث تغلبی تھا آپ قاسط بن زہیر کے حقیقی بھائی تھے اور امیر المومنین علیہ السلام کے اصحاب میں سے تھے ۔ روایت ہے کہ آپ بھی اپنے تیسرے بھائی مسقط بن زہیر کے ہمراہ امام علیہ السلام   کی نصرت کے لیے شب عاشور کربلا میں وارد ہوئے تھے اور جنگ مغلوبہ میں شہید ہوئے ۔

 

8-  کنانہ بن عتیق التغلبی

آپ کوفہ کے مشہور پہلوانوں میں شمار ہوتے تھے ۔ قراْت قران میں بھی شہرت رکھتے تھے ۔ کربلا  میں جنگ مغلوبہ میں شہید ہوئے ۔

 

9- عمر بن صبیقی الضبعی

آپ کا پورا نام عمر بن صبیقہ بن قیس بن ثعلبة الضبعی تھا۔  ابن سعد کے لشکر کے ہمراہ امام علیہ السلام  سے مقابلے کے لیے کربلا آئے تھے ۔ لیکن صحیح حالات سے با خبر ہونے کے بعد لشکر کو خیر باد کہہ کر امام علیہ السلام کی بارگاہ میں معافی طلب کر کے جنگ مغلوبہ میں امام حسین علیہ السلام کی طرف سے لڑتے ھوئے شہید ہوئے ۔

 

10- ضرغامہ بن مالک التغلبی

آپ کا نام اسحاق اور لقب ضرغامہ تھا ۔ آپ امیرالمومنین علیہ السلام کے جانباز صحابی مالک اشتر کے بیٹے اور ابراہیم بن مالک کے بھائی تھے ۔ کوفہ میں جناب مسلم بن عقیل علیہ السلام  کے ہاتھ پر امام علیہ السلام کی بیعت کر کے کربلا پہنچ کر یوم عاشور 500 درندوں کو واصل جہنم کر کے شہید ہوئے ۔

میدانِ  کربلا میں شہید ھونے والے امام حسین عليه السلام کے رُفقاء کی مکمل فہرست

انصار امام حسين عليه السلام

 

1. حضرت حر ابن یزید الریاحی

2. علی ابن حر الریاحی

3۔ نعیم بن العجلا الانصاری

4۔عمران بن کعب الاشجعی

5۔ حنظلہ ابن عمر الشیبانی

6۔ قاسط بن زہیر التغلبی

7۔ کردوس بن زہیر التغلبی

8۔ کنانہ بن عتیق التغلبی

9۔ عمر بن صبیقی الضبعی

10. ضرغامہ ابن مالک التغلبی

11. غامر بن مسلم العبدی

12. سیف ابن مالک العبدی

13۔ عبد الرحمان الارجبی

14.مجمع بن عبداللہ العامذی

15.حیان بن حارث السلمانی

16۔ عمرو بن عبداللہ الجندعی

17۔ حلاس بن عمر الراسبی

18 ۔ نعمان بن عمرالراسبی

19۔ سوار ابن ابی عمیر الہمدانی

20۔ عمار ابن سلامتہ الدالانی

21۔ زاہر بن عمر الکندی

22۔ جبلہ ابن علی الشیبانی

23. مسعود بن حجاج التیمی

24. حجاح ابن بدر التیمیمی السعدی

25. عبداللہ ابن بشر الخثعمی

26۔ عمار ابن حسان الطائی

27۔عبداللہ ابن عمیر الکلبی

28۔ مسلم ابن کشیر الازدی

29۔ زہیر ابن سیلم الازدی

30. عبد اللہ بن یزید العبدی

31۔ بشر بن عمر الکندی

32 عبداللہ بن عروہ الغفاری

33. بریر ابن خضیر الہمدانی

34. وہب ابن عبداللہ الکلبی

35. ادہم بن امیتہ العبدی

36. امیہ بن سعد الطائی

37.سعد ابن حنظلہ التمیمی

38.عمیر ابن عبداللہ المد حجی

39. مسلم بن عوسجہ الاسدی

40. ہلال ابن نافع البجلی

41. سعید بن عبداللہ الحنفی

42.عبد الرحمن بن عبد المزنی

43. نافع بن ہلال الجملی

44. عمر ابن قرظتہ الانصاری

45. جون بن حوی غلام الغفاری

46. عمر ابن خالد الصیدادی

47. حنظلہ ابن اسعد الشبامی

48.سوید ابن عمار الاتماری

49۔یحیی بن سلیم المازنی

50. قرہ ابن ابی قرتہ الغفاری

51. مالک ان انس المالکی

52.  ذیاد ابن غریب الصائدی

53. عمر بن مطاع الجعفی۔

54. حجاج ابن مسروق المدحجی

55. زہیر ابن قین ابجلی

56. حبیب ابن مظاہر الاسدی

57. ابو ثمامہ عمرو بن عبداللہ الصیدادی

58. انیس بن معقل الاصبحی

59. جابر ان عروۃ الغفاری

60. سالم مولی عامر العبدی

61. جنادہ ابن کعب الخزرجی

62.عمر بن جنادۃ الانصاری

63. جنادہ بن الحرث السلمانی

64. عابس ابن شبیب الشاکری

65. شوذب ابن عبداللہ الہمدانی

66. عبد الرحمان بن عروۃ الغفاری

67.حرث ابن امرو القیس الکندی

68. یزید ابن زیاد الہدلی

69. ابو عمرو النہثلی

70. جندب بن حجیر الخولانی الکندی

71. سلمان بن مضارب الانماری

72.  مالک ابن عبداللہ الجابری

 

شہدائے  بنی ہاشم علیہم السلام   تعداد  18

 

1۔  عبداللہ ابن مسلم

2. محمد ابن مسلم

3.  جعفر ابن عقیل

4.  عبد الرحمان بن عقیل

5.  عبداللہ ابن عقیل

6.  موسی ابن عقیل

7. عون بن عبداللہ بن جعفر طیار

8. محمد ابن عبداللہ بن جعفر طیار

9. عبداللہ الاکبر عرف عمرو بن الحسن ابن علی ابن ابی طالب

10. قاسم بن حسن ابن علی ابن ابی طالب

11. عبداللہ ابن حسن ابن علی ابن ابی طال

12.  عبداللہ بن علی ابن ابی طالب

13. عثمان بن علی ابن ابی طالب

14. جعفر بن علی ابن ابی طالب

15. علمدار کربلا عباس بن علی ابن ابی طالب

16. علی اکبر بن الحسین الشہید ابن علی ابن ابی طالب

17. محمد بن ابی سعید بن عقیل

18. علی اصغر ابن الحسین الشہید ابن علی ابن ابی طالب.

گھر میں بے سکونی کیوں؟

گھر میں بے سکونی کیوں؟

 

آیت اللہ فاطمی نیا نے فرمایا :

ہمارے گھروں میں اختلاف، لڑائی، بداخلاقی، غصہ، ایک دوسرے کا دل توڑنا،وغیرہ کیوں ہوتا ہے اس کی وجوہات کیا ہیں؟

 

بھت سے گھریلو مشکلات کی ایک وجہ یہ ہے کہ ہمارے گھروں میں  فرشتوں کا آنا جانا نھیں رہتا۰ اگر کسی گھر میں فرشتوں کا آنا جانا رہے وہ گھر بھشت رہتا ہے۰

 اب اپنے گھروں میں کیا کیا جائے کہ فرشتے ھمارے گھروں میں رھیں اور کن چیزوں سے پرھیز کیا جائے تاکہ کہیں فرشتے چلے نہ جائیں ؟

 

1-  حدیث کساء کی زیادہ تلاوت کی جائے

2-  کوشش کریں اوّل وقت میں نماز ادا کریں.

3-  نماز قضا نہ کریں اس کا بھت برا اثر ہوتا ہے.

4-  کوئی نجس چیز گھر میں نہ رکھیں سارا گھر پاک رہنا چاہیے.

5- فرشتے جس گھر میں چیخ و پکار یا بلند آواز میں بات کی جاتی ہے اس گھر سے چلے جاتے ہیں.

6-  گھر میں برے الفاظ استعمال نہ کریں۰ گالیوں ،جھوٹ غیبت اور توھین وغیرہ سے پرھیز کیا جائے.

7-   کوشش کریں گھر میں اپنی آنکھوں ، کانوں اور پیٹ کو حرام سے بچائیں.

8- جب گھر میں داخل ہوں تو سلام کریں چاہے گھر میں کوئی بھی موجود نہ ھو.

ریا اور اس  كے نتائج

  ریا  اور اس  كے نتائج

ہرعمل کی قدر و قیمت اس کے سبب کے ساتھ وابستہ ہوتی ہے ، یا دوسرے لفظوں میں اسلام کی نگاہ میں ہر عمل کی بنیاد اس کی  نیت پر ہوتی ہے، وہ بھی  خالص نیت ۔ اسلام ہر چیز سے پہلے نیت کے بارے میں تحقیق کرتا ہے ، لہٰذا ایک مشہور حدیث میں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے آیا ہے۔

انما الاعمال بالنیات و لکل امرء ما نوی

" ہر عمل نیت کے ساتھ وابستہ ہے او ر ہر شخص کا عمل میں حصہ ، اس کی اس نیت کے مطابق ہوگا، جو وہ عمل میں رکھتا تھا "۔ 

اور اسی حدیث کے ذیل میں آیا ہے : 

" جو شخص خد اکے لیے جہاد کرے اس کا اجر خدائے بزرگ و بر تر ہے ۔ اور جو شخص مالِ دنیا کے لیے جنگ کرے، یہاں تک کہ ایک عقال (وہ چھوٹی سی رسّی جس سے اونٹ کے پاوٴں کو باندھتے ہیں  ) لینے کے لیے کرے اس کا حصہ بس وہی ہے ۔ ۱" 

یہ سب اس بناء پر ہے کہ  نیت سے ہی عمل وجود میں آتا ہے ۔ وہ شخص جو خدا کے لیے کوئی کام انجام دیتا ہے ، تو وہ اس کی بنیاد کومحکم کرتا ہے ، اور اس کی تمام کوشش یہ ہوتی ہے کہ لوگ اس سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھائیں ۔ لیکن جو شخص تظاہر اور ریا کاری کے لیے کسی عمل کو انجام دیتا ہے وہ صرف ا س کے ظاہر اور زرق و برق پرنظر رکھتا ہے ، اور وہ اس کی گہرائی و بنیاد اورحاجت مندوں کے استفادے کو کوئی اہمیت نہیں دیتا ۔ 

وہ معاشرہ جو ریا کاری کا عادی ہو جاتا ہے وہ نہ صرف  خدا ، اخلاق حسنہ اور ملکاتِ فاضلہ سے دور کردیا جاتا ہے ، بلکہ اس کے تمام اجتماعی پروگرام مفہوم و مطلب سے خالی ہو جاتے ہیں ،  اور ایسے انسان اور اس قسم کے معاشرے کی سر نوشت کتنی دردناک ہے ؟ ! ۔ 

" ریا " کی مذمت میں بہت زیادہ روایات آئی ہیں ، یہاں تک کہ اس کو شرک کی ایک نوع کہا گیا ہے ، اور ہم یہاں تین ہلادینے والی روایات پر قناعت کرتے ہیں ۔ 

۱۔ ایک حدیث میں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے آیاہے : 

"سیاٴ تی علی الناس زمان تخبث فیہ سرائر ھم ۔ ونحن فیہ علانیتھم، طمعاً فی الدنیا لایدون بہ ما عند ربھم، یکون دینھم ریاء لایخالطھم خوف، یعمعھم اللہ بعقاب فیدعونہ  دعا ء الغریق فلا یستجب لھم! : 

"لوگوں پر ایک ایسا زمانہ آنے والا ہے جب ان کے باطن قبیح ، گندے اور آلودہ ہوجائیں ، اور ان کے ظاہر زیبا اور خوبصورت ہوں گے۔ دنیا میں طمع کی خاطر وہ اس سے اپنے پروردگار کی جزاوٴں کے طلب گار نہیں ہوں گے ۔ ان کا دین ریا ہو جائے گا، خوف خدا ان کے دل میں باقی نہ رہے گا، خد اان سب کو ایک سخت عذاب میں گرفتار کرے گا ، اور وہ جتنا بھی ایک ڈوبنے والے کی طرح خدا کو پکاریں گے ، ہرگز  ان کی دعا قبول نہ ہوگی"۔ ۲

۲۔ ایک دوسری حدیث میں امام جعفر صادق علیہ السلام سے آیا ہے کہ آپ نے اپنے ایک صحابی"زرارہ" سے فرمایا : 

"من عمل للناس کان ثوابہ علی الناس یا زرارہ ! کل ریاء شرک!"۔ 

"جو شخص لوگوں کے لیے عمل کرے گا اس کا اجر و ثواب لوگوں پر ہی ہو گا۔ اے زرارہ ! ہر ریا شرک ہے ۔" 3

۳۔ ایک اور حدیث میں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ آلہ وسلم سے آیاہے :" ان المرائی یدعی یوم القیامة باربعة اسماء یا کافر ! یا فاجر ! غادر ! یا خاسر ! حبط عملک ، و بطل اجرک، فلا خلاص لک الیوم ، فالتمس اجرک ممن کنت تعمل لہ!: 

" ریا کار شخص کو قیامت کے دن چار ناموں سے پکارا جائے گا: اے کافر! اے فاجر ! اے حیلہ گر ! اے خاسر و  زیاں کار ! تیرا عمل نابود ہو گیا ہے ، تیرا اجر و ثواب باطل ہوچکا ہے۔ آج تیرے لیے نجات کی کوئی راہ نہیں ہے ، لہٰذا تو اپنا اجر و ثواب اس سے طلب کر جس کے لیے تو عمل کرتا تھا۔" 4

خد اوندا !  خلوص نیت سخت مشکل کام ہے ، تو خود اس راہ میں ہماری مدد فرما۔ 

پروردگارا ! ہمیں ایسا ایمان مرحمت فر ما کہ ہم تیرے ثواب و عقاب کے علاوہ اور کچھ نہ سوچیں، او رمخلوق کی رضا  و خشنودی اور غصہ و غضب تیری راہ میں ہمارے لیے یکساں ہو۔ 

بار لہٰا ! اس راہ میں جو خطا اور غلطی اب تک ہم نے کی ہے وہ ہمیں بخش دے ۔ 

آمین یا رب العالمین ۔

حوالہ جات:

۱۔وسائل الشیعہ، جلد اول، ص ۳۵ ( ابواب مقدمہٴ العبادات باب ۵ حدیث ۱۰)۔

۲۔ اصول کافی ، جلد ۲ ،باب الریاء، حدیث ۱۴۔

3۔   وسائل الشیعہ ، جلد اول، ص ۴۹، ( حدیث  ۱۱  کے ذیل میں )۔

4۔   وسائل الشیعہ ، جلد اول، ص ۵۱، ( حدیث  ۱۶ کے ذیل میں )۔

___________

سایت رسمی دفتر آیت اللہ مکارم شیرازی۔

اسلام کے غلبہ کی راہیں کیسے ہموار ہوسکتی ہیں؟

ہم مسلمان ہیں ہمارا دین، دین برحق ہے ہمارا رب اللہ ہے، جو قادر مطلق مالک الملک الہ واحد اور ذوالجود والکرم ہے اور ہمارے رسول خاتم النبیین سید المرسلین ہیں، اور ہماری تعلیمات ہر زمانہ میں انصاف امن وسلامتی کی ضامن ہیں، اسی کو حق ہے کہ وہ دنیا پر قیادت و سیاست کرے، مگر ہم نے اس کی قدر نہ کی ذلت ومسکنت کے شکار ہوئے، اب ہمیں کرامت اور غلبہ کیسے دوبارہ ہوسکتا ہے، اس پر غور کرنے کی ضرورت ہے، تو آئیے ہم اسی پر روشنی ڈالتے ہیں۔

(۱)        سب سے پہلے ہمارے لیے ضروری ہے کہ ہم اپنے ایمان میں رسوخ پیدا کریں کیوں کہ قرآن کا اعلان ہے( وانتم الاعلون ان کنتم موٴمنین)۔(آل عمران:۱۳۹) تم ہی سر بلند رہو گے اگر موٴمن رہو۔ موٴمن کس کو کہتے ہیں؟ دل وجان سے اسلام کو تسلیم کر کے، اس پر عمل کرنے اور اس پر سب کچھ قربان کردینے کا نام ہے ایمان اور موٴمن ہونا۔

(۲)       کتاب اللہ اور سنت رسول (صلی اللہ علیہ و آله وسلم)(يعنى اهل بيت پیغمبر عليهم السلام) کو ہر حالت میں ہم مضبوطی کے ساتھ تھام لیں، یعنی ہمارا ہر قول اور ہر عمل قرآن وسنت کے منشاء کے مطابق ہوجائے، حدیث میں ہے (ان تمسکتم بہما لن تضلوا بعدی ابدا).

(۳)      تقویٰ، یعنی ہرحالت میں اللہ سے ڈرنے لگ جائیں، اور ہر طرح کے منکر اور حرام سے مکمل اجتناب کریں، اور ہر فرض وسنت کو اپنی زندگی کا لازمی جز بنائیں۔

(۴)      اسلا می تعلیمات کوخوب عام کریں، اور یقین رکھیں کہ کامیابی اسی پر عمل کرنے میں ہے نہ کہ کسی اور چیز میں۔

(۵)      دعا کا التزام کریں، اپنے لیے پوری امت کے لیے، رو رو کر اللہ کے دربار میں دعائیں کریں، خاص طور پر یہ دعا کریں کہ اللہ امت کو منافقین کے شر سے نجات دے اور بچائے اور اسلام پر ثابت قدم رکھے۔

(۶)       غفلت سے بیدار ہو، اور دشمنوں کے مکر وفریب سے اور ان کے سازشوں سے واقف ہوں اور اس سے بچنے کی تدابیر کریں، اللہم اجعل کیدہم فی تضلیل۔

(۷)      اس وقت سب سے بڑی ضرورت اسلامی تعلیمات سے واقف ہونا ہے، لہٰذا اس جانب توجہ دیں، تا کہ حلال حرام کی تمیز ہو سکے، علماء سے اپنے مسائل میں رجوع کریں، اور اپنے بچوں کی اسلامی تربیت کی فکر کریں۔

اللہ ہماری ہر طرح کے شر سے حفاظت کرے اور ہر طاعت کے کرنے کی توفیق دے اور پوری امت کو اسلام سے وابستہ کردے۔آمین یا رب العالمین!

Alarbaeen

اربعين حسينى

اقبال کی شاعری میں کربلا اور امام حسینؑ

اقبال کی شاعری میں کربلا اور امام حسینؑ

تحرير: نا معلوم

   نواسہ رسول امام حسینؑ کی لازوال قربانی اور کربلاکا حق و  باطل کا معرکہ تاریخ انسانی کا وہ ناقابل فراموش واقعہ ہے جسے کوئی بھی صاحب شعور انسان نظرانداز نہیں کرسکتا بعض اہل علم کے مطابق شعر اور شاعر کا لفظ بھی شعور سے مشتق ہوا ہے لہذا جو جتنا باشعور ہوگا اس کے اشعار میں اتنی ہی گہرائی اور وسعت ہوگی شاعر مشرق علامہ اقبال بھی عصرحاضر کے وہ عظیم شاعر ہیں جن کی شاعری عقل و شعور اور بلندی افکار و تخیل سے مزین ہے لہذا یہ ناممکن ہے کہ علامہ اقبال جیسی حساس شخصیت واقعہ کربلا کو نظرانداز کر ے

یوں بھی شاعر حسینیت قیصربار ہوئی کے بقول:

وہ مشرقی پکار ہو یا مغربی صدا

مظلومیت کے ساز پہ دونوں ہیں ہم نوا

محور بنا ہے ایک جنوب و شمال کا

تفریق رنگ و نسل پہ غالب ہے کربلا

تسکین روح، سایہ آہ و بکا میں ہے

ہر صاحب شعور کا دل کربلا میں ہے

شاعر کسی خیال کا ہو یا کوئی ادیب

واعظ کسی دیار کا ہو یا کوئی خطیب

تاریخ تولتا ہے جہاں کوئی خوش نصیب

اس طرح بات کرتا ہے احساس کا نقیب

دیکھو تو سلسلہ ادب مشرقین کا

دنیا کی ہر زبان پہ ہے قبضہ حسین کا

علامہ اقبال کی اردو اور فارسی شاعری میں امام حسینؑ اور کربلا ایک ایسا استعارہ ہے جو ظلم و ستم کے خلاف استقامت اور اسلام کے حقیقی رہبر کی نشاندہی کرتا ہے۔ وہ کربلا اور امام عالی مقام کو حق و وحدت کا دبستان اور حق و باطل کا میزان قرار دیتے ہیں ان کی حق شناس آنکھ کربلا کے واقعہ کو ایک تاریخی واقعہ کے طور پر نہیں دیکھتی بلکہ وہ امام حسینؑ کی صدا کے احتجاج اور ان کی لازوال قربانی کو اسلام کی بقا اور حیات قرار دیتے ہیں۔

آپ بال جبرئیل میں اپنے عقیدے کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں؛

غریب و سادہ و رنگین ہے داستان حرم

نہایت اس کی حسینؑ ابتدا ہے اسماعیل

بعض اقبال شناسوں کے مطابق علامہ اقبال نے خدا کی رضا و اجازت کے بغیر ایک ہی لفظ زبان پر نہ لانے والے پیغمبر گرامی حضرت محمدؐکی اس معروف حدیث کی تشریح کی ہے جس میں آپ نے ارشاد فرمایا تھا "حسین منی و انا من الحسین" "یعنی حسین مجھ سے ہے اور میں حسین سے ہوں"

اس حدیث کے سامنے آنے کے بعد بیت سے لوگوں نے یہ سوال اٹھایا تھا کہ رسول خدا کی ذات سے امام حسینؑ کا وجود تو ممکن ہے کیونکہ وہ آپ کے نواسے ہیں لیکن رسول خدا کا امام حسین سے ہونا کیامعنى رکھتا ہے

اس حدیث کی تفسیر میں آیا ہے کہ چونکہ رسول آخر زمان حضرت اسماعیل کی اولاد میں سے ہیں اور اگر حضرت اسماعیلؑ، حضرت ابراہیمؑ کے ہاتھوں قربان ہوجاتے تو رسول اکرم کا وجود مبارک بھی نہ ہوتا۔جب اللہ تعالی نے  حضرت اسماعیل کی قربانی کو ذبح عظیم کے بدلے ایک دنبے کی قربانی میں تبدیل کردیا تو جس ذبح عظیم کا ذکر آیا وہ امام حسینؑ کی قربانی ہے لہذا امام حسینؑ نے حضرت اسماعیل کی جگہ پر اپنی قربانی پیش کی اور یوں حضرت اسماعیل قربانی ہونے سے محفوظ رہے اور آپ کی نسل رسول خدا تک پہنچی۔ علامہ اقبال ایک اور مقام پر اسی موضوع کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتے ہیں:

آں امام عاشقاں پوربتولؑ                          سرو آزادی زبستان رسولؐ

اللہ اللہ بای بسم اللہ پدر                             معنی ذبح عظیم آمد پسر

اقبال ایک اور مقام پر امام حسینؑ کو مخاطب کرکے کہتے ہیں :

"سر ابراہیم و اسماعیل بود                      یعنی آن اجمال را تفصیل بود"

علامہ اقبال معرکہ کربلا کو حق و باطل کا ایک بے مثل واقعہ قراردیتے ہوئے کہتے ہیں:

"حقیقت ابدی ہے مقام شبیری           بدلتےرہتے ہیں انداز کوفی و شامی"

گویا اقبال کی نظر میں امام حسینؑ حق و صداقت کا وہ میزان ہیں جو ہر دور میں حق و باطل کی کسوٹی ہیں تاریخ میں ملتا ہے کہ جب یزید نے مدینہ منورہ کے والی ولید اور مروان کے ذریعے امام حسینؑ سے بیعت کا مطالبہ کیا تو آپ نے ایک ایسا جملہ ارشاد فرمایا جو حریت پسندی کے لیے ہمیشہ نصب العین بنارہے گا آپ نے فرمایا تھا :"مجھ جیسا یزید جیسے کی بیعت نہیں کرسکتا"

علامہ اقبال نے اسی مفہوم کو ایک اور شعر میں یوں اداکیا ہے

موسی و فرعون و شبیر و یزید         این دو قوت از حیات آمد پدید

علامہ اقبال واقعہ کربلا کو اسلام کی بقا کا ضامن قرار دیتے ہیں اور بے ساختہ بول اٹھتے ہیں

زندہ حق از قوت شبیری است          باطل آخر داغ حسرت میری است

علامہ اقبال امام حسینؑ کو ظلم و استبداد کے خلاف ایک مثالی کردار بناکر پیش کرتے ہوئے کہتے ہیں:

بر زمین کربلا بارید و رفت                     لاله در ویرانه ها بارید و رفت

تا قیامت قطع استبداد کرد                        موج خون او چنین ایجاد کرد

رمز قران از حسین آموختم                      ز آتش او شعله ها اندوختم

علامہ اقبال واقعہ کربلا اور امام حسینؑ کی شخصیت کو اسلامی اور انسانی بیداری کا لازوال کردار گردانتے ہیں"رموز بیخودی" میں کہتے ہیں:

عزم او چون کوہساران استوار         پایدار و تند سیرو کامکار

آگے چل کر مزید کہتے ہیں:

خون او تفسیر این اسرار کرد           ملت خوابیده را بیدار کرد

نقش الا الله بر صحرا نوشت                     عنوان نجات ما نوشت

علامہ اقبال سیدالشہداء کی ذات میں گم ہوکر کہہ اٹھتے ہیں:

بهر حق در خاک و خون گردیده است                بس بناء لا اله گردیده است

حکیم الامت  علامہ اقبال جہاں واقعہ کربلا کے حماسی اور انقلابی پہلو کو انتہائی خوبصورت انداز میں بیان کرتے ہیں وہاں کربلا کے لق و دق صحرا میں نواسہ رسول کی مظلومیت آپ کو بے تاب کردیتی ہے۔ آپ غم و اندوہ سے کہتے ہیں:

دشمنان چو ریگ صحرا لاتعد          دوستان او به یزدان هم عدد

غم حسینؑ میں اپنے گریے اور آہ و زاری کی طرف اشارے کرتے ہوئے کہتے ہیں

رونے والا ہوں شہید کربلا کے غم میں              کیا در مقصد نہ دیں گے ساقی کوثر مجھے

http://www.tvshia.com/ur/content/

🌿عزاداري اور آغا ماشا الله🌻

🌿عزادارى اور آغا ماشا الله🌻

تحرير: نامعلوم

🌿ایران کے شھر، کرمان کے ایک علاقے میں ایک ستر سالہ شخص آغا ماشااللہ کی داستان جس نے حالت بیداری میں امام حسین علیہ السلام کا دیدار کیا اور آپ (ع) سے شفا پائی 🌿🌻🌿

🍃🍁آغا ماشااللہ کے بارے میں مشھور ہے کہ وہ اول محرم سے اٹھارہ محرم تک اپنے گھر میں طرح طرح کے کھانوں سے عزاداروں کی پذیرائی کرتے ہیں.

جب آغا ماشااللہ سے معلوم کیا گیا کہ آپ کہاں سے اتنے بڑے پیمانے عزاداروں کی پذیرائی کا انتظام کرتے ہیں؟ تو آغا ماشااللہ نے اپنی داستان اسطرح بیان کی......

🍃جوانی میں مجھے حصبہ جیسی مہلک بیماری نے اپنی لپیٹ میں لے لیا ، مجھے ایران کے بڑے بڑے شھروں میں علاج کے لیے لے جایا گیا، لیکن کوی فائدہ نہیں ہوا اور میری بیماری بڑھتی گی.

ڈاکٹروں نے کہہ دیا کہ اب علاج کا کوی فائدہ نہیں بلکہ جو بھی اس کے نزدیک آیا وہ بھی اس بیماری میں مبتلا ہو جاے گا. یہ کچھ دن کا مہمان ہے آپ اسے گھر لے جا یں اور اسے جو چیز بھی کھانے کا دل چاہے وہ دیں.

ماں مجھے گھر لے آئیں اور صحن میں چار پای پر لٹا دیا  - میری ماں کے پاس ہمیشہ ایک سیاہ رومال ہوتا تھا وہ جب امام حسین علیہ السلام پر گریہ کرتیں تو اس رومال سے اپنے آنسو پونچھتیں. میں نے اپنی ماں کو بچپن سے صرف امام حسین علیہ السلام پر گریہ کرتے دیکھا تھا. وہ کبھی اپنی مشکلات پر نہیں روتیں تھیں. اس روز بھی میری ماں کا دل بھرا ہوا تھا، سب نے ہمارا ساتھ چھوڑ دیا تھا، ڈاکٹروں نے بھی جواب دے دیا تھا، انہوں نے مجھے چارپای پر لٹایا اپنا رومال نکالا اور اسے صحن میں بنے حوض کے پانی سے دھونا شروع کیا....

ساتھ ہی رو رو کے کہتی جارہی تھیں : اے میرے مولا !  محرم میں صرف دو دن رہ گئے ہیں، مجھے آپ کی عزاداری کرنی ہے آپ میرے بچے کو یا تو اچھا کردیں کہ وہ خود اپنے ہاتھوں سے آپ کے عزاداروں کی خدمت کرے، یا اسے اپنے ساتھ لے جایں، ایسا نہ ہو کہ !  میں اسکی تیمارداری میں لگی رہوں اور آپ کی فرش عزا نہ بچھا سکوں. میری ماں روٹی جارہی تھی اور آہیں بھرتی جارہی تھی.

ماں کی بےقراری دیکھ کر میں بھی منقلب ہوگیا،  میں نے بھی رونا شروع کیا اور آواز دی،  اے میرے مظلوم امام،  کہاں ہیں آپ جو ہماری فریاد رسی کریں. آپ کی فرش عزا بچھانی ہے مجھے ٹھیک کردیئے، میرا آپ سے وعدہ ہے اگر میں صحت یاب ہوگیا تو یکم محرم سے روز عاشورہ تک آپ کے عزاداروں کے لیئے کھانے کا انتظام کروں گا. آپ کے کسی بھی عزادار کو بھوکا پیاسا نہیں جانے دوں گا.

حالانکہ میں جانتا تھا کہ اسوقت ہمارے پاس کچھہ بھی نہیں، جتنا پیسہ اور جو کچھ بھی تھا سب میری بیماری پر خرچ ہو چکا تھا.

میری ماں جب تھوڑی بھتر ہوی تو حوض کے کنارے سے اٹھی اور مجھے لے جاکر نیچے سرداب میں لٹا دیا، میری دونوں ٹانگیں فلج ہوچکی تھیں.

آدھی رات کے قریب اچانک تیز روشنی سے میری آنکھ کھل گئ، میں نے کسی کو سرداب کی سیڑھیوں سے نیچے آتے دیکھا. اس آنے والے کے وجود سے پورے سرداب میں روشنی پھیل گئ، 🌅 وہ میرے پاس آکر بیٹھ گئے اور میرے چہرے اور سر پر انتہای محبت سے ہاتھ پھیرنا شروع کیا، میں نے خوفزدہ ہوکر کہا : آپ کون ہیں؟  خدا کے لیئے میرے قریب نہ آئیں؛ میری بیماری آپ کو لگ جاے گی. آنے والے نے کہا آغا ماشااللہ تمہاری بیماری سے ہمیں کوی نقصان نہیں پہنچے گا. اٹھو محرم نزدیک ہے تمہیں عزاداری کا اہتمام نہیں کرنا؟ میں نے کہا : میں تو اپنی جگہ سے ہل بھی نہیں سکتا. آنے والے نے کہا : یا حسین کہو اور اٹھو؛  میں نے یا حسین کہا آور اپنی جگہ سے اٹھنے کی کوشش کی، دیکھا میرے پاوں حرکت میں آگئے ہیں. اور میں اٹھ کر کھڑا ہو گیا ہوں. میں سمجھ گیا کہ یہ میرے آقا حسین ہیں. 😭 میں انکے پیروں پر گر گیا پھر انکے گرد گھومنا شروع کیا،  میں روتا جاتا تھا اور کہتا جاتا تھا : کہ اے میرے مظلوم امام،  ماشااللہ آپ کے قربان! آپ مجھ گناہکار کے گھر تشریف لاے، آقا کیسے آپ کی میزبانی کروں!  میں اسی طرح امام (ع)کے گرد گھومتا جارہا تھا اور روتا جارہا تھا - کہ امام نے فرمایا : آغا ماشااللہ تمہیں اپنا وعدہ یاد ہے... تم نے کہا تھا کہ ٹھیک ہو گیئے تو دس دن تک میرے عزاداروں کو کھانا کھلاوگے.؟

میں نے کہا : ہاں آقا یاد ہے. یہ سن کر امام نے فرمایا  : تم دس دن نہیں بلکہ اٹھارہ دن عزاداری کا اہتمام کرنا، میں نے کہا آقا میں آپ کے قربان،  اٹھارہ دن،؟ امام (ع )نے جواب میں فرمایا : میری فاطمہ زھرا کی عمر کے مطابق اٹھارہ دن عزاداری کرنا. یہ آٹھ دن میری ماں کے لیے عزاداری کرنا،. اچانک میں نے دیکھا کہ امام وہاں نہیں ہیں.

کرمان میں سب کو میرے شفا یاب ہونے کی اطلاع مل چکی تھی. لوگ جوق در جوق مجھ سے ملنےآرہے تھے.

محرم سے ایک دن پہلے، میں اس فکر میں تھا کہ کل پہلی محرم ہے، اٹھارہ دن عزاداروں کے لیے کھانے کا انتظام کیسے کیا جاے؟ اچانک دروازے پر کھٹکا ہوا، میں نے دروازہ کھولا، دیکھا، ایک پک اپ چاول کی بوریوں سے بھری دروازے پر کھڑی ہے. آنے والے شخص نے کہا کہ : ہمارے صاحب نے یہ چاول بھیجے ہیں اور کہا ہے کہ جب تک تمہارے گھر میں عزاداری ہوتی رہے گی،  نذر کے لیے چاول میری طرف سے ہونگے. ھرگز پریشان نہ ہونا. 🍃🍀

🌹 سالوں گزر گئے ہیں ہر سال محرم سے پہلے لوگ میرے گھر میں ضرورت کا سامان پہنچا دیتے ہیں.

نذر کا سامان آنا شروع ہوجاتا ہے. گوشت، چاول،  تیل، دہی، حتی دیگیں، چولہے، میں ان تمام سامان بھیجنے والوں کو ہرگز نہیں جانتا، میں صرف عزاداروں کی پذیرای کرتا ہوں. 🍁🌷

آغا ماشااللہ نے ایک اور واقعہ بیان کرتے ہوے کہا کہ : جس سال مجھے شفا ہوی ہے . تیسری محرم تھی، میں بےحد تھکا ہوا تھا. سوچا تھوڑی دیر آرام کرلوں پھر صحن میں سے صفائی شروع کروں گا، یہ کام میں خود انجام دیتا تھا. ( ایران میں جن لوگوں کے ہاں بڑے صحن ہوتے ہیں، یا گلی کے کونے پر شامیانہ اور سیاہ پرچم لگا کر امام بارگاہ بناے جاتے ہیں. )))

آغا ماشااللہ کا کہنا ہے کہ میں وہیں صحن میں تخت پر لیٹ گیا، میں نے دیکھا، وہی نورانی چہرے والے آغا تشریف لاے ہیں اور فرماتے ہیں : ماشااللہ کیا تمہارے گھر میں عزاداری نہیں، اٹھو..... اور صحن کی صفای شروع کرو ؛ ماشااللہ کا کہنا ہے کہ اسکے بعد انہوں نے جھاڑو اٹھای اور صحن سے لگانی شروع کی.؛ یہ دیکھ کر میں لرز گیا،  ایک دم اٹھا اور دوڑ کر امام کے قدموں پر گر پڑا اور کہا : مولا یہ کیا کرتے ہیں اے فرزند رسول مجھے شرمندہ نہ کیجئے.

آغا ماشااللہ کا کہنا ہے کہ : امام نے فرمایا : ماشااللہ، میں اپنی ماں زھرا پر رونے کے لیئے آنے والوں کے لئیے خود فرش عزا کو صاف کرنا چاہتا ہوں. 😢😢😔آخر میں آغا ماشااللہ نے کہا کہ : شھزادی فاطمہ زھرا کے لیے جتنی بار فرش عزا بچھای جاے کم ہے. افسوس کہ ہم صرف بی بی کی شھادت کے ایام میں ہی ان کی مجالس کرتے ہیں. ہمیں اپنی مظلوم بی بی کے ذکر کو اور ان پر گزرنے والے واقعات کو زندہ رکھنا چاہیے.

😭😭😭😭😭😭😭😭

امام حسين عليه السلام كى كربلا ميں زيارت كے دنيوى و اخروى فوائد

امام حسين عليه السلام كى كربلا ميں زيارت كے دنيوى و اخروى فوائد

تحریر: سید غیور الحسنین

 

   زيارت امام حسين عليه السلام كو روايات ميں بهت اهميت دي گئى هے اور اس كے بهت زياده دنيوى اور اخروى فوائد ذكر كيے گئے هيں.يه فوائد ايك جگه ذكر نهيں هوئے لهذا ان فوائد كو روايات سے استقراء كركے آپ كى خدمت ميں بيان كيا جا رها هے.

 

دنيوى فوائد:

1- رزق ميں اضافه هوتا هے.

2- عمر طولانى هوتى هے.

3- انسان زندگى ميں فقر و فاقه سے محفوظ رهتا هے.

4- انسان پرمستقبل ميں آنے والى پريشانياں دفع هوتى هيں.

 

اخروى فوائد:

1- زيارت كے ايام زائر امام حسين(ع) كى زندگى ميں شمار نهيں هوں گے.

2-زيارت امام حسين (ع) عرش پر الله كى زيارت كے برابر هے.

3- زيارت امام حسين (ع) الله كى راه ميں هزار غلام آزاد كرنے كےمانند هے.

4- زيارت امام حسين (ع) راه خدا ميں جهاد كے ليے ايك هزارگهو‎‎ڑے دينے كے برابر هے.

5- امام حسين (ع) كى زيارت سے 200حج و عمره (جو صحيح اور مقبول هوں) كا ثواب ملتا هے.

6- زائر امام حسين(ع) كے گذشته گناه معاف هو جاتے هيں.

7- اگر زائر عيد فطر يا عيد قربان كى رات  يا 15 شعبان كى رات امام حسين(ع) كى قبر مطهر كى زيارت كرے تو اس كے گذشته اور آئنده كے گناه بهى معاف هو جاتے هيں.

8- اگر كوئى شخص عاشور كے دن امام حسين(ع) كى كربلا ميں زيارت كرے بهشت اس پر واجب هو جاتى هے.

 

حواله:

مناقب اهل بيت، (فارسى)، تحرير: سيد محمد نجفى  يزدى، كوثر كوير، قم، 1392، ج2، ص290-298 .   

 

 

امام سجاد عليه السلام